Powered By Blogger

Sunday 28 June 2015

بچوں کی تحویل کا مقدمہ ایک نامکمل کہانی تحریر صفی الدین اعوان

مقدمات میں التواء کے ماہر دادا استادوں کے  تاریخ لینے کیلئے ججز کو چکر دینے کے قصے سنانا ویسے تو بہت مزے کی بات  لگتی ہے لیکن ایسے استادوں کا سامنا کرنا بڑا ہی دل گردے کاکام ہے کیونکہ اس قسم کے دادا استاد اخلاقی طور پر بھی غریب ہوتے ہیں
گزشتہ دنوں بچوں کی تحویل کے ایک مقدمے میں ایک دادا استاد کا سامنا کرنا پڑا میں ایک غریب اور مظلوم عورت کے مقدمے میں بطور وکیل پیش ہوا
مظلوم عورت کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے  جس کے بعد سسر اور اس کے بیٹوں  نے عورت کو جائیداد کے حق سے محروم کرکے مرحوم شوہر کے تمام کاروبار پر قبضہ کرکے اور اس کے بچوں کو چھین لینے کے بعد  اس کو گھر سے نکال باہر کیا جس کے بعد اس عورت نے عدالت کا دروازہ بجایا اس دوران تین سال تک جو ظلم اس عورت پر  عدالت  میں ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے لیکن تین سال کے بعد اس عورت نے دستگیر لیگل ایڈ سینٹر سے قانونی امداد طلب کی
کورٹ فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ  ایک دادا استاد اس کیس میں پیش ہورہا ہے جو صرف جج کو چکر پر چکر دے کر  تاریخ لیکر نکل جاتا ہے  اور عورت اپنے بچوں کی ملاقات کی حسرت ہی دل میں لیکر رہ جاتی ہے تاریخ لینے کیلئے بالکل سادہ سا فارمولہ کے دوروپے کے کاغذ پر ایک درخواست لکھ کر عدالت میں دے  دی کہ  مدعا علیہ بیمار ہے کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتا اس لیئے  بچوں سے میٹنگ اگلی تاریخ پر کروا دی جائے گی اس حوالے سے کورٹ  میں کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش نہیں کیا  نہ کورٹس طلب کرتی ہیں
گزشتہ تاریخ پر بھی یہ بہانہ تھا کہ سسر صاحب خود بیمار ہیں اس لیئے وہ عدالت تشریف نہیں لائے اور بچے بھی نہیں آئے
جس کے بعد ہم نے ذہن بنالیا کہ اس تاریخ پر بھی سسر جی نہیں آئیں گے اور یہی ہوا
دادا  نے ایک پوتے کو عدالت بھیجا دوسرے کو جان بوجھ کے نہیں بھیجا دادا استاد نے التوا کی درخواست دے دی جس کو چیلنج کرتے ہوئے  میری مؤکلہ نے  بھی یہ درخواست کورٹ میں حلف نامے کے ساتھ جمع کروادی کہ  مخالف پارٹی بچے سمیت کورٹ کی حدود میں موجود ہے اور جان بوجھ کر کورٹ میں پیش نہیں کررہی  اس بات کی   وہ خود عینی شاہد ہے جس پر دادا استاد خوب سٹپٹائے اور کہا کہ وہ اگلی تاریخ پر تاریخی آبجیکشن داخل کریں گے  عورت  جھوٹ  بول رہی ہے ایسا کچھ نہیں ہے اگرچہ جج صاحب نے التواء کی درخواست  کو قبول کرتے ہوئے ایک بے توقیر قسم کا عدالتی فیصلہ کیا کہ اگلی سماعت پر لازمی بچے کو پیش کرنا ظاہر ہے اس قسم کے بے توقیر عدالتی فیصلوں کی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی
اسی دوران ہم نے بچوں کی تعلیم کے معاملے کو اٹھا دیا کہ بچوں کے   دادا جی بچوں کے باپ کی پندرہ کروڑ روپے مالیت کے فلیٹ گھر اور کاروبار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں  وہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بچوں کو تعلیم کے حق سے صرف اس لئے محروم کرنے پر تل گئے ہیں کہ کل وہ ان کے اثاثہ جات پر بھی قبضہ کرسکیں  اس لیئے کورٹ   مخالف پارٹی کو ہدایت جاری کرے کہ وہ ان کی تعلیم کیلئے فوری اقدامات کریں
اس بات پر بھی دادا استاد خوب سٹپٹائے  لیکن بولے کچھ نہیں  اور کہا کہ ان کا تجربہ اگلی تاریخ پر بولے گا
لیکن مجھے حیرت ہے عدالت پر بھی کہ اتنے عرصے سے مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے بچے کسی اسکول میں نہیں پڑھتے اس کے باوجود عدالت نے کبھی بچوں کے موجودہ سرپرست  جو کہ  کروڑ پتی  ہیں کو  ایسا کوئی حکم  نامہ کبھی جاری نہیں کیا کہ وہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس قسم کے معاملات میں بچوں کی اصل سرپرست تو کورٹ ہی ہوتی ہے  اور موجودہ کیس میں اکیسویں صدی کے اس دور میں اگر بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں تو ذمہ دار عدالت ہے ٹھیک ہے کہ عدالتوں میں رش ہوتا ہے لیکن پھر بھی کچھ بنیادی اصول ہر جج کو ہروقت ذہن میں رکھنے ضروری ہوتے ہیں  
دادا استاد جب کورٹ سے جارہے تھے تو کافی غصے میں دکھائی دیتے تھے وہ مجھے نظروں ہی نظروں میں تول کر گئے
ابھی یہ کہانی ادھوری ہے کیونکہ  اس کیس میں میری تو پہلی ہی سماعت تھی نئے جج صاحب کی بھی پہلی ہی سماعت تھی  امید ہے کہ معاملہ اچھا رہے گا  جھوٹ کا علاج جھوٹ ہی سے کیا جاسکتا ہے  


Saturday 20 June 2015

دادا استاد استادوں کا استاد ** تحریر صفی الدین اعوان

دادا استاد  استادوں کا استاد
دادا استاد کی اصل وجہ شہرت ان کی وہ بے مثال اداکاری ہے جس کے جوہر وہ کورٹ روم میں اکثر دکھاتے ہیں وہ اداکاری حقیقت سے اتنی قریب تر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے استاد ان کو اپنا استاد مانتے ہیں اور یہی وجہ شہرت ہے کہ ان کو دادا استاد کا لقب ملا دادا  نے یوں تو زندگی میں بے شمار کام کیئے لیکن تاریخ لینے میں جو ان کو مقام حاصل ہے وہ کسی اور استاد کو حاصل ہوہی نہیں سکتا۔ تاریخ لینے اور مقدمات کے التواء میں ان کے پاس ایگزیکٹ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے جس پر شعیب شیخ نے خود دستخط کیئے ہیں   اس طرح کی ڈگریوں سے استاد نے الماری بھر رکھی ہے  
ایک بار نئی سینئر سول جج صاحبہ آئیں تو ان کو دادا کی فن کاریوں کا پتہ چلا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ایسی کی تیسی ہے دادا استاد کی دیکھتی ہوں کراچی کے اس دادا استاد کو کیسے تاریخ لیتا ہے میری عدالت سے پیش کار نے بتایا کہ  میڈم استاد واقعی استاد ہے  اور استادوں کا استاد ہےکل  ہی ایک کیس لگا ہوا ہے استاد کا اس میں وہ مسلسل تاریخ لے رہا ہے کیس نہیں چلاتا   خاتون جج نے کہا کہ کل استاد کی ساری استادیاں نہ نکالیں تو پھر کہنا
مختصر یہ کہ استاد قابو نہ آیا مصروف تھے ہایئکورٹ میں  جونیئر تاریخ لیکر کھسک گیا اسی طرح تاریخیں چلتی رہیں
لیکن  ایک دن وہ  قسمت  سےتشریف لے ہی آئے  پیش کار نے  اشاروں میں بتایا کہ یہی دادا استاد ہے سینئر سول جج صاحبہ جو مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں استاد کو نظروں ہی نظروں میں تولا
دادا استاد ساری صورتحال سے بے خبر حاضری لگوا کر کھسکنے کی ہی لگے تھے کہ 
سینئر سول جج صاحبہ الرٹ ہوگئی مدعی مقدمہ نے بتایا کہ یہ مقدمہ کئی سال سے لٹکا ہوا ہے آج وکیل صاحب تشریف لے آئے ہیں  ان کے فائینل دلائل سن کر  اس کا فیصلہ کرہی دیں
دادا نے بہت بہانے بنائے لیکن جج صاحبہ  مہینوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں  کہ قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں دادا کے سارے حربے سارے بہانے ساری چالیں ناکام ہوگئیں  کورٹ روم میں اور استاد بھی موجود تھےایک لمحے کیلئے دیگر استادوں کو محسوس ہوا کہ آج تو استاد پھنس  ہی گیا
آج تو کوئی بہانہ نہیں چلے گا ہرصورت میں مقدمہ چلانا ہی چلانا ہے آپ کو
ابھی بحث چل ہی رہی تھی کہ آج وہ کس وجہ سے مقدمہ نہیں چلارہے تو  اچانک مدعی خود   زور سے بول پڑا کہ وکیل صاحب   نے اپنی پارٹی سے پیسے لئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کیس نہیں چلارہے اور وکیل صاحب نے پیسے ہی اسی بات کے لیئے ہیں کہ وہ کیس نہیں چلائیں گے
یہ سن کر دادا استاد نے پیچھے مڑ کر مدعی مقدمہ کی طرف دیکھا  چشمہ اتارا ۔سامنے پڑے ٹیبل پر رکھا اور اپنی کرسی یوں بیٹھ گئے جیسے ان کو  مدعی کی بات سن کر شاک لگ گیا ہے  اور وہ شدید صدمے سے دوچار ہیں  
کورٹ روم میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ دادا کا بہر حال ایک مقام تو ہے
دادا استاد پانچ منٹ اسی طرح صدمے کی حالت میں سر پکڑ کر بیٹھے رہے کبھی چشمہ پہن لیتے کبھی اتار دیتے اور کبھی چشمہ اتار کر آنکھیں ملنا شروع کردیتے   یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان کا جسم  صدمے کی وجہ سے آہستہ آہستہ جھٹکے لے رہا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ ان کا بلڈ پریشر قابو سے باہر ہوچکا ہے
اچانک کھڑے ہوئے اور  بے بسی  کے انداز میں  کہا  جج صاحبہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج میری وکالت کے پچیس سالوں پر کسی نے پانی پھیر دیا ہے اس شخص نے یہ چند الفاظ بول کر میری زندگی کے وہ پچیس سال مجھ سے چھین لیئے ہیں  جو میں نے بہت مشکل سے بنائے تھے
پچیس سالوں میں آج تک کسی نے میرے متعلق ایسے الفاظ نہیں کہے اس شخص نے یہ الفاظ بول کر مجھے صحرا میں کھڑا کردیا ہے
کورٹ روم بھرا ہواتھا   اور ایک دم سناٹا چھایا ہوا تھا
کورٹ میں ایک ہی آواز بار بار گونج رہی تھی میری زندگی کے پچیس سال۔پچیس سال میری زندگی کے آج خاک میں مل گئے آج میں خالی ہاتھ کھڑا ہوں میرے اثاثہ لٹ چکا ہے انسان کے پاس ہوتا ہی کیا ہے میرا اثاثہ ہی کیا تھا  میرا کل اثاثہ ہی وہ پچیس سال تھے جو آج عدالت کے سامنے اس شخص نے لوٹ لیا ہے آج عدالتوں کے درودیوار نے بھی شرم سے سر جھکالیا ہے کیونکہ ایک شخص نے کھڑے کھڑے  میری ساکھ تباہ کردی
دادا استاد کبھی  صدمے سے بیٹھ جاتا کبھی کھڑا ہوجاتا کبھی کورٹ روم میں ہی چلنا شروع کردیتا  میری زندگی کے پچیس سال  برباد ہوگئے آج  ایک شخص نے چند الفاظ بول کر چھین لیئے ہیں میرے پاس تھا ہی کیا میرا کل اثاثہ پچیس سال ہی تو تھے میں نے دن رات ایک کرکے اپنا مقام بنایا جو کہ آج چھین لیا گیا ہے جونیئر نے پانی کا گلاس پیش کیا لیکن دادا استاد کو کہاں ہوش تھا کہ وہ پانی پیتے  
دادا کی آواز کھڑک سنگھ کی طرح گونج رہی تھی 
عدالت اندازا نہیں لگا سکتی کہ میں کس تکلیف سے گزر رہا ہوں کس قدر ازیت ناک ہوتا ہے اس شخص کیلئے جب اس سے اس کی زندگی کے پچیس قیمتی سال چھین لیئے جایئں
یہ کہہ کر دادا استاد چشمہ سامنے رکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے شاید وہ آنسو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے
جج صاحبہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ایسا کریں آج تاریخ لے لیں مقدمہ پھر چلالیں گے
دادا استاد نے کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جس شخص سے اس کی پیشہ ورانہ زندگی کے پچیس سال چھین لیئے جایئں اس کی اذیت کو کوئی محسوس نہیں کرسکتا جو مرضی آئے تاریخ دے دیں مجھے اب اپنی زندگی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی میرا دماغ کام ہی نہیں کررہا
خاتون جج صاحبہ نے  ایک ماہ کی تاریخ دے دی
دادا استاد خاموشی سے اٹھے پیچھے مڑکر مدعی مقدمہ کو ایک طنزیہ قسم کی بھرپور آنکھ ماری  خاتون جج صاحبہ کی طرف مسکرا کر دیکھااور  کورٹ روم سے باہر نکل گئے
 سینئر سول جج صاحبہ حیرت  سے دیکھتی رہ گئیں اور سب  ڈرامہ سمجھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گئیں
وہ دن آج کا دن  جج صاحبہ نے پورا زور لگالیا  مقدمہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور دادا استاد پھر کبھی اس کورٹ میں نظر بھی نہیں آئے

تحریر :: صفی الدین اعوان


Sunday 14 June 2015

کورٹس کے اصل قواعد و ضوابط کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں تحریر صفی الدین اعوان

دوہزار سات کا واقعہ ہے 
عید میں دودن باقی تھے عدالت بند ہورہی تھی عدالتی وقت  ختم ہونے سے پہلے ایک باؤنس شدہ چیک کے مقدمے میں میرے  کلائینٹ کی ضمانت مجسٹریٹ نے خارج کردی اور مجسٹریٹ صاحب گھر چلے گئے
ملزم   کے بھائی سے میں نے کہا کہ اب عید کے بعد ہوگا ۔ عید کے بعد اپیل کریں گے  لیکن ملزم کا بھائی تھا کہ جان چھوڑنے پر رضامند ہی نہیں ہورہا تھا اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ کسی بھی طرح میرے بھائی کو جیل سے باہر نکالنا ہے میں نے کہا بھائی مجھے افسوس ہے کہ اب میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا  کیونکہ جج چلا گیا  دودن بعد عید ہے اور آج سے عید کی تعطیلات اسٹارٹ ہورہی ہیں  اب عید کی بعد ہی سیشن کی عدالت میں اپیل دائر کی جائے گی میں معذرت چاہتا ہوں آپ کی موجودہ صورتحال میں کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں کرسکتا
میں جانے لگا تو اس کے بھائی  نفسیاتی  ہونے لگا گڑگڑانے لگا  منتیں کرنے لگا  اور  میرا راستہ روک لیا  وکیل صاحب آپ اس طرح ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے میرے دل میں ان کیلئے ہمدردی تھی لیکن کوئی راستہ تھا ہی نہیں  تو اس کی کیا مدد کرتا
وکیل صاحب میرے پاس پیسہ ہے منہ مانگا پیسہ مجھے میرا بھائی چاہیئے  عید سے پہلے اور میرا دل یہ کہتا ہے کہ آپ میرے بھائی کو باہر نکال سکتے ہو
اس دوران کورٹ سنسان ہوچکی تھی اس کے بھائی کے پاس  نقد کیش موجود تھا
میں نے گھر جانے سے پہلے ایک بار پھر کورٹ کا چکر لگایا ایک تجربہ کار  پیش کار وہاں موجود تھا میں نے کہا کہ آج جس ملزم کی ضمانت خارج ہوئی ہے اس کو کسی طرح باہر نکالا جاسکتا ہے اس کے اہل خانہ پریشان ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا  ان کے ساتھ گھر پر ہی عید کرے
تجربہ کار پیش کار نے کہا وکیل صاحب پیسہ ہے میں نے کہا پیسہ بہت کتنا چاہیئے
پیش کار نے کہا اگر پیسہ ہے تو وہ لڑکا عید گھر پر ہی کرے گا
اسی دوران پیش کار نے ایک موٹی سی گالی اپنے عملے کو دی جو گھر جاچکے تھے
اس کے پاس فائل کا بنڈل تھا جس میں تیس  چالیس فائلیں تھیں اس نے ایک اور فائل میرے ملزم کی  بھی شامل کردی
کہا گاڑی ہے آپ لوگوں کے پاس میں نے کہا ہاں ہے ایسا ہے کہ مجھے  لانڈھی جیل چھوڑ دو اور آپ بھی ساتھ چلو آج آپ کو ایک قانون بھی سکھاؤں گا اور یہ بھی دکھاؤں گا کہ پیسہ ہوتی کیا چیز ہے اور پیسے کی پاور کیا ہوتی ہے
خیر ملزم کے بھائی نے اپنے ملازم کو اشارہ کیا اس نے فائل کا بنڈل اٹھایا اور لانڈھی جیل کی طرف رواں دواں ہوگئے ہمارا ملزم سینٹرل جیل کراچی میں بند تھا
وہاں عید کے سلسلے میں آن ڈیوٹی مجسٹریٹ موجود تھے پیش کار نے فائلیں ان کے سامنے پیش کردیں جس پر مجسٹریٹ صاحبان نے آرڈر کیئے اور چند ملزم رہا کردیئے
مجھے لگا کہ پیش کار ہمیں الو بنا رہا ہے مفت کی گاڑی مل گئی اور آخر میں اس نے معذرت ہی کرنی ہے خیر سینٹرل جیل کیلئے روانہ ہوئے اسی دوران پیش کار صاحب کو ایک موٹی رقم پیش کی جو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ کام ہونے کے بعد
مجھے عجیب سا لگ رہا تھا کہ  یار آج یہ پیش کار ہاتھ کرگیا اس نے جیل جانا تھا سرکاری حکم تھا اس نے ہمیں استعمال کیا  اور خوب بے وقوف بنایا ہے  ایسا کہاں ہوتا ہے
سینٹرل جیل کراچی  پہنچے
پیش کار مجھے بھی ساتھ لے گیا  اور کہا کہ یاد رکھنا کہ پیسہ ایک ایسی چیز ہے جس سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے  سب کچھ
وہاں مجسٹریٹ موجود تھے پیش کار نے چند فائلیں سامنے رکھیں جن پر مجسٹریٹ صاحبان نے چند ملزم رہا کردیئے اسی دوران میرے ملزم کی فائل پیشکار صاحب نے چالاکی سے پیش کی
مجسٹریٹ نے کہا یہ کیا آج ہی تو ضمانت خارج ہوئی ہے اس ملزم کی اب میں کیسے رہا کردوں
پیش کار صاحب نے سندھ ہایئکورٹ کا ایک حکم نامہ پیش کیا جس کے تحت   ان تمام ملزمان کو عید کے موقع پر ضمانت پر رہا کردیا جائے جن   پر  ایسے مقدمات ہیں جن کی سزا تین سال سے زیادہ نہیں ہے
پیش کار نے مجسٹریٹ صاحب کو کہا اس نوٹیفیکیشن کے مطابق  آپ ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے پابند ہیں  مجسٹریٹ ذرا جھجھک گیا کیونکہ اسی دن ہی تو میرٹ پر ضمانت ریجیکٹ ہوئی تھی
اسی دوران سینٹرل جیل کراچی میں ہایئکورٹ کا ایک جسٹس ٹہلتا  ٹہلتا ہوا  نکل آیا پیش کار اس کے پاس گیا بات چیت کی وہ بھی آگیا اس نے  مجسٹریٹ صاحب کو سمجھایا کہ بیٹا ضمانت ہر ملزم کا بنیادی حق ہے
مجسٹریٹ نے ضمانت منظور کی ملزم کا بھائی باہر انتظار کررہا تھا پیش کار گیا اس کو ساتھ لایا  اس کی گاڑی کے کاغذات بطور ضمانت جمع کروائے  جن کی ویریفیکیشن بھی نہیں ہوئی اور ملزم جیل سے باہر تھا
پیش کار صاحب  نے اپنی فیس لی اور چلا گیا
واقعی ضمانت ہر ملزم کا بنیادی حق ہے
بنیادی حق
حق
پیسہ حق دلاتا ہے  بنیادی حق دلاتاہے
واقعی اس دن پتہ چلا کہ اصل قوانین اور اصل ضابطے انگریز کتابوں میں لکھنا ہی بھول  گیا تھا
 میں نے آج تک کسی پیسے والے کاکام کورٹ میں رکتا ہوا نہیں دیکھا  اس کے علاوہ جس نے پیسہ خرچ نہیں کیا اس منحوس کا کام ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھا بلکہ صرف دھکے کھاتے ہوئے دیکھا ہے

تحریر صفی الدین اعوان 
03343093302



Saturday 13 June 2015

جسٹس کے بیٹے کاکورٹ میں پہلا دن ۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان

یہ واقعہ مجھے ایک جسٹس کے بیٹے نے خود سنایا اس نے کہا کہ جب وہ تعلیم مکمل کرکے آیا تو کئی لاء کمپنیوں میں اپلائی کیا ایک لاء کمپنی نے انٹرویو کیا اور مجھے   جاب مل گئی پہلے ہی دن ایک بہت موٹی تازی فائل مجھے پکڑا دی گئی اور کہا گیا کہ بینکنگ کورٹ میں پیش ہونا ہے میں نے کہا اس فائل کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے بھی پورا ایک ماہ چاہیئے پہلے ہی دن اتنی بڑی ذمہ داری لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کرنا صرف کورٹ میں جاکر پیش ہوجانا ہے باقی کام منشی کرلے گا ڈرتے ڈرتے کورٹ میں پیش ہوا اسی دوران منشی نے پیش کار کو کان میں بتادیا کہ  یہ وکیل صاحب فلانے جسٹس کا بیٹا ہے  یہ سن کر پیش کار نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا جج صاحب کو  میرے متعلق بتایا یہ سن کر جج کی تو ہوا  کے ساتھ ساتھ  پشی بھی  نکل گئی فوری طور پر اپنے چیمبر میں گئے مجھے بلایا ڈبل ملائی مار کے  چائے پلائی  پاپاکی خیریت دریافت کی  سخت ناراض ہوئے کہ  پہلے کیوں نہیں  بتایا  کہ آپ جسٹس کے بیٹے ہو یہ کورٹس تو بنی ہی جسٹس صاحبان کے بیٹوں اور بھتیجوں کیلئے ہیں  ہم تو نوکر چاکر ہیں  
 پیش کار سے  میری فائل منگوائی  میری  وہ فائل جو صبح ہی کمپنی نے مجھے دی تھی جس کے متعلق مجھے کوئی معلومات ہی نہیں تھیں میری درخواست میں مجھے ایسا ریلیف ملاکہ مجھے خود نہیں پتا تھا پوری کورٹ کا اسٹاف آگے پیچھے بچھا جارہا تھا

یہ میرا لاء فرم میں پہلا پہلا دن تھا لیکن ایک ہفتے کے اندر اند ر میری اہمیت اس قدر بڑھ چکی تھی  کہ شہر  کی ہر بڑی لاء فرم لاکھوں روپے کے عوض میری خدمات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن میں شوپیش بن چکا تھا جب بھی کوئی کلایئنٹ آتا  کمپنی والے تعارف ضرور کرواتے کہ یہ فلانے جسٹس کا بیٹا ہے اس کے بعد فائل مجھے تھمادی جاتی جو میں کورٹ لیکر جاتا تو  وہ خود بخود دوڑنا شروع ہوجاتی کورٹ کے آرڈر خود دوڑتے دوڑتے میرے آفس پہنچ جاتے تھے

اگلے ایک سال کے دوران مجھے عقل آگئی اور میں نے اپنا چیمبر بنالیا
جس کے بعد ترقی کا نیا سلسلہ شروع ہوا ایک میں ہی جسٹس کا رشتے دار نہ تھا جسٹس صاحبان نے تو الگ دنیا ہی بسا رکھی تھی   جس کا واحد مقصد پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ تھا بار کے عہدے دار بھی میری مرضی سے آتے جاتے تھے اور میرے ذریعے بار بھی عدلیہ کی بغل بچہ بن چکی تھی بار کے تمام فیصلے بھی عدلیہ کی مرضی سے ہی ہوتے تھے اور عام وکیل بے چارا  بار کے صوفوں پر بیٹھ کر صرف ناقابل تشریح   زبان استعمال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتا تھا
میری ترقی کے راستے میں جو جج آیا اس کو پاپا نے ہٹا دیا بلکہ اٹھا کہ پٹخ دیا، یہاں تک کے اگر ہایئکورٹ میں کسی جسٹس نے بھی میری راہ میں کانٹا بچھانے کی کوشش کی تو وہ کانٹا نکال باہر کیا گیا میرے پاپا نے گھر  کے تہہ خانے میں لوہے کا بہت بڑا صندوق رکھا ہوا ہے ہم باپ بیٹا جو کماتے ہیں وہ اسی تہہ خانے میں لاکر چھپادیتے ہیں  میرا سب سے بڑا کاروباری پارٹنر میرا باپ ہے اس کے باوجود کے  لالچی بڈھے کے مرنے کے بعد سب کچھ میرا ہی ہے وہ مجھ سے حصہ لینا نہیں بھولتا اور مال لیتے وقت یہ کہتا ہے کہ بیٹا  لینے کیلئے دینا سیکھو  اگر کمائے ہوئے مال سے دینا نہیں سیکھوگے تو کبھی ترقی نہیں کرپاؤگے میں تمہاری تربیت کررہا ہوں آج مجھے مال دے رہے ہو کل کسی انکل  جج کو اسی طرح مال دوگے اور اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتے ہی رہوگے سیشن ججز اور ٹکے ٹکے کے مجسٹریٹس میں تو اتنی ہمت ہی نہیں کہ  میری  لاءکمپنی کے خلاف کوئی آرڈر کرنے کا سوچ بھی سکیں  ویسے بھی میں سیشن کورٹ نہیں جاتا  میں سیشن کورٹ جانا اپنی توہین سمجھتا ہوں ایک دس ہزار والا جونئیر  رکھا ہوا ہے جو سیشن کورٹ جاتا ہے اور میرا نام لیتا ہے وہی کافی ہے اور جو   "اڑی " کرتا ہے اس کے خلاف انکوائری شروع ہوجاتی ہے جس کی فائل بھی میرے آفس سے 
کھلتی اور بند ہوتی ہے ویسے اس کی  نوبت کم ہی آتی ہے بس نام ہی کافی ہے
یہی وجہ ہے کہ اب میں کروڑوں میں نہیں اربوں میں کھیلتا ہوں اور شہر کے مافیاز کے ساتھ مل کر بڑے بڑے گیم کھیلتا ہوں 
ہایئکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی کنفرمیشن کا راستہ تو میرے آفس کی فائلوں سے گزر کرجاتا ہے ایڈیشنل جسٹس تو میرا خاص نشانہ ہوتے  ہیں  جو میری بات نہیں مانتا اس کو کنفرم بھی نہیں کیا جاتا
جو بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عدلیہ کے متعلق لکھا ہے وہ  واقعی بے وقوف ہیں یہ پاکستان نہیں  پڑوسی ملک افغانستان کی عدلیہ کے متعلق ہے اگر کسی کو کوئی مماثلت نظر آتی ہے تو وہ خود ذمے دار ہے کیونکہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا



انسانیت کا درد محسوس کیئے بغیر جج کا عہدہ بے معنی ہے ** صفی الدین اعوان

انٹرویو کسی کے خیالات  جاننے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے ایک ایسے وقت میں جب  عدلیہ انتہائی نازک  دور سے گزررہی ہے اور عوام الناس میں غلط فہمیاں عام ہیں تو ہم نے کوشش کی ایک مجسٹریٹ سے انٹرویو کے زریعے ان کے خیالات جاننے کی وہ مسائل جاننے کی جن سے وہ دوچار رہتا ہے
مجسٹریٹ  عدالتی نظام کی بنیادی اکائی ہے اور کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ بنیاد کی مضبوطی سے لگایا جاسکتا ہے عدالتی نظام کا صرف یہی عہدہ  درست کام کرے تو پولیس کلچر ختم ہوسکتا ہے  عدالتی نظام کی یہ بنیاد کن مسائل کا شکار ہے اور کتنی مضبوط ہے کوشش کی ہے کہ سوالات کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا رہے
انٹرویو کا مقصد اصلاح تھا تو شناخت کو چھپالیا گیا  تاریخ اور واقعات میں معمولی ترمیم کی اس لیئے ایک فرضی نام کے طور پر مجسٹریٹ کا نام ہے" سچل"
سوال: سچل صاحب یہ بتایئں کہ کس طرح اس شعبے میں آئے؟
سچل: میں نے   شوقیہ طور پر اندرون  سندھ وکالت کا پیشہ جوائن کیا تھا اور اللہ کی مہربانی کے اچھے سینئر ملے بعد ازاں وکالت کا تجربہ اچھا رہا اسی طرح 2002 میں مجسٹریٹ کی سیٹیں آئیں تو آخری دن فارم بھرا بعد ازاں سلیکشن ہوئی میرٹ پر اور اندرون سندھ ہی ایک ضلع میں پوسٹنگ ہوئی

سوال: ایک مجسٹریٹ کی زندگی اور کیئرئیر میں بحثیت جج پہلا دن،پہلا مہینہ  کتنی اہمیت رکھتا ہے؟

جواب : پہلا دن ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ پہلے ہی دن ایک وڈیرے کا جس کی ضلع میں 400 ایکڑ زمین تھی  نے ایک غریب کسان  جس کی صرف ڈیڈھ ایکڑ زمین تھی کے بیٹے جس کی عمر 16 سال تھی کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا اور پولیس ریمانڈ کیلئے اس کو اس حالت میں زنجیروں سے  جکڑ  کر لائی کہ اس  کی قمیض پھٹی پرانی اور پاؤں میں جوتے بھی نہ تھے   وہ بچہ تھر تھر کانپ رہا تھااور یہ صورتحال ایسی تھی اس غریب کسان کے بیٹے کی آنکھوں میں جو درد تھا  جوڈر تھا جو خوف تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا اس صورتحال  نے مجھے شاک سے دوچار کیا مختصر یہ کہ اس جھوٹے مقدمے میں اس بچے کو ذاتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا جس کے بعد  پولیس افسران میں ہلچل مچ گئی کیونکہ وڈیرہ بااثر تھا اور سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا چند منٹ کے بعد ایڈیشنل ایس ایس پی کی کال آئی  اتفاقاً وہ افسر میرے ضلع کا تھا نہایت ہی بے تکلفی سے گفتگو شروع کردی اور مختصر تمہید کے بعد کہا کہ ایک عرض ہے کہ اس بدمعاش لڑکے  کا  چند روز کا ریمانڈ دے دیں  معاملہ عزت کا بن گیا ہے یہ سن کر میں نے کہا کہ شاید آپ کے پولیس افسران کو یہ بھی نہیں پتا کہ کم عمر بچوں کو ہتھکڑی  لگا کر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا دوسرا یہ کہ اگر آئیندہ میری عدالت میں  کسی بھی کم عمر بچے کے ساتھ ایسا ہوا تو بلاتکلف آپ کے پولیس افسران کو جیل بھیج دوں گا  جس کے بعد پولیس افسر نے کال کاٹ دی مختصر یہ کہ پہلا ہی دن ہنگا مہ خیز رہا بعد ازاں پورا مہینہ یہی صورتحال رہی  اس وقت اندرون سندھ وڈیرہ شاہی عروج پر تھی   پولیس  ان کے ذاتی ملازم کے طور پر کام کرتی تھی  اور کرتی ہے  اور عدلیہ  کی نااہلی  کی وجہ سے  پولیس لوگوں پر ظلم کرتی ہے پہلے ہی دن سماجی تعلقات داؤ پر لگنا شروع ہوئے سماج سے رشتہ ٹوٹنا اور انسانیت سے رشتہ جڑنا شروع ہوا بدقسمتی سے سندھ کے وڈیرے ججز اور جسٹس صاحبان کیلئے شکار کی محفلیں سجاتے ہیں جن پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں  جس کی وجہ سے بھی عدلیہ بھی کسی نہ کسی صورت ان مظالم میں شریک ہوجاتی ہے

پہلا مہینہ مکمل ہوا تو دوسرا شاک اس وقت لگا جب ماہانہ تنخوا کا چیک وصول ہوا   اس زمانے میں  تنخوا اتنی کم تھی کہ وکالت کے دنوں میں اتنے پیسے دوستوں  اور کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے تھے جس کے بعد والد صاحب کو بتایا کہ عہدہ تو اچھا ہے کیونکہ وہ میری کارکردگی سے خوش تھے   لیکن تنخوا بہت کم ہے  اس لیئے میں شاید عدلیہ میں اپنا کیرئیر جاری نہ رکھ سکوں جس کے بعد والد محترم نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ یہ عہدہ پیسے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کا ہے کچھ عرصہ کرو پھر دیکھیں گے دومہینے کے بعد والد محترم نے مجھے ایک معقول رقم بھجوائی جس  سے میں نے (اے سی ) لگوایا اس زمانے میں اندرون سندھ کسی جج کی جانب سے (اے سی) لگوانا یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کررہا ہے یا لگژری لائف کی علامت سمجھا جاتا تھا میرے ایک قریبی عزیز کی کال آئی کہ سنا ہے (اے سی ) لگوالیا ہے میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے  میں نے کہا والد نے دیئے ہیں  اے سی کے اخراجات کیسے برداشت کروگے میں نے کہا کہ جس طرح باقی لوگ کرتے ہیں بل تو آتا ہی نہیں پوری کالونی کنڈا لگاتی ہے ہمارے تو سیشن جج کا گھر بھی کنڈے پر چل رہا ہے تو میرے قریبی عزیز نے کہا کہ جج ہوکر بجلی چوری کروگے یہ سن کر مجھے افسوس ہوا  غلطی کا احساس ہوا میں نے دوسرے ہی دن الیکٹرک کمپنی کے لیگل ایڈوایئزر کو بلوا کر میٹر لگوایا اگرچہ یہ باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہیں لیکن یہی باتیں  انسان  کا کردار متعین کرتی ہیں

سوال: پہلا سال کیسے گزرا؟
پہلا سال  کسی بھی جج کیلئے بہت اہم ہوتا ہے لوگ سفارش کیلئے دوستوں اور عزیز واقارب سے رابطے کرتے ہیں  رشوت کی آفرز ہوتی ہیں اکثر لوگ گھر تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح وہ دوست جن کے ساتھ وکالت میں وقت گزارا لوگ ان تک پہنچتے ہیں سفارش کرواتے ہیں
ایک بار قریبی عزیز ایک لاکھ روپیہ لیکر آگیا کہ فلاں کا کام کردو میں نے نہایت طریقے سے منع کیا اس کو سمجھا کر واپس کردیا۔ دوستوں کو اہمیت نہیں دی تو سماجی تعلقات خراب ہوئے جو بعد ازاں چند سال بعد اس وجہ سے بحال ہوئے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش نہیں مانی  بنیادی طور پر خاندان اور ذاتی ترجیحات بھی اہمیت رکھتی ہیں  جب خاندان توقع رکھتا ہے کہ ہم  غلط کام کریں تو لوگ مجبور ہوجاتے ہیں جب خاندان ہدایت دیتا ہے کہ حق حلال کما کر لاؤ تو انسان ثابت قدم رہتا ہے جب آپ اپنی اہلیہ کے ہاتھ پر حق حلال کی کمائی رکھتے ہیں اور وہ اسی کم آمدن پر صابر وشاکر رہتی ہے  تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے لیکن لوگوں کو اپنے کام نکلوانے ہیں وہ اپنے مسئلے سے اور عدالت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کسی بھی جج کے کردار کی گواہی اس کا ذاتی اسٹاف ، اس کا پٹے والا،اس کا ریڈر اور ڈرایئور دیتے ہیں  پہلے مرحلے میں لوگ انہی کے زریعے  کوشش کرتے ہیں کہ کام کیسے نکلوایئں  جج سفارش مانتا ہے یا پیسے لیتا ہے اس کا قریبی دوست کون ہے کس کی بات نہیں ٹال سکتا یہ وہ باتیں جن سے ہرجج کو گزرنا پڑتا ہے  میری عدالت میں میرے آبائی ضلع سے لوگ میرے پرانے دوستوں کو تلاش کرکے لائے اور وہ جب میری عدالت میں آئے تو میں نے ان کی سفارش کو نہیں مانا میرٹ پر ان کا جو بھی ریلیف بنتا تھا دیا جس کی وجہ سے دوست ناراض ہوئے لیکن پہلے سال کی مشکلات کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوگیا  اور اس کے بعد  یہ سلسلہ ختم ہوا کافی عرصہ ہوا  نہ تو کوئی سفارش لیکر آیا نہ کسی نے آفر کی ہمیں لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ وہ اسقدر دوڑ دھوپ کیوں کرتے ہیں  بنیادی طور پر بعض اوقات جائز کام کیلئے بھی ناجائز زرائع استعمال کیئے جارہے ہوتے ہیں  اگر جائز کام فوری کردیئے جایئں تو لوگ اس قسم کی دوڑ دھوپ کیوں کریں؟

سوال: بعض اوقات پرانے دوستوں کو اہمیت تو دینا ہی پڑتی ہے؟

جواب : جج بن جانے کے بعد سماجی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں  انسانیت سے رشتہ جوڑنے کیلئے تعلقات اہمیت نہیں رکھتے   جب آپ ایک دوست کی سفارش مانیں گے تو یہ خبر باقی دوستوں تک پہنچے گی  اس طرح قطار بن جائے گی اسی طرح ایک بلاوجہ کی بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہوگا ہاتھ صاف نہیں ہونگے تو  اعتماد ختم ہوجائے گا سماجی تعلقات کے چکر میں انسان انصاف سے دور ہوجاتا ہے

سوال: کیا کبھی کسی سیشن جج نے کسی کام کیلئے دباؤ ڈالا؟

جواب: جی ہاں لیکن صرف ایک بار واقعہ یہ تھا کہ میں نے ایک بااثر پولیس افسر کو جرم ثابت ہو نے پرسزا سنائی  اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دیر بعد میرے سیشن جج کی کال  میرے سیل فون پرآئی اور کہا کہ پولیس افسر کے معاملے میں نظر ثانی کریں میں نے کہا کہ میں تو گھر آگیا ہوں یہ سن کر سیشن جج آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ جانتے ہو کس سے بات کررہے ہو میں فلاں ہوں میں نے کہا کہ بالکل جانتا ہوں لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں سچل بات کررہا ہوں یہ سن کر انہوں نے کال منقطع کی بعد ازاں اپیل میں سیشن جج نے اس پولیس افسر کو باعزت بری کردیا اسی طرح ایک پولیس افسر نے ایک وڈیرے کے حکم پر ایک بچے کو  جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے گرفتار کرنے کے بعدتھانے میں کرسی پر بٹھا کر بجلی کے تار سے  نہایت ہی ظالمانہ طریقے سےجکڑا   اور گھر چلا گیا اس دوران وہ بجلی کے تار  اس کے جسم میں اتر گئے  وہ شدید زخمی ہوگیا لیکن ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ پولیس افسر  دوسرے دن  ریمانڈ کے دوران خودکشی کے مقدمہ بھی بناکر لے آیا کہ اس ملزم نے بلیڈ مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے  میں نے میڈیکل کروایا  جس سے بلیڈ مارنا ثابت نہیں ہوا یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے تار سے ملزم کو جکڑا گیا تھا کیس رجسٹر کرکے ٹرائل کیا شواہد مضبو ط تھے سزا سنائی یہ  پولیس افسر بھی  سیاسی طور پر طاقتور تھا ججمنٹ جاندار تھی سیشن جج نے رہا تو نہیں کیا دوبارہ ٹرائل کروا کر گواہ منحرف کروائے گئے اس طرح پولیس افسر کی جان بچائی گئی یہ دو انفرادی واقعات تھے  جو کہ پورے 11 سال کے کیئرئر میں پیش آئے  اس کے بعد  کبھی کسی سیشن جج نے میرے اختیارات میں مداخلت نہیں کی رشوت نہ لینے والا اور اصولوں پر چلنے  والے انسان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا

سوال: وکلاء کا رویہ کیسا رہا ؟

جواب: اندرون سندھ بار اور  وکلاء کا رویہ ججز کے ساتھ بہت اچھا ہے وہ کورٹ اور جج کا ادب کرتے ہیں  اور کبھی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتے نہ ہی شور شرابہ کرتے ہیں  مجھے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اندرون سندھ   کسی وکیل سے کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی اور نہ ہی بار سے کوئی شکایت رہی نہ ہی بار کی جانب سے کبھی مجھ پر کبھی کوئی دباؤ رہا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ میرا دامن صاف ہے   اس کی  ایک  اور وجہ سندھ کی وہ ہزاروں سال پرانی روایات ہیں  جس کے تحت وہ جج کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ کبھی پیش آیا بھی ہوگا تو میرے علم میں نہیں یہاں تک کے عوام الناس میں بھی احترام ہے

سوال: لیکن وکلاء اور ججز کے تعلقات خراب رہتے تو ہیں؟

جواب: میرے علم میں نہیں  میں خود غلط نہیں ہوں تو کوئی مجھے غلط کام کرنے کا نہیں بولتا  نہ ہی کوئی پریشر ڈالتا ہےمیں صرف اتنی بات جانتا ہوں۔ جن کے تعلقات خراب ہیں وجہ بھی وہی جانتے ہونگے

سوال:بحیثیت جج کراچی کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: کراچی کا تجربہ بھی ٹھیک ہی ہے  شروع شروع میں کچھ  لوگوں نے شور شرابہ کیا  لیکن جب میرا اپنا دامن صاف ہے تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ایک بار  میں نے بار ایسوسی  ایشن کی ایک اہم شخصیت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ  بڑے ہی غصے میں کمرہ عدالت میں تشریف لائے اور اوپن کورٹ میں کہا کہ ہم آپ کی تنخواہوں میں اضافے کےلیئے سپریم کورٹ تک  گئے اور آپ ہمارے خلاف ہی فیصلے دے رہے ہیں میں نے تحمل سے کہا کہ میں نے کب کہا ہے آپ کو کہ میری تنخواہ میں اضافے کیلئے آپ کوشش کریں یا سپریم کورٹ جایئں    یہ فیصلہ میرٹ پر کیا ہے کسی کے خلاف نہیں یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے اور عدالت سے چلے گئے بہرحال سیشن جج نے ان کا کیس میری عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا مختصر یہ کہ  ایک دومعمولی واقعات کے بعد یہاں بھی صورتحال ٹھیک ہوگئی  نہ ہم غلط کام کرتے ہیں اور نہ ہی غلط بات برداشت کرتے ہیں ہماری ایمانداری ہمارا اصل اعتماد ہے

سوال: کوئی بھی جج پہلی غلطی کب کرتا ہے؟

جواب: پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ کسی جاننے والے کی یا کسی دوست کی سفارش مان لیتا ہے یہی غلطی کرپشن کے سارے راستے کھول دیتی ہے اور جج خود اعتمادی سے محروم ہوجاتا ہے جج کو انسانیت سے رشتہ جوڑنا چایئے لیکن میں کہتا ہوں "بے درد نامرد" جس جج کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے انسانوں کے دکھ اور درد کو محسوس نہ کرسکتا ہو تو میرا خیال ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ  ایسے ایماندار جج جس کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو اس سے وہ جج بہت بہتر ہے جو پیسے لیکر کم ازکم کام تو کردیتا ہے
انسانیت کا درد محسوس کیئے بغیر جج کا عہدہ بے معنی ہے

سوال:  کیا عدلیہ  فرسودہ نظام کو ختم کرسکتی ہے؟

جواب: بالکل اگر  نچلی سطح پر توجہ دی جائے تو عدلیہ فرسودہ اور ظلم کے نظام پر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے
سوال : وقت کے ساتھ بحیثیت جج کیا تبدیلی آئی؟

جواب: پہلے جب لوگ سفارش کرواتے تھے تو چڑ کر ان کے خلاف فیصلے دے دیتا تھا لیکن اب کوشش ہوتی ہے کہ انصاف کیا جائے لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو لوگ سفارش تلاش نہیں کریں گے

(یہ ایک طویل انٹرویو کی پہلی قسط ہے   یہ ایک ابتدایئہ تھا کیونکہ آگے چل کر ایسے مسائل کی نشاندہی کی جائے گی جن کے زریعے پورے نظام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے)


Monday 8 June 2015

غریب کا کل اثاثہ اس خلوص ہوتا ہے تحریر صفی الدین اعوان

سوشل سیکٹر میں کام کرتے ہوئے ایک عرصہ گزرگیا۔ بہت سی کامیابیاں  بھی ملیں لیکن اگر میں اپنی تمام کامیابیوں کو جمع کرلوں تو آج ایک  ایسی کامیابی ملی جو تمام کامیابیوں پر بھاری ہے
چند ماہ قبل کراچی کی ایک دور دراز مضافاتی کچی آبادی   عابد آباد  اسلام  نگر سے چند نوجوانوں  نے رابطہ کیا اور ہمارے ادارے لاء سوسائٹی سے رضاکارانہ بنیادوں پر وابستہ ہوگئے ہمارے ادارے نے ان کو پیرا لیگل ٹریننگ دی  جس کے بعد ان لوگوں نے اپنے علاقے سے کافی کیسز ہمارے ادارے کی طرف بھیجے  جن کو ہم نے اچھے انداز میں قانونی امداد دینے کی بھرپور کوشش  کی اور ان کی مدد کی اللہ پاک کی مدد سے ان کے کیسز حل کیئے  اور ان کی مشکلات میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی   جس سے متاثر ہوکر وہاں کی مقامی کمیونٹی نے  ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہمارے ادارے کیلئے مل جل کر  ایک قانونی امداد کے مرکز کی بنیاد رکھ دی ہے
اس قانونی امداد کے  مرکز پر آنے والے تمام اخراجات مقامی کمیونٹی نے برداشت کیئے ہیں  اور ماہانہ اخراجات بھی وہاں کے مقامی لوگ برداشت کریں گے
آج وہاں کے لوگوں نے دعوت پر بلایا تھا لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو مقامی آبادی کی جانب سے ایک بہت بڑا سر پرائز منتظر تھا  اور وہ سرپرائز تھا  قانونی امداد کا مرکز جس کا افتتاح آج سادگی سے کردیا گیا
آج مجھے اپنے آپ پر بہت فخر محسوس ہورہا ہے اپنی ٹیم پر فخر محسوس ہورہا ہے کہ جن کی کاوشوں  سے اور خلوص سے متاثر ہوکر لوگ اپنی رضاکارانہ خدمات ہمارے لیئے وقف کررہے ہیں  ہمارے ادارے کیلئے اپنے وسائل پیش کررہے ہیں
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مقامی کمیونٹی نے ہم پر جو بے تحاشا اعتماد کیا اس پر پورا اترنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے
وہ  غریب لوگ  جو مقدمات کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں  وہ  خواتین جو ظلم اور ستم کا شکار ہیں  اللہ پاک ان کی مشکلات کو دور فرمائے  مجھے اور میرے ادارے کو انسانیت کی خدمت کی  استقامت عطا فرمائے

میں اس علاقے کے  غریب لوگوں کے خلوص  کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا کیونکہ غریبوں کا کل اثاثہ ان کا خلوص ہوتا ہے میں کتنا خوش قسمت ہوں کے آج چند لوگوں نے مجھے خلوص کی دولت دے کر ہمیشہ کیلئے اپنا مقروض بنالیا  

Saturday 6 June 2015

لگتا ہے پاکستان میں نام کا عدالتی نظام بھی موجود نہیں ٭٭٭ تحریر : صفی الدین اعوان



جس ملک میں صرف نام کا بھی عدالتی نظام ہوتو اس  ملک میں پولیس شہریوں پر تشدد اور ظلم نہیں کرسکتی

 سنہ 2009  ٹنڈو محمد خان سندھ پاکستان
ایک پاکستانی  عدالت ہی کے  مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک غریب  لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور روتے ہوئے  فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے دروخواست وصول نہیں کی اور سائل کو نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا  اور دونوں رجسٹر قبضے میں لیئے دونوں  رجسٹرمیں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ کسی بھی قسم کی  گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا  اور واقعہ رپورٹ کردیا  روزنامچے میں اپنی آمد کا اندراج کیا  اور دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا  اور اس سے یہ کام غلطی سے ہوا ہے آئیندہ ایسا نہیں ہوگا ایس ایچ کا تحریری  بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر  کرنے کا حکم دیا  افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے  اور ایس ایچ او کے خلاف  ایف  آئی رجسٹر کردی  سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی 
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں اور میرے بہت سے پریکٹسنگ وکلاء  ہماری اس قسم کی باتوں سے سخت الرجک ہیں  بہت بری لگتی  ہیں ایسی گندی باتیں ان کو
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا  فرشتہ  اور ایسا نامور  اور ایسا  جدی پشتی ایماندار کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ  اگر نام  لکھ دیا تو پھر ایک نئی  تحریک شروع ہوجاتی ہے کہ عدلیہ  کے خلاف  باتیں ہورہی  ہیں   مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے  صوبہ  سندھ  میں  پولیس راج کو چیلنج کیا تھا  ایک ایس ایچ  او کے خلاف  مقدمہ  درج کروایا تھا  تو دوستو اورساتھیو اس قسم  کے لوگوں کا کیا انجام ہونا چاہیئے  اس لیئے پہلے تو  ان کی اپنی بدلی کروائی گئی یعنی  تبدیلی کا آغاز ان ہی سے شروع ہوا  اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
جس ملک میں عدالتی نظام موجود ہو وہاں پولیس راج ممکن نہیں ہے جس شہر میں ایک سیشن جج کا وجود پایا جاتا ہو اور جس شہر میں تھانے کی حدود ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے منسلک ہو وہاں پولیس کس طرح عام شہریوں پر ظلم و تشدد کرسکتی ہے یہ کس طرح ممکن ہے  یہ ناممکن سی بات ہے یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عدلیہ نااہل ہو اور بے جان ہو جس ملک میں جج ایک ایس ایچ او کے ساتھ دوستی پر فخر کرتے ہوں وہاں عوام کا یہی حال ہوتا ہے

 پولیس تشدد اور ظلم و ستم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں نام کا بھی عدالتی نظام موجود نہیں  ہے


 کراچی سندھ ہایئکورٹ۔۔۔۔۔۔۔۔2011
پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کے ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم ہی ہیں لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت  اور آپ  کا جج ان کو بری نہ کرتی تو ہم کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس  کسی  شہری کو  کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا


Safiudin Awan 
03343093302