Powered By Blogger

Sunday 31 May 2015

اردو سوشل میڈیا ابھرتی ہوئی طاقت ٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

اردو بلاگ حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے
آج سے دوسال قبل جب میں نے اردو بلاگ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو میں یہ سمجھتا تھا کہ اردو بلاگ پڑھا ہی نہیں جاتا اسی دوران  ملک عامر صاحب سے رابطہ ہوا اور انہوں نے میرے بلاگ کو بلاگستان میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد  بلاگ پرتیزی سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوا کچھ حیرت انگیز واقعات بھی پیش آئے آہستہ آہستہ ایک چھوٹی سی پہچان بھی بن گئی  میں ایک خاص شعبے میں لکھتا ہوں اور وہ بہت حساس بھی ہے اور وہ شعبہ ہے عدلیہ کا یعنی پاکستان کا سب سے حساس ترین شعبہ
میں  اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ شروع شروع میں لاپرواہی سے بھی لکھ دیتا تھا 

اس دوران ایک واقعہ پیش آیا جب میں ایک سیشن جج کے پاس درخواست لیکر گیا کہ آپ کی عدالت میں ہرروز معذور افراد بھی پیش ہوتے ہیں ان کیلئے  ایک ایسی ڈھلوان سطح بنادیں جس کے ذریعے وہ وہیل چیئر سے  ان کی رسائی کورٹ تک ہوجائے خیر سیشن جج نے ہمیں عزت نہ دی تو ہم نے بھی اس کو عزت کے قابل نہ سمجھا اسی دوران میں نے سیشن جج کی کیفیت کے مطابق ایک بلاگ لکھا جس کا عنوان تھا "زندہ لاش"  اس بلاگ نے کراچی میں ہلچل مچادی کیونکہ کراچی جیسے شہر میں سیشن جج ایک بہت بڑی توپ چیز سمجھی جاتی ہے اور حاضر سیشن جج سے چھیڑخانی کیریئر کو تباہ کردیتی ہے   لیکن زندہ لاش میں موجود حقائق نے یہ بات ثابت کی کہ ہمارا مؤقف درست تھا
خیر مجھے اس وقت پہلی کامیابی ملی جب اس سیشن جج  کے جانے کے فوراً بعد ڈسٹرکٹ کورٹس شرقی کی عدالتوں میں باقاعدہ طور پر ڈھلوان سطح بنا کر اس قابل بنایا گیا کہ وہاں اب معذور افراد باآسانی گراؤنڈ فلور کی عدالتوں میں پیش ہوسکتے ہیں  یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جبکہ باقی اضلاع میں کام جاری ہے
میں نے جو بھی بلاگ لکھے وہ ذاتی مشاہدات پر مبنی تھے میرے پاس اس سے متعلق شواہد موجود  ہیں اسی دوران  میری غلطی کہ چند دوستوں کی معلومات پر بلاگ لکھے  جو بعد میں  ان کے مکرجانے  کی وجہ  سے بلاگ   کی ساکھ خراب ہوئی  لیکن انسان غلطی سے سیکھتا ہے
ہمارے عدالتی نظام میں ایک بری روایت موجود ہے کہ سیشن ججز کو ہایئکورٹ میں جسٹس لگایا جاتا ہے اور اکثر اوقات ان کو  کنفرم نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر تنزلی کردی جاتی ہے  جس سے عدالتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے    ایسے متاثرین کو ایک قسم کا موقع دیا جاتا ہے کہ چاچا جی آپ جسٹس کے لیئے اہل نہیں تھے ریٹائرمنٹ میں سال دوسال باقی ہیں  اب واپس جاکر سیشن کورٹس میں جتنی تباہی مچا سکتے ہو مچا لو دوسرے الفاظ میں رشوت لینے کی ایک  غیر اعلانیہ اجازت دی جاتی ہے
ہم نے ایسے بے شرموں کو جو جسٹس  کے عہدے پر کام کرنے کے بعد دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر تعیناتی کی ذلت برداشت کرتے ہیں  کی غیرت بیدار کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن یہ ہماری کامیابی ہے کہ اگر کوئی جسٹس ہایئکورٹ سے سیشن کورٹ میں واپس آتا ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ایک زندہ لاش واپس آرہی ہے  لوگ ایسے جج کو عزت نہیں دیتے اور وہ صرف ماہانہ تنخواہ وصول کرتا رہتا ہے
لوگ یوں بات کرتے ہیں کہ کون فلاں جو پہلے جسٹس تھا  کنفرم نہیں ہوا۔ دوبارہ سیشن جج بن کے واپس آرہا ہے ۔زندہ لاش کی صورت میں واپس آرہا ہے

میں نے ایک ذاتی مشاہدہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ عدالتی نظام میں تبدیلی کس طرح آسکتی ہے میرا مشاہدہ تھا کہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین   بنیادی اینٹ مجسٹریٹ ہے اگر مجسٹریٹ کی عدالت ٹھیک کام کرے گی تو فوجداری عدالتوں کا سارا نظام ہی ٹھیک ہوجائے گا اور یہی  مجسٹریٹ کی عدالت سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ مجسٹریٹس کے پاس معلومات پولیس آفیسر کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں  میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجسٹریٹس دل ہی دل میں  پولیس سے خوفزدہ ہوتے ہیں میں نے یہ بھی مطالعہ کیا کہ پولیس آفیسر مجسٹریٹ کو  کٹھ پتلی کی طرح نچاتے ہیں اور مجسٹریٹ وہی کرتا ہے جو پولیس چاہتی ہے پھر میں نے ایک نتیجہ اخذ کیا کہ مجسٹریٹ پولیس کا ذہنی ماتحت اور ذہنی غلام ہوتا ہے اس  بات پر کافی لے دے ہوئی لیکن میرے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد موجود ہیں  خیر پھر میں نے ایک بات کی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک میں عدالتی نظام موجود ہو ضلع کی سطح پر  ایک سیشن جج بیٹھتا ہو اور تھانہ ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے منسلک ہو اس کے باوجود وہاں پولیس ظلم کرتی ہو تشدد کرتی  یہ ناممکن ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا جب عدلیہ پولیس کے ماتحت ہو یا پولیس اور عدلیہ کی ملی بھگت ہو  اس بات پر بھی کافی سوالات اٹھائے گئے اور عوامی پذیرائی حاصل ہوئی


سول سوسائٹی نے ہمارے بلاگ کی بنیاد پر سوالات اٹھائے کہ آخر عدلیہ پولیس کے ساتھ مل کر ٹھوس شواہد کی عدم  موجودگی میں کیسے بے گناہوں کو جیل بھیج سکتی ہے  سول سوسائٹی کے حلقوں میں مجسٹریٹس اور پولیس کی پارٹنر شپ پر بھی ڈائیلاگ ہوئے اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ عدلیہ کی حمایت کے بغیر پولیس کسی بے گناہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا نہیں سکتی

لاء سوسائٹی پاکستان نامی بلاگ کو عوامی پذیرائی حاصل ہے  لیکن  سینئروکلاء کے حلقوں میں اس کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے  وجہ  صاف  ظاہر ہے کہ  میں  نے بہت سی  باتوں کو کھلم کھلا لکھا ہے جو ان کے کاروباری راز تھے

 مقتدر عدالتی حلقے اس پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں    اور کسی بھی بات کا سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے یہ ہماری کامیابی بھی ہے اور آزمائیش بھی کیونکہ اب  کوئی ایسی بات نہیں کی جاسکتی کہ جس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ اب بلاگ اپنا ایک مقام  بناچکا ہے  ایک ساکھ بناچکا ہے
ہمیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ کراچی میں ایک سپریم کورٹ کا جسٹس خفیہ طور پر چیمبر چلا رہا تھا اور کیس بک کرتا تھا میں نے اس پر بلاگ لکھ دیا جس کے بعد ایک بھونچال آگیا جس کا ہم نے سامنا کیا اس بلاگ پر شدید تنقید کی گئی مجھے کافی دھمکیاں ملیں   لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ  جسٹس  نے اپنا کالا دھندہ بند کیا افسوسناک طور پر کسی نے یہ نہیں کہا کہ  شواہد  غلط ہیں سب نے یہ کہا کہ جسٹس کی کردار کشی کی جارہی ہے
لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کو  بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہے شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ عدالتیں کیوں عوام کو انصاف نہیں فراہم کرپارہی ہیں   میرا یہ بلاگ ایک ایسی ڈائری ہے جس میں کورٹ میں پیش آنے والے واقعات کو  عوامی زبان میں لکھ دیا جاتا ہے آج ہمارے بلاگ ہی کی وجہ سے عدلیہ کا وہ چہرہ عوام کے سامنے ہے جو کبھی پیش نہیں کیا گیا آج سوشل میڈیا  کے توسط سے  لوگ جان گئے ہیں کہ اصل طاقتور ادارہ پولیس ہی ہے جس کے سامنے جج کی کرسی پر بیٹھے ہوئے مجسٹریٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے  وہ صرف  شور مچا سکتا ہے اس سے زیادہ کوئی  حیثیت  نہیں ہےجس کے بعد اب کچھ ججز نے زبان کھولنے کی ہمت کی ہے اب وہ کبھی کبھی پولیس والے سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس شخص کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے اب چند ججز کے اندر اتنی ہمت بھی پیدا ہوچکی ہے کہ   ڈرتے ڈرتے پولیس سے کیس پراپرٹی کے متعلق پوچھ لیتے ہیں یہ کہنے کی جرات پیدا کرلیتے ہیں کہ  ملزم سے جو برآمدگی ہوئی ہے پیش کی جائے  ورنہ پہلے ایسا کوئی تصور نہ تھا

اور اب چند ججز پولیس رپورٹ اور پولیس چالان کو پڑھنے کی زحمت کرلیتے ہیں   لیکن آج بھی  ننانوے فیصد مجسٹریٹ صاحبان پولیس رپورٹ پر انگوٹھا لگا کر کیس سماعت کیلئے منظور کرتے ہیں  اور پولیس کی بالادستی آج بھی قائم و دائم ہے

لاء سوسائٹی نے پہلی بار مجسٹریٹ کو یہ احساس دلایا کہ وہ لوگ پولیس سے طاقتور ہیں  وہ پولیس کے ماتحت نہیں ہیں اور پولیس کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کیلئے ہماری جدوجہد جاری ہے جاری رہے گی

کورٹ محرر ایک ایسا طاقتور پولیس آفیسر ہوتا ہے جس سے سیشن ججز بھی خوفزدہ رہتے ہیں کورٹ محرر پر ایک تفصیلی بلاگ  نے ملک گیر شہرت حاصل کی
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کا نوجوان وکیل ہم سے امید رکھتا ہے سینئرز کی امیدوں کی ہمیں جرورت بھی نہیں ہے
ہمارے بلاگ میں دادا  استاد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی  لیکن آج  کل وہ ہم سے نراش ہیں

موجودہ صورتحال میں ہم اپنے آپ کو آزمائیش کا شکار سمجھتے ہیں   کیونکہ  حلقہ احباب وسیع تر ہوچکا ہے بہت سے دوستوں کی خواہش ہوتی ہے کہ روزمرہ پیش آنے والے واقعات کو  بلاگ میں لکھا جائے میں اس حوالے سے واضح طور پر معذرت کرنا چاہتا ہوں  میں صرف ان واقعات کو لکھ سکتا ہوں جن کا میں خود عینی شاہد ہوں  اور میں اپنی بات سے کبھی نہیں مکرتا اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں نفع نقصان کی کبھی پروا ہی نہیں رہی
میں سندھ ہایئکورٹ کا شکر گزار ہوں جس نے ہماری تنقید کا تعمیری انداز میں جواب دیا 
آج اردو بلاگنگ سوشل میڈیا کے اندر ایک نئی طاقت بن کر ابھری ہے    ایک اردو بلاگر کا پیغام دور دور تک جارہا ہے بلکہ ایسے ایسے مقامات پر جارہا ہے جہاں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے  قارئین کی تعداد میں حالیہ دنوں میں بہت زیادہ اضافہ  ہوا ہے اس ساری جدوجہد میں بہت سے وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے ایسے وقت میں اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی جب اردو بلاگ کے حوالے سے بات کرنا بیوقوفی سمجھی جاتی تھی
کراچی میں ہونے والی  اردو سوشل میڈیا سمٹ نے اردو بلاگنگ اور اردو سوشل میڈیا کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے پورے ملک میں ایک بھونچال برپا ہے نئے نئے اردو لکھاری سامنے آرہے ہیں  دائرہ وسیع ہورہا ہے  اردو بلاگرز اپنا نیا مقام بنارہے ہیں  بلاگ پر تنقید اور تعریف کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے
اردو سوشل میڈیا ایک نئی سمت کی طرف گامزن ہے
ہر وہ شخص خراج تحسین کا مستحق ہے جس نے اردو   بلاگ کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کیا


Safiudin awan
03343093302
safilrf@gmail.com

Friday 29 May 2015

خواب ، جنوں اور تعبیر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن   شعبہ وکالت میں آنے کے بعدکافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے  سسٹم کا حصہ نہ بن سکے اوران کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی  باتیں ہم سنتے رہیں  پاکستان  میں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے کچھ عرصہ ہم نے ان کی کمی کو محسوس کیا  بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے  اور ہنستے بھی تھے کہ عجیب  پاغل تھا سسٹم کو بدلنے کی  بات کرتا تھا  بیوقوف  کہیں کا

 پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی اس نے کہا کہ وہ واپس آچکا ہے اور ملنا چاہتا ہے  پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال  میں  اس سے ملنے گیا اس کے ساتھ پورا دن رہا  اس کے حالات اچھے دکھائی دے رہے تھے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم اٹارنی بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور  لاء فرم بن چکی ہے  اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا  ان کو اپنے ججز پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ ان کو اپنے ایسے نظام پر بھروسہ ہے جو کرپشن کو پکڑنے کی صلاحیت  رکھتا ہے

 اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار  اور مضبوط ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے یہ ایم آئی ٹی جیسے ماموں بنانے کے نسخے صرف پاکستانیوں کی ایجاد ہیں  کیونکہ کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کے  ایم آئی ٹی سمیت سو بہانے ہوتے ہیں  وہاں ایم آئی ٹی نہیں ہے  لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے

اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا  ایسا جونئیر  جو جج ہو کرکرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں   وہاں عدلیہ  صرف عدلیہ ہے اور سب سے زیادہ ذمہ دار وکیل ہوتا ہے   وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ  کردیا جاتا ہے اس لیئے کوئی بھی وکیل اپنے کلائینٹ کے ساتھ برے سلوک کا سوچ بھی نہیں سکتا  اس حوالے سے کوئی رعایت ہی نہیں اگر ایک وکیل نے کیس لے لیا اور اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا  اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو پھر اس وکالت کا حق بھی نہیں ملتا


میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں ہیں ؟
 میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں وہاں کی ریگولیٹری اتھارٹیز اداروں کی شکل میں کام کرتی ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکستانی  عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے  لیکن مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں اور ان لوگوں سے ملتے ہیں  جن کو  تمہاری قابلیت پر شک تھا میرے دوست نے کہا کہ  کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا

میں نے کہا پتہ چلا کہ  "وہ"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانتے ہونگے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں  نوجوان وکلاء کے ساتھ بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے ویسے بھی بعض اوقات خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں
ہم اس دن ساتھ رہے اور شام کو میرا دوست رخصت ہوگیا
یہ تحریر پانچ سال  پرانی ہے

آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ
خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائیکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪12 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں؟
کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون ذمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو ذاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟
وکلاء  تنظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں

یہ تحریر پانچ سال  قبل لکھی گئی  تھی اس میں اب اتنا اضافہ کرلیا جائے کہ وکلاء کی عدلیہ سے وابستہ توقعات دم توڑ چکی ہیں


Thursday 28 May 2015

جوڈیشل مجسٹریٹ کانفرنس وقت کی ضرورت ہے ٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان


ہمارے وہ تمام دوست اور احباب جو جوڈیشل مجسٹریٹس کو "بے اختیار" سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جوڈیشل مجسٹریٹ ہرگز ہرگز  بے اختیار نہیں جیسا کہ تصور کرلیا گیا ہے اتنا ضرور ہے ہے کہ بحیثیت ایک برٹش کالونی   کے چند عدالتی اختیارات انتظامیہ کے پاس بھی موجود تھے جن کو انتظامیہ استعمال کرتی تھی اصولی طور پر انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اکٹھے نہیں ہوسکتے اس لیئے کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی کوئی عدالت نہیں ہوتی لیکن یہ صرف مہزب ممالک کیلئے ہے


انتظامیہ کی عدلیہ سے علیحدگی ایک زمانے میں بہت بڑا نعرہ تھا  کیونکہ انتظامیہ کی جانب سے تفتیش میں بے جا اور ناجائز مداخلت ہوتی تھی اسی وجہ سے اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ جات  جن کا تعلق تفتیش میں مداخلت سے ہے وہ سول انتظامیہ کے افسران تھے عدالتی افسران کو مخاطب نہیں کیا گیا
جب بھی ہم نے تفتیش کے دوران عدالتی اختیارات کی بات کی تو ہمارے دوست احباب وہی عدالتی فیصلے لیکر آجاتے ہیں جن کے تحت انتظامیہ سے منسلک عدالتی اختیارات کے حامل مجسٹریٹ صاحبان کو اختیارات حاصل تھے  دوستو یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم عدالتی نظام کی برائیاں بیان کرنے کیلئے ہرگز نہیں بیٹھتے نہ ہی ہمارا وقت اتنا فالتو ہے کہ عدالتی نظام کی خامیاں گنواتے رہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ مشکلات جو روزمرہ پیش آتی ہیں ان کا ذکر ضرور کرتے ہیں یہاں ایک اور معاملہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ تو ایک انتظامی اختیارات کے استعمال کا عہدہ ہے کیونکہ مجسٹریٹ جو حکم جاری کرتا ہے ان کی حیثیت انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے  اور یہ بہت بڑی اور اہم بحث ہے جس پر سالہا سال سپریم کورٹ میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے
میں نے کئی بار ذکر کیا کہ کراچی کے ایک سیشن جج نے جب کراچی میں آن لائن عدلیہ کا تجربہ کیا تو اس نے کسی عدالتی اصلاح کا انتظار نہیں کیا اور وہ کرگزرا اور ایک کامیاب تجربہ کے زریعے یہ ثابت کیا کہ اصلاح کا انتظار کرنے والوں کا مؤقف درست نہیں  ان کا یہ مؤقف غلط ہے کہ پارلیمنٹ نئی قانون سازی کرے بلکہ جو لوگ تبدیلی لانا چاہیں ان کیلئے ہر وقت ماحول سازگار ہوتا ہے
اگر ہم ضابطہ فوجداری کی زیردفعہ 159 کا ذکر کریں تو اس میں مجسٹریٹ کیلئے کیا اختیارات موجود ہیں

ویسے مجسٹریٹ کو چاہیئے کہ ویسی رپورٹ موصول ہونے پر مجموعہ ہٰزا میں  مقرر کردہ طریقہ کے مطابق تفتیش کرنے کا حکم دے یا مقدمہ کی ابتدائی انکوائری کرنے یا اسے اور طرح طے کرنے کی غرض سے  خود جائے یا اپنے ماتحت کسی مجسٹریٹ کو مقرر کرے
یہ ایک حیرت انگیز سیکشن ہے جس کا ہماری عدلیہ نے آج تک استعمال نہیں کیا سنا ہے کہ جب عدالتی اختیارات انتظامیہ سے واپس لیکر عدلیہ کو منتقل کیئے جارہے تھے تو اس وقت انتظامیہ نے عدالتی افسران کو وہ گاڑیاں دینے کی پیشکش کی تھی جو اس وقت ان کے انتظامی افسر استعمال کررہے تھے جن کے تحت کسی واقعے یا حادثے کے بعد مجسٹریٹ خود بھی جائے حادثہ پر پہنچ جاتا تھا شاید انتظامیہ نے یہ سوچا ہوگا کہ عدالتی افسران کس طرح جائے وقوعہ پر پہنچیں گے لیکن اس وقت سینئر سول جج کے پاس بھی گاڑی کی سہولت نہیں تھی تو ہماری عدلیہ نے اس زمانے میں اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا  اور یہ کہا کہ اگر عدالتی افسر اس قسم کے کام کریں گے تو وہ بھی "خراب" ہوجائیں گے
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کی سطح پر ہایئکورٹ مجسٹریٹ کانفرنس منعقد کی جائے
کیونکہ جب تک مجسٹریٹ صاحبان کے اختیارات کا تعین نہیں ہوجاتا اس وقت تک بہت سے معاملات اٹکے ہی رہیں گے
مجسٹریٹ کانفرنس اس لیئے بھی ضروری ہے کہ یہی وہ  فورم ہے جہاں سے عدلیہ انتظامیہ کے اختیارات کو کنٹرول کرنے کا آغاز کرتی ہے
زیادہ دور کی بات نہیں صرف چند سال پہلے کی بات ہے کراچی ہی کے ایک مجسٹریٹ کے ساتھ  جنرل پرویز مشرف کی اس وقت ذاتی دوستی تھی جب وہ مطلق العنان صدر تھا
اگرچہ یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ ایک عدالتی افسر کی کسی حکمران سے دوستی ہو لیکن بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس عہدے کی اتنی تو اہمیت ہے کہ اپنے وقت کا حکمران ایک مجسٹریٹ کا دوست ہو
کہاں وہ شان و شوکت کہ پورے ضلع کا پولیس افسر باہر بیٹھ کر مجسٹریٹ سے ملاقات کا منتظر
اور کہاں بے خبری کا یہ عالم کہ ہمارے مجسٹریٹ یہ سوال کرتے ہیں کہ تفتیش کے دوران کامن سینس استعمال کرنا ضابطہ فوجداری کی کس سیکشن کے تحت آتا ہے


ایسے ماحول میں ضروری ہوجاتا ہے کہ سندھ ہایئکورٹ فوری طور پر سالانہ بنیادوں پر مجسٹریٹ کانفرنس کا انعقاد کرے جس میں بطور انتظامی افسر عدالتی افسر کے کردار کو زیر بحث لایا جائے  

پہلے کیڑے کا علاج ہوگا



گزشتہ چند سالوں کے دوران   بلاگ لکھتے ہوئے صرف دو واقعات نےذہنی طورپر بہت ڈسٹرب کیا جن کا تعلق وکلاء سے ہی تھا
پچھلے سال ایک قابل اعتماد  وکیل صاحب  جو دوست بھی ہیں نے مجھے یہ بتایا کہ ایک سیشن جج  نے میری پولیس کےخلاف درخواست کو سننے سے ہی انکار کیا اور بااثر پولیس آفیسر کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی بجائے اس کو سپورٹ کی  اور میری درخواست کو سنے بغیر ہی مسترد کردیا
خیر میری یہ غلطی کہ اپنے دوست کی بات پر اعتبار کرکے ایک بلاگ لکھ دیا سیشن جج شریف آدمی تھے انہوں نے پیغام بھیجا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جس پر میں نے اپنے دوست سے رابطہ کرکے آرڈر کی کاپی مانگی تو وہ بیان تبدیل کرنے لگا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا بہرحال مجھے اس واقعہ نے سخت شرمندگی سے دوچار کیا لیکن وکیل صاحب کو اپنے جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہ تھی درخواست مسترد ہونا بہت دور کی بات ہے سیشن جج کے پاس کبھی پیش ہی نہیں کی گئی تھی
دوسرا واقعہ گزشتہ دنوں اس وقت پیش آیا جب میرے ایک انتہائی قابل اعتماد کولیگ نے  شام کو فون کرکے بتایا کہ اس کے ساتھ ایک مجسٹریٹ نے سخت زیادتی کی ہے اور اس  کوکمرہ عدالت سے  شناختی پریڈ کے دوران کمرہ عدالت سے نکال دیا جبکہ اس دوران لنک کورٹ کا اسٹاف کورٹ میں موجود تھا جو  مجھ پر ہنس رہا تھا  اصولی  طور پر وکلاء کے ساتھ کورٹ اسٹاف  کو بھی  باہر نکالنا چاہیئے تھا جس کے بعد وکیل صاحب نے بتایا کہ  ان کا جج سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ اور اچھا خاصا سخت کلامی ہوئی
میں نے اس پر ایک سخت  ترین بلاگ لکھا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وکیل صاحب نے اس واقعہ کی تردید کردی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے وکلاء صرف کراچی کے وکلاء کے ساتھ اگر کورٹس میں زیادتی ہوتی ہے تو اس کے وہ خود بھی مکمل طور پر ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم صرف بار روم میں بیٹھ کر بات کرنا جانتے ہیں ہم لوگ کینٹین میں بیٹھ کر بات کرنا جانتے ہیں
ہم پورا دن بار روم میں یہ سنتے رہتے ہیں کہ یہ ہورہا ہے اور وہ ہورہا ہے یہ کیوں ہورہا ہے تو وہ کیوں نہیں ہورہا
کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اگر ان کے خلاف کوئی  زیادتی ہوئی ہے کسی جج نے زیادتی کی یا کوئی غلط طریقے سے کورٹ چلارہا ہے یا وہ سائیلین یا عوام کو تنگ کررہا ہے تو رجسٹرار سندھ ہایئکورٹ کے پاس جاکر حلف نامے کے ساتھ درخواست دے دیں  تاکہ ایسے ججز کے خلاف سندھ ہایئکورٹ نوٹس لے سکے

جہاں تک میں سمجھا ہوں اور میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو لوگ بار روم میں بیٹھ کر ججز کی کردار کشی کررہے ہوتے ہیں ایسے لوگ جھوٹ بولتے ہیں  اور وکلاء کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں  کیونکہ اگر کوئی سچائی ہوتی تو وہ لوگ خود کیوں نہ اس  بے ضابطگی کو روکنے کی کوشش کرتے
 اس  واقعہ کے بعد اگر کوئی وکیل مجھے یہ کہتا ہے کہ فلاں جج زیادتی کررہا ہے یا اس نے یہ نیا کام کیا ہے تو اس کو میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی ٹھیک ہے آؤ رجسٹرار کے پاس چلے چلتے ہیں آپ حلف نامے کے ساتھ درخواست دیں  تو کاروائی ضرور ہوگی جس کے بعد کوئی تعاون پر آمادہ نہیں ہوتا اور اکثر لوگ ت سے تیتر ہوجاتے ہیں  یا گاف سے گول ہوجاتے ہیں
میری ذاتی رائے یہ بھی ہے کہ کراچی بار بھی شاید  اس لیئے  ایکشن نہیں لے پاتی کیونکہ ممبران مکمل تعاون نہیں کرتے ہونگے

میں صرف یہی کہوں گا کہ ایک مرد کی مردانگی کا تعلق اس بات  سے ہے کہ جب وہ کوئی بات کرے تو موت 
قبول کرلے لیکن اپنی بات سے ہٹنا بات کہہ کر مکرجانا ایک مرد کے شایان شان نہیں
نواب آف کالاباغ کے فرزند ملک مظفر اعوان جب اپنے قافلے کے ساتھ  گھر سے  ریاست کے دورے پر نکلے تھے تو  ان  کو راستے میں ہی یہ اطلاع دی گئی  کہ سامنے پہاڑی پر پراسرار نقل و حمل ہوئی ہے اور ہیلی کاپٹر سے لوگوں کو اتارا گیا ہے  خدشہ ہے کہ بنی افغان کے لوگ قافلے پر حملہ کرسکتے ہیں  سیکورٹی عملے نے  کہا کہ واپس گھر چلتے ہیں  آگے خطرہ  ہے تو  ملک مظفر اعوان نے یہ کہا تھا کہ   میں میدان چھوڑ کر واپس کیسے جاسکتا ہوں   کل  بنی افغان کیا سوچیں گے کہ نواب امیر محمد خان کا بیٹا  ملک مظفر  بنی افغان سے ڈر کر واپس بھاگ گیا ملک مظفر   اعوان نے سفر جاری رکھا  اور جب بنی افغان کے علاقے سے گزرے تو  مورچہ  بند بنی افغان نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قافلے پر  راکٹ لانچروں سے حملہ کیا  ملک مظفر  اعوان نے مقابلہ کیا موت کو قبول کیا لیکن میدان چھوڑ کر بھاگنا قبول نہیں کیا حالانکہ اگر وہ بھاگ جاتے تو اپنی جان بچا سکتے تھے

اگرچہ وکیل صاحب اپنی بات سے یہ کہہ کر  مکر چکے ہیں کہ بندوق چلانے کیلئے ان کا کاندھا استعمال ہوا لیکن  اگر وہ واقعہ جھوٹ پر مبنی تھا اور دیگر واقعات جھوٹ پر مبنی تھے تو میں ایک بات سمجھ نہیں پایا  وہ یہ کہ ایک مجسٹریٹ صاحب جن کا میں نے نام اپنے بلاگ میں نہیں لکھا اور نہ ہی ان کا کوئی حوالہ دیا بس چند واقعات کا ذکر کیا  میں ایک افسانہ نگار ہوں ہوسکتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہو  وکیل صاحب کے اپنی بات سے مکر جانے کے باوجود  وہ مجسٹریٹ صاحب کیوں  بضد ہیں  اور انہوں نے بلاوجہ ہی  کیوں فرض کرلیا ہے کہ میں نے ان کے خلاف بلاگ لکھا ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ خصوصیات جن کا ذکر میں نے قابل اعتراض انداز میں کیا وہ کسی نہ کسی کے اندر موجود ہیں    اور کیا وہ واقعات  سچ پر مبنی ہیں یہی وجہ ہے کہ  کوئی اس بلاگ کو اپنے خلاف سمجھتا ہے تو کیوں سمجھتا ہے  اگر کسی مجسٹریٹ کا ایسا ہی کردار ہے تو وکیل صاحب کے اپنی بات سے مکر جانے کے باوجود مجھے فخر ہے کہ میں نے  وہ قابل اعتراض  بلاگ لکھا تھا جس کے خلاف اتنا شور ڈالا جارہا ہے اور اگر کسی کا ایسا کردار نہیں ہے تو پھر معذرت کیوں کی جائے جب کسی کا نام نہیں لکھا گیا تو ایک فرضی کردار کے متعلق یہ تصور کرلینا کہ وہ  فرضی کردار  فرضی نہیں  ہے  سراسر بیوقوفی ہے اور اگر معذرت کی بھی جائے تو کس سے کی جائے ایک فرضی کردار جس کے خلاف بلاگ لکھا گیا میں اس کو کہاں تلاش کرکے معذرت کروں کراچی میں دوسو مجسٹریٹ ہے اب  ان دوسو میں سے کوئی کیسے اپنے اوپر بلاگ فٹ کرسکتا ہے


ایک شہر میں ایک ڈاکٹر آیا تو اس کے پاس جو بھی مریض آتا وہ تشخیص کرتا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے اور تمام مریضوں کو ایک پیلا سا شربت پلا دیتا تھا اس کے پاس سردرد کا مریض آیاتو اس نے تشخیص کیا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے    پیٹ کے کیڑے مارنے والی پیلی دوائی پلادی دل کا مریض آیا تو یہی تشخیص کیا کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے گردے کا مریض آیا مرگی کا مریض آیا کھانسی کا مریض آیا دمے کا مریض آیا سب کو 
ایک ہی علاج ایک ہی دوا کہ پیٹ میں کیڑا ہے

پھر ایک دن ایک لڑکا کلینک میں آیا جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی سارا شہر جمع ہوگیا کہ آج ڈاکٹر صاحب  کا امتحان ہے ڈاکٹر نے حسب معمول چیک اپ کیا اور کہا کہ اس لڑکے کے پیٹ میں کیڑا ہے پہلے پیلی دوا پلائی جائے  لوگوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کو بیوقوف بنارہے ہو اس لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ اس کی  ٹانگ  پر مرہم  پٹی لگانے کی بجائے یہ تشخیص کررہے ہیں کہ اس کے پیٹ میں کیڑا ہے
ڈاکٹر نے اس لڑکے کے والد سے پوچھا کہ لڑکے کی ٹانگ کیسے   ٹوٹی ہے تو اس کے باپ نے کہا درخت کی ٹہنی سے لٹک رہا تھا کہ درخت سے نیچے گرگیا
ڈاکٹر نے سکون سے جواب دیا کہ اگر کیڑا نہ ہوتا تو درخت سے کیوں لٹکتا

اس لیئے پہلے کیڑے کا علاج ہوگا 

Tuesday 26 May 2015

شیر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تحریر : صفی الدین اعوان



ہمارے ایک دوست کو شیر پالنے کا شوق ہے گزشتہ دنوں وہ چائینہ سے شیر خرید کرلایا کیا شیر تھا انتہائی طاقتور، زور 
سے چنگھاڑتا تھا چند روز بعد شیر کو ایک بکری نے زور کی ٹکر ماری تو شیر بھاگ کھڑا ہوا

میرا دوست اور میں مشہور و معروف پروفیسر چوہدری مدثر صاحب دامت برتہم العالیہ مدظلہ العالی کے پاس تشریف لے گئے اور بابا جی سے مشورہ طلب کیا بابا جی نے شیر کو گھور کر دیکھا اور کہا کون کہتا ہے کہ یہ شیر ہے میں نے باباجی سے کہا کہ اس کی مونچھیں شیر کی طرح ہیں بابا جی نے کہا کہ مونچھیں رکھنے سے کوئی شیر نہیں بن جاتا
میں نے کہا کہ بابا اس کی آواز بالکل شیر جیسی ہے بابا نے کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا آواز کی وجہ سے کوئی شیر نہیں بن جاتا
میں نے کہا کہ اب کیسے معلوم کریں کہ یہ شیر ہے

بابا نے کہا بہت آسان سا ٹیسٹ ہے اس شیر کو پورا ایک دن بھوکا رکھیں گے ایک دن شیر کو بھوکا رکھا تو شیر بھوک سے بےحال ہوگیا بابا نے کہا اس کے سامنے گھاس رکھیں ہم نے گھاس رکھا تو شیر مزے لے لے کر گھاس کھانے لگا بابا نے کہا دیکھو شیر میں ایک خوبی ہے وہ صرف گوشت ہی کھاتا ہے چاہے سرکس کا ہی کیوں نہ ہو اگر گوشت نہیں ملے گا تو بھوک سے مرجانا قبول کرلے گا لیکن گھاس نہیں کھائے گا

بابا جی پھر یہ شیر جیسی چیز کیا؟
بابا جی نے کہا یہ چائینہ کے کھوتے ہیں جو گوشت مل جائے تو گوشت کھالیتے ہیں نہ ملے تو گھاس کھالیتے ہیں
میں جانے لگا تو بابا جی کے کان میں چپکے سے پوچھا کہ بابا جی شیر کی پہچان تو بتادی انسان کی پہچان کیا ہے
بابا جی نے کہا کیا اب عمر بھر کی ریاضت تمہیں دے دوں خیر تم بھی کیا یاد کروگے 
آج کل چائینہ نے چائینہ کے انسان بھی مارکیٹ میں متعارف کروادیئے ہیں جو انسان جیسے ضرور ہیں لیکن انسان نہیں وہ بھی چائینہ کے کھوتے ہیں  بابا جی نے کہا کہ انسان کی پہچان اس کی زبان پر پختگی ہے انسان وہ ہے جو زبان پر قائم رہے ۔ جو انسان اپنی زبان پر قائم نہیں رہ سکتا جو انسان زبان سے پھر جائے جو انسان اپنی زبان کا مان اور یقین نہیں رکھ سکتا ایسا وجود انسان نہیں وہ صرف اور صرف چائینہ کا کھوتا ہے
بابا نے یہ کہہ کر محفل برخاست کردی اور رخصتی کے وقت میرے دوست کو چائینہ کے کھوتے کیلئے دو گھاس کی گڈیاں گفٹ کردیں 
بابا نے کہا کہ گھر میں باندھ دو کسی کو کیا پتہ کہ یہ شیر ہے یا کھوتا ہر کسی کو رمز کی باتیں بتہ نہیں ہوتی ہیں 


تحریر صفی الدین اعوان
03343093302

Thursday 14 May 2015

اردو بلاگنگ کا مستقبل روشن ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان




ایک دفعہ کا ذکر ہے  کہ ہم نے ایک ادارے کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ  کی جس کا مقصد لوگوں میں کتب بینی  کے کم

 ہوتے ہوئے رجحان کی وجوہات تلاش کرنا تھا۔ ہمیں آنہ لائیبریری کا بھی پتہ چلا
کراچی میں کسی زمانے میں ایسی لائیبریریاں ہر گلی میں موجود ہوا کرتی تھیں جہاں کتابیں  معمولی کرایہ پر پڑھنے کیلئے مل جاتی تھیں پھر رفتہ رفتہ وہ لائیبریریاں ختم ہوگئیں اور لوگوں میں بظاہر کتب  بینی کا رجحان کم ہوگیا
اس ریسرچ کے دوران ایک ایسی ہی لائیبریری کا بوڑھا مالک ملا جس نے میری ساری الجھنیں دور کردیں
میں نے اس بوڑھے سے یہ سوال کیا کہ لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کیوں کم ہوگیا  بوڑھا مسکرایا اور کہا کہ کس نے یہ کہا ہے کہ عوام میں کتب بینی  کارجحان کم ہوگیا ہے  پہلے کسی ابن صفی کو تو تلاش کرکے لاؤ
میں نے کہا اس سے کیا لوگوں میں کتب بینی کے رجحان میں اضافہ ہوجائے گا تو لائیبریری کے بوڑھے مالک نے جواب  دیا کہ لوگوں میں کتب بینی کا رجحان کبھی کم ہوہی نہیں سکتا ہوا کچھ یوں تھا کہ جس زمانے میں گلی گلی آنہ لائیبریریاں موجود تھیں اس زمانے میں ابن صفی کا سکہ چلتا تھا لوگ صبح سویرے ہماری لائیبریری کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوتے تھے  عوام الناس منتظر رہتے تھے کہ کب ابن صفی کی نئی جاسوسی کتاب منظر عام پر آئے اور کب وہ  حاصل کرکے اس کو پڑھنا شروع کریں
ابن صفی نے عمران سیریز تخلیق کی تو لوگوں میں دھوم مچ گئی جس کی وجہ سے ہر گلی محلے میں  ابن صفی کی دھوم مچ گئی اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے لکھنے والے موجود تھے جن کی کتابیں پڑھنے کیلئے لوگوں میں  ایک تڑپ تھی پھر ہوا کچھ یوں کہ وہ ابن صفی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے وہ عوام کا مصنف تھا عوام کیلئے لکھتا تھا اور عوام میں اس کی پذیرائی بھی تھی ان کے رخصت ہوتے ہی وہ بات بھی ختم ہوگئی کافی عرصے تک لوگ کسی نئے ابن صفی کے منتظر رہے نئی نسل عمران سیریز کی پرانی کتابیں پڑھتی رہی اور اس کے بعد معاملہ یکسانیت کا شکار ہوگیا کوئی نیا لکھنے والا ابن صفی کی جگہ نہ لے سکا اس طرح پہلے رش کم ہواپھر رش مکمل طور پر ختم ہوگیا پھر اکا دکا لوگ آتے تھے  جو ماہانہ میگزین وغیرہ لیکر جاتے تھے آہستہ آہستہ   ہم خسارے کا شکار ہوگئے اور پھر ایک دن میری لائیبریری بند ہوگئی
کچھ دیگر مصنفین کے نام بھی اس بزرگ نے لیئے تھے جو اب مجھے یاد نہیں رہے
اسی طرح کچھ دن پہلےمیں وارث ڈرامہ کتابی شکل میں پڑھ رہا تھا  جو کہ امجد اسلام امجد کی تحریر ہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے ڈرامے کا ایک ایک ڈائیلاگ  ناپ تول کرلکھا ہے یہی وجہ ہے کہ جب  پی ٹی وی ڈرامہ ٹیلی کاسٹ کرتا تھا تواس زمانے میں  گلیاں ویران ہوجاتی تھیں
یہ  تمہید صرف اس لیئے باندھی ہے کہ یار لوگ اردو بلاگنگ کے حوالے سے کافی فکر مند رہتے ہیں میرے خیال میں یہ سب بلاوجہ ہی کی باتیں ہیں  جب کوئ ابن صفی آئے گا  جب کوئی شوکت صدیقی آئے گا جب کوئی امجد اسلام امجد کے پائے کا اردو بلاگر آئے گا  تو اردو بلاگرز کا مستقبل خود ہی روشن ہوجائے گا
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جناب وسعت اللہ خان صاحب کی تحاریر کے سحر میں کافی عرصے تک مبتلا رہا  یہاں تک کہ پھر وسعت اللہ خان صاحب سچ لکھتے لکھتے  کسی اور طرف نکل گئے جب کسی اور طرف نکلے تو وہ مزا  اب نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا میں خود ذاتی طور پر گزشتہ دوماہ سے جناب وسعت اللہ خان کو تلاش کررہا ہوں ان کی نئی تحاریر کو تلاش کرتا ہوں نئی آن لائن تحریر سامنے بھی آتی ہے لیکن گزشتہ دوماہ سے  ہربارکسی کی فرمائیشی تحریر پڑھ کر مایوسی ہوتی ہےمجھے لگتا ہے کہ شاید وسعت اللہ خان صاحب کو بھی ہم نے کھودیا ہے
اسی طرح جاوید چودھری کا دور شاندار دور تھا لیکن اب وہ بات باقی نہیں ہے  کیونکہ جاوید چودھری صاحب کی تحاریر میں بھی ایک یکسانیت محسوس ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو  اخبارات کے ادارتی صفحات  اب کسی نئے ارشاد احمد حقانی کے منتظر ہیں جو تجزیہ کرسکے اور سامنے لاسکے جو پاکستانی سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بات کرسکے
لیکن اس وقت بلاگنگ کے حوالے سے جن مسائل کی بات کی جارہی ہے ان میں ایک مسئلے پر بات نہیں کی جارہی وہ یہ ہے کہ کیا اس وقت کوئی اعلٰی پائے کا اردو بلاگر موجود ہے  ؟اور کیا وہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل کررہا ہے یا کرچکا ہے یہ دو بنیادی سوالات ہیں
حال  ہی میں منعقدہ اردو سوشل میڈیا سمٹ سے یہ بات سامنے آئی کے اس وقت انٹر نیٹ پر اردو پڑھنے کیلئے بے شمار قارئین موجود ہیں بس نہیں ہے تو صرف کوئی ابن صفی نہیں ہے میں محسوس کررہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ  وہ کونسا اردو بلاگر ہے جو پروگرام کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے
یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے  جس سے اختلاف کا بنیادی حق سب کو حاصل ہے اگر کوئی ایسا بے باک بلاگر موجود ہوتا جس کی تحاریر ایک تسلسل سے سامنے آرہی ہوتیں جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بات کررہا ہوتا اور اس کے خیالات ایک آبشار کی طرح گررہے ہوتے تو  تو یقینناً نہ صرف اردو سوشل میڈیا سمٹ میں اس کو نمائیندگی دینا مجبوری بن جاتی بلکہ  ایسے اردو بلاگر کو ہرفورم پر نمائیندگی بھی ملتی بلکہ ایسے ہی کسی اردو بلاگر کی آمد پروگرام کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی تھی
صرف ایک ابن صفی ایک شوکت صدیقی ایک امجد اسلام امجد کی ضرورت ہے اس کے بعد تو ایک لائن لگ جائے گی  اور اس کے بعد ہی کوئی معاشی سلسلہ شروع ہونا ممکن ہے کیونکہ جب تک  کوئی پبلک ڈیمانڈ سامنے نہیں آجاتی اس وقت تک کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل اسپانسر کسی بلاگر کے  بلاگ پر اپنا اشتہار کیوں دے گا یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اردو کی آن لائن افادیت کو تسلیم کرلیا جائے گا
اردو بلاگنگ کے حوالے سے جتنی بھی باتیں کرلی جائیں  جب تک  ایک ابن صفی  کے پائے کا اردو بلاگر سامنے نہیں آجاتا  اس وقت تک بات نہیں بن سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔صرف باتیں بن سکتی ہیں  جو ہم بنا رہے ہیں