Powered By Blogger

Wednesday 30 November 2016

ڈھائی کلو گرم پکوڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان






پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت بھی پانچ سو چھ بی کے  لاکھوں جعلی اور جھوٹے   مقدمات زیر سماعت ہیں  


پاکستان کے تمام ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک وقوعہ ناقابل یقین حد تک عام ہے یہ ایک جعلی وقوعہ ہوتا ہے جس میں باقاعدہ ڈھونگ رچاکر ایک مصنوعی حملہ کروایا جاتا ہے۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے ہی گھر پر یا اپنے آپ پر یا اپنی گاڑی پر خود  ہی  فائرنگ کروادی جاتی ہے وقوعہ کے گواہ قریبی عزیز واقارب ہوتے ہیں جو پولیس کے سامنے گواہی دیتے ہیں کہ فلاں ابن فلاں آیا تھا اور فائرنگ کرکے چلا گیا کوئی بندہ زخمی نہیں ہوا بعض اوقات دروازے یا دیوار پر گولیوں کےنشانات دکھانے کیلئے  چند گولیاں بھی ماردی جاتی ہیں  اقدام قتل کے ایسے تمام مقدمات جن میں کوئی زخمی نہیں ہوتا ایسے تمام مقدمات ہی جعلی اور پلانٹڈ ہوتے  ہیں زیادہ تریہ زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چار ملزمان دن دیہاڑے گھر میں داخل ہوئے پستول لہرا کر جان سے مارنے کی دھمکی اور دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا
عدالتوں کی آدھی سے زیادہ رونق اس قسم کے جھوٹے مقدمات  کی وجہ سے ہے ایف آئی آر رجسٹر کروانے کیلئے 22
 اے کے زریعے بھی ایف آئی آر رجسٹر کروائی جاتی ہے  ہماری وکلاء برادری نے بھی بائیس اے کے ساتھ اتنا لاڈ پیار کیا ہے کہ اب اگر بائیس اے کی درخواست لیکر جاؤ تو ججز کو بالکل درست غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ یہ جعلی وقوعہ بنایا گیا ہے  اور وہ درخواست  خارج کردیتے ہیں
گزشتہ دنوں  کراچی  کے ڈسٹرکٹ سینٹرل کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ایک سندھی وڈیرے کا مقدمہ آیا جس میں اس وڈیرے نے اپنے ہی گاؤں   کےایک پولیس انسپکٹر کے ساتھ مل کر ایک مشکوک نوعیت کا مقدمہ قائم کیا جس کا بنیادی نقطہ یہی تھا کہ چار افراد نے مل کر اس  وڈیرے کو جان سے مارنے کی نیت سے کراچی کی ایک سڑک پر فائرنگ کی لیکن وہ خوش نصیب شخص محفوظ رہا جس کے بعد پولیس نے  فوری طور پر مقدمہ قائم کرکے اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کو ٹندو آدم سے جاکر گرفتار کیا  اور ریمانڈ کیلئے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا مجسٹریٹ صاحب نے مکمل روداد سنی اور سننے کے بعد متعلقہ ضلع کے ایس ایس پی کو عدالت کے  اس  جعلی اور مشکوک  واقعہ سے متعلق  تحفظات اور کسی اور تفتیشی افسر سے تفتیش کروانے کا کہا ایس ایس پی نے فوری طور پر نیا تفتیشی افسر مقرر کیا
اصل حقیقت اس وقت سامنے آئی جب جوڈیشل مجسٹریٹ نے یہ کہا کہ مدعی مقدمہ کے موبائل فون کا سی ڈی آر ڈیٹا  نکلوا کر لاؤ تو پتہ یہ چلا کہ  مدعی مقدمہ تو کبھی کراچی آیا ہی نہیں تھا اس کی غیر موجودگی میں اس کے گاؤں  اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے تفتیشی افسر نے نمک حلال کیا تھا  اور خودہی ایک خود ساختہ وقوعہ بنا کر  ایف آئی آر رجسٹر کرکے ملزمان کو گرفتار کیا تھا
جج صاحب نے اچھا کردار ادا کیا ان کی وجہ سے ملزمان کی جان بچ گئی لیکن ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ ان تمام حقائق کے باوجود پولیس افسر کے خلاف نہ تو کوئی کاروائی ہوئی نہ کوئی ایکشن ہوا بلکہ اس کو چھوڑ دیا گیا   اس کی وجہ کیا ہے وہ ہم اور آپ جانتے ہی ہیں کہ عدلیہ بحیثیت ادارہ پولیس کی ذہنی ماتحت  اور ذہنی غلام ہے  اس لیئے ایک خاص مقام پر آکر ججز کی حدود بھی ختم ہوجاتی ہیں   جس ملک کا چیف جسٹس پولیس کی ذہنی غلامی اور ذہنی  ماتحتی پر فخر کرتا ہو وہاں ماتحت عدلیہ سے ہم کیا توقع کریں
یہ  ڈسٹرکٹ کورٹس ظلم اور بربریت کی جگہ ہے یہاں آتے ہی انسانیت دم توڑدیتی ہے کیونکہ یہاں آج بھی اقدام قتل  اور جان سے ماردینے کی جھوٹی دھمکیاں  دینے کے ایسے ہی مقدمات پیش ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ایف آئی آر چالان کاپی سپلائی فرد جرم گواہی ہڑتال تاریخیں اچھا چار سال گزرنے کا پتہ ہی کہاں چلتا ہے
کل ایک عجیب واقعہ ہوا ایک    انتہائی  بااثر آدمی نے تھانے سے رابطہ کیا اور اپنے ڈیرے پر بلوا  کر  کہا کہ صبح سویرے مجھے چار افراد نے  لائٹ  ہاؤس کے قریب  پستول دیکھا کر مجھے لوٹ لیا ہے ملزمان کافی دیر سے میرا پیچھا کررہے تھے
ایس ایچ او نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا تو کسی منسٹر کے زریعے دباؤ ڈالا تو ڈی ایس پی خود  ڈیرے پر حاضر ہوگیا ڈی ایس پی بہت ہی سمجھدار آدمی اور نفسیاتی مار مارنے والا انسان تھا ڈی ایس  پی پوچھا یہ صبح کتنے بجے کا واقعہ ہے بااثر آدمی نے کہا صبح آٹھ بجے  تو ڈی ایس پی نے  کہا آج صبح آٹھ بجے تو میں اسی چوک پر ڈیوٹی پر تھا اوگشت بھی کررہا تھا  ڈی ایس پی نے ایس ایچ او کو کہا اچھا ایسا کرو وہاں کیمرے لگے ہوئے ہیں ان کا ریکارڈ دس منٹ کے اندر نکلوا کر لاؤ  ویسے بھی ڈاکو ایک گھنٹے سے پیچھا کررہے تھے راستے میں کتنے سگنل آئے ٹریفک جام ہوا ملزمان کو میرے تھانے کی حدود ہی ملی تھی تمہیں لوٹنے کیلئے
یہ سن کر تو بااثر بندے کی ہوا نکل گئی اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگ گیا  اس سے پہلے کہ ایس ایچ او سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ لینے جاتا وہ بندہ  ڈیرے سے پشی کرنے کے بہانے وہاں سے ایسا  بھاگا کہ مڑ کر دیکھا ہی  نہیں مزے کی بات یہ کہ  بعد میں مجھے ڈی ایس  پی  نے بتایا کہ اس مقام پر سی سی ٹی وی کیمرہ تھا ہی نہیں   مزید  کہا کہ دولاکھ کا کام منسٹر کے فون پر مفت کیوں کریں
گزشتہ دنوں چیف جسٹس سندھ  اور صوبہ سندھ کی  عدلیہ  کے مرد آہن جناب سجاد علی شاہ صاحب نے ایک عجیب بتائی اور ٖ فخر بھی کیا کہ  سندھ کی عدالتوں سے چار لاکھ کریمینل  مقدمات ختم ہوگئے ہیں اور مزید سوا لاکھ مقدمات  ابھی بھی زیر سماعت ہیں  چیف صاحب اگر گستاخی معاف تو ایک ننھی منی سی عرض ہے کہ  جس ملک میں تقریباً سو فیصد   شرح ملزمان کی رہائی کی ہوتو اس ملک میں کیس چلا کر مقدمہ ختم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے  کیوں اتنا قیمتی وقت  برباد کیا جاتا ہے اگر باقی ماندہ کیسز کی فائلیں کسی کباڑی کو بلا کر  تول کر فروخت کردی جائیں اور ملزمان کو چھوڑ دیا جائے تو  قیمتی وقت بھی بچ جائے گا اور باقی ماندہ مقدمات بھی نمٹ جائیں گے  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جعلی جھوٹے مقدمات پر مبنی کیسز کی فائلیں کسی کباڑی کو ردی کے بھاؤ بیچنے پر یہ بھی ممکن ہے کہ دو ڈھائی کلو پکوڑے ہی مل جائیں گے چیف صاحب ادب سے درخواست ہے کہ جب جعلی جھوٹے اور فریب پر مبنی مقدمات کی فائلیں  ردی کے بھاؤ تول کر بیچ دینے کے بعد اگر ڈھائی کلو  گرم گرم پکوڑے مل جائیں تو پکوڑوں کی  شاندار دعوت اڑاتے ہوئے مجھے  اس دعوت میں شریک کرلینے کی التجا ہے کیونکہ  آج کل کے دور میں   اتنا قیمتی مشورہ کون دیتا ہے وہ بھی بالکل مفت   یقین کریں یہ بہت ہی اچھا مشورہ ہے
بلاوجہ وارنٹ نکلتے ہیں بلاوجہ ہی کورٹ محرر جعلی رپورٹس لگاتے ہیں  بلاوجہ ہی   جعلی گواہی ریکارڈ کی جاتی ہے گواہی ریکارڈ کرتے ہوئے کتنا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے   وکلاء  اوٹ پٹانگ سوال کرکرکے  بلاوجہ کا وقت  برباد کرتے ہیں  اور ججز کے قلم بھی  جھوٹی  گواہیاں لکھ لکھ کر ان کی نوک گھس جاتی ہے بلاوجہ ملزمان کو ڈانٹ ڈپٹ  اور غیر حاضری پر اسکول ماسٹر کی طرح ڈانٹ ڈپٹ  اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات میرا کہنا یہ کہ یہ سب جھوٹ ہے  

Sunday 6 November 2016

مچھ جیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان



کسی زمانے میں   بلوچستان کی  مچھ جیل کی وجہ   شہرت یہ تھی کہ وہاں اگر کسی  سیاسی  قیدی کو پھینک دیا جاتا تو پہلے تین سال تک تو اس کو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا کہ  جیل آئے ہی کیوں ہو بعد ازاں  تین سال بعد اس سے خیر خیریت پوچھی جاتی کہ بھائی جان معاملہ کیا ہے اور کیوں ہے اور تین سال بعد اس کو عدالت روانہ کیا جاتا ہے  ہوسکتا ہے کہ یہ بات مبالغہ آرائی پر مبنی ہو لیکن عوام الناس میں مچھ جیل ایک محاورہ تھا کہ جو زیادہ تنگ کرے اس کو مچھ جیل بھیج دو جہاں وہ بغیر عدالتی ٹرائل کے پڑا رہے گا
غریب آدمی اور عوام الناس کیلئے اعلٰی عدلیہ مچھ جیل ہی بن  چکی ہے  پہلے تین سال تک تو کوئی پوچھتا ہی نہیں  تین سال  بعد کبھی وکیل نہیں تو کبھی  جج نہیں اور زیادہ تر تو نمبر نہیں آتا  اور اگر خوش قسمتی سے نمبر آبھی جائے تو کیس چلتا ہی نہیں ہے  جبکہ ڈسٹرکٹ کورٹس میں اس وقت بہت تیزی سے کام جاری ہے
عملی طور پر اعلٰی سطح یعنی سپریم کورٹ اور ہایئکورٹس کی سطح پر عدالتی نظام کم ازکم غریب آدمی کیلئے مفلوج ہوچکا ہے
اعلٰی عدلیہ میں جاکر غریب صرف دربدر ہی ہوتا ہے  اسی لیئے ساب لوگ آپس میں بات کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوا تھا ساب لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوا تھا اور اگر پیدا ہو بھی گیا تھا تو   عدالت کیوں آیا کیونکہ اربوں کھربوں روپے کے تنازعات کے حل کے دوران غریب آدمی کا تو نمبر ہی نہیں آتا
ہایئکورٹ میں کیسز کیوں نہیں  چلتے یہ ایک الگ بحث ہے 
اگر ہم صرف کراچی میں  بیٹھ کر گزشتہ دس سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو   ڈسٹرکٹ  کورٹس  کی سطح  پر عدالتی نظام میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں
عدالتی نظام مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے ۔ کیسز  کے نمٹائے جانے میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے    جوڈیشل مجسٹریٹ  سینئر  سول ججز اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  ججز کو اب پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ کر بھی رہے ہیں   اور وہ کمپیوٹرائزڈ سوفٹ  ویئر کی وجہ سے اب کام  کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں  ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کچھ بہت اچھا ہوچکا ہے لیکن  ماضی کی ابتر صورتحال کے مقابلے میں   صورتحال بہت ہی زیادہ بہتر ہوئی
اب صرف اہم معاملہ رہ گیا  وہ نااہلی کا ہے کیونکہ سفارشی لوگ جو کسی نہ کسی طرح سسٹم میں  گھس گئے  تھے ان کی نااہلی کی وجہ سے   قانونی مسائل جنم لے رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نااہلی دونوں اطراف سے ہے  ججز کے ساتھ ساتھ وکلاء بھی نااہلی کا شکار ہیں   جتنی محنت درکار ہوتی وہ محنت وکیل اب کم ہی کرتے ہیں  جبکہ
دوسری طرف   عدلیہ  میں بھی سفارشی لوگوں کو پروموشن بھی بہت جلد مل جاتی ہے   
     پولیس اسی طرح غلط تفتیش کرکے غریب آدمی کو مقدمات میں پھنسانے  میں مصروف ہے تو  پہلے جعلی کیس ختم ہونے میں تین سال کا وقفہ ہوتا تھا تو اب یہ دورانیہ  پہلے کے مقابلے میں کافی کم ہوگیا ہے  اس حوالے سے عدلیہ بدستور پولیس کی سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ  پولیس کی بددیانتی اور غلط تفتیش کو کنٹرول کرنے کیلئے جو صلاحیتیں درکار ہیں اس سطح کے عدالتی افسر  پاکستان کے عدالتی نظام میں موجود ہی نہیں ہیں   صرف ایک فیصد ایسے عدالتی افسران موجود ہیں  جو پولیس کی بددیانتی کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں موجودہ عدلیہ شاید پولیس کی جعلی تفتیش کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر شاید کیسز ختم کرنے کی پابند ہے  اس کو پولیس کی ذہنی ماتحتی بھی  کہا جاسکتا ہے
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود  اگر جائزہ لیا جائے تو  ماضی کے مقابلے میں  کام کی رفتار میں ایک ہزار فیصد تیزی آئی ہے   جبکہ اعلٰی عدالتیں اس حوالے سے بہت  ہی زیادہ پیچھے رہ گئی ہیں  بلکہ عدالتی کام کے حوالے سے اب ڈسٹرکٹ کورٹس اور ہایئکورٹ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے  
ہایئکورٹ  میں  ججز کی تعداد میں  اضافے کے باوجود کام کی رفتار میں کوئی تیزی نہیں آئی ہے  اور یہ ایک بہت بڑا المیہ ثابت ہورہا ہے    جس کا کوئی حل کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا
ماتحت عدلیہ میں کام کی رفتار میں بہت ہی زیادہ تیزی آئی ہے  اتنی زیادہ تیزی آئی ہے کہ پورے صوبہ سندھ میں موجود سندھ ہایئکورٹ  کے جتنے جسٹس موجود ہیں  وہ  سب مل کر جتنا کام ایک مہینے میں  کرتے ہیں  ان کے مقابلے میں   صرف کراچی  کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں   بیٹھا  ہوا  ایک جوڈیشل مجسٹریٹ ایک سینئر سول جج ،ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج     پورے سندھ کے ہایئکورٹ کے تمام  جسٹس حضرات کے مقابلے میں ان سے زیادہ کام کرتا ہے   موجودہ دور میں یہ  بات کسی المیہ سے کم بالکل بھی نہیں ہے 
جس طریقے سے ماتحت عدلیہ میں ججز کو ڈیل کیا جارہا ہے  بالکل اسی طریقے سے ایک جسٹس کو بھی ڈیل کرنے کی  سخت ضرورت ہے  جو کمپیوٹرائزڈ  سوفٹ ویئر ماتحت عدلیہ میں استعمال کیا جارہا ہے وہی  سوفٹ ویئر  اب ہایئکورٹ میں بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے  باکل اسی طریقے سے  ای میل کی  ضرورت ہے کہ  آج اس کیس میں ججمنٹ ہونا تھا کیوں نہیں ہوا مقصد یہ ہے کہ ایک جسٹس کو بھی اب اسی طریقے سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سے ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججز کو ہایئکورٹ ڈیل کرتی ہے  سسٹم کے اندر کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہوتا  کاز لسٹ میں ہرروز کیسز کی  تعداد شاید اس وجہ سے بھی  بڑھ رہی ہے کیونکہ جب مقدمات کو حل نہیں کیا جائے گا ان کو لٹکا کر رکھا جائے گا تو کاز لسٹ میں کیسز کی تعداد میں  دن دوگنی رات چوگنی  ترقی اور اضافہ جاری رہے گا  
جبکہ  سندھ ہایئکورٹ کراچی  میں ڈیڈھ کروڑ  روپے سے زیادہ مالیت کے کیسز  ایک عام کیس کی طرح ٹرائل بھی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کیونکہ  کراچی  سمندر کے کنارے آباد ہے اس لیئے انگریز سرکار یہ اختیار   ہایئکورٹ کو دے گیا تھا کہ  مخصوص  مالیت کے  دیوانی تنازعات   ہایئکورٹ میں ڈسٹرکٹ کورٹس کی طرح ٹرائل ہونگے  اسی قسم کے کیسز نے پورے سسٹم کو جام  نہیں  بلکہ  فیل  کررکھا ہے اس لیئے فوری طورپر ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی کو  اس حوالے سے لامحدود نوعیت کے اختیارات دے کر فوری طور پر وہ  تمام دیوانی  نوعیت  کے کیسز ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی میں  ٹرانسفر جو سندھ ہایئکورٹ میں ٹرائل کے  لیئے  کئی سال سے  ٹرائل کے منتظر ہیں اور اس وجہ سے پورا سسٹم ہی جام ہوکر رہ گیا ہے  
اگر آج  پورے صوبہ سندھ کی عدلیہ میں کام کی رفتار میں بہت  زیادہ تیزی آئی ہے تو اس کے پیچھے اس کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئر کاکمال  ہے جس کی وجہ سے آج ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ بہت زیادہ کمزوریوں کے باوجود ہزاروں خامیوں کے باوجود ہزاروں   مسائل  کے باوجود آج صوبہ سندھ کی ڈسٹرکٹ کورٹس تیزی سے بحران سے نکل چکی ہیں  اور تیزی سے نکل رہی ہیں  اور آج ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی میں بیٹھا ہوا ایک عام جج ماہانہ جتنا کام کرتا ہے جتنا ایک عام شہری کو ریلیف فراہم کرتا ہے ایک عام شہری کے مسائل کو حل کرتا ہے  وہ پورے صوبے کے  تمام جسٹس بھی  ایک ڈسٹرکٹ کورٹ  کے  جج کے مقابلے میں کام نہیں کرپارہے   یہ صورتحال کیوں پیدا ہورہی ہے اور ہوچکی ہے اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا چاہیئے
کراچی بار کو چاہیئے ملیر بار کو چاہیئے کہ اس صورتحال کا جائزہ لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو اس حوالے سے خصوصی طور پر جاکر خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے  سیشن  ججز  کو ایوارڈ دینا  چاہیئے  ڈسٹرکٹ عدلیہ کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بہت زیادہ زیادتی ہوگی  یاد رہے کہ یہاں بات صرف عدالتی  کام کی رفتار پر ہورہی  ہے   یہ بھی حقیقت ہے کہ معیار میں بہت کمی ہے لیکن  جیسے ہی فضول  اور فالتو قسم کے کیسز ختم ہوجائیں گے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ ملزمان کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا جائے گا  موجودہ صورتحال میں تو  عدلیہ صرف ایک  بے مقصد  قسم  کے ٹرائل  کے زریعے پولیس  کی سہولت کار  کا کردار ادا کررہی ہے سارے کے سارے ملزمان باعزت طور پر  ہی بری ہورہے ہیں  جب ملزمان پر  بامقصد عدالتی ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہوگا ان پر سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوگا  تو اس کے بعد پاکستان  کی عدلیہ میں ایک ایسا انقلاب آئے گا جس کے بارے میں نہ تو ہم سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی تصور کرسکتے ہیں
اس سے یہ بھی مراد ہر گز نہیں کہ عدلیہ دھڑا دھڑ سب کو سزا لگانا شروع کردے بلکہ اکثر ملزم  بے گناہ ہی ہوتے ہیں پولیس ان کو مقدمات  میں پھنساتی ہے اور پولیس  کی غلط  تفتیش  کو کو کنٹرول کرنے کیلئے جو مطلوبہ صلاحیت ہوتی ہے  وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے    عدلیہ بھی مجبور ہے  لیکن جب یہ صلاحیت آجائے گی  تو پھر  جو صورتحال جنم لے گی وہ تصور سے ہی باہر ہے 


کسی زمانے میں   بلوچستان کی  مچھ جیل کی وجہ   شہرت یہ تھی کہ وہاں اگر کسی  سیاسی  قیدی کو پھینک دیا جاتا تو پہلے تین سال تک تو اس کو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا کہ  جیل آئے ہی کیوں ہو بعد ازاں  تین سال بعد اس سے خیر خیریت پوچھی جاتی کہ بھائی جان معاملہ کیا ہے اور کیوں ہے اور تین سال بعد اس کو عدالت روانہ کیا جاتا ہے  ہوسکتا ہے کہ یہ بات مبالغہ آرائی پر مبنی ہو لیکن عوام الناس میں مچھ جیل ایک محاورہ تھا کہ جو زیادہ تنگ کرے اس کو مچھ جیل بھیج دو جہاں وہ بغیر عدالتی ٹرائل کے پڑا رہے گا
غریب آدمی اور عوام الناس کیلئے اعلٰی عدلیہ مچھ جیل ہی بن  چکی ہے  پہلے تین سال تک تو کوئی پوچھتا ہی نہیں  تین سال  بعد کبھی وکیل نہیں تو کبھی  جج نہیں اور زیادہ تر تو نمبر نہیں آتا  اور اگر خوش قسمتی سے نمبر آبھی جائے تو کیس چلتا ہی نہیں ہے  جبکہ ڈسٹرکٹ کورٹس میں اس وقت بہت تیزی سے کام جاری ہے
عملی طور پر اعلٰی سطح یعنی سپریم کورٹ اور ہایئکورٹس کی سطح پر عدالتی نظام کم ازکم غریب آدمی کیلئے مفلوج ہوچکا ہے
اعلٰی عدلیہ میں جاکر غریب صرف دربدر ہی ہوتا ہے  اسی لیئے ساب لوگ آپس میں بات کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوا تھا ساب لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوا تھا اور اگر پیدا ہو بھی گیا تھا تو   عدالت کیوں آیا کیونکہ اربوں کھربوں روپے کے تنازعات کے حل کے دوران غریب آدمی کا تو نمبر ہی نہیں آتا
ہایئکورٹ میں کیسز کیوں نہیں  چلتے یہ ایک الگ بحث ہے 
اگر ہم صرف کراچی میں  بیٹھ کر گزشتہ دس سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو   ڈسٹرکٹ  کورٹس  کی سطح  پر عدالتی نظام میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں
عدالتی نظام مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے ۔ کیسز  کے نمٹائے جانے میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے    جوڈیشل مجسٹریٹ  سینئر  سول ججز اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  ججز کو اب پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ کر بھی رہے ہیں   اور وہ کمپیوٹرائزڈ سوفٹ  ویئر کی وجہ سے اب کام  کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں  ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کچھ بہت اچھا ہوچکا ہے لیکن  ماضی کی ابتر صورتحال کے مقابلے میں   صورتحال بہت ہی زیادہ بہتر ہوئی
اب صرف اہم معاملہ رہ گیا  وہ نااہلی کا ہے کیونکہ سفارشی لوگ جو کسی نہ کسی طرح سسٹم میں  گھس گئے  تھے ان کی نااہلی کی وجہ سے   قانونی مسائل جنم لے رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نااہلی دونوں اطراف سے ہے  ججز کے ساتھ ساتھ وکلاء بھی نااہلی کا شکار ہیں   جتنی محنت درکار ہوتی وہ محنت وکیل اب کم ہی کرتے ہیں  جبکہ
دوسری طرف   عدلیہ  میں بھی سفارشی لوگوں کو پروموشن بھی بہت جلد مل جاتی ہے   
     پولیس اسی طرح غلط تفتیش کرکے غریب آدمی کو مقدمات میں پھنسانے  میں مصروف ہے تو  پہلے جعلی کیس ختم ہونے میں تین سال کا وقفہ ہوتا تھا تو اب یہ دورانیہ  پہلے کے مقابلے میں کافی کم ہوگیا ہے  اس حوالے سے عدلیہ بدستور پولیس کی سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ  پولیس کی بددیانتی اور غلط تفتیش کو کنٹرول کرنے کیلئے جو صلاحیتیں درکار ہیں اس سطح کے عدالتی افسر  پاکستان کے عدالتی نظام میں موجود ہی نہیں ہیں   صرف ایک فیصد ایسے عدالتی افسران موجود ہیں  جو پولیس کی بددیانتی کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں موجودہ عدلیہ شاید پولیس کی جعلی تفتیش کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر شاید کیسز ختم کرنے کی پابند ہے  اس کو پولیس کی ذہنی ماتحتی بھی  کہا جاسکتا ہے
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود  اگر جائزہ لیا جائے تو  ماضی کے مقابلے میں  کام کی رفتار میں ایک ہزار فیصد تیزی آئی ہے   جبکہ اعلٰی عدالتیں اس حوالے سے بہت  ہی زیادہ پیچھے رہ گئی ہیں  بلکہ عدالتی کام کے حوالے سے اب ڈسٹرکٹ کورٹس اور ہایئکورٹ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے  
ہایئکورٹ  میں  ججز کی تعداد میں  اضافے کے باوجود کام کی رفتار میں کوئی تیزی نہیں آئی ہے  اور یہ ایک بہت بڑا المیہ ثابت ہورہا ہے    جس کا کوئی حل کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا
ماتحت عدلیہ میں کام کی رفتار میں بہت ہی زیادہ تیزی آئی ہے  اتنی زیادہ تیزی آئی ہے کہ پورے صوبہ سندھ میں موجود سندھ ہایئکورٹ  کے جتنے جسٹس موجود ہیں  وہ  سب مل کر جتنا کام ایک مہینے میں  کرتے ہیں  ان کے مقابلے میں   صرف کراچی  کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں   بیٹھا  ہوا  ایک جوڈیشل مجسٹریٹ ایک سینئر سول جج ،ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج     پورے سندھ کے ہایئکورٹ کے تمام  جسٹس حضرات کے مقابلے میں ان سے زیادہ کام کرتا ہے   موجودہ دور میں یہ  بات کسی المیہ سے کم بالکل بھی نہیں ہے 
جس طریقے سے ماتحت عدلیہ میں ججز کو ڈیل کیا جارہا ہے  بالکل اسی طریقے سے ایک جسٹس کو بھی ڈیل کرنے کی  سخت ضرورت ہے  جو کمپیوٹرائزڈ  سوفٹ ویئر ماتحت عدلیہ میں استعمال کیا جارہا ہے وہی  سوفٹ ویئر  اب ہایئکورٹ میں بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے  باکل اسی طریقے سے  ای میل کی  ضرورت ہے کہ  آج اس کیس میں ججمنٹ ہونا تھا کیوں نہیں ہوا مقصد یہ ہے کہ ایک جسٹس کو بھی اب اسی طریقے سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سے ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججز کو ہایئکورٹ ڈیل کرتی ہے  سسٹم کے اندر کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہوتا  کاز لسٹ میں ہرروز کیسز کی  تعداد شاید اس وجہ سے بھی  بڑھ رہی ہے کیونکہ جب مقدمات کو حل نہیں کیا جائے گا ان کو لٹکا کر رکھا جائے گا تو کاز لسٹ میں کیسز کی تعداد میں  دن دوگنی رات چوگنی  ترقی اور اضافہ جاری رہے گا  
جبکہ  سندھ ہایئکورٹ کراچی  میں ڈیڈھ کروڑ  روپے سے زیادہ مالیت کے کیسز  ایک عام کیس کی طرح ٹرائل بھی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کیونکہ  کراچی  سمندر کے کنارے آباد ہے اس لیئے انگریز سرکار یہ اختیار   ہایئکورٹ کو دے گیا تھا کہ  مخصوص  مالیت کے  دیوانی تنازعات   ہایئکورٹ میں ڈسٹرکٹ کورٹس کی طرح ٹرائل ہونگے  اسی قسم کے کیسز نے پورے سسٹم کو جام  نہیں  بلکہ  فیل  کررکھا ہے اس لیئے فوری طورپر ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی کو  اس حوالے سے لامحدود نوعیت کے اختیارات دے کر فوری طور پر وہ  تمام دیوانی  نوعیت  کے کیسز ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی میں  ٹرانسفر جو سندھ ہایئکورٹ میں ٹرائل کے  لیئے  کئی سال سے  ٹرائل کے منتظر ہیں اور اس وجہ سے پورا سسٹم ہی جام ہوکر رہ گیا ہے  
اگر آج  پورے صوبہ سندھ کی عدلیہ میں کام کی رفتار میں بہت  زیادہ تیزی آئی ہے تو اس کے پیچھے اس کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئر کاکمال  ہے جس کی وجہ سے آج ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ بہت زیادہ کمزوریوں کے باوجود ہزاروں خامیوں کے باوجود ہزاروں   مسائل  کے باوجود آج صوبہ سندھ کی ڈسٹرکٹ کورٹس تیزی سے بحران سے نکل چکی ہیں  اور تیزی سے نکل رہی ہیں  اور آج ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کراچی میں بیٹھا ہوا ایک عام جج ماہانہ جتنا کام کرتا ہے جتنا ایک عام شہری کو ریلیف فراہم کرتا ہے ایک عام شہری کے مسائل کو حل کرتا ہے  وہ پورے صوبے کے  تمام جسٹس بھی  ایک ڈسٹرکٹ کورٹ  کے  جج کے مقابلے میں کام نہیں کرپارہے   یہ صورتحال کیوں پیدا ہورہی ہے اور ہوچکی ہے اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا چاہیئے
کراچی بار کو چاہیئے ملیر بار کو چاہیئے کہ اس صورتحال کا جائزہ لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو اس حوالے سے خصوصی طور پر جاکر خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے  سیشن  ججز  کو ایوارڈ دینا  چاہیئے  ڈسٹرکٹ عدلیہ کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بہت زیادہ زیادتی ہوگی  یاد رہے کہ یہاں بات صرف عدالتی  کام کی رفتار پر ہورہی  ہے   یہ بھی حقیقت ہے کہ معیار میں بہت کمی ہے لیکن  جیسے ہی فضول  اور فالتو قسم کے کیسز ختم ہوجائیں گے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ ملزمان کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا جائے گا  موجودہ صورتحال میں تو  عدلیہ صرف ایک  بے مقصد  قسم  کے ٹرائل  کے زریعے پولیس  کی سہولت کار  کا کردار ادا کررہی ہے سارے کے سارے ملزمان باعزت طور پر  ہی بری ہورہے ہیں  جب ملزمان پر  بامقصد عدالتی ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہوگا ان پر سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوگا  تو اس کے بعد پاکستان  کی عدلیہ میں ایک ایسا انقلاب آئے گا جس کے بارے میں نہ تو ہم سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی تصور کرسکتے ہیں
اس سے یہ بھی مراد ہر گز نہیں کہ عدلیہ دھڑا دھڑ سب کو سزا لگانا شروع کردے بلکہ اکثر ملزم  بے گناہ ہی ہوتے ہیں پولیس ان کو مقدمات  میں پھنساتی ہے اور پولیس  کی غلط  تفتیش  کو کو کنٹرول کرنے کیلئے جو مطلوبہ صلاحیت ہوتی ہے  وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے    عدلیہ بھی مجبور ہے  لیکن جب یہ صلاحیت آجائے گی  تو پھر  جو صورتحال جنم لے گی وہ تصور سے ہی باہر ہے