Powered By Blogger

Wednesday 23 September 2015

کیا عروج کیا زوال ٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

کیا عروج کیا زوال
ہمارے علاقے کے مقامی  گورنمنٹ اسکول میں بیالوجی کا ٹیچر نہیں تھا  چند معزز شہری ضلع کونسل کے ممبر کے پاس گئے اور  اس کے سامنے مطالبہ رکھا کہ  اسکول میں بائیولوجی کے ٹیچر کی سیٹ منظور کروائی جائے  معزز ممبر نے بات تحمل سے سنی اور نہایت سنجیدگی سے کہا کہ یہ  "بائیولوجی " کیا چیز ہوتی ہے پہلے تو مجھے یہ سمجھاؤ  اس کے بعد بات ہوگی  کافی سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا آخر اس نے زچ ہوکر کہا کہ اتنے معززین آئے ہیں تو  یہ  " بائیولوجی "کوئی کام ہی  کی چیز ہوگی معزز ممبر شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید  سڑک  کی کسی نئی  قسم کو بیالوجی کہتے ہیں یا یہ کوئی کنواں یا ٹیوب ویل شکل کی کوئی  چیز ہوگی یا واٹر سپلائی  کی کوئی نئی قسم ہوگی  خیر جس دن ضلع کونسل کا اجلاس تھا معززین  نے ممبر صاحب کو بائیولوجی  بائیولوجی ،بائیولوجی  کا خوب رٹے  لگوا کر ضلع  کونسل  کے دروازے تک لیکر آئے یا اجلاس شروع ہوا تو ہمارے ممبر نے  سب سے پہلے کھڑے ہوکر یہ  رٹا ہوا مطالبہ کیا کہ  میرے گاؤں کے اسکول کیلئے بایئولوجی کے ٹیچر کی سیٹ منظور کی جائے چیئرمین نے منظوری دے دی اسی دوران ہماری ایک حریف یونین کونسل کا ممبر بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ جو چیز ملک صاحب کیلئے منظور کی ہے وہ میرے گاؤں کیلئے بھی منظور کی جائے  خیر چیئرمین نے دوسرے گاؤں کیلئے بھی منظوری دی  چائے کہ وقفے میں ضلع کونسل کے معزز ممبران آپس میں ڈسکس کرتے رہے کہ  یہ بائیولوجی کس بلا کانام ہے  اور بایئولوجی کی سیٹ پر خوب مزاق ہوا اس طرح  بایئولوجی کے ٹیچر کا مسئلہ حل ہوا
جب ہم جوڈیشل ریفارم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے  جو شخص  کم ازکم کروڑ روپیہ خرچ کرکے صدر یا جنرل سیکریٹری کی سیٹ  پر منتخب ہوتا ہے وہ اتنا بے وقوف ہرگز نہیں ہوتا کہ   عدالتی اصلاحات  کے چکر میں  پڑ کر اپنا قیمتی ٹائم ضائع کرے کیونکہ منتخب لوگوں کو عدالتی اصلاحات کے عمل کیلئے آمادہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ   ضلع کونسل  کے کسی  ان پڑھ معزز ممبر کو  یہ سمجھانا کہ بیالوجی کیا چیز ہوتی ہے وہ کیوں  نہ کوئی بڑا کام پکڑ کر الیکشن پر کیا گیا خرچہ برابر کرے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بار کے  بعض ممبران کی  عدلیہ  کے سامنےچلتی بھی ہے اور ہر  منتخب ممبر کی بھی نہیں چلتی صرف پرانے کھگے  اور پرانے کھپڑ ہی اس دہی میں سے مکھن نکال سکتے ہیں نوجوان نسل تو جج کے ساتھ سیلفی بنوا کر ہی خوش ہوجاتی ہے  
چند سال قبل ایک ذاتی قسم کا مسئلہ تھا  اور تھا بھی معمولی نوعیت کا  لیکن  چند  کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سارا کئیرئیر داؤ پر لگ جاتا ہے ۔بدقسمتی سے جج کو قانون کے علاوہ بہت کچھ آتا تھا بلکہ سب کچھ ہی آتا تھا بڑے قانون جھاڑے  بڑی ریسرچ زیر زبر کی  اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات پیش کیئے  لیکن صاٖ ف محسوس ہوتا تھا کہ جب کوئی قانون کا نقطہ بیان کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جج صاحب کو زبردستی بیالوجی کا لیکچر دیا جارہا ہے یا اس کو نیوٹن کے چھلے  اردو میں سمجھانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے بہت  کوشش کی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات
آخرکار  بار کا ایک دوست ملا اس سے پوچھا کہ یار کیا کروں نہ نگلا جارہا ہے نہ اگلا  میرا دوست بھی تھا تو منتخب نمائیندہ لیکن تھا پرانا  کھگا 
دوست نے جج کا نام پوچھا مجھے ساتھ لیا بے تکلفی سے ساب کے چیمبر میں چلے گئے ساب نے سوڈا واٹر پلایا فائل منگوائی تھوڑی دیر بات چیت کی  اور  چند منٹ  میں کافی عرصے سے لٹکا ہوا  میرا مسئلہ حل کیا ۔ مسئلہ تو حل ہوا لیکن اس کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ لائیبریری میں موجود کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ صرف  ایک بوجھ ہی ہیں ساب اس بات پر  بار کے عہدیدار سے نراض شراض بھی ہوئے کہ خود آنے کی کیا ضرورت تھی فون کردیا ہوتا
بار کی  بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ سب سے اہم ترین ذمہ داری  عدالتی اصلاحات بھی ہے  عدالتی اصلاحات کا عمل  واش روم کا نل اور بیسن کی ٹونٹی ٹھیک کروانے سے زیادہ اہم ترین ہے
یہ بات مانتے ہیں کہ  پارکنگ کا مسئلہ حل ہوا۔ یہ نہایت ہی  اہم مسئلہ تھا۔   نیا رنگ وروغن کیا گیا   نئے فرنیچر کا انتظام کیا گیا ۔ پاکستان کی جدید ترین لایئبریریوں میں  سے ایک لایئبریری  کی بنیاد رکھی گئی۔  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وکالت کمزور ہوئی ہے   اخلاقیات  بہت پیچھے چلی گئی وقت کے ساتھ عدالتی اصلاحات کا عمل نہیں ہوا  اور اگر ہوا بھی تو بار کا  اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بار کیلئے تو بیالوجی اور عدالتی اصلاحات میں کوئی فرق نہیں ہے
میرے ایک دوست بار کے اہم عہدے سے فارغ ہوئے تو   ایک ماہ بعد میری ایک تفصیلی ملاقات ہوئی  انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ سال بھر وکلاء گروپس اور وکلاء کے آپس میں کیا انفرادی  مسائل تھے اور ان کے کلایئنٹس کی کیا شکایات تھیں   مجھے افسوس ہوا کہ وہ تمام شکایات انتہائی  گھٹیا نوعیت  کی تھیں جن کو حل بھی کرنا ضروری ہوتا تھا

لیکن میرا یہ مشاہدہ ہے  بار اس قسم کے کاموں سے  ہی بہت خوش ہوتی ہے میرے سامنے چند سال قبل ایک سرکش  سول جج کا تبادلہ  چند منٹ کے نوٹس پر ہوا اسی طرح ایک سرکش سیشن جج کا ٹرانسفر کروانے کے بعد اس کو حیدرآباد پہنچا کر دم لیا اس قسم کے کام ہوں تو عہدیدار کافی خوش رہتے ہیں
بار کا پورے ملک میں ایک سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ بار کی وجہ سے کم ازکم ڈسٹرکٹ کورٹس میں عدلیہ برابری کی بنیاد پر بات تو کرتی ہے  جہاں بار کمزور ہے وہاں ایک مجسٹریٹ بھی   خودساختہ دانشور بنا دکھائی دیتا ہے اور وکیل کو  ذرا بھی اہمیت نہیں دیتا   یہ بار ہی ہے جس کی وجہ سے عدلیہ برابری کی بنیاد پر بات چیت پر مجبور ہوتی ہے  اور ایک عام وکیل  بھی  جج  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے جن عدالتوں میں بار نہیں پھر وہاں آپ ججز کا رویہ بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں
لیکن   ان تمام باتوں کے باوجود  آج وقت بدل چکا ہے۔ بینچ نے تیکنکی بنیاد پر بار کی نسبت اپنی طاقت کو بہت زیادہ مستحکم کیا ہے۔ بینچ نے عدالتی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا ہے جبکہ کروڑ روپے لگاکر منتخب ہونے والے امیدوار ہرصورت میں منافع کے ساتھ رقم کی واپسی چاہتے ہیں  ان کی عدالتی  اصلاحات نامی مذاق  سے کوئی لین دین ہی نہیں
چند سال پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہایئکورٹس  کی   جانب سے عالمی بینک اور ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے  عدالتی اصلاحات کے حوالے سے فوکس گروپ ڈسکشن اور مختلف سیمینار ہوئے تھے اسی دوران ہی عدلیہ کی جانب سے منصوبہ بندی کا عمل جاری رہا ۔  ہماری عدلیہ بحیثیت ادارہ آج سے دس سال پہلے اگلے بیس سال کی پلاننگ کر چکی تھی یہی وجہ ہے کہ آج بحیثیت ادارہ عدالتی اصلاحات کاکام تیزی سے جاری ہے اور  اس پلاننگ میں بار کاکردار مائینس کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ  موجودہ صورتحال میں بات اگر عدالتی اصلاحات کی ہے تو  اس حوالے سے بحیثیت ادارہ بار کی پلاننگ کیا ہے ۔ بار کے پاس ایک بھی ڈھنگ کی رپورٹ نہیں  جس کی بنیاد پر وہ عدالتی اصلاحات کی بات کرسکیں
بار کے پاس عدالتی اصلاحات کا سرے سے کوئی پروگرام ہے نہیں  ہے اور نہ ہی کوئی مؤثر قسم کا ایسا کوئی پروگرام موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ اعلٰی عدلیہ سے بات کرسکیں کہ وکلاء کا یہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہے جس کے زریعے وکلاء ان مطالبات پر عمل درآمد چاہتے ہیں  
 ہماری قیادت کا  ایک ہی چارٹر آف ڈیمانڈ ہے کہ سیشن جج میرا یار ہونا چاہیئے جس کے زریعے ہم قتل کے کسی مقدمے میں بھاری فیس لیکر اس  ملزم کی ضمانت  کرواسکیں  اگر سیشن جج یار  ہے تو سارا عدالتی عمل درست اگر سیشن جج یار نہیں ہے تو سارا عدالتی عمل مشکوک ہے
ہماری ساری عدالتی اصلاحات اس بات  کے اردگرد گھومتی ہیں کہ کم ازکم سیشن جج  اپنا یار ہو اور دیدہ ور ہو
حالیہ دنوں  میں بہت تیزی سے بار کو زوال ہوا بار کی طاقت کمزور ہوئی ہے ۔ بار آج تک ایسا کوئی میکنزم نہیں بنا سکی جس کے تحت اگر کسی جج کے خلاف کوئی شکایت کسی وکیل کو ہو تو اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے اس کا طریقہ کیا ہونا چاہیئے جج کی شکایت کے حوالے سے ایم آئی ٹی کو کس طرح  اپنے ساتھ شامل کرنا ہے  مقامی سطح پر جب معاملہ حل کیا جاتا ہے تو اس سے مزید کرپشن پھیلتی ہے  ۔ کیونکہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایم آئی ٹی کو شامل کیئے بغیر  وکیل اور جج یا کسی کلائینٹ کے معاملے کو حل کیا جائے جس سے مزید معاملہ خراب ہوتا ہے
بار کو چاہیئے کہ ایم آئی ٹی کے ساتھ مل کر ان مسائل کو سائینٹیفک  بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرے اور ایم آئی ٹی  کو بھی پابند کیا جائے کہ کسی شکایت کی صورت میں وہ اپنے یخ بستہ کمروں سے نکل کر ڈسٹرکٹ کورٹس میں پہنچ کر  اگر جج کے خلاف جائز شکایت ہوتو بار کے ساتھ مل کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے ہایئکورٹ اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائے کہ  بار تنازعات کو  ڈائریکٹ حل کرنے کی بجائے ایم آئی ٹی کے ساتھ مل کر حل کرے اگر وکیل کا قصور ثابت ہو تو معاملہ سندھ بار کو بھیجا جائے اور جج کی غلطی ہوتو ایم آئی ٹی کے پاس شکایت بھیج دی جائے دونوں صورتوں میں قصور وار پارٹی کے خلاف ہرصورت میں ایکشن کو یقینی  بنایا جائے
لیکن ہوکیا رہا ہے جج اور وکیل کے درمیان تنازع کے حل کا طریقہ کار ہی غلط ہے  دیسی  طریقہ کار یہ ہے کہ  میرا کوئی  مسئلہ ہوگا کوئی تنازع ہوگا  تو میں بار کے آفس آؤں گا وہاں  بار کا کوئی  کوئی عہدیدار موجود ہوگا  اس کو میں جذباتی انداز میں کہوں گا کہ فلانے جج نے یہ کام کیا ہے کیا تم لوگوں کو ووٹ اسی دن کیلئے دیئے تھے کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو یہ سن کر بار کا عہدیداراٹھ کر  کھڑا ہوگا  اور کورٹ کی طرف اپنے مریدوں سمیت روانہ ہوجائے گا  وہاں جج صاحب سے ہلکی پھلکی بات چیت ہوگی  اور مسئلہ حل  وکیل  کو دم دلاسہ دے کر فارغ کردیا جائے گا کہ آپ کا مسئلہ  حل ہوگیا لیکن پھر شام کو جج کے ساتھ اسی بار کے عہدیدار کی ایک الگ سے میٹنگ بھی ہوتی ہے جس میں اس کو یقین دلایا جاتا ہے کہ معاملہ اوپر نہیں جائے گا اور چراندی وکیلوں  سے محتاط رہا کر
لیکن کیا یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ بار ایک طریقہ کار تشکیل دے  جس کے تحت کسی بھی مسئلے کو ایک خاص طریقہ کار کے تحت حل کیا جائے  ایک طریقہ کار مقرر کیا جائے  جس میں سیشن جج  اور ایم آئی ٹی بھی اہم  فریق ہو ں
لیکن پھر وہی بات کہ کیا ہم کوئی ادارہ ہیں  اداروں کے پاس تو بیس سال کی پلاننگ ہوتی ہے ہمارے پاس تو ایک دن کی پلاننگ نہیں ہے  ہمارے پاس تو کوئی ایسا چارٹر آف ڈیمانڈ ہی نہیں ہے
کیا بار کے عہدیداران کو یاد ہے کہ   عدالتوں سے این جی اوز کے خاتمے کے وقت بینچ کو تحریری طور پر کیا یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں اور کیا ان پر عمل درآمد ہوا؟  کیا بار نے  اپنا قانونی امداد کا  پروگرام شروع کرنے کا وعدہ پورا کیا ؟

بار کی طاقت تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہے۔ ہڑتالوں کی سیاست نے وکالت کے پیشے اور بار کی طاقت کے زوال میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آہستہ آہستہ وکیل کا کردار عدالتوں سے ختم کرنے کی کوششیں   کامیابی سے کی جارہی ہیں ۔  اعلٰی   عدالتوں  کے بار کے  منتخب عہدیداران کو کروڑوں اور اربوں روپے کے  مفادات کے شکنجے میں پھنسا کر بے بس کیا جاچکا ہے ۔ ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران تو کسی گنتی میں ہی شامل نہیں ہیں
نو مارچ 2007  کو وکلاء اسقدر طاقت میں تھے کہ  ملک کا چیف آف آرمی اسٹاف ان کے سامنے بے بس تھا نومارچ 2007 کو شروع ہونے والی احتجاج کی سیاست  بعد ازاں ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی۔ چند سال پہلے ہی کی تو بات ہے کہ  این جی اوز کے خلاف تحریک کے دوران  سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس جناب مشیر عالم صاحب بار کے دورے پر آنا چاہتے تھے اور بار کی قیادت  نے جواب دیا تھا کہ ہمارے لیئے آپ کو ویلکم کرنا ممکن نہیں ہے  یہ اس وقت کا عروج تھا ہایئکورٹ کے چیف جسٹس کو ایسی بات کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے  اور آج کا چیف جسٹس لفٹ ہی نہیں کراتا
آج ہم کہاں کھڑے ہیں   آج ہمیں ویلکم کرنے کیلئے پولیس کی نفری منگوا کر  ہمارا استقبال کیا گیا جس کی ذمہ دار ہم خود ہیں  
اگر بار کمزور ہوئی تو  یہ بہت بڑا المیہ ہوگا
اگر بار بینچ کی طاقت کو چیلنج کرنا چاہتی ہے تو نوجوان عہدیداران بوڑھی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے پورے پاکستان میں   جج کی چیمبر میٹنگ پر پابندی کا مطالبہ کریں   کہتے ہیں کہ بھینس کو تکلیف دینی ہوتو اس کے کٹے کو تکلیف دینا ضروری ہوتا ہے
بینچ کی اصل طاقت چیمبر پریکٹس میں پوشیدہ ہے  ترقی یافتہ دنیا میں ایسا کوئی تصور نہیں کہ وکیل  جج کے ساتھ مل کر چیمبر میں بیٹھتے ہوں کھانا کھاتے ہوں گپ شپ کرتے ہوں کیس چلاتے ہوں   نوجوان  عہدیداران ہر سطح پر اکثریت میں ہیں اگر بینچ کو ہرروز یاددہانی کروائی جائے کہ چیمبر میں کیس چلانا اور  دوستوں کو بٹھاکر  ڈیل والے کیس چلانا مناسب نہیں  
 ڈسٹرکٹ بار کی جانب سے ہایئکورٹ کی سطح پر چیمبر پریکٹس کے خاتمے کا مطالبہ کرنا نہایت ضروری ہوچکا ہے اور یہی وہ مطالبہ ہے جس سے اوپر کی سطح پر کرپشن کم ہوگی  جب کہ بار کو ادارے میں بدلنے کا وقت آچکا ہے

Saturday 19 September 2015

سوڈے کی بوتل ٭٭٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

کراچی کے وکلاء کیلئے 2005 کا سال ایک یادگار سال تھا
کراچی میں آزمائیشی بنیاد پر آن لائن عدلیہ کا تجربہ کیا گیا تھا جو کہ نہایت ہی کامیاب رہا تھا۔کورٹ کیس کی ڈائری آن لائن  موجود ہوتی تھی جس کی وجہ سے کلائینٹ بیرون ملک بیٹھ کر خود بھی اپنے کیس کی اپ ڈیٹ حاصل کرلیا کرتے تھے
بار کے عہدیداران کا خصوصی ریلیف بند ہوگیا تھا چیمبر میں خاص وکلاء کو نہیں سنا جاتا تھا جس سے کراچی کے ایک عام وکیل کو بھی فائدہ پہنچا تھا
عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ای میل کی بنیاد  سیشن جج نے پر بیرون ملک بیٹھ کر  حبس بے جا کی درخواست پر رات کے دوبجے آرڈر جاری کیا اور مجسٹریٹ نے رات دوبجے تھانے پر چھاپہ مارکر مغوی کو بازیاب کیا اور ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج کی
کئی  بااثر ججز  جو کرپشن میں ملوث  تھے کے تبادلے سیشن جج کی درخواست پر ہوئے   اور ان کے خلاف کاروائی بھی ہوئی
کورٹ اسٹاف کے خلاف عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار کاروائی ہوئی کراچی بار کا ایک عام وکیل کرپشن سے پاک ایسی عدلیہ  ہی چاہتا ہے
بدقسمتی کہ پاکستان میں آن لائن عدلیہ کا ماسٹر مائینڈ  بھی تاریخ کے جبر سے محفوظ نہیں رہ سکا اور ایک متنازعہ عدالتی فیصلہ جس نے عدلیہ کی بطور ادارہ چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور وہ شخصیت بھی اس کی زد میں آئی
اس کے علاوہ بھی بہت سے قابل ترین لوگ عدالتی فیصلے کی زد میں آئے جن کا متبادل آج دن تک نہیں مل سکا
آج سے دس سال پہلے جب انٹرنیٹ کی سروس بہت ہی سست تھی اس وقت آن لائن عدلیہ ایک خواب تھی اور لوگ اس کو دیوانے کا خواب سمجھتے تھے  اور پھر یہ خواب سچ ہوا
بدقسمتی سے  ہم ایک ہجوم بن چکے ہیں جو جس طرف چاہے ہمیں ہانک دیتا ہے
جب دنیا بھر میں دیوانی کیسز میں تنازعات کے متبادل حل کی بات ہورہی ہے تربیت یافتہ ثالثوں کے زریعے عدالتوں میں آنے والے کیسز کو حل کرنے کی بات ہورہی ہے تو پھر یہ پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا
سندھ ہایئکورٹ کی یہ سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ تنازعات کے متبادل حل کیلئے عالمی بینک کی فنڈنگ کو  ریٹائرڈ ججز کی فلاح وبہبود کیلئے بنائی گئی ایک این جی او  پر خرچ کروایا گیا کے سی ڈی آر کو ریٹائرڈ ججز کی فلاح و بہود کا ادارہ بنا دیا گیا تھا  اور جب اس ادارے نے ثالثی کے عمل کو  کراچی بارایسوسی ایشن کو مکمل طور پر بائی پاس کرکے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو وکلاء نے پورے ادارے کو اٹھا کر ہی باہر روڈ پر پھینک دیا تھا لیکن اگر یہی کام بار کے مشورے سے کیا جاتا تو کیا کراچی بارایسوسی ایشن اس میں رکاوٹ ڈال دیتی؟  ہر گز نہیں  بلکہ کراچی بار ایسوسی ایشن  اور سندھ ہایئکورٹ مل کر تنازعات کے متباد ل حل کے طریقہ کار کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے
اگر ثالثی اور تناعات کے حل  کیلئے کی جانے والی کوششوں کو این جی او کی بجائے  سندھ ہایئکورٹ نے بحیثیت ادارہ لیا ہوتا تو آج پاکستانی عدلیہ کی تاریخ بدل چکی ہوتی  لیکن    سندھ ہایئکورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بھلائی کیلئے جو این جی او بنوائی تھی سارا فنڈ اس پر خرچ کیا گیا  اور پاکستان میں ثالثی   کو سائنٹفک بنیاد پر لانے کی کوشش ناکام رہی جس کی مکمل ذمہ دار سندھ ہایئکورٹ ہے
بدقسمتی سے پاکستان میں آن لائن عدلیہ کا ماسٹر مائینڈ پی سی او ججز کے کیس کی ذد میں آنے کی وجہ سے  کے سی ڈی آر  کو جوائن کرچکا تھا
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے متعدد بار ڈاکٹر ظفر شیروانی کو آن لائن عدلیہ اور عدالتی اصلاحات کے حوالے سے بلایا  اور  ان کی خدمات سے استفاذہ کیا ان کا آن لائن عدلیہ کا مقالہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود تھا جب  ان کو پی سی او کے تحت ہٹایا گیا اور آج بھی موجود ہے
پاکستان میں ہر سطح پر یہ تسلیم کیا گیا کہ  ڈاکٹر ظفر شیروانی کو ضا ئع کیا گیا  ان کی خدمات سے استفاذہ نہیں کیا گیا اسی دوران سندھ ہایئکورٹ نے ڈاکٹر ظفر شیروانی کی خدمات کو دوبارہ حاصل کیا  اگرچہ   ریٹائرڈ لوگوں کو واپس لانا مناسب نہیں ہوتا لیکن سندھ ہایئکورٹ  کا یہ ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ   پی سی او   ججز فیصلے کے بعد ہر فورم پر یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ  ڈاکٹر ظفر شیروانی  کے ساتھ زیادتی  ہوئی تھی بہت سے لوگ  اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ ان کی خدمات کو حاصل کیا جائے ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب سندھ ہایئکورٹ  کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی خدمات میں مصروف عمل تھے کہ  ایک وکیل اور مجسٹریٹ کے درمیان تنازعہ ہوا جس پر  صرف وکیل کے خلاف کاروائی کے طریقہ کار پر  وکلاء اور ہایئکورٹ میں اختلاف پیدا ہوا کیونکہ جس طریقے سے کاروائی ہوئی  وکلاء کا صرف اس طریقہ کار پر اختلاف تھا  ۔ لیکن اسی دوران جب اختلاف بڑھے تو اچانک ہی سابق رجسٹرار کو ہٹا کر ڈاکٹر ظفر شیروانی کو رجسٹرار بنادیا گیا
اسی دوران کسی نے سوڈے کی بوتل  کا ڈھکن   کھول  کر میں نمک ڈال دیا  جس  سےسوڈے کی بوتل میں بہت زیادہ ابال پیدا ہوا لیکن دودن کے بعد سب کے تعزیئے   جل  کر ہمیشہ  کیلئے ٹھنڈے پڑگئے
پاکستان میں بہت زیادہ عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے آن لائن عدلیہ بہت سے مسائل کا حل ہے
میں پرامید ہوں کہ پاکستان میں آن لائن عدلیہ کے زریعے  بہت سے وکلاء جو اپنے کلائینٹس کے کیسز صحیح طریقے سے نہیں چلاتے ان کے خلاف کاروائی کرنا آسان ہوگا
میں ایک چھوٹا سا المیہ بیان کردوں
ہمارا ادارہ بہت سے کیسز میں وکلاء کی خدمات بطور پینل ایڈوکیٹ   حاصل کرتا ہے  بدقسمتی سے کئی بار ہم مکمل فیس اداکردیتے ہیں لیکن وکلاء کیس نہیں چلاتے  گزشتہ دنوں ہم نے ایک انتہائی اہم کیس میں ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں  اور اس کو مکمل فیس ایڈوانس ادا کردی   جو اس نے طلب  کی   وکیل صاحب نے  بتایا کہ  سندھ ہایئکورٹ میں پٹیشن داخل ہوچکی ہے میں  نے کہا پٹیشن کا نمبر کیا ہے تو اس نے کہا دودن کے بعد ملے گا پھر پتہ چلا کہ کوئی آبجیکشن آگیا ہے  خیر پھر وہ دودن پورے ایک مہینے کے بعد آیا کافی دن کے بعد وکیل صاحب نے پٹیشن کا نمبر دیا میں نے آن لائن چیک کیا تو   بطور وکیل کسی اور کا نام آرہا تھا  میں نے حسن ظن  سے کام لیا کہ شاید کسی ایسوسی ایٹ  کا نام ہوگا خیر  وکیل صاحب نے کہا کہ یہ کیس فلاں تاریخ کو لگا ہے میں نے آن لائن چیک کیا تو نہیں لگا ہوا تھا  اسی دوران وہ  پٹیشن 9 ستمبر کو  آفتاب  احمد گورڑ کی کورٹ میں لگی ہوئی تھی میں نے وکیل صاحب کو شام کو بتایا کہ صبح سیریل نمبر ایک پر پٹیشن لگی ہے آپ پیش ہوجانا  وکیل صاحب نے کہا کہ بے فکر ہوجاؤ میں آجاؤنگا لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی تھی  کہ  وکیل نہیں آئے گا اس لیئے میرے ایسوسی ایٹ  نے خود صبح سویرے پہنچ کر  پٹیشنر کو پیش کیا    بریف ہولڈ کروایا پتہ یہ چلا کہ وکیل صاحب نے صرف پٹیشن پر نوٹس  کا آرڈر کروایا اور پھر  سروس ہی نہیں کروائی  اسی دوران وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ میں  ہایئکورٹ  آرہا ہوں پھر وکیل نے کال وصول کرنا ہی بند کردی اور آج تک وصول نہیں کی    اور ہمیں  بار میں دیکھ کر راستہ  ہی بدل لیتا ہے مزید ظلم یہ کہ وکالت نامہ ہی جعلی تھا وکیل نے  چالاکی سے اپنا وکالت نامہ ہی کورٹ میں پیش نہیں کیا لیکن بہرحال کسی وکیل کا یہ ایک انفرادی فعل ہے اکثریت ایسی نہیں
جب ہم کورٹ میں وکالت نامہ پیش کرتے ہیں تو آج دن تک صرف ذاتی اعتبار اور ہمارے کالے کوٹ کے احترام کی وجہ سے  کسی جج  نے مجھ سے میرا نام کبھی نہیں پوچھا کیونکہ جج کو یقین ہوتا ہے کہ یہ وکیل صاحب جو وکالت نامہ پیش کررہا ہے یہ اسی کا ہی ہوگا لیکن  ایک دیہاڑی دار کو یہ کس نے حق دیا کہ  وہ اس یقین کا خون کرے اور چند ہزار کیلئے  جعلی وکالت نامہ پیش کرے اور جب کوئی موقع آتا ہے تو سوڈے کی بوتل میں کوئی نمک ڈال دیتا ہے اور پھر ہم لوگ ہجوم کی طرح اپنے وکیل بھائی کے پیچھے چل پڑتے ہیں  
اگر سندھ ہایئکورٹ آن لائن نہ ہوتی تو مجھے یہ کیسے پتہ چلتا کہ میرا کیس کورٹ میں داخل نہیں ہوا وکیل صاحب مجھے جعلی تاریخیں دیتے رہتے اور  آخر میں ایک جعلی حکم نامہ ہاتھ میں پکڑا دیتے
لیکن اس واقعہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ اب ہم  نے پینل ایڈوکیٹ تحلیل کرکے وکلاء کی خدمات مستقل  بنیاد پر حاصل کی ہیں
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اگر میرا وکیل بھائی میرے ساتھ ایسا کرسکتا ہے تو وہ کسی عام آدمی کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوگا
ان وجوہات کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آن لائن عدلیہ کرپشن کے سارے راستے بند کررہی ہے   بہت سے راستے بند ہوبھی چکے ہیں  نادرا ویریفیکیشن سینٹر کی وجہ سے مزید بہتری آئی ہے اب قبر کا مردہ قبر سے نکل کر کورٹ میں کیس داخل نہیں کرسکتا نادرا ویریفیکیشن سینٹر نے کراچی سٹی کورٹ سے یہ اہم سہولت ختم کردی ہے ۔ ابھی بہت سی سہولیات مزید ختم ہونا باقی ہیں جس کے بعد امید کرتے ہیں کہ وکالت کا پیشہ ابھر کر اور نکھر کر سامنے آئے گا دیہاڑی دار گیٹ مافیا کے خاتمے کا وقت قریب آرہا ہے

ڈاکٹر ظفر شیروانی ایک حقیقت کے طور پر سامنے آچکے ہیں ۔ اور دوسال تک ان کو ہلا جلا کوئی نہیں سکتا   میں امید رکھتا ہوں کہ آن لائن  ہایئکورٹ کے بعد  آن لائن ڈسٹرکٹ کورٹس کا خواب جلد پورا ہوگا
سندھ ہایئکورٹ کو بھی چاہیئے کہ بار کے ساتھ مشاورت کا عمل مکمل کرے    بار کے ساتھ رویہ  میں تبدیلی  کی ضرورت  ہے ہم مفتوح نہیں ہیں وکیل کو پولیس اور رینجرز کے زریعے کچل ڈالنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا
  بار ایسوسی ایشن کی قیادت نوجوان وکلاء کو منتقل ہورہی ہے   نوجوان  وکلاء عدالتی اصلاحات  کے عمل میں رکاوٹ  نہیں  لیکن  بار کے نوجوان  منتخب  عہدیداران  کو بوڑھی  قیادت  پر  بالکل بھی بھروسہ  نہیں کرنا چاہیئے  کیونکہ سیاست  کے سینے میں دل  اور آنکھ میں حیا نہیں  ہوتی  ایک عام وکیل دیہاڑی دار مافیا کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ دیہاڑی دار شعبہ وکالت کیلئے ناسور کا درجہ رکھتے ہیں
 کراچی کی عدالتوں میں جو کیسز زیرسماعت ہیں  ان میں سے نوے فیصد کیسز ایسے ہیں جو بے جان اور بے بنیاد  ہیں   اگر اچھا تربیت یافتہ جج ہو تو صرف ایک جھٹکے میں اپنی عدالت سے کیسز کا صفایا کرسکتا ہے اسی طرح اکثر کیس ایسے ہیں جو زیادہ سے زیادہ تین تاریخوں پر ختم ہوجائیں   نااہل عدلیہ بھی ایک مسئلہ ہے بلکہ نااہل عدلیہ دیہاڑی دار مافیا سے زیادہ خطرناک ہے اکثر ججز کو ابھی تک آرڈر تک لکھنا نہیں آتے  اور بنیادی قوانین سے آگاہ نہیں
لیکن یہ تربیت یافتہ ججز کہاں سے آئیں گے اس کا جواب خود سندھ ہایئکورٹ کے پاس بھی نہیں  سندھ ہایئکورٹ کا صرف یہ مؤقف درست نہیں کہ صرف  وکلاء نااہل ہیں اصل بات یہ کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے
نااہل ججز اور مس کنڈکٹ کرنے والے وکلاء کے خلاف بلا تفریق  کاروائی ہونی چاہیئے
چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ صاحب بڑے احترام سے یہ عرض ہے کہ   یہ افواہیں گرم ہیں کہ  عدالتی اوقات کے بعد جسٹس صاحبان کے چیمبر میں کیسز چلتے ہیں  اس کا واحد علاج ہے کہ جسٹس صاحبان کے چیمبر میں میٹنگ کیلئے  فالتو کرسی موجود ہی نہ ہو کیونکہ اگر کوئی زبردستی کا مہمان آبھی جائے بیٹھنے کیلئے کرسی  نہ ہونے کی وجہ سے شرمندہ ہوکر دوبارہ نہ آئے گا اسی طرح ہر سطح پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ جج  بار کے عہدیداران  سمیت اپنے مہمان سے عدالت کے کمیٹی روم میں ملاقات کرے گا اور میٹنگ  کے مقاصد  اور منٹس سرکاری ریکارڈ میں رکھے جائیں گے  بطور ایک پریکٹسنگ وکیل کے میں اچھی طرح جانتا ہو ں کہ چیمبر میں  ججز کے مہمان کیوں آتے ہیں  اور چیمبر میٹنگ کا نتیجہ ہمیشہ برا  اور کرپشن  کی صورت  میں ہی نکلتا ہے
سندھ ہایئکورٹ  کے قابل  احترام  چیف  جسٹس کو چاہیئے کہ جسٹس صاحبان کو پابند کریں کہ  عدالتی اوقات کار کے بعد کسی کو بھی چیمبر میں آنے کی اجازت نہ دی جائے اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہے جب اوپر سے معاملہ ٹھیک ہوگا تو کسی مجسٹریٹ کی کیا ہمت کہ اپنے مہمان چیمبر میں بٹھائے لیکن مشہور یہ ہے کہ جو معاملات  جسٹس صاحبان  کے چیمبرز میں ڈیل ہوتے ہیں وہ کروڑوں نہیں اربوں روپے کے معاملات ہیں  تو کیا اتنی ہمت کسی میں ہے کہ اربوں کھربوں روپے کی ڈیل کرنے والے مافیا سے ٹکر لے سکے اسی طرح  کراچی بار ایسوسی ایشن کی نوجوان قیادت کو چاہیئے کہ سندھ ہایئکورٹ پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ    ہایئکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس سمیت ہر سطح سے  چیمبر پریکٹس کے خاتمے کیلئے  پریشر ڈالیں  اگر کراچی بار کسی ایسے ایشو پر آواز اٹھائے گی جس کا تعلق کرپشن کے خاتمے سے ہوگا تو  اس کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا
دعا گو ہیں کہ سندھ ہایئکورٹ  آن لائن عدلیہ کیلئے جو اقدامات کررہی ہے وہ جلد پورے ہوجائیں گے اس سے گھٹیا قسم کی کرپشن کا  خاتمہ ہوگا
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب اللہ تعالٰی نے آپ کو ایک موقع دیا ہے  آن لائن  عدلیہ کے حوالے سےآپ اپنا نامکمل کام مکمل کریں  اس وقت  حالات  بھی سازگار ہیں اور  دوسال کے بعد  کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہہ دیں  کیوں کہ اگر دوسال بعد بھی آپ  اپنا متبادل  تیار نہیں کرپاتے تو یہ عمل بھی آپ کی نااہلی میں شمار ہوگا  اور کوئی بھی شخص حرف آخر نہیں ہوتا
اپنے ادارے سے عزت اور وقار کے ساتھ رخصت ہوجانا سب سے بڑی کامیابی ہوتا ہے

سندھ ہایئکورٹ کو چاہیئے کہ ایسا کوئی قدم نہ  اٹھائے جس سے کسی کو سوڈے کی بوتل میں نمک ڈالنے کا موقع ملے جبکہ بار کو بھی چاہیئے کہ سوڈے کی بوتل پر ٹائٹ والا ڈھکن لگا کر لاک میں بند کرکے رکھے تاکہ کسی کو ڈھکن کھول کر سوڈے کی بوتل میں نمک ڈال کر  بلاوجہ کی سیاست کا موقع  نہ ملے 

Thursday 17 September 2015

سبز کتاب کا مصنف تحریر :: صفی الدین

میں نے ایک بار کسی جسٹس صاحب سے یہ پوچھا کہ  آپ کب اپنے آپ کو پریشانی میں محسوس کرتے ہیں کب محسوس ہوتا ہے کہ آپ مشکل میں ہیں جج کی سیٹ پر مشکل لمحہ کب آتا ہے آزمائیش کی گھڑی کب آتی ہے
جسٹس صاحب نے کہا کہ مجھے کبھی پریشانی نہیں ہوتی لیکن صرف ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جب میں پریشان ہوجاتا ہوں جب میں اپنے آپ کو بہت زیادہ پریشانی اور آزمائیش میں گھرا  میں محسوس کرتا ہوں ۔ اور وہ لمحہ اس وقت آتا ہے جب  سبز کتاب کا مصنف  میری عدالت میں داخل ہوتا ہے اور اس وقت میں شدید بے بسی اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں میرا دل کرتا ہے کہ اس شخصیت کے احترام کی خاطر میں کھڑا ہوجاؤں لیکن میں ایسا کرنہیں پاتا
بہت سے وکیل کسی آئینی پٹیشن میں پیش ہوکر سبز کتاب کی کسی سیکشن کی وضاحت کرتے ہیں   اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں سیکشن کی وضاحت کیا ہے   وکلاء اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ  اس کی وضاحت  یہ بھی ہوسکتی  ہے اور اس لفظ  کا مقصد کیا ہے اور یہ سیکشن کیوں شامل کی گئی ہے  لیکن پوری دنیا میں صرف ایک وکیل ایسا ہے جب وہ اس سبز کتاب کو کھول کر بتاتا ہے کہ  میں نے یہ سیکشن اس مقصد کیلئے لکھی تھی
جس سبز کتاب کے زریعے  بیس کروڑ لوگوں کی زندگی کے بہت سے  معاملات طے کیئے جاتے ہیں وزیراعظم  کے اختیارات  سے لیکر  آرمی چیف  کی تقرری اور صدر سے لیکر اسپیکر کے انتخاب تک  
عدلیہ کے بنیادی اسٹرکچر سے لیکر بار ایسوسی ایشن کے کردار تک      یہ سب باتیں دنیا میں صرف ایک شخص جانتا ہے  عدلیہ کے احترام سے لیکر عدلیہ کے وقار تک  اور قومی اسمبلی سے لیکر لوکل گورنمنٹ  تک انسانی حقوق کے تحفظ سے لیکر پٹیشن کے زریعے  حکومت پاکستان  کو فریق بنانے کے اختیار تک یہ سب  باتیں لکھنے کا اعزاز جس شخص کے حصے میں آیا  اس کا نام حفیظ الدین پیرزادہ تھا
دنیا کا وہ واحد انسان تھا جب وہ عدالت میں پیش ہوجاتا تھا تو عدلیہ کا امتحان شروع ہوجاتا تھا اور قابل احترام جسٹس صاحبان اپنے آپ کو پریشانی میں گھرا ہوا محسوس کرتے تھے۔ کیونکہ اس عظیم انسان  کا یہ حق بنتا تھا کہ جب وہ سامنے آجائے تو اس کو کھڑے ہوکر عقیدت اور احترام کے ساتھ عزت دی جائے لیکن ایک منصف کے عہدے اور ذمہ داریوں کے بھی کچھ تقاضے  ہیں  جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوپاتا تھا دنیا میں موجود واحد وکیل تھا جو پاکستانی عدلیہ کے کسی جج کو یہ کہنے کا حوصلہ اور حق رکھتا تھا کہ سبز کتاب میں موجود فلاں سیکشن میں نے اس مقصد کیلئے لکھی تھی
ہم پر کیا قیامت بیت گئی ہم لوگ خود بھی نہیں جانتے  ایک ایسا باوقار انسان پاکستان سے رخصت ہوگیا جو پاکستان کی آئینی تاریخ کا ایک اہم ترین انسان تھا
حفیظ الدین پیرزادہ کا مقام اور مرتبہ  ہم کبھی جان نہیں سکتے ۔ آپ انمول تھے ۔عدالت کی سیڑھیاں  حفیظ الدین پیرزادہ  جیسی شخصیت کیلئے ترس جاتی ہیں ۔ ہماری عدالت کی سیڑھیوں کا یہ انتظار شاید کبھی ختم نہ ہو کیونکہ  حفیظ الدین پیرزادہ صاحب اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہاں میری دعا ہے کہ  نوجوان وکلاء ان کو آئیڈیل بنائیں  اور وکالت کو دوبارہ سے ایک بہت ہی باقار پیشہ بنانے کی کوشش کریں
سال کا سب سے بڑا سانحہ کہ سبز کتاب کا مصنف اس دنیا سے رخصت ہوا

سبز کتاب کا مصنف  کسی چیز کا محتاج نہیں تھا لیکن اگر پاکستان کی بار ایسوسی ایشنز کیلئے ممکن ہو تو  اپنی لائیبریری کا نام حفیظ الدین پیرزادہ سے موسوم کرسکتے ہیں  اس سے بار کی عزت میں اضافہ ہوگا نوجوان نسل کیلئے حفیظ الدین جیسے وکلاء  کی زندگی ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے