Powered By Blogger

Tuesday 31 December 2013

پپا اوتھ نہیں لینا

میں سخت پریشر میں تھا عدلیہ بحالی کی تحریک  ٹھنڈی پڑچکی تھی لیکن میڈیا کسی نہ کسی طرح اسے زندہ رکھے ہوئے تھا۔ پیپلز پارٹی کی  حکومت عدلیہ کی بحالی سے دلچسپی نہیں رکھتی تھی معاملات تیزی سے بدل رہے تھے اور ہرروز ایک نیا صدمہ سہنا پڑرہا تھا مضبوط ستون گررہے تھے اور عدلیہ بحالی کے رہنما بھی مایوسی کا اظہار کررہے تھے صرف عام وکیل اور نوجوان وکلاء ہی تھے جو تحریک سے مخلص تھے جس کی وجہ سے  وکلاء  تحریک چل رہی تھی میں پریشان تھا میں سوچ رہاتھا کہ حلف لوں یا نہ لوں دوستوں نے مشورہ دے دیا تھا کہ دوبارہ حلف لے لو اور جسٹس بن جاؤ ایمرجنسی بھی ختم ہوچکی ہے جمہوری حکومت ہے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا دوبارہ حلف لینا اور تھوکا ہوا چاٹنا ایک برابر تھا میں ساری رات پریشان رہا جاگتا رہا سوچتا رہا کہ کیا کروں اسی طرح صبح ہوگئی صبح کا اجالا پھیل گیا  بچے اسکول کے لیئے تیار ہوگئے میرا بیٹا میرے پاس آیا وہ اسکول جارہا تھا ۔وہ میرے پاس آیا اور کہا "پپا آپ پریشان ہیں پپا آپ اوتھ نہیں لینا" بس اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر دوبارہ اوتھ نہیں لوں گا یہ کہانی سن کر صوبائی سلیکشن بورڈ کے باقی چار ممبران کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہیں فخر کا احساس ہوا کہ وہ اس قومی ہیرو کے ساتھ سلیکشن بورڈ میں شامل ہیں جس کا نام عدلیہ کی تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا
اسی دوران ٹیلیفون کی کال آتی ہے  سلام کے بعدشاید پوچھا گیا کیا انٹرویو مکمل ہوگئے چیئرمین نے سعادت مندی سے کہا جی سر ہوگئے پھر کیا کرنا ہے   ایک ہزار میں سے تحریری امتحان کے بعد صرف سات امیدوار پاس ہوئے تھے جن کے انٹرویو کے بعدسات میں سے چار امیدواروں کو منتخب کرلیا ہے اور چاروں ہی اپنے شعبے میں ماہر ہیں ۔ تین امیدوار منتخب نہیں ہوسکے کیوں کہ دو امیدوار تو 1994 کے رولز کے مطابق امتحان میں شرکت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے بحیثیت جج ابھی ان کی سروس کو چھ سال مکمل نہیں ہوئے اس لیئے
لیکن ان تینوں کی تقرری تو لازمی کرنی ہے رولز کو گولی مارو وہ تو اپنے گھر کی کھیتی ہیں جانتے نہیں کہ عدلیہ آزاد ہے اور آزاد عدلیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ججز کی تقرری خود کرے
سر وہ تو ٹھیک ہے لیکن جو امیدوار رولز کے مطابق سیشن جج بننے کے اہل ہی نہیں ان کو کیسے  سیشن جج بنادیں اور ہم چند مجسٹریٹ صاحبان کو یہ بات  گزشتہ انٹرویوز میں تحریری طور پر بھی لکھ کردے چکے ہیں کہ  کیوں کہ ان کی سروس کو چھ سال مکمل نہیں ہوئے اس لیئے ان کو جج نہیں بنایا جاسکتا  اور اسی لیئے ان کا انٹرویو تک نہیں لیا تھا اگر ہم نااہل کو لیں گے تو یہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہوجائے گا جو کہ ایک جرم ہے اکیسویں صدی چل رہی ہے مسئلہ ہوجائے گا
صوبائی سلیکشن بورڈ کے ممبران دلچسپی سے قومی ہیرو کی گفتگو سن رہے تھے
سر مسئلہ ہوجائے گا بہت بڑا احتجاج ہوگا بارکونسلز ہیں مسائل  پیدا ہونگے
کال کرنے والے نے کہا انسان کو ایماندار ہونا چاہیئے لیکن ضرورت سے زیادہ ایمانداری مسائل پیدا کرتی ہے
چیئرمین نے کہا سر میں سمجھتا ہوں سب باتیں لیکن  لوگ ہم سے امید رکھتے ہیں ہم ان کی امیدوں کا کیا کریں اور لوگ مجھے عزت اسی لیئے تو دیتے ہیں کیونکہ میرا دامن صاف ہے  میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا میں اپنے بیٹے کو کیا منہ دکھاؤں گا
کال کرنے والے نے کہا بیٹا سمجھا کرو اب ایسا کرو کہ یہ تینوں اہل افراد جن کو نااہل قرار دیا ہے تینوں اپنے خاص لوگ ہیں اب ان کو ناراض بھی نہیں کرسکتے اس لیئے ایسا کرو کہ وہ چاروں جن کو منتخب کیا ہے جو عام گھروں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس کوئی سفارش نہیں ہے اتنی بڑی سیٹ پر ان کو نہیں بٹھا سکتے اس لسٹ کو پھاڑ دو اور تینوں افراد کو جج لگادو باقی یہ قوم احسان فراموش ہے اس قوم نے لیاقت علی خان کو  گولی ماری ہے بھٹو کو پھانسی لٹکا یا اس کی بیٹی کو گولی ماری اس قوم نے تمہاری ایمانداری کا کیا صلہ دینا ہے جہاں تک بیٹے کی بات ہے وہ ابھی بچہ ہے آہستہ آہستہ سمجھدار ہوجائے گا
جلدی جلدی لسٹ بناؤ   اور مجھے فیکس کرو میں انتظار کررہا ہوں
لیکن اگر بار نے احتجاج کیا تو بتا دینا میڈیا کو ہم نے میرٹ کی پاسداری کی ہے اور بار کے لوگوں کی پرچی نہیں مانی تو ہڑتالیں کرکے بلیک میل کررہے ہیں میڈیا تو ویسے بھی ہمارے ساتھ ہے  ڈرو مت کچھ نہیں ہوگا اب ہرجگہ میرٹ پر لوگ بھرتی ہونگے تو ہمارے بھانجے بھتیجے تو پھر گھر بیٹھ جایئں  
چیئرمین نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور فون بند کرکے  بورڈ کے ممبران کو  ایک قول سنا کرکہا کہ اچھا دوست وہ جو اپنے دوست کی  انکھ کے ابرو کے اشارے کو سمجھے یہ سن کر  باقی ممبران  اشارہ سمجھ گئے  میرٹ والی لسٹ کو پھاڑا اور پاؤں کے نیچے روند دیا اس کے بعد صاحب والی لسٹ کو اوکے کردیا گیا
چیئرمین یعنی پاکستان کے قومی ہیرو نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا
ہاں تو میں  اپنے بیٹے کی بات مان لی  اور میں نے اس دن فیصلہ کیا کہ محنت مزدوری کرلونگا لیکن دوبارہ حلف نہیں لونگا
ممبران  صوبائی سلیکشن بورڈمسکرائے اور لسٹ پر دستخط کردیئے
صفی الدین اعوان


Monday 30 December 2013

عدالتی وڈیرے اور ان کی بداخلاقی پر مبنی ویٹو پاور

لاء سوسائٹی پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عدلیہ کے حوالے سے   ان باتوں کا ذکر کیا جن کا ذکر کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا جس کرپشن کا ذکر کرنا لوگ مناسب نہیں سمجھتے جن کے نچوڑے ہوئے دامن سے فرشتے وضو کرتے ہوں لوگ ان کے بارے میں سننا نہیں چاہتے  اس میں کوئی شک نہیں کہ پورے پاکستان میں عدلیہ کے حوالے سے تبدیلی کی ایک لہر آئی ہے عدلیہ نے بھی اپنے دامن کو بچانے کی بھرپور کوشش کی اور جہاں جہاں عدالتوں نے محسوس کیا کہ ان پر الزام لگائے جاسکتے ہیں ان معاملات کو بہتر بنایا
اسی پالیسی کے تحت صوبہ بلوچستان،کے پی کے ،پنجاب اور اسلام آباد ہایئکورٹ  نے ججز کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ رولز بنالیئے ایک مکمل طریقہ کار بنالیا کہ  ایڈیشنل سیشن جج اور سول جج کی سیٹ پر تقرری کے بعد لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ مل سکے جن ہایئکورٹس کا ذکر کیا گیا ان کو اپنی عزت اور ساکھ بہت ہی زیادہ عزیز ہے اسی لیئے ججز کی تقرری کیلئے  عدلیہ کا "ویٹو" پاور ختم کردیا گیا یہ ایک اچھی بات ہے  کیا ہی اچھا ہوتا کہ سندھ ہایئکورٹ بھی اس حوالے سے رولز بنالیتی تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ ملتا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ ہایئکورٹ کو یا تو اپنی ساکھ عزیز نہیں یا وہ اپنی ججز کی تقرری کے حوالے سے حاصل بداخلاقی پر مبنی ویٹو پاور کو مزید انجوائے کرنا چاہتے ہیں  کتنا مزہ آتا ہوگا  (صوبہ سندھ کے ججز کی تقرری کیلئے تشکیل شدہ صوبائی سلیکشن بورڈ کے ممبران کو جو جسٹس صاحبان پر مشتمل ہے  )سندھ ہایئکورٹ کے جسٹس صاحبان کو جب کسی ذہین ترین نوجوان کو انٹرویو کے دوران ویٹو پاور استعمال کرکے اس کی قابلیت کو اپنے پاؤں کے نیچے رونددینے سے کتنا مزہ آتا ہوگا کتنا مزہ آتا ہوگا جب اکیسویں صدی میں  سوشل میڈیا کے دور میں سندھ کے پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو ہاری اور کسان کی طرح ہانک کر ویٹو پاور کے زریعے  "ریجیکٹ " کردیتے ہونگے
وہ وڈیرہ جو ظلم کرتا ہے اس کو ایک خاص تسکین حاصل ہوتی ہے جب وہ کسی غریب کو کسی ہاری کو ،کسی کسان اور مزارع کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں  وڈیرہ اپنی طاقت کو کیوں ختم کرے گا اگر وڈیرے کی طاقت ختم ہوگئی تو وہ یہ سوچتے ہیں کہ شاید ہمیں کوئی سلام بھی نہ کرے  سندھ ہایئکورٹ کا تشکیل شدہ سلیکشن بورڈ بھی عدالتی وڈیروں پر مشتمل ہے ایک خاص  مزہ آتا ہے جب ان کے ایک اشارے پر کسی کا مستقبل کا بلب فیوز ہوجاتا ہے   اور جس کا بلب چاہیں آن کردیں پھر جاکر میڈیا سے ایمانداری کی پی ایچ ڈی کی سند بھی لے لیں
صوبائی سلیکشن بورڈ نے جس طرح  ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کی تقرری میں دھاندلی کی اور اپنے اختیارات اپنی ویٹو پاور کا بے رحمی سے استعمال کیا ہے یہ سانحہ کسی درندگی سے کم نہیں  اور سلیکشن بورڈ کے عدالتی وڈیروں کو مزید درندگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی  صوبہ سندھ کا صوبائی سلیکشن بورڈ کب تک اپنی ویٹو پاور کے زریعے سندھ کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلتا رہے گا کب تک یہ عدالتی وڈیرے  میرٹ کو قتل کرتے رہیں گے
جب تک صوبہ سندھ کے نوجوان وکلاء خاموش ہیں یہ  عدالتی وڈیرے کیوں باقاعدہ رولز بنایئں گے سندھ میں ایک بہت بڑی تحریک کی ضرورت ہے 
ہمیں سوچنا چاہیئے سمجھنا چاہیئے   دباؤ ڈالنا چاہیئے چیف جسٹس پاکستان کو  بہت سے لوگ جب تک درخواست نہیں دیں گے جب تک ان کو ای میل نہیں کریں گے جب تک ہماری بار کونسلز ایکشن نہیں لیں گی سندھ کا سلیکشن بورڈ بکریوں کی طرح سندھ کے نوجوان وکلاء کو ہانکتا رہے گا
ہم بار بار اپنا مطالبہ دہرا رہے ہیں کہ ججز کی تقرری میں ججز کی ویٹو پاور ختم کی جائے اور باقاعدہ رولز بناکر جیسا کہ پورے پاکستان کی ہایئکورٹس بنا چکی ہیں  سوائے سندھ کے کیوں کے ججز کرپشن کرنا چاہتے ہیں بدعنوانی کرنا چاہتے ہیں اختیارات کا من چاہا استعمال کرنا چاہتے ہیں   لیکن ان کی ویٹو پاور ختم کرنے کا وقت آگیا ہے جیسا کہ پورے پاکستان کی ہایئکورٹس نے ججز کو صرف 100 نمبر دےکر ان کو اپنے اختیارات کی چھری چلانے سے روک دیا ہے ہم بہت جلد دیکھیں گے کہ سندھ میں بھی میرٹ پر ججز کی تقرری ہوگی

صفی الدین اعوان

Monday 23 December 2013

اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات اور شہری حقوق کی بات کرنا ایک گالی ہی تو ہے ہم غلطی پرتھے

پاکستان میں عدالتی اصلاحات کی منزل ابھی بہت دور ہے۔کیونکہ فرسودہ نظام کی جڑیں گہرائی تک موجود ہیں اور فرسودہ نظام کے محافظ انتہائی طاقتور ہیں
ایک کورٹ محرر ہی کو لے لیں بظاہر یہ معمولی سا شخص ہے  گزشتہ دنوں ایک مجسٹریٹ صاحب کی عدالت میں ایک کورٹ محرر اس طرح پیش ہوا کہ پان  چبارہا تھا یونیفارم تو وہ پہنتے ہی نہیں    سب سے بڑھ کر کورٹ میں ایک جعلی رپورٹ لگائی تھی مجسٹریٹ نے پوچھ گچھ کی تو ہنسنے لگا اور آئیں بایئں شایئں کرنے لگا اسی دوران موبائل فون بج اٹھا جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فوری کاروائی کی اور اس کو کورٹ ٹائم ختم ہونے تک ہتھکڑی لگا کرکمرہ عدالت میں ہی  قید کردیا اس حد تک تو یہ معمولی واقعہ ہے  بہت ہی معمولی واقعہ لیکن اصل واقعہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر بعد ایک سپریم کورٹ کے نامور وکیل صاحب آئے چیمبر میں کارڈ بھیجا جج صاحب نے بلالیا  وکیل صاحب نے کہا کہ  ہایئکورٹ کے بہت سے کام چھوڑ کر آیا ہوں مجسٹریٹ صاحب کو حیرت ہوئی کہ آخر کیا معاملہ ہے وکیل صاحب نے کہا کہ یہ کورٹ محرر اپنا بچہ ہے اور انتہائی شریف ہے  اس کو معاف کردیں  مجسٹریٹ صاحب نے کہا بڑی حیرت ہے آپ اتنی نامور شخصیت اور سفارش  کس کی کررہے ہیں خیر وہ صاحب چلے گئے کچھ دیر بعد تو تانتا ہی بندھ گیا ایک آرہا ہے تو دوسرا جارہا ہے  مختصر یہ کہ جج نے کسی کی نہیں مانی اور کورٹ ٹائم تک اس کو قید رکھا ایک وکیل صاحب نے تو فلسفہ بیان کیا کہ یونیفارم پہننے سے کیا ہوتا ہے  آخر کونسا پہاڑ گر پڑے گا
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات کی بات کررہے ہیں جس معاشرے میں ایک معمولی کورٹ محرر کو بچانے کیلئے سپریم کورٹ کے وکیل دوڑے چلے آتے ہیں جس کو بچانے کیلئے لوگ نئے نئے فلسفے گھڑ لیتے ہیں  ایک معمولی کورٹ محرر کو بچانے کیلئے جن عدالتوں میں لوگ لائن بنا کر کھڑے ہوجایئں اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات کی بات کرنا بھی ایک گالی ہے
کل مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں اور میرے دوست شدید غلطی پر ہیں  وہ  چند ججز  اور گنتی کے چند وکلاء جو ہماری حمایت کرتے ہیں ہم سب شدید غلطی پر ہیں  پاکستان میں فرسودہ نظام ہی رہنا چاہیئے فرسودہ نظام ہی اچھا ہے  اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات اور شہری حقوق کی بات کرنا ایک گالی ہی تو ہے
ہم غلطی پر تھے
صفی الدین اعوان


مجسٹریٹ صاب راستہ بدل کر نہ جایئں تحریر صفی الدین اعوان

2009 ٹنڈو محمد خان سندھ
ایک مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے دروخواست وصول نہیں کی اور سائل کو نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا دونوں میں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا ایس ایچ کو بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کیا افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ ہو مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے اس لیئے پہلے ان کی اپنی بدلی کروائی گئی اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
2011

پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کے ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم ہی ہیں لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت ان کو بری نہ کرتی تو ہم کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس کسی کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا

Saturday 21 December 2013

صوبہ سندھ کا ججز کی تعیناتی کا صوبائی سلیکشن بورڈ کا مطالبہ اور پانچوں ممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا مطالبہ

صوبائی سلیکشن بورڈ صوبہ سندھ نے 2013 میں 3 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منتخب کیئے جن میں سے دو ایسے امیدوار منتخب کیئے گئے جو سندھ جوڈیشل رولز کے مطابق بطور امیدوار امتحان میں شرکت کی بھی اہلیت نہیں رکھتے تھے
چیف جسٹس پاکستان محترم تصدق حسین جیلانی سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس سارے معاملے کا نوٹس لیں اس کی خود انکوائری کروایئں اور اس معاملے میں صوبائی سلیکشن بورڈ نے غلط سفارشات بھیج کر حکومت سندھ کے ساتھ 1994 کے جوڈیشل رولز کی خلاف ورزی کرکےدھوکہ اور فراڈ کیا ہے اس کے علاوہ  4 انتہائی اہل امیدواروں کی جگہ نااہل امیدواروں کو جج تعینات کیا گیا ہے اگر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ   دیگر  وہ فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے کر معاملے کی مکمل انکوائری کروایئں اور اگر الزام ثابت ہوں تو صوبائی سلیکشن بورڈ کے خلاف رجسٹرار سندھ ہایئکورٹ کی مدعیت میں صوبائی سلیکشن بورڈ کے پانچوں ممبران کے خلاف ایف آئی آر رجسٹرڈ کروا کر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ان کے خلاف کاروائی کی جائے چیف جسٹس صاحب اس معاملے میں بااثر افراد ملوث ہیں  اور صوبہ سندھ میں بار کونسل کی طرف سے ایک پریس کانفرنس اور عدالتی ہڑتال بھی ہوچکی ہے
چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ صوبہ سندھ کا صوبائی سلیکشن بورڈ فوری طور پر توڑنے کا اعلان کریں  اور اس معاملے کی انکوائری کرایئں کہ جب پاکستان کی چار ہایئکورٹس ججز کی سلیکشن کیلئے  سلیبس اور رولز بناچکے ہیں تو سندھ ہایئکورٹ نے کیوں نہیں بنائے اس لیئے فوری طور صوبائی سلیکشن بورڈ کو توڑنے اور دیگر ہایئکورٹس کی طرح سلیبس اور رولز تشکیل دینے کے بعد سول ججز کے انٹرویو ز اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ  سیشن ججز کے امتحانات منعقد کیئے جایئں
چاروں ہایئکورٹس میں ججز کی تعیناتی کے مکمل رولز،تفصیلی سلیبس اور انٹرویو کے نمبر تفصیلات  سے موجود ہیں ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں جبکہ سندھ میں ذاتی مرضی کی بنیاد پر سلیکشن ہوتی ہے  لیکن اب انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا


Friday 20 December 2013

ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر مجسٹریٹ منتخب کرنے کیلئے سندھ ہایئکورٹ کے سلیکشن بورڈ نے انٹرویوز کا آغاز کردیا

اسلام آباد ہایئکورٹ سمیت پاکستان کی تین صوبائی ہایئکورٹس نے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار سلیبس اور رولز بنادیئے ہیں کل نمبر 750 اور کالی شیروانی والوں کو انٹرویو کے 100 نمبر دیئے ہیں تاکہ وہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کسی غریب طالب علم کو فیل نہ کرسکیں صوبہ سندھ میں کوئی تحریری رولز اور دیگر ہایئکورٹس کی طرح سلیبس اس لیئے موجود نہیں کیونکہ کالی شیروانی والے اپنی پسند اور اقرباء پروری چاہتے ہیں اس لیئے وہ انٹرویو کے دوران جس کو چاہے رکھ لیتے ہیں جس کو چاہے فیل کردیتے ہیں چونکہ دیگر ہایئکورٹس نے شیروانی والوں کو نمبر ہی 100 دیئے ہیں اس لیئے کسی کے ساتھ من مانی نہیں کی جاسکتی جیسا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن ججز کی تعیناتی کے دوران من مانی کرکےصرف تین جج لیئے گئے جن میں سے دو تو سندھ جوڈیشل رولز 1994 کے تحت امتحان میں شرکت کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے جبکہ اہلیت رکھنے والے چار اہل افراد کو  وجہ بتائے بغیر فیل کردیا گیا کیا ان لوگوں نے سندھ کے باصلاحیت نوجوانوں کو ہاری کسان سمجھا ہے ؟ ان چار ذہین نوجوانوں میں کراچی ملیر کا ایک ذہین ترین نوجوان ہے جو کہ ایک مقامی لاء کالج میں پروفیسر بھی ہے واضح طریقہ کار کے بغیر سندھ ہایئکورٹ کے وہی ججز اور وہی بورڈ جنہوں نے میرٹ کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر سندھ جوڈیشل رولز 1994 کو پاؤں تلے روند کر سفارشی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج بھرتی کیئے اب وہی دوبارہ سندھ کے ذہین نوجوانوں سے انٹرویو لے رہے ہیں سلیکشن کا معیار وہی ہے زاتی پسند ناپسند 
اسلام آباد ہایئکورٹ کے رولز طریقہ کار نہ صرف ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں بلکہ اشتہار میں بھی طریقہ کار بیان کردیا گیا ہے ملاحظہ فرمایئے کیا پانچ افراد کو سندھ کے ذہین نوجوانوں کے مستقبل سے بار بار کھیلنے کی اجازت دی جاسکتی ہے
http://www.nts.org.pk/ntsweb/IHC_14_15_16_July2012/AD.pdf

Thursday 19 December 2013

سندھ میں ایڈیشنل سیشن ججز کی تعیناتی چند بے قاعدگیاں سندھ ہایئکورٹ وضاحت کرے تحریر صفی الدین اعوان

12 جنوری 2012
 سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے روزنامہ ڈان میں  اشتہار دیا گیا جس میں اہلیت رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئیں  کہ وہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی تعیناتی کے لیئے درخواست جمع کروایئں اہلیت کا معیار بحثیت ایڈوکیٹ 6 سال پریکٹس  2005 میں ترمیم شدہ سندھ جوڈیشل سروسز رولز کے تحت بحیثیت  عدالتی افسر 6 سال سے وہ  اپنےفرائض سرانجام دے رہا ہو اس اشتہار کے نتیجے میں 850 امیدوار اہل قرار پائے جن سے ایم سی کیو ٹیسٹ لیا گیا یاد رہے کہ سلیبس حاصل کرنا امیدوار کا پورا پورا حق ہے  اس لیئے پاکستان کی تمام ہایئکورٹس بشمول اسلام آباد ہایئکورٹ  سوائے سندھ ہایئکورٹ نے باقاعدہ سلیبس  مقرر کیا ہے تاکہ امیدوار اس کے زریعے تیاری کرکے امتحان میں شریک ہوسکیں سوال یہ ہے کہ سندھ ہایئکورٹ نے کیوں نہیں مقرر کیا؟ اس کی وجوہات آگے آئیں گی مقرر شدہ سلیبس کے بغیر سندھ ہایئکورٹ نے این ٹی ایس کے زریعے ٹیسٹ لیا جس میں 176 امیدوار پاس ہوئے جس کے بعد تحریری امتحان لیا گیا  جس میں پورے سندھ سے صرف  سات امیدوار پا س ہوئے ایک سخت قسم کے تحریری ٹیسٹ میں کامیاب ہونا کارنامہ ہی ہے بدقسمتی سے پہلے ٹیسٹ میں پورے صوبہ سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا  تحریری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل نہ کرسکا اور صرف ایک نمبر سے رہ گیا
این ٹی ایس کا( ایم سی کیو )ٹیسٹ کیونکہ کمپیوٹر چیک کرتا ہے اس لیئے اس پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھائی جاتی کیونکہ کمپیوٹر اقرباء پروری نہیں کرتا لیکن تحریری ٹیسٹ میں کیونکہ انسانی ہاتھ موجود ہوتے ہیں اس لیئے اس میں کرپشن کے بھرپور چانسز موجود ہوتے ہیں اس لیئے تحریری ٹیسٹ کا رزلٹ ہمیشہ مشکوک سمجھا جاتا ہے (ایک اہم نقطہ بعد میں آئے گا وہ یہ کہ بہت سے عدالتی افسران ایم سی کیو ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہوسکے اور بہت سے تحریری امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے یہ اہم نقطہ زہن میں رکھیں)
مختصر یہ کہ انٹرویو منعقد ہوئے پورے سندھ میں اس وقت نو سیٹیں خالی تھیں  جبکہ سات امیدوار کامیاب ہوئے  اور وہ امیدوار صوبائی سلیکشن بورڈ کے سامنے انٹرویو کیلئے پیش ہوئے
یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے  جو لوگ اس قسم کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں انہیں بے شمار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں  اور وہ بے تحاشا امیدیں وابستہ کرکے آتے ہیں مختصر یہ کہ انٹرویو ہوا  یہاں بھی وہی معاملہ کے ٹوٹل نمبر کتنے ہونگے؟ تحریری امتحان اور ایم سی کیو کو کس حد تک شامل کیا جائے گا اور انٹرویو کے کتنے نمبر ہونگے انٹرویو کا معیار کیا تھا کوئی پتا نہیں  مختصر یہ کہ مارچ میں انٹرویو ہوئے اور دوماہ کی تاخیر کے بعد صوبائی بورڈ نے اعلان کیا کہ صرف 3امیدوار، ان کے معیار پر پورا اترے ہیں دو کا تعلق عدلیہ سے اور ایک کا تعلق پراسیکیوشن برانچ سے تھا ایک امیدوار سہیل لغاری سندھ ہایئکورٹ میں بحثیت  جج نہیں بلکہ انتظامی فرائض سرانجام دے رہا تھا ایک ایسے بحرانی دور میں جب پورے سندھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کی 9 سیٹیں خالی تھیں  سہیل لغاری صاحب کو سندھ ہایئکورٹ نے کورٹ میں نہیں بھیجا بلکہ ان کے گریڈ میں اضافہ کرکے ان کو تاحال سندھ ہایئکورٹ میں ہی بطور ڈپٹی رجسٹرار رکھا گیا ہے
کیا سندھ ہایئکورٹ کسی قسم کی وضاحت پیش کرنا پسند کرے گی کہ محترم سہیل لغاری کو بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج تعینات کیا گیا تھا تو ان کو کیا رکاوٹ ہے بطور جج اپنے فرائض سرانجام دینے میں؟ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ سندھ ہایئکورٹ نے  جس اہل امیدوار کو  ایڈیشنل سیشن جج لگایا اس کو  ایڈیشنل سیشن کی ذمہ داری دینے کی بجائے بطور ڈپٹی رجسٹرار کا عہدہ دے کر بٹھانا کیا دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے؟ امتحان جج کی تعیناتی کا ہورہا ہے اور سندھ حکومت اس کو بطور جج تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کربھی دیتی ہے  لیکن اس جج صاحب نے تعیناتی کے بعد ایک دن بھی فرائض سرانجام نہیں دیئے وہ ایک دن بھی کورٹ میں نہیں بیٹھا کیونکہ سندھ ہایئکورٹ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اس لیئے ہم پورا پورا حق رکھتے ہیں کہ سوال کریں کہ آخر کیوں وہ شخص ایک دن بھی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے فرائض سرانجام نہیں دے سکا  جس کو سندھ ہایئکورٹ  کے سلیکشن بورڈ نے بطور جج تعینات کیا سلیکشن سے پہلے سندھ میں 9 سیٹیں خالی تھیں تین جج تعینات کیئے جانے کے باوجود سات سیٹیں کیوں خالی ہیں  اور تیسرا جج کہاں ہے اگر آپ نے اس کو جج لگایا ہے تو اس کی کورٹ کیا سیارہ مریخ پر ہے؟ اگر آپ نے اس کو ڈپٹی رجسٹرار 20 گریڈ کا لگایا ہے تو کیا آپ لوگوں نے جج لگانے کیلئے  ٹیسٹ لیا تھا یا ڈپٹی رجسٹرار لگانے کیلئے سندھ ہایئکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سہیل لغاری کا عہدہ  ریسرچ اور ریفارم ڈویلپمنٹ ہے ( الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کیلئے)
سندھ جوڈیشل رولز کے مطابق صرف وکلاء ہی امتحان میں شریک ہوسکتے تھے 2005 میں پہلی بار ترمیم کرکے عدالتی افسران کو  امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی لیکن شرکت کی قابلیت چھ سالہ صاف ستھرا  ریکارڈ ضروری تھا  چند عدالتی افسران نے جن کی سروس کم تھی کوشش کی کہ سروس کے ساتھ ان کا بطور وکیل عرصہ بھی شامل کیا جائے رولز میں ترمیم کی شرط کے ساتھ 2005 میں عدالتی افسران کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی لیکن جب رولز میں ترمیم نہیں ہوئی تو ماضی میں ان عدالتی افسران کو شامل نہیں کیا گیا ان سے انٹرویو کے دوران معذرت کرلی گئی کہ رول کے مطابق  کیونکہ ان کی سروس کم ہے  اس لیئے جب تک ترمیم نہیں کی جاتی ان کو شامل نہیں کیا جاسکتا میرا کالی شیروانیاں پہن کر بیٹھنے والوں سے سوال ہے کہ کیا سندھ جوڈیشل رولز میں تبدیلی کردی گئی ہے؟ کب کی گئی ہے؟ کس نے کی ہے؟ کب ایک عدالتی افسر کو بذریعہ سندھ ضوڈیشل رولز کی  سیکشن 8 (1) کی کلاز  (ڈی) میں ترمیم کرکے عدالتی افسران کو یہ نرمی دی گئی ہے کہ ان کے سروس کے تجربے کے ساتھ  ساتھ بار  میں بحیثیت گزارا گیا عرصہ بھی  شامل کرلیا گیا ہے اگر کوئی ایسی ترمیم دی گئی ہے تو اس کی ایک کاپی دی جائے یہ سوال اس لیئے کہ سندھ ہایئکورٹ کی اپنی ویب سائٹ پر موجود لسٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن ججز کی سینیارٹی لسٹ کے مطابق محترمہ صدف کھوکھر کا سینیارٹی نمبر 80 ہے  لنک مندرجہ زیل http://www.sindhhighcourt.gov.pk/subordinate/adj.pdf
آپ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق   جوسندھ ہایئکورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہےمحترمہ صدف کھوکھر کوبطور سول جج 11 نومبر 2007 میں عدلیہ میں شامل کیا گیا اور 15 مارچ 2012 کو جب انہوں نے دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق فارم جمع کروائے  تو ان کی سروس کو صرف  چار سال اور چند ماہ ہوئے تھے  اگر سندھ ہایئکورٹ کسی کی ذاتی جاگیر ہوتی کسی کا لی شیروانی والے کے دادا سگھڑدادا کاذاتی ورثہ ہوتی تو کوئی بھی  یہ سوال نہ کرتا لیکن سندھ ہایئکورٹ نہ تو کسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی کسی کا ذاتی ورثہ  ہے بلکہ سندھ ہایئکورٹ کو حکومت سندھ ہرسال اربوں روپے کے فنڈز تنخواہوں کی مد میں اور دیگر مراعات دیتی ہے  یہ تمام پیسہ کسی کالی شیروانی والے کے گھر سے نہیں آتا بلکہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع کرکے حکومت سندھ سندھ ہایئکورٹ کو ادا کرتی ہے  جس طرح باقی ادارے جواب دہ ہیں اسی طرح کالی شیروانی والے بھی جواب دہ ہیں کیسے آپ نے صدف کھوکھر کو رولز میں تبدیلی کیئے بغیر ایڈیشنل سیشن جج لگادیا یہ جواب کالی شیروانی والوں کو ہرحال میں دینا ہوگا فرشتوں کی طرح منہ بنا کر گھومنے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا کام بھی فرشتوں والے کرنے ہوتے ہیں
کسی صدف کھوکھر ہی کا راستہ روکنے کیلئے ہی  پاکستان کے  صوبہ بلوچستان ،صوبہ کے پی کے اور پنجاب میں یہ رولز  بنادیئے ہیں کہ    ایم سی کیو سے لیکر انٹرویو تک  کا طریقہ کار کیا ہوگا شفافیت کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے ہی ایک ایک بات کی وضاحت کردی گئی ہے تاکہ کسی کو بھی الزام لگانے کا موقع نہ مل سکے  کہ سلیبس کیا ہوگا۔ طریقہ کار کیا ہوگا 2010 میں یہ طریقہ استعمال ہوا کہ جس کے نمبر تحریری ٹیسٹ میں 39 اور 47 تھے اس کے نمبرز میں این ٹی ایس  پہلے ٹیسٹ کے نمبر شامل کرکے اس کو پاس کردیا گیا کیونکہ کوئی رولز موجود ہی نہیں اس لیئے تو ذاتی جاگیر سمجھ کر سارانظام چلایا جارہا ہے جبکہ 2012 میں پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا تحریری امتحان میں 59 نمبر لیکر فیل ہوجاتا ہے اس کو یہ رعایت نہیں ملتی  کیوں؟ جو رعایت 2010 میں تھی وہ 2012 میں کیوں نہیں؟ اور 2010 میں جس کو یہ رعایت ملی وہ کون تھے؟ کون تھے وہ لوگ آپ سے کیا تعلق تھا؟
سندھ ہایئکورٹ کو کرپشن اور فراڈ کے خاتمے کیلئے  شفافیت لانے کیلئے کسی نئی صدف کھوکھر کا راستہ روکنے کیلئے اب ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز کی تعیناتی کے ٹیسٹ سے پہلے ہی رولز بنانے ہونگے یہ طے کرنا ہوگا کہ سلیبس کیا ہوگا ؟  باقاعدہ سلیبس حاصل کرنا  امیدواروں کاحق ہےتحریری امتحان  کا سلیبس کیا ہوگا؟ پاسنگ مارکس کیا ہونگے؟  اور وہ مستقل رولز ہونگے سب سے اہم بات یہ کہ لسٹ کیسے فایئنل ہوگی ایم سی کیو اور   تحریری امتحانات کے نمبرز کی بنیاد کیا ہوگی اور انٹرویو کس حد تک اپنا کردار ادا کرے گا انٹرویو کے عمل کو بھی  شفاف بنانے کیلئے رول بنانے کی ضرورت ہے  جب پنجاب کے نوجوانوں کیلئے  مکمل رولز بنائے جاسکتے ہیں جب کے پی کے میں ججز کی تعیناتی کا مکمل طریقہ کار بیان کیا جاسکتا ہے  جب اسلام آباد ہایئکورٹ امتحانی رولز بناسکتی ہے جب بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے امتحانی رولز بنائے جاسکتے ہیں  تو سندھ میں کیوں نہیں میں الزام لگا رہا ہوں یہ رولز اس لیئے نہیں بنائے گئے کیونکہ اگر رولز بنا دیئے گئے تو پھر کسی صدف کھوکھر کو جج نہیں لگا یاجا سکے گا سب سے بڑا لطیفہ یہ کہ وہ ججز جو( ایم سی کیو) اور تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوگئے تھے ان کو جس دن تین امیدواروں کو بطور ایڈیشنل سیشن جج کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اسی دن  ان فیل امیدواروں کو محکمہ جاتی ترقی دے  دی گئی
اس معاملے پر  یہ بات تو واضح ہے کہ اب رولز کے بغیر کوئی ٹیسٹ  منعقد نہیں کرنے دیا جائے گا
سندھ ہایئکورٹ کے ان اقدامات کے خلاف  جون 2013 میں پورے سندھ کی عدالتوں میں سندھ بار کونسل احتجاجی ہڑتال کرچکی ہے اور پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات تاریخ کا حصہ ہیں جن کا آج دن تک سندھ ہایئکورٹ نے کوئی جواب نہیں دیا؟ اصولی طور پر ان کو جواب دینا چاہیئے تھا عوامی ردعمل کے نتیجے میں 20 عدالتی افسران کو دکھاوے کیلئے شوکاز نوٹس جاری کیئے گئے اگر سندھ ہایئکورٹ   نے ان کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے تو عوام کو آگا ہ کیوں نہیں کیا گیا؟  کیوں میڈیا میں اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ ججز کو شوکاز جاری ہوگئے ہیں
یہ تفصیلی مضمون کل تمام متعلقہ اداروں کو بھیج دیا جائے گا جس میں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ، سندھ بار کونسل، چیف جسٹس آف پاکستان،اسپیکر قومی اور صوبائی اسمبلی سندھ
جہاں تک تعلق ہے شناخت کا میرانام صفی الدین اعوان ہے سندھ بار کونسل سے انرولمنٹ ہے اور میرا انرولمنٹ نمبر/ 11949 ہے  میرا فون نمبر 03343093302 یہ تفصیل اس لیئے لکھ دی ہیں کیونکہ اس رپورٹ کی اشاعت سے روکنے کیلئے مجھے کل رات سے یہ دھمکی دی جارہی تھی اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر افواہیں اڑائی گئیں  کہ ایف آئی اے  کے سایئبر کرائم یونٹ والے میرے پیچھے ہیں وہ تحقیقات کررہے ہیں تو جناب ہم  اتنے کمزور ہر گز نہیں کہ کوئی ایف آئی والا گلاب جامن سمجھ کر کھا لے گا اگر کسی کو شوق ہے تو پورا کرلے
 کسی ادارے کو بدنام کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں جس ادارے کے حوالے سے بات کی جارہی ہے وہ خود کیوں نہیں وضاحت کرتا پبلک کے ٹیکس سے چلنے والے ادارے ہرحال میں عوام کو جواب دہ ہیں
تحریر صفی الدین اعوان






Wednesday 18 December 2013

فرسودہ نظام کے چہرے پر کالک ملنے کا وقت آگیا :: تحریر صفی الدین اعوان

پاکستان کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک نئی تبدیلی کی لہر آرہی ہے ۔ فرسودہ نظام سے بیزار نوجوان ججز دلیری اور بہادری سے نظام کے منہ پرکورٹ اسٹاف کی باتوں میں آئے بغیر "کالک مل " رہے ہیں ان  نوجوان ججز کی تعداد بڑھ رہی جن کے  دل میں انصاف کے نام پر ہونے والے مذاق کے خلاف بغاوت جنم لے رہی ہے۔گزشتہ دنوں دو اہم واقعات میں ایک نوجوان جج نے دو اہم فیصلے کیئے وہ فیصلے اگرچہ  یہ فیصلےمعمولی محسوس ہوتے ہیں لیکن جس بہادری سے کورٹ اسٹاف کی باتوں میں آئے بغیر  فرسودہ نظام کے منہ پر کالک پھیری گئی ہے وہ غیر معمولی ہے گزشتہ دنوں کراچی کے ڈسٹرکٹ وسطی میں ایک مجسٹریٹ کے پاس دوسری عدالت سے دو کیس ٹرانسفر ہوکر آئے ایک میں فوڈ انسپکٹر کا دعوی تھا کہ  اس نے ایک ہوٹل سے دو سیمپل لیئے ایک سیمپل گھی کا اور دوسرا "نمک" کا گھی کا لیبارٹری ٹیسٹ ٹھیک آیا ثابت ہوا کہ ہوٹل والا معیاری گھی استعمال کررہا تھا  جب کے نمک  مقرر شدہ اسٹینڈرڈ کے مطابق نہ تھا لیکن فوڈ انسپکٹر نے یہ الزام نہیں لگایا کہ کھانا بدمزہ تھا فوڈ انسپکٹر کی شکایت پر ایک مجسٹریٹ پیٹی بھائی "انتظامی" آرڈر پاس کرچکا تھا اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرچکا تھا جس کے بعد ہوٹل کا مالک ایک سال سے تاریخ پر تاریخ بھگت رہا تھا   اندازہ لگایئے کہ شاید پاکستان میں خلفاء راشدین کا دور لوٹ آیا ہمارے فوڈ انسپکٹر اتنے ایماندار ہوگئے کہ نمک کی ملاوٹ پر مقدمہ بنادیا سسٹم سے ہی بیزار نوجوان جج نے چالان پڑھا تو سارا معاملہ ایک منٹ میں سمجھ گیا  آپ لوگ بھی سمجھدار ہیں  کہ   ملاوٹ کیلئے نمک ہی کیوں ؟ جو صرف 5 روپے کلو بازار میں بکتا ہے اصل مقصد یہ تھا کہ  فوڈ انسپکٹر نے ہوٹل کے مالک کو دکھادیا کہ یہ دیکھو  میری طاقت میں چاہوں تو صرف نمک کے غیر معیاری ہونے پر  تمہیں کورٹ کچہری کا راستہ دکھا سکتا ہوں کیا اب فوڈ انسپکٹر 15 بندے لیکر ہوٹل میں پہنچ کر کھانا کھائے تو ہوٹل کا مالک پیسے مانگنے کی حماقت کرے گا  مختصر یہ کہ نوجوان جج نے  نظام کے منہ پر کالک ملنے کیلئے دراز سے  کالک نکالی فرسودہ نظام کے منہ پر خوب  کالک مل کر کورٹ محرر سے جعلی رپورٹیں لگوائے بغیر کہ گواہ نہیں مل رہے گواہوں کو پابند کردیا ہے گواہان کے قابل ضمانت  وارنٹ اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیئے  لیکن وہ کورٹ میں پیش نہیں ہورہے یہ سارا فراڈ کھیلے بغیر اس بے گناہ شخص کو فوری طور پر باعزت بری کردیا  بلاشبہ  اگرچہ یہ ایک معمولی کامیابی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت آنے والے وقت میں نوجوان ججز مزید بہادری کا مظاہرہ کریں گے دوسرا کیس ایک بوڑھے دودھ فروش کا تھا فوڈ انسپکٹر کا فرمانا یہ تھا کہ دودھ میں کوئی ملاوٹ نہیں لیکن چکنائی کی شرح کم ہے یہ بدنصیب بھی اس فرسودہ نظام کے تحت تاریخیں بھگت رہا تھا  اس کو بھی پہلی فرصت میں فرسودہ نظام کے منہ پر" کالک مل کر" باعزت بری کیا گیا عدالت نے وہ کام کیا جو اس کی زمہ داری تھی  لیکن اس سارے عمل میں اس  پہلےمجسٹریٹ کو بھی اکیس توپوں کی سلامی ہے جس نے فوڈ انسپکٹر کے فراڈ کو اپنے

 انتظامی حکم کے زریعے قانونی تحفظ دے کر خطرناک ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وارنٹ جاری کرکے ان کے گلے میں کورٹ میں پیشی کا ڈھول باندھ دیا

Tuesday 17 December 2013

کلمہ پڑھ کر کہو کہ میرے نام پر پیسہ تو نہیں لیا

یہ تین سال پرانا واقعہ ہے سیشن کورٹس ملیر میں  ایک ایماندار جج تھا۔ وہ تھا تو واقعی ایماندار لیکن بدقسمتی سے اس کو ایمانداری کے ساتھ ساتھ ایمانداری کا خطرناک قسم کا ہیضہ بھی تھا  وہ پوری ایمانداری سے کیس چلاتا تھا اور ایمانداری سے کیس کا فیصلہ کرتا تھا ۔جس کو باعزت طور پر بری کرنا ہوتا تھا اس کو چیمبر میں بلواتا تھا اور پوچھتا تھا  "میرے نام پر کسی کو پیسہ تو نہیں دیا۔میرے اسٹاف نے میرے نام پر پیسہ تو نہیں لیا ۔حلف اٹھا کر کہو کلمہ پڑھ کر کہو کہ تم نے میرے نام پر کسی کو پیسہ نہیں دیا" اس کے بعد اگلی تاریخ پر اس ملزم کو باعزت بری کردیتا تھا  خرانٹ قسم کے ایک اسٹاف نے اس بات کو نوٹ کرلیا اور نہایت ہی طریقے سے اب جج کے نام پر کرپشن کیسے ہوئی ملاحظہ فرمایئں
ایک دن میں ملیر گیا تو میرا ایک دوست جس کے کلایئنٹ کا کیس اسی عدالت میں چل رہا تھا وہ ایک تبلیغی قسم کے مولانا صاحب کے ساتھ تکرار کررہاتھا مولانا صاحب کی داڑھی ایک فٹ سے زیادہ لمبی تھی  وہ  مولوی صاحب کو پیسے واپس کرتا تھا جب کہ مولوی صاحب زبردستی اس کی جیب میں رقم ڈال رہے تھے نہیں یار مولانا صاحب تم اندر جائے گا زبان کھول دے گا یہ جج کا خاص پاس ورڈ ہے وہ چیک کرتا ہے کہ جو شخص رشوت دے رہا ہے وہ کل کہیں زبان نہ کھول دے مولانا کہتا تھا خدا کا قسم زبان نہیں کھولوں گا میرے دوست نے کہا وہ کلمہ پڑھوائے گا تم پر بھروسہ نہیں تم مولوی آدمی ہے تم زبان کھول دے گا تو جج ہمارا آئندہ کوئی بھی کام نہیں کرے گا  مولاناصاحب نے  منت سماجت کرکے زبردستی جج کے نام پر پچاس ہزار روپیہ دیا۔ایماندار جج صاحب نے حسب معمول مولوی صاحب کو بلوایا کہا کلمہ پڑھو مولوی صاحب نے کلمہ پڑھا جج صاحب نے کہا کلمہ پڑھ کر کہو کہ میرے نام پر کسی کو پیسہ تو نہیں دیا مولوی صاحب نے کہا نہیں  جج نے کڑک کر سچ سچ بتاؤ میرے اسٹاف نے پیش کار نے پٹے والے نے کسی نے میرے نام پر پیسہ تو نہیں لیا  مولوی صاحب نے کہا نہیں  ہم خدا کا قسم اٹھاتا ہے ہم کلمہ پڑھ کر کہتا ہے کہ تمہارے نام پر کسی کو کوئی پیسہ نہیں دیا جج نے کہا چلو جاؤ اگلی تاریخ پر آنا
مولوی صاحب  کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئےباہر نکلے کہتا ہے یار آپ کا اندر پکا سیٹنگ ہے اس خانہ خراب نے بالکل یہی باتیں پوچھی ہیں  خرانٹ اسٹاف نے کہا کرنا پڑتا ہے ایسا کل جو تم سندھ ہایئکورٹ میں جا کر درخواست دے دو پھر کیا ہوگاخیر مولوی صاحب اگلی تاریخ پر باعزت طور پر بری ہوگئے
یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ ہایئکورٹ کے پاس ایسا نظام موجود ہے جس کے تحت کوئی بھی جج ایک روپیہ بھی رشوت لے وہ چھپ نہیں سکتا ایماندار جج اپنی ایمانداری کے ہیضے کا خود ہی شکار ہوتا چلا گیا اس کا شمار بھی "ان" لوگوں میں ہونے لگا اس کا ریکارڈ اور عزت بھی خراب ہوئی آخر کار اندرون سندھ دور دراز شہر میں بھجوادیا گیا
ضرورت سے زیادہ ایمانداری اور ایمانداری کا اس قسم کا ہیضہ ججز کیلئے اکثر مسائل پیدا کرتا ہے جج صاحب کو چاہیئے تھا کہ وہ سیدھا سیدھا کیس چلاتا اور ضابطے کے تحت کیس چلا کر فوری فیصلہ سنادیتا اس قسم کے ڈرامے کرنے  یعنی سائل کو چیمبر میں بلوا کر کلمہ پڑھوا کر کہ میرے نام پر کسی سے رشوت تو نہیں لی اور سائلین سے ایمانداری کی "پی ایچ ڈی" کی ڈگری لینے کی ضرورت ہی کیا تھی 
صفی الدین اعوان 

چیف جسٹس صاحب ڈسٹرکٹ کورٹس آپ کی منتظر ہیں

نئے چیف جسٹس کو کیا کرنا چاہیئے
ذاتی طور پر میں افتخار محمد چوہدری صاحب کو صرف "نشان منزل "سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان میں آزاد عدلیہ کی روایات ابھی مضبوط نہیں  عدلیہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے  اسی طرح پاکستانی معاشرہ بھی مسائل کا شکار ہے آئینی حقوق تو موجود ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کی روایات ابھی مستحکم نہیں ہیں عدلیہ کا "ازخودنوٹس" عدالتی دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن میں چند وجوہات کی بنیاد پر اس کو برا نہیں سمجھتا اہم وجہ یہ ہے کہ کافی مسائل ایسے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے حقوق مانگنے عدالت جاتا ہے  یا آئینی پٹیشن داخل کرتا ہے تو ریاست کی جانب سے اس کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ کراچی میں گٹر باغیچہ کے تمام پٹیشنرز موت کی گھاٹ اتارے جاچکے ہیں  بعد ازاں گٹر باغیچہ کو آبادی کیلئے الاٹ کیا گیا اسی طرح اسٹیل مل سے لیکر کرائے کے بجلی گھروں تک کے معاملات ایسے ہیں کہ پاکستان میں سول سوسائٹی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ  وہ ایسے معاملات عدالت میں لایئں اور پھر ریاستی تشدد کا سامنا کرپایئں  تنقید کے باوجود "ازخود " نوٹس  کی افادیت سے انکار ممکن نہیں  گزشتہ دنوں چیف صاحب نے میڈیا سے دور  رہنے کی جو پالیسی اختیار کی اس کو لوگوں نے پسند کیا  امید ہے چیف صاحب میڈیا سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے
افتخار محمد چوہدری صاحب سے لوگوں کو ایک ہی شکوہ تھا کہ انہوں نے ماتحت عدلیہ کو نظر انداز کیا میری چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ شیڈول بنائے بغیر انتہائی خاموشی سے کراچی تشریف لایئں اور سیدھا کراچی کے ڈسٹرکٹ کورٹس پہنچ جایئں   ایک دن کورٹ میں گزاریں لیکن کورٹ کی کاروائی معمول کے مطابق چلنے دیں  صرف مشاہدہ کریں کہ کیا ہورہا ہے   سیشن جج سے معمول کی ملاقات کے علاوہ بار سے بھی نہ ملیں کوئی میڈیا نہیں کوئی کیمرہ نہیں    آپ مشاہدہ کریں گے کہ ایک عام شہری کن مسائل سے دوچار ہے
  آپ سیشن ججز سے ریکارڈ طلب کریں کے گزشتہ پانچ سال کے دوران  پولیس افسران کے خلاف عدالت کے حکم پر جو مقدمات درج ہوئے ان کا اوریجنل ریکارڈ منگوا کر دیکھیں کہ کس طرح عدلیہ نے پولیس کو تحفظ فراہم کیا اور کیوں؟ آپ کراچی میں غیرقانونی حراست کے ان تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کریں  جن میں عدالتی بیلف نے تھانے پر چھاپے کے دوران شہریوں کو پولیس کی  غیرقانونی حراست سے نجات دلائی  لیکن بعد میں سیشن ججز نے عدلیہ اور انتظامیہ کی خاموش مفاہمتی پالیسی یا گٹھ جوڑ کے تحت اپنے چیمبر میں بٹھا کر چائے پلاکر ملزم پولیس افسران  کے خلاف  مقدمہ درج کیئے بغیرباعزت طور پر گھر جانے کی اجازت دے دی سیشن ججز سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور ایسا کیوں ہورہا ہے اس تمام کاروائی کے بعد   دیکھیں کہ کیا ہونا چاہیئے  آپ کی عدلیہ شہریوں کو کیا سہولت دے سکتی ہے لیکن عدلیہ کے پاس بہت سے پلان موجود ہیں جن کے مطابق وہ شہریوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب کے پاس ایک مکمل ورک پلان موجود ہے وہ 2005 میں کراچی میں ایک ماڈل عدلیہ کا پائلٹ پروجیکٹ کامیابی سے چلا چکے ہیں  ان کی خدمات لی جانی چاہیں  میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب نے ماتحت عدلیہ کا جو ماڈل 2005 میں پیش کیا تھا وہ حقیقت سے قریب ترین تھا   کم خرچ او ر بالانشیں بھی تھا اس ماڈل کے مطابق منہ زور وکلاء سے لیکر ہرقسم کی زمینی اور آسمانی بلاؤں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے  حیرت ہے کہ وہ ماڈل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا
عدلیہ کو متحرک کیا جائے کہ وہ کامیابی کی داستانیں سامنے لایئں  کہ کس طرح سے عدلیہ ہرروز شہریوں کے مسائل حل کرتی ہیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکے ججز کا مورال بلند کریں کہ  اگر ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہوں تو   ضابطے توڑ کر لوگوں کو انصاف فراہم کریں انصاف ضابطوں کا محتاج نہیں ہوتا  ماتحت عدلیہ کے ججز میں لیڈرشپ کی  شدید کمی ہے اس کو دور کرنے کیلئے   اقدامات کی ضرورت ہے

چیف جسٹس صاحب  ڈسٹرکٹ کورٹس  آپ کی عدلیہ کا وہ حصہ ہیں جہاں ہرروز لاکھوں کی تعداد میں شہری انصاف کے حصول کیلئے آتے ہیں بدقسمتی سے ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہونے والی کرپشن نے عدلیہ کو بدنام کیا لیکن یہ  حقیقت یاد رکھیں "سیشن عدالتوں میں پورا سال سو اوردوسو روپے کی ہونے والی کرپشن ایک طرف  اور عدالتی اوقات کار ختم ہونے کے بعد  جسٹس صاحبان کے چیمبر کے خفیہ راستے سے ہونے والا 5 کروڑ روپے کا (اسٹے) حکم امتناعی ایک طرف"

Sunday 15 December 2013

چیف جسٹس آف پاکستان محترم تصدق حسین جیلانی نے پاکستان کے بدمعاش اور بلیک میلر میڈیا کیلئے کام کرنے سے واضح انکار کردیا


 چیف جسٹس آف پاکستان محترم تصدق حسین جیلانی  نے پاکستان کے بدمعاش اور بلیک میلر میڈیا کیلئے کام کرنے سے واضح انکار کردیا 
چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے دور کے دوران خود اور سپریم کورٹ کو غیر ضروری میڈیا پبلسٹی  اور پاکستان کے بلیک میلر اور بدمعاش میڈیا سے زیادہ سے زیادہ دور رکھنے کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ ہفتہ کے روز چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعدپہلی مرتبہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری آمد کے موقع پر بھی ان کو دیئے جانے والے گارڈ آف آنر اور سلامی کی کوریج کرنے کی اجازت نہ تھی ، عین وقت پر چینلز کو اجازت دی گئی ۔مگر اس تقریب کو اتنی عجلت میں ختم کردیا گیا کہ چینلز کے کیمرہ مین صحیح طرح فوٹیج بھی نہ بنا سکے۔ بعد ازاں صحافیوں نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا  شاید وہ  صحافی چیف صاحب کے زریعے اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانا چاہتے تھے یا سپریم کورٹ میں زیرالتواء ٹیکس سے متعلق کیسز میں مزید ریلیف چاہتے تھےمگر چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ صحافیوں کو باعزت طور پر چائے پلا کر ان سے ملاقات کے حوالہ سے معذرت کرلیں۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے میڈیا پرغیر ضروری پبلسٹی نہ کرنے کے حوالہ سے بھی بعض ہدایات جاری کی ہیں۔


Friday 13 December 2013

14 دسمبر 2013 الیکشن کراچی بار ایسوسی ایشن

کراچی بار ایسوسی ایشن اعصاب شکن جوڑ توڑ عروج پر پہنچ گئی۔کل کے بدترین دشمن آج کے دوست بن گئے اور 21 سال پرانی دوستیاں اور تعلقات ٹوٹنے کے بعد پرانے دوست سیاسی دشمن بن گئے کل بہت سے لوگوں کی کراچی بار سےسیاسی موت ہوجایئگی لمحہ بہ لمحہ نئے اور غیر پایئدار سیاسی اتحاد بن رہے ہیں نئے سیاسی  دوستوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہر ایک بغل میں سیاسی خنجر لیکر دوسرے کو سیاسی طور پر ذبح کرنے کے درپے ہے کل کراچی بار کی تاریخ کے اہم ترین الیکشن ہونگے کروڑوں روپیہ لگ چکا اور کروڑوں کے اخراجات کا سلسلہ جاری
پاکستان میں بار کی سیاست کے اہم ترین سیاسی ٹایئکون منیر اے ملک کے گروپ کیلئے اور ان کے سابق دوستوں  کے لیئے  جو اس سال آمنے سامنے ہیں ہرلحاظ سے کراچی بار اسیوسی ایشن 2013 کے انتخابات اہمیت رکھتے ہیں پاکستان بار کونسل ،سپریم کورٹ بار ،سندھ بار کونسل اور وکلاء تنظیمیں آج منافقت پر مبنی اہم ترین جوڑ توڑ کریں گے

Wednesday 11 December 2013

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان کو میڈیا چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کی لاعلاج بیماری سے محفوظ فرما



اللہ تعالی سے دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان کو میڈیا چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کی لاعلاج بیماری سے محفوظ فرما اور ڈسٹرکٹ عدلیہ کے مسائل کے بارے میں سوچنے کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ نئے چیف جسٹس کو ایک سال کیلئے ایسی بیماری لگا دے کہ ان کو پاکستان کے بدمعاش میڈیا کے کیمروں سے ہی الرجی کا مرض لگ جائے تاکہ وہ کیمروں کی چکاچوند اور واہ واہ کے نعروں سے دور رہ کر کچھ عدالتی نظام کی بہتری خصوصاً ڈسٹرکٹ کورٹس  کیلئے سوچ سکیں (آمین)

Monday 9 December 2013

دوسری قسط مجسٹریٹ کا انٹرویو

روزمرہ مسائل کے حوالے سے "ایک مجسٹریٹ کا انٹرویو" پیش کیا گیا  پوری دنیا میں موجود اردو زبان کے پڑھنے والوں نے اس کو پسند کیا ۔ پاکستان میں سرگرم عمل وکلاء تنظیموں نے پسند کیا  دوسری قسط میں تفصیل سے بات ہوگی صرف مسائل پر  ، ٹرانسفر کس طرح ہوتے ہیں پالیسی کیا ہے۔ کیا ججز پروموشن پالیسی سے مطمئن ہیں۔کیا  اقرباء پروری موجود ہے؟ اقرباء پروری کس حد تک ہوتی ہے، پروموشن کیلئے کارکردگی کو اہمیت دی جاتی ہے یا چاپلوسی کو ۔ ایم آئی ٹی  کس طرح متاثر کرتی ہے ۔ڈائرکٹ  تقرریوں میں ججز کو نظر انداز کرنے سے کس حد  تک مایوسی پھیلی ۔ ججز کس قسم کی پروموشن پالیسی چاہتے ہیں۔ ملزم عدالتوں سے کیوں  آزاد ہوجاتے ہیں۔ پولیس کی تفتیش ناقص ہے یا عدالتی نظام ۔عدلیہ کی بنیادی اکائی کو کس حد تک نظر انداز کیا گیا؟ مسائل کا حل ججز کیا سوچتے ہیں ۔ کیا سزا و جزا کا کوئی نظام موجود ہے ۔ اچھا کام کرنے والے کی تعریف ہوتی ہے یا آزمایئشوں سے گزرنا پڑتا ہے  ججز کے بچے کس طرح ٹرانسفر پالیسی کی وجہ سے تعلیمی مسائل کا شکار  رہتے ہیں  ایسے بہت سارے مسائل شیئر کیئے جائیں گے بہت جلد

Saturday 7 December 2013

جوڈیشل مجسٹریٹ کا تفصیلی انٹرویو

انٹرویو کسی کے خیالات  جاننے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے ایک ایسے وقت میں جب  عدلیہ انتہائی نازک  دور سے گزررہی ہے اور عوام الناس میں غلط فہمیاں عام ہیں تو ہم نے کوشش کی ایک مجسٹریٹ سے انٹرویو کے زریعے ان کے خیالات جاننے کی وہ مسائل جاننے کی جن سے وہ دوچار رہتا ہے
مجسٹریٹ  عدالتی نظام کی بنیادی اکائی ہے اور کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ بنیاد کی مضبوطی سے لگایا جاسکتا ہے عدالتی نظام کی یہ بنیاد کن مسائل کا شکار ہے اور کتنی مضبوط ہے کوشش کی ہے کہ سوالات کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا رہے
انٹرویو کا مقصد اصلاح تھا تو شناخت کو چھپالیا گیا  تاریخ اور واقعات میں معمولی ترمیم کی اس لیئے ایک فرضی نام کے طور پر مجسٹریٹ کا نام ہے" سچل"
سوال: سچل صاحب یہ بتایئں کہ کس طرح اس شعبے میں آئے؟
سچل: میں نے   شوقیہ طور پر اندرون  سندھ وکالت کا پیشہ جوائن کیا تھا اور اللہ کی مہربانی کے اچھے سینئر ملے بعد ازاں وکالت کا تجربہ اچھا رہا اسی طرح 2002 میں مجسٹریٹ کی سیٹیں آئیں تو آخری دن فارم بھرا بعد ازاں سلیکشن ہوئی میرٹ پر اور اندرون سندھ ہی ایک ضلع میں پوسٹنگ ہوئی

سوال: ایک مجسٹریٹ کی زندگی اور کیئرئیر میں بحثیت جج پہلا دن،پہلا مہینہ  کتنی اہمیت رکھتا ہے؟

جواب : پہلا دن ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ پہلے ہی دن ایک وڈیرے کا جس کی ضلع میں 400 ایکڑ زمین تھی  نے ایک غریب کسان  جس کی صرف ڈیڈھ ایکڑ زمین تھی کے بیٹے جس کی عمر 16 سال تھی کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا اور پولیس ریمانڈ کیلئے اس کو اس حالت میں زنجیروں سے  جکڑ  کر لائی کہ اس  کی قمیض پھٹی پرانی اور پاؤں میں جوتے بھی نہ تھے   وہ بچہ تھر تھر کانپ رہا تھااور یہ صورتحال ایسی تھی اس غریب کسان کے بیٹے کی آنکھوں میں جو درد تھا  جوڈر تھا جو خوف تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا اس صورتحال  نے مجھے شاک سے دوچار کیا مختصر یہ کہ اس جھوٹے مقدمے میں اس بچے کو ذاتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا جس کے بعد  پولیس افسران میں ہلچل مچ گئی کیونکہ وڈیرہ بااثر تھا اور سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا چند منٹ کے بعد ایڈیشنل ایس ایس پی کی کال آئی  اتفاقاً وہ افسر میرے ضلع کا تھا نہایت ہی بے تکلفی سے گفتگو شروع کردی اور مختصر تمہید کے بعد کہا کہ ایک عرض ہے کہ اس بدمعاش لڑکے  کا  چند روز کا ریمانڈ دے دیں  معاملہ عزت کا بن گیا ہے یہ سن کر میں نے کہا کہ شاید آپ کے پولیس افسران کو یہ بھی نہیں پتا کہ کم عمر بچوں کو ہتھکڑی  لگا کر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا دوسرا یہ کہ اگر آئیندہ میری عدالت میں  کسی بھی کم عمر بچے کے ساتھ ایسا ہوا تو بلاتکلف آپ کے پولیس افسران کو جیل بھیج دوں گا  جس کے بعد پولیس افسر نے کال کاٹ دی مختصر یہ کہ پہلا ہی دن ہنگا مہ خیز رہا بعد ازاں پورا مہینہ یہی صورتحال رہی  اس وقت اندرون سندھ وڈیرہ شاہی عروج پر تھی  لیکن اب صورتحال پہلے سے بہتر ہے لیکن بہرحال خراب ہے پولیس  ان کے ذاتی ملازم کے طور پر کام کرتی تھی  اور کرتی ہے پہلے ہی دن سماجی تعلقات داؤ پر لگنا شروع ہوئے سماج سے رشتہ ٹوٹنا اور انسانیت سے رشتہ جڑنا شروع ہوا
پہلا مہینہ مکمل ہوا تو دوسرا شاک اس وقت لگا جب ماہانہ تنخوا کا چیک وصول ہوا  تنخوا اتنی کم تھی کہ وکالت کے دنوں میں اتنے پیسے دوستوں  اور کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے تھے جس کے بعد والد صاحب کو بتایا کہ عہدہ تو اچھا ہے کیونکہ وہ میری کارکردگی سے خوش تھے   لیکن تنخوا بہت کم ہے  اس لیئے میں شاید عدلیہ میں اپنا کیرئیر جاری نہ رکھ سکوں جس کے بعد والد محترم نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ یہ عہدہ پیسے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کا ہے کچھ عرصہ کرو پھر دیکھیں گے دومہینے کے بعد والد محترم نے مجھے ایک معقول رقم بھجوائی جس  سے میں نے (اے سی ) لگوایا اس زمانے میں اندرون سندھ کسی جج کی جانب سے (اے سی) لگوانا یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کررہا ہے یا لگژری لائف کی علامت سمجھا جاتا تھا میرے ایک قریبی عزیز کی کال آئی کہ سنا ہے (اے سی ) لگوالیا ہے میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے  میں نے کہا والد نے دیئے ہیں  اے سی کے اخراجات کیسے برداشت کروگے میں نے کہا کہ جس طرح باقی لوگ کرتے ہیں بل تو آتا ہی نہیں پوری کالونی کنڈا لگاتی ہے ہمارے تو سیشن جج کا گھر بھی کنڈے پر چل رہا ہے تو میرے قریبی عزیز نے کہا کہ جج ہوکر بجلی چوری کروگے یہ سن کر مجھے افسوس ہوا  غلطی کا احساس ہوا میں نے دوسرے ہی دن الیکٹرک کمپنی کے لیگل ایڈوایئزر کو بلوا کر میٹر لگوایا اگرچہ یہ باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہیں لیکن یہی باتیں کردار متعین کرتی ہیں

سوال: پہلا سال کیسے گزرا؟
پہلا سال  کسی بھی جج کیلئے بہت اہم ہوتا ہے لوگ سفارش کیلئے دوستوں اور عزیز واقارب سے رابطے کرتے ہیں  رشوت کی آفرز ہوتی ہیں اکثر لوگ گھر تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح وہ دوست جن کے ساتھ وکالت میں وقت گزارا لوگ ان تک پہنچتے ہیں سفارش کرواتے ہیں
ایک بار قریبی عزیز ایک لاکھ روپیہ لیکر آگیا کہ فلاں کا کام کردو میں نے نہایت طریقے سے منع کیا اس کو سمجھا کر واپس کردیا۔ دوستوں کو اہمیت نہیں دی تو سماجی تعلقات خراب ہوئے جو بعد ازاں چند سال بعد اس وجہ سے بحال ہوئے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش نہیں مانی  بنیادی طور پر خاندان اور ذاتی ترجیحات بھی اہمیت رکھتی ہیں  جب خاندان توقع رکھتا ہے کہ ہم  غلط کام کریں تو لوگ مجبور ہوجاتے ہیں جب خاندان ہدایت دیتا ہے کہ حق حلال کما کر لاؤ تو انسان ثابت قدم رہتا ہے جب آپ اپنی اہلیہ کے ہاتھ پر حق حلال کی کمائی رکھتے ہیں اور وہ اسی کم آمدن پر صابر وشاکر رہتی ہے  تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے لیکن لوگوں کو اپنے کام نکلوانے ہیں وہ اپنے مسئلے سے اور عدالت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کسی بھی جج کے کردار کی گواہی اس کا ذاتی اسٹاف ، اس کا پٹے والا،اس کا ریڈر اور ڈرایئور دیتے ہیں  پہلے مرحلے میں لوگ انہی کے زریعے  کوشش کرتے ہیں کہ کام کیسے نکلوایئں  جج سفارش مانتا ہے یا پیسے لیتا ہے اس کا قریبی دوست کون ہے کس کی بات نہیں ٹال سکتا یہ وہ باتیں جن سے ہرجج کو گزرنا پڑتا ہے  میری عدالت میں میرے آبائی ضلع سے لوگ میرے پرانے دوستوں کو تلاش کرکے لائے اور وہ جب میری عدالت میں آئے تو میں نے ان کی سفارش کو نہیں مانا میرٹ پر ان کا جو بھی ریلیف بنتا تھا دیا جس کی وجہ سے دوست ناراض ہوئے لیکن پہلے سال کی مشکلات کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوگیا  اور اس کے بعد  یہ سلسلہ ختم ہوا کافی عرصہ ہوا  نہ تو کوئی سفارش لیکر آیا نہ کسی نے آفر کی ہمیں لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ وہ اسقدر دوڑ دھوپ کیوں کرتے ہیں  بنیادی طور پر بعض اوقات جائز کام کیلئے بھی ناجائز زرائع استعمال کیئے جارہے ہوتے ہیں  اگر جائز کام فوری کردیئے جایئں تو لوگ اس قسم کی دوڑ دھوپ کیوں کریں؟

سوال: بعض اوقات پرانے دوستوں کو اہمیت تو دینا ہی پڑتی ہے؟

جواب : جج بن جانے کے بعد سماجی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں  انسانیت سے رشتہ جوڑنے کیلئے تعلقات اہمیت نہیں رکھتے   جب آپ ایک دوست کی سفارش مانیں گے تو یہ خبر باقی دوستوں تک پہنچے گی  اس طرح قطار بن جائے گی اسی طرح ایک بلاوجہ کی بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہوگا ہاتھ صاف نہیں ہونگے تو  اعتماد ختم ہوجائے گا سماجی تعلقات کے چکر میں انسان انصاف سے دور ہوجاتا ہے

سوال: کیا کبھی کسی سیشن جج نے کسی کام کیلئے دباؤ ڈالا؟

جواب: جی ہاں لیکن صرف ایک بار واقعہ یہ تھا کہ میں نے ایک بااثر پولیس افسر کو جرم ثابت ہو نے پرسزا سنائی  اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دیر بعد میرے سیشن جج کی کال  میرے سیل فون پرآئی اور کہا کہ پولیس افسر کے معاملے میں نظر ثانی کریں میں نے کہا کہ میں تو گھر آگیا ہوں یہ سن کر سیشن جج آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ جانتے ہو کس سے بات کررہے ہو میں فلاں ہوں میں نے کہا کہ بالکل جانتا ہوں لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں سچل بات کررہا ہوں یہ سن کر انہوں نے کال منقطع کی بعد ازاں اپیل میں سیشن جج نے اس پولیس افسر کو باعزت بری کردیا اسی طرح ایک پولیس افسر نے ایک وڈیرے کے حکم پر ایک بچے کو  جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے گرفتار کرنے کے بعدتھانے میں کرسی پر بٹھا کر بجلی کے تار سے  نہایت ہی ظالمانہ طریقے سےجکڑا   اور گھر چلا گیا اس دوران وہ بجلی کے تار  اس کے جسم میں اتر گئے  وہ شدید زخمی ہوگیا لیکن ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ پولیس افسر  دوسرے دن  ریمانڈ کے دوران خودکشی کے مقدمہ بھی بناکر لے آیا کہ اس ملزم نے بلیڈ مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے  میں نے میڈیکل کروایا  جس سے بلیڈ مارنا ثابت نہیں ہوا یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے تار سے ملزم کو جکڑا گیا تھا کیس رجسٹر کرکے ٹرائل کیا شواہد مضبو ط تھے سزا سنائی یہ  پولیس افسر بھی  سیاسی طور پر طاقتور تھا ججمنٹ جاندار تھی سیشن جج نے رہا تو نہیں کیا دوبارہ ٹرائل کروا کر گواہ منحرف کروائے گئے اس طرح پولیس افسر کی جان بچائی گئی یہ دو انفرادی واقعات تھے  جو کہ پورے 11 سال کے کیئرئر میں پیش آئے  اس کے بعد  کبھی کسی سیشن جج نے میرے اختیارات میں مداخلت نہیں کی

سوال: وکلاء کا رویہ کیسا رہا ؟

جواب: اندرون سندھ بار اور  وکلاء کا رویہ ججز کے ساتھ بہت اچھا ہے وہ کورٹ اور جج کا ادب کرتے ہیں  اور کبھی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتے نہ ہی شور شرابہ کرتے ہیں  مجھے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اندرون سندھ   کسی وکیل سے کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی اور نہ ہی بار سے کوئی شکایت رہی نہ ہی بار کی جانب سے کبھی مجھ پر کبھی کوئی دباؤ رہا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ میرا دامن صاف ہے   اس کی  ایک  اور وجہ سندھ کی وہ ہزاروں سال پرانی روایات ہیں  جس کے تحت وہ جج کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ کبھی پیش آیا بھی ہوگا تو میرے علم میں نہیں یہاں تک کے عوام الناس میں بھی احترام ہے

سوال: لیکن وکلاء اور ججز کے تعلقات خراب رہتے تو ہیں؟

جواب: میرے علم میں نہیں  میں خود غلط نہیں ہوں تو کوئی مجھے غلط کام کرنے کا نہیں بولتا  نہ ہی کوئی پریشر ڈالتا ہےمیں صرف اتنی بات جانتا ہوں۔ جن کے تعلقات خراب ہیں وجہ بھی وہی جانتے ہونگے

سوال:بحیثیت جج کراچی کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: کراچی کا تجربہ بھی ٹھیک ہی ہے  شروع شروع میں کچھ  لوگوں نے شور شرابہ کیا  لیکن جب میرا اپنا دامن صاف ہے تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ایک بار ایک اہم شخصیت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ  بڑے ہی غصے میں کمرہ عدالت میں تشریف لائے اور اوپن کورٹ میں کہا کہ ہم آپ کی تنخواہوں میں اضافے کےلیئے سپریم کورٹ تک  گئے اور آپ ہمارے خلاف ہی فیصلے دے رہے ہیں میں نے تحمل سے کہا کہ میں نے کب کہا ہے آپ کو کہ میری تنخواہ میں اضافے کیلئے آپ کوشش کریں یا سپریم کورٹ جایئں    یہ فیصلہ میرٹ پر کیا ہے کسی کے خلاف نہیں یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے اور عدالت سے چلے گئے بہرحال سیشن جج نے ان کا کیس میری عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا مختصر یہ کہ  ایک دومعمولی واقعات کے بعد یہاں بھی صورتحال ٹھیک ہوگئی  نہ ہم غلط کام کرتے ہیں اور نہ ہی غلط بات برداشت کرتے ہیں ہماری ایمانداری ہمارا اصل اعتماد ہے
 
سوال: کوئی بھی جج پہلی غلطی کب کرتا ہے؟

جواب: پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ کسی جاننے والے کی یا کسی دوست کی سفارش مان لیتا ہے یہی غلطی کرپشن کے سارے راستے کھول دیتی ہے اور جج خود اعتمادی سے محروم ہوجاتا ہے جج کو انسانیت سے رشتہ جوڑنا چایئے لیکن میں کہتا ہوں "بے درد نامرد" جس جج کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے انسانوں کے دکھ اور درد کو محسوس نہ کرسکتا ہو تو میرا خیال ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ  ایسے ایماندار جج جس کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو اس سے وہ جج بہت بہتر ہے جو پیسے لیکر کم ازکم کام تو کردیتا ہے
انسانیت کا درد محسوس کیئے بغیر جج کا عہدہ بے معنی ہے

سوال:  کیا عدلیہ  فرسودہ نظام کو ختم کرسکتی ہے؟

جواب: بالکل اگر  نچلی سطح پر توجہ دی جائے تو عدلیہ فرسودہ اور ظلم کے نظام پر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے
سوال : وقت کے ساتھ بحیثیت جج کیا تبدیلی آئی؟

جواب: پہلے جب لوگ سفارش کرواتے تھے تو چڑ کر ان کے خلاف فیصلے دے دیتا تھا لیکن اب کوشش ہوتی ہے کہ انصاف کیا جائے لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو لوگ سفارش تلاش نہیں کریں گے

(یہ ایک طویل انٹرویو کی پہلی قسط ہے   یہ ایک ابتدایئہ تھا کیونکہ آگے چل کر ایسے مسائل کی نشاندہی کی جائے گی جن کے زریعے پورے نظام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے)

Friday 6 December 2013

ججز کے تفصیلی انٹرویوز کے زریعے مسائل کی نشاندہی

ایک مجسٹریٹ کے کیا مسائل ہیں؟ ججز کیا سوچتے ہیں؟ ججز کو پروموشن کے حوالے سے کیا مسائل ہیں؟ کیا دباؤ ہوتا ہے۔ وکالت کا معیار کیا ہے اور کیا وکلاء تیاری کرکے عدالت میں آتے ہیں وکلاء سے کیا شکوے اور شکایات ہیں کیاوکلاء اور ججز کے درمیان کمیونیکیشن گیپ موجود ہے کیا ایک جوڈیشل مجسٹریٹ اور سول جج کا ہر وقت کورٹ روم میں بیٹھنا ضروری ہے رولز کیا کہتے ہیں ایسے بے شمار سوالات کے جوابات  تفصیلی انٹرویوز کے زریعے ہم نے تلاش کیئے ہیں چند ایڈیشنل سیشن ججز اور مجسٹریٹس کے انٹرویو ان کی شناخت چھپانے کے بعد اصلاح کے نقطہ نظر سے بہت جلد لاء سوسائٹی پاکستان ان انٹرویوز کی وسیع پیمانے پر اشاعت کرے گی ماتحت عدلیہ کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے یہ انٹرویوز اہم سنگ میل ثابت ہونگے

مطمئن افتخار چوہدری کا رنج ٭٭٭ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو

نو مارچ سنہ 2007 کو افتخار محمد چوہدری کے انکار سے جنم لینے والی سپریم کورٹ نے پچھلے ساڑھے پانچ برس میں جو چاہا سو کیا۔
پرویز مشرف کے اقدامات کے حامی ایک سو کے لگ بھگ چھوٹے بڑے ججوں کو گھر بھیجنے سے این آر او کو کالعدم قرار دینے تک۔
اور پھر آئندہ ماورائے آئین تبدیلی کا راستہ روکنے کے لیے آئین کے آرٹیکل چھ کا تشریحاتی دائرہ بڑھایا اور آنے والی اعلیٰ عدالتوں کو بھی پابند کردیا کہ وہ کسی بھی طالع آزما کے ماورائے آئین اقدامات کے حرام کو حلال قرار نہیں دے سکتیں ورنہ فیصلہ دینے والے جج بھی آرٹیکل چھ کی زد میں ہوں گے۔شائد اسی لیے قومی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق آمر پر آرٹیکل چھ کے تحت جیسا کیسا مقدمہ قائم ہو سکا۔
نئی جنمی سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم کو کٹہرے میں بلایا۔ ان میں سے ایک کو صدرِ مملکت کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے پر پرائم منسٹر ہاؤس سے نہ صرف ملتان واپس بھجوا دیا بلکہ جاتے کے سیاسی اٹیچی کیس کو اگلے پانچ برس کے لیے سربمہر بھی کردیا۔چنانچہ اگلے وزیرِ اعظم کی کیا مجال کہ خط نہ لکھتا۔بلکہ اس نے تو سوئس حکام کو ایک کے بجائے دو دو خط لکھ دیے۔
(ایک خط میں مقدمات کھولنے کا مطالبہ اور دوسرے میں یہ مطالبہ پورا نہ کرنے کا مطالبہ۔گویا ایک خط سے عدالت کو اور دوسرے سے صدرِ مملکت کو راضی کر دیا۔نتیجہ ڈھاک کے تین پات)۔
نئی نئی توانائی سے سرشار سپریم کورٹ نے پیٹرول اور چینی کی قیمت سے لے کر احتسابی ادارے نیب کے تین سربراہوں کو فکس کرنے تک۔سٹیل مل کی ارزاں فروخت رکوانے سے لے کر میمو گیٹ، نیشنل انشورنس، حارث سٹیل، اوگرا، رینٹل پاور، کراچی بدامنی، ری پبلک آف بحریہ ٹاؤن، این ایل سی کے جرنیلی گھپلوں تک ہر مشکوکیت کا نوٹس لیا۔کچھ کو خود طلب کیا تو کچھ نیب کے حوالے کر دیے تو کچھ کیس آہستہ روی کے فرمے پر چڑھا دیےگئے کہ فرصت سے دیکھیں گے۔
ساٹھ سالہ بے عملی کی خاک جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہونے والی نئی سپریم کورٹ نے پچھلوں کی طرح صرف یہ انتظار نہیں کیا کہ مسئلہ خود چل کے آئے تو دیکھیں گے۔ جو مسئلہ خود چل کے نہیں آیا اسے ازخود نوٹس کے ذریعے چلوا دیا اور جس نے بھی زنجیر ہلائی اسے اندر بلایا ضرور۔
پچھلے 65 برس میں یہ پہلی سپریم کورٹ ہے جس کا میڈیا دیوانہ ہے کیونکہ عدالت نے بھی تو ہر چھوٹے بڑے مقدمے کی سماعت کے دوران میڈیا کو اپنے تبصروں، دلچسپ رولنگز اور تلخ و شیریں مزاجی اتار چڑھاؤ کے من و سلوی سے مالا مال کیے رکھا اور بریکنگ نیوز کی ندیدی ضرورتوں کو کما حقہہ سمجھا۔ اس دوران فیصلے تو بولے ہی بولے معزز جج بھی خوب بولے۔
مختصر یہ کہ افتخار محمد چوہدری کی سپریم کورٹ کا دوسرا اور تیسرا جنم ہنگامہ خیزی اور معنویت سے بھرپور رہا اور اب گیارہ روز بعد چیف صاحب کورٹ نمبر ایک کا چوبی انصافی ہتھوڑا اپنے جانشین کے حوالے کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ شائد وہ دوبارہ قانونی پریکٹس میں آنے یا قانون پڑھانے کے امکانات پر غور کریں۔ شائد اپنی ہنگامہ خیز یادداشتیں لکھنے کے بارے میں سوچیں’ایڈوکیٹ جنرل سے جنرل تک ‘۔۔۔
یا پھر گھر کے لان میں پودوں کو پانی دیتے ہوئے ارسلان کے سوالیہ نشان پر دھیان دیں۔ یا سردیوں کی دھوپ سے سنہری ہوتے لان میں چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ کو اوپر جاتے دیکھ کر اس خیال کی گرفت میں آ جائیں کہ انفرادی مگرمچھوں پر کمند ڈالنے میں جتنا وقت صرف ہوا۔اس سے آدھا وقت اگر منہ زور وکیلوں اور مظلوموں کی آہوں کے بوجھ سے کراہتے زیریں عدالتی ڈھانچے کو درست، پاک اور الف کر دینے پے لگا دیا جاتا تو کیسا ثوابِ جاریہ ہوتا۔
یا پوری ریاستی سویلین مشینری کو چوبی کٹہرے میں پسینوں پسینی پنجوں کے بل کھڑا کر کے نقد بیستی کے مناظر یاد کرتے ہوئے بالکنی میں کھڑے کھڑے بےدھیانی میں مسکرا دیں اور پھر اچانک یہ سوچ کر رنجیدہ سے ہو جائیں کہ ساری عدالت ایک طرف خفیہ کا کرنل ایک طرف۔
کون کہتا ہے دیوتا بے بس نہیں ہوتے۔


Thursday 5 December 2013

عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارنے کی تیاریاں مکمل ضرورت سے زیادہ لالچ اور اقرباء پروری اصل وجہ


عدلیہ کی آزادی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ عدلیہ کو ججز کی تعیناتی میں مکمل آزادی حاصل ہوگی بدقسمتی سے اس آزادی کا درست استعمال نہیں ہوا ۔اقرباء پروری کا سب سے بڑا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب جب ایک ٹریبونل کی سربراہ کو ایڈیشنل جج سندھ ہایئکورٹ لگانے کی کوشش کی گئی تو سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ  ٹریبونل کا عہدہ  سیشن جج کے برابر تو ہے لیکن سیشن جج نہیں  جس کے بعد اس اعتراض کو دور کرنے کیلئے  ان کو سیشن جج لگایا گیا اور قانونی تقاضہ پورا کرکے ان کو ایڈیشنل جج سندھ ہایئکورٹ لگادیا گیا اس دوران جوڈیشل کمیشن میں جو ڈرامے ہوئے اور جس طرح مختلف تقرریاں کی گئیں وہ ایک الگ داستان ہے کیونکہ اسٹیک ہولڈرز کہتے تھے بے شک سپریم کورٹ کے تمام جسٹس اپنی بیویاں ہایئکورٹ کے جج لگا دیں لیکن تھوڑا ہمارا بھی " حصہ" رکھو مل جل کر کھاؤ اکیلے مت کھاؤ اس سارے چکر میں  اقرباء پروری کی تعریف ہی بدل گئی چند لوگوں کی ضرورت سے زیادہ لالچ اور ندیدے پن نے عدلیہ کی خودمختاری کو ہی داؤ پر لگا دیا
پارلیمینٹیرین کے پا س سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ  وہ دیکھو فلاں سپریم کورٹ کے جسٹس نے اپنی بیوی کو ہی  کنفرمیشن کی ٹھوس ضمانت  کے ساتھ جج لگا کر عدلیہ کی آزادی کا ثبوت دے دیا ہے 
مختصر یہ ہے کہ چند لالچی افراد نے اقرباء پروری کے ریکارڈ توڑ کر عدلیہ  کی آزادی پر شب خون مارنے کی راہ ہموار کردی ہے
آج  روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی رپورٹ  ملاحظہ فرمایئں


 "پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر، حکومت اور اپوزشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ملک کی آزاد عدلیہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں جس کے تحت اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے اختیار کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اس اقدام پر کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرے گی لیکن امکان ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی، ایم کیو ایم وغیرہ سینیٹ میں ایک بل پیش کریں گے جس کے تحت ججوں کے تقرری کے معاملات میں جوڈیشل کمیشن پر پارلیمانی کمیٹی کو فوقیت دی جائے گی۔ گزشتہ حکومت میں اتحادی جماعتیں، پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم اپنے دور حکومت میں عدلیہ پر تنقید اور ججوں کے تقرر کے معاملے میں پہلے ہی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ لیکن اب اقتدار میں آنے کے بعدمسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے بھی پاکستانی عوام کی امیدوں کا مرکز سمجھی جانے والی عدلیہ پر تنقید کرنا شروع کردیا ہے۔ پس پردہ بات چیت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدلیہ پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ حکومت اس ملک کواپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر چلانا چاہتی ہے اور عدلیہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ جس آزاد عدلیہ کا سہرا مسلم لیگ (ن) اپنے سر باندھتی ہے اب وہی جماعت اسے ایک رکاوٹ سمجھنے لگی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کھل کر اب بھی عدلیہ کے خلاف بات کرنے سے ہچکچا رہی ہے لیکن جو کچھ سینیٹ میں نواز لیگ کے قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے کیا وہ سیاست دانوں کی عدلیہ کو کمزور کرنے کی پالیسی کا حصہ تھا تاکہ ججوں کے تقرر کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر سینیٹر نے ایوان بالا میں پیر کو اشارتاً بتایا کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ججوں کے تقرر کا معاملہ شفاف ہونا چاہئے تاکہ کوئی بھی تقرری کے عمل پر انگلیاں نہ اٹھا سکے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشنز کے ساتھ مشاورت کے بعد ججوں کے تقرر کے معاملے پر ایک سب کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف اداروں کے درمیان کشیدہ تعلقات نہیں چاہتے۔ اس کی بجائے اہل اور لائق افراد کا تقرر کرنے کیلئے ایک شفاف طریقہ کار ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سب کمیٹی نے سینیٹر فاروق نائیک سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے اور کام مکمل ہونے پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے 9؍ ارکان میں سے 6؍ جج ہیں اور کوئی سیاسی بنیادوں پر مقرر شخص نہیں ہے۔ ان کی رائے تھی کہ ججوں کے تقرر کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کا کردار بہت محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یا تو اس کمیٹی کو ختم کردیا جائے یا پھر کمیٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مناسب میکنزم مرتب کیا جائے۔ سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ، دونوں، کو ججوں کے تقرر کے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ پارلیمنٹ کی خودمختاری قائم کی جا سکے۔ سینیٹر زاہد خان نے تجویز دی کہ اپوزیشن اور حکومت کو اس معاملے میں کوئی متفقہ حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہاتھ ملا لینا چاہئے۔ حاجی محمد عدیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی صرف پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس کے پاس جوڈیشل کمیشن کی سفارشات منظور کرنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ ق لیگ کے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے کا درست وقت ہے۔ 18ویں ترمیم کے مطابق، چیف جسٹس پاکستان کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کو ججوں کے تقرر کے معاملے میں فوقیت حاصل ہوگئی۔ بعد جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ہائی کورٹس کے 6 ایڈیشنل ججوں کو عہدوں میں توسیع دینے کی تجویز کو پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے مسترد کیے جانے کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کا جائزہ سپریم کورٹ کی عدالتی نظرثانی کے زمرے میں آتا ہے۔ عدلیہ کی جانب سے ایگزیکٹو کے غلط کاموں اور بے ضابطگیوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے دیکھ کر سیاست دان اب چاہتے ہیں کہ جو کچھ پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم کے معاملے میں کیا وہ سب دوبارہ ختم کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی، سیاست دان سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے بھی بے چین ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے از خود نوٹسز کو عوام امید کی آخری کرن سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گمشدہ افراد کے کیس میں ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں لیکن یہ سپریم کورٹ ہے جس نے از خود نوٹس کے ذریعے ہی مداخلت کی اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو ختم کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاست دان اب وکلا برادری میں کچھ گروپوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات اور ججوں کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھائیں۔


پولیس اسٹیٹ پاکستان


یہ دو مہینے پرانا واقعہ ہے
کراچی کے ضلع وسطی کا ایک طالب علم گھر سے  فوٹو کاپی کرانے موٹرسائیکل پرنکلتا
 ہے ۔اور گھر واپس نہیں آتا گھر والے تلاش کرتے ہوئے تھانے تک پہنچ جاتے ہیں اور روزنامچے میں اندراج کروادیتے ہیں اپنے بچے کی گمشدگی کا کہ ان کا بچہ لاپتہ ہوگیا کچھ دیر بعد اینٹی کار لفٹنگ سیل کی جانب سے کال آتی ہے بچہ ان کی تحویل میں ہے اہل خانہ تڑپ کر تھانے پہنچتے ہیں تو پولیس کی وردی میں ملبوس "اغواءکار پانچ لاکھ روپیہ "تاوان" دینے  کا مطالبہ کردیتے ہیں اہل خانہ جب رقم کا انتظام نہیں کرپاتے تو 491 ضابطہ فوجداری کے تحت پٹیشن فائل کردیتے ہیں کورٹ کا بیلف جاتا ہے تو وہاں ایک کی بجائے دو افراد کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا ہوتا ہے ان نوجوانوں پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوتا بیلف رہا کرتا ہے اور دوسرے دن جب معاملہ سیشن کورٹ تک آتا ہے تو سیشن کورٹ کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے بھگا دیا جاتاہے  پولیس کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ ان افراد کے پاس  موٹرسائیکل  کےکاغذات نہیں تھے  انجن نمبر،چیسس نمبر اور رجسٹریشن نمبر کی جانچ پڑتال فرانسسک ڈیپارٹمنٹ سے کروائی گئی ہے تو وہ درست ثابت ہوئے ہیں بدقسمتی دیکھ لیں کہ سیشن جج  نے نہ تو پولیس اہلکاروں کو کوئی سزا دی اور نہ ہی بچے کو اس کی موٹر سائیکل واپس کی
کچھ دن بعد وہی بچہ موٹر سائیکل واپسی کی درخواست  اپنے علاقہ مجسٹریٹ کے پاس دائر کرتا ہے تو وہی پولیس افسر جس نے  491 ضابطہ فوجداری کی کاروائی کے دوران تسلیم کیا ہوتا ہے کہ موٹرسائیکل کا انجن نمبر،چیسس نمبر اور رجسٹریشن نمبر فرانسسک ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق کروائے گئے ہیں وہ علاقہ مجسٹریٹ کو ایک نئی رپورٹ دیتا ہے کہ نمبر مٹے ہوئے ہیں اور جعل سازی کی گئی ہے خیر موٹرسائیکل تو بچے کو واپس مل ہی گئی  اور ممکن ہے کہ عدالت سرکش پولیس افسر کے خلاف مقدمہ بھی قائم کردےلیکن یہ واقعہ بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے کہ سیشن جج کی کیا ذمہ داری تھی  کیا موجودہ بگڑے ہوئے حالات میں صرف ڈانٹنے سے کام چل جائے گا
گزشتہ دنوں احمد صبا صاحب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ کا واقعہ لکھا تھا جنہوں نے ایک 15 دن کے بچے کی برآمدگی کیلئے حکم جاری کیا  اور تھوڑی سی توجہ دیکر برآمد کروا بھی لیا   اسی طرح گزشتہ مہینے  (اے وی سی سی )کے آفس سے اس وقت کے سیشن جج ساؤتھ  غلام مصطفی میمن کے حکم پر  لوگوں کو برآمد کیا گیا جس کے بعد ایس ایس پی سمیت اعلی افسران کو بلوایا گیا تھا اس واقعے میں بھی سیشن جج نے ایک سخت رویہ اختیار کیا اور تاحال معاملہ لٹکا ہوا ہے
پولیس کی خفیہ ایجنسیاں کہتی ہیں کہ بیلف کے چھاپے تفتیش کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں  کیونکہ (اے وی سی سی) سےبرآمد کیئے گئے افراد "اغواء برائے تاوان" کی واردات میں ملوث تھے جو رہا ہوگئے ہیں جناب معاملہ بالکل صاف ہے پولیس قاعدے قوانین کی پابندی کرے اور کسی بھی ملزم کو گرفتار کرکے اس کی گرفتاری ظاہر کردے اور عدالت میں پیش کرے جب پولیس قانون کے مطابق  گرفتاری ظاہر نہیں کرتی تو اس کے نقصانات تو ہونگے
لیکن اصل حقائق تلخ ہیں پورا پاکستان حقیقی معنوں میں پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے پولیس شہریوں کے اغوا کے درپے ہے پولیس ہرروز شہریوں کو اغوا کرتی ہے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھتی ہے اور تاوان وصول کرکے چھوڑ دیتی ہے اور روزانہ ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں واقعات  صرف کراچی میں پیش آرہے ہیں جب کے عدلیہ روایتی طریقے سے کام کررہی ہے جو کہ اب غیر مؤثر ہوچکے ہیں مجموعی  طور پر صورتحال عدلیہ کے قابو سے باہر ہوچکی اور پاکستان پولیس اسٹیٹ بن چکاہے

https://www.facebook.com/notes/tls-pakistan/%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D9%B9-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86/735541219806781
یہی وجہ ہے کہ لاء سوسائٹی پاکستان 2014 کو پاکستان سے غیرقانونی حراست کے خاتمے کے سال کے طور پر منارہی ہے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر 
 شروع ہونے والی مہم سارا سال جاری رہے گی