Powered By Blogger

Friday 28 February 2014

عام آدمی اور انصاف

کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے یہاں پر ہرروز مختلف کمپنیوں کے حصص یعنی شیئرز کا لین دین ہوتا ہے  سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کروڑوں روپے کا کاروبار آج بھی زبانی بنیادوں پر ہوتا ہے
ایک زمانے میں شیئرز ایک سرٹیفیکیٹ کی صورت میں ہوتے تھے۔اسٹاک مارکیٹ کے بروکرز ایک ہال میں جمع ہوتے تھے جہاں پر شیئرز کا لین دین ہوتا تھا سرٹیفیکیٹس لہرا لہرا کر مختلف کمپنیوں کے شیئرز کا لین دین ہوتا تھا۔ وہ شیئرز کی لین دین کا فرسودہ نظام تھا۔بہت بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود حجم بہت کم تھا ۔مارکیٹ کے گیٹ پر "دلال" کھڑے ہوتے تھے جو مارکیٹ میں آنے والے عام شہریوں سے شیئرز اونے پونے داموں "ٹھگ" لیتے تھے یہی وجہ تھی کہ اسٹاک مارکیٹ میں عام شہری رخ نہیں کرتا تھا  پھر حکومت نے اسٹاک مارکیٹ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا "اصولی" فیصلہ کیا لیکن بہت سے کنویں کے مینڈک اور مافیاز یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی ناممکن ہے ہم ہمیشہ اسی طرح اپنی اجارہ داری قائم رکھیں گے اسی طرح  ھال میں جمع ہو کر بروکرز مچھلی بازار کی طرح آوازیں لگا کر شیئرز کا لین دین کریں گے اور ایک مخصوص طبقہ اپنی اجارہ داری قائم رکھے گا۔ بے وقوف یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی ناممکن ہے اور تبدیلی کی بات کرنے والے ہی بے وقوف ہیں پھر پتہ چلا کہ سوفٹ ویئر بن رہا ہے کچھ عرصے بعد یہ خبر آئی کہ تمام ممبرز کو کمپیوٹرز فراہم کردیئے گئے ہیں پھر ایک اور خبر آئی کہ اسٹاف کو ٹریننگ دی جارہی ہے اس دوران یہی سمجھا جاتا رہا کہ یہ دیوانے کا خواب ہے اسٹاک مارکیٹ کبھی کمپیوٹرائزڈ ہو ہی نہیں سکتی پھر پوری مارکیٹ کو ایک سینٹرل نظام سے منسلک کردیا گیا۔بالآخر ایک دن یہ خبر بھی آگئی کہ کل سے لین دین ھال میں نہیں ہوگا بولی لگانے کیلئے آوازیں نہیں لگائی جائیں گی بلکہ لین دین بزریعہ کمپیوٹر آن لائن ہوگی ۔ فرسودہ نظام سے فائدہ حاصل کرنے والوں نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا مارکیٹ کریش ہوگئی۔ایک ہنگامہ آرائی تھی جو جاری تھی۔بہت سے ممبران کے آفسز میں کمپیوٹرز بھی "دلال " مافیا نے توڑ دیئے تھے  یہاں تک کہ فرنیچر تک کی توڑ پھوڑ ہوئی تھی  ناممکن ناممکن کی صدا بلند کی جاتی رہی ۔شیئرز کی لین دین میں فراڈ کرنے والے دلالوں نے پوری پوری مزاحمت کی لیکن بالآخر اس وقت کے نوجوان طبقے نے تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرلیا وہ وقت کی آواز کو سمجھ گئے اور بالآخر مارکیٹ کمپیوٹرائزڈ ہوگئی جس کے بعد وہ مارکیٹ جس کا کل روزانہ کا حجم ہزاروں میں تھا نئے نظام کے بعد لاکھوں اور پھر کروڑوں تک جا پہنچا مافیا اپنی موت آپ مرگئے اور نئے لوگوں نے ان کی جگہ لے لی آج کراچی اسٹاک ایکسچینج میں ہرروز  کروڑوں شیئرز کا لین دین ہوتا ہے سرٹفیکیٹس ختم ہوگئے ہیں اور اربوں حصص  سی ڈی سی سسٹم کے تحت محفوظ ہیں آج  اسٹاک مارکیٹ کے کسی بھی گیٹ میں  دلال نہیں کھڑے ہوتے جو مارکیٹ میں نئے آنے والے شکار یعنی عام شہری کو ماضی میں لوٹ لیتے تھے  آج اسٹاک مارکیٹ کا ھال ویران ہوتا ہے اور وہاں ایک بہت بڑی کمپیوٹرائزڈ سکرین نصب ہے جس پر حصص کی لین دین کا احوال براہ راست آرہا ہوتا ہے
موجودہ عدالتی نظام بہت عمدہ ہوتا اگر آج 1934 ہوتا
1934 کے لحاظ سے یہ دنیا کا بہترین نظام ہے۔پولیس رولز دنیا کے بہترین پولیس رولز تھے لیکن 1934 میں  تھے۔ آپ پولیس رولز کی مضبوطی کا آج بھی اندازہ لگالیں کہ آج گئے گزرے دور میں بھی تھانہ مضبوط ہے۔یعنی تھانے کا روزنامچہ  اور ایف آئی آر رجسٹر آج بھی اتنا مضبوط ہے جتنا کہ ایک سوسال پہلے تھا ۔کیونکہ فرنگی  جو کام بھی کرتے تھے دل لگا کرکرتے تھے   لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اصلاحات کی ضرورت ہے
ڈسٹرکٹ کورٹس میں وکالت کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ ہے کم ازکم وکالت نہیں ہے  اور عدالت کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن  وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتا
حکومت سندھ نے ترامیم کی ہیں کہ موجودہ نظام میں ہی رہ کر ملزمان کو سزا دی جائے اس کے لیئے پولیس کے اختیارات میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ موجودہ نظام صرف اور صرف ایک دھوکہ ہے یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتا  کیونکہ 1934 کے زمانے میں سانس لینے والے نظام کیلئے ضروری ہے کہ قاتل گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تلوار سے قتل کرے اور فرار ہوجائے لیکن 1934 میں بھی تو پولیس فنگر پرنٹ لیتی تھی۔انگلیوں کے نشان سے ملزم ڈھونڈ لیئے جاتے تھے۔ پلاسٹر آف پیرس ڈال کر ملزم کے پاؤں کے نشانات محفوظ کرلیئے جاتے تھے۔ مخبری کا نظام آج سے زیادہ مضبوط تھا۔پولیس کو خوف ہوتا تھا افسران کا اور عدلیہ کا۔جی ہاں مجسٹریٹ کا خوف
آج بھی کراچی کی عدالتوں میں چند مجسٹریٹ ایسے ہیں جن کی حدود میں پولیس 550 ضابطہ فوجداری کے تحت گاڑی نہیں پکڑتی اور اگر پکڑ بھی لے تو اس کو تھانے سے مل جاتی ہے ۔پولیس مجسٹریٹوں کے خوف سے ایسا کرتی ہے  لیکن ان کی تعداد گنتی میں ہے۔ لیکن یہ انفرادی کام ہیں ۔ ضرورت سسٹم کی ہے ۔ماضی میں کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ 2005 میں کراچی کی ضلع شرقی کی عدالتوں کو ایک ماڈل منصوبے کے تحت آزمائیشی بنیادوں پر کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا تھا۔تمام کیسز کی ڈائری آن لائن تھی۔عدالتی فیصلے آن لائن تھے۔
لیکن اس ایک سال کے عرصے میں بھی کرپشن کا خاتمہ کردیا گیا تھا ۔لیکن اس زمانے میں تبدیلی کی تحریکیں مضبوط نہیں تھیں آج اگر عدلیہ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا اگر اس کی مخالفت کی تو نوجوان طبقہ بھرپور مزاحمت کرے گا۔
تبدیلی  کی لہر واضح ہوچکی ہے۔پرانا فرسودہ نظام دم توڑ چکا ہے۔ ایک لاش باقی ہے دیکھتے ہیں اس سڑی ہوئی لاش کی حفاظت  کب تک کی جاتی ہے۔جی ہاں موجودہ نظام میں ممکن ہی نہیں کہ کسی بھی شخص کو انصاف فراہم کیا جاسکے ۔
جس طرح اسٹاک مارکیٹ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تو بدعنوان عناصر نے ایک بار مارکیٹ کو کامیابی سے کریش کردیا تھا اسی طرح   جب "عام آدمی" کو انصاف دینے  کی کوشش آسان نہیں ہوگی یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم اور آپ سمجھتے ہیں

مجھے بہت خوشی ہے کہ جب کل کراچی بار ایسوسی ایشن کی قیادت نے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کی بات کی اگرچہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن آسان نہیں  کراچی بار ایسوسی ایشن کی قیادت سے ہمیں بے شمار توقعات وابستہ ہیں

پروین رحمٰن شہید کو خراج تحسین

شہری آزادیوں کے تحفظ اور شہری حقوق کیلئے پاکستان کی تین سماجی تنظیموں نے جب ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھی تو اس کا بنیادی سلوگن محترم شاہد قریشی نے دیا اسی فلسفے پر کام کرتے ہوئے یہ قرار پایا کہ اس حوالے سے ایک لوگو بھی بنایا جائے جس میں شہری آزادی کیلئے کام کرنے والی دنیا اور پاکستان کی شخصیات کو خراج تحسین بھی پیش کیا جائے ایک طویل بحث اور کئی طویل میٹنگز کے بعد بالآخر مندرجہ زیل چار شخصیات کو  گرین رنگ کے "لوگو" میں شامل کرلیا گیا ہے
قائد اعظم محمد علی جناح
بل گیٹس
نیلسن منڈیلا
شہید پروین رحمٰن
شہید پروین رحمٰن جنہیں کراچی میں 13 مارچ کو بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا ان کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے

      پروین رحمٰن نے اپنی تمام عمر غریبوں کی زندگیوں کو سہولیات دینے کے لیے وقف کر رکھی تھی اور وہ گزشتہ تیس برس سے اورنگی ٹاؤن کراچی میں بنگلہ دیش سے آنے والے  غریب مہاجرین کی خدمت کر رہی تھیں۔ پروین رحمٰن 1957ء میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ڈھاکہ ہی میں حاصل کی۔ 1982ء میں داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی سے آرکیٹکٹ میں گریجوایشن کیا۔ 1983ء میں انہوں نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ میں آرکیٹکٹ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ انہوں نے  شادی نہیں کی تھی اور اپنی زندگی سماجی کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ گلستان جوہر کراچی میں اپنی ضعیف والدہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
پروین رحمٰن کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی بستی اورنگی ٹاؤن میں ’اورنگی پائلٹ پروجیکٹ‘ اور ” اورنگی چیریٹیبل ٹرسٹ” کی ڈائریکٹر  تھیں، جس کے تحت غریبوں کو رہائش کی بہتر سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔
پروین رحمٰن پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھیں اور مختلف کالجز میں لیکچرار بھی تھیں۔ سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے کے باعث اُن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پاکستان کی اس عظیم بیٹی اور ہماری ہر دلعزیز بہن کو گزشتہ سال شہید کردیا گیا تھا ۔پروین رحمٰن کچی آبادیوں میں شہری اورتعلیمی سہولیات کے حوالے سے  سرگرم عمل تھیں    ہردلعزیز سماجی رہنما محترم انیس دانش سے مشورے کے بعد ہم نے نیٹ ورک کے" لوگو "میں پروین رحمٰن کی تصویر کو شامل کیا
ہمارے قابل احترام دوست شعیب صفدر گھمن کے مشورے سے قائداعظم محمد علی جناح کی تصویری شبیہ کو نئے لوگو میں شامل کیا گیا عظیم قائد کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں سب سے بڑی بات یہ کہ وہ وکالت کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک انتہائی قانون پسند شہری تھے
محترمہ عشرت سلطان  ایڈوکیٹ کی رائے یہ تھی کہ موجودہ صدی میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت ایسی غیر متنازعہ شخصیت ہیں کہ جن کے بغیر شہری سہولیات کیلئے کام کرنے والوں کی تاریخ نامکمل ہوگی
میری رائے  کے مطابق مائکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس نے شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے عظیم خدمات سرانجام دی ہیں خاص طور پر دنیا بھر میں پھیلنے والے ناقابل علاج امراض کیلئے ویکسین تیار کروا کر انسانیت کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے
بے شمار شخصیات موجود ہیں جو زیربحث آئیں ان تمام لوگو ں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں بہت سی اہم شخصیات کو اس لیئے شامل نہیں کیا جا سکا کیونکہ ان کی تصویر کو  "لوگو" میں استعمال کی اجازت نہیں ہے قانونی رکاوٹیں ہیں ۔قانونی  پیچیدگیوں  کی وجہ سے تو ہم ان شخصیات کی تصاویر کو لوگو میں شامل نہیں کرسکے لیکن ان تمام  عظیم شخصیات کو ہم ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے
آج جب  محترم انیس دانش نے  شہید پروین رحمٰن کی خدمات کا جائزہ پیش کیا تو میرا دل خون کے آنسو رورہا تھا کہ پاکستان  کی اس بے لوث بیٹی کو جس نے کچی آبادیوں میں شہری اور سماجی خدمات کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی اس کو شاید ہم شایان شان طریقے سے خراج تحسین بھی پیش نہ کرسکے
نیٹ ورک لانچنگ کے آخری مراحل میں ہے انشاءاللہ آپ تمام لوگ دیکھیں گے تین سماجی تنظیموں لاء سوسائٹی پاکستان ،مبشر بھٹہ ہیومن رائٹس  اور پبلک جسٹس ویلفئر آرگنائزیشن  کے تعاون سے بننے والا نیٹ ورک سماج میں تبدیلی لانے کی ایک بھرپور اور فیصلہ کن تبدیلی لانے کی جدوجہد کرے گا
ہماری کوششیں مخلصانہ ہیں  جب کے دوستوں کا بھرپور تعاون بھی ہمیں حاصل ہے   انشاءاللہ عزوجل اللہ کی مدد بھی ہمارے ساتھ ہوگی

 safi

Thursday 27 February 2014

کراچی بار کی سالانہ تقریب حلف برداری اور عام آدمی


کل کراچی بار ایسوسی کی تقریب حلف برداری میں "عام آدمی" زیربحث رہا اور بالآخر سابق چیف  
جسٹس آف پاکستان سے والہانہ عقیدت رکھنے والے کراچی بار ایسوسی کے صدر محترم صلاح الدین احمد نے بھی کہہ ہی دیا کہ صرف چیف تیرے جان نثار بےشمار بےشمار کے نعرے لگانے سے  رول آف لاء نہیں آسکتا جب تک ڈسٹرکٹ کورٹ میں آنے والے  "عام آدمی" کو انصاف نہیں ملتا اس وقت تک ساری جدوجہد رایئگاں ہے  بالآخر کل محترم صلاح الدین احمد اور کراچی بارایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محترم خالد ممتازنے بھی موجودہ فرسودہ روایتی عدالتی نظام سے بیزاری کا کھلم کھلا اظہار کرہی دیا
بات یہ ہے کہ ایک معمولی سی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بے شمار تبدیلیاں آچکی ہیں چاقو ،خنجر اور چھری کی جگہ 9 ایم ایم کے جدید ترین پستول نے لے لی ہے ایک عام بندوق کی جگہ جدید ترین اسنائپر رائفل نے لے لی ہے جس میں نصب دوربین کی مدد سے کسی بھی انسان کو دور سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے
گھوڑے کی جگہ جدید ترین کاروں اور تیزرفتار موٹربائیک نے  لے لی جرم کے نت نئے طریقے ایجاد ہوگئے مجرموں نے اپنے آپ کو دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور جرائم کی دنیا نے بے تحاشا ترقی کی مافیا طاقتور ہوئے اور جدید ٹیکنالوجی نے ان کی مدد کی
اس کے برعکس عدالتی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی نیم دلانہ کوشش  بھی نہیں کی گئی ۔جرم صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں طاقتور نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں جرم طاقتور ہوا لیکن دنیا بھر میں جرم کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ بھی طاقتور ہوئی ہر جرم کا ایک توڑ ہوتا ہے  اور وہ توڑ پولیس اور عدلیہ کی جانب سے دریافت کیئے گئے پاکستان میں بھی پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں
لیکن آج بھی پولیس کی جانب سے جو تفتیشی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اس میں فنگر پرنٹ کا ذکر نہیں ہوتا اس رپورٹ میں سیل فون سے لیئے گئے مواد کو بطور شہادت پیش کرنے کی بات نہیں ہوتی کلوز سرکٹ کیمروں کی ویڈیوز صرف یوٹیوب اور نجی چینلز پر دکھانے کے کام آتی ہیں کہ عوام دیکھیں کے ڈاکو کس طرح دیدہ دلیری سے لوٹ مار کررہے ہیں اور آج بھی فرانسسک ڈپارٹمنٹ ایک مذاق ہی تو ہے یہاں میں صوبہ پنجاب کی تعریف کردوں کہ جہاں فرانسسک ڈیپارٹمنٹ پر باقاعدہ کام جاری ہے
چشم دید گواہ  عدالتوں میں ہمیشہ  سفید جھوٹ بولتے ہیں اور میں نے پیشہ ورانہ زندگی میں کسی چشم دید گواہ کو سچ بولتے کم ہی دیکھا ہے لیکن فرانسسک کی بنیاد پر تیار کی گئی شہادت کا علاج مشکل ہی ہوتا ہے   عدالت میں پیش ہونے والے حاجی ثناءاللہ کی شہادت کی بجائے ویڈیو شہادت زیادہ مؤثر ہوتی ہے ویسے بھی مافیا کی موجودگی میں ایک عام آدمی کا بطور گواہ پیش ہونا ناممکن ہی ہے میرے اپنے ایک کیس میں استغاثہ کے گواہ کو مخالف پارٹی جو کہ ایک مافیا گینگ وار سے تعلق رکھتے ہیں نے گزشتہ دنوں اغواء کیا اور اس کو شہادت سے روکا ماضی میں بھی چشم دید گواہ مارے جاتے رہے ہیں اسی طرح موبائل فون سے ڈیٹا لینا بھی ایک مذاق ہی ہے  اگر کسی کا قتل ہوجاتا ہے اور وہ آپ سے کسی بھی وجہ سے رابطے میں تھا تو سمجھ لیں آپ کاکام اتر گیا
بہت معذرت کے ساتھ اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہم نے  ہمیشہ یہی کہا کہ خامی نظام میں ہے فرد واحد بے بس ہے اگر کرنا بھی چاہے تو موجودہ فرسودہ نظام کسی کو انصاف دے ہی نہیں سکتا  لاء سوسائٹی کا مؤقف کبھی بھی یہ نہیں رہا کہ فلاں فرد واحد انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ  ہمارا مؤقف یہی ہے کہ موجودہ نظام کے تحت ایک عام شہری کو انصاف مل ہی نہیں سکتا  جب تک سسٹم میں احتساب کی روایت مضبوط نہیں ہوجاتی پبلک ڈیلنگ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی تبدیلی کی توقع رکھنا ہی عبث ہے
ہماری جدوجہد انشاء اللہ ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے  ہم نے فوری طور پر لاء سوسائٹی کے تنظیمی نیٹ ورک میں اضافہ کیا ہے نئے دوستوں کی شمولیت سے جہاں ایک طرف سوسایئٹی مضبوط ہوگی وہیں چند اہم شخصیات کی شمولیت سے ہمیں اپنے مطالبات حکام بالا تک پہنچانے میں آسانی ہوگی
اور انشاء اللہ بہت جلد  پہلے یوم تاسیس کے موقع پرایک اہم پیش رفت لاء سوسائٹی کی جانب سے ہونے جارہی ہے جس کے بعد انشاء اللہ لاء سوسائٹی پاکستان  کا کردار نہایت اہم ہوگا
تبدیلی ایک حقیقت بن چکی ہے اور انشاءاللہ تبدیلی ضرور آئیگی ظلم کے فلسفے پر قائم فرسودہ عدالتی نظام کے خاتمے کا وقت قریب آرہا ہے اور انشاء اللہ جدید سہولیات سے آراستہ  آن لائن عدلیہ کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا
ہماری آواز ایک عام آدمی کی آواز ہے  مجھے خوشی ہے کل کراچی بار ایسوسی ایشن نے ایک عام آدمی کے حق کی بات کی ہے چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ محترم مقبول باقر نے کل ایک آدمی کی ترجمانی کی اور چیف جسٹس آف پاکستان محترم تصدق حسین جیلانی نے ایک عام شہری کی بات کی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی

9 مارچ 2007 کی وکلاء تحریک کے بعد ہمارے خواب اتنی بار چکنا چور ہوئے کہ شاید اب امیدیں ہی دم توڑ چکی ہیں لیکن اس کے باوجود  امیدیں کچھ باقی ہیں ۔۔۔۔

Monday 24 February 2014

ٹائیپسٹ کا رول کس کے پاس ہے؟


مشرف کے وکلاء کی ٹیم میں" دادا " استاد کی شمولیت سے ہی مجھے اندازا ہوگیا تھا کہ اب قابل احترام جسٹس صاحبان  کے لیئے یہ تو ممکن ہے کہ کسی دیوار کے ساتھ ٹکر مار اپنا سر پھوڑ لیں لیکن ٹرائل اسٹارٹ کرنا ناممکن ہی ہوگا کیونکہ جتنی ان کی عمریں ہیں اتنا تو دادا کا مقدمات کو لٹکانے کا تجربہ ہے ۔
اگلے دن  مشرف کے ایک  وکیل المعروف "دادا" استاد  ہایئکورٹ میں ہی مل گئے سلام دعا کے بعد پوچھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔دادا نے کہا کہ کچھ بھی نہیں  میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وردی والا نہیں بھاگے گا لیکن تم نے میری بات نہیں مانی تھی اور بلاوجہ خیالات اور قیاسات کے گھوڑے دوڑا دیئے تھے
 میں نے کہا کہ ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہے تو فرمانے لگے اس ڈرامے کا اسکرپٹ لکھنے کا اعزاز اس فقیر ،حقیر بے توقیر کو حاصل ہے
میں نے کہا فن  کار تو سارے چن چن کر لیئے ہیں ایسی اداکاری کرتے ہیں کہ ایک لمحے کیلئے تو مجھے بھی حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے دادا نے کہا مجبوری تھی اتنے بڑے ڈرامے کیلئے کوئی چھوٹاموٹا فن کار تو نہیں لیا جاسکتا تھا
میں نے دادا سے پوچھا اس ڈرامے میں "کیدو" کا کردار کون ادا کرے گا
دادا نے کہا  اس اہم ڈرامے میں کیدو یا ولن کی کوئی گنجائش نہیں ہے
میں نے پوچھا کہ  اس ڈرامے میں کوئی ایکشن یا ماردھاڑ بھی ہوگی
دادا نے کہا بنیادی طور پر میں نے اس کو ایک مزاحیہ ڈرامے کے طور پر لکھا ہے تاکہ خوشیوں کو ترسے ہوئے پاکستانی عوام کچھ دیر ہنس لیں  لیکن فن کار اس میں حقیقت سے قریب ترین اداکاری کررہے ہیں میں مطمئن ہوں  جہاں تک مار دھاڑ کا تعلق ہے تو فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن اپنے گھر کا بندہ قصوری ہی کیدو بنا ہوا ہے  حالانکہ اتنی اوورایکٹنگ ڈرامے میں شامل نہیں  تھی  سوچ رہا ہوں ۔۔۔سمجھ تو گئے ہونگے
میں نے کہا دادا لیکن  یہ میڈیا والے اور یہ جیو والے ان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے
دادا نے اسکرپٹ کھولا اور کہا اس ڈرامے میں جیو کا رول اہم ہے "یعنی پرائی شادی میں  عبداللہ دیوانہ ویسے اس کے ذمے نچوڑا ہوا لیموں بار بار نچوڑنے کا ہے  نچوڑا ہوا لیموں بار بار نچوڑنے سے  آپ سمجھ تو گئے ہی ہونگے کہ کیا ہوگا۔۔کیس اپنی موت آپ بھی مرجائے گا
ڈرامائی تشکیل میں کوئی مسئلہ تو نہیں آرہا؟ میں نے پوچھا
دادا استاد نے  مصنوعی خفگی سے پوچھا  میری موجودگی میں کوئی مسئلہ آسکتا ہے؟ میں نے کہا  آپ کی صلاحیتوں کا تو ایک زمانہ معترف ہے  آپ کی صلاحیتوں ہی کی وجہ سے ہی تو پورے ڈرامے کا اسکرپٹ ہی آپ سے لکھوایا گیا ہے
شروع میں محسوس ہوتا تھا کہ کچھ کلائمیکس نہ ہوجائے کوئی انہونی نہ ہوجائے کافی ڈر لگ رہا تھا  کبھی کبھی لگتا تھا کہ وردی والا بھاگ ہی  نہ جائے شروع شروع میں تو عوام کو محسوس ہوا کہ واقعی  کچھ نیا ہونے والا ہے
دادا نے کہا ابتدائی قسطیں عوامی دلچسپی کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں تھیں میں نہیں چاہتا تھا کہ عوام بور یت کا شکار ہوں لیکن اب اگلی چند قسطوں میں ڈرامہ شدید بوریت کا شکار ہوجائے گا  تاکہ وردی والے کو آگے پیچھے کیا جاسکے
کس فنکار کی کمی آپ شدت سے محسوس کرتے ہیں  میں نے پوچھا دادا استاد نے کہا ڈاکٹر شیرافگن نیازی زندہ  ہوتا تو آج میرا لکھا ہوا ڈرامہ  اتنا مقبول ہوتا کہ سڑکیں ویران ہوجاتیں لیکن ابھی بھی  ڈرامہ مقبولیت کے عروج پر ہے
میں نے پوچھا کہ اس سارے ڈرامے کا ہیرو کون ہے
دادا استاد نے کہا وقت  مرکزی ہیرو ہے
میں نے پوچھا کہ کوئی نیا فن کار شامل ہوگا دادا استاد نے کہا اصل میں پوری ٹیم اتنی گھل مل گئی ہے کہ اب نہ تو ڈرامہ ٹیم کے ممبران کسی نئے فن کار کا وجود برداشت کریں گے نہ ہی اسکرپٹ میں کوئی بھی معمولی ردوبدل  برداشت کرنے کیلئے راضی ہونگے
ویسے اکرم شیخ تو بے مثال اداکاری کررہا ہے
ہاں دادا استاد نے کہا ایسے فن کار صدیوں میں پیش ہوتے ہیں   لیجنڈ فن کار ہے
میں نے پوچھا کہ ڈرامے کی اگلی قسطوں میں کیا ہونے والا ہے
دادا استاد نے کہا اگر یہ بتادیا تو ڈرامے کا سارا مزہ خراب ہوجائے گا
اسی دوران استاد زماں دادا کا فون آگیا اور انہوں نے بے خیالی میں غداری اسکرپٹ مجھے تھمادیا میں نے جلدی جلدی اگلے صفحات کھولے
اور جسٹس صاحبان کا کردار تلاش کرنے کی کوشش کی تو صدمے سے گنگ ہوگیا
اچانک ہی دادا استاد نے  چیل کی طرح اسکرپٹ جھپٹا مارکر چھینا اور جانے لگے تو میں نے کہا دادا یہ کیا آپ سے یہ امید تو نہ تھی
اس کیس میں ٹائیپسٹ کا رول کسے دیا ہے؟
دادا نے اسکرپٹ بغل میں دابا اور اگلی قسط کی شوٹنگ کیلئے  تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا  روانہ ہوگیا

پہلے یوم تاسیس کی تقریبات کا مرکزی خیال PROTECTING CIVIL LIBERTIES AND CIVIL RIGHTS

پہلے
لاء سوسائٹی پاکستان کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر لاء سوسائٹی کی جانب سے چند اہم تقاریب کا انعقاد کیاجائے گا اس سلسلے میں پہلی تقریب "فوکس گروپ ڈسکشن " کی ہوگی جس میں "غیرقانونی حراست کے خاتمے اور عدلیہ کے کردار" کے حوالے سے  گروپ ڈسکشن ہوگی
گروپ ڈسکشن کا مقصد  ایسالائحہ عمل اور طریقہ کار طے کرنا ہے جس کے زریعے عدلیہ کو 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن اس طرح متحرک کرنا ہے کہ وہ ہر لمحہ شہریوں کو پولیس کی غیرقانونی حراست سے نجات دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں گروپ ڈسکشن میں وکلاء کے منتخب نمائیندے  اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ عدالتی اوقات کار ختم ہوجانے کے بعد پولیس کو  کھلی چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو اپنی غیرقانونی حراست میں لے کر غیرقانونی حراست میں رکھ کر اس سے رشوت وصول کرسکیں کیونکہ اس معاملے کا تعلق نظام میں موجود قانونی "سقم" سے ہے اس لیئے جائزہ لیا جائے گا کہ کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جائے  
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عام شہری پولیس کے مظالم کا شکار ہے  جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک اہم وجہ عدلیہ کا نچلی سطح پر متحرک نہ ہونا ہے لاء سوسائٹی پاکستان کی کوشش ہوگی کہ  وہ اس فوکس گروپ ڈسکشن کے زریعے بار ایسوسی ایشنز اور عدلیہ کے ساتھ مل کر ایسی سفارشات  پیش کریں جن کے زریعے ایک عام شہری عدلیہ کے متحرک کردار کو محسوس کرسکے اور جرائم کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکے یہ ایک حقیقت ہے کہ  جب تک ایک عام شہری عدلیہ کے کردار سے مطمئن نہیں ہوگا اس وقت تک  وہ جرائم کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرے گا۔اور عام شہری کی شمولیت کے بغیر جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے
یوم تاسیس کے سلسلے میں سالانہ ڈنر کا پروگرام بھی منعقد کیا جائے گا اور اس موقع پر ایک نئے نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو  شہری حقوق کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا یوم تاسیس کی تقریبات کی دیگر تقریبات  کے شیڈول کا جلد اعلان کیا جائے گایوم تاسیس کے موقع پر جو لوگو جاری کیا گیا ہے  وہ بلاگ میں شامل ہے 



Wednesday 19 February 2014

مسٹر پرفیکٹ


میرے ایک دوست ہیں شاہد قریشی ایڈوکیٹ مطالعے کے بہت شوقین ہیں ان کی اپنی ہی ایک الگ
 تھلگ دنیا ہے میں نے ان کو ہمیشہ کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہی پایا ہے دوستوں کی تعداد نہایت محدود رکھتے ہیں  انہیں ایک منفرد شوق یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے کامیاب لوگوں کی بائیوگرافی پر مبنی کتابیں انہوں نے جمع کررکھی ہیں  ان کا ایک اور شوق انگلش زبان میں مہارت بھی ہے  اور اس حوالے سے ان کی گفتگو ہمیشہ اچھی ہوتی ہے۔سول کیسز کے ماہر ہیں اور ایک کیس کیلئے نہ جانے کیا کچھ کھنگال کر لے آتے ہیں
گزشتہ دنوں  جب  لاء سوسائٹی پاکستان،مبشر بھٹہ ہیومن رائٹس اور پبلک جسٹس ویلفئیر آرگنائزیشن نے  سٹیزن پروٹیکشن نیٹ ورک  کی بنیاد رکھی تو اس کا سلوگن بنانے کی زمہ داری لاء سوسائٹی پاکستان کو دی گئی کافی دیر سوچا لیکن کوئی نئی بات ذہن میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
آخر کار میں نے سوچا کہ مسٹر پرفیکٹ سے رابطہ کیا جائے جس کے پاس ہر مسئلے اور ہر معاملے کا حل موجود ہوتا ہے شاہد بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے برجستہ کہا کہ
Protecting civil liberties and civil rights
اور یہ کہہ کر فون بند کردیا کیونکہ وہ ہمیشہ کی طرح مطالعے میں مصروف تھے لوجی ہمارا تو مسئلہ ہی حل ہوگیا اتنا اچھا جامعہ قسم کا سلوگن  اگرچہ بظاہر کہنے کو تو یہ ایک سادہ سی بات ہے لیکن اسی ایک بات نے مجھے  پورا دن پریشان رکھا
معاشرے میں اہل علم کا اپنا ایک مقام ہے۔میں نے یہی دیکھا ہے کہ اہل علم حضرات کم بولتے ہیں لیکن جب بھی بولتے ہیں  دل چاہتا ہے کہ ان کی باتیں نوٹ کرکے محفوظ کرلی جائیں
اسی طرح کا معاملہ ایک بار پاکستان میں فلپس کمپنی کے ساتھ بھی تھا وہ ایسا سلوگن چاہتے تھے جس میں فلپس کمپنی کا نام بھی شامل ہو اور ان کی مصنوعات بلب اور ٹیوب لائٹ کا ذکر بھی ہو انہوں نے مقابلہ بھی کروایا لیکن کوئی معیار پر پورا نہ اترا بدقسمتی سے اب مجھے اس اہل علم کا نام یاد نہیں رہا ۔جب کمپنی اپنا مدعا لیکر ان کے پاس گئی تو انہوں نے برجستہ کہا "جہاں جہاں سورج ڈھلے فلپس کی ٹیوب لائٹ اور بلب جلے" اتنی سی بات کہہ کر انہوں نے میدان مارلیا

بہرحال میرے دوست شاہد قریشی نے ایک ایسا سلوگن ہمیں دیا جو بظاہر تو بہت سادہ ہے لیکن اس کی گہرائی بہرالکاہل سے بھی زیادہ ہے

Wednesday 12 February 2014

شہریوں کی عملی شمولیت کے بغیر جرائم کا خاتمہ نامکن ہے سندھ آرمز ایکٹ وفاق کے قانون سے متصادم ہے کراچی بار ایسوسی ایشن میں سیمینار

کراچی بار ایسوسی ایشن کے اشتراک سے لاء سوسائٹی پاکستان اور اس  کی پارٹنر  آرگنائزیشنز  مبشر بھٹہ ہیومن رائٹس اور لارڈز لاء میگزین کے زیراہتمام ایک روزہ سیمنار  بعنوان سندھ آرمز ایکٹ 2013 ـ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بار اور عدلیہ کا کردار  " سے کراچی بار ایسوسی ایشن کے شہداء پنجاب ہال میں منعقد ہوا
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے لاء سوسائٹی پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صفی الدین اعوان ایڈوکیٹ
ہایئکورٹ نے کہا کہ
 وفاق کی جانب سے قانون سازی موجود ہونے کے باوجود سندھ اسمبلی نے  متصادم قانون سازی کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور معزز شہریوں کو جرائم کے خاتمے کے حق سے روک کر پولیس اور سرکاری گواہان  کی موجودگی میں  تلاشی کا حق دیکر شہریوں کو پولیس کے رحم وکرم پر چھوڑدیا ہے  پولیس کے اتنے اختیارات  سندھ کی تاریخ  میں کبھی نہیں رہے ہیں  عملی طور پر صوبہ ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے پولیس کراچی میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہی ہیں اس صورتحال میں عدلیہ کو کسی پالیسی کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کراچی با ر ایسوسی ایشن کمیشن تشکیل دے کرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرے  اور عام شہریوں کو پولیس کے مظالم سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے

مبشر بھٹہ ایڈوکیٹ

مبشر بھٹہ ہیومن رائیٹس کے چیرمین مبشر بشیر بھٹہ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کراچی بار کی منتخب کابینہ کا  سیمینار کے انعقاد کیلئے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ   ضابطہ فوجداری کی زیردفعہ 103 جس میں معزز شہریوں کی موجودگی میں گواہی  تلاشی لینے کا حق دیا گیا ہے  کو بتدریج  ختم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اہلیان سندھ بار کونسلز اور عدلیہ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وفاق سے متصادم آئین سازی کو ہر سطح پر چیلنج کیا جائے گا
محمد شفیق ایڈوکیٹ
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد شفیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہوچکی ہیں صوبہ عملی طور پر پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے غیر قانونی حراست عام ہوچکی ہے موجودہ صورتحال نہ صرف بار ایسوسی ایشنز بلکہ  عدلیہ کیلئے بھی ایک امتحان بن چکی ہے
عشرت سلطان ایڈوکیٹ
 وومین پرٹیکشن نیٹ ورک کی چیئر پرسن مس عشرت سلطان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وومین پرٹیکشن نیٹ ورک خواتین وکلاء کی فلاح وبہبود کیلئے اپنی عملی جدوجہد جاری رکھے گا اس قسم کے سیمینارز کا مقصد  آگہی پیدا کرنا ہے اور  عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کرکے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہے میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی شکر گزارہوں جس نے وومین پروٹیکشن نیٹ ورک کو سیمینار منعقد کرنے کی اجازت دی اور تعاون کیا 

خالد ممتاز جنرل سیکرٹری کراچی بار ایسوسی ایشن 


کراچی بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری خالد ممتاز نے کہا کہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ کراچی میں پولیس اسلحہ ایکٹ کے تحت جھوٹے مقدمات بناتی ہے اور معصوم شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرتی ہے  سندھ آرمز ایکٹ 2013 کی منظوری کے بعد کراچی کے شہری پولیس کے رحم و کرم پر ہیں  اور انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ پر پریشر ڈالنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے لیکن عدلیہ کو  انتظامیہ کے اثر سے دور رہ کر کسی پالیسی کا حصہ بنے بغیر فیصلے میرٹ پر کرنے چاہیئں کیونکہ  یہ عدالتیں ہی ہیں جن سے عوام کو توقعات وابستہ ہوتی ہیں کراچی بار ایسوسی ایشن روزانہ کی بنیاد پر سیشن ججز سے رابطے میں ہے اور انشاء اللہ بار اور بنچ شہریوں کو مایوس نہیں کرے گے سندھ آرمز ایکٹ کے غلط استعمال کا آغاز 17 جنوری 2014 سے ہوا جب سندھ ہایئکورٹ کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کی غلط تشریح کرنے کی کوشش کی گئی تو کراچی بار نے فوری طور پر اپنا کردار ادا کیا  اور اس حوالے سے اپنا رول ادا کیا اس حوالے سے خصوصی عدالتوں کا قیام  بھی مناسب نہیں  خصوصی عدالتوں کے قیام سے شکوک پھیل رہے ہیں صرف سزاؤں میں اضافہ کرکے جرائم کے خاتمے کی توقع رکھنا مناسب نہیں اور حقیقت سے نگاہیں چرانے کے مترادف ہے عام شہری کے تعاون اور شمولیت کے بغیر جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے کراچی بار ایسوسی ایشن کی منتخب قیادت کی ہمیشہ سے یہ اولین ترجیح رہی ہے کہ وہ لیگل ایجوکیشن کے حوالے کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے اور اس حوالے سے ہم " لاء سوسائٹی پاکستان"  کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں گے

بیرسٹرصلاح الدین احمد صدر کراچی بار ایسوسی ایشن

کراچی بار  ایسوسی ایشن کے صدر  بیرسٹرصلاح الدین احمد نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے ہمیشہ  لیگل ایجوکیشن سے متعلق پروگرامات  اور سیمینارزکی حوصلہ افزائی کی ہے موجودہ قیادت بھی یہ سلسلہ جاری رکھے گی  اور اس حوالے سے کراچی بار ایسوسی ایشن  برٹش کونسل اور ملکی  اور غیر ملکی اداروں سے رابطے میں ہیں جن کے تعاون سے ہم کراچی بار میں  وکلاء کیلئے  لیگل ایجوکیشن کے حوالے سے  پیشہ ورانہ ٹریننگ  پروگرامات کا آغاز  جلدکریں گے اور انٹرنیشنل معیار کے مطابق وکلاء کی ٹریننگ کا آغاز کریں گے  کراچی بار کے وکلاء کی فلاح و بہبود ہماری پہلی ترجیح ہے
سندھ آرمز ایکٹ کے حوالے سے وکلاء اور کراچی کے شہریوں میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں
مجھے یہ جان کر اور مشاہدہ کرکے سخت افسوس ہوا جب  ایک  ایڈیشنل ڈسٹرکٹ  سیشن جج صاحبہ نے ایک ہی دن ضمانت کے 10 آرڈرز کیئے  لیکن کسی بھی آرڈر میں ایک لفظ  کا بھی فرق نہیں ہے صرف ٹائیٹل تبدیل کرکے ایک ہی  مسترد شدہ آرڈر تقسیم کردیا گیا ہے  وکلاء اپنے مقدمات میں تیاری کرکے آتے ہیں اور اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ جات پیش کرتے ہیں وہ ان کی محنت ہوتی ہے اگر ان کے دلائل کو سنے بغیر مقدمات کا فیصلہ کیا جائے گا تو اس قسم کی صورتحال کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی مجھے یہ جان کر بھی افسوس ہوا کہ   جرائم کے خاتمے کیلئے عام شہری کا کردار قانونی طور پر ختم کیا جارہا ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی ہم عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہے لیکن یکطرفہ فیصلے کسی صورت کراچی بار کو قبول نہیں     ججز کو چاہیئے کہ وکلاء کو سنا جائے ان کے دلائل احکامات صادر کرتے وقت  عدالتی حکم نامے کا حصہ بنائے جایئں اس کے بعد انصاف اور قانون کے مطابق ایک جج کا حق بنتا ہے کہ وہ جو مناسب سمجھے فیصلہ کرے  
شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کراچی بار ایسوسی ایشن نے ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے

سید وقار شاہ سینئر ایڈوکیٹ  ہایئکورٹ

سید وقار شاہ  ایڈوکیٹ نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے سندھ آرمز ایکٹ  2013 کو ایک خصوصی قانون کے طور پر متعارف کروایا ہے لیکن خصوصی عدالتوں کا ریکارڈ  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ماضی میں  ہمیشہ  نامناسب ہی رہا   ہے ماضی میں شہر سے دور دراز بنائی گئی خصوصی عدالتوں میں نہ صرف وکلاء  کے دلائل نظر انداز کیئے جاتے رہے  ہیں بلکہ ایسے فیصلے دیئے جاتے ہیں جن  سے شہری حقوق  کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں   لیکن اس بار  خصوصی عدالتیں شہر سے الگ تھلگ بنانے کی بجائے سٹی 
کورٹ میں ہی قائم کی گئی ہیں
خصوصی عدالتوں میں پیش کیئے جانے والے دلائل عام عدالتوں سے مختلف ہوتے ہیں اس لیئے وکلاء کو چاہیئے کہ  وہ  اپنی تیاری نئے حالات کے مطابق کریں  سندھ آرمز ایکٹ کے حوالے سے تشکیل دی گئی خصوصی عدالتوں میں پیش ہوکر فرانسسک رپورٹ کے حوالے سے اپنے دلائل دیں صرف فرانسسک رپورٹ ہی کی بنیاد پر ملزم کو فوری ریلیف مل سکتا ہے   کسی بھی خصوصی عدالت میں عام دلائل  جو روزمرہ کے کیسز میں پیش کیئے جاتے ہیں وہ پذیرائی حاصل نہیں کرتے اس کی  بجائے صرف ٹیکنیکل  بنیادوں پر ہی مقدمات کی صحت کو مشکوک ثابت کیا جاسکتا ہے خصوصی عدالتوں  کے فیصلوں کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرکے  تصادم میں وقت ضائع کرنے کی بجائے سندھ ہایئکورٹ سے شہریوں کو انصاف دلائیں سندھ ہایئکورٹ نے شہری حقوق کے تحفظ کیلئے ہمیشہ روشن کردار ادا کیا ہے
حیرت انگیز طور پر سندھ آرمز ایکٹ  2013کے زریعے شہریوں  کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت کا راستہ بند کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے ۔عام شہریوں کی موجودگی میں ملزمان کی تلاشی کے حوالے  سے ضابطہ فوجداری کی  سیکشن  103ایک حرمت رکھتی ہے اور شہری حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی ہیں   انگریز نے ضابطہ فوجداری میں تلاشی کے وقت عام شہری کی موجودگی  اس لیئے لازمی قرار دی تھی کہ عام شہری   بھی جرائم کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں  شہریوں کی عملی شمولیت کے بغیر جرائم  کا خاتمہ ناممکن ہے  موجودہ حالات میں جب حکومت  گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی اور اس حوالے سے  گواہوں کے تحفظ کا بل بھی صورتحال تبدیل کرنے میں  ناکام رہا تو   عدلیہ کو چاہیئے کہ ویڈیو کانفرنس کے زریعے  شہریوں کا اعتماد بحال کرنے کی  کوشش کرے تا کہ  گواہوں کو تحفظ فراہم کرکے  ان کی شمولیت کو جرائم کے  خاتمے کیلئے یقینی بنایا جاسکے ویڈیو کانفرنس کے زریعے شہریوں کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت کو آسان بنایا جاسکتا ہے صرف سزاؤں میں اضافہ کرنے  اور شہریوں کی جرائم کے خاتمے کیلئے شمولیت  روکنے سے جرم ختم نہیں ہوسکتا اس کیلئے ایک دوررس پلاننگ کی ضرورت ہے موجودہ صورتحال میں بار ایسوسی ایشن کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے  کیا صوبائی حکومت اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی قانون سے متصادم قانون سازی کرسکتی ہے ؟ کراچی بار ایسوسی ایشن کو سندھ آرمز ایکٹ 2013 کی قانونی اور آئینی حیثیت کا بھی جائزہ لینا چاہیئے   
ایک  خصوصی عدالت  کی  خاتون جج کی جانب سے اپنے اسٹینو کو یہ ہدایت نامہ جاری کرنا کہ تمام  کے تمام وکلاء کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرکے  تمام وکلاء کو ضمانت کی  ایک ہی مسترد شدہ درخواست کی   کاربن کاپیاں صرف ٹائیٹل تبدیل کرکے   حکم نامہ تقسیم کرنا  خصوصی عدالت  کی  جانب سے شہریوں کے ساتھ ایک بدترین مذاق کے مترادف ہے  ضمانت کے احکامات جاری کرتے وقت سپریم کورٹ اور اعلٰی عدالتوں کی ہدایات کا احترام لازم ہےکراچی بار کو اس حوالے سے اپنا متحرک کردار ادا کرنا ہوگا وکلاء کے دلائل سنے بغیر حکم نامے جاری کرنا بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے
اسلحے کے جن ذخائر کی برآمدگی کے دعوے پیش کیئے جاتے ہیں وہ مال خانے میں موجود نہیں ہیں محسوس ہوتا ہے کہ مال خانے میں اس حوالے سے سنگین  بے قاعدگی موجودہے کیس ختم ہونے کے بعد اسلحہ سرکاری ملکیت بن جاتا ہے  کراچی بار ایسوسی ایشن عدلیہ کے زریعے ماہانہ بنیادوں پر اسلحے کی نیلامی کو یقینی بنائے اور ممنوعہ بور کے اسلحہ کو تلف کیا جائے
عام مشاہدہ ہے کہ منشیات اور شراب وغیرہ کسٹم حکام نظر آتش کرکے ضائع کرتے ہیں  لیکن کیس ختم ہونے کے بعد مال خانے میں موجود اسلحے کے ذخائر کہاں جاتے ہیں  کوئی نہیں جانتا بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ پولیس وہ اسلحہ دوبارہ شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے اس کے شواہد بھی موجود ہیں بار کا کردار اس حوالے سے بھی اہم ہے

پروگرام  میں سوال جواب کا سیشن ہوا اور آخر میں لاء سوسائٹی پاکستان کی لیگل ایجوکیشن کمیٹی کے 
ڈائریکٹر کبیر احمد صدیقی نے  شرکاء کاووٹ آف تھینکس ادا کیا

Tuesday 11 February 2014

تین بجے



چند ماہ قبل جوڈیشل پالیسی کمیٹی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ کیا تھا وہ یہ کہ کسی بھی کورٹ سے انفرادی طور پر ریلیز آرڈر (ملزمان کی ضمانت یا بری ہونے کی صورت میں رہائی کا آرڈر) انفرادی طور پر نہیں کیا جائے گا بلکہ پورے ڈسٹرکٹ کے آرڈر اجتماعی طور پر ڈسٹرکٹ جج کے آفس میں جمع ہونگے اس کے بعد کورٹ کا نمائیندہ وہ احکامات لیکر جیل جائے گا جہاں وہ احکامات جمع ہونگے اس کے بعد قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اس کا پس منظر یہ تھا کہ عدالتی کرپشن کی وجہ سے بعض اوقات کورٹ سے جعلی احکامات بھی  جیل پہنچ جاتے تھے مختصر یہ کہ کچھ عرصہ یہ سلسلہ ٹھیک چلا اب   کسی "عقل مند" نے نیا سلسلہ شروع کیا ہے وہ یہ کہ جیل کا نمائیندہ کورٹ آئے گا اور ٹھیک تین بجے واپس روانہ ہوجائے گا اس کے بعد رہائی کے تمام احکامات غیر مؤثر ہوجائیں گے اور اگلے دن  جیل کا نمائیندہ آئے گا جس کے بعد ملزمان کو رہا کیا جائے گا کراچی کی عدالتوں میں ملزمان کی رہائی کیلئے کی جانے والی کاروائی کا آغاز ہی دوپہر دوبجے شروع ہوتا ہے سیشن کورٹس میں  ایڈیشنل  سیشن جج دو بجے دستاویزات کی تصدیق کا حکم دیتا ہے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ جو کہ  سٹی کورٹ ہی میں واقع حبیب بینک کی مجاز برانچ  میں موجود قومی بچت مرکز کے نمائیندے  خریدے گئے  ہوتے ہیں تصدیق کیلئے   بھیجے جاتے ہیں  وہاں دستاویزات کے پہنچتے پہنچتے ہی تین بج جاتے ہیں  سوال یہ ہے کہ اگر صرف تصدیق ہی کروانی ہے تو وہ تو مجاز کلرک بھی  بینک میں بھیج سکتا ہے  اگر وہ  دن 12 بجے تک دستاویزات بینک بھجوادے تو دوپہر دوبجے بینک کا تصدیقی  لیٹر بھی وصول ہوجائے گا جب ضمانتی پیش ہوگا تو ریلیز آرڈر تیار ہوجائے گا اور ملزم کی رہائی میں کوئی تاخیر نہ ہوگی  اس لیئے میں سندھ ہایئکورٹ سے گزارش کرتا ہوں کے دستاویزات کی تصدیق کیلئے متعلقہ اتھارٹی  کو لیٹر بھیجنے کا اختیار مجاز  کلرک کو دیا جائے اور جب دستاویزات تصدیق ہوکر مہر بند لفافے میں آجائیں تو اس کی سیل کھولنے کا اختیار صرف جج کے پاس ہونا چاہیئے تاکہ آج کل بہت سے ملزم قانونی کاروائی مکمل ہونے کے باوجود اس لیئے رہائی سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا رہائی کا حکم 4 بجے تیار ہوتا ہے  اس کے علاوہ یہ بھی  گزارش ہے کہ  سیشن جج شام بجے تک انتظار کریں  کیونکہ بہت سے ججز مختلف وجوہات کی بنیاد پر ریلیز آرڈر تاخیر سے تیار کرتے ہیں  وجوہات میں کورٹس میٹنگ ،ضمانت کیلئے دستاویزات تاخیر سے ملنا ، روٹین کے کیس چلانے میں تاخیر ہوجاتی ہے  اور بھی بہت سی وجوہات ہیں اس لیئے تین بجے کا وقت مقرر کرنا ظلم اور صرف ظلم ہے
قید بہت اذیت ہے جن کے باپ ،بھائی ،شوہر یا بیٹے کسی بھی وجہ سے جیل میں ہوں  ان کی اذیت کے بارے میں صرف سوچا ہی جاسکتا ہے قید بہت بڑی اذیت ہے  اللہ سب کو صرف اسی اذیت سے بچائے
آسانی پیدا کریں  لوگوں  کیلئے  اللہ ہی اجر دینے والا ہے
ایک نظر سے دیکھا جائے تو یہ بہت معمولی معاملہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے اصلاحات کے عمل کو ناکام بنانے کیلئے جان بوجھ کر اس قسم کے ڈرامے کھیل  کر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے جوڈیشل پالیسی بنانے والوں نے یہ کب کہا کہ تین    بجے  کے بعد کوئی رہائی کا حکم جاری نہیں ہوگا

صفی  

Saturday 8 February 2014

کیا ہم ایک لمحے کیلئے استاد اما م دین گجراتی کو اردو بلاگنگ کا بانی تسلیم کرسکتے ہیں



  کیا ہم ایک لمحے کیلئے   استاد اما م دین گجراتی کو اردو بلاگنگ کا بانی تسلیم کرسکتے ہیں
جہاں تک میں سمجھا ہوں مکمل بے ساختگی کے ساتھ کسی چھوٹے موٹے جاوید چوہدری ،نصرت جاوید قسم کے سکہ بند شرابی کبابی اور کالم نگاری کے علاوہ ٹھیکیداری کے شعبے میں نام پیدا کرنے والے ہارون الرشید جیسے کپتان کے خود ساختہ ترجمان اور اس قسم کے دیگر  اردو کالم نگاروں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی  الگ دنیا آباد کرنے کا نام اردو بلاگنگ ہی تو ہے لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے
استاد امام دین گجراتی بھی تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے پرائمری پاس تھے لیکن بی اے(باب ادب)،ایم اے  (موجد ادب)اور پی ایچ ڈی  (فاضل ڈگری)کی اعزازی ڈگریاں رکھتے تھے اور ڈنکے کی چوٹ پررکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ جرمنی سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والا ان کا ہم عصر شاعر اور ہمارا شاعر مشرق سر علامہ اقبال بھی ان کے سامنے کچھ نہیں بیچتا تھا لیکن ان سے ملنے لاہور بھی گئے تھے اور ایک  اردوشعر بھی پنجابی آمیزش کے ساتھ لکھا تھا
گزشتہ دنوں عامر خاکوانی  صاحب کا گناہ کبیرہ بھی زیر بحث رہا کہ انہوں نے چند اردو بلاگرز کی تحاریر شائع کرکے ایک آغاز کیا میں صرف یہی کہوں گا کہ ان کا ایک اچھا قدم ہے  لیکن  اصل مسئلہ سیاسی قسم کے کالم نگاروں کو متعارف کروانا ہے اس کیلئے پرنٹ میڈیا کے پاس دو ہی راستے ہیں کانٹ چھانٹ کے تحاریر شائع کرے  لیکن اس طرح تحریر کا حسن ختم ہوجائے گا  دوسرا یہ کہ  اردو بلاگرز سے معاہدہ کرکے تحاریر شائع کریں کیونکہ ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے متنازعہ معاملات پر یا کسی شخصیت پر براہ راست تنقید سے عدالتی فورم موجود ہیں اور اکثر کالم نگاروں اور اخبارات  اپنے کالم نگاروں کی وجہ سے عدالت کی سیڑھیاں ہی چڑھتے رہتے ہیں  میرے خیال میں پرنٹ میڈیا ایسا رسک نہیں لے گا اور وہ روایتی کالم نگاری تک ہی محدود رہے گا لیکن تحریر تو وہی ہے جو دھوم مچادے ہلا کر رکھ دے سب کو
یار لوگ بہت خوش ہیں کہ بہت کچھ شائع ہوگیا لیکن بھائی جان کچھ بھی تو شائع نہیں ہوا۔اصل جنگ تو اس وقت شروع ہوگی جب دو مخالف طبقات آمنے سامنے ہونگے یعنی اردو کالم نویس اور اردو بلاگرز لیکن  یہ بھی ایک تاریخی رسک ہی ہوگا کیونکہ یہ ایک پہل کرنے والی بات ہے اگر آئیڈیا ہٹ ہوا تو سپر ہٹ ہوگا اور اگر ناکام ہوا تو ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا لیکن مجھے لگتا یہ ہے کہ آئیڈیا سپر ہٹ ہوگا
اب انتظار کریں کہ کوئی اس معاملے پر رسک لے جہاں تک بات ہے حدود کی اور قیود کی تو اس پر لوگ راضی ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی  اس کی مثال سعادت حسن منٹو صاحب ہیں میں نے کہیں پڑھا کہ ایک بار وہ کسی پبلشر کے پاس گئے اور ان سے پانچ روپے  روٹی کھانے کیلئےمانگے    پبلشر نے کہا کہ ایک شرط ہے پہلے ایک اچھی سی کہانی  لکھ کر دو تو انہوں نے صفحہ پکڑا اور فوراً ہی ایک کہانی تخلیق کردی پانچ روپے لیئے اور کھانا کھا کر واپس آگئے پبلشر نے کہانی پڑھی بہت پسند آئی پندرہ روپے مزید دیئے اور کہا کہ تین کہانیاں اور لکھ دو تو  غربت کا شکاراپنے وقت کے عظیم ترین لکھاری نے  پندرہ روپے واپس کرتے ہوئےایک تاریخی جملہ کہا "جب دوبارہ بھوک لگے گی تب لکھ کر دوں گا"
مکمل بے ساختگی کے ساتھ اور سر پیر کے بغیر   لکھنے والے اردو بلاگرز  کو کیا دنیائے صحافت قبول کرلے گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا

استاد امام دین گجراتی فرماتے ہیں  
دو ہی گھڑیاں زندگی میں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد



Friday 7 February 2014

تبدیلی ضرور آئے گی



سندھ میں کریمینل جسٹس کی بدترین خامیوں میں سے ایک "کورٹ محرر" بھی ہے ۔کراچی میں اس "افسر" کے وسیع تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  سیشن ججز بھی اپنی پسند کی سیٹ حاصل کرنے کیلئے اسی "افسر" کا چینل استعمال کرتے ہیں ماضی قریب میں ججز کی پروموشن تک کا اختیار کراچی شہر کے کچھ بااثر کورٹ محرر حضرات کے پاس ہوا کرتا تھا اور کراچی ہی کا ایک کورٹ محرر  سابق چیف جسٹس کا ذاتی دوست تھا  خیر جب مغلیہ سلطنت تباہ ہوئی تھی تو اس وقت  شاہی خواجہ سرا  بہت اہمیت اختیار کرگئے تھے کیونکہ جب کوئی ادارہ تباہ ہوتا ہے تو اس قسم کے کردار شہرت اور عروج حاصل کرتے ہیں  کیونکہ وہ عدالتیں جن کا تعلق پاکستان کے عام شہریوں سے ہے وہ تباہ حال ہیں اس لیئے کورٹ محرر قسم کے کردار اگر شہرت رکھتے ہیں تو اس میں کسی کو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیئے
خیر آج سے ایک سال قبل اسی موضوع پر "یایک  کورٹ محرر کا انٹرویو لکھ مارا تھا" وہ ساری باتیں میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی تھیں  اس بلاگ کو پسند کیا گیا
کئی ماہانہ میگزین میں شائع ہوا ۔دوستوں نے تفریح لی ۔۔۔میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ یہ معاملہ تفریح کی حد تک ہی محدود رہے گا لیکن اس بلاگ کی اشاعت کے بعد جب یہ خلائی مخلوق عدالتوں میں گھومتی پھرتی نظر آتی تو لوگ ایک خاص نظر سے دیکھتے میں تو اپنی اس تحریر کو بھول ہی گیا تھا گزشتہ دنوں میں  بقلم خود ایک عدالت ڈسٹرکٹ سینٹرل میں موجود تھا 25 جنوری 2014 کی تاریخ تھی تو وہی ہستی مجھے ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئی نظر آئی اس کے ارد گرد بہت سے سینئر ۔۔۔۔سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ۔۔۔موجود تھے اس کو تسلیاں دے رہے تھے صبر صبر کہ جبر کے دن اب بہت تھوڑے ہیں  کورٹ محرر پیش ہوا کورٹ سے معافی مانگی ایک معافی نامہ لکھا اپنے پرانے گناہوں کی معافی طلب کی اپنے آپ کو کورٹ  کے رحم وکرم پر چھوڑا کہ آخری بار معاف کردیا جائے آئیندہ نہ کوئی جعلی رپورٹ لگاؤں گا نہ کوئی فراڈ کروں گا وہ بھی کورٹ کے ساتھ بعد ازاں معلومات لیں تو پتہ چلا کہ  کورٹ محرر کو جعلی رپورٹس لگانے پر کئی بار وارننگ دی گئی تھی لیکن یہ بعض ہی نہیں آرہا تھا حسب معمول 22 جنوری کو اس نے جعلی رپورٹ پیش کی تو مجسٹریٹ صاحب  نے تصدیق کروائی رپورٹ جعلی ثابت ہونے پر   اس  سرکش کورٹ محرر کو جو دیدہ دلیری سے جعلی رپورٹس لگا رہا تھا کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عام   شہریوں کی طرح  سیدھا جیل بھیج دیا اور اب یہ صاحب تین دن جیل  کاٹ کر کورٹ میں پیش کیا گیا ہے خیر  مجسٹریٹ صاحب نے آخری بار معاف کیا اس کا معافی نامہ کورٹ کے ریکارڈ پر لایا گیا وہ بھی بہت دلچسپ ہے  انشاءاللہ اس کو اسکین کرکے بہت بلاگ میں لگادوں گا
مختصر یہ کہ  جب سے  وہ کورٹ محرر جیل سے واپس آیا ہے بندے کا پتر بن گیا ہے  اللہ کا شکر ہے کہ ماتحت عدلیہ میں کوئی تو ہے جس نے ایکشن لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے  کراچی ویسٹ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ڈبل سواری کے ملزمان کے خلاف بحثیت جج  کاروائی کی اور معزز شہریوں کو زنجیروں سے باندھ کر اور جانوروں کی طرح گھسیٹ کر عدالت لانے سے سختی سے منع کردیا ہے  سب سے پہلے یہی کام سینٹرل کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے کیا تھا لیکن بعض عدالتوں میں آج بھی ڈبل سواری کے ملزمان کو جانوروں کی طرح زنجیروں سے باندھ کر اور گھسیٹ  کر لایا جاتا ہے لیکن کچھ تو تبدیلی آئی  انشاء اللہ باقی ججز بھی کلرکی والی نوکری چھوڑ کر بحیثیت جج سوچنا شروع کردیں گے دیکھیں بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے   تبدیلی کا عمل بتدریج ہو تو زیادہ مناسب ہوتا ہے
ہمارے بہت سے دوست کہتے ہیں کہ آپ عدلیہ کے موضوع پر لکھا کریں کہ انصاف کی راہداریوں کی اصل حقیقت کیا ہے جنا ب بہت مسائل پیدا ہوجاتے ہیں  میرے  بلاگ پڑھیں تو بہت سے دوستوں کو اندازہ ہوگا کہ میں کافی کھل کر لکھ چکا ہوں  اور جتنا لکھا گیا وہ اصل سچ کا  ایک فیصد بھی نہیں تھا  لیکن موجودہ صورتحال میں جب   ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم کراچی بار ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر تبدیلی کی جدوجہد فیلڈ میں رہ کر کرسکتے ہیں کیونکہ کراچی بار ایسوسی ایشن کی منتخب قیادت نے  یہ پیش کش کی ہے کہ وہ تبدیلی کی ہر مثبت کوشش کا خیرمقدم کریں گے  اس وقت کراچی بار ایسوسی ایشن کی قیادت محترم صلاح الدین احمد اور محترم خالد ممتاز صاحب کے پاس ہے   محترم صلاح الدین احمد کی ہمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن کی حدود میں واقع عدالتوں میں اچھی وکالت کیلئے ماحول بنایا جائے  ان کا ایک اہم ترین کارنامہ کراچی بار ایسوسی ایشن کیلئے جدید ترین لایئبریری کا قیام ہے جبکہ خالد ممتاز صاحب نے ہمیشہ ہمیں سپورٹ کی ہے
عدالتی اصلاحات کیلئے لاء سوسائٹی پاکستان اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی سوچ ایک ہے  وکلاء کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ کے اندر بھی اب تبدیلی کی سوچ پرورش پارہی ہے سوشل میڈیا نے گہرے اثرات مرتب کیئے ہیں
2013میں ہمارا بلاگ بے بسی کی پکار تھا  لیکن آج دوستوں  کی کثیر تعداد ہمارے ساتھ ہے ہم سب مل کر تبدیلی لائیں گے انشاءاللہ
3 فروری کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں ہونے والے سیمینار سے ایک دن پہلے  کسی کے پالتو  نے  کسی کے اشارے پراور  مانگے ہوئےسگریٹ کا  ایک زوردار سوٹا مارکر  ڈسٹرکٹ کورٹس میں کہا تھا کہ (اے وت کی کراچی بار اچ ڈرامہ شروع تھی گئیا تےگل سن میری   غور نال  جتنی تیڈی عمر اے اتنی میڈی پریکٹس اے تے میں سب سمجھناواں  تے میں اے ڈرامہ نہ چلن دیساں)  پھر  مانگے تلنگے ہوئے سگریٹ کی چٹکی لگانے کے بعدایک ناقابل اشاعت مزیدار قسم کا طنزیہ محاورہ کہا اور  شاید اپنی زندگی بھر کی ناکامیوں پر ہنستا ہوا  چلا گیا دنیا کے ناکام لوگ جو زندگی بھر کچھ نہیں کرپاتے  وہی لوگ تبدیلی کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں  

۔۔۔۔۔تبدیلی ضرور آئے گی

Wednesday 5 February 2014

ایک مجسٹریٹ کا جرات مندانہ فیصلہ



آج ایک بہت اہم ترین معاملہ کراچی کی ڈسٹرکٹ سینٹرل کی  ایک عدالت میں زیر بحث رہا ۔علی مرتضٰی میتلو صاحب جو کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ہیں ڈسٹرکٹ سینٹرل میں اور 5 فروری  یوم کشمیرکی تعطیل کی وجہ سے ان کی بحیثیت   آن ڈیوٹی  مجسٹریٹ ان کی ذمہ داری تھی  
صبح 10 بجے کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل  کی حدود میں واقع تھانہ گلبرک کا تفتیشی افسر رفاقت مغل دوخطرناک ملزمان کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر اور گھسیٹ کر ریمانڈ لینے کیلئے عدالت میں لیکر آیا مجسٹریٹ صاحب نے معاملہ پوچھا تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ یہ دو انتہائی خطرناک ملزمان ہیں اور تلاشی کے دوران ان سے پستول برآمدہوئے ہیں
مجسٹریٹ صاحب نے جب دونوں ملزمان کو دیکھا تو وہ انہیں معاملہ مشکوک  محسوس ہوا پوچھ گچھ کرنے پرانہوں نے بتایا کہ وہ دونوں  باپ بیٹا ہیں  اور ایک سیاسی شخصیت کے زیرعتاب ہیں  پیش کیا گیا اسلحہ لایئسنس یافتہ ہے اور ایک ماہ قبل رینجر نے اپنی تحویل میں لیا تھا جس کا انہوں نے لائسنس بھی پیش کیا تھا
جس کے بعد دودن قبل انہیں لائسنس سمیت رینجر ہیڈکوارٹر میں طلب کیا گیا اور لائیسنس ضبط کرکے انہیں تھانہ گلبرک کے حوالے کردیا گیا اور ان کے لائیسنس اس وقت بھی رینجرز کے پاس موجود ہیں یہ ہمارا قانونی اسلحہ ہے
مجسٹریٹ نے پولیس افسر کو اسلحہ پیش کرنے کا حکم دیا جو کہ اس نے فوری طور پر تھانے سے منگوایا اور تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ وہ ملزمان کے گھر رابطہ کریں اور اگر ان کے پاس اسلحے سے متعلق قانونی دستاویزات موجود ہیں تو وہ کورٹ میں لیکر آئیں تفیشی افسر نے ان کے گھر  فون کرکے رابطہ کیا ان کے گھر والے ان کی گرفتاری سے لاعلم تھے ۔کیونکہ وہ دونوں باپ بیٹا دودن سے لاپتہ تھے اور ان کے اہل خانہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو ان کو اغواء کرلیا گیا ہے یا پھر کوئی اور معاملہ ہے بہرحال وہ شدید پریشان تھے مختصر یہ کہ تمام اہل خانہ روتے پیٹتے کورٹ پہنچ گئے اس شخص کی چھ بیٹیاں تھیں اور وہ اپنے باپ سے لپٹ کر رونے لگیں کہ چلو ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ملا لیکن  اپنے باپ اور بھائی کو زندہ سلامت دیکھ تو لیا۔ ان کے پاس تمام کاغذات کی فوٹو کاپیاں موجود تھیں۔اسلحہ کی خریداری کی اوریجنل رسید اور وہ صدر کے اسلحہ ڈیلر بشیر ٹریڈرز سے خریدا گیا تھا۔بینک میں جمع کرائے گئے چالان کی  اوریجنل رسیدیں اور کمشنر کراچی کا ایک ابتدائی اجازت نامہ  بھی موجود تھا مختصر یہ  کہ مجسٹریٹ نے قانونی کاروائی مکمل کرکے ان کی ہتھکڑیاں کورٹ میں ہی کھولنے کا حکم دیا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کے اہل خانہ کو اس وقت کیسی خوشی ہوئی ہوگی
اس پوری کاروائی کے دوران شام کے 5 بج گئے یعنی مغرب ہوگئی لیکن مجسٹریٹ صاحب عدالت میں موجود رہے تمام تصدیقات کروائی گئیں اور اس کے بعد دونوں باپ بیٹے کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر جانے کی اجازت دے دی گئی
کیا فرق پڑجاتا کہ جہاں کراچی  کے یہ دو مظلوم شہری جیل میں چلے جاتے  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وہ دو  مظلوم شہری جن کی عزت آبرو آزادی اور عزت کی ضمانت 1973 کے آئین میں دی گئی  لیکن ۔۔۔یہ تو ہماری روزانہ کی پریکٹس ہے  نہ جانے کتنے ہی بے گناہ مجسٹریٹوں کی نااہلی اور نالائقی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں؟
لیکن خراج تحسین کے مستحق ہیں علی مرتضٰی میتلو صاحب جنہوں نے ان دوشہریوں کی شخصی آزادی کو تحفظ فراہم کیا بدقسمتی سے کراچی میں یہ بھی مثال موجود ہے کہ چند روز قبل لائسنس پیش کرنے کے باوجود ڈی جی رینجرز اور ایجنسیوں کی ہدایت پر ہمارے ایک سیشن جج نے ضمانت کی درخواست مسترد کی بعد ازاں ہایئکورٹ  نے اسلحے کا لائیسنس پیش کرنے پر ضمانت دی اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں رہتی
کراچی بار ایسوسی ایشن کو چاہیئے کہ ہماری عدلیہ سے منسلک  ججز جو ان حالات میں بھی جرات مندانہ فیصلے کررہے ہیں انہیں تعریفی اسناد کے زریعے خراج تحسین پیش کرے
اس سارے معاملے پر ایک تفصیلی بحث جلد ہوگی
بنیادی حقوق سندھ آرمز ایکٹ 2013 کی منظوری کے بعد معطل ہوچکے ہیں  اس پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے
میرے پاس وہ الفاظ نہیں  جن کے زریعے میں جوڈیشل مجسٹریٹ علی مرتضٰی میتلو کو خراج تحسین پیش کرسکوں
اللہ دیکھ رہا ہے اور وہی انصاف کرنے والا ہے
کیونکہ وہ دو مظلوم  باپ بیٹا خدانخواستہ جیل چلے جاتے تو موجودہ سیاہ قوانین کے مطابق اور انتظامیہ کی خواہشات کی تکمیل میں لگی ماتحت  عدلیہ  کیلئے انصاف فراہم کرنا ممکن نہ ہوتا  اس مقدمے کا تعلق کریمنل جسٹس سسٹم سے ہے اور یہاں میں اکیس توپوں کی سلامی پیش کرنا چاہتا ہوں  ان تمام سیشن ججز کو جو لائیسنس اوریجنل پیش کرنے پر ایک لاکھ ضمانت  جمع کروانے پر ملزم رہا کررہے ہیں
یہ بیچارے تو زندگی بھر کیلئے ذلیل ہوجاتے سیشن جج بھی ضمانت نہ دیتا چالان ان کے خلاف آجاتا ہایئکورٹ  جانے کے اخراجات ہی ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہیں  اگر آج ان دو افراد کا کیس  کسی نااہل شخص کے پاس پیش کیا جاتا اور وہ ان کو   جیل بھیج دیتا  تو گھر کے زیور سے لیکر  مکان تک بک جاتا  خدا کی قسم اس مظلوم شخص کی بیٹیوں کی عزت تک نیلام ہوجاتی لیکن ان دونوں باپ بیٹوں کی ضمانت نہ ہوتی اور اس کیس کے ذیلی اثرات ان کی آنے والی نسل تک رہتے   نہ جانے کونسی نیکی ان کے کام آگئی کہ آج تعطیل کا دن تھا اور آن ڈیوٹی مجسٹریٹ کو اللہ تعالٰی نے یہ ہمت دی کہ موجودہ حالات میں  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دو شہریوں کا کیس ابتدائی اسٹیج پر ہی خارج کردیا بلکہ ایک پورے خاندان کو تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا
کیونکہ ایک باعزت آدمی جب پولیس ، جیل اورعدالت کی چکی سے پس کرنکلتا ہے جب مقدمہ ختم ہوتا  ہے تو  پھر ایک زندہ لاش ہی باقی رہ جاتی ہے مقدمے کے دوران ایک شخص تباہ نہیں ہوتا پورا خاندان اور بعض اوقات پوری نسل تباہ ہوجاتی ہے ۔ایک ذرا سی توجہ ایک ذرا سا جرات مندانہ فیصلہ کسی کی عزت آبرو اور نسل کو بچا سکتا ہے محترم ججز صاحبان آپ تمام پر نہایت ہی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے