Powered By Blogger

Sunday 13 April 2014

"بشیرے"



گزشتہ دنوں ایک سٹی کورٹ کے ایک "بشیرے"کا واقعہ بیان کیا تھا جس کے سامنے ایک ملزم کو ہتھکڑی سمیت پیش کیا گیا تھا ۔چیک باؤنس کا کیس تھا ۔زیردفعہ 489-ایف کے  تحت مقدمہ رجسٹر تھا۔ملزم کے بھائی نے پیسے اداکردیئے تھے۔جب ملزم عدالت میں "بشیرے" کے سامنے پیش ہوا تو مدعی نے کورٹ میں بیٹھے "بشیرے" کو بتا یا کہ ہمارا کمپرومائز ہوگیا اب میں کیس نہیں چلاناچاہتا۔میں نے کورٹ سے کہا کہ لین دین کا مسئلہ تو حل ہوگیا اب شعبہ تفتیش والے نہیں مان رہے اس لیئے جب کورٹ کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ معاملہ حل ہوچکا ہے مدعی مقدمہ خود پیش ہوچکا ہے تو اس لیئے ملزم کو رہا کیا جائے ۔ملزم کی فوری ہتھکڑی کھول کر انصاف کیا جائے  "بشیرے"نے انکار کیا تو میں نے کہا کہ ضمانت ہی دے دیں تو بشیرے نے ضمانت کی درخواست پر نوٹس کرتے ہوئے کہا کہ وکیل ساب کونسی عدالتوں میں پریکٹس کرتے ہیں آپ جانتے نہیں کہ  پہلے پراسیکیوشن کو نوٹس ہوتا ہے اس کے بعد ضمانت کی درخواست کی سماعت ہوگی اس کے بعد آرڈر ہوگا کورٹ میرٹ دیکھے گی کہ ضمانت بنتی بھی ہے یا نہیں اس دوران ملزم جیل  میں رہے گا۔بہت سمجھایا کہ کامن سینس استعمال کریں کریمینل جسٹس سسٹم ایک سوشل سائینس ہے۔لیکن بشیرے کے سامنے قانون جھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا وہ یہی کہتا تھا کہ سندھ ہایئکورٹ  کا ایک کیس لاء ہے کہ  "بشیرے" انویسٹی گیشن میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ "بشیرے" نے ملزم کوجیل کسٹڈی کیا۔میں نے کہا کہ ایک دن کا ریمانڈ ہی دے دیں تاکہ تھانے سے رہا کروالیں  "بشیرے" نے کہا ڈائریکشن مت دیں میں ایک دن نہیں دودن کا ریمانڈ دوں گا
دودن کا ریمانڈ ہوا تھا ملزم  نے اسی وقت   تفتیشی افسر سے مک مکا کیا آٹھ جماعت تفتیشی افسر نے پیسے لیے ملزم کو اسی وقت رہا کیا اور ملزم کی ہتھکڑی کھول دی میں نے ملزم کا بازو پکڑا تھا اور سیدھا "بشیرے" کے پاس لے گیا تھا کہ یہ دیکھ یہ کام اگر آپ  کرلیتے تو انصاف کا بول بالا ہوتا۔
بدقسمتی دیکھیں کہ اس واقعے کو جب بلاگ پر لکھا تھا تو بہت سے  "بشیروں " نے تبصرے کیئے تھے کہ "بشیرے" نے قانون کے مطابق ٹھیک ہی کیا تھا قواعد وضوابط یہی کہتے ہیں
گزشتہ دنوں لاہور کی  ایک عدالت میں بیٹھے ہوئے بشیرے جنہیں اب آل پاکستان بشیرا ۔ایسوسی ایشن کا چیئرپرسن منتخب کرلیا گیا  جس نے نو مہینے کے بچے کو ضمانت قبل از گرفتاری دی تھی اور خدشہ تھا کہ ملزم فرار نہ ہوجائے اس لیئے 50000 پچاس ہزار روپے کی ضمانت بھی عدالت میں جمع کروائی گئی تھی نو مہینے کا دودھ پیتا بچہ ایک ماہ تک مختلف تاریخوں میں پیش بھی ہوتا رہا تھا کیونکہ پولیس فائل نہ ہونے کی وجہ  سےقواعد و ضوابط یہ کہتے ہیں کہ  ضمانت کی درخواست کی سماعت نہیں ہوسکتی اس لیئے قواعد وضوابط پورے کرکے ہمارے معزز "بشیرے" نے بالآخر ضمانت کی درخواست منظور کرلی اس سارے ڈرامے پر پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ۔بی بی سی۔ نے اس حوالے سے ایک  رپورٹ  شائع کی ہے جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے رپورٹ بھی من وعن شائع کررہا ہوں۔لیکن بشیروں سے سخت معذرت جو آج بھی یہی کہیں گے کہ  بشیرے نے قواعد وضوابط کے مطابق ٹھیک ہی کیا ہے
لیکن اس پہلے معروف قانون دان نے بشیرے کے بارے میں جو تبصرہ کیا وہ ملاحظہ فرمائیں
"پاکستان کے معروف قانون دان طارق محمود نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر ذمہ داری تو اس کے لیے انتہائی چھوٹا لفظ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جج صاحب میں ’کامن سینس‘ ہی نہیں تھی۔ ’جب جج کے پاس اتنی کامن سینس نہیں ہے تو پھر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ فیصلے کس قسم کے ہوتے ہیں۔
طارق محمود نے کہا کہ اگر جج صاحب کو قانون کا کچھ پتا نہیں تھا تو وہ عقل سے کام لے سکتے تھے"

Thursday 10 April 2014

سید وقار شاہ ایڈوکیٹ**سب ہے مر ے پاس ایک تم نہیں ہو


2007
کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں فرسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج صاحبہ کی عدالت تھی۔میں اپنے کیس کی سماعت کا منتظر تھا۔ایک قتل کے مقدمے میں گواہ پیش ہوا گواہ بہت ہی ٹیڑھا تھا اور اس نے سخت قسم کا بیان کورٹ کوریکارڈ کروایا میری دلچسپی اس وقت بڑھ گئی جب ایک وکیل صاحب جرح کیلئے کھڑے ہوئے ابتدائی سوالات کے بعد ایک سوال کیا تو عدالت نے ان کے سوال پر اعتراض کیا کہ یہ سوال آپ نہیں کرسکتے
وکیل صاحب نے خاموشی سے ایک کیس لاء پیش کیا اور  کہا کہ اس کیس لاء کے مطابق سپریم کورٹ مجھے یہ سوال پوچھنے کی اجازت دیتی ہے جج صاحبہ نے سوال پوچھنے کی اجازت دے دی۔اگلے سوال پر پھر ایک اعتراض اور اعتراض کا جواب دلائل سے دیا۔کہ فلاں کیس لاء کے مطابق مجھے یہ سوال پوچھنے کی اجازت ہے کیونکہ اعلٰی عدلیہ نے اعتراض نہیں کیا مختصر یہ کہ انہوں نے جرح کے دوران سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔اگرچہ گواہ بہت بڑا فن کار اور جھوٹا تھا لیکن وکیل صاحب نے اپنے علم کے زریعے اور جرح کے ہتھیار کے مؤثر استعمال سے اس کی گواہی کو جھوٹا ثابت کیا
اس وکیل کا نام مجھے وقار شاہ معلوم ہوا
ان دنوں ہم دوستوں نے پلان کیا تھا کہ کراچی بار میں کچھ لیکچرز اور ورکشاپس کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔کچھ پروگرامات ہوچکے تھے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی لیکچر دینا ہر کسی کاکام نہیں ہوتا اور لیکچر بھی وکلاء کو دینا مزید مشکل کام ہے
میرے ذہن میں  یہ بات آگئی تھی کہ وقار شاہ صاحب کے پاس بہت علم ہے اور وہ ایک اچھا لیکچر دے سکتے ہیں  ۔شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی جوکہ نہایت مختصر تھی آپ لایئبریری میں مطالعے میں مصروف تھے بعد ازاں انہوں نے لیکچر دینے کی حامی بھرلی
مختصر یہ کہ  بہت تیاری کے باوجود کراچی بار ایسوسی ایشن کے شہداء پنجاب ہال میں صرف 10 سے پندرہ وکلاء موجود تھے اور پورا ہال خالی تھا شاہ صاحب نے سلیس ترین اردو میں "جرح کے فن کے موضوع" پر لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔تھوڑی ہی دیر میں شہدا پنجاب ہال وکلاء سے مکمل طور پر بھر چکا تھا پہلا لیکچر سوالات کے سیشن کو ملا کر تین گھنٹے تک جاری رہا تھا اور شہدا پنجاب اس دوران مکمل طور پر بھرا رہا۔وکلاء نے شاہ صاحب کے انداز کو بہت زیادہ پسند کیا
بعد ازاں لیکچرز کا سلسلہ جاری رہا اور شاہ صاحب نے کریمینل جسٹس سسٹم کے موضوع پر لیکچرز دینے کا سلسلہ جاری رکھالوگ بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے اسی دوران شاہ صاحب کو پاکستان کے مختلف پولیس ٹریننگ اسکولز میں بلایا گیا جہاں آپ نے لیکچرز دیئے۔
کریمینل جسٹس سسٹم پر شاہ صاحب کی بہترین ریسرچ تھی۔شاہ صاحب کا کہنا یہ تھا کہ کریمینل جسٹس سسٹم پر عبور رکھنے والا وکیل ہی شہری آزادی کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چند سال سے ضابطہ فوجداری کی زیر دفعہ 103 کے خلاف بات کی جاتی تھی شاہ صاحب کہتے تھے کہ اگر جرائم کے خاتمے کیلئے ایک عام شہری کا کردار ختم کیا جائے گا تو ملک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا اسی دوران شاہ صاحب کے ساتھ مل کر ہم نے عدالتی اصلاحات کے موضوع پرجدوجہد کا سلسلہ شروع کیا اس موضوع پر بحث ومباحثے منعقد کیئے اور ویڈیوکانفرنس کے حوالے سے ایک پٹیشن سندھ ہایئکورٹ میں داخل کی۔جس کا مقصد یہ تھا کہ گواہ کے تحفظ کیلئے ضرورت پڑنے پر اس کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے ریکارڈ کیا جائے اور خطرناک ملزمان کو  عدالت میں ویڈیولنک کے زریعے پیش کیاجائے۔اگرچہ اس پٹیشن پر ذاتی مخالفت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن اس پٹیشن کے حوالے سے جوریسرچ تھی اسی کی بنیاد پر ویڈیو کانفرنس کے زریعے میمو اسکینڈل کے ایک اہم گواہ کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے پاکستانی سفارت خانہ برطانیہ سے پیش کیا گیا
2008 میں شاہ صاحب کریمنل مقدمات میں کامیابی کی علامت بن چکے تھے اور پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز ان کے پاس موجود تھے۔اور پاکستان کے مختلف شہروں سے ان کو صرف جرح کیلئے بلایا جاتا تھا
2010 میں شاہ صاحب نفسیاتی طور پر پریشان رہنے لگے تھے جس کا وہ کھل کر اظہار نہیں کرتے تھے ۔اصل بات یہ ہے کہ کراچی میں کریمینل سائڈ کی پریکٹس کرنا ممکن ہی نہیں رہا ذاتی طور پر مجھے خود کئی کیسز کی فائلیں واپس کرنی پڑی ہیں۔اور کئی کیسز لینے سے انکار کرنا پڑا ہے۔جان سے مارنے کی دھمکیاں تو معمول کا حصہ ہیں
2011 میں ہم نے ایک پروگرام کی بنیاد رکھی جس کا موضوع تھا "بہتر طرز حکمرانی کیلئے عدالتی اصلاحات" شاہ صاحب اس پروگرام کے بانی ممبر تھے
شاہ صاحب ایف آئی آر کو دہشت کی علامت قرار دیتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جو دستاویز خوف کی علامت ہو وہ انصاف کیسے فراہم کرسکتی ہے  اور اس حوالے سے اصلاحات کے حامی تھے
وقار شاہ صاحب نے ہمارے ساتھ کراچی سے لیکر سکھر تک کے سفر کیئے اور مختلف بار ایسوسی ایشنز میں ٹریننگ اور لیکچرز دیئے سکھر کے اے بی ڈی لاء کالج  میں ان کے لیکچر کو وکلاء اور طلبہ نے بہت پسند کیا تھا
چند ماہ قبل سندھ پولیس اور رینجرز کی تربیت کی تھی اور پراسیکیوشن کی ان خامیوں کی نشاندہی بھی کی تھی جن کی بنیاد پر ملزم بری ہوجاتے ہیں اور متعلقہ شعبوں کو تربیت فراہم کی تھی کہ کیس کس طرح تیار کرنا چاہیئے میرے خیال میں شاید یہ بھی ان کی ایک سنگین غلطی تھی
شاہ صاحب موجودہ عدالتی نظام کو بوگس سمجھتے تھے اور جدید عدالتی اصلاحات کے قائل تھے عدالتی اصلاحات کا پروگرام کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ
Mr. Waqar Shah said that transfer of judges or court staff was not the durable and long-lasting solution to the problem. He said when judges of trial courts pass judgments, their verdicts must be scrutinized. He added that judges during the conduct of judicial proceedings were only immune from accountability if the mistake made by them was the mistake of fact and not mistake of law. He further said that if judge of a sub-ordinate court happens to be on leave, his cause list/board must not only be transferred to a link judge, moreover,  the transferee judge should also look into the transferred cases if the nature of such cases required him to do so. He said that prior to Law Reforms Act 1972, there used to be a system of ‘ de novo trial’ which was scrapped after promulgation of the aforesaid law. He said that ‘de novo trial’ helped courts get the criminal cases decided by the same judge who presided it over from the day one. He said instead of bringing UTPs from Jails to the Courtrooms, modern technology of video-conferencing should be availed of. 

آج سے 25 سال پہلے اندرون سندھ سے آنے والے ایک انتہائی غریب نوجوان  سید وقار شاہ  نے اپنی محنت اور لگن سے وہ مقام حاصل کیا جو شاید ہی کسی وکیل کو حاصل ہو عمران خان  اور میاں نواز شریف سمیت بڑے سیاستدانوں کے وکیل رہے شاہ صاحب نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا تھا کہ کس طرح  شدید غربت کے باوجود انہوں نے کراچی جیسے شہر میں اپنا نام بنایا اور ایسا نام بنایاکہ ہر طرف آپ ہی کا نام گونجتا تھا
2012 میں اٹلی شفٹ ہونے کا پروگرام بنایا لیکن پھر منسوخ کردیا کیونکہ  ان کو مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں
لیکن اس کے بعد سوشل لائف محدود کردی تھی ان کا ہمارے ساتھ آخری پروگرام سندھ آرمز ایکٹ 2013 کے موضوع پر تھا  جس پر شاہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سیمینار سے خطاب کیا حسب معمول کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکلاء ان کے منتظر تھے اور شہدائے پنجاب ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا شاہ صاحب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ  جرائم کے خاتمے کیلئے ایک عام شہری کے کردار کو ختم کرنے کا مطلب ریاست کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنا ہے
زندگی بھر عدالتی اصلاحات کی بات کرنے والے ہمارے عظیم دوست کی زندگی کا سفر 10 اپریل 2014 کو اس وقت ختم ہوا جب گھر سے نکلتے ہی گھات لگائے ٹارگٹ کلرز نے ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا
بے بسی ہے اداسی ہے اور درد ہے
سب ہے میرے پاس ایک تم ہی نہیں ہو
ہم آج جتنا اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا۔کریمینل جسٹس سسٹم اور انسانی حقوق پر رہنمائی فراہم کرنے والے ایک عظیم انسان کی موت نے ہم سب کو شدید دھچکا دیا ہے
صفی الدین اعوان

Tuesday 8 April 2014

9 -اپریل 2008 طاہر پلازہ کے خوفناک واقعات


9 اپریل کے بعد بھی کافی دن تک خوف کے سائے چھائے رہے تھے۔
9 اپریل 2008 خون اورخاک کا وہ کھیل جو ایک سیاسی جماعت نے مشرف کے کہنے  پر پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں کھیلا۔اس کھیل میں بہت سے لوگ ملوث تھے
وکلاء اپنے چیمبرز کی طرف نہیں جاتے تھے۔طاہر پلازہ میں انسانی اعضاء کے جلنے کی بو کافی عرصے تک رہی۔واقعے کے  دوسرے دن جب جنرل باڈی منعقد ہوئی تھی تو وکلاء صرف سسکیوں کے علاوہ کچھ نہ بیان کرسکے۔وہ آنسو وہ خوف وہ سسکیاں وہ وحشت ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ شاید کسی نے تقریر کی ہو کہنے اور سننے کیلئے بچا ہی کیا تھا
بے بسی ہے اداسی ہے اور درد ہے
بلوائیوں نے نہ صرف طاہر پلازہ میں وکلاء تحریک سے منسلک وکلاء کے چیمبرز کو ٹارگٹ کیا بلکہ ان کو نظر آتش بھی کیا۔بنیادی طور پر بلوایئوں کا اصل ٹارگٹ کراچی بار ایسوسی ایشن کے خزانچی  نصیر عباسی صاحب تھے ۔جب وہ نہیں ملے تو الطاف عباسی کے آفس کو ٹارگٹ کیا گیا
جب بلوائی طاہر پلازہ میں  داخل ہوئے تو وکلاء نے حفاظتی اقدام کے طور پر اپنے آپ کو باہر سے تالے لگا کر اپنے آفسز میں ہی محصور کرلیا تھا۔بہت بڑی تعداد میں  آفسز کو نظر آتش کیا گیا تو وہ خالی تھے ۔الطاف عباسی  نے بھی اپنے آپ کو باہر سے تالے لگا کر محصور کیا ہوا تھا اندر چند کلایئنٹ بھی موجود تھے جو کہ دم سادھے بیٹھے تھے ۔بلوائی مایوس ہوکر جارہے تھے  ان کو محسوس ہوا کہ اندر لوگ موجود ہیں جس کے بعد ایک مخصوص کیمیکل  کی شیشی جو اس روز پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فسادات کے دوران استعمال ہوئی تھی کو آفس کی کھڑکی  سے اندر پھینک دیا گیا۔منٹوں سیکنڈوں میں انسانی چیخیں بلند ہوئیں دروازے پر حفاظتی اقدام کے طور پر تالے لگے ہوئے تھے۔جس کی وجہ سے آفس میں محصور افراد باہر نہیں نکل سکے۔چند لمحوں میں ہی چھ جیتے جاگتے انسان جل کر کوئلہ ہوگئے۔ انسان تو انسان آفس کے پنکھے تک پگھل گئے
پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں بلوائی اسلحہ اور کیمیکل لیکر گھوم رہے تھے  پولیس اور رینجرز ان سے نظریں چرا رہی تھیں
سینکڑوں لڑکوں نے طاہر پلازہ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔اس کے بعد وہ سکون سے نیچے اترے ڈسٹرکٹ کورٹس کے باہر وکلاء کی گاڑیاں کھڑی تھیں  وکلاء کے مخصوص اسٹیکرز کے زریعے ان کی گاڑیوں کو شناخت کرکے ان کو بے دردی سے آگ لگادی گئی۔بلوائی وکلاء کو تلاش  کررہے تھے۔اس کے بعد انہوں نے سٹی کورٹ کو گھیرے میں لیا اور وکلاء کی تلاش شروع کردی۔لیکن جب طاہر پلازہ کو آگ لگائی جارہی تھی  اور اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا تو اسی دوران پورا سٹی کورٹ خالی ہوچکا تھا بار رومز ویران تھے۔بلوائی کراچی بار ایسوسی ایشن میں  شہریار  شیری ایڈوکیٹ کو تلاش کرتے ہوئے اور دندناتے ہوئے  داخل ہوئے۔کلوز سرکٹ کیمرے نکالے توڑ پھوڑ  کی فائرنگ  کا سلسلہ جاری رہا اور لیڈیز بار روم کو نظر آتش کرنے کے بعد   ڈسٹرکٹ ویسٹ کے راستے سے واپس ہوئے اور وکلاء کی گاڑیوں کو نظر آتش کرتے ہوئے ایم اے جناح روڈ تک چلے گئے۔ اسی دوران   وکلاء تحریک کے ایک رہنماء سیدشہریار عرف شیری  جو ایک بہت ہی  معصوم اور سادہ قسم کا انسان تھا کو تلاش کرکے شہید کیا گیا۔
اسی قسم کی ٹولیاں وکلاء کے مختلف آفسز میں گئیں اور وکلاء کے آفسز کو نظر آتش کیا۔9 اپریل کو ایک تو جانی نقصان ہوا دوسرا بہت بڑی تعداد میں وکلاء کے چیمبرز اور گاڑیاں بھی نذر آتش کی گئیں اس کے ساتھ ہی  ملیر میں ۔ملیر بار ایسوسی ایشن کو آگ لگادی گئی تھی
طاہر پلازہ کی اس آگ کو کس نے بجھایا اور کوئلہ بنی لاشوں کو کس نے نکالا کوئی نہیں جانتا
9 اپریل کے بعد کافی عرصے تک سٹی کورٹ میں خوف اور دہشت کا عالم رہا۔اس خوف کو کوئی محسوس نہیں کرسکتا ڈسٹرکٹ کورٹس میں عجیب قسم کا سناٹا ہوتا تھا۔
جن وکلاء نے ان مناظر کو براہ راست دیکھا وہ کافی عرصے تک صدمے کی وجہ سے خوف کا شکار رہے اور شاید آج تک ہیں۔
شہید وکلاء کے لواحقین آج کس حال میں ہیں؟ جن وکلاء نے ایک عظیم مقصد کیلئے جان دی آج ان کے بچوں کے پاس اسکول کی فیسیں ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے

صرف عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ کا صدر منتخب ہونے کے بعد جب وہ کراچی آئیں تو شہدا وکلاء تحریک کے ورثاء کی خبر گیری کی اور وہ یہ بتاتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں کہ جب وہ اچانک ایک شہید وکیل کے گھر پہنچیں تو ان کا بیٹا اپنے گھر میں چند بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا اور یہی اس شہید وکیل کے ورثاء کی آمدن کا واحد ذریعہ تھا۔اسکول کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday 4 April 2014

عام آدمی تک اقتدار کی منتقلی عمران خان اپنا وعدہ کب پورا کریں گے


کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید عمران خان نے بھی قوم کے جذبات کو سمجھا ہی نہیں
عطاء اللہ خان عیسٰی خیلوی نے اپنی عمر بھر کی ریاضت اپنی پوری زندگی کا  اثاثہ صرف ایک گانے میں سمیٹ دیا تھا
"بنے گا نیا پاکستان" یہ عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کا وہ گانا ہے جس نے خان کی انتخابی مہم میں جان ڈال دی تھی اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی آفر کو ٹھکرا کر کہا کہ عمر بھر کی ریاضت عمران خان کے نام کردی ہے
بہت سے لوگوں کے جذبے تھے اور لوگ جان نثار کرنے کو ہرلمحہ تیار تھے
عمران خان کے حلقے کی ایک بوڑھی اماں نے مجھے کہا تھا
"ساراں نوں آزمایا اس وار عمران خان کو ووٹ دساں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔او نواں پاکستان بنڑیسی" سب کو آزما چکے ہیں اس بار عمران خان کو ووٹ دیں گے وہ نیا پاکستان بنائے گا
میں نے عمران خان کو ووٹ نہیں دیا حالانکہ وہ میرے آبائی گاؤں میں ایک  ایسا تعلیمی ادارہ بنا چکا تھا جس نے   علاقے میں تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ایک ایسا عظیم تعلیمی ادارہ جو آنے والے دس سالوں میں  میرے   آبائی علاقے کی تقدیر کو بدلنا ہے۔اور بتدریج تبدیلی کا عمل جاری ہے
لیکن اس کے باوجود میں نے خان کو ووٹ نہیں دیا ۔حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ تبدیلی لاسکتا ہے۔شاید ایک وجہ یہ بھی کہ وہ مغرور ہے لیکن میں اس کو برا نہیں سمجھتا
کیونکہ تبدیلی بتدریج آتی ہے اور نچلی سطح سے آتی ہے۔میں  گورننس کا ایک ادنٰی سا طالب ہوں اور جانتا ہوں کہ بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے
نفع نقصان اور نتائج کی پروا کیئے بغیر عمران خان کو بلدیاتی انتخابات کروادینے چاہیئے تھے۔اور اقتدار یونین کونسل کی سطح تک منتقل کردینا چاہیئے تھا۔یونین کونسل کی سطح تک اقتدار کی منتقلی عمران خان کے انتخابی ایجنڈے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ایک غریب درزی کو ایک غریب دھوبی کو ایک غریب خوانچہ فروش کو ایک ترکھان کو اقتدار منتقل کرے گا۔جب انٹرا پارٹی الیکشن ہورہے تھے تو یقین دلایا جارہا تھا کہ ایک عام آدمی کو پارٹی کے مرکزی عہدے دیئے جارہے ہیں کل اسی عام آدمی کو اقتدار بھی منتقل کیا جائے گا
اگر خیبر پختونخواہ کو ایک مثالی صوبہ بنانا تھا تو اس کیلئے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروا  کر اقتدار ایک غریب  اور عام آدمی تک منتقل کردیا گیا ہوتا تو آج تحریک انصاف کیلئے حالات مزید سازگار ہوتے
کیونکہ ہزاروں منتخب کونسلرز تبدیلی کے سفر کے سپاہی ہوتے
لیکن مجھے افسوس ہوا یہ جان کر کہ جس طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون بلدیاتی انتخابات سے بدکتے ہیں اسی طرح  تحریک  انصاف نے بھی اقتدار ایک عام آدمی کو منتقل نہیں کیا ۔ اس خوف اور ڈر سے دوسری پارٹی جیت کر مسائل نہ پیدا کردے۔لیکن اگر گلی محلے کے لوگوں کو اقتدار منتقل کرکے ملکیت کا احساس پیدا کیا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے
سب سے اچھا شہباز شریف رہا جس کے ذہن میں آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کرگزرتا ہے جو سمجھ میں آتا ہے کردیتا ہے اور یہی اس کی کامیابی ہے
 اپنے اس بدترین  سیاسی مخالف کو جس نے عیادت کیلئے آنے پر حقارت سے ملنے سے ہی انکار کردیا تھا کو دس ہزار کنال زمین  یونیورسٹی  اور تعلیمی شہر کیلئے الاٹ کرکے اخلاق کے میدان کو فتح کرکے اپنے سیاسی مخالف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دل میں شرمندہ کردیا
عمران خان   صاحب قوم کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔نوجوانوں کے جذبات بھڑک رہے ہیں ان کو طالبان نامی  ٹرک کی بتی کے پیچھے مت لگاؤ بلکہ ایک صوبے کی حکمرانی کو ماڈل حکمرانی میں بدلنے کیلئے اقتدار ایک عام آدمی کو منتقل کردیں میں یہ اپیل پیپلزپارٹی اور نون لیگ سے اس لیئے نہیں کرتا کہ ان دونوں کی ترجیحات میں عام آدمی تک اقتدار کی منتقلی نہیں رہا
موجودہ حالات میں ماڈل حکمرانی تو دور کی بات ہے عمران خان کا وزیراعلٰی کچھوے کی رفتار سے دوڑ رہا ہے جبکہ اس کا  مخالف شہباز شریف لسی پی کر تیزرفتاری سے دوڑے چلا جارہا ہے اور اپنے کام اور کارکردگی سے ہرروز مخالفین کے منہ بند کردیتا ہے دوسری طرف جماعت اسلامی نے اپنی آستین کے سانپ سے نجات حاصل کرلی ہے اور نیا امیرانقلابی ہے وہ تحریک انصاف کو ٹف ٹائم کے پی کے میں دے گا

میرا اور آپ کا "جاننے کا حق"


جاننے کا حق ۔۔۔ ایک شہری کو حاصل آزادیوں کے حوالے سے جب حقوق کی بات جاتی ہے تو سب سے اہم ترین آزادیوں میں سے ایک جاننے کا حق بھی ہے
میں جاننے کا حق رکھتا ہوں کہ میرے ادا کیئے گئے ٹیکس کے پیسے کا کیا استعمال ہوا ہے
میں جاننے کا پورا پورا حق رکھتا ہوں کہ میرے ادا کیئے گئے ٹیکس کے پیسے سے میرے پڑوس میں جو  سرکاری اسکول چل رہا ہے اس  میں پڑھائی کا معیار کیوں ناقص ہے ۔میں جاننے کا حق رکھتا ہوں کہ میرے بچوں کی تعلیم پر حکومت میرے ادا شدہ ٹیکس سے  جو پیسے خرچ کرتی ہے وہ ضائع کیوں ہوجاتے ہیں۔میں جاننے کا حق رکھتا ہوں کہ سرکاری اسکولوں کی موجودگی میں تعلیم کیوں کاروبار بن گئ ہے
مجھے آئین پاکستان پورا پورا حق دیتا ہے کہ میں کسی بھی سرکاری اسکول، ڈسپنسری،اسپتال،شہری حکومت ،یونیورسٹی اور کسی بھی سرکاری محکمے میں سے معلومات حاصل کروں کیوں کہ مجھے "جاننے کا حق ہے"
میں ایک عام شہری جو ہرروز پاکستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرتا ہوں ۔میں ایک عام شہری جو ٹوٹے پھوٹے چپل پہنتا ہوں اور میری "شیو" بھی اکثر بڑھی ہوتی ہے میں وہ عام شہری جو بہت حقیر بھی ہوں اور بے توقیر بھی اس لیئے کہ شاید میں جانتا ہی نہیں کہ مجھے جاننے کا حق ہے کہ میرے ادا شدہ ٹیکس سے میرے ادارے جن کا میں مالک ہوں  وہاں کیا ہورہا ہے۔میرے پیسے کا غلط استعمال کیوں ہورہا ہے میں یہ بات نہیں جانتا کہ میں ایک عام شہری تو ہوں لیکن کمزور ہر گز نہیں ہوں حقیر ہرگز نہیں بے توقیر ہر گز نہیں ہوں میری کم علمی میری لاعلمی اور میری خاموشی مجھے کمزور بناتی ہے میری خاموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ حکومت ہرماہ میرے ایک بچے پر تین  ہزار روپیہ خرچ کرتی ہے ۔لیکن وہ کسی بدعنوان  سرکاری افسر کی جیب میں چلے جاتے ہیں  اور مجھے مجبور ہوکر تعلیم کو کاروبار بنانے والوں  کو ہزاروں روپے بطور فیس ادا کرنےپڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ  میں جب بیمار ہوتا ہوں تو مجھے علاج کیلئے پرایئویٹ ڈاکٹروں کی لوٹ مار کا نشانہ بننا پڑتا ہے
کل تک میرے پڑوسی ملک بھارت میں بھی یہی حال تھا وہاں جاننے کا حق موجود تھا لیکن کسی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی پھر وہاں ایک  ویڈیو گانا مشہور ہوا جس کے بول تھے " مجھے جاننے کا حق ہے" چند دن کے اندر جاننے کا حق ہر ایک کی زبان پر تھا اور اگلے چند دن میں لوگوں نے غور کیا تو وہ گانا ایک تعلیم دے رہا تھا  ایک پیغام تھا ایک عام آدمی کے نام ایک ٹیکس ادا کرنے والے کے نام ایک حقیر اور بے توقیر شہری کے نام جو احتساب کا روز مطالبہ کرتا تھا لیکن نہیں جانتا تھا کہ ہم سب محتسب ہیں مجھے اور آپ کو احتساب کا پورا پورا حق حاصل ہے
پھر کیا تھا ہر ایک شہری جج بن گیا ہر ایک شہری محتسب بن گیا اور ہر شہری نے ایک عدالت لگالی کہ تم ایسا کیوں کررہے ہو
سادہ سے کاغذ پر  بے توقیر شہریوں نے جب درخواستیں  جمع کروائیں تو ان کی تعداد کروڑوں میں  تھی کہ کیوں تم میرا ٹیکس کا پیسہ لوٹ رہے ہو ۔کیوں تم مجھے وہ سہولت نہیں دیتے جو میرا حق ہے
جب کروڑوں حقیر اور بے توقیر شہری جمع ہوگئے تو پھر وہ حقیر نہ رہے پھر وہ بے توقیر نہ رہے اداروں کو جواب دہ ہونا پڑا
جب تک ہمارے ادیب،فن کار،گلوکار ،موسیقاراور ہماری سول سوسائٹی کے کرتا دھرتا ۔اس عوامی حق کے استعمال کی تعلیم عوام کو نہیں دیتے اس وقت  تک  ہمارا استحصال جاری رہے گا
ہم سب کو کوشش کرنی ہوگی اپنے لیئے اپنی آنے والی نسل کیلئے