Powered By Blogger

Saturday 15 August 2015

بلی پہلی رات ہی ماردینی چاہیئے ٭٭٭ تحریر صفی اعوان

دو بھائیوں کی  ایک ہی دن شادی ہوئی ۔ دونوں بھائیوں کا امتحان لینے کیلئے ان کی ساس نے سہاگ رات کو  ایک بلی خفیہ راستے سے ان کے کمرے میں   بھجوادی
پہلے بھائی کے کمرے میں جب بلی داخل ہوئی تو اس نے ہش ہش کرکے بلی کو بھگانے کی کوشش کرتا رہا  لیکن ڈھیٹ بلی تھی کہ بھاگنے کا نام لیکر ہی نہیں دیتی تھی  اس کی بیوی سمجھ گئی کہ یہ صرف ہش ہش والا ہے
جبکہ دوسرے بھائی کے کمرے میں جب بلی داخل ہوئی   بلی نے جیسے ہی میاؤں کی آواز نکالی تو دوسرے  بھائی  نے کمر کے ساتھ بندھا ہوا  گراری دار چاقو  نکالا  تاک کر بلی  کا نشانہ لیا کھینچ کر مارا اور  بلی  ماردی  یہ منظر دیکھ کر دوسرے بھائی کی بیوی وہیں سہم گئی اور سمجھ گئی کہ شوہر ہش ہش والا نہیں ہے  بلکہ  بلی  مار بھی سکتا ہے
جس بھائی نے  شادی کی پہلی رات ہی بلی  ماردی تھی اس کو پوری زندگی بلی نے دوبارہ تنگ نہیں کیا پوری زندگی بیوی  نے اس  کو بلاوجہ کبھی تنگ نہیں کیا
جبکہ ہش ہش کرکے بلی بھگانے والے بھائی کو  اس کی بیوی نے پوری زندگی تنگ کرکے رکھا پریشان کرکے رکھا
اسی لیئے کہتے ہیں کہ بلی پہلی رات ہی مار دینی چاہیئے ورنہ پوری زندگی تنگ کرتی ہے
یہی حال ہمارا ہے   ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ پاکستان کے بہت سے مسائل کی ذمہ دار عدلیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ   ماضی میں ہمارے دوستوں نے ان پر کبھی ضرورت سے زیادہ اعتماد نہیں کیا۔ اور براہ راست عدلیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرتے ہیں
آپ لوگ اکثر خبروں میں سنتے ہونگے میڈیا میں دیکھتے ہونگے کہ  پاکستان میں  اکثر ججز کی ٹکور کی جارہی ہوتی ہے  جو اوقات سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہو وکلاء مل جل کر اس کو اس اوقات میں لارہے ہوتے ہیں  کیونکہ مفادات کی جنگ میں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ ویسے بھی اگر ان کو آزاد اور کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ لوگ فوراً اپنا آپ دکھانا شروع کردیتے ہیں
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ چند سال قبل خودساختہ آزاد عدلیہ کے خودساختہ ہیرو جسٹس شریف نے بھی جب مفادات کی اس جنگ میں اپنے  پیٹی بھائی کی حمایت کی تو وکلاء نے اس خودساختہ ہیرو کو بھی رگڑا لگا دیا اور ایسی فزیکل ٹریٹمنٹ دی کہ اس کی طبیعت ٹھیک ہوگئی
بنیادی طور پر  پاکستان بھر کے وکلاء نے اس شیطان بلی کو پہلی رات ہی ماردیا تھا یہی وجہ ہے کہ  ان کو بلی نے دوبارہ کبھی تنگ نہیں کیا
دوسری طرف ہم سندھ  میں گزشتہ کچھ عرصے سے  حالات ہی مختلف پاتے ہیں
ہم نے بلی کو ہش ہش کرکے بھگانے کی حماقت کی ہے۔ ہم نے جسٹس صاحبان کی بھولی بھالی صورتیں دیکھ کر ان پر اعتبار کرنے کی سنگین ترین غلطی کی ہے ۔ صرف یہی وجہ ہے کہ سندھ کا چیف جسٹس   اپنے  دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایڈیشنل  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیٹوں پر  وکلاء کے مفادات  پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد اپنی   ہی جج برادری کے اسی فیصد  امیدواروں   کو میرٹ  میرٹ کا ڈرامہ اور کھیل رچا کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج   لگادیتا ہے  اور اس کے بعد ہم وکلاء کو بشیرا  سمجھ  کر قانون پڑھانا شروع کردیتا ہے ۔ اب بڑے ساب ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ میرٹ کیا ہوتا ہے۔ میرٹ میم سے شروع ہوتا ہے اور ٹ  ساکن ہوتا ہے
مشیر عالم صاحب وکلاء کو چکنی چپڑی باتوں سے  عدالتی  اصلاحات  کے نام  پر بے وقوف بناتے تھے جبکہ فیصل عرب صاحب اور ان کے مشیر خاص سجاد علی شاہ   نے  تو بدقسمتی  سے وکلاء کو  بشیرا   ہی سمجھ لیا ہے  شاہ صاحب  یہ سمجھ رہے ہیں کہ وکلاء کو یہ نہیں پتہ کہ میرٹ کیا ہوتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وکلاء  بشیرے کی  طرح سادے ہیں کہ ان کو یہ پتہ  ہی نہیں کہ کسی بھی امیدوار کو کس طرح کھڈے لائن لگایا جاتا ہے اور کس طرح خاص خاص لوگوں کو ٹاپ کروادیا جاتا ہے جو جتنا بڑا خوشامدی وہ اتنا ہی زیادہ میرٹ کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے
پاکستان میں وکلاء کے مفادات پر عدلیہ کی جانب   سےشب خون مارنے کی روایات ہمیشہ سے موجود رہی ہیں   لیکن اسی دوران  پورے پاکستان میں  میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی   اگر ان  ججز کو کسی نے اگر حقیقی  معنوں میں پہچانا ہے تو وہ  پاکستان کے وکلاء نے پہچانا ہے   یہی وجہ ہے کہ  ماضی میں   ججز  وکلاء کو  بشیرا سمجھ  کر قانون  سکھانے کی  سنگین  غلطی  نہیں کرتے  تھے اور نہ ہی ججز کی تعیناتی کے عمل میں وکلاء کو نظر انداز کرنے کی روایت موجود تھی
لباس خضر میں یاں سینکڑوں رہزن بھی پھرتے ہیں ۔جینے کی تمنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر

ججز کی تعیناتی کے ڈرامے پنجاب  سمیت  پورے پاکستان میں بھی ہوئے ہیں ماضی میں پنجاب میں بھی  میرٹ میم سے شروع ہوکر ٹ  پرساکن ہوجاتا تھا اور جس طرح اس بار وکلاء کو   بشیرا بنا کر دن دیہاڑے صوبہ سندھ میں نام نہاد میرٹ کے  ذریعے  میرٹ  کو ننگا کرکے اس کی عزت  لوٹی  گئی ہے  جس طرح  وکلاء کو بشیرا  سمجھنے کے بعد دھوکہ دے کر وکلاء کے مفادات پر ڈاکہ ڈال کر  لوٹ لیا گیا ہے اسی طرح ماضی میں  پنجاب  میں بھی ڈرامے ہوتے رہے ہیں  جس کے بعد جب اس سال ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی  ایک سو اسی نشستوں کا اعلان کیا گیا تو بہت بڑی تعداد میں وکلاء کے ساتھ ساتھ ججز نے بھی درخواستیں جمع کروادیں
وکلاء سمجھدار تھے جانتے تھے  آگے کیا ڈرامہ ہونے والا ہے  میرٹ  کے نام پر کیا تماشہ  ہوگا  کیونکہ   مفادات کی جنگ میں اخلاقیات کی ٹکے کی بھی اہمیت نہیں  اس لیئے پورے صوبے کے وکلاء  نے یہ فیصلہ کیا کہ  اس سال صرف وکلاء ہی اس امتحان میں شریک ہونگے ایک کمیٹی تشکیل دے کر چیف جسٹس  کے پاس  آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل  کر  برابری  کی بنیاد پر بات کرنے کیلئے بھیجا گیا کہ اگر اپنے پیٹی بھائیوں کو سیشن جج لگانا ہے تو ان کو محکمہ جاتی ترقی دے دی جائے ان کیلئے الگ سے امتحان کا انعقاد کیاجائے  اس کے علاوہ وکلاء کو ان پر بھروسہ بھی نہیں تھا ۔
وکیل جانتے تھے کہ اگر بلی کو ہش ہش کیا گیا تو بلی پوری زندگی  تنگ کرے گی  اس لیئے چاقو نکال کر پہلے دن ہی بلی ماردی
چیف جسٹس  پنجاب نے وکلاء کے اصولی مؤقف سے اتفاق کیا بلکہ اس کو اتفاق کرنا ہی پڑا کیونکہ اگر اتفاق نہ کرتا تو فزیکل ٹریٹمنٹ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا ۔ فزیکل ٹریٹمنٹ کا سوچ کر ہی ان کو جھر جھری آجاتی ہے
چیف صاحب نے پیٹی بھائیوں کو معزرت کے ساتھ امتحان میں شرکت کیلئے جمع کروائے گئے پیسے  سول  ججز کو واپس کیئے اور کہا کہ وکلاء نہیں مان رہے
جبکہ دوسری طرف سندھ کے مظلوم وکلاء جن کی قیادت ہش ہش کرکے بلی بھگانے  پر یقین رکھتی ہے ہم بیچارے ہرسال  عدلیہ پر یقین  کرنے کی غلطی کرتے ہیں جس کے جواب میں عدلیہ بھی ہمیں خوب رگڑا لگاتی ہے اور ہرسال وکلاء  کے حقوق پر دن کے اجالے میں ڈاکہ ڈال کر ان  کو لوٹ لیا جاتا ہے  اور ہمارے بار کی   نااہل  بزدل  خوشامدی قیادت صرف ایک دن کی ہڑتال کروا کر پھر سوجاتی ہے
اس سال ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیٹوں پر مقابلے کے امتحان کا انعقاد کیا گیا جس میں  وکلاء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ این ٹی ایس کے بعد  تحریری امتحان کا انعقاد کیا گیا جس کے نتائیج  کا اعلان  طویل عرصے بعد کیا گیا جو کہ ہرلحاظ سے مشکوک تھے
امیدواروں کو  صرف اور صرف وکیل  ہونے کی بنیاد پر امتیاز ی  سلوک  کا نشانہ بنایا گیا
دوسری طرف میرٹ کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد سارے ڈرامے مکمل کرنے کے بعد  چیف صاحب نے سندھ ہایئکورٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر اپنے اپنے  پیٹی بھائیوں میں اسی فیصد نشستیں   ریوڑی  کی طرح تقسیم کردیں جبکہ باقی بچ جانے والی تین نشستیں خیرات کے طور پر وکلاء کو دے دیں اس طرح  بیچارے وکلاء منہ ہی دیکھتے رہ گئے  اور سرعام ان کے مفادات پر ڈاکہ ڈال دیا گیا   
چیف جسٹس صاحب وکلاء نے تو آپ پر مکمل بھروسہ کرنے کی  سنگین غلطی کی تھی   ہمیں تو یقین تھا کہ آپ ہمارے بھروسے پر پورا اتریں گے لیکن افسوسناک طور پر جس طرح آپ نے ججز کی سلیکشن کے دوران   جس طرح وکلاء کو  بشیرا سمجھ کر نظرانداز کیا اس سے  اصولی  طور پر وکلاء کی آنکھیں کھل  جانی چاہیئں   ججز کی سلیکشن کے عمل میں وکلاء مفادات کو جس طریقے لوٹا گیا جس طرح وکلاء کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر نظر انداز کیاگیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی  یہ بات پوری طرح ثابت ہوگئی ہے کہ آپ اور آپ کے دیگر چار ساتھی جسٹس سجاد علی شاہ  سمیت آپ سب  احباب   وکلاء سے  شدیدنفرت کرتے ہیں
اگرچہ ہم جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ اس سارے عمل کے دوران کیا کیا ڈرامے بازیاں ہوتی رہی ہیں لیکن ہم خاموش تھے

رہ گئی بات میرٹ کی تو  چیف جی ہمیں سب پتہ ہے کہ میرٹ کیا ہوتا ہے ۔ آپ وکیلوں کو  بشیرا سمجھ کر یہ مت سکھائیں کہ میرٹ کیا ہوتا ہے
مجھے خوشی ہوئی کہ کراچی بار کے صدر نے اس حساس مسئلے پر یوم آزادی کی تقریب میں لب کشائی کی ہے  لیکن ہش ہش کرنے سے بلی اور شیر ہوتی ہے اس معاملے پر کراچی بار کا کردار قائدانہ ہونا چاہیئے
حقوق حاصل کرنے کیلئے فراڈ اور دھوکے کے سب راستے بند کرنے ہونگے ۔ جب تک ان  وکلاء کے دشمنوں کو پہچانا نہیں جائے گا اس وقت تک یہ لوٹ مار کرکے میرٹ کا سبق دیتے رہیں گے


چیف جسٹس کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ اپنے  ججز کو نوازنے کیلئے کوئی الگ فورم تلاش کرلیں ان کیلئے پروموشن پالیسی کا اعلان کریں ان کیلئے الگ سے امتحان کا انعقاد کریں  یہ ڈرامے بازی اب کسی صورت مزید نہیں چلنے دیں گے
چیف جسٹس کو پابند کرنا ہوگا  کہ اب صرف اور صرف وکلاء اس امتحان میں شریک ہونگے  نہ صرف  شریک ہونگے بلکہ ان کو منتخب بھی کرنا ہوگا   دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹ کا کاروبار کرتے ہیں کہ وکلاء نالائق ہیں میرٹ پر پورے 
نہیں اترتے اصل بات  وہی ہش ہش والی ہے ان کو پتہ ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔

مضبوط بار ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔مضبوط بار کی تعریف کا تعین آپ کو پاکستان جیسے ملک میں خود کرنا ہوگا
 جہاں حقوق مانگنے سے نہیں ملتے حقوق کو چھینا جاتا ہے  اگر چیف جسٹس کو یہ خوف ہوگا کہ دوبارہ وکلاء مفادات پر ڈاکہ ڈالا تو وکلاء چیمبر میں گھس کر مرغا بنا کر جوتے ماریں گے تو وہ صرف اس خوف سے وکلاء  کے مفادات پر ڈاکہ ڈالنے سے باز رہے گا اور اگر اس کے  وکلاء دشمن ساتھیوں کو یہ خوف ہوگا  وکلاء کے مفادات  پر ڈاکہ ڈالنے کی سزا یہ کہ وکلاء ہایئکورٹ کی برٹش دور کی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پر گھسیٹ بھی سکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف اس  فزیکل  ٹریٹمنٹ  کے خوف سے  وکلاء کے حقوق  لوٹنے سے باز رہیں گے۔
ویسے عدلیہ  کا احترام کرنا چاہیئے جو معاشرے عدلیہ کا احترام نہیں کرتے وہ تباہ ہوجاتے ہیں  برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے بعد آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے بعد  وکلاء کے مفادات کو طاقت کی بنیاد پر محفوظ بنانے کے بعد ہمیں 
چاہیئے کہ ان تمام فلسفوں پر مکمل یقین رکھیں
بدقسمتی سے ہمیں مضبوط بار نظر نہیں آتی  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری بارایسوسی ایشنز سندھ ہایئکورٹ کی بغل بچہ تنظیمیں
 بن چکی ہیں  جن کی سرپرستی میں  وکلاء کو ان کے جائز حقوق سے مسلسل محروم کیا جارہا ہے
لیکن یہ کام کرے گا کون کیا  بار میں اتنی ہمت ہے؟
ایک واقعہ سنا کر سارا معاملہ ختم کرتا ہوں

کافی عرصہ قبل ایک کلائینٹ میرے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنے دودشمنوں کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا ہے اس حوالے سے آپ سے ایک قانونی مشورہ لینا ہے
میں نے کہا کہ کیا مشورہ لینا ہے
کلائینٹ نے کہا کہ دوافراد کو قتل کرنا ہے اس کے حوالے سے بات کرنی ہے
 قتل کے بعد کیا ہوگا؟
میں نے بتایا کہ تم یہ  جرم  کرکے سیدھے جیل جاؤگے
کلایئنٹ نے کہا کہ سنا ہے کہ جیل میں پولیس والے مارتے بہت ہیں  بہت زیادہ مارتے ہیں  ٹکٹکی لگاکر کر مارتے ہیں جیل کی زندگی بہت زیادہ مشکل ہوتی ہے  میں نے قتل تو کرنا ہے لیکن اس خوف سے قتل نہیں کرتا کیونکہ سنا ہے کہ یہ پولیس 
والے جیل میں بہت مارتے ہیں
خیر اس نے آج تک قتل نہیں کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جیل میں پولیس والے بہت زیادہ مارتے ہیں


Wednesday 12 August 2015

عزیز دوستو !
تیزاب گردی ایک ایسا جرم ہے جس کے زریعے معصوم عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک کر پوری زندگی کیلئے ان کو جینے کے حق سے ہی محروم کردیا جاتا ہے  بہت ہی مہنگے علاج کے بعد اگر جان بچ بھی جائے تو اس قسم کی خواتین پوری زندگی بے بسی کی تصویر بن کر گزارتی ہیں
زیادہ تفصیل بیان کرنے کی ہمت  نہیں ہورہی لیکن ایک ملتی جلتی اسٹوری یہ ہے کہ ان جیتی جاگتی لڑکیوں کے رشتے طلب 
کیئے گئے اور گھر والوں کی جانب سے انکار کے بعد ان پر تیزاب پھینک دیا گیا



پہلی متاثرہ  لڑکی سدرہ ہے جو فیکٹری جارہی تھی کہ اس دوران ایک بدبخت نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا  سدرہ 
کا علاج جاری ہے یہ اپنے گھر کی واحد کفیل بھی تھی اور اب اس کے گھر کوئی بھی کمانے والا نہیں ہے اگر اللہ نے آپ کو توفیق  دی ہے تو اس کی مدد کرسکتے ہیں اس کی والدہ کا فون نمبر شئیر کررہا ہوں
03142603735

دوسری لڑکی  ذکیہ نہایت ہی کم عمر ہے اور اس کو بھی  رشتہ نہ ملنے ہی کے تنازع پر تیزاب پھینک کرجلادیا گیا اس کی ضرورت یہ ہے کہ ان کے پاس علاج معالجے کے پیسے نہیں ہیں تو اگر ہمارے کسی دوست کیلئے ممکن ہوتو اس کا علاج کروا سکتا ہے  اس کا گھر ایوب گوٹھ  کراچی میں ہے آج مجھے انتہائی دکھ اور تکلیف محسوس ہوئی جب شدید گرمی کے عالم میں یہ لڑکی 
 باربار پکار رہی تھی کہ مجھے گرمی لگ رہی ہے  افسوس کے میں اس کیلئے کچھ نہیں کرپایا
میں عورت فاؤنڈیشن کے اسٹاف کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اپنی  ذاتی تنخواہ سے ان دونوں لڑکیوں کی مدد کی


ذکیہ کے والد کا نمبر شیئر کررہا ہوں  آپ لوگ رابطہ کرسکتے ہیں
03452693539
مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہے دل بہت افسردہ ہے
میرا بلاگ دنیا بھر  پڑھا جاتا ہے امید ہے کہ  ہمارے دوست اس کا مثبت جواب دیں گے  اس حوالے سے ہم بہت جلد ایک ای میل اپیل بھی جاری کریں گے