Powered By Blogger

Wednesday 30 July 2014

اندھا اعتماد کامیابی کی پہلی اور آخری شرط


دوسال پہلے کوئی میرے بیس دوست جمع ہوئے عاقل بالغ دانش اور علم کے بہتے ہوئے سمندر انہوں نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی اس کا نام رکھا "رول آف لاء" بنیاد رکھنے کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ تحریک کا منشور دستور جھنڈا ترانہ اور لوگو اتفاق رائے سے بنائے جائیں گے اس کے بعد صدر وغیرہ کا سوچیں گے اس دوران تحریک کام کرتی رہے گی  لیکن ایک بورڈ  اور عارضی صدراس کا انتظام سنبھالے گا مجھے شمولیت کی دعوت تھی میں نے مصروفیت کی وجہ سے شمولیت اختیار نہیں کی
چند روز بعد مہم نے ایک  چھوٹی سی تحریک کی بنیاد رکھی  گنتی کے تین یار دوست تھے جنہوں نے  زبردستی مجھے صدر بنادیا حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا دوسرے ہی دن میں نے منشور دستور مقاصد پروگرام لوگو اور بے ضرر قسم کا ممبرز بورڈ آف دائریکٹر تشکیل دیا  یعنی  "ساہ نکلے پر آہ نہ نکلے" ممبر کی سانس نکل جائے لیکن آواز نہ نکلے یعنی میرے اچھے دوست  بورڈ کے ممبر تھےاور تیسرے ہی دن ہماری ٹیم میدان  میں اترچکی تھی
میں نے اختیارات کا استعمال شروع کیا ایک پالیسی لائی اس پر عمل کیا پہلی ٹیم میدان میں اتاری وہ  تو فوراً ہی تتر بتر ہوگئی فوری طور پر دوسری ٹیم میدان میں اتر چکی تھی فیصلہ سازی میرے پاس تھی میں فیصلے کرتا گیا آگے بڑھتا چلا گیا ہماری  نوزائدہ تحریک کو بہت سے چیلنجز بھی تھے  اور ٹیم ان چیلنجز کا مقابلہ کررہی تھی  ہر سطح اور ہرمیدان میں چیلنجز تھے پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی اور پلان بی کی ناکامی کے بعد پلان سی تیار ہوتا تھا چیلنج آئے  لیکن مقابلہ کیا اسی دوران منشور میں بھی تبدیلی ہوئی اور بعض مقاصد میں بھی تبدیلی ہوئی بورڈ کے  بے ضررممبران بھی  تبدیل ہوتے رہے بعض مستعفی ہوئے بعض کی مصروفیات کی وجہ سے چلے گئے اور کچھ کو اختلاف برائے اختلاف تھا تو چند ایک کو نیت پر ہی شک تھا اور چند نے تو دلوں کا حال جان لیا تھا حالانکہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے  دو دوستوں نے  عین عصر کے وقت روزہ توڑ دیا کہ یار تحریک ناکام ادارہ ناکام ہوگیا ہم جارہے ہیں  اور مخالف گروپ زیادہ اچھی آفر کررہا ہے  اور آپ لوگوں کے پاس تو ویسے بھی کسی کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں حالانکہ میں ان کے پاس یہ خوشخبری لیکر گیا تھا کہ ہم ایک بہت بڑا معاہدہ دستخط کررہے ہیں
ایک سال کے اندر اندر پوری ٹیم تبدیلی کے عمل سے گزرچکی  ہے جس نے جانا تھا وہ چلا گیا جس نے رہنا تھا رک گیا اسی دوران تحریک کئی سنگ میل عبور کرچکی تھی ہم کسی کو جواب دہ نہ تھے  سب سے زیادہ گڑبڑ ممبرز بورڈ آف ڈائریکٹر کرتے ہیں  اس کا تو حال یہ تھا کہ "ساہ نکلے پر آہ نہ نکلے"  اکثر بورڈ آف ڈائریکٹرز کا یہ حال ہوتا ہے کہ کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے مفت کی سیاست  ہمیں بتایا  نہیں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا  یہ نہیں ہوا تو وہ کیوں ہوا  فلاں سے اکیلے کیوں ملاقات کی  ہمیں کوئی خبر نہیں ہم اس مرض سے آزاد تھے   وسائل ہمارے اپنے تھے پالیسی ہماری اپنی تھی   اللہ ہمارے لیئے راستے بنارہا تھا معاون پیدا ہورہے تھے اسی دوران ایک تنقیدی  دوست نے کہا آپ کی فلاں پالیسی غلط ہے تو میں نے کہا ٹھیک کہا اب اسی غلط پالیسی کی بنیاد پر ہم کامیابی حاصل کریں گے اور وہی غلط پالیسی ہی کامیابی کی ضمانت بن گئی  کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب فیصلہ سازی کا اختیار کسی کو دے دیا جائے اور وہ جانتا بھی ہو کہ اس نے پوری ٹیم کو کہاں لیکر جاناہے تو تحریک کو چلانا آسان ہوتا ہے تحریکی زندگی کے دوران بہت سے یو ٹرن آتے ہیں اور بہت سے یوٹرن لینے پڑتے ہیں وہ بھی مجبوری ہوتی ہے لیکن ٹیم کا اعتماد ہو تو یوٹرن بھی لیئے جاسکتے ہیں  بہت سے بحران آتے ہیں ہرروز ایک نئی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جہاں   ہر نیا دن جہاں ایک نئی کامیابی لیکر آتا ہے وہاں ہرروز نئے بحران بھی منتظر ہوتے ہیں اور  ان سارے مسائل کا ایک ہی حل ہوتاہے ممبرز بورڈ آف ڈائریکٹرز کا مکمل تعاون  اور یہ بات کہ وہ آپ کے ساتھ اور ادارے کے ساتھ کتنے مخلص ہیں جوں ہی بورڈ کے ممبرز انگلی کرنا شروع   کریں جب بلاوجہ کی تجاویز سامنے آنا شروع  تو سمجھ لیں کہ بھینس  کود گئی تالاب میں اب وہ پورے تالاب  میں بلاوجہ کی ہلچل مچائے گی
بعض فیصلے غلط بھی ثابت ہوئے لیکن ان کو سنبھالنا بھی ایک فن ہے اور میں نے ان کو بروقت سنبھالا میدان میں کھڑے ہو کر تنقید کا سامنا کرنا مشکل ترین کام ہوتا ہے لیکن سب سے بڑی شرط کامیابی کی یہ بھی ہے کہ ادارے کا سربراہ دلیر ہو بہادر ہو بزدل نہ ہو  تحریک وہ کامیاب ہوتی ہے جس کا لیڈر اپنی تحریک کیلئے جان دے سکتا ہو اور کسی کی جان لے بھی سکتا ہو جو لیڈر اپنی تحریک کیلئے سینہ تان کر جان نہ دے سکتا ہو  وہ کامیاب نہیں ہوسکتی
 دوسری طرف "رول آف لاء " پر کیا گزری وہ دوسال میں صرف منشور بنانے  میں کامیاب ہوچکے ہیں  ابھی دستور بنانا باقی ہے اس کے علاوہ تنظیم کے "لوگو" بنانے پر جھگڑا چل رہا ہے  تین گروپ بن چکے ہیں  ٹرسٹی ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے   دوسال میں فیصلہ سازی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا  کہ فیصلے کون کرے گا  " ہر ساہ نال آہ نکلے" صدر کہتا ہے کہ میں طاقتور ہوں ممبرز بورڈ آف ڈائرکٹرز کہتے ہیں کہ بورڈ کے سامنے صدر کیا بیچتا ہے چیئرمین کا عہدہ تخلیق کیا جارہا ہے تاکہ صدر کو لگام ڈالی جاسکے   آج تک کوئی پروگرام نہیں کرسکے بورڈ کا اجلاس بک بک سے شروع ہوتا ہے اور جھک جھک پر ختم ہوجاتا ہے کسی  دوسرے ادارے کے ساتھ نیٹ ورک کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا رول آف لاء کا کوئی دشمن نہیں ممبرز خود ایک دوسرے کے پیچھے دومنہ والا دادو کا کلہاڑا لیکر گھوم رہے ہیں  میرا دوست جس نے بنیاد رکھی کل کہہ رہا تھا کہ یار پھنس گیا ہوں  نہ آگے کے ہیں نہ پیچھے کے فرمائشیں الگ ہیں اجلاس کے بعد  مٹن کڑاہی سے کم میں راضی نہیں ہوتے وہ بھی سارا خرچہ  میرے گلے  آپس کے جھگڑے ہی ختم نہیں ہورہے  میں نے کہا اب  کچھ نہیں ہوسکتا بھینس تالاب میں کود چکی ہے اب وہ واپس آنے سے رہی   
جب بھی کوئی تحریک شروع کی جائے مقاصد واضح ہوں دوست پرخلوص ہوں اور ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کرتے ہوں  تو اللہ کی مدد بھی شامل ہوجاتی ہے اور کامیابی ضرور ملتی ہے    
اسی دوران میرے دوست کو اندر جانا پڑا کیونکہ ممبرز بورڈ آف ڈائرکٹرز کے اجلاس کے دوران  اوئے اوئے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں  اسی دوران ان کے  ایک ساتھی نے ہانپتے ہوئے باہر آکر بتایا کہ  بورڈ آف ڈائریکٹرز  اجلاس کے دوراننے ایک دوسرے کے سر پھاڑ دیئے ہیں  کیونکہ" رول آف لاء "کے لوگو  بنانے پر اختلاف پیدا ہوگیا تھا ایک گروپ کا مؤقف تھا کہ رنگ پیلا
ہو دوسرے کا مؤقف تھا کہ  رنگ  کالا ہو

Monday 28 July 2014

کراچی کے اردو بلاگرز کا افطار ڈنر


کل بروز اتوار کراچی کے اردو بلاگرز کی جانب سے ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کراچی  میں رہایئش پذیر اردو بلاگرز شریک ہوئے یہ دوستوں کی جانب سے ایک بہترین کاوش تھی آپ دوست جو کچھ اردو بلاگ کی صورت میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے پیچھے ایک پوری ٹیم موجود ہے جنہوں نے بے لوث ہوکر اردو زبان کی ترقی کیلئے دن رات کوشش کی اور اپنے ذاتی وسائل اردو بلاگنگ کیلئے وقف کیئے ہیں
میری ان دوستوں سے یہ پہلی ملاقات تھی جو کہ کافی اچھی رہی
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اردو بلاگنگ ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے جس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب آج سے ایک سال پہلے میں نے باقاعدہ بلاگ لکھنا شروع کیا اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ  اردو بلاگ کون پڑھتا ہوگا اس دوران دوستوں نے انگلش بلاگ لکھنے کا بھی مشورہ دیا لیکن  وہ سلسلہ کامیاب نہ ہوا
اردو بلاگ لکھے اور سوشل میڈیا کی آزادی سے خوب فائدہ اٹھایا بعد ازاں جب اس سارے معاملے کا فیڈبیک آنا شروع ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اردو بلاگ  صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اس کے قارئین موجود ہیں جب کے میرے بلاگ کے  ساٹھ فیصد قارئین امریکہ میں ہیں اسی دوران  سوشل میڈیا پر موجود آزادی کا جب زیادہ  "فائدہ " اٹھایا تو دوستوں کی جانب سے دبی دبی سی تنقید سامنے آنا شروع ہوئی جس کے بعد میں نے بھی ذرا سا محتاط رویہ اختیار کیا اور قاریئن کی خاطر لکھنا شروع کیا
اردو بلاگنگ سے رابطوں میں بہت ہی زیادہ اضافہ ہوا حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک کے پاکستان میں مفادات ہیں وہ اردو بلاگ پر گہری نظر رکھتے ہیں  جن میں ایران،امریکہ،سعودیہ،برطانیہ وغیرہ شامل ہیں اور چند غیر ملکی سفارت کار بذریعہ ای میل اپنی رائے باقاعدگی سے دیتے ہیں بیرونی دنیا کیلئے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پاکستانی عدلیہ میں اکیسویں صدی میں بھی  فنگر پرنٹ اور فرانسسک  شھادت کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ اس  جھوٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اگر جھوٹ بولا تو اللہ کا قہر اور عذاب مجھ پر نازل ہو
اٹلی اور ترکی پاکستان کی سول عدلیہ سے دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے تجارتی مفادات پاکستان سے منسلک ہیں جبکہ امریکہ اور جرمنی فوجداری نظام میں اصلاح سے دلچسپی رکھتے ہیں  اور اس کیلئے اعلٰی عدلیہ کو امداد بھی دیتے ہیں لاء سوسائٹی کے بلاگ کی وجہ سے پاکستان میں موجود ایک غیر ملکی سفارت خانے نے جس کے تجارتی مفادات پاکستا ن میں ہیں ہم سے پاکستان میں موجود ان قوانین  کے حوالے سے رائے لی جن کا اطلاق پاکستانی بندرگاہوں پر ہوتا ہے اور اپنی تجارتی پالیسی  ان قوانین کی روشنی میں مرتب کرنے کے بعد ہمارا شکریہ ادا کیا کیونکہ   غیر ملکیوں کیلئے تجارتی پالیسی میں بندرگاہ سے متعلق قوانین بہت اہمیت رکھتے ہیں
لاء سوسائٹی پاکستان ایک این جی او کا نام ہے جو میں نے اور میرے دوستوں نے عدالتی اصلاحات کیلئے بنائی تھی اور میرے بلاگ کا نام بھی لاء سوسائٹی پاکستان ہے مختصر یہ کہ یہ بلاگ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا  ۔عوام الناس کے سامنے عدلیہ کے حوالے سے بہت کچھ آیا۔کیا مشکلات ہیں وہ پہلی بار سامنے آئیں کئی بار تنقید اس قدر کھل کر ہوئی کہ  اعلٰی عدلیہ میں موجود حمایتی پریشان ہوگئے چند تحاریر پر سندھ ہایئکورٹ  نے اندرونی طور پر نوٹس لیئے گئے 
بلاگ کے زریعے ہمیں معاونین کی ایک بہت بڑی تعداد میسر آئی اور لاءسوسائٹی کا پیغام پوری دنیا میں پھیلا اسی دوران چند ایسے معاونین بھی ملے  جنہوں نے ادارے کے ساتھ معاونت کی میرے ایک امریکہ میں موجود قاری نے بے حد اصرار کے ساتھ مجھے لاء سوسائٹی کے آفس کیلئے جدید ماڈل کے کمپیوٹر ز اور لیپ ٹاپ بھیجے   یہ ہر لحاظ سے حیرت انگیز ہے  اسی دوران ایک امریکی ادارے نے اسکالر شپ کے حوالے سے ہی میرے ایک امریکہ میں موجود قاری کے توسط سے رابطہ کیااس کے علاوہ  اردو بلاگ کے قارئین  کی کثیر تعداد کتابوں کے تحائف بھیجتی ہے اس کے علاوہ اردوزبان سے محبت رکھنے والی بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں اردو کی ترویج اور اشاعت کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں اس حوالے سے انہوں نے بھی رابطے کیئے ہیں
ایک سال کے عرصے میں پوری دنیا میں موجود قارئین کی بہت بڑی تعداد نے ہم سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں کبھی کبھی احسا س ہوتا ہے کہ شاید ہم ان توقعات پر پورا نہ اتر سکیں
آج قارئین کی بہت بڑی تعداد جو دنیا بھر میں موجود ہیں جو لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کو پڑھتی ہے  اور اپنا ردعمل دیتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو بلاگ کو اپنا دائرہ مزید وسیع کرنا ہوگا
تجارتی دھارے میں لائے بغیر مستقل بنیادوں پر اس کو جاری رکھنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور  ہوگا
گزشتہ شب افطار ڈنر کے دوران مجھے احساس ہوا کہ اردو بلاگرز کے گروپ میں  اضافے کی ضرورت ہے  ہر طبقہ فکر کی نمائیندگی ہونی چاہیئے  خواتین بلاگرز کی کراچی میں فعال نمائیندگی کی ضرورت ہے سوشل سیکٹر کے لوگوں کی ضرورت ہے
جس قدر وسیع تجارتی میدان اس شعبے میں موجود ہے اس سے تجارتی بنیادوں پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جب مالی مفادات منسلک ہونگے تو  دوست پروفیشنل بنیادوں پر اردو بلاگنگ میں زور آزمائی کریں گے نئے باصلاحیت لوگ سامنے آئیں گے بڑے میڈیا گروپس کے ساتھ نیٹ ورک بنانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ان کا اپنا دائرہ کار ہے   پرنٹ میڈیا میں ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے بڑے بڑے لکھاری اپنے روایتی اخبارات چھوڑ کر جاچکے ہیں  اسی دوران ان کا ٹیمپو بھی ٹوٹ چکا ہے ، پہلے جیسی بات نہیں رہی اور اردو صحافت کو اس وقت شدید ضرورت ہے کہ نئے لوگ سامنے آئیں  قارئین بے چینی سے منتظر ہیں کہ کوئی نیا نام سامنے آئے جو افکار و خیالات سے دھوم مچادے جس کے قلم کی دھار عوام کے جذبات کی نمائیندہ بن جائے
وہ کمی اردو بلاگرز  اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پاکستان میں اردو بلاگنگ ایک حقیقت ہے  اور کئی اردو بلاگرز بہت اچھا لکھتے ہیں  اور مکمل بے ساختگی کے ساتھ لکھتے ہیں لیکن اس کو تجارتی بنیادوں پر منوانے کی ضرورت ہے  اردو بلاگرز کو میرا مشورہ ہے کہ  کم ازکم کراچی کی سطح پر اپنی ایسوسی ایشن تشکیل دیں ایک باقاعدہ  آفس  کی بنیاد رکھیں جس میں پروفیشنل بنیادوں پر اردو بلاگرز کو سامنے لانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان کے  چند بڑےتجارتی ادارے اس شعبے میں اسپانسر شپ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسپانسر شپ حاصل کرنے کیلئے بعض اہم شرائط پوری کرنا تجارتی نقطہ نظر سے ضروری ہیں جن میں سب سے اہم ترین شرط ادارے کا رجسٹرڈ ہونا اور ادارے کی مستقل پالیسیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جس کی روشنی میں کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی اپنے تجارتی مفادات کو سامنے رکھ کر معاہدہ کرتی ہے  امید ہے دوست اس پر غور کریں گے  
افطار ڈنر کا شکریہ  رائے دیتے ہوئے کچھ ناگوار گزرا ہو تو معذرت 

Saturday 26 July 2014

پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے


آج سے چند سال ہی پرانی بات ہے سٹی کورٹ میں ایک لڑکا آتا تھا اس کی آواز بہت ہی پیاری تھی وہ کراچی بار کی کینٹین میں وکلاء کے ساتھ آجاتا اور وہاں اس سے  وکلاء گانے سنتے تھے اور داد دیتے تھے  اس کے بدلے میں ایک کپ چائے اور کھانا کھلادیتے تھے   نوجوان وکلاء  کا ایک گروپ روزانہ وعدہ کرتا کہ پانچ روپے دیں گے لیکن گانا سننے کے بعد وہ اس سے پانچ روپے بھی واپس لے لیتے تھے  کیونکہ ان کا اپنا ہاتھ بھی تنگ تھا اس طریقے سے بھی اس کی اچھی خاصی آمدن ہوجاتی تھی  کیونکہ اور وکلاء بھی پیسے دیتے تھے
پھر ایک دن وہ لڑکا غائب ہوگیا وہ ایک نہایت ہی باصلاحیت لڑکا تھا اس کی آواز کا معیار انٹرنیشنل معیار کا تھا لوگوں نے قدر تو کی لیکن اپنی حیثیت کے مطابق کی
وہ اس گروپ کا بھی احسان مند تھا جو اس سے پانچ روپے دینے کا وعدہ کرتے تھے لیکن پورا نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے ہی اس کو اس کینٹین میں متعارف کروایا تھا
اس گروپ کا ایک ممبر میرا دوست ہے کل اس نے مجھے یہ سارے واقعات فلم کی طرح سنائے کیونکہ 1998 میں ہم بار کے ممبر نہیں تھے کہ وہ ایک لڑکا تھا بہت اچھا تھا ہمیں گانے سناتا تھا آواز بہت پیاری تھی ہرروز آتا تھا ہم صرف چائے پلاتے تھے اور میرا ایک ساتھی پانچ روپے کاوعدہ کرکے واپس لے لیتا تھا وہ بہت کہتا تھا یار ایسا نہ کرو
بعض اوقات ضرورت انسان کو کتنا مجبور کردیتی ہے اور بڑے بڑے باصلاحیت افراد کو کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ضرورت مند انسان جب انسان کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر انسان تو ظالم ہی ہے ناں 
میرے دوست نے کہا یار کل ایک عجیب معاملہ ہوا کلفٹن سے جارہا تھا کہ ایک نئے ماڈل کی کار میرے پیچھے لگ گئی بہت جان بچائی لیکن اس نے بالآخر مجھے ایک  جگہ گھیر ہی لیا اور میرے آگے کار کھڑی کردی میں اس صورتحال سے پریشان ہوہی رہا تھا کہ اس کار کی فرنٹ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ مجھے جانا پہچانا سا لگا تو اس نے کہا وکیل ساب پہچانا نہیں  میں نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اس کو پہچانا یہ تو وہی لڑکا تھا
اس نے کہا آپ کو میں نے بہت تلاش کیا آپ ملے ہی نہیں کیونکہ میرا دوست اسی دوران  1999 میں اعلٰی تعلیم کیلئے بیرون ملک چلا گیا تھا  اس نے کہا آج آپ کو سگنل پر پہچانا بہرحال مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے یہ تو میڈیا کے زریعے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک نامور گلوکار بن چکا ہے لیکن ملاقات پندرہ سال بعد ہورہی تھی لیکن آنکھوں پر پھر بھی یقین نہیں آرہا تھا   وہ مجھ سے مل کر بہت ہی خوش ہورہا تھا روڈ پر ایک مختصر سی ملاقات کرکے جانے لگا تو میں نے کہا کبھی آؤنا بار میں اس نے ہنس کہ کہا کہ مجھے پتہ ہے تم لوگ مجھے پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے یہ کہہ کر وہ چلاگیا  
یااللہ کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے مجبور نہ کرنا  یہ انسان دنیا کا سب سے ظالم درندہ ہے
اس نوجوان کو آج پورا پاکستان رحیم شاہ کے نام سے جانتا ہے   میں یہ واقعہ شیئر نہ کرتا اگر رحیم شاہ نے خود شیئر نہ کیا ہوتا 

Thursday 24 July 2014

کامران خان کی جنگ گروپ سے علیحدگی


پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کی بنیاد رکھنے والے معروف صحافی کامران خان نے آج جیو چینل کو خیرآباد کہہ دیا ان کا آخری شو بھی یادگار رہا اور انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ جیو چینل سے وابستگی کو اچھے الفاظ میں یاد کیا
کامران خان کو اللہ تعالٰی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اور میں نے ہمیشہ انہیں ایک ذمہ دار صحافی کے طور پر دیکھا ہے اگرچہ بے شمار مواقع پر ان کی ذاتی رائے کو تحقیقاتی صحافت پر غلبہ پاتے ہوئے بھی دیکھا ہے جو کہ ہرانسان کے ساتھ منسلک ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طور وہ ذمہ دار صحافی ہیں اور ان کی گھن وگرج کے ساتھ مخصوص آواز ہمیشہ حکمرانوں کیلئے ایک خطرہ رہی ہے اور پاکستانی عوام ان کی رپورٹنگ اور ان کے انداز کو پسند کرتے ہیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے جیو نے جس رویئے کا انتخاب کیا وہ غلطی پر مبنی تھا جیو گزشتہ کچھ عرصے سے صحافیانہ بددیانتی بھی کررہا تھا جو کہ جنگ گروپ جیسے ادارے کیلئے مناسب نہیں تھا اور چینل کی غلط پالیسیوں کو ان کے قارئین بھی کافی دنوں سے محسوس کررہے تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اردو صحافت کا قبل فخر ادارہ بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہوچکا ہے  قانونی جنگ سے ہمیشہ جان چھڑانے والا ادارہ جنگ اس وقت قانونی جنگ کا شکار ہے اور اس کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ اس کے قانونی مشیروں کی ٹیم لے جاتی ہے اور یہ قانونی جنگ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں جیو اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کاپی رائٹ جیسے حساس قانونی مسئلے کا شکار ہے اگرچہ پاکستان میں ان کا قانونی مشیر سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری تھا جنہوں نے چیف جسٹس پاکستان ہونے کے باوجود جنگ کے قانونی مشیر کے طور پر کام کیا اور ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے ادارے کی بے لوث خدمت کی اور ممکنہ طور پر نیئے آنے والے چینل "بول" کا راستہ روکنے کی جنگ کی کوششوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن افتخار محمد چوہدری کے جاتے ہی یہ معاملہ ختم ہوگیا اور شاید نیا چیف جسٹس جنگ کا قانونی مشیر نہیں ہے لیکن   موجودہ سپریم کورٹ کے بنچ میں ان کے قانونی مشیر موجود ہیں جو جنگ گروپ کیلئے میچ فکس کرتے ہیں  لیکن  افتخار محمد چوہدری کے جانے کے بعد ایک خلاء پیدا ہوگیا ہےجس کی وجہ سے تمام میچ فکس نہ ہونے کی وجہ سے جیو اب پاکستان  میں بھی قانونی جنگ ہاررہا ہے  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کامران خان چھوڑ کر چلا گیا ہے اسی طرح افتخار محمد چوہدری کے جان نشین  نے بھی کسی اور ادارے کے قانونی مشیر کے طور پر کام شروع کردیا ہو جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی پوزیشن ہے سب سے اہم ترین کاپی رائٹ کے چند مقدمات امریکہ میں چل رہے ہیں جہاں ادارے کی پوزیشن کمزور ہے
یہی وجہ ہے کہ وہ صحافی جو روزنامہ جنگ کے ساتھ رہنا قابل فخر سمجھتے تھے وہ تیزی سے ادارہ چھوڑ کر جارہے ہیں اور ادارے نے مبشر لقمان جیسے گھٹیا انسان کو منہ لگا کر اپنے آپ ذلت کے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں مبشر لقمان کھڑا ہے
بدقسمتی سے ایک پورے ادارے جنگ اور مبشر لقمان کی ساکھ برابر ہوچکی ہے جب ایک بہت بڑی  صحافتی ایمپائر کا درجہ پاکستان کے سب سے گھٹیا صحافی  کے برابر ہوجائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ اب کہاں کھڑا ہے

Wednesday 23 July 2014

قانونی تنازعات کا متبادل حل تحریر مس عشرت سلطان

دستگیر لیگل ایڈ سینٹر ایک طرف تو تشدد کا شکار خواتین کو بھرپور قانونی امداد فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ فریقین کے فیملی تنازعات کو بات چیت کے زریعے حل کرکے خاندان کو بکھرنے سے بچایا جاسکے
دنیا بھر میں آج کل کوشش کی جارہی ہے کہ تنازعات کو عدالت سے ہٹ کر متباد ل طریقوں سے حل کیا جائے اس سلسلے میں ہم نے ایک کامیاب کوشش گزشتہ دنوں کی جب ایک لڑکی اپنا تنازعہ لیکر ہمارے پاس دستگیر لیگل ایڈ سینٹر میں آئی اس کا تنازعہ یہ تھا کہ اس کی شادی اس کے کزن سے ہوئی تھی شادی کے پہلے دن ہی لڑکی پر یہ انکشاف ہوا کہ اس شادی کیلئے شوہر کی رضامندی نہیں تھی بلکہ اس نے والدین کے کہنے پر شادی کی ہے  شادی کے چند ماہ بعد ہی تنازعات اس قدر بڑھ گئے کہ لڑکی اپنے والدین کے پاس چلی گئی اور اس کے شوہر نے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ  حالات کی خرابی کی ذمہ داری اپنے سر لیکر طلاق لے  لڑکی کا مؤقف یہ تھا کہ اگر اس کا شوہر اس کوطلاق دینا چاہے تو بے شک دے دے لیکن اس کیلئے یہ الزام ہی ناقابل برداشت تھا کہ طلاق کی وجہ خود لڑکی کا رویہ ہے اور دستاویزات کے زریعے وہ خود قبول کرلے کہ وہ ایک اچھی بیوی نہیں بلکہ ایک جھگڑالو عورت تھی اسی دوران اس کے شوہر کے وکیل نے اس لڑکی کو ایک لیگل نوٹس بھی بھجوادیا جو کہ  ایک دھمکی آمیز نوٹس تھا اس میں لڑکی کو واضح دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اس نے دستاویزات پر دستخط نہ کیئے جن کی رو سے وہ لڑکی ایک جھگڑالو قسم کی خاتون ہے اور اس کی غلطیوں کی وجہ سے حالات طلاق تک پہنچ گئے تو اس کے خلاف تھانے میں ایک ایف آئی آر بھی درج کروائی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے اس لڑکی کے اہل خانہ سخت پریشان تھے دستگیر لیگل ایڈ سینٹر سے جب اس لڑکی نے رابطہ کیا تو وہ لڑکی سخت خوفزدہ تھی لیکن سینٹر میں موجود نفسیاتی ماہر نے اس لڑکی کو نفسیاتی سیشن  کے زریعے یہ یقین دلایا کہ اس کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور اس کی ہرسطح پر قانونی معاونت کی جائیگی
جس کے بعد اس مسئلے کے حل کیلئے اس لڑکی کے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کیا جس کے بعد دستگیر لیگل ایڈ سینٹر  نے  اپنے وکلاء کے زریعے ان لیگل نوٹسز کا جواب دیا گیا جس میں واضح کیا گیا کہ  بیوی کی کفالت شوہر کا حق ہے اور وہ اس کے نان ونفقے کا ذمہ دار ہے دوسری طرف اگر وہ طلاق دینا چاہے تو اس کو بیوی کے وہ تمام حقوق  بمعہ حق مہر بھی اداکرنے ہونگے اس کے علاوہ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کسی قانون کے تحت بھی وہ اس وجہ سے اپنی بیوی کے خلاف ایف آئی آر نہیں درج کرواسکتا کہ اس کی بیوی طلاق کے ان دستاویزات پر دستخط نہیں کررہی جو اس کی کردار کشی پر مبنی ہیں جس کے بعد اس کا شوہر بات چیت پر آمادہ ہوئے پہلے سیشن میں کوشش کی گئی کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے اور اگر غلط فہمیاں ہوں تو دور ہوجائیں لیکن  بدقسمتی سے یہ سیشن ناکام رہا  لڑکے نے واضح کردیا کہ وہ شادی کیلئے صرف والدین کے دباؤ کی وجہ سے راضی ہوا تھا  اور وہ اپنی مرضی سے کسی اور جگہ شادی کرنا چاہتا ہے میں نے اس کو یہ کہا کہ کاش وہ شادی  کے وقت ہی ہمت کرلیتا  اور والدیں کو منع کردیتا  تو آج ایک لڑکی کی زندگی برباد نہ ہوتی  اور اس کے لیئے بھی مسائل پیدا نہ ہوتے۔جس کے بعد علیحدگی کے حوالے سے بات چیت ہوئی اور فریقین کی مشاورت سے یہ طے پایا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر طلاق کی ذمہ داری ڈالنے کی بجائے ایک قانونی طلاق  نامے کے زریعے علیحدگی اختیار کریں گے  طلاق نامہ کی تحریر قانونی ہوگی جس  میں کوئی الزام نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کے شوہر نے موقع پر ہی حق مہر ادا کیا اور عدت پیریڈ کے دوران کے اخراجات ادا کردیئے اس کے علاوہ اس کی اہلیہ جتنا عرصہ  اپنے والدین کے گھر رہی اس کے اخراجات ادا کرنے کا اس نے وقت لیا کہ وہ تین ماہ کے دوران ادا کردے گا جبکہ لڑکی کا جہیز بھی مشاورت اورسامان کی  لسٹ پر اتفاق کے بعد واپس کردیا گیا اور بوقت تحریر جہیز کی واپسی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اس پورے عمل پر صرف ایک گھنٹہ لگا دونوں فریقین کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا اور بات چیت کی وجہ سے دونوں فریقین میں جو قانونی جنگ جاری تھی وہ بھی ختم ہوگئی
اگر فریقین عدالت میں جاتے تو ناقابل برداشت حد تک وقت ضائع ہوتا اور فریقین کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا
ایک گھر ٹوٹنے کا بہت افسوس ہے ۔
اگر فریقین بات چیت پر آمادہ ہوں تو مسائل کے حل کیلئے (اے ڈی آر) ایک بہترین طریقہ کار ہے  دستگیر لیگل ایڈ سینٹر اس حوالے سے کوشش کررہا ہے کہ جو معاملات عدالتوں میں سالہا سال الجھے رہتے ہیں  وہ اس طریقہ کار کے زریعے حل کرے اس میں فریقین کا وقت اور پیسہ دونوں بچتے ہیں
ذیل میں تنازعات کے حل کے طریقہ کار کا  ایک مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے

تنازعہ کی متبادل تدبیر کیا ہے؟
تنازعہ کی متبادل تدبیر [Alternative Dispute Resolution (ADR)] میں تنازعات کو نمٹانے اور حل کرنے کے لئے بہت سارے مختلف طریقے استعمال کرنا شامل ہوتا ہے۔
لوگ مختلف قسم کے تنازعات میں ملوث ہوتے ہیں۔ عدالت کا سہارا لینا تنازعہ کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ تاہم، اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے اور کافی زیادہ رقم کی لاگت آسکتی ہے۔ لوگ کمرۂ عدالت سے باہر تنازعات کو تیزی سے اور کم خرچ پر حل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

ADR کے بہت سارے دستیاب اختیارات کے ساتھ، آپ اپنی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بہترین طریقہ منتخب کرسکتے ہیں۔ مثلاً، آپ کسی بچے کی تحویل کا تنازعہ نمٹانے کے لئے ایک طریقہ منتخب کرسکتے ہیں جبکہ اپنی بلدیہ کے ساتھ ملازمت کا مسئلہ یا کوئی تنازعہ نمٹانے کے لئے کوئی مختلف طرز عمل اپنا سکتے ہیں۔

Sunday 20 July 2014

کیا عدلیہ تفتیش میں مداخلت کرسکتی ہے

ہمارے سامنے ایک بہت بڑی  مثال موجود ہے جس کے ذریعے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے  لندن میں رہائیش پذیر ایک پاکستانی شہری پر  ایک پاکستانی نژاد شہری ڈاکٹر عمران فاروق  کے قتل کا الزام ہے اسکاٹ لینڈ یارڈ اس معاملے کی تحقیق کررہا ہے لیکن انہوں نے آج تک اس پاکستانی شہری کو جو ایک سیاستدان بھی ہے کو اس کیس میں گرفتار نہیں کیا۔ بلکہ صرف تفتیش کی ہے وہ بھی مقررہ وقت کے اندر معاملہ عدالت تک نہیں گیا لیکن  لندن پولیس نے اس پاکستانی شہری کو لندن شہر  سے باہر جانے پر پابندی لگادی ہے نہ ہی وہ ملک چھوڑ کر جاسکتا ہے پولیس نے ابتدائی تفتیش میں بیان کیا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کرنے والے تھے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ان کی فیس بک کی آئی ڈی پر بے شمار رابطے موجود تھے وہ اپنی سابقہ سیاسی جماعت چھوڑ چکے تھے اسی تفتیش کے عمل کے دوران مذکورہ سیاسی رہنما کے گھر  قانونی تقاضے پورے کرکے چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے بہت بھاری مقدار میں کرنسی برآمد ہوئی جس کی وجہ سے وہ منی لانڈرنگ  کیس کا  الگ سے سامنا کررہے ہیں پولیس کو تفتیش کرنے سے چھاپے مارنے سے عدالت نے آج تک نہیں روکا کیونکہ پولیس قانونی تقاضے پورے کرکے تفتیش کررہی ہے اس لیئے کسی عدالت کو حق نہیں پہنچتا کہ تفتیش میں مداخلت نہ کرے اور ڈاکٹر عمران کی بیوی کا کردار بھی ایک گواہ کا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں
یہ ایک اعصاب شکن قانونی جنگ ہے اور پولیس نے پاکستانی نژاد سیاستدان کو اعصابی طور پر توڑ کے رکھ دیا ہے  تفتیش جاری ہے اور پولیس کو ایسے ثبوت کی تلاش ہے جس کے ذریعے وہ  ملزم کو سزا  دلواسکے عدالت پولیس کو حکم نہیں دے سکتی کہ اس شہری کو بیرون ملک جانے دیا جائے  یا گرفتار کیا جائے اگر برطانوی عدالت ایسا حکم جاری کرتی ہے تو  ایسا حکم تفتیش میں مداخلت تصور ہوگا اور عدالت کو تفتیش میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں  پولیس کافی محتاط ہے وہ صرف تفتیش کرتی ہے گرفتار نہیں کرتی پولیس شواہد تلاش کررہی ہے ملزم تو سامنے موجود ہے سارا زور ملزم کی گرفتاری پر نہیں ہے بلکہ شواہد کی تلاش پر ہے پولیس نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا نہ ہی کسی کیمرے والے کی جرات ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے اپنا کیمرہ  اور مائک رکھ کر اس سے تفتیش شروع کرسکے کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی نیوز چینل والا اسکاٹ لینڈ یارڈ کے  اندر کیمرہ لیکر چلا جائے اور کیس کے تفتیشی افسر کا بیان ریکارڈ کرسکے اور اس کی "دھلائی" کرسکے کہ ملزم کو کیوں نہیں گرفتار کیا گیا
پاکستان میں کیا ہوتا ہے ملزم پہلے گرفتار کرلیئے جاتے ہیں ثبوت بعد میں تلاش کیئے جاتے ہیں  فرض کیا ایک لڑکی گھر سے غائب ہوگئی یا اغوا ہوگئی والدین نے نامعلوم افراد کے خلاف  ایف آئی آر داخل کروادی پولیس  نے تفتیش کی  ایک شخص کو تفتیش میں شامل کیا گیاپولیس تفتیش24 گھنٹے میں مکمل نہ کرسکی تو اس کا ریمانڈ لینے کیلئے کورٹ پہنچ گئی یہاں ہرصورت میں پولیس کو عدالت کے سامنے وہ وجوہات بیان کرنی ہونگی جن کی بنیاد پر ملزم کو حراست میں لیا گیا اس سے تفتیش کی گئی تھی اور اب وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ملزم کو باقاعدہ گرفتار کیا جاچکا ہے وہ کونسے شواہد پولیس کے پاس موجود ہیں جن کی بنیاد پر گرفتاری کی گئی پولیس پابند ہے عدالت کے سامنے وہ وجوہات بیان  کرنے کی جن کی بنیاد پر ایک شخص کو اس کی شخصی آزادی سے محروم کیا جاچکا ہے مجسٹریٹ کا یہ سوال ہرگز تفتیش میں مداخلت تصور نہیں ہوگا کیونکہ یہ بنیادی سوال ہے جو لندن کی عدالت  میں بیٹھا ہوا مجسٹریٹ ،امریکہ فرانس اور ہر ترقی یافتہ ملک کا مجسٹریٹ  کسی شخص کو اس شخصی آزادی سے  محروم کرنے سے پہلے پولیس سے پوچھتا ہے کہ وہ وجوہات بتاؤ کہ جس کی  بنیاد پر اس شخص  کو گرفتار کیا گیا ہے یہ کامن سینس پر مبنی سوال ہرگز تفتیش میں مداخلت نہیں ہے۔مداخلت یہ ہے کہ فلاں شخص کے خلاف ثبوت موجود ہے اس کو گرفتار مت کرنا فلاں شخص سے اس کیس کے حوالے سے تفتیش مت کرو بلکہ فلاں کو گرفتار کرو
مداخلت کا تصور ہی غلط ہے  ہمارے وکلاء اور ججز کریمنالوجی نہیں پڑھتے جس کی وجہ سے ان کا بنیادی نقطہ نظر ہی کلیئر نہیں ہوتا  تفتیش کے بنیادی اصول نہایت گہرے ہیں نہایت ہی پیچیدہ ہیں ان کو سمجھنے کیلئے خدادا صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے ثبوت کے بغیر ملزم کی گرفتاری سے مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے تفتیش تباہ وبرباد ہوجاتی ہے لیکن اگر ان اصولوں کی سوجھ بوجھ نہ بھی ہوتو کامن سینس کا استعمال بھی اہم ہوتا ہے  
بعض اوقات تفتیش سالہا سال جاری رہتی ہے لیکن جب ملزم کو شخصی آزادی کو پولیس سلب کردیتی ہے تو پولیس کیلئے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر مجسٹریٹ کی عدالت میں پولیس رپورٹ جمع کروائے  جس کی وجہ سے بھی تفتیش کا عمل تباہ و برباد ہوجاتا ہے کیونکہ پولیس گرفتاری کے بعد ثبوت تلاش کرتی ہے دوسرا ہمارا کلچر بن چکا کہ ہمارا میڈیا کیسز پر اثرانداز ہوتا ہے پولیس بھی بدعنوان ہے   اگر عمران فاروق کا قتل پاکستا ن میں ہوتا تو میڈیا کی ساری توجہ گرفتاری پر ہوتی ملزم گرفتار ہوتا  اس کا ریمانڈ ہوتا اسی دوران اس کو جیل بھیج دیا جاتا چند روز بعد اس کی ضمانت ہوجاتی  اس دوران  پولیس کیلئے لازمی ہوجاتا کہ  وہ پولیس رپورٹ کورٹ میں جمع کروادیں جس کے بعد پورا کیس ہی ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا  پولیس روایتی قسم کے گواہ پکڑ کر لے آتی جو دوران  ٹرائل کے دوران منحرف ہوجاتے معاملہ ہی ختم  اسی دوران عدالت پر الزام لگا دیئے جاتے کہ اس نے ملزم کو چھوڑ دیا رہا کردیا  لیکن عدالت مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک بنیادی غلطی کرکے بیٹھی ہوتی ہے کہ اگر مشینی انداز میں ریمانڈ نہ دیئے جائیں تو پولیس ثبوت  کے بغیر ملزم گرفتار ہی نہیں کرے گی پولیس کو تفتیش سے کس نے روکا ہے وہ تفتیش کرے بار بار کرے ملزم کے خلاف ثبوت تلاش کرکے لائے اور جب  ایسے ثبوت جمع ہوجائیں تو ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردے عدالت چاہے تو ملزم کو ضمانت پررہا کردے جیسا کہ  پوری دنیا میں ہوتا ہے سارا زور ٹرائل پر ہونا چاہیئے نہ کہ ملزم کو جیل میں سڑانے پر
یہاں کسی بنیادی اصلاح کی بھی ضرورت نہیں ہے تفتیش کے دوران جدید تیکنیکس اپنانے  کی بھی ضرورت ہے جب ملزم پر چارج فریم کردیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہونا چاہیئے کہ ایسی شفاف تفتیش ہوئی ہے کہ ملزم کا سزا سے بچنا ناممکن ہے
ملزمان کی عدالتوں سے رہائی کا رجحان بہت ہی زیادہ ہے 97  فیصد کیا یہ بات ثابت نہیں کرتا کہ جو فرد جرم عائد کی گئی وہ بے جان تھی
جب تک فرد جرم جاندار نہیں ہوگی اس وقت تک ملزم کو سزا نہیں مل سکتی اور فرد جرم میں جان کیسے آئے گی جب مجسٹریٹ کے سامنے ریمانڈ پیش کیا جائے گا تو وہ  اس شخص کی شخصی آزادی ختم کرنے سے پہلے اس کو جیل ریمانڈ یا پولیس ریمانڈ پر بھیجنے سے پہلے  وہ ساری مناسب وجوہات قلمبند کرے گا جن کی وجہ سے اس شخص کو جیل بھیجنا ضروری تھا
یہاں میں یہ بات اضافی طور پر لکھ دوں کے پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز میں قدیم عدالتیں اور بار کی لایئبریریوں میں قانون کی قدیم  کتابیں اور عدالتی فیصلہ جات موجود ہیں   اگر کسی طالبعلم کو موقع ملے تو مطالعہ کرے  نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا تھا کہ عدالت کے سامنے جب تک وہ مناسب وجوہات موجود نہیں ہونگی اس وقت تک کسی بھی شخص کو پولیس ریمانڈ یا جیل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
کامن سینس کا استعمال ہر گز تفتیش میں مداخلت نہیں ہے عدلیہ کی جانب سے تفتیش میں مداخلت کا لفظ ہی غلط ہے  پولیس افسر  پابند ہے کہ وہ مناسب وجوہات بیان کرے جن کی بنیاد پر ملزم کو حراست میں لیا گیا اور مجسٹریٹ بھی جیل بھیجتے وقت یا حراست پولیس کے حوالے کرتے وقت  اگر وہ مناسب وجوہات لکھ دے تو جن کی بنیاد پر کسی شخص کی شخصی آزادی سے محروم کرکے اس کو قید میں رکھنا ضروری تھا تو کافی مسائل حل ہوجائیں جب فرد جرم  مضبوط ہوگی اور شواہد ٹھوس ہونگے تو ملزم کیوں نہیں کیفر کردار تک پہنچے گے
جب برطانیہ جیسے ملک میں جہاں اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسی  دنیا کی نمبر ون تفتیشی  ایجنسی کی موجودگی میں ایک قاتل کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا تو پاکستان میں بھی ضروری نہیں کہ کسی شخص کو گرفتار کیا جائے  وہ بھی شواہد کے بغیر
عدلیہ کی تفتیش میں مداخلت ایک قدیم بحث ہے ترقی یافتہ ممالک نے اس بحث پر قابو پا کر  اپنے عدالتی نظام کو اس بنیاد پر استوار کرلیا ہے کہ جب عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کردی جائے تو ملزم کسی صورت سزا سے بچ نہیں سکتا

جب کہ ہم اس بحث میں الجھ کر 97 فیصد کیسز میں ملزمان کی رہائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں


Friday 18 July 2014

ارادے کی پختگی


وکالت کے شعبے میں ارادے کی پختگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔اگر آپ کو اپنی کامیابی کا یقین ہے تو آپ ضرور کامیاب ہونگے۔بہت سے دوست کلائینٹ کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو پورا نہیں کرتے جس کا انہیں نقصان پیشہ ورانہ طور پر ہوتا ہے میں نے ایک دوست کو گزشتہ چند سال کے دوران ترقی کی بے شمار منازل طے کرتے ہوئے دیکھا ایک چھوٹے سے آفس سے ایک شاندار انٹرنیشنل معیار کے آفس میں جاتے ہوئے دیکھا  گزشتہ دنوں ان کے آفس میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ایک تو کام سیکھنے کی لگن تھی دوسرا اچھا سینئر بھی مل گیا جس کی ہرحال میں عزت کی اگر سخت الفاظ بھی کہے تو برداشت کرلیئے جو کام  سینیئر کی جانب سے ملا وہ وقت پر کیا اسی دوران ان سے یہ بھی سیکھا کہ انہوں نے لاء فرم کس طرح سے بنائی ہے ان کی آفس کی ریکارڈ کیپنگ کی بنیاد کیا ہے جو کیس لے لیا چاہے چھوٹا ہو یا بڑا فیس کم لی یا زیادہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا کلائینٹ کے اعتماد کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر کیسز وکلاء ریفر کرتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ایک کیس 1996 میں ملا تھا  کلایئنٹ کی جرح کے بعد اس سے رابطہ بھی نہ ہوا میں نے سولہ سال اس کیس کو چلایا اور سولہ سال بعد اس کیس کو جیتا تو میرے پاس کلایئنٹ کا نمبر تک نہیں تھا مختصر یہ کہ اس کے ایڈریس پر رابطہ کرکے اس کو اطلاع دی جس کے بعد جب وہ ملے تو بےتحاشا خوش تھے ایک تو جس جائیداد کے حصول کیلئے کیس داخل کیا تھا وہ اس کو بھول بھال چکے تھے ان کیلئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ایک وکیل نے کیس کی مکمل فیس لینے کے بعد سولہ سال تک کیس چلایا اس کے باوجود کے انہوں نے کبھی رابطہ نہیں کیا کیونکہ وہ تو بھول بھال چکے تھے ایک تو اس نے مزید فیس ادا کی مزید یہ کہ اس نے مزید کیسز مجھے دیئے اور اپنے ذاتی تعلقات کے زریعے مجھے کیسز دلوائے اس ایک کیس کے زریعے مجھے لاکھوں روپے کا فائدہ ہوا
اس کے علاوہ اگر ہم دیکھیں تو ایک اور چیز ہوتی ہے ایک معیار بنانا جس وکیل نے وکالت کے پیشے میں ایک معیار بنایا وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے لیکن اپنے ہی قائم کردہ معیار کے مطابق ہی کامیاب ہوگا
جب کالج سے ہم فارغ ہوکر عدالت میں آئے تھے تو چند دوست ایسے بھی تھے جنہوں نے فائینل ائیر کے دوران ہی کسی نہ کسی لاء کمپنی کو جوائن کرلیا تھا اور چند ایک کے پاس وکالت کا لائیسنس بھی موجود تھا ایک دن ہم کراچی کے ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے سامنے کھڑے تھے تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اس نے ضمانت کے کاغزات کورٹ سے نکلوانے ہیں اگر آپ تصدیق کردیں تو میں 200 روپے آپ کو ادا کروں گا ہم سب دوستوں نے تو اس سے صاف صاف منع کردیا کہ ہم 200 والا کام کرتے ہی نہیں ہیں  وہ واپس جانے لگا تو ہمارے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی اس نے اس شخص کو آواز دے کر بلایا  اور کہا چلو میں تصدیق کردیتی ہوں  اگرچہ وہ لڑکی باصلاحیت تھی اور دوستوں کو یقین تھا کہ وہ کسی اچھی پوسٹ پر آئے گی لیکن جیسے ہی اس نے اپنے معیار پر کمپرومائز کیا مجھے یقین ہوگیا کہ شاید اب ایسا ممکن نہ ہو اور وہی ہوا اس دن کی محفل میں موجود وہ تمام دوست جنہوں نے وہ 200 والا کام نہیں لیا تھا  وہ اعلٰی عہدوں پر پہنچے اور اس لڑکی نے بعد ازاں کورٹ محرروں کے ساتھ پریکٹس کی تھانوں کے بدنام زمانہ کورٹ محرر اس کو دیہاڑی والے کیسز دیتے تھے جس  ایک تو اس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی دوسرا اس نے کوئی ترقی نہ کی
ترقی اللہ کی ذات دیتی ہے لیکن ہم اپنا معیار خود بناتے ہیں اور ہم جو معیار بنالیتے ہیں اللہ اسی حساب سے ترقی کے دروازے ہم پر کھول دیتا ہے جو لوگ دھوکہ دہی کا راستہ اپناتے ہیں وہ پوری زندگی دھوکے ہی دیتے ہیں
جووکیل سنجیدگی سے وکالت کرتا ہے قسمت اچھے سینئر کی صورت میں مہربان ہوجائے تو ان کی زندگی ہی سنور جاتی ہے
لیکن ارادے کی پختگی ضروری ہے آپ کو خود اس بات کا پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ آپ ایک نہ ایک دن کامیاب ضرور ہونگے آپ کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ ہو تو  اس وقت بھی آپ کو اپنی کامیابی کا کامل یقین ضرور ہونا چاہیئے جو لوگ مایوس ہوجائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے

آج تو آرگومنٹ ہونگے

نئے نئے وکالت میں آئے تھے تو ایک وکیل صاحب  جن کے بال سفید تھے اور پورا دن ہمیں اپنے مخصوص ٹھکانے پر بیٹھ کر اپنے قصے اور کہانیاں سناتے تھے دیوانی مقدمات کے ماہر تھے  خود ساختہ سینئر تھے اور پروفیسری کے دعوے دار بھی تھے ہمارے ساتھ ایسے ایسے قانونی نکات شیئر کرتے تھے جو ہم نے خواب میں بھی نہیں سنے ہوتے تھے ہم اکثر ان کے ٹھکانے پر جاکر ان کو تلاش کرتے تھے پھر چوہدری صاحب ہمیں اپنے وکالت کے سارے واقعات سناتے تھے اچھے قصہ گو تھے لیکن چائے صرف لڑکیوں کو پلاتے تھے اس کے علاوہ ان کے پاس ایک عدد "گیدڑ سنگھی" بھی تھی  
ایک دن ہمارے پورے گروپ کو کہا کہ کبھی ضمانت کی درخواست پر دلائل دیئے ہیں ہم نے کہا وڈے چوہدری صاحب  ہمیں کیا پتہ کہ ضمانت کیا ہوتی ہے دلائل تو بہت دور کی بات ہیں چوہدری صاحب نے چشمے کو گھما کر چاروں طرف تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور فرمانے لگے کیا بنے گا تم نالائقوں کا
کہنے لگے کل ایک ضمانت کی درخواست پر "دھواں دھار آرگومنٹ ہونگے" قانون ڈسکس ہوگا  کیس لاء پیش کیئے جائیں گے سپریم کورٹ کی ایک نئی آبزرویشن سامنے آئی ہے اس پر بات ہوگی کل صبح سویرے کورٹ میں آجانا ہم بھی اس زمانے میں نفلوں کے بھوکے تھے صبح سویرے ہی وڈے چوہدری صاحب کے ٹھکانے پر پہنچ گئے کہ آج "آرگومنٹ ہونگے" مجسٹریٹ  کی عدالت تھی اور 13 ڈی کی ضمانت تھی یاسین کولاچی جج ہوا کرتا تھا ویسٹ کی عدالت تھی  وڈے چوہدری صاحب ہمارے پورے گروپ کے ساتھ کورٹ میں پہنچ گئے جج صاحب نے دیکھتے ہی کہا چوہدری صاحب  ضمانت کی درخواست منظور  کی جاتی ہے آپ تیس ہزار روپیہ  کی ضمانت جمع کروادیں وڈے چوہدری نے کہا ایسے کیسے ضمانت منظور ہوگئی ابھی تو آرگومنٹ ہونگے قانون پر بات ہوگئی سپریم کورٹ کے نئے کیس لاء پیش کیئے جائیں گے اور فیصلہ میرٹ پر کیا جائے آج کورٹ میں ایسے دلائل پیش کیئے جائیں گے جو پہلے کبھی پیش نہیں کیئے گئے
جج صاحب بھی سیدھے سادھے نیک آدمی تھے فرمانے لگے میں نے آپ کی درخواست پڑھ لی تھی ضمانت منظور کی جاتی ہے لیکن وڈے چوہدری صاحب اڑگئے کہ آج تو آرگومنٹ ہونگے
جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے شروع کریں
وڈے چوہدری صاحب  نے آرگومنٹ شروع کیئے  یہ قانون وہ قانون یہ کیس لاء وہ کیس لاء  فلاں کلاز فلاں کلاز ایک دلائل کا سمندر تھا جو جاری تھا ریکوری کا قانون ،قانون شہادت کے اوپر بات کی
تھوڑی دیر کے بعد تحسین طلب نگاہوں سے ہماری طرف دیکھتے تھے اور ہم کرتے تھے واہ واہ
خیر دلائل مکمل ہوگئے
جج صاحب نے پوچھا ملزم رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا اس لیئے ضمانت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے پھر جو ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے سارے آرگومنٹ ادھر ادھر ہوگئے چوہدراہٹ ساری ادھر ادھر ہوگئی   جج صاحب سے بحث کی تو فرمانے لگے آپ  نے تو خود کہا تھا کہ میرٹ پر فیصلہ کیا جائے تو میرٹ پر یہی فیصلہ آیا
خیر جج صاحب چیمبر میں گئے تو وڈے چوہدری صاحب بھی پیچھے  پیچھے چلے گئے مختصر یہ کہ  منت سماجت کرکے کوئی نہ کوئی حیلہ کرکے ضمانت منظور کروا ہی لی  اس کے بعد وہ خود ساختہ سینئر پتلی گلی سے نکل گئے
کافی سال گزرگئے آج بھی واقعہ کل کی طرح یاد ہے اور دوست جب بھی جمع ہوتے ہیں تو یہ واقعہ ضرور شیئر کرتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ اب تو آرگومنٹ ہونگے

لیکن وڈے چوہدری صاحب باریک لہجے میں جس طرح کہتے تھے کہ  آج تو آرگومنٹ ہونگے ایسا کوئی نہیں کہہ سکتا

Wednesday 16 July 2014

ضمانت کروانا ایک فن ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں

جہاں تک میں سمجھا ہوں ڈسٹرکٹ کورٹس سے ضمانت کروانا ایک فن ہے قانونی دلائل سے  زیادہ وکیل کی حاضر دماغی زیادہ اہمیت رکھتی ہے  ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج صاحب ہیں میرا ان کے سامنے ماضی میں کیس چلانے کا تجربہ کبھی اچھا نہیں رہا وہ ذرا سے کنفیوز ٹائپ ہیں
گزشتہ دنوں ایک ملزم کی ضمانت کروانی تھی میرا تجربہ کہتا تھا کہ ضمانت کے بہت کم امکانات ہیں  قانونی پیچیدگی زیادہ تھی دلائل حق میں بھی تھے اور مخالفت میں بہرحال ضمانت کی درخواست اسی جج صاحب کے پاس لگ گئی  میرا کیس سیریل نمبر 15 پر تھا  لیکن میرے سے پہلے جو وکلاء تھے ایک تو وہ ٹائم بہت لے رہے تھے دوسرا میں محسوس کررہا تھا کہ جو جج کو قانون سکھانے کی کوشش کرتا جج صاحب اس کی وکٹ ہی اڑادیتے تھے مجھ سے پہلے ایک پٹھان وکیل تھا ایک تو وہ نفلوں کا بھوکا تھا دوسرا قانون سکھانے کا شوقین تھا نہ جانے کہاں کہاں سے قانون ڈھونڈ کے لے آیا تھا اور دلائل تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے جج کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ مرجائے گا اس پٹھان کو ضمانت نہیں دے گا اسی دوران میں بھی ایک فیصلہ کرچکا تھا  میرا نمبر آیا تو میں نے کوئی  بھی کیس لاء پیش نہیں کیا سادہ سے دودلائل دیئے اور تقریباً تین منٹ میں دلائل مکمل کرلیئے
جج صاحب نے کہا جی وکیل صاحب آپ کے مزید دلائل کیا ہیں  میں نے کہا سادہ سا کیس ہے  دلائل بھی سادہ سے ہیں  جج نے فائل کھولی تھوڑا بہت پڑھا ایک پیچیدہ سا قانونی مسئلہ پوچھا میں نے اس کا جواب دیا جج صاحب نے کہا دوپہر میں پتہ کرلینا میں بھی خاموشی سے آگیا میرے ساتھی نے پوچھا کہ جب اتنے بہت سے قانونی حوالے موجود تھے  اور تیاری بھی تھی تو اتنا مختصر کیوں کیا  اور کیس لاء بھی پیش نہیں کیئے یہ کیا حماقت ہے میں نے کہا کہ میں نے ایک رسک لیا ہے جج کو کنفیوز نہیں کیا  میرے ساتھی نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا اسی دوران وہ "نفلوں کا بھوکا پٹھان "وکیل بھی مل گیا اس نے کہا یہ کیا بات ہوئی جب آپ نے فیس لی تھی تو  آپ نے اپنے کلائینٹ کے ساتھ انصاف کرنا تھا تیاری کرکے آنا تھا یہ کیا دومنٹ کے دلائل مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم
کل مصروفیت کی وجہ سے  پتہ ہی نہیں کیا آج پتہ چلا کہ ضمانت  کی درخواست منظور ہوگئی ہے
اور خان صاحب کی وکٹ اڑادی گئی تھی وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے ہوسکتا ہے وکلاء میری رائے سے اختلاف کریں لیکن جج کو اتنا ہی قانون پڑھانا چاہیئے جتنا وہ پڑھنا چاہتا ہو
تیاری مکمل کرنی چاہیئے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دوگھنٹے کے بلاوجہ کے دلائل کیس کو خراب کرنے کا سبب بن سکتے ہیں  دوسرا یہ کہ پیچیدہ معاملات میں زیادہ بولنا نقصان کا باعث بنتا ہے

ویسے ضمانت کروانا ایک فن ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں

Monday 14 July 2014

ایک مجسٹریٹ نے چار بے گناہ افراد کو عدلیہ کے اندھے کنویں میں گرنے سے بچالیا

گزشتہ ہفتے ذکر کیا تھا کہ ایک اقدام قتل کے مقدمے میں پولیس نے مستعدی دکھاتے ہوئے ملزمان کو اندرون سندھ سے گرفتار کیا اور کورٹ میں پیش کردیا تھا مجسٹریٹ صاحب نے اس پر سخت حیرت کا اظہار کیا کہ مدعی مقدمہ ،ملزمان اور  تفتیشی پولیس افسر سب سندھ ے کے کھوسو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں  جبکہ ملزمان نے پستول سے براہ راست وڈیرے پر فائر کیئے لیکن وڈیرے کو ایک گولی بھی نہیں لگی اسی دوران وڈیرہ قبرستان کی دیوار کے پیچھے چھپ گیا اور اپنی جان بچالی ملزمان اس کے 
پیچھے آئے لیکن وہ نہیں ملا اس دوران ملزمان مغلضات بکتے ہوئے چلے گئے
مختصریہ کہ مجسٹریٹ نے  ایس ایس پی ضلع  سینٹرل کو ہدایت کی کہ وہ نیا تفتیشی افسر مقرر کریں جوتمام سوالیہ نقاط  کے جوابات تفتیش کے دوران پیش کریں  اس حکم نامے پر عدلیہ میں بھی کافی لے دے ہوئی   کیونکہ ہماری عدلیہ اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے ماتحت ہیں جب کہ ایس  ایس پی تو "بہت " بڑا افسر ہوتا ہے ایک مجسٹریٹ تو قانونی حوالہ لیکر آگیا کہ مجسٹریٹ تفتیش کے عمل کے دوران کوئی مداخلت  نہیں کرسکتا  یہاں تک کے ہایئکورٹ تک مداخلت نہیں کرسکتی  اگرچہ یہ بات درست ہے لیکن جہاں پولیس کسی آزاد شہری کو کسی جھوٹے کیس میں فٹ کررہی ہو وہاں کوئی قاعدہ کوئی قانون کوئی سپریم کورٹ  کا فیصلہ   کسی جج کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اس کے علاوہ   وڈیرے کے پاس چار  پرایئویٹ چشم دید گواہ موجود تھے جو ایک اشارے پر کلمہ پڑھ کر گواہی دینے کیلئے تیار تھے
حیرت انگیز طور پر نیا تفتیشی افسر مقرر ہوتے ہی  ٹنڈو آدم کے وڈیرے نے ایک حلف نامہ تفتیشی افسر کے سامنے پیش کردیا کہ وہ مزید کاروائی نہیں چاہتا وہ نہ ہی کوئی گواہ پیش کرے گا اور نہ ہی وہ جائے وقوعہ کی نشاندہی کرے گا اور اگر تفتیشی افسر چاہے تو ملزمان کو رہا کردے
مختصر یہ ملزمان رہاکردیئے گئے اور وہ پولیس کے شکنجے سے اس لیئے بچ گئے کہ مجسٹریٹ نے پہلے دن ہی پولیس کی چوری پکڑلی تھی  اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ملزمان عدالتوں میں ہی ذلیل ہوجاتے جس طرح کہ ہماری عدالتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اس قسم کے مقدمات میں ملزمان ذلیل ہونے آتے ہیں
میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس قسم کے جھوٹے جعلی مقدمات سٹی کورٹ میں جو ہماری عدلیہ پائی جاتی ہے اس کے ماتھے کا جھومر ہیں  اور صرف اقدام قتل کے مقدمات جن میں فائرنگ تو ہوتی ہے لیکن مدعی مقدمہ مجال ہے جو ذخمی ہوجائیں یا معمولی خراش بھی ان  کو پہنچ جائے
وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ جب پولیس کسی ملزم کو پکڑ کر عدالت میں لاتی ہے تو مجسٹریٹ بہت ہی  کم  "کامن سینس" استعمال کرتے ہیں  زیادہ تر پولیس کی رپورٹ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں
اسی دوران ایک مجسٹریٹ صاحب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس نے کہا کمال ہے اس  مدعی مقدمہ کے پاس چار گواہان موجود تھے جن کے سامنے یہ وقوعہ پیش آیا اس کے باوجود ملزمان کی رہائی سخت ناانصافی ہے میں نے کہا چار گواہ کم ہیں چار سو لوگ بھی اس قسم کے واقعہ کے گواہ بن جائیں جو ناممکن ہو تو وہ واقعہ جھوٹا ہی ہوگا گولی کا ایک ہی اصول ہے وہ  پستول سے فائر کی جائے تو  آر پار ضرور ہوتی ہے  مجسٹریٹ نے چڑ کر کہا کہ اس اصول کے مطابق تو ہمارے سارے مقدمات جھوٹے ہیں میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ لوگوں کے سامنے جب ملزم پیش کیئے جاتے ہیں تو صرف کامن سینس کے استعمال کے زریعے  آپ لوگ اگر تفتشی عمل پر سوالیہ نشانات  کا سلسلہ شروع کردیں تو بہت سے  بے گناہ عدالتوں میں ذلیل ہونے سے بچ جائیں
مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر تو عدالتیں ہی بند کردینی چاہیئں میں نے کہا جو عدالتیں عوام کی عزت اور ان کی آزادی کا تحفظ نہ کرسکیں تو ان کو بند ہی کردینا زیادہ مناسب ہوگا یہ میری مختصر پیشہ ورانہ زندگی کا عجیب وغریب واقعہ ہے کہ  چار غریب افراد کو  ایک مجسٹریٹ نے عدلیہ کے اندھے کنویں میں گرنے سے بچالیا ایک ایسا اندھا کنواں جہاں سے واپس باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہے ناممکن کی حد تک مشکل


Thursday 10 July 2014

اقدام قتل کے جھوٹے مقدمات عدلیہ کا حسن ہیں

کسی کو جان سے مارنے کی نیت   سے کوشش کرنا یا قتل کی نیت سے حملہ کرنا

پاکستان کے تمام ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک وقوعہ ناقابل یقین حد تک عام ہے یہ ایک جعلی وقوعہ ہوتا ہے جس میں باقاعدہ ڈھونگ رچاکر ایک مصنوعی حملہ کروایا جاتا ہے۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے ہی گھر پر یا اپنے آپ پر یا اپنی گاڑی پر خود فائرنگ کروادی جاتی ہے وقوعہ کے گواہ قریبی عزیز واقارب ہوتے ہیں جو پولیس کے سامنے گواہی دیتے ہیں کہ فلاں ابن فلاں آیا تھا اور فائرنگ کرکے چلا گیا کوئی بندہ زخمی نہیں ہوا بعض اوقات دروازے یا دیوار پر گولیوں کےنشانات دکھانے کیلئے  چند گولیاں بھی ماردی جاتی ہیں  اقدام قتل کے ایسے تمام مقدمات جن میں کوئی زخمی نہیں ہوتا ایسے تمام مقدمات ہی جعلی اور پلانٹڈ ہوتے  ہیں
عدالتوں کی آدھی سے زیادہ رونق اس قسم کے جھوٹے مقدمات  کی وجہ سے ہے ایف آئی آر رجسٹر کروانے کیلئے 22
 اے کے زریعے بھی ایف آئی آر رجسٹر کروائی جاتی ہے
گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ سینٹرل کے جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضٰی میتلو کے سامنے ایک سندھی وڈیرے کا مقدمہ آیا جس میں اس وڈیرے نے اپنے ہی گاؤں   کےایک پولیس انسپکٹر کے ساتھ مل کر ایک مشکوک نوعیت کا مقدمہ قائم کیا جس کا بنیادی نقطہ یہی تھا کہ چار افراد نے مل کر اس  وڈیرے کو جان سے مارنے کی نیت سے کراچی کی ایک سڑک پر فائرنگ کی لیکن وہ خوش نصیب شخص محفوظ رہا جس کے بعد پولیس نے  فوری طور پر مقدمہ قائم کرکے اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کو ٹندو آدم سے جاکر گرفتار کیا  اور ریمانڈ کیلئے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا مجسٹریٹ صاحب نے مکمل روداد سنی اور سننے کے بعد متعلقہ ضلع کے ایس ایس پی کو عدالت کے تحفظات اور کسی اور تفتیشی افسر سے تفتیش کروانے کا کہا ایس ایس پی نے فوری طور پر نیا تفتیشی افسر مقرر کردیا ہے جو بہت جلد اپنی رپورٹ پیش کردے گا اس بوگس مقدمے  کی سماعت کا مجھے انتظار ہے
آگے کیا ہوگا اس کا مجھے بالکل نہیں پتا کیونکہ کچھ عرصہ ہوا میں ڈسٹرکٹ کورٹس نہیں جاتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انسان کے پاس رزق کا متبادل زریعہ ہوتو ڈسٹرکرکٹ کورٹس  میں پریکٹس بالکل بھی نہیں کرنی چاہیئے  یہاں سخت مجبوری کے علاوہ آنا بھی نہیں چاہیئے ۔  یہ ظلم اور بربریت کی جگہ ہے یہاں آتے ہی انسانیت دم توڑدیتی ہے کیونکہ یہاں آج بھی اقدام قتل کے ایسے ہی مقدمات پیش ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ایف آئی آر چالان کاپی سپلائی فرد جرم گواہی ہڑتال تاریخیں اچھا چار سال گزرگئے نیا صاب آگیا  یہ کس گدھے نے چالان منظور کیا تھا
 صاب وہ خیرپور والا  جج تھا اس نے  چالان منظور کیا تھا
اس کو کیا پتہ قنون کیا ہوتا ہے بلاوجہ غریب کے چار سال برباد کردیئے جاؤ بابا ان کو بری کرو ختم کرو کیس
یہ کس مقدمے کا چلان ہے صاب اقدام قتل کا اچھا گواہ سب پرایئویٹ ہیں چالان منظور دستخط ٹھوکا اور مقدمہ سماعت کیلئے تیار چار سال گزرگئے نیا جج آگیا

یہ کس گدھے نے چالان منظور کیا تھا۔۔۔بیچارے غریب چار سال سے دھکے کھارہے ہیں ۔۔مقدمہ بری

ملزم نے جان سے ماتٓرنے کی نیت سے فائرنگ کی میں نے بھاگ کر جان بچائی

2003 میں میرے کزن پر ایک کیس بنا جس کا سادہ سا عنوان یہ تھا کہ مدعی مقدمہ گھر کے باہر بیٹھا تھا میرا کزن چار افراد کے ہمراہ آیا پستول ہاتھ میں تھے لہرا کر کہا آج تم نہیں فائرنگ کی مدعی نے بھاگ کر جان بچالی
میرے کزن نے ایم بی اے کیا ہوا تھا اور ایک نجی کمپنی میں آفیسر تھا اس کے تو فرشتوں  کو بھی اس واقعے کا علم نہ تھا یہ ایک جھوٹا مقدمہ تھا اس وقت میں ایل ایل بی کا سوچ رہا تھا  پھر ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لیا اور ایل ایل بی کرہی رہا تھا کہ 2005 میں میرا کزن کراچی آیا ضمانت قبل از گرفتاری کروائی  میرا کسی وکیل سے پہلا تجربہ تھا جو اچھا نہ رہا وکیل صاحب کا کزن سے ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا کہ پیسہ لیکر آؤ پیسہ اس طرح دوسال گزرگئے بمشکل دوسال میں چارج فریم ہوا تھا ڈسٹرکٹ ویسٹ کی جج تھی طاہرہ محسن اس کا شوہر بھی جج تھا بدقسمتی سے ایماندار تھی یعنی کام تو کرتی ہی نہ تھی کراچی میں ایماندار جج وہ ہے جو کسی کاکام نہ کرے  کیونکہ اس کو کا م آتا ہی نہیں ہوتا مختصر یہ کہ کزن نے چار سال مقدمہ بازی برداشت کی اس کے بعد میں نے ایک  "لڑکے" کی خدمات حاصل کیں  جو  125  موٹرسائیکل پر صرف آنے جانے کا ٹائم لگا تا تھا۔جس نے جج پر تھرڈ ڈگری استعمال کی جج صاحبہ صبح سویرے آئیں پسینہ پسینہ سب سے پہلے میری فائل اٹھائی مختصر فیصلہ سنایا کیس بری تمام ملزمان کو باعزت بری کیا اور پسینے میں شرابور چیمبر میں واپس بھاگی گئی
چار قیمتی سال مقدمے بازی کی نظر ہوگئے جن کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا پھر بھی ہمیں ایک جھوٹے مقدمے سے جان چھڑانے کیلئے ایک جرم کرنا پڑا
یار یہ بھی کوئی مقدمہ ہے کہ  چار افراد مل کر آئیں  ایک نہتے بندے پر گولیاں چلائیں اور اس کے باوجود اس کو کچھ بھی  نہ ہو کیا اس بات کو عقل مانتی ہے لیکن میری عدالتوں میں تو اس قسم کے کیسز ہی کی وجہ سے رونق ہے
بعد ازاں اس طرح کے مقدمات میں میں نے بے شمار افراد کو کورٹ میں زلیل ہوتے ہوئے دیکھا دل چاہتا تھا کہ کوئی تو جج ہو جو اس کے خلاف ایکشن لے آخر اکیسویں صدی ہے کچھ کامن سینس بھی ہوتا ہے
گزشتہ دنوں امید برآئی جب سینٹرل کے ایک جج غلام مرتضٰی میتلو نے کامن سینس استعمال کرہی لیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملزم نے گولی چلائی اور آر پار نہیں ہوئی ان کا مقدمہ نہایت ہی دلچسپ تھا
کھوسو قبیلے کا ایک بااثر شخص  ٹنڈو آدم سےکراچی خمیسو گوٹھ آیا وہ موٹر سائیکل پر نیو کراچی جارہا تھا کہ اس کے قبیلے کے چار دشمن بھی اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر پہنچ گئے ان چاروں کے پاس پستول تھے فائرنگ کی مدعی نے موٹر سائیکل کا رخ قبرستان کی طرف موڑا اور قبرستان کی دیوار کے پیچھے چھپ کر جان بچائی بڑے ہی کوئی اناڑی قسم کے ٹارگٹ کلر تھے  چار مسلح افراد ایک بندے کو مل کر نہ مارسکے فوری طور پر نیوکراچی تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اتفاق دیکھئے کہ تفتیشی افسر بھی اسی قبیلے  اور اسی گاؤں کا تھا جس سے ملزم اور مدعی کا تعلق تھا پولیس نے اعلٰی کارکردگی دکھائی اور ملزمان کو ٹنڈو جام سے پکڑ کر کراچی لے آئے
مجسٹریٹ صاحب اس پورے مقدمے پر ہی تحفظات کا اظہار کردیا کہ   اور اس پر بھی تحفظ کا اظہار کردیا کہ کراچی شہر میں ایک مقدمہ درج ہوا اور مدعی ملزمان اور تفتیشی افسران تمام کھوسو قبیلے  اور ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں
مجسٹریٹ صاحب نے ایس ایس پی کو بزریعہ کورٹ آرڈر اپنے تحفظات سے آگاہ جس کے بعد ضلع ایس ایس پی نے نیا تفتیشی افسر مقرر کردیاہے امید ہے نیا تفتیشی افسر وہ ٹیکنالوجی تلاش کرکے ضرور لائے گا جس میں مدعی پر ملزم گولیاں نہایت قریب سے چلاتے ہیں اور وہ بھاگ کر جان بھی بچالیتا ہے
یہاں بہت سے ایماندار جو کام نہیں جانتے وہ پوچھیں گے اس میں تو ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن میں تو اس کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں کیونکہ اگر مجسٹریٹ  روزمرہ کی پریکٹس کے مطابق کام کرتا تو پولیس معمول کے مطابق چالان کرتی جج حسب معمول انتظامی آرڈر کرتا اور ملزم کے چار قیمتی سال ان عدالتوں میں ہی ذلیل ہوجاتے جس کے بعد ملزم باعزت بری ہوجاتے
کریمینل جسٹس سسٹم ایک سوشل سائینس ہے   ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے کہ  بے گناہ کو ریلیف ملے ضابطے انسان کیلئے ہیں انسان ضابطوں کیلئے نہیں
بہرحال ایک اچھا  آغاز ہے کہ کسی نے تو پہل کی کسی نے تو کامن سینس استعمال کیا یا کرنے کی کوشش کی
امید ہے ملزمان کو تفتیش میں بے گناہ قرار دے دیا جائے گا یا پھر ملزمان  کی مدعی سے صلح کروا کر مقدمہ داخل دفتر کروادیا جائے گا

ویسے تفتیشی افسر نے گرم گرم کھایا تو پکڑا گیا فراڈ کرنے بھی نہیں آتا اس قسم کے مقدمات میں ملزمان کو چالان جمع کروانے کے بعد  اور مجسٹریٹ کے انتظامی آرڈر کے بعدگرفتار کیا جاتا ہے  اتنی جلدبازی دکھانے کی ضرورت ہی کیا تھی نالائق  اور نااہل تفتیشی افسر

Thursday 3 July 2014

جیسے تمہارے دانت سفید ہیں ویسے ہی بال بھی سفید ہونگے :تحریر عشرت سلطان

پاکستانی معاشرے میں ایک عورت کی زندگی کن  مسائل کا شکار اس کا حقیقی معنوں میں احساس مجھے دستگیر لیگل ایڈ سینٹر کی کوآرڈینیٹر کے طور پر  فرائض سنبھالنے کے بعد ہوا
کل ایک پختون فیملی اپنے  ایک فیملی کے مسئلے کو لیکر ہمارے سینٹر میں آئی وہ زرا مذہبی لوگ تھے انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی پانچ سال پہلے بیرون ملک مقیم ایک شخص سے کی تھی جو ان کو قریبی رشتہ دار بھی تھا شادی کے ایک ماہ بعد اس کا شوہر واپس بیرون ملک چلاگیا اور لڑائی جھگڑوں کے بعد لڑکی واپس اپنے ماں باپ کے گھر آگئی۔ شوہر اگلے سال پاکستان واپس شفٹ ہوگیا لیکن لڑکی سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور وہ معصوم لڑکی ایک بے نام سے رشتے کے ساتھ اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی جس نے پلٹ کر خبر تک نہیں لی  اسی چکر میں پانچ سال گزرچکے تھے
مجھے خوشی ہوئی کہ ان کی ایک بیٹی گریجویٹ تھی جو سوشل میڈیا استعمال کرتی تھی اور سوشل میڈیا ہی کے زریعے ان کو دستگیر لیگل ایڈ سینٹر کے بارے میں معلومات ملی تھی
مختصر یہ کہ   ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ایک اہم بات سامنے آئی کہ اس لڑکی کا حق مہر اچھا خاصا لکھا ہوا تھا اور شوہر کا ذاتی مکان بطور حق مہر لکھا ہوا تھا جس کی مالیت کم ازکم  تیس لاکھ سے زیادہ تھی متاثرہ لڑکی کی نفسیاتی کونسلنگ کے دوران اس لڑکی نے ایک انکشاف کیا کہ وہ اکثر اپنے شوہر سے اپنے طور پر گھر والوں سے چھپ کر رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اس کے شوہر نے نہ صرف اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ جس طرح تمہارے دانت سفید ہیں اسی طرح تمہارے بال سفید ہوجائیں گے لیکن میں تمہیں طلاق بھی نہیں دوں گا اس لڑکی کی اس بات نے مجھے لرزا کر رکھ دیا کہ یہ کونسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں اتنی دیدہ دلیری سے انسان نما درندے ایک معصوم لڑکی کے جذبات سے کھیل جاتے ہیں  ایک لڑکی سے شادی کے بعد پانچ سال تک پلٹ کر خبر تک نہیں لیتے اور لڑکی ایک  نام  کے رشتے کے ساتھ پانچ سال گزاردیتی ہے اور لڑکی  کو دیدہ دلیری سے یہ کہا جاتا ہے کہ  "جس طرح تمہارے  دانت سفید ہیں اسی طرح تمہارے بال بھی سفید ہوجائیں گے  لیکن تم کو طلاق نہیں دونگا" نہ ہی آباد کروں گا
یہ ایک مضبوط کیس تھا اگر لڑکی نان نفقے اورحق مہر کا مطالبہ کرتی تو وہ درندہ نما انسان اپنے انجام کو ضرور پہنچتا جس نے ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا اس قسم کے کیسز میں دستگیر لیگل ایڈ سینٹر تجربہ کار وکلاء کے پینل کے ذریعے متاثرہ خواتین کی بھرپور قانونی معاونت فراہم کرتا ہے اگرچہ اس قسم کے معاملات میں قانونی کاروائی زرا سا طویل ہوجاتی ہے لیکن لڑکی اگر اپنا حق مانگنے پر آمادہ ہوتو اس قسم کے لوگ کسی صورت میں قانون کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے چاہے ہمارا عدالتی نظام کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو
لیکن لڑکی کی والدہ نے کہا ہمیں خلع چاہیئے ان کیلئے یہ بھی ایک بہت بڑا ریلیف تھا کہ  ان کی بیٹی کے بال سفید ہونے سے بچ جائیں گے اور وہ خلع کے زریعے علیحدگی اختیار کرکے  اس بے نام رشتے سے نجات حاصل کرلے گی
ہمارے سینٹر میں  انتہائی قابل نفسیاتی ڈاکٹرز کا پینل بھی ہے جنہوں نے لڑکی کو آمادہ کرلیاکہ وہ نان ونفقے کا کیس داخل کرے گی اور اس شخص کو کسی صورت معاف نہیں کرے گی لیکن والدہ کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں ہورہے تھی اور اس کابھائی ایک ہی جواب دیتا تھا کہ ہماری عورتیں عدالتوں میں نہیں جاتی ہیں  ہمیں  نان و نفقہ نہیں چاہیئے خلع چاہیئے
میں نے کہا کہ خلع کے زریعے لڑکی اپنے تمام حقوق سے  ہی دستبردار ہوجاتی ہے   یہ بھی ایک طرح کا استحصال  ہےاور اس لڑکی کا حق مہر اچھا خاصا ہے کیوں آپ لوگ اپنا حق چھوڑ رہے ہیں  اگر ایک شخص کو سزا ملے گی تو بہت سے لوگوں کو  عبرت حاصل ہوگی  اس کی ماں نے کہا کہ ہم کمزور لوگ ہیں غریب لوگ ہیں  میں نے بتایا کہ دستگیر لیگل ایڈ سینٹر اسی قسم کے لوگوں کی ہی تو قانونی معاونت کرتا ہے جو غربت کی وجہ سے انصاف حاصل نہیں کرپاتے
بدقسمتی سے ہم ناکام رہے اور وہ لوگ واپس چلے گئے کہ ہم لوگ  گھر میں مشورہ کریں گے پھر دوبارہ آئیں گے
لڑکی آمادہ تھی لیکن اہل خانہ آمادہ نہیں تھے ۔ کراچی کے ایک انتہائی دوردراز اور پسماندہ علاقے سےصرف سوشل میڈیا کے زریعے انصاف کی تلاش میں ایک لڑکی کا  اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے پاس آنا کوئی معمولی بات نہیں  لیکن پسماندہ علاقوں میں اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جہاں صرف جہالت کی بنیاد پر ضد اور انا کی بنیاد پر شادی شدہ خواتین ایک نام کے رشتے کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتی ہیں
ضد اور انا کی بنیاد پر دانتوں کے ساتھ ساتھ بال بھی سفید ہوجاتے ہیں۔ کاش عدالتوں میں وقت پر کام ہوتا اور لوگوں کو انصاف کا یقین ہوتا تو اس قسم کے واقعات کبھی پیش نہ آتے اس واقعے نے ذہنی طور پر بہت متاثر کیا

نوٹ سوشل میڈیا میں واقعات پیش کرتے وقت  متاثرہ لوگوں کی اصل شناخت کو چھپا لیا جاتا ہے 

Wednesday 2 July 2014

قانونی نوٹس ٭٭٭٭٭8 تحریر مس عشرت سلطان


آج دستگیر لیگل ایڈ سینٹر میں ایک خاتون قانونی  مشورے کیلئے آئیں   شادی کے ایک ماہ بعد ہی
 ناچاقی ہوگئی تھی  اور بدقسمتی سے اس کا شوہر اس کو طلاق تو دینا چاہ رہا تھا لیکن باہمی رضامندی سے اس سلسلے میں اس نے خاتون کو ایک طلاق نامہ ارسال کیا تھا جس کے مطابق دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے  علیحدگی اختیار کررہے تھے اس قسم کی طلاق  کوقانونی طور پر باہمی رضامندی سے ہونے والی طلاق کہا جاتا ہے جس میں فریقین بظاہر رضامندی سے مشترکہ رضامندی اور شرائط کے تحت طلاق   دیتے ہیں  یہ طلاق نامہ بذریعہ ڈاک ایک ماہ قبل وصول ہوا تھا خاتون جس کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی وہ اس افسوسناک صورتحال سے سخت دلبرداشتہ تھیں  کہ وہ کیسے نہ چاہتے ہوئے بھی باہمی رضامندی سے طلاق حاصل کرلے لیکن اس افسوسناک واقعے سے منسلک ایک اور افسوسناک تحریر بھی تھی جو اس خاتون کو بذریعہ ڈاک وصول ہوئی تھی  وہ ایک قانونی نوٹس تھا جو ایک وکیل نے اس کے شوہر کی جانب سے بھیجا گیا تھا قانونی نوٹس کیا تھا ایک دھمکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا
قانونی نوٹس کے زریعے اس خاتون کو   ان خطرناک نتائج سے آگاہ کیا گیا جن سےوہ اس طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں  دوچار ہوسکتی تھی
خاتون کو قانونی نوٹس کے زریعے یہ بھی کہا گیا کہ وکیل صاحب کا کلایئنٹ طلاق نامے پر خاتون کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے کس ذہنی  اذیت سے گزررہا ہے اور اس ذہنی اذیت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا جس  کی وجہ سے اس کا شوہر طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں ہرجانے کا مقدمہ بھی کرسکتا ہے
خاتون کو قانونی نوٹس میں یہ بھی تاکید کی گئی تھی کہ مزید  وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ فوری طور طلاق نامے پر دستخط کرکے بھیج دے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کے خلاف دیوانی اور فوجداری مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے
قانونی نوٹس کا ایک تقدس ہوتا ہے  ہمیں چاہیئے کہ قانونی نوٹس میں قانونی نکات پر ہی بات کریں اور ایسی  کوئی بات نہ لکھیں جو قانون کے خلاف ہو
ایک لڑکی طلاق نامے پر دستخط نہیں کرتی تو اس کے خلاف کس قانون کے تحت فوجداری کاروائی ہوگی؟ کس تھانے میں ایف آئی آر رجسٹر ہوگی؟ اور کس اصول کے تحت اس کے خلاف سول نوعیت کی مقدمہ بازی ہوگی
ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان میں بہت سے وکلاء صرف قانونی نوٹس بھیجنے کی مد میں لاکھوں روپیہ  فیس وصول کرتے ہیں اور ان قانونی نوٹسز میں اپنے کلایئنٹ کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے  اور چند قانونی نکات پر بات کی جاتی ہے  اور یہی وکالت کے پیشے کی شان ہے

یہی نہیں دنیا بھر میں وکیل کی جانب سے بھیجے گئے قانونی نوٹس کی  اہمیت دی جاتی ہے بعض اوقات اچھا خاصا مقدمہ قانونی نوٹس کی بنیاد پر ہارنے کا خدشہ ہوتا ہے جتنا سینئر وکیل ہوگا اس کا قانونی نوٹس اتنا ہی  جامع اور سادہ ہوگا