Powered By Blogger

Tuesday 23 February 2016

٭٭٭ پولیس کا ڈاکیہ جبری ریٹائرڈ ٭٭٭٭٭ تحریر صفی الدین


یہ بلاگ کافی عرصہ پہلے لکھا گیا تھا  جج صاحبہ کی  نااہلی کی مکمل تفصیلات کا خلاصہ بھی تحریر تھا بالآخر آج سندھ  
ہایئکورٹ نے  اس نااہل مجسٹریٹ کو جو پولیس کی  زہنی ماتحت تھی آج وہ ماضی کا حصہ بن  گئی ہے آج کی میڈیا نیوز کے مطابق  
کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کرپشن اور نا اہلی پر سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ ارم جہانگیر کو جبری ریٹائر کر دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ ارم جہانگیر پر کریشن اور نااہلی کا الزام عائد تھا اور انکوائری میں الزام ثابت ہونےپر سندھ ہائی کورٹ کے چیف 
جسٹس سجا دعلی شاہ نے ارم جہانگیر کو جبری ریٹائر کر دیا ہے۔
میری پرانی تحریر میں اس وقت کے واقعات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے 

بوڑھے ڈاکیئے نے  کہا پوری زندگی میرے رہنما اصول رہے صبح وقت پر آنا دوسرا ڈاک ایمانداری سے  وصول کرکے پہنچانا میرا کام صرف ڈاک پہنچانا ہے آج تک  پوری زندگی کے دوران میں نے ایک خط بھی نہیں پڑھا ڈاک لی اورجس کی بھی ڈاک ہو اس تک پہنچادینا ڈاکیئے کو اس  سے کیا غرض کہ خط کے اندر کیا لکھا ہے
اسی طرح پوری زندگی گزار دی وہ ڈاک لیکر آتے رہے اور میں پہنچاتا رہا یہی میری ذمہ داری تھی اور میں نے نبھائی
ایک مجسٹریٹ صاحبہ نے کہا دیکھیں وکیل صاحب  میں تو صرف اور صرف ڈاکیہ ہوں پولیس جو بھی تفتیش کرتی ہے میرے پاس  ڈاک کی صورت میں جمع کروادیتی ہے اور میں نہایت ایمانداری سے اس ڈاک کو سیشن کورٹ بھیج دیتی ہوں  پوری زندگی دو کام ایمانداری سے کیئے نمبر ایک صبح سویرے وقت پر آنا نمبر دو پولیس کی تفتیش کو بغیر پڑھے بغیر سوچے سمجھے کہ  پولیس نے کیا لکھا کیا نہیں لکھا خاموشی سے اس ڈاک کو سیشن بھیج دینا میں پولیس کی ذہنی ماتحت نہیں ہوں کبھی کبھی اس کی چیخ چیخ کر بے عزتی  ہوں اور وہ سرجھکا کہ کھڑارہتا ہے
چاہے لوگ کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں  اور مجسٹریٹ کو پولیس کا ذہنی ماتحت ثابت کرنے اور پولیس کا ذہنی غلام ثابت کرنے کیلئے موجودہ نااہل عدلیہ کتنے ہی دلائل ڈھونڈ کر لے آئے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے
سوال یہ ہے کہ ذہنی ماتحتی کیا ہے؟
اپنی پہچان نہ کرنا ذہنی ماتحتی ہوتی ہے۔ اپنے اختیارات سے لاعلم ہونا اور اپنے سے کم اختیار کے حامل شخص کو بااختیارسمجھنا اس کی رائے پر چلنا ذہنی ماتحتی کی علامت ہے اپنے آپ کو  میٹرک پاس تفتیشی پولیس افسر کے سامنےایک بے جان اور سونے کا قیمتی بت سمجھ لینا ذہنی ماتحتی کی علامت ہے۔ اپنے آپ کو پولیس کا ڈاکیہ سمجھ لینا اور یہ کہنا کہ ہمارا کام صرف ڈاک وصول کرکے مقدمات پولیس سے وصول کرکے سیشن جج کے سامنے پیش کرنا ہے  زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے پاکستانی پولیس کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس سمجھ لینا یہ بھی ذہنی ماتحتی کی علامت ہے زمینی حقائق کے باوجود یہ خود ہی فرض کرلینا کہ پولیس رشوت نہیں لیتی اور پولیس کے رحم وکرم پر لوگوں کو چھوڑ دینا یہ سب ذہنی ماتحتی کی علامتیں نہیں تو اور کیا ہیں ہم آج  تک اسی سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکے کہ پولیس ریمانڈ لیکر ایک مجسٹریٹ کے پاس ہی کیوں آجاتی ہے وہ کسی  اور کے پاس کیوں نہیں چلی جاتی آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ ایک قتل کے  مقدمے میں جو کہ سیشن ٹرائل ہے پولیس کیوں  ملزمان کو تفتیش کے بعد جب مزید حراست میں رکھنا ہو تو عدالت میں مجسٹریٹ کے پاس کیوں لیکر آجاتی ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس میں ہمارے پورے کریمینل جسٹس سسٹم کا وقار پوشیدہ ہے
مجھے حیرت ہوتی ہے افسوس ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک ایسی علمی تحریک کا آغاز کیا جائے جس کا مقصد عدلیہ  کو پولیس کی ذہنی ماتحتی اور ذہنی غلامی سے آزاد کروانا ہو   یہاں یہ دلائل لائے جاتے ہیں کہ ہم صرف  ڈاکیئے ہیں  ہمارا کام صرف ڈاک تقسیم کرنا ہے پولیس سے لیکر سیشن جج کے پاس بھیج دینا ہےلیکن یہاں بہت معذرت کے ساتھ ہماری وکلاء برادری بھی اس ذہنی غلامی کا حصہ ہی ہے کیونکہ ایک جج   عدلیہ میں شمولیت سے پہلے بار کا حصہ ہوتا ہے  وہاں بھی آج تک یہ بنیادی نقطہ وکیل نہیں جانتے کہ  پولیس ریمانڈ کیلئے مجسٹریٹ کے پاس ہی ملزم کو لیکر کیوں آتی ہےسینئر وکلاء کا کہنا یہ ہے کہ اگر لوگ جیل نہیں جائیں گے تو ہمیں فیس کیسے وصول ہوگی اسی وجہ سے جب پولیس کا کوئی ذہنی ماتحت ایک تفتیشی افسر کی ذہنی غلامی کو قبول کرکے ایک بے قصور اور بے گناہ کو گھسیٹ کر جیل میں پھینکوانے کے احکامات جاری کرتا ہے تو پولیس کا دوسرا ذہنی غلام  جس نے عدلیہ کی صحیح رہنمائی کرنی ہوتی ہے شاید پیسے کی لالچ میں خاموش رہتا ہے کیونکہ اگر ریمانڈ کے موقع پر ہی ایک بے گناہ شخص کو مجسٹریٹ جیل بھیجنے سے انکار کرتا ہے اور پولیس یہ بات ریکارڈ پر لانے سے قاصر رہتی ہے کہ اس شخص کا کیا قصور کہ اس کو جیل بھجوانا ضروری ہے تو لازمی طور پر اس کو رہا  کرنا ضروری ہوگا اور اگر ملزم ریمانڈ کے موقع پر ہی رہا ہوجائے گا تو وکیل فیس کس بات کی وصول کرے گا فیس تو ہوتی ہی ضمانت کروا کردینے کی ہے   اور بعض اوقات  اس میں اسٹیک ہولڈرز کا حصہ بھی ہوتاملزم جیسے ہی جیل پہنچتا ہے تو اس کا استقبال  لاتوں اور گھونسوں سے شروع ہوجاتا ہے جس کی اطلاع فوری اس کے عزیز واقارب کو ہوجاتی ہے جس کے بعد اس کی ضمانت پر رہائی کیلئے فیس منہ مانگی ہوتی ہے اگر وکیل  ریمانڈ کے موقع پر اپنا درست کردار ادا کرنا شروع  کردیں تو کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں
ذہنی ماتحتی کا یہ عالم ہے کہ   لوگ یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ ہماری حیثیت صرف ایک بے جان بت کی ہے ہمارے پاس کوئی اختیار ہے ہی نہیں  ہم بے اختیار ہیں یہ بات ثابت کرنے کیلئے دنیا جہان کے دلائل ڈھونڈ کر لے آتے ہیں
ایک ذہنی ماتحتہ کا تو یہ عالم ہے کہ جب اس کے سامنے ایک اغوا کے مقدمے میں پولیس نے اپنی تفتیشی رپورٹ پیش کی تو اس میں کل تین ملزمان تھے تفتیشی افسر نے  چالاکی سے پراسیکیوشن کے گواہوں کی جو لسٹ کورٹ کو فراہم کی جو اس واقعہ کے چشم دید گواہان تھے وہ تینوں گواہان  ملزم بھی تھے مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ایک ملزم استغاثہ کا گواہ  اپنے ہی خلاف کیسے ہوسکتا ہے اور یہاں تو تینوں بے قصور ملزمان  کو اپنے ہی خلاف گواہ بنایا گیا تھا جب میں نے اس کی توجہ ذہنی ماتحتہ  کو دلائی تو اس نے کہا کہ وکیل صاحب  سیشن ٹرائل میں مجسٹریٹ کی حیثیت صرف ایک ڈاکیئے کی ہے ہم صرف ڈاکیئے کا کردار ادا کرتے ہیں تفتیشی افسر جو ڈاک لیکر آتا ہے وہ وصول کرکے  سیشن جج کے پاس بھیج دیتے ہیں  مختصر یہ کہ ڈاکیئے کی طرف سے   مقدمہ  پولیس سے لیکر سیشن  بھیج دیا گیا وہاں بریت کی درخواست اسی بنیاد پر داخل کی کہ استغاثہ کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے  اور تینوں گواہان  اسی کیس میں  ملزمان ہیں خیر سیشن جج نے مختصراً کہا کہ مغویہ بازیاب ہوگئی جواب ملا نہیں  اس نے کوئی حکم نامہ  جاری نہیں  کیا  اور اس حقیقت کے باوجود معاملہ لٹکا دیادو سال  بعدلڑکی گھر خود ہی واپس آگئی کورٹ میں بیان کروایا کہ ان لوگوں نے مجھے اغوا نہیں کیا تب کہیں جاکر  ملزمان کی  اس مقدمے سے جان چھوٹی اگر وہ  ذہنی ماتحتہ تربیت یافتہ ہوتی اور اس  مجسٹریٹ  صاحبہ کو اپنے اختیارات کا علم ہوتا تو تین بے گناہ انصاف کی سولی پر لٹکنے سے بچ جاتے لیکن اس نے کہا کہ میں تو صرف ڈاکیہ ہوں لیکن اس خود ساختہ ڈاکیئے کی وجہ سے   تین افراد دوسال تک اس مقدمے  بازی کا شکار رہے وہ بھی بلاوجہ
اسی طرح  آپ ذرا سوچیں کہ ایک لڑکی کے اغواہ کا مقدمہ ہو اور وہ  مغویہ لڑکی  خودکورٹ میں موجود ہو اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو کہ ہم آپس میں محبت کرتے ہیں ہم نے پسند سے شادی کی ہے  مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا  "میاں بیوی راضی کیا کرے گا قاضی "جج صاحب خدا کے واسطے میرے شوہر کی ہتھکڑی کھول دو اور سامنے جج کی کرسی پر بیٹھا ہوا نااہل   اس بے قصور کو اس بے گناہ کو  اسی لڑکی کے اغوا کے الزام میں جیل بھیج دے  کس جرم میں کس قاعدے کے تحت یہ بات اس ذہنی ماتحت کو خود بھی نہیں پتہ تو میں سوال کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو پولیس کا ذہنی ماتحت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے پولیس کا ذہنی غلام نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے اس وقت کراچی میں نوے فیصد  مجسٹریٹس اسی قسم کے مشین ریمانڈ دیتے ہیں شاید ہی کسی کو توفیق ہوتی ہو کہ وہ معاملے کی تہہ تک جاتا ہو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ نوے فیصد جوڈیشل مجسٹریٹس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ تفتیشی ڈائری کیا ہوتی ہے اور کیا تفتیشی افسر تفتیش کے دوران  یا ریمانڈ کے موقع پر کیس ڈائری لیکر آتا ہے  اور جس  مجسٹریٹ کو تفتیشی ڈائری پڑھنا آجائے تو پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ تفتیشی افسر کسی بے گناہ کو ہتھکڑی لگا کر کورٹ لے آئے کریمینل جسٹس سسٹم ایک سوشل سائینس ہے اور سائنٹیفک بنیادوں پر عدلیہ پولیس کو کنٹرول کرسکتی ہے
لاء سوسائٹی پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے پر ہم ایک سیمینار منعقد کریں گے اور رجسٹرار سمیت اعلٰی عدلیہ کے سامنے یہ معاملہ لیکر جائیں گے کہ جس طرح کے ریمانڈ موجودہ عدلیہ دے رہی ہے  اس سے تو مجسٹریٹ کے کام میں بلاوجہ اضافہ ہی ہے  جب بے گناہوں اور بے قصوروں کو مناسب وجوہات ریکارڈ پر لائے بغیر پولیس کے ساتھ ملکر جیل ہی بھیجنا ہے تو یہ کام تو ایک چپراسی ایک پٹے والے یا کسی جونیئر سطح کے کلرک سے لیا جاسکتا ہے پورے ضلع کیلئے ایک پٹے والا کافی ہے پولیس ریمانڈ لے آئے پٹے والا ٹھپے مار کے تفتیشی افسر کے حوالے کرتا جائے پولیس کی ذہنی ماتحتی کا عہدہ نبھانے کیلئے ایک چپراسی یا پٹے والے کی ضرورت ہے اور یہی فارمولہ چالان یعنی پولیس رپورٹ پر بھی نافذ کیا جاسکتا ہے ایک پٹے والا اتنی قابلیت رکھتا ہے کہ وہ انگلش میں  منظور کا لفظ لکھ سکے اس سے کورٹ کا آدھے سے زیادہ کام اور رش بھی ختم ہوجائے گا
کریمینل جسٹس  سسٹم کے اندر جب سے عدلیہ انتظامیہ سے علیحدہ ہوئی ہے  ایک سیشن جج کا کردار سب سے اہم ہوکررہ گیا ہے اسی طرح رجسٹرار کا کردار سب سے اہم ہے شہریوں  کی  پولیس سے حفاظت کیلئے ہمارے مجسٹریٹس نے تھانے جانا ہے ان کا ریکارڈ دیکھنا ہے تفتیش کے متعلق سولات کرنے ہیں    لاک اپ چیک کرنا ہے دیکھنا ہے کہ بغیر روزنامچہ کے کسی کو زیر حراست تو نہیں رکھا گیا ایک تھانے کو قواعد وضوابط کے اندر لانا ہے  اس کے بعد سارے معاملات اور ساری بے قاعدگیاں  سیشن جج کے نوٹس میں لاکر ان کو ٹھیک کرنا ہےیہ سندھ ہایئکورٹ کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ہماری بار ایسوسی ایشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ  کم ازکم سندھ ہایئکورٹ کے زریعے اس ضابطے پر تو عمل درآمد کروا ہی دے کہ سیشن جج کے زریعے مجسٹریٹس تھانوں کے وزٹ کرکے وہاں سے بے قاعدگیاں ختم کروائیں اس کیلئے ماضی میں بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں  کیا یہ حقیقت نہیں کہ پورے سندھ کے کسی ایک تھانے میں بھی سیشن ججز مجسٹریٹس کو تھانے کا ریکارڈ لاک اپ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے معاملات دیکھنے کیلئے  وہاں نہیں بھیجتے کیا آپ کے پاس اختیارات کی کمی ہے یا آپ لوگ تھانہ کلچر کا  خاتمہ نہیں چاہتے اگر سول سوسائٹی آواز بلند کرے تو چند دن کے اندر عدلیہ کے تعاون سے تھانہ کلچر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے   اس حوالے سے ہماری سول سوسائٹی کو مسلسل آواز بلند کرنی ہوگی