Powered By Blogger

Tuesday 12 January 2016

٭٭٭٭نائی ، زمین دار اور گورنر کا بیٹا ٭٭ تحریر ٭٭٭٭ صفی ادین اعوان ٭٭٭٭

 کا بیٹا     نائی ، زمین  دار  اور گورنر
ایک  دفعہ  کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ سلامت  کے سامنے  چوری کے تین  ملزمان  پیش کیئے گئے

بادشاہ نےچوری کے تینوں ملزمان سےپوچھاکہ کہ  تم  تینوں کے والدین   کیارتے ہیں

پہلے چورنےکہاکہ میرا باپ نائی ہے   اورمیں خودبھی نائی ہوں
دوسرے نے کہاکہ میں فلاں زمیندار کا بیٹا ہوں  اورفارغ ہوں کوئی کام  نہیں  کرتا ہوں
تیسرے نے  خاموشی اختیارکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نےکہاکہ جواب دووالدکیاکام  کرتے ہیں
تیسرے  چورنےکہاکہ  میرے والدصاحب صوبے کے گورنر تھے  یہ کہہ کر چور نے خاموشی اختیار کی

بادشاہ  نےحکم  دیا کہ  نائی  کا ناک کاٹ دو
زمیندارکے بیٹے کو دوکوڑے مارو
اورگورنر کے بیٹے کو انتہائی غضب ناک نظروں سے دیکھادومنٹ کے بعدانتہائی غصے سےکہاکہ شرم نہیں آتی بے شرم گورنرکے بیٹے ہوکر چوری چکاری کرتے ہو   دفع ہوجاؤ  میری نظروں کے سامنے سے باپ کی بھی عزت کا خیال نہیں

حکمکی تعمیل ہوئی
درباریوں نے بادشاہ سےکہاکہ  ایک ہی جرم کی تین الگ الگ سزابادشاہ نے کہاکہ  اس کا نتیجہ کل سامنے آجائے گا

دوسرے دن نائی کا بیٹا جس کی ناک کاٹ دی گئی تھی چوک پر  کھڑا ناچ  رہا تھا
زمیندار کا بیٹا   شہر چھوڑ کرچلا گیا تھا  اورگورنر کے بیٹے سے  بے عزتی برداشت  نہ ہوسکی  اس نے  خودکشی کرلی
بہت سےدوستوں کادرست شکوہ ہے کہ عدلیہ  کیلئے  ہمارے بلاگ میں جو زبان استعما ل کی جاتی ہے وہ  اکثر مناسب نہیں ہوتی   الفاظ کاچناؤغلط ہوتا ہے بعض اوقات معاملہ توہین عدالت کی طرف چلاجاتا ہے   دوستو یہ تمام باتیں درست ہیں  عدلیہ کااحترام ہم سب پر واجب ہے یہاں تک کہ صدر اوروزیراعظم  پاکستان بھی عدالتی فیصلوں  پر تنقید  کی اجازت نہیں   ہم سے زیادہ  یہ بات کون جانتا ہے کہ جس معاشرے میں عدلیہ کاوقار ختم ہوجائے وہ معاشرہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے
لیکن
عدالتی معاملات میں تیزی سے بگاڑ پیدا ہورہا  ہے  اقرباء پروری عروج پر ہے ۔   اوراقرباء پروری کے زریعے  نااہلوں کی پوری فوج عدلیہ میں جمع کرلی گئی ہے  اس  بات پر بھی خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن  نااہلوں کی وجہ سے ایک عام شہری متاثر ہورہا ہے ۔ ایک عام شہری  کے حقوق متاثر ہورہے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ وکیل بھی نالائق ہونگے لیکن وہ لوگ حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں  وہ اگر نالائق بھی ہیں  تو اپنے خرچے پر نالائق ہیں  قومی خزانے سے کوئی پائی پیسہ نہیں لیتے    ان کی نااہلی کا نقصان صرف  ان ہی کو ہوتا ہے لیکن  عدلیہ نے جو نالائقوں کی فوج جمع کرلی ہے جو بھانجے بھتیجے بیٹے بہو  داماد اور قریبی عزیزوں کو  عہدے دیکر  جج کے عہدے کی تزلیل کرکے  قومی خزانے  کے زریعے تنخواہ  دے کر اپنے  نااہل بچوں  کو پال  رہے وہ قومی  خزانے پر بوجھ ہے  اس نالائقوں کی فوج  مظفر کو قومی خزانے سے اربوں روپے ماہانہ ادا کیئے جاتے ہیں  اب ایسا بھی نہیں کہ سب نااہل ہیں  میرا کہنا یہ ہے کہ  نالائقوں کی تعداد زیادہ ہے آج بھی  قابل قدر ججز موجود ہیں
عدلیہ میں آج بھی  قابل فخر انسان موجود ہیں ۔ جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں ۔ ایسے جج موجود ہیں جو چوبیس گھنٹے  کام میں مصروف رہتے ہیں  سارا دن فارغ نہیں بیٹھتے  اور جب گھرجاتے ہیں  فائلوں کا بنڈل ساتھ ہوتا ہے ۔ جج کی سیٹ آسان نہیں  یہ بہت سخت  عہدہ ہے ۔ اگر عہدے سے انصاف کیاجائے تو زندگی محدود ہوجاتی ہے 
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارشی بھی ہیں   نالائق بھی ہیں نااہل  بھی ہیں جو  عدلیہ پر ایک سیاہ دھبہ ہیں  انسانیت کیلئے شرم   کا  مقام  رکھتے ہیں
میں نے سوچ لیا تھاکہ عدلیہ کے حوالے سے کوئی بلاگ نہیں لکھا  جائے گا۔ لیکن گزشتہ  ہفتے  کراچی میں جب عدلیہ کی بے حسی کو قریب سے دیکھا  نااہلی کو قریب سے  دیکھا تو روح تک  کانپ گئی
میں نے دیکھا کہ ایک غریب ماں سے اس کا بچہ  چھین لیا گیا  ۔ وہ تڑپ رہی تھی وہ چیخ رہی تھی وہ رو رہی تھی  اللہ  کسی انسان کو وہ وقت نہ دکھائے جو ممتا سے محروم ایک ماں پر گزرتا ہے
آپ خود انصاف کریں اگر آپ کا بچہ ایک گھنٹے کیلئے لاپتہ ہوجائے  گم جائے توزندگی  میں کیاطوفان برپاہوتا ہے  اس تکلیف کو محسوس  نہیں کیا جاسکتا
اس درد کو الفاظ   میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ، میرا سارا دن  بے قرار رہا روح گھائل رہی  کہ آج ایک ماں  اپنے بچے کو آغوش میں لینے سے صرف اس لیئے محروم ہے کہ  جن لوگوں نے  اس ماں کو انصاف دینا تھا وہ غیر سنجیدہ لوگ تھے غیر ذمے دار لوگ تھے  نااہل تھے کام نہیں جانتے تھے  اور سب سے بڑھ کر بے حس تھے اپنے عہدے کومذاق  سمجھتے تھے   میرے ایک دوست اکثر کہتے ہیں کہ بے درد  نامرد  جس انسان میں انسانیت کا درد نہیں وہ انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں ہے  یہ ایک ظلم کی بات نہیں یہ روز کا معمول ہے
ہمیں کسی کی ذات کو ٹارگٹ کرنے کا کوئی شوق نہیں   لیکن جب لوگ انسانیت سے  ہی گرجائیں  جب حساس ترین عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے  ایک ماں اپنی ممتا ہی سے محروم ہوجائے تو  خاموشی جرم بن جاتی ہے
  اب کم ازکم  قلم  سے ان بے حس لوگوں کی ناک کاٹنا تو بنتی ہی ہے 

یہ الگ  بات ہے کہ ان لوگوں کو فرق کوئی نہیں پڑتا  لیکن رائے عامہ تو ہموار ہورہی ہے   لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کے قاریئن کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے     یہ عدالتی توہین ہرگزنہیں ہے بلکہ خاموشی جرم بن چکی ہے   اب ان مسائل پر خاموشی اختیار کرنا جرم   بن چکا ہے 
 اور ان لوگوں پرکوئی  فرق بھی نہیں پڑتا  ان کے پاؤں مضبوط ہیں     لیکن اللہ کا احسان ہے کہ ان مضبوط لوگوں کے پاؤں بھی  صرف لاء سوسائٹی کے بلاگ کی وجہ سے ڈگمگا رہے ہیں  مجھے خوشی ہوگی کہ کوئی عدالت اس توہین عدالت کا نوٹس لے  ہم سامنا کریں گے اورسامنا کرنے کی طاقت اللہ نے دی ہے
چیف جسٹس صاحب  آتے ہیں بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں       رشوت خوروں کیخلاف کاروائی کی بات کرکے جاتے ہیں   کاروائی ہوئی بھی ہے لیکن نااہل  تو رشوت خور سے زیادہ خطرناک ہیں 
 جہاں تک بات ہے سخت الفاظ کی تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے  کہ ان کیلئے کیا کہا جارہا ہے   جو نوکر پیشہ ہیں وہ اپنی  نوکری پوری کررہے ہیں  مہینے کے بعد تنخواہ تو   مل ہی  جاتی ہے  اللہ اللہ خیر صلا
میں بڑے دعوے سے کہتا ہوں کہ صرف مجسٹریٹ کی سیٹ پر اہل افراد کو بٹھا دیا جائے  تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پولیس  کسی بے قصور انسان کیخلاف مقدمہ بناسکے
یہ جو روزانہ   سو کیس ایک  جج کے پاس لگے ہوئے ہوتے ہیں   ان کا اختتام ملزمان کی باعزت بریت پر کیوں ہوتا ہے میں نے اپنی پوری پریکٹس میں ایک آدھ  شخص کو  سزا لگتے ہوئے دیکھا ہے  وجہ   کیا ہے   پولیس تفتیش ہی غلط کرتی ہے شواہد ریکارڈ پر نہیں آتے یا کمزور ہوتے ہیں  گواہ منحرف ہوجاتے ہیں
لیکن  کیا یہ بھی حقیقت نہیں  ہم اس حقیقت سے کیوں نظریں چرا لیتے ہیں کہ  ہمار ا مجسٹریٹ  پولیس کی تفتیش سے مطمئن  ہوکر اس پر اپنی رائے قائم کرتا ہے  پولیس کی جانب سے پیش کیئے  گئے مقدمے  پر یہ رائے دیتا ہے کہ   وہ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ  سے مطمئن ہے   اس کے بعد وہ مقدمہ شروع ہوتا ہے  جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقدمے  کے اختتام پر ملزمان بری ہوتے ہیں  یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ پولیس کی تفتیش غلط تھی اور  نااہل مجسٹریٹ کی یہ رائے بھی غلط تھی کہ شواہد مقدمہ چلانے کیلئے کافی ہیں
کیا ہم یہ بات کہنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ  یہ ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے
جن لوگوں کو جن دوستوں کو  عدلیہ کے خلاف استعمال کی جانے والی سخت زبان پر اعتراض ہے  جن دوستوں کا  درست شکوہ ہے کہ الفاظ کا چناؤ غلط ہے  وہ ایک کام کریں  عدالت  کی کھڑکی کھولیں   تو سامنےچوک کا منظر صاف نظر آئے گا

سامنے چوک پر دیکھیں تو آپ کو نائی کا بیٹا  ناچتا ہوا نظر آئے گا جس کی ناک کل کاٹ دی گئی تھی
مجھے گورنر کے اس بیٹے کی ہمیشہ تلاش رہے گی جس نے شرم سے خودکشی کرلی تھی

عدالتی عہدے مذاق نہیں ہیں سفارشیوں  نالائقوں  نااہلوں  اور  اقرباء پروری  کے زریعے  ان قابل  احترام  عہدوں کو مذاق  بنا دیا گیا ہے

Sunday 10 January 2016

رشوت لینے کیلئے رشوت دینا سیکھو تحریر صفی الدین اعوان




میں نے انیس سو اسی میں پولیس جوائن کی  پینتیس سال کا تجربہ ہے لیکن پوری زندگی میں صرف ایک مجسٹریٹ سے واسطہ پڑا جو واقعی جج تھا
میں ایک بے گناہ کو پکڑ کر ایک کیس میں فٹ کرنے کیلئے ریمانڈ کیلئے  مجسٹریٹ کےپاس  لایا تو مجسٹریٹ نے ایک  ایسا سوال  کیا جس کو سن کر میرا دماغ چکرا گیا
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟
میں نے کہا یہ ملزم ہے
اس کا کیا کرنا ہے  مجسٹریٹ کا اگلا سوال تھا
اس کا ریمانڈ دے دیں
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ کیوں دے دیں ریمانڈ وجہ بتاؤ ؟
اس لیئے کہ اس پر یہ ایف آئی آر ہے
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ ایف آئی آر سے کیا ہوتا ہے اس ملزم کے خلاف ثبوت کہاں ہیں  گواہ کون ہے ان کی گواہی کیا ہے  کیا تفتیش کی ہے برآمدگی کیا ہے  اور یہ کب سے حراست میں ہے
تفتیشی افسر نے کہا کہ چوبیس گھنٹے سے حراست میں ہے  ابھی تک  گواہ نہیں ملا  اور برآمدگی بھی نہیں ہوسکی


میں نے ایف آئی آر پیش کی تو ساب نے کہا  کیا صرف ایف آئی آر جو صرف الزام ہے کی بنیاد پر جیل بھیج دوں
میں مجسٹریٹ کو مطمئن نہیں کرسکا تو ساب نے  ریمانڈ نہیں دیا مجبوراً میں نے اس بے گناہ کی ہتھکڑی کھول دی
ساب صرف ایک مجسٹریٹ آج تک دیکھا ہے جو  سارے کام جانتا تھا کیونکہ وہ پہلے کورٹ کلرک تھا بعد میں  پراسیکیوٹر بنا اور اس کے بعد مجسٹریٹ بن گیا
ساب بہت تنگ کیا تھا اس مجسٹریٹ نے مجھے تنگ آکر ٹرانسفر ہی کروالی  میں نے

گزشتہ دنوں ایک اچھا تفتیشی افسر جس کا نام  بشیر خان  عرف بشیرا ہے  ایک کیس کے دوران  دوست بن گیا کافی گپ شپ رہتی  ہے اس کے ساتھ اس نے عدالتی نظام سے متعلق کافی انکشافات کیئے   خیر پہلے لائن پر نہیں آرہا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس نے   چور سپاہی اور عدالت کے متعلق کافی لرزہ خیز باتیں  مجھے بتائی ہیں
میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کبھی کسی مجسٹریٹ سے بھی واسطہ پڑا  اس نے کہا ساب میں میٹرک پاس نالائق اور آپ لوگ بڑے بڑے ڈبل گریجویٹ میرا اور ساب لوگوں کا کیا مقابلہ لیکن کافی اصرار پر اس نے بتایا کہ یہ آپ لوگوں کا نظام بس ایسے ہی ہے  لیکن ہمارے استادوں نے  ہمیں بتایا تھا کہ اس دن  کا انتظار کرنا جب ایک مجسٹریٹ کے پاس ریمانڈ کی درخواست لیکر جاؤگے  اور وہ تم سے سوال کرے کہ
  کیا ، کہاں ،کیوں اور کیسے ؟
میں نے پوچھا کہ اس کا مطلب
تفتیشی افسر  بشیرے نے کہا کہ  مجھے استادوں نے پولیس اکیڈیمی میں یہ بات سکھائی تھی کہ جس دن مجسٹریٹس نے یہ سوال جواب شروع کردیئے کہ  یہ سب کیا ہے یہ پاکستانی شہری کون ہے جس کو ہتھکڑی لگا کر لے آئے ہو  اس کے خلاف ثبوت کہاں ہیں  اس شہری کے خلاف گواہ کون ہے کس کی گواہی پر اس کو جیل بھجوادوں
پھر وہ یہ سوال کرے گا کہ اس کو کیسے جیل بھیج دوں وہ وجوہات تو بتاؤ
جب ہم یہ سب تقاضے پورے نہیں کرسکیں گے تو اس کو رہا کرنا ہوگا
استاد وں نے ایک نصیحت  بھی کی تھی میں نے کہا کیا  استادوں نے کہا تھا کہ جس دن  ایسے جج آجائیں تو بیٹا استعفٰی دے دینا اور کہیں  ٹھیلا لگا لینا
میں نے پوچھا کہ  کیا پوری زندگی میں ایسا جج ملا  تو اس نے کہا ہاں زندگی میں صرف ایک جج آیا ہے  آج تک میری زندگی میں  جو   بے غیرتی والے سارے کام جانتا تھا
ویسے ساب پوری زندگی گزر گئی اسی سوال کے چکر میں آج تک  کسی نے پوچھا ہی نہیں ہزاروں لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گناہگار بھی تھے بے گناہ بھی تھے کسی نے بھی آج تک نہیں پوچھا  کہ  کیا کیوں  کہاں اور کیسے؟
میں نے  بشیرے سے پوچھا کہ  کیا مسئلہ ہے عدالتوں میں کام کیوں نہیں ہوتا
بشیرے نے کہا کہ دیکھ لو ساب عدالت میں رش کی  وجہ سے کیس نہیں چلتے
میں نے کہا کہ جب ایک مجسٹریٹ کی  عدالت میں  سوکیس روزانہ لگے ہوئے ہونگے  تو کام کیا ہوگا
بشیرے نے کہا ساب یہ روزانہ پچاس کیسز کی حقیقت کیا ہے وہ صرف ہم جانتے ہیں
ساب ایک بات بتائیں  یہ پچاس کیسز میں کیا ہوگا میں نے کہا کہ یہ سب لوگ باعزت طور پر بری ہوجائیں گے
میں نے کہا کہ ہاں یہ سب لوگ باعزت بری ہوجائیں گے  جب شواہد ناکافی ہونگے تو یہی ہوگا
 میں نے کہا کہ  بشیرے تم لوگ غلط تفتیش کرتے ہو  تو ملزم باعزت بری ہی ہونگے عدالت تو شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہو
یہ سن کر بشیرا کافی دیر تک قہقہے لگاتا رہا  اتنی دیر کے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے  اور پیٹ میں درد ہوگیا
ساب پچاس کیس روزانہ  ۔۔۔۔۔۔بشیرے نے کہا ۔۔ صرف میں جانتا ہوں کہ ان کے اندر شواہد نہیں ہیں   ملزمان کے خلاف قانونی طور پر کیس بنتا ہی نہیں تھا   یہ تو مجسٹریٹس کی نااہلی ہے جنہوں نے اپنی عدالت میں یہ فائلیں جمع کررکھی ہیں
یہی وجہ ہے کہ تم لوگ غلط تفتیش کرکے لاتے ہو اور ملزم باعزت طور پر بری ہوجاتے ہیں

بشیرے نے کہا ساب  اب آپ لوگ  جج کی نااہلی  اور نالائقی کی ذمہ داری  پولیس پر مت ڈالو جب آپ کے عدالتی افسر نااہل  ہیں تو ہم کیا کریں   دنیا بھر کے نااہل ہڈ حرام  نالائق اور سفارشی  عدالتی نظام  میں جمع ہوگئے ہیں تو ساب یہ بھی ہمار ا قصور ہے
ساب ہم نے تفتیش کرلی اور چالان جمع کروادیا تو مجسٹریٹ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ چالان کو پڑھ کر اس پر اپنی رائے قائم کرتا  تو مجسٹریٹ لوگ یہ بات جانتے ہی نہیں  ہم غلط تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ہماری غلط تفتیش   کو کیونکہ وہ اپنی نالائقی  اور نااہلی  کی وجہ سے  سمجھ نہیں پاتے تو ہم کیا کریں  ساری ذمہ داری پولیس کی نہیں ہوتی  مجسٹریٹ غلط تفتیش کے جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے وہ ریمانڈ دیتا ہے جیل بھیجتا ہے  ہماری رپورٹ  مقدمے کی سماعت کیلئے  منظور کرتا ہے  اس  پر اپنی  رائے  قائم کرتا ہے اگر کسی ملزم کے خلاف شواہد کافی نہیں تھے تو آپ کے مجسٹریٹ نے  اس کیس پر اعتراض کیوں نہیں کیا وجہ جانتے ہیں ساب
وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کام ہی نہیں آتا   دوسرا  یہ لوگ ہڈ  حرام ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ  مجسٹریٹ لوگ نئی فائلیں جمع کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں  جعلی کیس اور جعلی کام ہے کہ  بڑھتا ہی بڑھتا چلا جارہا ہے  کیس چلتا ہے  کیس بے جان ہوتا ہے ملزم باعزت بری ہوجاتے ہیں  تو صرف ہمارے اوپر ملبہ ڈال دیا جاتا ہے   صرف ہمارا قصور نہیں ہے ساب کسی دن زبان کھول دی تو سب نرغے میں ہونگے   اگر یہ نالائق اور نااہل اپنی ذمہ داری ادا کرنا شروع کردیں تو  پولیس بھی ایسے شواہد تلاش کرکے لائے گی جس کے بعد کسی کا عدالت سے باعزت بری ہونا ناممکن ہوگا
میں نے کہا کہ اگر  اہل لوگ آجائیں   ایسے جج آجائیں جو قانون کو جانتے ہونگے سمجھتے ہونگے تو کیا ہوگا
بشیرے نے کہا اول تو یہ ناممکن ہے  کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں اہل لوگ آجائیں   اور جو نالائق بیٹھے ہیں وہ صرف چیخنے شور مچانے کو قابلیت سمجھتے ہیں لیکن جس دن اہل لوگ  آگئے  
ساب استادوں نے نصیحت کی تھی کہ اس دن پولیس کی نوکری ہی چھوڑ دینا  یہ جو مجسٹریٹ کی ٹوٹی پھوٹی ٹیبل پر  ہزاروں  فائلیں پڑی ہیں یہ سب ختم ہوجائیں گی    یہ  سب  شواہد  کے بغیر جعلی  مقدمات  ہیں کسی بے قصور کے خلاف چالان جمع کروانا ناممکن ہوجائے گا  جب نوے فیصد جعلی مقدمات  ختم ہوجائیں گے تو  مشکل سے ایک عدالت میں روزانہ دس کیس بھی نہیں ہونگے  لیکن ساب اناں تلاں اچ تیل کونی  یعنی ان تلوں میں تیل نہیں  ہے
اور جو دس مقدمات ہونگے ان سب میں ملزمان کو سزا لگانے سے کسی کا باپ بھی نہیں بچا سکے گا
اچھا تو بشیرے تیرا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک ملزم عدالت سے باعزت بری ہوتا ہے تو اس کے باعزت بری ہونے کی ذمہ داری علاقہ   مجسٹریٹ پر عائد ہوتی ہے جس نے پولیس کی غلط تفتیش اور ناکافی شواہد کے باوجود کیس کو سماعت کیلئے منظور کیا
بشیرے نے کہا جی جی بالکل  پولیس کے ساتھ ساتھ یہ نالائقوں اور نااہلوں کی فوج مظفر بھی برابر کی شریک ہے اور افسر زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے
میں نے بشیرے سے پوچھا کہ  ایک بات بتانا  کہ یہ رشوت لینا کیسے سیکھی
بشیرے نےکہا کہ یہ بات بتاتو دونگا لیکن کسی کو بتانا نہیں
رشوت لینا پولیس اکیڈیمی میں مجھے ایک استاد نے سکھائی تھی 
میں نے پوچھا تھا کہ سر رشوت کیسے لی جاتی ہے
استاد نے  کہا کہ رشوت لینے کیلئے رشوت دینا سیکھو
اس کے بعد جو بات بشیرے نے بتائی وہ میں کسی کو بتا نہیں سکتا لیکن اس کی بات سن کر ہنس ہنس کر پیٹ میں  بل پڑگئے اور  آنکھوں سے آنسو آگئے


لیکن افسوس وعدے کے مطابق یہ راز کی بات بتا نہیں سکتا 

صفی الدین 
03343093302

Saturday 2 January 2016

ڈاکٹر ظفراحمد شیروانی صاحب تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی تحریر صفی الدین اعوان


میں سندھ ہایئکورٹ کی توجہ دواہم معاملات کی جانب دلانا چاہتا ہوں  جن کا تعلق گورننس سے ہے
سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے کسی تھانے سے بھی ایف آئی آر رجسٹر ہونے کے بعد مجسٹریٹ کی عدالت میں چوبیس گھنٹے کے اندر فراہم نہیں کی جاتی   حالانکہ  ضابطے کے مطابق تو چوبیس گھنٹے کے  اندر اندر  علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں فراہم  کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔ قانون کے مطابق ایف آئی آر کی غیر موجودگی میں کوئی بھی ملزم عدالت سے حفاظتی ضمانت نہیں کرواسکتا اور اگر ایف آئی آر عدالت میں فراہم نہیں کی جاتی تو اس کی وجوہات  کیا ہیں
پہلی وجہ تو سندھ ہایئکورٹ کی یہ باقاعدہ غفلت ہے کہ سندھ ہایئکورٹ نے ایسا کوئی نظام ہی تشکیل نہیں دیا جس کے تحت  ایف آئی آر  کا ریکارڈ عدالت میں رکھنے کا نظام موجود ہو
کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کے تحت ایف آئی آر درج ہونے کے بعد کورٹ میں   اس کی ایک کاپی  فراہم نہیں کی جاتی تو تھانے کے خلاف کوئی کاروائی کی جاسکے ۔ ماضی میں ایک کچا رجسٹر بنایا گیا تھا جس کے مطابق کورٹ کا اسٹاف ایف آئی آر کا کچا ریکارڈ رکھتا ہے لیکن  اس رجسٹر کے مطابق بھی اہم ایف آئی آر  غائب ہوتی ہیں اور وہ مخصوص مقامات پر دستیاب ہوتی ہیں  

ضرورت اس امر کی ہے کہ   سندھ ہایئکورٹ اس حوالے سے باقاعدہ ایک نظام تشکیل دے جس کے تحت ایک مستقل رجسٹر بنایا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر ایف آئی آر کورٹ میں فراہم کی جائے اور وہ ریکارڈ روزانہ  مجسٹریٹ کے دستخط سے محفوظ کیا جائے
اگر ایف آئی آر کی کاپی مجسٹریٹ کی عدالت میں چوبیس گھنٹے میں نہ آئے تو ایس ایچ او کے خلاف کاروائی کی جائے
اس طرح کا ریکارڈ مرتب کیا جائے کہ اگر چوبیس  گھنٹے کے بعد ایف آئی آر کی کاپی عدالت میں  فراہم کی جائے تو عدالت کیلئے  بھی ممکن نہ ہوکہ وہ  اس قسم کی ایف آئی آر کو عدالت کے ریکارڈ پر لاسکیں  جس کے نتیجے میں اس ایچ او کے خلاف کاروائی کرنا ممکن ہوجائے گا جس نے چوبیس گھنٹے کے اندر کورٹ کو ایف آئی آر کی کاپی  فراہم نہیں کی

لیکن یہ بھی حقیقت جاننا ضروری ہے کہ ایف آئی آر کی کاپی عدالت کو فراہم کیوں نہیں کی جاتی   مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایف آئی آر  ان وکلاء کو فراہم کی جاتی ہے جو پولیس کے ساتھ مل کر پارٹنرشپ کے تحت  پریکٹس کرتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ  اہم نوعیت کی ایف آئی آر مخصوص مقامات پر دستیاب ہوتی ہیں  اور اس کی قیمت کم ازکم پانچ ہزار روپے ہوتی ہے
لیکن اس  کرپشن کی اصل ذمہ داری تو سندھ ہایئکورٹ پر عائد ہوتی ہے جس نے ایف آئی آر چوبیس گھنٹے کے اندر کورٹ میں فراہم کرنے کا کوئی بھی نظام تشکیل ہی نہیں دیا ۔ ضلع ملیر کے حالات تو سب سے زیادہ خراب ہیں وہاں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ایف آئی آر کی کاپی عدالت سے مل جائے  کیونکہ ملیر میں  یہ دائرہ تھوڑا سا وسیع ہوگیا ہے

وہاں  مجسٹریٹ ، کورٹ اسٹاف،مخصوص وکلاء اور پولیس  کی مضبوط پارٹنرشپ قائم ہے  ایک بار میں نے اپنے ذاتی زرائع سے کسی طرح ایک ایف آئی آر چوبیس گھنٹے  کے اندر حاصل کرلی اورکیس کے سلسلے میں کوئی درخواست دائر  کی تو ملیر کے کورٹ اسٹاف کو یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ  یہ ایف آئی آر کس طرح ایک عام وکیل تک پہنچ گئی  اس بات پر اسٹیک  ہولڈر آپس میں ہی لڑپڑے اور ایک دوسرے پر کاروباری بددیانتی کے الزامات کی بوچھاڑ کی سب سے بڑھ کر مجسٹریٹ تو یوں دیکھتا تھا جیسے میں  اس کی بھینس کھول کرلے گیاہوں
بار بار ایک ہی سوال کہ یہ ایف آئی آر آپ نے کیسے حاصل کی  ؟ کورٹ محرر کی اچھی خاصی کلاس کورٹ اسٹاف نے لے لی کہ یہ سب کیا ہے
بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ  اس دھندے کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیا موجود ہے جس کی سرپرستی میں ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے کہ عدالت میں کرپشن کو فروغ دیا جائے  یہی وجہ ہے کہ عدالت کی بجائے پولیس اسٹیشن میں رجسٹر ہونے والی ایف آئی آر  عدالت کے ریکارڈ پر نہیں لائی جاتی
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب آپ سندھ ہایئکورٹ کے سب سے طاقتور ترین رجسٹرار ہیں  سندھ ہایئکورٹ  کی تاریخ میں آپ جیسا طاقتور رجسٹرار پہلے کبھی نہیں آیا نہ آئے گا
مجھے آپ کی تقاریر اور تمام فلسفے آج تک یاد ہیں  مجھے امید ہے کہ آپ  کم ازکم اس کرپشن کا خاتمہ کرسکتے ہیں

دوسرا اہم مسئلہ جو  آپ کے ساتھ ماضی میں کئی بار  گفتگو کا حصہ رہا ہے وہ ہے پولیس اسٹیشن سے غیرقانونی حراست کا خاتمہ اہم نکتہ یہ ہے کہ صبح نوبجے سے پہلے اور  دوپہر تین بجے کے بعد عدالت کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ   بیلف مقرر کرے
اسی طرح تعطیلات کے دنوں میں کورٹ بیلف مقرر نہیں کرسکتی کیونکہ عدالت ہی بند ہوتی ہے اب شہری جائیں تو کہاں جائیں  ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب  اس مسئلے کا حل آپ جانتے ہیں اور جو کہ آپ نے خود ہی تجویز کیا تھا اور جس کی وجہ سے آج سے دس سال پہلے کراچی کے  ڈسٹرکٹ ایسٹ سے غیرقانونی حراست کا خاتمہ ہوگیا تھا  اور یہ اعزاز بھی آپ کو ہی حاصل ہے کہ امریکہ بیٹھ کر رات کو دوبجے آپ نے  ای میل کے زریعے  مجسٹریٹ کو بیلف مقرر کیا تھا جس نے تیموریہ تھانے سے غیرقانونی حراست کا خاتمہ کیا تھا سلام ہے آج بھی اس مجسٹریٹ کو جس نے رات کو تین بجے عدالتی احکامات کی تعمیل کی اور  اپنی نیند قربان کی جب عدلیہ  جاگ رہی ہوتی  ہے تو اس ملک کے کروڑوں شہری سکون سے  سورہے ہوتے ہیں
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب  ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ  عدلیہ گہری نیند سوچکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج غیرقانونی حراست ایک معمول کا حصہ بن چکی ہے  میرے اس سوال کا عدلیہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ تعطیلات اور عدالتی اوقات کے بعد غیرقانونی حراست کا خاتمہ کس  طرح کرتے ہیں  اور کیا یہ ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی نہیں

میں اس بات پر فخر کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ اگر اتوار کے دن اور سرکاری تعطیلات کے دن سندھ کی عدالتوں میں مجسٹریٹ آن ڈیوٹی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں عید کے دن بھی ایک عدالت شہر میں کھلی ہوتی ہے جو شہریوں کو پولیس کے چنگل سے نجات دلاتی ہے تو یہ سب  میری کاوش کا نتیجہ تھا کہ  اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ جناب سرمد جلال عثمانی صاحب نے ایک  تاریخی حکمنامے کے زریعے یہ ممکن بنایا تھا
اس سے پہلے سندھ میں اتوار کے دن تمام عدالتیں بند رہتی تھیں اور معمولی نوعیت کے کیسز خصوصاً ڈبل سواری کے ملزمان بھی  تین تین دن تھانے میں بند رہتے تھے  اور معمولی  قابل ضمانت نوعیت کے کیسز میں بھی  تھانے سے رہائی لاکھوں روپے کے لین دین کے بعد ممکن ہوتی تھی

مجھے امید تھی مجھے یقین تھا کہ  جب آپ رجسٹرار  مقرر ہوئے تھے تو  کم ازکم آپ ایف آئی آر کی بروقت فراہمی کے نظام  کو ضرور متعارف کروائیں گے اور غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے ایسا نظام ضرور متعارف کروائیں گے کہ ہماری عدلیہ چوبیس گھنٹے اس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ  غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے تھانے میں جاکر ریکارڈ چیک کرنے کی پوزیشن میں ہوگی
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب بہت ہی معذرت کے ساتھ یہ عرض ہے کہ یہ امیدیں پوری نہیں ہوسکی ہیں

ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب  شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے  ایک ایسا رجسٹرار جو فوجداری معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتا تھا اور فوجداری نظام کو اس اصل روح کی گہرائی تک سمجھتا تھا اور فوجداری معاملات میں جس کی کہی ہوئی بات ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتی تھی  تاریخ کا اس سے بڑا جبر  کیا ہوگا کہ اس رجسٹرار کی موجودگی میں بھی سندھ کی عدالتوں میں ایف آئی آر  کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام نہیں  اور غیرقانونی حراست کے خاتمے کا کوئی نظام عدالتی اوقات اور تعطیلات کے دوران موجود نہیں

یہاں میں ضمنناً عرض کردوں کہ شاید پورے پاکستان میں  قانون کے پورے شعبے میں وکلاء اور ججز سمیت کل سو افراد بھی نہیں ہونگے جو فوجداری نظام کو اس کی روح کے مطابق سمجھتے ہونگے
اور میں اگر صوبہ سندھ کی عدالتوں کی بات کروں تو   ہزاروں وکلاء،  سینکڑوں ججز اور جسٹس صاحبان  کی موجودگی میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ شاید پورے صوبے میں تیس افراد بھی  ایسے نہیں کہ  جو کریمنل جسٹس  سسٹم یعنی فوجداری نظام کو اس کی روح کے مطابق جانتے ہونگے  اور ان میں سے ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب ایک ہیں
میں اگر اپنی بات کے دعوے میں جاؤں تو ضابطہ فوجداری میں موجود ایک لفظ
Take cognizance
صرف اس لفظ کی تشریح اور اس کو سمجھنا بعض اوقات پوری زندگی ممکن نہیں ہوتا  اور جس ملک کی عدلیہ کو یہ لفظ سمجھ آجائے وہاں پولیس کبھی عوام کو تنگ نہیں کرسکتی 


لیکن اس کے باوجود اگر مسائل حل نہیں ہوتے تو ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب  تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے 
گی

SAFIUDIN AWAN 
03343093302 

جوڈیشل مجسٹریٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان

انٹرویو کسی کے خیالات  جاننے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے ایک ایسے وقت میں جب  عدلیہ انتہائی نازک  دور سے گزررہی ہے اور عوام الناس میں غلط فہمیاں عام ہیں تو ہم نے کوشش کی ایک مجسٹریٹ سے انٹرویو کے زریعے ان کے خیالات جاننے کی وہ مسائل جاننے کی جن سے وہ دوچار رہتا ہے
مجسٹریٹ  عدالتی نظام کی بنیادی اکائی ہے اور کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ بنیاد کی مضبوطی سے لگایا جاسکتا ہے عدالتی نظام کا صرف یہی عہدہ  درست کام کرے تو پولیس کلچر ختم ہوسکتا ہے  عدالتی نظام کی یہ بنیاد کن مسائل کا شکار ہے اور کتنی مضبوط ہے کوشش کی ہے کہ سوالات کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا رہے
انٹرویو کا مقصد اصلاح تھا تو شناخت کو چھپالیا گیا  تاریخ اور واقعات میں معمولی ترمیم کی اس لیئے ایک فرضی نام کے طور پر مجسٹریٹ کا نام ہے سچل"
سوال: سچل صاحب یہ بتایئں کہ کس طرح اس شعبے میں آئے؟
سچل: میں نے   شوقیہ طور پر اندرون  سندھ وکالت کا پیشہ جوائن کیا تھا اور اللہ کی مہربانی کے اچھے سینئر ملے بعد ازاں وکالت کا تجربہ اچھا رہا اسی طرح 2002 میں مجسٹریٹ کی سیٹیں آئیں تو آخری دن فارم بھرا بعد ازاں سلیکشن ہوئی میرٹ پر اور اندرون سندھ ہی ایک ضلع میں پوسٹنگ ہوئی

سوال: ایک مجسٹریٹ کی زندگی اور کیئرئیر میں بحثیت جج پہلا دن،پہلا مہینہ  کتنی اہمیت رکھتا ہے؟

جواب : پہلا دن ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ پہلے ہی دن ایک وڈیرے کا جس کی ضلع میں 400 ایکڑ زمین تھی  نے ایک غریب کسان  جس کی صرف ڈیڈھ ایکڑ زمین تھی کے بیٹے جس کی عمر 16 سال تھی کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا اور پولیس ریمانڈ کیلئے اس کو اس حالت میں زنجیروں سے  جکڑ  کر لائی کہ اس  کی قمیض پھٹی پرانی اور پاؤں میں جوتے بھی نہ تھے   وہ بچہ تھر تھر کانپ رہا تھااور یہ صورتحال ایسی تھی اس غریب کسان کے بیٹے کی آنکھوں میں جو درد تھا  جوڈر تھا جو خوف تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا اس صورتحال  نے مجھے شاک سے دوچار کیا مختصر یہ کہ اس جھوٹے مقدمے میں اس بچے کو ذاتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا جس کے بعد  پولیس افسران میں ہلچل مچ گئی کیونکہ وڈیرہ بااثر تھا اور سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا چند منٹ کے بعد ایڈیشنل ایس ایس پی کی کال آئی  اتفاقاً وہ افسر میرے ضلع کا تھا نہایت ہی بے تکلفی سے گفتگو شروع کردی اور مختصر تمہید کے بعد کہا کہ ایک عرض ہے کہ اس بدمعاش لڑکے  کا  چند روز کا ریمانڈ دے دیں  معاملہ عزت کا بن گیا ہے یہ سن کر میں نے کہا کہ شاید آپ کے پولیس افسران کو یہ بھی نہیں پتا کہ کم عمر بچوں کو ہتھکڑی  لگا کر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا دوسرا یہ کہ اگر آئیندہ میری عدالت میں  کسی بھی کم عمر بچے کے ساتھ ایسا ہوا تو بلاتکلف آپ کے پولیس افسران کو جیل بھیج دوں گا  جس کے بعد پولیس افسر نے کال کاٹ دی مختصر یہ کہ پہلا ہی دن ہنگا مہ خیز رہا بعد ازاں پورا مہینہ یہی صورتحال رہی  اس وقت اندرون سندھ وڈیرہ شاہی عروج پر تھی   پولیس  ان کے ذاتی ملازم کے طور پر کام کرتی تھی  اور کرتی ہے  اور عدلیہ  کی نااہلی  کی وجہ سے  پولیس لوگوں پر ظلم کرتی ہے



پہلے  ہی دن سماجی تعلقات داؤ پر لگنا شروع ہوئے سماج سے رشتہ ٹوٹنا اور انسانیت سے رشتہ جڑنا شروع ہوا بدقسمتی  سے سندھ کے وڈیرے اور سرمایہ دار  سیشن  جج کے حکم پر یا یاری  دوستی میں  ججز اور جسٹس صاحبان کیلئے شکار کی محفلیں سجاتے ہیں جن پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں  جس کی وجہ سے بھی عدلیہ بھی کسی نہ کسی صورت ان مظالم میں شریک ہوجاتی ہے۔  مزے کی بات یہ ہے کہ جس سپریم کورٹ میں تلور کے شکار کے خلاف کیس کی  سماعت ہوتی ہے سماعت کے بعد اسی سپریم کورٹ کاایک جسٹس خود تلور کا شکار کھیلنے کیلئے  نکل پڑتا ہے  ۔ یہ بھی ایک دوہرا معیار ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اسقدر سوشل ہوں کہ وہ  ان دولت مند افراد کی میزبانی میں غیرقانونی  شکار کا شوق پورا کرتے ہوں  جن کے خلاف مقدمات ان ہی عدالتوں میں زیرسماعت ہوں

پہلا مہینہ مکمل ہوا تو دوسرا شاک اس وقت لگا جب ماہانہ تنخوا کا چیک وصول ہوا   اس زمانے میں  تنخوا اتنی کم تھی کہ وکالت کے دنوں میں اتنے پیسے دوستوں  اور کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے تھے جس کے بعد والد صاحب کو بتایا کہ عہدہ تو اچھا ہے کیونکہ وہ میری کارکردگی سے خوش تھے   لیکن تنخوا بہت کم ہے  اس لیئے میں شاید عدلیہ میں اپنا کیرئیر جاری نہ رکھ سکوں جس کے بعد والد محترم نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ یہ عہدہ پیسے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کا ہے کچھ عرصہ کرو پھر دیکھیں گے دومہینے کے بعد والد محترم نے مجھے ایک معقول رقم بھجوائی جس  سے میں نے (اے سی ) لگوایا اس زمانے میں اندرون سندھ کسی جج کی جانب سے (اے سی) لگوانا یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کررہا ہے یا لگژری لائف کی علامت سمجھا جاتا تھا میرے ایک قریبی عزیز کی کال آئی کہ سنا ہے (اے سی ) لگوالیا ہے میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے  میں نے کہا والد نے دیئے ہیں  اے سی کے اخراجات کیسے برداشت کروگے میں نے کہا کہ جس طرح باقی لوگ کرتے ہیں بل تو آتا ہی نہیں پوری کالونی کنڈا لگاتی ہے ہمارے تو سیشن جج کا گھر بھی کنڈے پر چل رہا ہے تو میرے قریبی عزیز نے کہا کہ جج ہوکر بجلی چوری کروگے یہ سن کر مجھے افسوس ہوا  غلطی کا احساس ہوا میں نے دوسرے ہی دن الیکٹرک کمپنی کے لیگل ایڈوایئزر کو بلوا کر میٹر لگوایا اگرچہ یہ باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہیں لیکن یہی باتیں  انسان  کا کردار متعین کرتی ہیں

سوال: پہلا سال کیسے گزرا؟
پہلا سال  کسی بھی جج کیلئے بہت اہم ہوتا ہے لوگ سفارش کیلئے دوستوں اور عزیز واقارب سے رابطے کرتے ہیں  رشوت کی آفرز ہوتی ہیں اکثر لوگ گھر تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح وہ دوست جن کے ساتھ وکالت میں وقت گزارا لوگ ان تک پہنچتے ہیں سفارش کرواتے ہیں
ایک بار قریبی عزیز ایک لاکھ روپیہ لیکر آگیا کہ فلاں کا کام کردو میں نے نہایت طریقے سے منع کیا اس کو سمجھا کر واپس کردیا۔ دوستوں کو اہمیت نہیں دی تو سماجی تعلقات خراب ہوئے جو بعد ازاں چند سال بعد اس وجہ سے بحال ہوئے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش نہیں مانی  بنیادی طور پر خاندان اور ذاتی ترجیحات بھی اہمیت رکھتی ہیں  جب خاندان توقع رکھتا ہے کہ ہم  غلط کام کریں تو لوگ مجبور ہوجاتے ہیں جب خاندان ہدایت دیتا ہے کہ حق حلال کما کر لاؤ تو انسان ثابت قدم رہتا ہے جب آپ اپنی اہلیہ کے ہاتھ پر حق حلال کی کمائی رکھتے ہیں اور وہ اسی کم آمدن پر صابر وشاکر رہتی ہے  تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے لیکن لوگوں کو اپنے کام نکلوانے ہیں وہ اپنے مسئلے سے اور عدالت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کسی بھی جج کے کردار کی گواہی اس کا ذاتی اسٹاف ، اس کا پٹے والا،اس کا ریڈر اور ڈرایئور دیتے ہیں  پہلے مرحلے میں لوگ انہی کے زریعے  کوشش کرتے ہیں کہ کام کیسے نکلوایئں  جج سفارش مانتا ہے یا پیسے لیتا ہے اس کا قریبی دوست کون ہے کس کی بات نہیں ٹال سکتا یہ وہ باتیں جن سے ہرجج کو گزرنا پڑتا ہے  میری عدالت میں میرے آبائی ضلع سے لوگ میرے پرانے دوستوں کو تلاش کرکے لائے اور وہ جب میری عدالت میں آئے تو میں نے ان کی سفارش کو نہیں مانا میرٹ پر ان کا جو بھی ریلیف بنتا تھا دیا جس کی وجہ سے دوست ناراض ہوئے لیکن پہلے سال کی مشکلات کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوگیا  اور اس کے بعد  یہ سلسلہ ختم ہوا کافی عرصہ ہوا  نہ تو کوئی سفارش لیکر آیا نہ کسی نے آفر کی ہمیں لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ وہ اسقدر دوڑ دھوپ کیوں کرتے ہیں  بنیادی طور پر بعض اوقات جائز کام کیلئے بھی ناجائز زرائع استعمال کیئے جارہے ہوتے ہیں  اگر جائز کام فوری کردیئے جایئں تو لوگ اس قسم کی دوڑ دھوپ کیوں کریں؟

سوال: بعض اوقات پرانے دوستوں کو اہمیت تو دینا ہی پڑتی ہے؟

جواب : جج بن جانے کے بعد سماجی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں  انسانیت سے رشتہ جوڑنے کیلئے تعلقات اہمیت نہیں رکھتے   جب آپ ایک دوست کی سفارش مانیں گے تو یہ خبر باقی دوستوں تک پہنچے گی  اس طرح قطار بن جائے گی اسی طرح ایک بلاوجہ کی بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہوگا ہاتھ صاف نہیں ہونگے تو  اعتماد ختم ہوجائے گا سماجی تعلقات کے چکر میں انسان انصاف سے دور ہوجاتا ہے

سوال: کیا کبھی کسی سیشن جج نے کسی کام کیلئے دباؤ ڈالا؟

جواب: جی ہاں لیکن صرف ایک بار واقعہ یہ تھا کہ میں نے ایک بااثر پولیس افسر کو جرم ثابت ہو نے پرسزا سنائی  اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دیر بعد میرے سیشن جج کی کال  میرے سیل فون پرآئی اور کہا کہ پولیس افسر کے معاملے میں نظر ثانی کریں میں نے کہا کہ میں تو گھر آگیا ہوں یہ سن کر سیشن جج آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ جانتے ہو کس سے بات کررہے ہو میں فلاں ہوں میں نے کہا کہ بالکل جانتا ہوں لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں سچل بات کررہا ہوں یہ سن کر انہوں نے کال منقطع کی بعد ازاں اپیل میں سیشن جج نے اس پولیس افسر کو باعزت بری کردیا اسی طرح ایک پولیس افسر نے ایک وڈیرے کے حکم پر ایک بچے کو  جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے گرفتار کرنے کے بعدتھانے میں کرسی پر بٹھا کر بجلی کے تار سے  نہایت ہی ظالمانہ طریقے سےجکڑا   اور گھر چلا گیا اس دوران وہ بجلی کے تار  اس کے جسم میں اتر گئے  وہ شدید زخمی ہوگیا لیکن ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ پولیس افسر  دوسرے دن  ریمانڈ کے دوران خودکشی کے مقدمہ بھی بناکر لے آیا کہ اس ملزم نے بلیڈ مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے  میں نے میڈیکل کروایا  جس سے بلیڈ مارنا ثابت نہیں ہوا یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے تار سے ملزم کو جکڑا گیا تھا کیس رجسٹر کرکے ٹرائل کیا شواہد مضبو ط تھے سزا سنائی یہ  پولیس افسر بھی  سیاسی طور پر طاقتور تھا ججمنٹ جاندار تھی سیشن جج نے رہا تو نہیں کیا دوبارہ ٹرائل کروا کر گواہ منحرف کروائے گئے اس طرح پولیس افسر کی جان بچائی گئی یہ دو انفرادی واقعات تھے  جو کہ پورے 11 سال کے کیئرئر میں پیش آئے  اس کے بعد  کبھی کسی سیشن جج نے میرے اختیارات میں مداخلت نہیں کی رشوت نہ لینے والا اور اصولوں پر چلنے  والے انسان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا

سوال: وکلاء کا رویہ کیسا رہا ؟

جواب: اندرون سندھ بار اور  وکلاء کا رویہ ججز کے ساتھ بہت اچھا ہے وہ کورٹ اور جج کا ادب کرتے ہیں  اور کبھی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتے نہ ہی شور شرابہ کرتے ہیں  مجھے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اندرون سندھ   کسی وکیل سے کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی اور نہ ہی بار سے کوئی شکایت رہی نہ ہی بار کی جانب سے کبھی مجھ پر کبھی کوئی دباؤ رہا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ میرا دامن صاف ہے   اس کی  ایک  اور وجہ سندھ کی وہ ہزاروں سال پرانی روایات ہیں  جس کے تحت وہ جج کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ کبھی پیش آیا بھی ہوگا تو میرے علم میں نہیں یہاں تک کے عوام الناس میں بھی احترام ہے

سوال: لیکن وکلاء اور ججز کے تعلقات خراب رہتے تو ہیں؟

جواب: میرے علم میں نہیں  میں خود غلط نہیں ہوں تو کوئی مجھے غلط کام کرنے کا نہیں بولتا  نہ ہی کوئی پریشر ڈالتا ہےمیں صرف اتنی بات جانتا ہوں۔ جن کے تعلقات خراب ہیں وجہ بھی وہی جانتے ہونگے
جب میرٹ پر کام کریں گے وقت پر کام کریں گے تو تعلقات کی خرابی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا

سوال:بحیثیت جج کراچی کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: کراچی کا تجربہ بھی ٹھیک ہی ہے  شروع شروع میں کچھ  لوگوں نے شور شرابہ کیا  لیکن جب میرا اپنا دامن صاف ہے تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ایک بار  میں نے بار ایسوسی  ایشن کی ایک اہم شخصیت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ  بڑے ہی غصے میں کمرہ عدالت میں تشریف لائے اور اوپن کورٹ میں کہا کہ ہم آپ کی تنخواہوں میں اضافے کےلیئے سپریم کورٹ تک  گئے اور آپ ہمارے خلاف ہی فیصلے دے رہے ہیں میں نے تحمل سے کہا کہ میں نے کب کہا ہے آپ کو کہ میری تنخواہ میں اضافے کیلئے آپ کوشش کریں یا سپریم کورٹ جایئں    یہ فیصلہ میرٹ پر کیا ہے کسی کے خلاف نہیں یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے اور عدالت سے چلے گئے بہرحال سیشن جج نے ان کا کیس میری عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا مختصر یہ کہ  ایک دومعمولی واقعات کے بعد یہاں بھی صورتحال ٹھیک ہوگئی  نہ ہم غلط کام کرتے ہیں اور نہ ہی غلط بات برداشت کرتے ہیں ہماری ایمانداری ہمارا اصل اعتماد ہے

سوال: کوئی بھی جج پہلی غلطی کب کرتا ہے؟

جواب: پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ کسی جاننے والے کی یا کسی دوست کی سفارش مان لیتا ہے یہی غلطی کرپشن کے سارے راستے کھول دیتی ہے اور جج خود اعتمادی سے محروم ہوجاتا ہے جج کو انسانیت سے رشتہ جوڑنا چایئے لیکن میں کہتا ہوں "بے درد نامرد" جس جج کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے انسانوں کے دکھ اور درد کو محسوس نہ کرسکتا ہو تو میرا خیال ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ  ایسے ایماندار جج جس کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو اس سے وہ جج بہت بہتر ہے جو پیسے لیکر کم ازکم کام تو کردیتا ہے کیونکہ رشوت لینے والا کم ازکم کام تو کرتا ہے  جبکہ ایماندار نفسیاتی جب تک سو افراد کو اپنی ایمانداری کا گواہ اور وکلاء کو کورٹ کے سو چکر نہ لگوالے اس کا ایمانداری کا ہیضہ ٹھیک ہی  نہیں ہوتا
انسانیت کا درد محسوس کیئے بغیر جج کا عہدہ بے معنی ہے ۔

سوال : کیا وجہ ہے کہ ایماندار ججز کی اکثریت نفسیاتی ہے؟

جواب : ایسا ہرگز نہیں ہے بہت سے اچھے جج موجود ہیں جو ایماندار ہیں اور  عدلیہ میں ان کی عزت ہے بنیادی طور پر ایمانداری بھی ایک جھانسا ہے  چند ججز کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ایمانداری کے چرچے ہوں یہی وجہ ہے کہ وہ صبح سویرے روٹھی ہوئی بیوہ کی طرح شکل بنا کر بیٹھ جاتے ہیں  ۔ کام نہیں آتا تو فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی  فائل کو دبا کر بیٹھے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کام کا پریشر بڑھ جاتا ہے اور وہ  آہستہ آہستہ نفسیاتی بن جاتے ہیں  وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کا جینا کس طرح  
حرام کیا جائے


سوال:  کیا عدلیہ  فرسودہ نظام کو ختم کرسکتی ہے؟

جواب: بالکل اگر  نچلی سطح پر توجہ دی جائے تو عدلیہ فرسودہ اور ظلم کے نظام پر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے صرف تربیت یافتہ جوڈیشل مجسٹریٹس ہی تھانہ کلچر کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔  بلکہ اگر عدلیہ درست سمت میں سفر کرے تو ایک عام آدمی کی زندگی میں انقلاب آجائے

سوال : وقت کے ساتھ بحیثیت جج کیا تبدیلی آئی؟

جواب: پہلے جب لوگ سفارش کرواتے تھے تو چڑ کر ان کے خلاف فیصلے دے دیتا تھا لیکن اب کوشش ہوتی ہے کہ انصاف کیا جائے لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو لوگ سفارش تلاش نہیں کریں گے  اس لیئے بروقت فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہوں  صرف بروقت فیصلے ہی کرپشن کا خاتمہ کرسکتے ہیں
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ تجربہ کار  وکلاء اس سیٹ پر آئیں یہ جو ایک دن کی پریکٹس والے  وکیل کو جوڈیشل مجسٹریٹ لگا دیا جاتا ہے یہ پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کے ساتھ  گینگ ریپ کرنے کے مترادف ہے
سوال: کیا عدلیہ اندرونی طور پر ٹھیک کام کررہی ہے ؟
جواب : جی نہیں عدلیہ اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہے۔ جسٹس صاحبان کی اولاد بھانجوں بھتیجوں بیویوں سالیوں  کو  جلد ترقی ملتی ہے ان کو بڑے اضلاع میں  پوسٹ دی جاتی ہے جبکہ ایک عام جج کو قسمت سے ہی ترقی ملتی ہے ۔ خوشامدی ٹولے کو جلد ترقی مل جاتی ہے جبکہ ججز کی پروموشن کا آج تک کوئی معیار مقرر ہی نہیں ہے جو جتنا زیادہ چاپلوس ہے جو جتنا زیادہ خوشامدی ہے وہ زیادہ ترقی کا حقدار ہے اگر  جسٹس   صاحبان کے بیٹوں ،بیٹیوں، دامادوں، سالوں ،سالیوں ،بیویوں اور   دوستوں کی اولادوں کو پروموشن دینے کے بعد بھی اگر کوئی سیٹ  قسمت  سے بچ  جائے تو پھر ایک عام جج  بھی پروموشن  کا حقدار  بن جاتا ہے اس وقت ماتحت عدلیہ مکمل طور پر ذاتی رشتے داروں سے بھر چکی ہے
 کئی جسٹس صاحبان نے تو اپنے پورے  پورے "ٹبر" یعنی پورے  گھر کے افراد  عدلیہ میں فٹ کروا دیئے ہیں   اندھی مچ  گئی ہے  یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ عدالتیں جسٹس صاحبان  کے والدین کو جہیز میں ملی ہوئی ہیں  
عدلیہ کا سب سے اہم کام انتظامیہ کو کنٹرول کرنا ہے ۔ لیکن اس وقت ساری توجہ انتظامیہ کو کنٹرول کرنے کی بجائے  پورے خاندان کو جج کی نوکری دلانے اور جو۔۔۔۔ ہوگئے ان کو ترقی دلانے پر لگی ہے ان کے لیئے بڑے اضلاع میں پوسٹنگ  یہ مقدس شعبہ بھی نوکری پیشہ بن گیا ہے  ۔
یہاں میرا بھی ایک سوال ہے کیا نوکری پیشہ ۔۔۔۔۔۔ انصاف کرسکتا ہے
  
03343093302
safilrf@gmail.com 
  تحریر صفی الدین اعوان