Powered By Blogger

Thursday 31 October 2013

ویمن کرائسز سینٹرز کے قیام کا اصولی فیصلہ

لاء سوسائٹی پاکستان نے کراچی ڈسٹرکٹ ملیر اور ڈسٹرکٹ ویسٹ میں جدید سہولیات سے آراستہ "ویمن کرائسز سینٹرز" کے قیام کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے ویمن کرائسز سینٹرز کے زریعے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی دی جائے گی اور اہم موضوعات پر خواتین کی دلچسپی کے مطابق ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے مختصر کتابیں اور دیگر لٹریچر بھی شائع کیا جائے گا نکاح نامے پر ایک مکمل کتاب شائع کی جائے گی جس کا مقصد نکاح نامے کی اہمیت پر روشنی ڈالنا ہے  اور ان  شرائط اور حقوق کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کیا جائے گا  جو کہ خواتین کے لیئے بہت اہمیت رکھتی ہیں لیکن دوران نکاح ان تمام شرائط کو کاٹ دیا جاتا ہے جن کا تعلق خواتین کے حقوق سے ہوتا ہے
پہلے مرحلے میں دو ویمن کرائسز سینٹر قائم کیئے جارہے ہیں ویمن کرائسز سینٹرز کے قیام کیلئے معاونت پاکستان کے ایک معروف صنعتی ادارے اور ایک انٹرنیشنل لیبارٹری اور ٹریننگ سینٹر نے فراہم کی ہے
ویمن کرائسز سینٹر ہمارا پرانا خواب تھا جو انشاءاللہ 10 دسمبر 2013 کو شرمندہ تعبیر ہوگا

گل گئے گلشن گئے دھتورے رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برٹش ہمیں ایک اچھا عدالتی ڈھانچہ دے کر گئے تھے احتساب کا نظام سخت تھا اس زمانے میں بھی کیس مینیجمنٹ کا وہ نظام موجود تھا جس کی جدید شکل کو ہماری عدلیہ نے مسترد کرکے اپنے آپ ہی کو کرپشن کی خود ہی اجازت دی ہے جج کو اختیار تھا کہ وہ اپنے اسٹاف کی کرپشن کے خلاف نوٹس لے سکے اور ان کو ملازمت سے برخاست کرسکے ایک اہم اخلاقی روایت یہ بھی موجود تھی کہ اگر باپ کو جسٹس بنایا گیا تو بیٹا جا کر دوسرے صوبے میں پریکٹس کرتا تھا کیونکہ اخلاقیات اور ضابطے اجازت نہیں دیتے تھے کہ بیٹا باپ کے سامنے کیس کیس میں پیش ہوسکے
جسٹس بنتے ہی لاء فرم بند کردی جاتی تھی یہ واقعی بند ہوتی تھی تھی آج کل کی طرح ڈھکوسلہ نہیں ہوتا تھا اور سابقہ لاء فرم کے جونئیر ان کے سامنے کیس بھی نہیں چلا سکتے 
تھے
گل گئے گلشن گئے۔۔۔۔۔دھتورے رہ گئے
بدقسمتی سے قواعد و ضوابط تبدیل کرکے بیٹے کو  باپ کے سامنے پیش ہونے کی  اجازت دی گئی مزید بدقسمتی یہ کہ دسرے صوبے میں جاکر پریکٹس کرنے کی بجائے اپنے ہی صوبے میں پریکٹس کی اجازت دے کر ایک نیا منفی رجحان متعارف کروایا گیا
بدقسمتی سے ہم جہاں دیگر شعبوں میں کمزور ہوئے وہیں اخلاق کے میدان میں بھی ہمیں مسائل کا سامنا ہے

انصاف کرنا کافی نہیں ہوتا انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا ضروری ہے

:تحریر صفی الدین اعوان

Wednesday 30 October 2013

بار اور بینچ دونوں استحصالی طبقہ ہیں ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے ایک عام وکیل ایک عام جج اور پاکستان کے عام شہری کے حق کی انہیں کوئی پروا نہیں :تحریر صفی الدین اعوان


ایک جج کے پاس بے شمار صوابدیدی اختیارات ہوتے ہیں جن کا استعمال ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہا ہے جدید کیس منیجمنٹ صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کو روکتا ہے جدید کیس منیجمنٹ کی بنیاد صدیوں پرانے اصولوں پر مبنی ہے کوئی نیا اصول شامل نہیں کیا گیا
دنیا میں کہیں بھی کیس منیجمنٹ کی بنیاد پر عدلیہ کی آزادی خطرے میں نہیں پڑی    کیس منیجمنٹ کے زریعے نہایت ہی آسانی سے  ججز کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں شفافیت لائی جاسکتی ہے
پاکستان کے عدالتی نظام نے آج سے چند سال پہلے جس  نظام کو سختی سے مسترد کیا تھا اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے یہ تفصیل اس پورے نظام کا خلاصہ ہے  لیکن مکمل نظام بے تحاشاخوبیوں کا حامل ہے
ہایئکورٹ کے ایک  جسٹس کو صرف انتظامی اختیارات دینے تھے   ممبر انسپکشن ٹیم (ایم آئی ٹی )کو انتظامی اختیار کے حامل جسٹس کے ماتحت رہ کر کام کرنا تھا
سب آرڈینیٹ کورٹس کے ججز  جوبھی ججمنٹ دیں گے اس کی ایک کاپی ایم آئی ٹی کو بھجوانی لازمی ہوگی اگر ججمنٹ میں کوئی ابہام ہوگا تو فوری جواب دینا ہوگا جج کی اہلیت اور نااہلی کا اندازہ ججمنٹ سے ہوجاتا ہے اگر ججمنٹ میں ابہام ہونگے   اور کمزوریاں ہونگی تو ان کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے چھ ماہ کا ٹائم دیا جائے گا اور جوڈیشل اکیڈیمی میں اس کو تربیت دی جائے گی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائےگی   جن کی نشاندہی ایم آئی ٹی نے کی ہوگی چھ ماہ کے بعد  جج کو دوبارہ موقع دیا جائے گا کہ وہ  اپنی اہلیت کو ثابت کرے اگر مزید چھ ماہ بھی وہ اپنی کمزوریاں دور نہیں کرپاتا تو اس کو گھر بھیج دیا جائے گا
اگر ججمنٹ مشکوک ہوگا تو اس پر بھی بحث ہوگی جواب طلبی ہوگی اور اگر مطمئن نہ کرپایا تو یہی سمجھا جائے گا کہ رشوت لی گئی
ہایئکورٹ میں عدالتی فیصلے کی اپیل  کی سماعت کے  دوران  اگر مس کنڈکٹ سامنے آئے گا تو جسٹس صاحبان اپنے کمنٹس دیں گے ان کمنٹس کی بنیاد پر  کاروائی ہوگی
جب ایم آئی ٹی عدالتوں میں جاکر ریکارڈ جاکر چیک کرے گی تو دیکھا جائے گا کہ کیس کیوں تاخیر کا شکار ہورہا ہے کہیں جان بوجھ کر تو نہیں کیا جارہا
ججز کے پروموشن اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہونگے  اور اسی بنیاد پر ڈسمس کیا جائے گا اس طرح ڈسمس کیا جائے گا کہ وہ وکالت بھی نہیں کرپائے گا
ضمانت کے معاملات بھی اسی طریقے سے مشاہدے میں لائے جائیں گے
یہ آج سے نہیں صدیوں پرانا طریقہ کار ہے  سارا احتساب انٹرنل ہے  کہیں بھی بیرونی مداخلت
 نہیں ہے کہیں بھی عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہورہی ہاں اپنے دوستوں بیٹوں ،بھانجوں ،بھتیجوں اوربار کے عہدیداران کو نوازنا ممکن نہیں ہوگا انتظامی اختیارات رکھنے والا جسٹس کورٹ  میں کیسز کی سماعت نہیں کرے گا نہ ہی وہ زیادہ عرصہ انتظامی جج رہے گا لوگ بدلتے رہیں گے تاکہ انتظامی اختیارات کا حامل جج  بھی رشوت نہ لے سکے اس لیئے ایک سال بعد نیا جسٹس یہ عہدہ سنبھال لے گا  ایم آئی ٹی ہر جج کی رپورٹ جسٹس کو دینے کا پابند ہوگا جو تبدیل نہیں ہوگی ججز کے خلاف شکایت کا فورم الگ  ہوگا ان کے خلاف شکایت ثبوت کے ساتھ درج ہوگی بغیر ثبوت کے شکایت درج نہیں ہوگی برطانیہ میں جج کے خلاف شکایت درج ہونے سے پہلے  تک پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی لیکن شکایت داخل ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے کیونکہ  شکایت درج ہونے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ثبوت موجود تھے ثبوت نہ ہوں تو شکایت درج ہی نہیں ہوتی مزے کی بات دیکھیں کہ برطانیہ میں ان  اقدامات سے عدلیہ کی آزادی پر حرف نہیں آتا
برٹش ہرصورت میں سب آرڈینیٹ کورٹس کے معاملات صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ  سب آرڈینیٹ کورٹس سے ہی کریم ابھر کر سامنے آتی ہے یہ عمل ایک سال میں نہیں ہوتا ایک زمانہ چاہیئے  وقت کے ساتھ ساتھ اچھے لوگ عدلیہ کا حصہ بنتے ہیں
جدید کیس منیجمنٹ کی روشنی میں رشوت لینے کی کہاں گنجائش بنتی ہے بار کے صدر کی فیس ویلیو کی گنجائش کہاں رہتی ہے کسی بھی جج کے خلاف شکایت نہیں بھی درج کی جائے تو سسٹم  خود احتساب کرتا ہے کسی بھی جج کے خلاف شکایت درج کروانے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے
جب یہ پروپوزل پیش کیا گیا تھا تو   ماضی  کے اس وقت کے ریٹائرڈجسٹس صاحبان   کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس صاحبان نے اس کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا تھا  وفاقی وزیرقانون کو ایجنٹ تک قرار دے گیا  خراج تحسین کے مستحق ہیں اس وقت کے صوبہ بلوچستان کے چیف جسٹس ،کے پی کے کے چیف جسٹس جنہوں نے عدلیہ کو بار اور بنچ کے چنگل سے بچانے کی ناکام کوشش کی تھی
نوجوان وکلاء اور سب آرڈینیٹ کورٹس کے ایماندار ججز کو یاد رکھنا چاہیئے  وہ لوگ جو بار کے الیکشن میں کروڑوں روپیہ لگا دیتے ہیں اور   بینچ جو جان بوجھ کر فرسودہ عدالتی نظام کو تحفظ دے رہے ہیں  کیونکہ اس فرسودہ نظام کی بقاء میں ہی ان کی بقاء اور ان کے دوستوں ،بیٹوں،بھانجوں ،بھتیجوں اور بار کے اہم عہدیداران کے مفاد ات صرف فرسودہ نظام سے ہی وابستہ ہے


بار اور بینچ دونوں استحصالی طبقہ ہیں ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے ایک عام وکیل ایک عام جج اور پاکستان کے عام شہری کے حق کی انہیں کوئی پروا نہیں

جدید تفتیش

اگر ہم اس حقیقت پر غور کریں کہ 1552ء سے تمام ترقی یافتہ قوموں نے نہ صرف جائے وقوع کو محفوظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے بلکہ موت کی وجوہات کے تعین اور اس میں ملوث ملزموں کی گرفتاری کیلئے جدید ترین فورینزک طریقے ایجاد کرنے پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں تو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت کے دھوئے جانے کو سیدھے سادھے لفظوں میں گناہ کبیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ بے نظیر کے قتل کی وجوہات پردہ اسرارمیں ہیں
 میڈیا سے منسلک افراد نےایک تفصیلی ریسرچ کی جس سے معلوم ہوا کہ جائے وقوع کو محفوظ کرنے اور شواہد جمع کرنے کو اہمیت دیتے ہوئے مختلف یورپی افواج کے میڈیکل پریکٹیشنرز نے 16 ویں صدی میں موت کی وجوہات جاننے کیلئے معلومات جمع کرانا شروع کیں۔ یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے راولپنڈی میں بی بی کی جائے شہادت کے دھوئے جانے پر نہ صرف بہت سے شدید اعتراض کئے بلکہ جائے وقوع کیساتھ ہونے والے برے سلوک اور وہاں سے شواہد اکٹھے کرنے کیلئے پنجاب پولیس کے طریقہ کار کے پس پردہ ممکنہ وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ 460 سال قبل معروف فرانسیسی آرمی سرجن Ambroise Pare نے ایک پر تشدد موت کے اندرونی اعضا پر اثرات کا مطالعہ کرکے فورینزک سٹڈی کا باضابطہ آغاز کیا تھا۔ 18 ویں صدی کے آخر تک پورے یورپ میں اس بات پر زور دیا جانے لگا کہ فوجداری تفتیش میں منطق اور طریقہ کار استعمال کیا جائے۔ پھر دو اطالوی سرجنز Fortunato Fidelis اور Paolo Zacchia نے جدید پتھالوجی کی بنیاد رکھی۔ 1780ء سے ان موضوعات پر تحریریں پرنٹ ہونے لگیں اور فورینزک سائنسدانوں اور طلبا کی توجہ حاصل کرنے لگے۔ 1876ء میں ایک سویڈش کیمیا دان Carl Wilhelm Scheele نے لاشوں میں آرسینک زہر کی موجودگی کا پتہ چلانے کے طریقے ایجاد کئے۔ 1784ء میں انگلینڈ میں ایک شخص کو پستول سے دوسرے شخص کو قتل کرنے پر سزا دی گئی۔ جب مقتول کے جسم کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مقتول کے سر کے زخم سے ملنے والا ڈاٹ اسی پھٹے ہوئے اخباری کاغذ کا بنا ہوا تھا جو قاتل کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔ 1806ء میں ایک جرمن کیمیا دان Valentin Ross نے متاثرہ شخص کے معدے کی دیواروں میں آرسینک زہر کی موجودگی معلوم کرنے کے طریقے ایجاد کئے اور 1836 میں ایک انگریزی کیمیا دان James Marsh نے قتل کیس میں اس بات کی تصدیق کیلئے کہ آرسینک موت کی وجہ ہے کیمیائی طریقہ استعمال کیا۔ 1816ء میں انگلینڈ میں ایک زرعی مزدور کیخلاف ایک خاتون ملازمہ کے قتل کے الزام میں کارروائی کی گئی۔ خاتون کو کم گہرے تالاب میں ڈبویا گیا اور انکے جسم پر شدید حملوں کے نشانات تھے۔ پولیس کو تالاب کے قریب قدموں کے اور گیلی زمین پر کارڈرائے کپڑے کے نشانات نظر آئے۔ وہاں پر گندم اور بھوسہ بھی پڑا تھا۔ نزدیک ہی گندم تھریشر کرنے میں مصروف زرعی مزدور کے جانگیے کا معائنہ کیا تو وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے نشانات تالاب کے قریب موجود تھے۔ 20 ویں صدی میں بہت سے برطانوی پتھالوجسٹس نے برطانیہ میں فورینزک سائنس کے نئے طریقے ایجاد کئے جن سے اس وقت کے تفتیش کاروں کو سہولت ہوئی۔ 1909ء میں یورپ میں فورینزک سائنس کا پہلا اسکول قائم ہوا جس میں حیاتیاتی شواہد‘ نشانات‘ فنگر پرنٹس‘ جوتوں کے نشانات‘ گولیوں کے نشانات‘ آتشیں اسلحہ اور مختلف اوزاروں کے نشانات کے معائنے اور ان کا تقابل کرنے کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ شماریاتی فورینزک کو اہمیت دی جانے لگی جس میں فورینزک معائنے میں مدد کیلئے اعدادو شمار اور سافٹ ویئر تیار کئے جاتے ہیں۔ پھر ڈیجیٹل فورینزک میدان میں آگئی جس سے مخبروں کو بڑی مدد ملی۔ اس میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے ڈیٹا حاصل کرنے کیلئے ثابت شدہ سائنسی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں پر معاملات رک نہیں گئے بلکہ فورینزک اینتھراپالوجی نے قتل کی اندھی وارداتوں کے سراغ میں اپنی اہمیت ثابت کی۔ اس میں انسانی ڈھانچے کی شناخت کیلئے فزیکل اینتھراپالوجی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ فورینزک ڈی این اے تجزیے کی ایجاد فورینزک ریسرچ میں ایک تاریخی کامیابی ہے۔ فورینزک اینٹامالوجی انسانی باقیات کے آس پاس موجود حشرات الارض کے تجزیے سے متعلق ہے جس میں موت کے وقت اور جگہ کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ فورینزک جیالوجی زمین‘ معدنیات اور پٹرولیم کے شواہد سے متعلق ہے۔ سائنس کی ترقی کیساتھ ساتھ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے فورینزک پتھالوجی کے میدان کو کھنگال ڈالا۔ اس میں قانونی انکوائری کیلئے موت یا زخم کی وجوہات کا تعین کرنے کیلئے میڈیسن اور پتھالوجی کے اصولوں کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ فورینزک ویڈیو تجزیے بھی ایجاد ہوئے جس میں جائے وقوع کے ویڈیو مناظر کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان کا تقابل کیا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں لیکن انتہائی اہم بات یہ ہے کہ شیشہ‘ رنگ‘ دھاگوں اور بالوں کے تجزیے اور تقابل کیلئے نشانات شواہد کے تجزیے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

لیکن پاکستان میں بہت کم تفتیش کیلیئے جدید طریقے استعمال کیئے جاتے ہیں

پاکستان میں کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےمعصوم شہریوں کو زہنی اذیت دینے کا جو سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے اس کا نام "ماتحت عدلیہ" ہے :تحریر صفی الدین اعوان

 اعلی عدلیہ کی غفلت کی وجہ سے  اور پاکستان میں  کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےمعصوم شہریوں کو زہنی اذیت دینے کا جو سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے اس کا نام "ماتحت عدلیہ" ہے یعنی ڈسٹرکٹ کورٹس جہاں پاکستان کے کروڑوں شہری  کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےاس ٹارچر سیل میں اذیت سے گزارے جاتے ہیں اس ٹارچر سیل میں گزشتہ دنوں ایک ایسے واقعے کی مکمل تفصیلات ملی ہیں جو یہاں کے معمولات میں شامل ہے
واقعہ یہ تھا کہ آج سے چند ماہ قبل ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں موجود تھا تو ایک دوسال پرانے 506-بی کے کیس میں 4 ملزمان پیش ہوئے ایف آئی آر لیاقت آباد تھانے میں رجسٹر تھی ایک وکیل صاحب جج سے الجھ رہے تھے معلوم ہوا کہ 2 ملزمان کا وکیل کہہ رہا ہے کہ ان کے ملزمان کو 249 –اے کے تحت "باعزت" بری نہ کیا جائے میں نے ایسی کوئی درخواست کورٹ کو نہیں دی دوسرے ملزمان کے وکیل نے دی ہے ان ملزمان کو کورٹ چاہے توباعزت بری کردے ہم تو کیس چلانا چاہتے ہیں میرے ملزمان کو باعزت بری نہ کیا جائے مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ آپ کورٹ کواس طرح کی کوئی ہدایت نہیں دے سکتے یہ کورٹ کا استحقاق ہے کہ وہ باعزت بری کردے یا ٹرائل چلائے مجھے حیرت ہوئی کہ وکیل صفائی یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ ملزمان کو "باعزت بری " نہ کیا جائے اس کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے ملزم کو بے گناہ ثابت کرکے ان کو باعزت بری کروادے
مختصر یہ کہ ایک طویل بحث کے بعد طے پایا کہ ٹرائل چلے گا- اور پھرمزید تین مہنیے ٹرائل چلا گواہان مختلف پیشیوں پر حاضر ہوئے اور ان کی گواہی ریکارڈ ہوئی آج تین ماہ بعد اسی کورٹ میں اس کیس کی فائل ملاحظہ کی تو عجیب سے انکشافات ہوئے


2011

میں ایک جھوٹا مقدمہ 4 شہریوں کے خلاف تھانہ لیاقت آباد کراچی ضلع وسطی (سینٹرل) میں درج ہوا جان سے ماردینے کی
 دھمکی کا پولیس نے تفتیش کرنے کے بعد رپورٹ داخل کی کہ مقدمہ جھوٹا ہے گواہان کے بیان میں مکمل تضاد ہے یہ پولیس رپورٹ اس مجسٹریٹ صاحبہ کے سامنے پیش ہوئی جس کا عدلیہ میں بحثیت مجسٹریٹ 15 سال کا تجربہ ہے کراچی کا ڈسٹرکٹ سینٹرل مجسٹریٹ صاحبہ نے کہا چالان داخل کریں تفتیشی افسر نے پولیس رپورٹ کو چالان میں اس طرح تبدیل کیا " پولیس کی تفتیش کے مطابق مقدمہ تو جھوٹا ہے لیکن مجسٹریٹ صاحبہ کے حکم پر اس پولیس رپورٹ کوزبردستی چالان میں تبدیل کیا جارہا ہے" 2011 میں ہی اس پر انتظامی حکم جاری ہوا ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری سیشن جج سے کروائی اور پولیس رپورٹ ہی کی روشنی میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی گئی
اس دوران مقدمہ 2013 میں دوسری عدالت میں منتقل ہوا- ملزمان کو عدالت میں دھکے کھاتے ہوئے دوسال گزرچکے تھے مجسٹریٹ نے زور دیا کہ کیس چلاؤ کیس کیا چلنا تھا مقدمے میں کچھ ہوتا تو چلتا اس دوران دوملزمان کے وکیل نے بریت کی درخواست دی تو دیگر دوملزمان کے وکیل نے بریت کی درخواست سے اظہار لاتعلقی کردیا اب ایک نئی صورتحال نے جنم لیا عدالت کے سامنے وکیل صفائی کہہ رہا ہے کہ ملزمان کو باعزت بری مت کریں ٹرائل کریں- گواہان کے بیان ہوئے تو سب کے بیانات میں مکمل تضاد تھا مکمل تضاد جس کی تفصیلات کیلئے ایک الگ صفحہ درکار ہے جس کے بعد تمام زمہ داران کیلئے شاید جوتوں کی سزا بھی کم ہو
وکیل صفائی نے جب دوبارہ دیکھا کہ ملزمان باعزت بری ہونے والے ہیں تو کورٹ پر اس بنیاد پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا کہ ایک گواہ مواد ہتھیلی پر لکھ کر لایا تھا اورکورٹ میں شہادت ریکارڈ کروانے کے دوران بار بار ہتھیلی سے پڑھ کر گواہی ریکارڈ کروا رہا تھا لیکن عدالت نے اس کو ایسا کرنے سے نہیں روکا اس لیئے مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے تحریری درخواست کورٹ میں پیش کی گئی جس پر دیگر دوملزمان کے وکیل نے لکھ کر دیا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا
ملزمان نے بھی کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو باعزت بری کردیا بزریعہ ایک تفصیلی ججمنٹ لیکن ایک اہم راز جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ دوملزمان کا وکیل جو بریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا تھا وہ 6000 ہزار روپیہ ماہانہ ایک ملزم سے فیس وصول کررہا تھا اور جب اس وکیل صاحب نے کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو اس دوران یہ بات سامنے آئی اور عدم اعتماد بھی کس بات پر کہ کورٹ ملزمان کو باعزت بری کرکے کیس ختم کرنا چاہتی ہے
اس پورے واقعے میں عبرت کے بے شمار پہلو ہیں پہلی مجرمانہ غلطی تو15 سالہ تجربہ کار مجسٹریٹ سے ہوئی جس نے شواہد نہ ہونے کے باوجود پولیس کی اس رپورٹ کے باوجود کہ مقدمہ جھوٹا ہے زبردستی تفتیشی افسر کو چالان پیش کرنے کا حکم دیا کوئی ادارہ ہے جو اس مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لے؟ سیشن جج نے بھی عبوری ضمانت کے دوران مجسٹریٹ کے خلاف کاروائی نہ کی اور صرف ملزمان کی ضمانت منظور کرنے پر ہی اکتفا کیا کیوں؟ کیا وہ عقل نہیں رکھتا تھا کیا وہ چارج شیٹ پڑھنا جانتا؟ پاکستان میں کوئی ادارہ ہے جو اس سیشن جج سے پوچھے؟ کریمنل جسٹس سسٹم تو ایک سوشیالوجی ہے اور جج کسی شہری کو ریلیف دینے کیلئے ضابطوں کا محتاج نہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قیدی نے ماضی میں جیل سے سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھ کر عدلیہ سے فریاد کی تو عدلیہ نے اس کو سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھی تحریر کو پٹیشن میں تبدیل کرکے اس کی مدد کی
 دو ملزمان کے وکیل نے بریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں کیا کوئی ادارہ ہے جو اس پر ایکشن لے؟
یہ سب کیا ہے کیا پاکستان کے شہر کراچی کےوہ چار معصوم اور بے گناہ شہری جن کو پہلے عدلیہ اور بعد میں اپنے ہی وکلاء کی وجہ سے پورے دوسال زہنی ازیت سے گزرنا پڑا اس کا کوئی علاج کسی کے پاس ہے  دوران ٹرائل ایک شہری کس ازیت سے گزرتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کسی بھی شہری کی زندگی میں پیش آنے والا صرف ایک ہی مقدمہ اس کو زہنی، مالی اور جسمانی لحاظ سے توڑ پھوڑ کررکھ دیتا ہے اور اس زہنی ازیت کا ازالہ عمر بھر نہیں ہوپاتا  رزق اور روزی دینے والی زات اللہ تبارک تعالی کی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو باعزت رزق عطا فرمائے
مجموعی طور پر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماتحت عدلیہ ایک ٹارچر سیل بن چکی ہے ایک ایسا ٹارچر سیل جہاں پاکستان کے شہریوں کو ہر ممکن طریقے سے زہنی طورپر ٹارچر کیا جاتا ہے ماتحت عدلیہ کو زہنی ازیت گاہ بنانے کی زمہ داری سپریم کورٹ، ہایئکورٹ، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور ڈسٹرکٹ بارز پر بھی عائد ہوتی ہے یہ تمام ادارے زمہ دار ہیں کسی نے بھی اپنی زمہ داری پوری نہیں کی پاکستان کے معصوم شہری تو اس آزاد عدلیہ کو تلاش کرکرکے تھک گئے ہیں جس کا شور پوری دنیا میں مچایا جارہا ہے  پیشہ وکالت کہاں کھڑا ہے وکلاء کہاں کھڑے ہیں چاہے چند ہی ہیں لیکن وہ چند وکلاء ایسا کیوں کررہے ہیں یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں- ہمیں آپ کو سب کو اس پر سوچنا ہوگا ایسے واقعات کو چھپانے سے پردہ ڈالنے سے صرف ہم اپنے اس مرض کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جو دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور شاید اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب اس کا علاج بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی کوئی واقعہ ہے یہ کچھ بھی نہیں اس سے بڑے واقعات ہورہے ہیں ایسے تبصروں کو ہم حادثے سے بھی بڑا حادثہ سمجھتے ہیں
لیکن اس پورے حادثے میں امید کا ایک پہلو وہ مجسٹریٹ ہے جس نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی زہنی ازیت کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو باعزت بری کردیا
اس طرح کی بے شمار مثالیں سامنے آرہی ہیں جس میں نوجوان مجسٹرٰیٹ شہریوں کو زہنی ازیت سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں
جدید کیس مینیجمنٹ کا نظام جو دنیا بھر میں رائج ہے اس  کے زریعے اس قسم کے مسائل حل کیئے جاسکتے ہیں
بدقسمتی سے جب پاکستان میں  ماضی میں اس نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو ہماری اعلی عدلیہ نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی صر ف خیبر پختونخواہ اور بلوچستان نے کیس منیجمنٹ سسٹم کی حمایت کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آزاد عدلیہ کے بعض دعوے داروں نے تو اس کو عدلیہ کی خود ساختہ آزادی پر حملہ قرار دیا تھا


:تحریر صفی الدین اعوان

Tuesday 29 October 2013

عدلیہ بحالی کے بعد عوام کی مایوسی کا ازالہ کون کرے گا۔۔۔خواجہ محمد احمد صمدانی مرحوم کا خدشہ درست ثابت ہوا

  
ارشاد احمد عارف
فوجی حکمران صدر ضیاء الحق نے میٹنگ میں پہلے تو وفاقی سیکرٹریوں کو نااہل اور کام چوری کا طعنہ دیا اور پھر دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہہ دیا ”اپنی حرکتوں
سے باز نہ آئے تو میں تم لوگوں کی پتلونیں اتروا کر الٹا لٹکا دوں گا“ معاً ایک دبلے پتلے، پستہ قد نسبتاً نوجوان وفاقی سیکرٹری قانون نے جھرجھری لی، کھڑا ہوا اور بولا ”ہاں مگر کچھ جرنیلوں کی پتلونیں اتار کر الٹا لٹکانا بھی ضروری ہے، کیونکہ انہوں نے بھی ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے“ ضیاء الحق خاموش ہو گئے، محفل پر سناٹا چھا گیا اور سینئر بیورو کریٹس ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، یہ وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس صمدانی تھے، خواجہ محمد احمد صمدانی، میٹنگ ختم ہوئی ضیاء الحق نے جسٹس صمدانی کو کمرے میں بلایا اور اس تلخ نوائی پر گلہ کیا، یہ بھی کہا کہ وہ معذرت کریں مگر صمدانی صاحب کا جواب تھا ”آپ میٹنگ دوبارہ بلائیں، سب کے سامنے اپنے الفاظ واپس لیں میں بھی اپنے کہے پر معذرت کر لوں گا بصورت دیگر میں اپنے موقف پر سختی سے قائم ہوں‘ آمر مطلق لاجواب ہو گیا“ یہ جسٹس صمدانی ہی تھے جنہوں نے 1977ء میں جبکہ مارشل لا اپنی تمام تر سخت گیری کے ساتھ نافذ تھا نواب محمد احمد خاں کیس میں مرکزی کردار ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت منظور کر لی جبکہ بھٹو اور ضیاء کے مابین تلخی کا آغاز ہو چکا تھا اور ضمانت منظور کرنا مارشل لا کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی کتاب REMINISCENCE   میں جسٹس صمدانی نے یہ دونوں واقعات درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اول الذکر واقعہ کے بعد میں کئی ماہ تک وفاقی سیکرٹری قانون کے منصب پر کام کرتا رہا مگر جنرل ضیاء یا مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے مجھے کبھی ہراساں نہ کیا گیا، کوئی انتقامی کارروائی عمل میں نہ آئی جبکہ 1987ء میں جب میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدارتی امیدوار تھا تو ایک نامور وکیل نے اپنے پیپلز پارٹی سے وابستہ وکیلوں کے گروپ کی طرف سے اس بناء پر تعاون اور حمایت کی یقین دہانی کرائی کہ میں نے بطور جج بھٹو صاحب کی ضمانت لی تھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ فیصلہ میں نے آئین اور قانون کی روشنی میں میرٹ پر کیا تھا، لہٰذا وہ میری حمایت صرف اہلیت و صلاحیت کی بناء پر کریں، بھٹو کی ضمانت منظور کرنے کے عوض نہیں مگر وکیل صاحب کو میرا جواب پسند نہ آیا تاہم یہ الیکشن میں نے بھاری اکثریت سے جیتا۔ یہ جسٹس صمدانی تھے جنہیں فیلڈ مارشل ایوب خان کی والدہ محترمہ کا ایک سفارشی رقعہ موصول ہوا تو انہوں نے رقعہ لانے والے کے سامنے لفافہ کھولے بغیر آتش دان میں پھینک دیا اور باور کرایا کہ بطور ایڈیشنل جج ہائی کورٹ وہ نہ تو کسی کی سفارش مانتے ہیں اور نہ دباؤ قبول کرتے ہیں۔ ربوہ واقعہ کی انکوائری رپورٹ میں بھی انہوں نے وہ سب کچھ بلا کم و کاست بیان کیا جو جائے وقوعہ پر پیش آیا تھا، اس بناء پر انہیں مذہبی حلقوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ کب ایسی باتوں کی پروا کیا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود کر لیا تھا، وہ نہ تو بھٹو کی ضمانت والے واقعہ کی تشہیر اور نہ ضیاء الحق کے سامنے کلمہ حق کہنے کا بار بار ذکر کرتے بلکہ دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کے بیان میں توازن و اعتدال برقرار رکھتے، کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشستوں میں وہ اپنی زندگی کے تجربات بیان کرتے اور مختلف قومی و بین الاقوامی موضوعات پر رائے دیتے تو ان کی دانش و بصیرت ژرف نگاہیں اور معاملہ فہمی کے جوہر کھلتے اور ان کی پرمغز گفتگو ہم متبدیوں کے لئے چشم کشا، سبق آموز اور بصیرت افروز ہوتی۔ وہ قومی کردار میں جھول اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے کردار سازی پر توجہ نہ دینے کی پالیسی پر ہمیشہ دل گرفتہ اور ملول نظر آتے اور اسے نمبر ون قومی مسئلہ قرار دیتے۔ اس ضمن میں وہ بے رحم مسیحا کی آرزو کرتے جو جمہوری لبادے میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کو ختم کرکے پاکستان کو اصل راستے پر ڈال سکے ورنہ یہ منافقت ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ ضعف کی بناء پر کچھ عرصہ سے انہوں نے سی این اے میں آنا ترک کر دیا تھا۔ اپنے بچوں سے ملنے امریکہ چلے جاتے یا بونیر کا چکر لگا آتے جہاں قادر نگر میں ان کے پیر و مرشد قبلہ عبید اللہ درانی  کی قائم کردہ درگاہ ہے۔ تصوف اور روحانیت سے انہیں عمر بھر لگاؤ رہا وہ قادر نگر ٹرسٹ کے قانونی مشیر تھے اور انہوں نے قادر نگر میں اپنی تدفین کا اہتمام کر رکھا تھا۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دنوں میں وہ اس بات پر ہمیشہ متفکر اور پریشان نظر آئے کہ قوم نے اعلیٰ عدلیہ سے غیر ضروری اور غیر معمولی توقعات وابستہ کر لی ہیں، وکلاء قیادت جذباتی نعروں سے عوام کی توقعات بڑھا رہی ہے جبکہ قومی زوال میں دیگر اداروں کے ساتھ عدلیہ کا بھی حصہ ہے اور عدلیہ بحالی کے بعد عوام کی مایوسی کا ازالہ کون کرے گا۔ وہ سول سروس آف پاکستان سے جوڈیشری کا حصہ بننے والے ججوں کو طبقہ وکلاء سے جج بننے والوں کے مقابلے میں زیادہ باصلاحیت، ویژنری اور معاملہ فہم قرار دیتے تھے، مستشنیات البتہ ہر جگہ ہوتی ہیں۔جسٹس کارنیلس سے وہ متاثر تھے اور اپنا رہنما مانتے، ججوں کی خود نمائی اور میڈیا کی سرخیوں میں نمایاں ہونے والے عدالتی ریمارکس کو وہ آئین و قانون اور عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم قرار دیتے تھے، ”جج کو نہیں فیصلوں کو بولنا چاہئے، یہی عدالت کا وقار اور اعتبار ہے“ موجودہ عدلیہ میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل، دیانتدار اور انصاف پسند جج موجود ہے، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی، جسٹس صمدانی کی صرف قابلیت اور دیانتداری مسلمہ نہ تھی نمود و نمائش سے گریز، سادگی اور صلہ و ستائش سے بے نیازی ان کا خاص وصف تھا اور شہرت سے پرہیز نے انہیں دریشوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔ آٹھ دس روز قبل انہوں نے اہلیہ سے فرمائش کی کہ مجھے قادر نگر (بونیر) لے چلو، زیادہ دن شائد میں زندہ نہ رہوں، چاہتا ہوں اپنی آنکھوں سے قادر نگر کے گلی کوچوں کا نظارہ کر سکوں اور مرنے کے بعد مجھے لے جانے کی زحمت آپ لوگوں کو اٹھانی پڑے، گزشتہ روز اطلاع ملی کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جہاں انہیں قبلہ عبید اللہ درانی کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر اپنے پیر و مرشد کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار وہ ان الفاظ میں کیا کرتے تھے من خاک کف پائے سگ کوئے تو ستم (میں آپ کے کوچے کے کتے کے پاؤں کی خاک ہوں، یہی میرا اعزاز ہے) اسے آپ غلو سمجھیں یا فنا فی الشیخ مرید کی عقیدت و محبت کا انداز مگر صمدانی صاحب کے جذبات یہی تھے۔ پیر و مرشد سے عشق نے انہیں قادر نگر میں آسودہ خاک کیا ہے  گر عشق نہ بودے بہ خدا کس نہ رسیدے حسن ازلی پردہ زرخ بر نہ کشیدے 

ایک قابل احترام مجسٹریٹ کا شکوہ

کل ایک انتہائی قابل احترام مجسٹریٹ نے  ایک ایسی بات کی جس سے مجھے نہایت ہی شرمندگی  اور افسوس ہوا ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ  اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیتے ہیں  کئی بار آزمائش کے وہ لمحات بھی آئے جو ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ہمیشہ سرخرو کیا اور ان کا ضمیر ہر لحاظ سے مطمئن ہے
لیکن وکالت کا معیار دن بہ دن گر رہاہے اور وکلاء کا رویہ دن بہ دن  تلخ ہو رہا ہے  ان میں نزاکت ختم ہوتی چلی جارہی ہے پورادن انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اچھا وکیل آئے  اور اچھے دلائل دے لوگ محنت نہیں کرتے قانونی مسائل پیچیدہ ہوتے ہیں  جن کو حل کرنے کیلئے وکلاء کی محنت کی ضرورت بھی ہوتی ہے ایک اچھے عدالتی فیصلے کے پیچھے ایک وکیل کی بھی محنت ہوتی ہے اس وقت کراچی میں اکثریت  مجسٹریٹوں کی ایسی ہے جو نوجوان ہیں میرٹ پر آئے ہیں  اور وہ اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیتے ہیں اکثریت مجسٹریٹ حضرات کی ایسی ہے جو ذہین ترین ہیں اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں
لیکن کسی بھی سطح پر ان کو خراج تحسین پیش نہیں کیا جاتا۔جن معاملات کا تعلق اسٹاف سے ہوتا ہے اس کا ذمہ دار بھی مجسٹریٹ کو ہی ٹہرایا جاتا ہے اکثر اسٹاف بااثر ہے جن کو بااثر وکلاء کی حمایت حاصل رہتی ہے
بے شمار مسائل اور وکلاء کے تلخ رویئے کے ساتھ دن بدن ہمیں اپنے فرائض سرانجام دینے میں مشکل پیش آرہی ہے
تمام تر ایمانداری کے باوجود بار سے منسلک افراد  ایک بار سخت زیادتی کرچکے ہیں  ہم کہاں جائیں بہت سے بااثروکلاء جن کا تعلق بار سے ہوتا ہے  اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں  سسٹم کی خرابی کا نشانہ عوام اور عام شہری بنتے ہیں   

Sunday 27 October 2013

شہری حقوق کے تحفظ کیلئے سول سوسائٹی وکلا بار اسہوسی ایشنز اور عدلیہ کا کردار :تحریر صفی الدین اعوان

لاء سوسائٹی پاکستان کا ایک بنیادی مطالبہ ہے "غیر قانونی حراست کا مکمل خاتمہ" ہم اپنے گروپ کے ساتھ مل کر 2010 میں مجسٹریٹ آن ڈیوٹی کا نوٹیفیکیشن سندھ ہائی کورٹ سے کروا چکے ہیں جس کے تحت اتوار اور دیگر تعطیلات کے دوران ہر ضلع میں ایک مجسٹریٹ بمعہ اپنے اسٹاف کے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ایمرجنسی نوعیت کے احکامات جاری کرتا ہے قابل ضمانت جرائم میں ضمانت کے احکامات جاری کرتا ہے
بدقسمتی سے ضابطہ فوجداری میں گنجائیش موجود نہ تھی لیکن پاکستان کے بہت سے شہروں خصوصاً کراچی میں یہ گنجائیش پیدا کردی گئی ہے کہ غیر قانونی حراست سے متعلق " حبس بے جا" کی درخواست صرف کورٹ کی ٹائمنگ میں دی جاسکتی ہے جس کے زریعے کورٹ کا بیلف تھانے،کسی مکان یا حراستی مرکز میں جاکر ریکارڈ چیک کرسکتا ہے کہ متعلقہ شخص کو ملکی قوانین کے تحت زیرحراست رکھا گیا ہے اور گرفتاری کے وقت آئین پاکستان اور پولیس رولز یا دیگر ضوابط کے تحت وہ تمام قانونی تقاضے پورے کیئے گئے ہیں یا نہیں جس کے بعد کورٹ پولیس افسران یا دیگر اداروں کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے
میرا زاتی مشاہدہ ہے کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں میں آج بھی سیشن جج کے گھر جاکر یہ درخواست دی جاسکتی ہے جس پر کاروائی ہوتی ہے
بڑے شہروں میں "حبس بے جا" کی درخواست  صرف کورٹ کی ٹائمنگ میں دی جاسکتی ہے
2005 میں کراچی کے ضلع شرقی میں آن لائن کورٹس کا تجربہ کامیاب رہا تھا جس کے تحت کوئی بھی شہری اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف بزریعہ ای میل سیشن جج سے رابطہ کرسکتا تھا مزید یہ کہ دن گیارہ بجے وہ اس قسم کی درخواست ڈسٹرکٹ جج کو براہ راست بھی دے سکتا تھا اس نظام کا فائدہ یہ بھی تھا کہ سیشن جج دنیا کے کسی بھی کونے سے غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے بیلف مقرر کرسکتا تھا اور یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ضلع شرقی کے سیشن جج نے امریکہ سے بزریعہ ای میل قانونی ضابطہ پورا کرتے ہوئے بیلف مقرر کیا جس نے رات دوبجے جاکر غیر قانونی حراست کا خاتمہ کیا
گزشتہ دنوں اینٹٰی کنٹرول وائلنس سیل (اے وی سی سی) کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پانچ افراد کو اس سیل نے 20دن سے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا ہوا تھا جن کو مجسٹریٹ نے جا کر رہا کیا
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ اکیسویں صدی میں اتنا بڑا ظلم جدید ٹیکنالوجی کے دور میں سوشل میڈیا کے دور میں پولیس کی خفیہ ایجنسی کتنی دیدہ دلیری سے شہریوں کو اغوا کرکے اپنے ٹارچر سیل میں بند کررہی ہے
اے وی سی سی وہ جدید ترین ادارہ ہے جو پاتال سے ملزم ڈھونڈ کر نکال سکتا ہے اور ان کے پاس تفتیش اور ملزمان کا سراغ لگانے کا ایسا جدید ترین نظام ہے جس کے زریعے جدید ٹیکنالوجی کے زریعے شاطر سے شاطر ملزم قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکتا یہاں تک کہ ملزم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اگر "اے وی سی سی" پکڑنا چاہے تو وہ بچ نہیں سکتا
اگر آپ کو کبھی اے وی سی سی کا دورہ کرنے کا موقع ملاتو جدید ٹیکنالوجی کے زریعے جرم کا سراغ لگانے کا طریقہ کار دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے گی کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کتنی ترقی کرچکی ہے
اگر اے وی سی سی مؤثر کنٹرول کے تحت کام کرے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیئےایک بہت بڑا اثاثہ ہے
اگرچہ پاکستان میں پنجاب پولیس کی "مخصوص" شہرت ہے لیکن ہم یہ بات ذمہ داری سے کہتے ہیں کہ کراچی کی پولیس کے شعبہ تفتیش میں ایسے ایسے قابل پولیس افسران موجود ہیں جو کسی بھی طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسران سے کم نہیں لیکن صرف سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ناکام ہوتے ہیں
اب ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ پولیس کا محکمہ اسقدر آزاد ہو کہ کوئی سیاسی شخصیت ان کی کارکردگی پر اثرانداز نہ ہوسکے صرف عدلیہ ان کو اختیارات کے غلط استعمال سے روکے لیکن ایسا کرنے کیلئے عدلیہ کو ایسا مؤثر نظام دینا ہوگا جس کے تحت وہ 24 گھنٹے پولیس کو اختیارات کے غلط استعمال سے روک سکیں
جب سے  عدالتی معاملات افراتفری کا شکار ہوئے خصوصاً عدالتی بائیکاٹ اور کورٹ کی آئے دن کی ہڑتالوں کے بعد وکلاء اور سول سوسائٹی کی "ڈیمانڈ" سائڈ شہری حقوق کے حوالے سے کمزور ہوئی تو اے وی سی سی جیسے جدید ترین ادارے اور پولیس کے دیگر خفیہ اداروں  میں ایک نیا کام شروع ہوا اور وہ یہ تھا کہ اغواء برائے تاوان کا سلسلہ پولیس اور اس کے خفیہ ادارے شہریوں کو اغوا کرتے ہیں اور تاوان لیکر رہا کرتے ہیں
صرف اے وی سی سی ہی نہیں پولیس کی کئی برانچیں اس کام میں ملوث ہیں طالبان کے حملوں کو جواز بنا کر عدالتی بیلف یا مجسٹریٹ کو پولیس کی خفیہ برانچوں داخلے سے روکا جانا، ریکارڈ چیک کرنے کی اجازت نہ دینا اور عدالتی بیلف سے شناخت طلب کرکے چھاپوں سے روکنا ریکارڈ کا حصہ ہے
کراچی میں پولیس کی خفیہ برانچوں کے کرتا دھرتا کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملزمان کو عدالتوں نے تو ویسے بھی چھوڑ دینا ہے کیوں نہ ہم چھوڑ دیں لیکن چھوڑیں گے رشوت لیکر، اب یہ الزام تو پرانا اورفرسودہ ہوچکا کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتی ہے
کافی معاملات میں ہم عدلیہ کو زیربحث لاتے ہیں لیکن سب سے اہم کردار وکلاء کا ہی ہے ہماری ڈیمانڈ سائڈ کتنی کمزور ہے ہم میں سے کتنے وکلاء ایسے معاملات کو زیربحث لاتے ہیں ہماری جانب سے مطالبات پیش نہیں کیئے جاتے ہیں ہمارے پاس کوئی ایسا چارٹر آف ڈیمانڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ہم عدلیہ کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرسکتے ہیں
صرف کراچی میں کتنے دن ہوگئے دو اضلاع میں سیشن جج موجود ہی نہیں اور سیشن کورٹس کی عدالتوں میں ایک عجیب وغریب قسم کی افراتفری جاری ہے تو کتنے وکلاء ہیں جنہوں نے آواز بلند کی ہے
اور ہم جو آواز بلند کرتے ہیں اور کررہے ہیں وہ آسان نہیں اس کی ایک بھاری قیمت ہم نے ادا کی ہے کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن جہاں ہماری ذات نشانہ ہوگی وہ ہم برداشت کررہے ہیں کرتے رہیں گے خاموشی سے برداشت کریں گےلیکن جہاں شہری حقوق متاثر ہونگے وہاں خاموشی ممکن نہیں
عدلیہ کا وقار اہمیت رکھتا ہے لیکن شہریوں کے حقوق بہت اہمیت کے حامل ہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے مقابلے میں عدالتی وقار کوئی اہمیت نہیں رکھتا
عدالتی وقار کا بھرم شہریوں کے حقوق سے قائم ہے اگر شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اگر عدلیہ اپنی حدود میں رہنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی ضامن بن جائے تو اس سے بڑا وقار عدلیہ کیلئے کوئی ہونہیں سکتا اور جس عدالتی حدود میں عدلیہ اپنے شہریوں کے حقوق عزت اور آبرو کی  حفاظت نہ کرسکے ان کو انصاف نہ دے سکے تو عدلیہ کا وقار تو خود بخود ختم ہوجاتا ہے
پاکستان کے موجودہ نازک  حالات میں سیشن جج کا عہدہ ایک  اہم ترین عہدہ بن چکا ہے یہی ایک اہم شخصیت ہوتی ہے  جو شہریوں کےبنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے جب شہری حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو کہیں خودکش بمبار جنم لیتے ہیں کہیں جرائم پیشہ گینگ  اپنی الگ ریاست بناکر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں کہیں علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں کہیں ایسے جرائم پیشہ گروپس جنم لیتے ہیں جو اپنی غربت کا زمہ دار معاشرے کے مختلف طبقات کو ٹہرا کر معاشرے سے ہی انتقام لینا شروع کردیتے ہیں صرف کراچی میں ہی شاید پولیس کے مظالم کا شکار ایسے گروپس موجود ہیں جو صرف پولیس کونشانہ بنارہےہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے
سیشن ججز کا کردار پہلے سے زیادہ اہم بن چکا ہے اور مجسٹریٹ کا عہدہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری کو ان زیادتیوں سے نجات دلا سکتے ہیں جن کا اکثر وہ شکار رہتے ہیں
سپریم کورٹ،ہایئکورٹ،سیشن ججزاور مجسٹریٹ یہ سب مل کر ہی پاکستانی معاشرے کو انصاف فراہم کرسکتے ہیں
صرف بار ایسوسی ایشنز ہی وہ ادارہ ہیں جو ان کی سمت درست کرسکتی ہے


:تحریر صفی الدین اعوان

Saturday 26 October 2013

پولیس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے خلاف کاروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیشن جج غلام مصطفی میمن صاحب کیلئے ایک اور آزمائیش

اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) کراچی پولیس کی ایک ایسی خفیہ برانچ ہے جو ہرقسم کی جدید سہولیات سے آراستہ ہے اورملزمان کو پکڑنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے عدلیہ کی آزادی  کے بعد ڈسٹرکٹ سطح پر عدلیہ کمزور ہوئی  ایسی کمزور عدلیہ جس کی تمنا پاکستانی پولیس کرتی ہے اس وقت بھی کراچی کے پانچ اضلاع میں سے صرف دواضلاع میں سندھ ہایئکورٹ نے سیشن ججز مقرر کئے ہیں  ایسٹ میں جو سیشن جج ہے اس کا ہونا نہ ہونا برابر جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ اور سینٹرل میں عرصہ دراز سے سیشن جج موجود ہی نہیں عرصہ دراز کا لفظ اس لیئے استعمال ہوا کیونکہ  اس اہم ترین پوسٹ کو تو ایک لمحے کیلئے بھی خالی رکھنا شہریوں پر ظلم ہے سندھ ہایئکورٹ کے انہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ کراچی میں پولیس کے  خفیہ ادارے مزید طاقتور ہوگئے جس کے بعد تھانے کی سطح پر غیرقانونی  حراست کے واقعات میں اضافہ ہوا  
 اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) نے تو سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر سیکورٹی کا ایسا نظام تشکیل دیا جس کے بعد مجسٹریٹ یا کورٹ کا بیلف  اے وی سی سی میں داخل نہیں ہوسکتا  اور یوں یہ ادارہ بھی سی آئی اے کی طرز پر کراچی میں اغواء برائے تاوان کی سرگرمیوں میں ملوث ہوا ۔فخریہ طور پر اے وی سی سی کے افسران قانون سے بالادستی کے دعوے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ درست بھی ہیں
سیشن جج غلام مصطفی میمن کے حوالے سے بعض ریمارکس کو لوگوں نے ناپسند کیا کیونکہ شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت کا حکم آپ نے سنایا اس حوالے سے لوگ  ان کی بہادری کے قائل ہیں لیکن ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جس  معاملے  کا زکر تھا اس میں کورٹ کی جانب سے کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا جو کہ مناسب نہ تھا لیکن آج اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) میں ہونے والی غیرقانونی حراست کے معاملے پر پاکستان کی  محکمہ پولیس کی سب سے خطرناک خفیہ ایجنسی  کے خلاف  ایک ایسی جرات کا مظاہرہ کیا گیا  جس کی توقع عوام عدلیہ سے رکھتے ہیں یہی تو کراچی کے شہری چاہتے ہیں کہ عدلیہ کا کردار شہریوں کے لیئے ایک شفیق ماں کی طرح ہونا چاہیئے جو ہر لمحہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے اور ان سے پیار کرے  ان کے حقوق کا خیال رکھے
آج سیشن جج کی ہدایت پر مجسٹریٹ زیشان منظور نے اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) پر انتہائی کامیاب حکمت عملی  سے کامیاب چھاپہ مار کر  بیس دن سے قید ایک چودہ سالہ بچی سمیت پانچ افراد کو بازیاب کروالیا گیا بلاشبہ یہ ہماری ڈسٹرکٹ عدلیہ کی اہم کامیابی ہے کیونکہ کافی عرصے سے اے وی سی سی عدلیہ کیلئے "نو گوایریا" بنا ہواتھا  چھاپے کے دوران بھی اے وی سی سی نے ڈرامہ کرنے کی کوشش کی  کہ طالبان نے حملہ کردیا اور دروازے بند کردیئے لیکن مجسٹریٹ کی حکمت عملی کا آئی اور دروازے فوری طور پر کھلوانے میں کامیاب رہے اس طرح  اے وی سی سی جو باقاعدہ طور پر کراچی میں اغواء برائے تاوان کی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور عدلیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے کاروبار کو تحفظ دے رہی تھی بے نقاب ہوگئی لیکن کیا  اس معاملے پر اے وی سی سی خاموش رہے گی اور اس ادارے کا ردعمل کیا ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے
 یہ کیس ہمارے دوست شعیب صفدر گھمن کے پاس ہے
 یہ کامیابی ڈسٹرکٹ جج ساؤتھ اور ساؤتھ کے مجسٹریٹ ذیشان منظور کے نام ہے جنہوں نے کامیاب حکمت عملی سے نوگو ایریا میں کاروائی کی لیکن کراچی کے شہری توقع رکھتے ہیں  پولیس کے خلاف اس کاروائی جو عدلیہ کی آزادی سے پہلے کراچی کے سیشن ججز پولیس کے خلاف کرتے تھے اگر غلام مصطفی میمن  پولیس کی اس خفیہ ایجنسی کے خلاف مزید ایکشن لینے میں کامیاب ہوتے ہیں مطلب ذمہ دارپولیس افسران کو سزا دے دیتے ہیں تو آپ کا نام عدالتی تاریخ کے سنہرے حروف میں درج کیا جائے گا لیکن  بلاشبہ اے وی سی سی کے ہیڈکوارٹر جیسے نو گو ایریا میں عدلیہ کا چھاپہ ایک اہم سنگ میل ہے کراچی کے شہری اور وکلاء جانتے ہیں کہ پولیس نے کراچی میں پرائیویٹ ازیت خانے  بنگلوں وغیرہ  میں بنا رکھے ہیں جہاں اہم ملزمان سے یہ کہہ کر رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ کل عدالت نے تو ویسے بھی چھوڑ دینا ہے

حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ کتنا ہی قتل و غارت گری کیوں نہ ہورہا پولیس پابند ہے ان اصولوں کی جو آئین پاکستان اور پولیس ضابطوں میں درج ہیں جن کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد وہ ساری کاغذی کاروائی ہر صورت میں مکمل کرنا ہوگی  جس کا طریقہ کار بیان کردیا گیا ہے غیر آئینی اقدامات اور خفیہ اداروں کی من مانیاں اور عدلیہ کی کمزوریاں وہ حالات پیدا کرتی ہیں جو آج بلوچستان میں ہم دیکھ رہے ہیں

ہماری ڈسٹرکٹ عدلیہ کراچی ساؤتھ کی اہم کامیابی

اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) پر کامیاب چھاپہ   بیس دن سے قید ایک چودہ سالہ بچی سمیت پانچ افراد کو بازیاب کروالیا گیا بلاشبہ یہ ہماری ڈسٹرکٹ عدلیہ کی اہم کامیابی ہے کیونکہ کافی عرصے سے اے وی سی سی عدلیہ کیلئے "نو گوایریا" بنا ہواتھا
 یہ کیس ہمارے دوست شعیب صفدر گھمن کے پاس ہے

اور یہ کامیابی ڈسٹرکٹ جج ساؤتھ کے نام ہوگی اگر وہ پولیس کے خلاف مزید ایکشن لینے میں کامیاب ہوتے ہیں مطلب زمہ داران کو سزا دے دیتے ہیں بلاشبہ اے وی سی سی جیسے نو گو ایریا میں عدلیہ کا چھاپہ ایک اہم سنگ میل ہے

Friday 25 October 2013

عدلیہ کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی اپنی کوئی عدالت نہیں

اختیار اور طاقت دونوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے
جہاں طاقت ہو وہاں اختیار بہیں ہوتا اور جہاں اختیار ہو وہاں طاقت نہیں ہوتی
پولیس طاقت ہے عدالت اختیار پولیس طاقت کے نشے میں مست ہے اور اختیار من مانی سے روکتا ہے طاقت عوام کو تنگ کرتی ہے تو اختیار آگے بڑھ کر روک دیتا ہے
پولیس کے پاس سزا وجزا کا اختیار نہیں اگر ہوتا تو شاید پوری دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا
عدلیہ کے پاس سزا دینے نہ دینے کا اختیار ہے لیکن انتظامیہ جیسی طاقت نہیں اگر انتظامی طاقت بھی دے دی جائے تو بھی شاید دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو
یہی وجہ کہ عدلیہ کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی اپنی کوئی عدالت نہیں ہوتی
تھانہ کلچر کیا ہے لوگوں کو تھانے میں تشدد کا نشانہ بنانا، ایف آئی آر  درج نہ کرنا،غیرقانونی حراست اور لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا
صرف عدلیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس صورتحال کو کنٹرول کرسکتی ہے
پاکستان میں تھانہ کلچر کے خاتمے کیلئے عدلیہ کا کردار اہم ہے عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے جو تھانے کی طاقت کے سامنے پل باندھ سکتا ہے
عدلیہ کی مسلسل بیداری پولیس کو شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیتی ہے ریاستی تشدد کا واحد علاج متحرک عدلیہ ہے
پاکستان کے 18 کروڑ شہری انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں
کراچی کے دو کروڑ شہری اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں طاقتور پولیس اور خفیہ ادارے اغواء برائے تاوان سمیت ہر قسم کے جرائم کے زریعے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں  صرف آگہی کافی نہیں پاکستان کی آبادی کا 12 فیصد حصہ براہ راست پولیس اور رینجرز کے رحم و کرم پر ہے ایک پہلے سے کہیں زیادہ آزاد مگر کمزور ترین عدلیہ شاید شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی
کراچی میں ریاستی آپریشن جاری ہے جو کہ ضرورت بھی ہے لیکن طاقت کو کنٹرول کرنے والا ادارہ عوام کو وہ ریلیف نہیں دے پارہا جو کہ عوام کا بنیادی حق ہے
جو لوگ پاکستان میں تھانہ کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہیں وہ توجہ فرمائیں کہ تھانہ کلچر کا خاتمہ صرف اور صرف متحرک عدلیہ کرسکتی ہے جج کے پاس اختیار ہے کہ وہ تھانہ کلچر کا خاتمہ کرسکے اور جج تو جج ہی ہوتا ہے
چاہے وہ سپریم کورٹ کا ہو ہایئکورٹ کا ہو سیشن کورٹ سیشن جج ہو یا مجسٹریٹ وہ جج ہی ہوتا ہے اور ان تمام کا مرتبہ بحثیت جج برابر ہے
تھانہ کلچر صرف عدلیہ ہی ختم کرسکتی ہے اگر کرنا چاہے

Thursday 24 October 2013

وہ شیشہ جو انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے

لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کی سب سے بڑی  خوبی یہ ہےکہ یہ سب سے زیادہ کراچی میں پڑھا جاتا ہے ہمیں جو ردعمل ملتا ہے وہ بھی زیادہ تر کراچی سے ملتا ہے اس کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی بہت بڑی تعداد نہ صرف بلاگ کو پسند کرتی ہے بلکہ بزریعہ ای میل ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے زریعے  ہمیں اپنے ردعمل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں  ہمارا بلاگ امریکہ برطانیہ ،کینیڈا،فرانس اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے 25 سے زائد ممالک میں جہاں پاکستانی آباد ہیں  وہاں  اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے
پنجاب جہاں بار بہت زیادہ مضبوط ہے وہاں ہمارا بلاگ حیرت سے پڑھا جاتا ہے  پنجاب کے دوستوں کی رائے ہے کہ  مضبوط بار ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جسٹس شریف کے چیمبر کے شیشے ٹوٹنے کی آوازیں جب تک ہایئکورٹ کی راہداریوں میں گونجتی رہیں گی عدلیہ من مانی سے بعض رہے گی  اور عدلیہ کو من مانی سے روکنے کیلئے کوئی پٹیشن  نہیں آتی  من مانی طاقت سے روکی جاتی ہے  جس بار کا صدر توہین عدالت کے کیس میں سرجھکا کر پیش ہوتا ہو وہ بار عدلیہ کو من مانی سے کیسے روکے گی یہ کل ہی کی تو بات ہے
  مضبوط بار کے صدر نے کہا تھا کہ "ہم سپریم کورٹ کو آگ لگادیں گے" یہ کہہ کر انہوں نے  اس وقت کی عدلیہ کومن مانی کرنے سے روک دیا تھا
دنیا بھر میں جہاں جہاں گروہ ،تنظیمیں اور ادارے عدالتی نظام کی مضبوطی  کے لیئے کام کررہے ہیں انہوں نے ہماری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیاہے وہ ہمارے رابطے میں ہیں
پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ عدلیہ سے متعلق مکالمے کی بنیاد رکھ دی گئی
اسٹیک ہولڈرز نے خاموش ردعمل ظاہر کیا   وہ انتظار کرتے رہے کہ ہم کوئی پٹیشن لائیں اور اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی جائیں سوال تیار کرلیئے گئے ۔ لیکن کیا ہم کمزور ہیں 
پھر کہا گیا کہ نوٹس نہ لیں صرف نوٹ کریں  اس لیئے نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ نوٹ کرلیا گیا  پھر کہا گیا انتظار کرلیں بڑی غلطی کرنے دیں بڑی غلطی کی سزا بھی بڑی ہوگی   لیکن معاف نہیں کرنا
شاید یہ وہ معافی دینا چاہتے ہیں جو ہم نے مانگی ہی نہیں نہ ہی ہم مانگے گے
پھر کہا گیا کہ ایم آئی ٹی سے رابطہ کریں ہم نے رابطہ کیا لیکن کہا گیا کہ  ملنے کے لیئےانتظار کرنا ہوگا ہم نے کہا کہ رابطہ کریں گے لیکن ملنے کیلئے انتظار کرنا قبول نہیں اور انتظار بھی کریں تو کیوں کریں ملنا ہے تو ملیں  اور انتظار بھی کس بات کا کہا گیا کہ یہ رویہ ٹھیک نہیں  ہم یہ کہہ کر چلے آئے کہ   جو دل چاہے کریں

ایک بار کے اہم عہدیدار نے کہا کہ ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن بعض سچ صرف  بولنے کی حدتک ہی ہوتے ہیں وہ صرف بار روم میں سرگوشیوں کی حد تک ٹھیک ہوتے ہیں
دوسرا مرحلہ ہے اس سارے سچ پر بحث مباحثہ اور ایک  تحریری  دستاویز کے زریعے رپورٹ کرنا 
 لیکن انداز ہر گز دفاعی نہیں ہوگا وہ سرد جنگ چاہتے ہیں وہ تھکانا چاہتے ہیں وہ موقع کی تلاش میں ہیں وہ بڑی غلطی کی انتظار میں ہیں
یہ کمزورلوگ ہیں   وہ  کمزور لوگ جوسزا دینا تو چاہتے ہیں لیکن  دے نہیں سکتے
دباؤ بڑھ رہا ہے  سوشل میڈیا کے رنگ ہی نرالے ہیں طاقتور لوگوں کو اتنا کمزور کبھی کسی نے نہیں دیکھا لیکن من مانی کررہے ہیں وہ اصولوں سے ہٹ چکے ہیں وہ اصول توڑ چکے ہیں وہ نواز چکے ہیں وہ نوازنا چاہتے ہیں وہ اقرباء پروری کے  راستے پر اسقدر آگے جاچکے ہیں کہ جہاں واپسی ممکن ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان چیزوں نے ہی ان کو کمزور کیا ہے
ہرروز ہمارے سوشل میڈیا نیٹ ورک  سے  براہ راست منسلک 12000 بارہ ہزار افراد  اپنی بے رحم رائے کے زریعے رائے عامہ پر اثرانداز ہورہے ہیں    سوشل میڈیا کے گروپس ہرروز مل رہے ہیں وہ ہرروز کچھ نیا شیئر کرتے ہیں سوشل میڈیا کی ایک خامی کہ قیادت کسی کے پاس نہیں ہوتی منزل واضح نہیں ہوتی اس پر بات ہوتی ہے تبدیلی کے عمل پر یقین رکھنے والے منظم ہورہے ہیں
منزل بھی  واضح ہے سوچ بھی
جذبات میں گرمی بڑھ رہی ہے دور کہیں شیشہ ٹوٹنے کی آواز راہداریوں میں گونج رہی ہے۔۔۔ وہ شیشہ جو انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے
 لیکن ابھی نہیں
وہ دیکھو  سوموٹو وہ" بیپر" چل رہے ہیں وہ سرخ سرخ بریکنگ نیوز کی آوازیں آرہی ہیں
 وہ ڈھونڈو کہاں ہے  کہاں ہے کہاں ہے
ہاں مل گئی آزاد عدلیہ 
وہ میڈیا کے کیمروں میں بند 
وہ بنچ نمبر ون
دیکھو خیال رکھنا کہیں باہر نہ چلی جائے عدلیہ میری پیاری آزاد عدلیہ
دیکھو کہیں سیشن کی عدالت میں نہ چلی جائے آزاد عدلیہ
 مجسٹریٹ کی عدالت میں نہ چلی جائے وہ آزاد عدلیہ
 کیمرے سے نکل نہ جائے اور اس کو بنچ نمبر ون میں  قید کرکے رکھنا ہے
حالات خراب ہیں خیال رکھنا  کہیں   آزاد ہو کر چلی نہ جائے
بھولی بھالی ہے نہ بہت آزاد عدلیہ


نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ


Wednesday 23 October 2013

اللہ غریبوں پر رحم کرے خاص طور پر وہ غریب جن کا کورٹ سے واسطہ پڑگیا

کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی، کمیٹی

26/02/2013
چیف جسٹس آف پاکستان کے شروع کیئے ہوئے بہت سے اچھے کام مکمل نہیں ہوپاتے یا مکمل نہیں کرنے دیئے جاتے مختصر یہ ہے کہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک ایسی عدلیہ کے قیام میں رکاوٹ ڈالی جائے جس سے شہریوں کو فائدہ ہو چیف صاحب لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے چئرمین بھی ہیں ابھی 2011 ہی میں "ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیوں" کے قیام کیلئے لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے رولز منظور کیئے تھے وہ بہترین رولز ہیں 
http://www.ljcp.gov.pk/Menu%20Items/AJDF/dlec.pdf
چیف صاحب کی سربراہی میں ہمیں یقین تھا کہ کہ غریبوں کو مفت قانونی امداد کا خواب ضرور پورا ہوگا جس کے تحت نہ صرف غریب سایلین کو "بارایسوسی ایشن" کی زیرنگرانی مفت قانونی امداد دی جائیگی بلکہ دیوانی مقدمات میں کورٹ فیس کی مد میں سائل کو اخراجات ادا کیئے جایئں گے  اس سلسلے میں کئی باربلندوبالا دعوے کیئے گئے کہ غریبوں کو قانونی امداد بس اب چند دن کی بات ہے "کمیٹی" بنائی جارہی ہے پھر پتہ چلا کہ قنونی امداد ملنا بھی شروع ہوگئی ہے اس سلسلے میں جب سیشن ججز سے رابطہ کیا گیا تو پتہ یہ چلا کہ نہ تو کسی کمیٹی کا وجود ہے نہ کوئی قانونی امداد کا سلسلہ کراچی کے پانچ میں سے ایک ڈسٹرکٹ سینٹرل نے صرف ابتدائی کام شروع کرکے کمیٹی کا اسٹرکچر بنا کر منظوری کیلئے کافی عرصہ ہوا رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کے پاس منظوری کیلئے بھیج دیا ہے جس کے بعد تاحال خاموشی ڈسٹرکٹ ویسٹ کے اسٹاف کو تو پتا ہی نہیں کہ یہ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹی ہوتی کیا بلا ہے ڈسٹرکٹ ملیر کے اسٹاف سے معلومات لی تو پتہ چلا کہ ان کو پتا ہے کہ کمیٹی کیا چیز ہوتی ہے ان کے پاس رولز کی بھی ایک کاپی تھی اسٹاف کے مطابق کمیٹی کے قیام کیلئے سرتوڑ کوششیں جاری ہیں انشاءاللہ ایک نہ ایک دن یہ کمیٹی ضرور بن جائے گی اسی طرح کی کوششیں ساؤتھ اور ایسٹ میں بھی جاری وساری ہیں کمیٹی کا اجلاس بلالیاگیا ہے کمیٹی کا اجلاس ملتوی ہوگیاہے کمیٹی کا اجلاس ایک بار پھر اگلے ہفتے ہوگا ایک بار پھر ملتوی ہوگیا بار ایسویسی ایشن سے وکلاء کی لسٹ طلب کرلی گئی ہے لسٹیں تیار ہورہی ہیں کمیٹی بن رہی ہے گزشتہ سال یہی ہوا ہے کہ بس اگلے ہفتے کمیٹی اپنا کام اسٹارٹ کرہی دے گی
بدقسمتی سے "لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹی" کے قیام کیلئے سنجیدہ کوشش ہوئی ہی نہیں صرف دکھاوے کیلیئے کچھ اقدامات کرکے اس کو ٹالا گیا ہے کمیٹی کے قیام کو ایک بلاوجہ کا بوجھ سمجھا گیا ہے جس کے وجہ سے کم از کم کراچی میں تو یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اب ناممکن ہوگیا ہے  
 موجودہ صورتحال میں جب دن رات کی سرتوڑ کوششیں ناکام ہونے کے بعد وکلاء نے بھی فاتحہ پڑھ کر ہاتھ کھٹرے کرلیئے ہیں اب چیٖف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی زمہ داری ہے کہ وہ اس کمیٹی کے قیام کیلئے براہ راست معاملات اپنے ہاتھ میں لےکر سیشن ججز کا اجلاس ہائیکورٹ میں طلب کریں کمیٹی کے چارممبرز مشترکہ ہیں کراچی بار کا صدر،ملیربارکا صدر۔سینٹرل جیل اور ملیرجیل کے انچارج فوری اجلاس ہوگا اسی وقت لسٹ بنے گی اسی وقت کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگا اور چوبیس گھنٹوں میں کمیٹی اپنا کام اسٹارٹ کردے گی  کمیٹی کے قیام کیلئے کمیٹی،کمیٹی،کمیٹی،کمیٹی،کمیٹی،کمیٹی کا ڈرامہ فوری طور پر ختم ہونا ضروری ہوگیا ہے اسی طرح ہر سیشن عدالت یا بارایسوسی ایشن میں بھی مفت قانونی امداد کی فراہمی کیلئے رہنمائی کا بھی انتظام ہونا چاہیئے صرف کمیٹی کا قیام اتنا مشکل مرحلہ ثابت ہورہاہے تو ان کمیٹیوں سے قانونی امداد حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ پیلنے پڑیں گے اللہ غریبوں پر رحم کرے خاص طور پر وہ غریب جن کا کورٹ سے واسطہ پڑگیا
یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو اس مقصد کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز بھی دے رکھے ہیں جو کہ صرف اور صرف عدلیہ کی اپنی بدترین نااہلی کی وجہ سے خرچ نہیں ہورہے
صفی





Tuesday 22 October 2013

درداں دی ماری جندڑی علیل اے

2005 میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کسی نے اپنے علاقہ ایس ایچ او سے ملاقات کرنی ہے تو صبح سویرے اپنے علاقے کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں سیشن جج کی عدالت کے باہر اپنے علاقہ ایس ایچ او سے مل سکتا ہے ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ڈاکٹر ظفر علی شیروانی،ساؤتھ میں آغا رفیق درانی،سینٹرل میں محمد نثار شیخ صاحب اور ویسٹ میں جاوید عالم صاحب یہ چاروں حضرات اپنے وقت کے مایہ ناز سیشن ججز تھے عزت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم شخصیت اس وقت کے سیشن جج آغا رفیق درانی صاحب جو آج کل چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ ہیں کا زاتی طور پر احترام کرتی تھیں ایسٹ میں آن لائن عدلیہ کا پائلٹ پروجیکٹ کامیابی سے چل رہا تھا نثار شیخ صاحب کا اپنا ایک طریقہ کار تھا ایک قدر چاروں سیشن ججز میں مشترک تھی اور وہ یہ کہ پولیس کی جانب سے عوام پر کوئی زیادتی برداشت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کسی شہری پر تشدد کا مسئلہ ہو یا ایف آئی آر درج نہ کرنے کا مسئلہ ایس ایچ او کو بنفس نفیس آنا پڑتا تھا اور جتنا بااثر ایس ایچ او ہوتا تھا اتنا ہی اس کو سیشن کورٹ کی راہداری میں انتظار کرنا پڑتا تھا
ایک روایت موجود تھی کہ سیشن جج براہ راست بھی عوام الناس کی شکایات سنتے تھے پولیس کی جانب سے کوئی بہانہ قبول کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا سیشن جج صبح سویرے سیٹ پر موجود ہوتا تھا اور سب سے آخر میں پولیس کا نمبر آتا تھا لیکن وقت پر آنا لازم تھا ایس ایچ کی غیر حاضری کی قیمت پولیس افسران کو ادا کرنی پڑتی تھی ایک بار نہیں کئی بار افسران بالا کو حکم عدولی پر ہتھکڑیاں لگا کر جیل روانہ کیا گیا عدلیہ کی عزت تھی تو وکلاء کی بھی عزت تھی
کراچی کے شہریوں کو آج بھی یاد ہوگا کہ کراچی میں پولیس نے "سی آئی اے" نام کی ایک خفیہ ایجنسی بنائی تھی سی آئی اے کراچی میں خوف تھرتھراہٹ کی علامت تھی سی آئی اے کیا تھی آج لوگ سوچ بھی نہیں سکتے صدر میں آج بھی سی آئی اے پولیس اسٹیشن موجود ہے اور وہ اس کا ہیڈ کوارٹر تھا بالآخر جسٹس صبیح الدین مرحوم نے اس کا نوٹس لیا اور سی آئی اے سے کراچی کو نجات ملی اسی دور میں پولیس کو بغیر یونیفارم گرفتاری اور ڈیوٹی سے روکا گیا
میں نے اپنی آنکھوں سے پولیس افسران کو سیشن ججز کے سامنے تھر تھر کانپتے ہوئے دیکھا انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سیشن ججز سخت سے سخت نوٹس لیتے تھے
سیشن جج اتنا بڑا عہدہ ہے کہ اس عہدے کی طاقت کا اندازہ آج تک نہیں لگایا جاسکا کراچی میں 92 جیسا آپریشن ہوا اور ایسا سخت فوجی آپریشن کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا لیکن اس سخت اور مشکل ترین دور میں عدلیہ نے اپنا حق ادا کیا
سیشن ججز ایس ایچ اوز کے اتنے سخت خلاف کیوں تھے وہ جانتے تھے کہ اگر آج ان کے ساتھ رعایت کی گئی تو وہ کراچی کے شہریوں کا جینا حرام کردیں گے اگر ایس ایچ او انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرکے بھی عدالت کی راہداری میں پورا دن انتظار کی ذلت سے نہیں گزرے گا تو اس کو عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ کیسے ہوگا اور اگر پولیس کے افسران جیل جاسکتے ہیں تو ایک ایس ایچ او کی کیا اوقات ہوگی
سیشن ججز کے ان تمام اقدامات کا فائدہ وکلاء کو ہوتا تھا عدلیہ کی عزت تھی اس کے ساتھ وکلاء کی بھی عزت تھی آج سے آٹھ سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پولیس ایک ایسے طاقتور مافیا کا روپ دھار لے گی جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہوگا 
اس وقت بھی کرپشن ہوتی تھی جو کہ پوری دنیا میں نظام کا حصہ ہے لیکن سیشن ججز کی جانب سے سختی تھی اسی دوران جاوید عالم صاحب ریٹائر ہوگئے   اور نثار صاحب جسٹس بنادیئے گئے 2007 کی تحریک چلی عدلیہ میں بھی افراتفری پھیلی عجب غدر کا عالم تھا مرزا غالب کی زبانی  جو 1857 کی تحریک آزادی کے بعد مسلمانوں پر حالات گزرے وہ سارا دکھ ایک شعر میں سمو دیا
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
حالات کی ستم ظریفی کہ مشرف دور میں وکلاء تحریک کے دوران کراچی کی عدلیہ کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا پکڑ دھکڑ ہوئی  جسٹس صاحبان حلف لینے کیلئے تیار نہ تھے تو پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ڈھونڈ ڈھانڈ کر لوگوں کو جسٹس بنایا گیا سیشن ججز کو جسٹس بنایا گیا اگرچہ وہ نظام کے تحت اہلیت رکھتے تھے لیکن ماضی میں سندھ ہایئکورٹ میں جسٹس بنانے کا ایک نظام رہا ہے جس نے بدترین آمریت میں اچھے جسٹس دیئے  لیکن ایمرجنسی کے دوران "کیسے کیسے "لوگوں کے ساتھ  ساتھ ایسے ویسے لوگ بھی جسٹس بنادیئے گئے عدلیہ کا وقار اور احترام داؤ پر لگا
عدلیہ بحال ہوئی تو ان لوگوں کی برطرفی ضروری تھی جن کو 3 نومبر کی ایمرجنسی کے دوران پکڑ دھکڑ کرکے جسٹس بنایا گیا تھا وہ تو نا اہل تھے اور کسی رعایت کے مستحق ہی نہ تھے لیکن ساتھی ججز کو جو ایک 67 سالہ نظام  کے تحت جسٹس آرہے تھے اور ان کو نظام نے جسٹس بنایا تھا ان کے پیچھے کوئی سفارش نہ تھی ان کی غلطی کہ انہوں نے ایک کمزور فیصلہ کیا تھا مشرف کا ایمرجنسی کے دوران حلف لیا تھا لیکن بحثیت جسٹس ان کی کارکردگی مثالی تھی اس کے ساتھ ساتھ سیشن ججز جن کو قسمت نے جسٹس بنایا لیکن وہ حقدار بھی تھے کیونکہ وہ اپنی باری کے منتظر تھے
تاریخ نے یہ بات ثابت کی کہ پی سی او ججز کے حوالے سے فیصلہ جذبات پر مبنی تھا کیونکہ سندھ میں عدلیہ میں ہر سطح پر افراتفری پھیلی  ڈسٹرکٹ کی سطح سے لیکر ہایئکورٹ تک عدلیہ بحالی کے بعد متاثر ہوئی دوسری طرف عوام اور وکلاء کی توقعات  جو عدلیہ سے وابستہ ہوچکی تھیں سندھ ہایئکورٹ میں ججز کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا چلا گیا اچھے لوگ نہ ملے
لیکن اچھے لوگ مشکل سے ہی ملتے ہیں ایک مختصر واقعہ کہ سابق چیف جسٹس  محترم صبیح الدین احمد مرحوم نے اپنے وقت کے ایک مایہ ناز اور سئینر وکیل سے گزارش کی کہ آپ  اچھے قانون دان ہیں سندھ ہایئکورٹ کو آپ جیسے اچھے لوگوں کی ضرورت ہے  اچھے  قابل لوگوں کے آنے سے ادارہ مضبوط ہوگا لیکن سینئر وکیل نے کہا میں اپنے آپ کو اس  بھاری بوجھ کے قابل نہیں سمجھتا  مختصر یہ کہ نہ جانے کس طرح اچھے لوگ تلاش کیئے جاتے تھے اور عدلیہ کا حصہ بنایا جاتا تھا لیکن آج تو حالات کہاں سے کہاں نکل گئے عوامی توقعات پر پورا اترنے کے چکر میں جوڈیشل پالیسی لائی گئی اور جلد بازی میں کیس نمٹائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا عدلیہ کی تباہی کا سلسلہ جاری رہا
کراچی میں 2005 والا ماحول واپس نہ آسکا ایک طرف  اکثر سیشن ججز ہایئکورٹ کا مزہ چکھ کر واپس آئے تھے ان کا شکوہ تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ماتحت عدلیہ کو ذلیل و رسوا کیا سب سے زیادہ تباہی جناب  ڈاکٹرقمرالدین بوہرہ نے پھیلائی جس نے ویسٹ کی پوری عدلیہ کو تباہی کے آخری دھانے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کی عدلیہ کو اس ظالمانہ طریقے سے تباہ کیا گیا کہ آیئندہ آنے والے پانچ سال تک اس کی بحالی ممکن نہیں  یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دشمن ملک کا جنرل دشمن کے کسی شہر کو تباہ و برباد کررہا ہے اب نہ جانے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کا وہ کیا حشر کرتے ہیں
وہ زمانے ماضی کا حصہ بن گئے جب کراچی کے پولیس افسران ڈسٹرکٹ کورٹ کی راہداریوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے تھے ایک ایسے وقت میں جب کراچی میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن جاری ہے تو ہمارا بدترین المیہ یہ ہے کہ کراچی کے دوڈسٹرکٹ میں سیشن ججز ہی موجود نہیں ہیں   ڈسٹرکٹ ایسٹ  ضلع شرقی کی عدلیہ   میں سیشن جج کا  ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ وہاں ایک زندہ لاش کو پکڑ کر بٹھا دیاگیا ہے  کراچی کے  بدقسمت شہریوں کو 2014 تک انتظار کرنا ہوگا کیونکہ یہ زندہ لاش  اگست 2014  تک مسلط ہے  اور وہ چیمبر میں بیٹھ کر مفت کی تنخواہ وصول کریں گے جب سیشن ججز ہی موجود نہیں تو پولیس نہ جانے کس کس طریقے سے شہریوں پر ظلم کرتی ہوگی اب باقی کے جو دو ڈسٹرکٹ ہیں یعنی ویسٹ اور سینٹرل  ان کے ساتھ اب نہ جانے کیا ہوتا ہے وہاں کون آتا ہے 
کراچی کے وکلاء یاد کریں وہ وقت جب صبح سویرے سیشن کی عدالت لگ جاتی تھی سیشن جج کی عدالت کے باہر کراچی بھر کے ایس ایچ اوز لائن بنا کر کھڑے ہوتے تھے 
انسانی حقوق محفوظ تھے  
کراچی کے وکلاء کو چاہیئے کہ اب مزید خاموش نہ رہیں کل ہم نے ویسٹ کو خاموشی سے برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے اب کیا ہم ایسٹ میں بھی تباہی کا سلسلہ دیکھیں گے
ہایئکورٹ پر دباؤ ڈالیں کہ متحرک اور زندگی کے جزبوں سے سرشار ججز کو کراچی میں سیشن جج بنائیں کراچی کے تین اضلاع ڈسٹرکٹ ویسٹ،سینٹرل اور ایسٹ میں سیشن ججز کا نہ ہونا سندھ ہایئکورٹ کا   کراچی کے معصوم شہریوں پر بدترین ظلم ہے
 بار سے گزارش ہے کہ تینوں ڈسٹرکٹ میں کم ازکم ایسے لوگوں کو سیشن جج بنانے کیلئے سندھ ہایئکورٹ پر دباؤ ڈالیں جو کم از کم زندہ ہوں
عدلیہ کے حالات دیکھ کر بے اختیار یہ شعر زبان پر آتا ہے

درداں دی ماری جندڑی علیل اے

عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو کر اشتہاری ہونے والے 33000 تینتیس ہزار افراد کراچی کے امن کیلئے خطرہ بن گئے

20 ستمبر 2013 کو پاکستان کے سادہ دل چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوہدری نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی اشتہاری ملزمان کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ پر انتہائی سادگی اور حیرت سے پوچھا کہ کراچی شہر میں 33000 ہزار اشتہاری ملزمان اور 1500 دہشت گردوں کی موجودگی میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے
چیف جسٹس صاحب آپ کے خلوص سے انکار ممکن نہیں لیکن ان 33000 ہزار ملزمان میں این آر او کے علاوہ اکثریت ان ملزمان کی ہے جنہیں آپ کی عدالتوں نے جوڈیشل پالیسی کے نام پر فراڈ اسکیمیں چلا کر رہا کیا ہے اس حوالے سے عدلیہ کے اندر انتہائی اعلی سطح  تک کے لوگ ملوث ہیں جو جعلی دستاویزات کے زریعے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرواتے ہیں بعد ازاں ملزم عدالتوں سے مفرور ہوجاتے ہیں بعض واقعات میں رشوت وصول کرکے شخصی ضمانت پر بھی انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان کو براہ راست جیل سےرہا/ فرار کروایا گیا ہے  اور یہ کاروبار عرصہ دراز سے جاری ہے بعد ازاں ایک فرضی کاروائی کے زریعے "ضامن" کے خلاف کاغزی کاروائی کرکے ملزم کو اشتہاری کرکے کیس داخل دفتر کردیا جاتا ہے جہاں وہ ریکارڈ روم کی دیمک کی غذا بن جاتا ہے اس سارے کاروبار کی زمہ داری بالواسطہ طور پر سندھ ہایئکورٹ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سندھ ہایئکورٹ کا شفافیت کا نظام انتہائی کمزور اور کرپشن کو مکمل سپورٹ کرتا ہے

اگر ایک عام وکیل کسی ملزم کی ضمانت پر رہائی کیلئے حلف نامہ جمع کرواتا ہے تو اس کی بھرپور تصدیق کروائی جاتی ہے متعلقہ اداروں سے دستاویزات تصدیق کروائی جاتی ہے لیکن جب دستاویزات تصدیق کیلئے بھیجی جاتی ہیں تو سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے ڈڈسٹرکٹ کورٹس میں اس لیٹر کا ریکارڈ جو متعلقہ ادارے کو بھیجا جاتا ہے کا ریکارڈ رکھنے کو کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ہے نہ ہی ایسا کوئی رجسٹر کورٹ میں دستیاب ہوتا ہے اور جب وہ دستاویزات متعلقہ ادارے سے تصدیق ہو کر آجاتی ہیں تواس کا ریکارڈ رکھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے کہ ادارے سے تصدیقی لیٹر لے کر کون آیا ہے (یہی دو خامیاں جعلی دستاویزات کے کاروبار کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں)

نہ ہی سندھ ہایئکورٹ نے ایسا کوئی انتظام کیا ہے جس کے زریعے کورٹ میں ضمانت کے طور پر جمع کاغزات کا ریکارڈ کورٹ کی سطح پر ہو نہ ہی سندھ ہایئکورٹ ایسا کوئی انتظام کرے گی کیونکہ جعلی دستاویزات سے منسلک مافیا روزانہ لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے کورٹ لاعلم ہوتی ہے کہ ناظر کے پاس کتنی مالیت کے اثاثے کورٹ کی جانب سے کروائے گئے ہیں بنیادی طور پر اس کاروبار سے منسلک عدلیہ کی زلت کے بے شمار پہلو ہیں ویسے بھی سندھ ہایئکورٹ کو ڈسٹرکٹ کورٹس میں کرپشن کے خاتمے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ سندھ ہایئکورٹ کو عملی طور پر ماتحت عدلیہ کے کسی بھی مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے

عدالت کے پاس مکمل ریکارڈ رجسٹر میں موجود ہونا چاہیئے کہ کتنے مقدمات میں دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں کب اور کس طرح ان دستاویزات کی تصدیق کروائی گئی اور متعلقہ ادارے کے کس افسر نے تصدیق کی اور سرکاری طور پر کس زریعے سے وہ کاغزات تصدیق کے بعد عدالت میں پیش کیئے گئے ہیں
لیکن اگر "مخصوص" لوگ دستاویزات جمع کروائیں تو یہ کام منٹوں میں ہوتا ہے کورٹ کی سختی فوری طور پر نرمی میں تبدیل ہوجاتی ہے
محترم چیف جسٹس صاحب آپ کی حیرت بلاوجہ نہ تھی شروع شروع میں ہمیں بھی حیرت ہوتی تھی اب بالکل بھی نہیں ہوتی شاید چیف صاحب سمجھے کہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی آئے،ریلوے،تعلیم یا پولیس کا کوئی افسر اس بدکاری میں ملوث ہے جن کی کرپشن کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان اشتہاری ہو کر گھوم رہے ہیں اسی لیئے تو آپ کو فوری طور سخت غصہ آیا لیکن چیف صاحب میں آپ کو حلفیہ کہتا ہوں کہ کراچی کی عدالتوں سے جو اتنی بڑی تعداد میں ملزمان ضمانت کے نام پر جعلی دستاویزات کے زریعے فرار کروائے گئے ہیں اس ساری بدعنوانی میں پاکستان ریلوے،پی آئی اے،پاکستان اسٹیل مل یا ان جیسے بدنام زمانہ اور رسوائے زمانہ اداروں کے افسران ملوث نہیں ہیں یہ سب آپ کے اپنے ادارے کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے
مافیا کی طاقت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب صوبہ سندھ کے سابق چیف جسٹس نے جعلی ضمانت کے کاروبار کے خاتمے کیلئے نادرا کی زیرنگرانی "ویریفیکیشن سینٹر" قائم کیا گیا تو مافیا نے اس کی بھرپور مخالفت کی سابق چیف جسٹس مجموعی طور بدعنوان عناصر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے لیکن سندھ ہایئکورٹ اور ملیر میں جعلی دستاویزات کا کاروبار کرنے والوں کے تابوت میں اسٹیل کی کیل ٹھوکنے میں کامیاب رہے لیکن کراچی کے چار ڈسٹرکٹ کورٹس (سٹی کورٹ) جوکہ پورے ایشیاء میں جعلی دستاویزات کی  کی سب بڑی منڈی ہے میں یہ نظام قائم کرنے میں ناکام رہے یہاں ایسا نظام قائم کرنا ناممکن ہے کیوں کہ اس سے بہت سے بااثر لوگوں کے مفادات ہیں کراچی کے ڈسٹرکٹ ملیر میں صرف سات دن میں "نادراکا ویریفیکیشن سینٹر" قائم کرنا اور سٹی کورٹ کے چاروں ڈسٹرکٹس میں مافیا کی خواہش پر پروگرام مؤخر کرنا کسی سانحے سے کم نہیں کیونکہ عدلیہ ہی سے منسلک لوگوں کے مالی مفادات اس سے منسلک ہے
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف الزامات ہی لگاتے ہیں ایسا ہرگز نہیں لیکن چیف صاحب کی دلچسپی کیلئے بتادیتے کہ کراچی کی ایک عدالت 2 نمبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ویسٹ آج سے ایک سال پہلے جعلی دستاویزات جمع کروا کر ملزمان کی رہائی کا سب بڑا مرکز تھی اس کے علاوہ ہرمال بکتا تھا ہر قسم کی کرپشن بھادری سے ہوتی تھی چیف جسٹس پاکستان آپ کے دائیں بائیں بیٹھنے والے اس سارے معاملے میں براہ راست ملوث ہیں کیا چیف صاحب اپنی (" منجی") چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنا پسند کریں گے
اس عدالت کے موجودہ جج  کا اس کاروبار سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کی پوسٹینگ سے پہلے کے سارے عدالتی ریکارڈ کا فرانزک ٹیسٹ کروائیں تمام اشتہاری ملزمان کی دستاویزات جو بطور ضمانت جمع کروائی گئی ہیں کا فرانزک ٹیسٹ کروائیں جن ملزمان کے کیسز ختم کیئے گئے ہیں ان کو ختم کروانے کیلئے جن جعلی رپورٹس کا سہارا لیا گیا ان کا بھی فرانزک ٹیسٹ کروائیں قتل اور ڈکیتی کے کیسز میں جن ملزمان کو ضمانت دی گئی کیا وہ ضمانت کے مستحق بھی تھے؟  لیکن یہ ساراکام سپریم کورٹ، پنجاب ہایئکورٹ یا ایف آئی اے کی زیر نگرانی کروائیں مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ان کو بے نقاب کرنا سندھ ہایئکورٹ کیلئے ممکن نہیں ویسے بھی اس عدالت میں فوجداری مقدمات کے عدالتی ریکارڈ کے نام پر اتنا ردی پیپر جمع ہے کہ حقائق کی تہہ تک پہنچنا کافی مشکل ہوگا ویسے بھی زمہ داران اتنا پیسہ بنا چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کاروائی سے ان کو نقصان نہیں ہوگا اور عدلیہ کی سادگی اور بندہ پروری کا یہ عالم ہے کہ ماضی میں بھی اگر کوئی جج کرپشن میں ملوث ہوتا تھا تو صرف استعفی لیکر فارغ کیا جاتا ہے قانونی کاروائی نہیں کی جاتی ایسے لوگ عدلیہ سے استعفی دینے کے بعد پیشہ وکالت میں آجاتے ہیں اور اس شعبے کی تباہی میں جو کسر باقی رہ گئی ہے اس کو پورا کرتے ہیں لیکن صوبہ پنجاب میں عدلیہ نے اپنے بدعنوان مجسٹریٹ کو ہتھکڑیاں لگوا کر اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر ایک نئی اور روشن مثال قائم کردی ہے سندھ ہایئکورٹ بھی تھوڑی سی ہمت کرلے   
چیف صاحب اگر مناسب سمجھیں تو اگر بااثر مافیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو کراچی کے چاروں ڈسٹرکٹس میں دستاویزات کی تصدیق کیلئے "نادرا کے ویریفیکیشن سینٹرز" قائم کرنے کے خصوصی احکامات جاری کریں
چیف صاحب کراچی کی عدالتوں سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کا مفرور ہوجانا ایک سنگین ترین مسئلہ ہے اور کراچی کے حالات کی خرابی میں ان اشتہاری ملزمان کا اہم ترین کردار ہے واقعی آپ کی عدلیہ کی نااہلی کی وجہ سے کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا  جہاں آپ پولیس افسران اور دیگر اداروں کے افسران کا احتساب کرتے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے وہیں آپ کا فرض ہے کہ جاتے جاتے اپنے گھر پر بھی تھوڑی سی توجہ دیکر جائیں یا آزاد عدلیہ کا زکر کرنا ہی چھوڑدیں