Powered By Blogger

Sunday 31 July 2016

نااہل عدلیہ ملک کو سول وار کی طرف لے کر جارہی ہے تحریر :: صفی الدین اعوان

No offence should go unchecked and no offender should go unpunished۔
تحریر :؛ صفی الدین اعوان

اگر  ملک کی سرحد  کی حفاظت کیلئے کھڑا ہوا فوجی سپاہی گولی چلانا ہی  بھول جائے تو وہ فوجی سپاہی  اس قابل نہیں رہتا کہ اس کو فوجی کہا جائے   کیونکہ گولی چلانا ہی کسی فوجی کی اصل طاقت ہے    اس لیئے فوجی گولی چلانا کبھی نہیں بھولتا
عدلیہ کی اصل طاقت انصاف کی فراہمی تھی جو کہ وہ بھول چکی ہے  جج کی سیٹ پر بیٹھا ہوا نااہل اپنا وہ کام نہیں جانتا جس کیلئے اس کو جج بنایا گیا تھا اس کو عزت دی گئی تھی  جب  جج اپنا اصل  کام  یعنی انصاف  فراہم کرنا ہی بھول گیا تو  اس کی سیٹ  کا مقصد ہی فوت  ہوگیا  ا س لیئے آہٹوں اور سرسراہٹوں کو   چند دنوں سے محسوس کیا جارہا تھا
  اسی دوران چیف جسٹس پاکستان نے خود تسلیم کرلیا کہ  نوے فیصد مقدمات  پراسیکیوشن کی نااہلی کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں  لیکن چیف صاحب  یہ وضاحت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں  کہ پراسیکوشن کی نااہلی کے خلاف ان کے نااہل ججز نے اپنے عدالتی فیصلوں  میں کوئی حکم نامہ لکھا ہے  عدلیہ کی طرف سے کتنے پراسیکیوٹر کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی تھی  حقیقت یہ ہے کہ نوے نہیں ستانوے فیصد مقدمات عدلیہ کی اپنی نااہلی کے نتیجے میں ختم ہوجاتے ہیں  جس کی ذمہ داری ان نااہلوں اور سفارشیوں  پر عائد ہوتی ہے جو جج کی سیٹ پر مسلط کردیئے گئے ہیں

آہٹیں اور سرسراہٹیں بالکل واضح ہوچکی ہیں لیکن دور دور تک اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ   وردی والے جنرل اور کرنل جج کی سیٹوں پر بٹھا دیئے جائیں گے لیکن صفائی مہم تو شروع ہوچکی ہے لاہور ہایئکورٹ کا چیف جسٹس جس  طریقے سے صفائی کررہا ہے وہ اسی ایجنڈے ہی کا حصہ ہے جس کے تحت نااہل لوگ عدالتی نظام سے ہر صورت میں فارغ کردیئے جائیں گے
لاہور کے  ساتھ ساتھ  صوبہ سندھ میں بھی صفائی مہم ہوگی اور یہ وقت کی  ضرورت ہے  میرے حساب سے اس صفائی مہم کے دوران ایک سوسے زیادہ  مکمل طور پر نااہل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز گھر بھیج دیئے جائیں گے  ملک کو سول وار کے خطرے سے بچانے کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ اب  جج کی سیٹ پر  جج ہی  بٹھائے جائیں  چپڑاسی سطح کے سفارشیوں کو گھر بھیجنے کا وقت قریب آگیا میں  دعوے سے  کہتا ہوں کہ ایسے ایسے اور ایسے ویسے ناااہل سفارشی   لوگ  عدالتی نظام میں اعلٰی پوسٹوں پر بٹھا دیئے گئے ہیں جو  اپنی سی وی لیکر پورا پاکستان گھومیں  ان کو  اپنے اداروں میں کوئی چپڑاسی نہ رکھے  اور یہ بات میں ثابت کرکے دوں گا

فوج سول اداروں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بناسکتی ہے لیکن سرحد پر بیٹھا ہوا فوجی سپاہی اتنی عقل اور شعورضرور رکھتا ہے کہ    کسی بھی ملک میں سول وار کب شروع ہوجاتی ہے  کیوں شروع ہوجاتی ہے اور اس کی وجوہات کیا ہوتی ہیں
جب انصاف نہیں ملتا جب  جرم پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور جب مجرم کو سزا نہیں دی جاتی تو یہ قدم معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا ہے  اور جب ملک کا چیف جسٹس خود اعتراف کرلے کہ نوے فیصد مقدمات ملزمان کو سزا دیئے  بغیر ختم ہوجاتے ہیں تو اس  سے زیادہ کسی گواہی کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی
عدلیہ کی نااہلی ملک کو سول وار کی طرف لے کر جارہی ہے
آہٹیں اور سرسراہٹیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں بہت کچھ واضح ہوچکا ہے  
No offence should go unchecked and no offender should go unpunished۔



Saturday 30 July 2016

جوڈیشل مجسٹریٹ کا انٹرویو دوسری قسط تحریر صفی الدین اعوان

جوڈیشل مجسٹریٹ کا انٹرویو دوسری قسط      تحریر  صفی الدین اعوان
No offence should go unchecked and no offender should go unpunished۔
۔
لاء سوسائٹی کے قیام کا واحد مقصد عدالتی اصلاحات کے سفر کو  جاری رکھنا ہے اسی  سفر کے دوران ہم نے کوشش کی کہ مسائل کو سامنے لاکر ان کا حل تلاش کیا جائے اسی سلسلے کے تحت  ہم نے کوشش کی کہ  ڈسٹرکٹ کورٹس میں موجود ان  چند ججز سے بات چیت کی  جو واقعی  جج ہیں   اور اس قابل ہیں کہ  ان کو جج کہا جائے
لیکن  ان میں  ججز کی شرح  بہت  ہی کم  ہے  یعنی  صرف  ایک فیصد  اور ان ججز کے انٹرویوز بھی کیئے  ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کا انٹرویو دوستوں نے بہت پسند کیا  کیونکہ وہ پہلی قسط تھی اس لیئے اس کو مکمل کرنا ضروری تھا اس لیئے اس انٹرویو کو آج ہم  آگے بڑھارہے ہیں   لیکن کراچی کے ڈسٹرکٹ کورٹس میں اس وقت دو بہت ہی بڑے مسئلے ہیں پہلا مسئلہ وکیل تلاش کرنا اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ  جج تلاش کرنا  ۔۔۔۔۔۔ہایئکورٹ نے ججز کے نام پر جو نالائق اور نااہل  سفارشی بٹھا رکھے ہیں  ان میں سے اگر سو افراد سے ملاقات کی جائے تو بہت ہی مشکل سے ایک جج اس قابل ہوگا جو جج کی کسوٹی پر کسی  حد تک پورا اترتا ہوگا  اور ایک ہزار وکلاء سے ملاقات کی جائے تو بہت ہی مشکل سے ایک وکیل ایسا ملے گا جس کو وکیل کہا جائے    خیر یہ تو ایک بدترین المیہ ہے  اس بار جس جج صاحب کو انٹرویو کیلئے منتخب کیا وہ ذرا جلالی قسم کے تھے اور ان کی جلالی باتیں انٹرویو میں نمایاں ہیں
جوڈیشل مجسٹریٹ  جس کا فرضی نام   لطیف  ہے  کا انٹرویو جو زیادہ تر انتظامی مسائل پر مشتمل تھا  مندرجہ ذیل ہے 

سوال  آپ کے خیال میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کا کردار کورٹ میں کیسا ہونا چاہیئے؟
جوڈیشل مجسٹریٹ یا جج کو انتظامی طور پر بھی مضبوط ہونا چاہیئے صرف قانون جاننا ضروری نہیں  میری جب کراچی میں پوسٹنگ ہوئی تو پہلے ہی دن ایک  معزز  قسم کا انسان میری عدالت میں پیش ہوا  اور اس نے  مقامی تھانے سے گاڑی ریلیز کروانے کیلئے درخواست دائر کی میں نے اس  معزز پاکستانی  شہری   سے پوچھا کہ مسئلہ کیا تھا پولیس نے گاڑی کیوں بند کی  اس شخص نے بتایا کہ  اس کے پاس کاغزات نہیں تھے  اور وہ کسی وجہ سے گھر رہ گئے تھے تو پولیس نے گاڑی بند کردی جب میں کاغذات لیکر تھانے گیا تو تھانے والوں نے جواب دیا کہ اب یہ  گاڑی کورٹ ریلیز کرے گی جاکر کورٹ سے آرڈر لیکر آؤ اس لیئے میں کورٹ آیا ہوں
میں نے کورٹ محرر کو بلوایا اور کہا کہ ایس ایچ کو فوری بلواؤ ایس ایچ او آگیا میں نے مسئلہ پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ آپ تھانے سے رپورٹ کال کروالیں ہم رپورٹ دے دیں گے تو آپ گاڑی  کا ریلیز آرڈر بنا دیجئے گا ہم ریلیز کردیں گے ایس ایچ  او نے  مجھے قانون سکھانے کی کوشش کی
میں نے ایس ایچ او سے کہا کہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہو کیا ہم فارغ بیٹھے ہیں  جب  گاڑی کا مالک موجود ہے اس کے پاس اوریجنل کاغزات موجود ہیں کوئی تنازعہ نہیں ہے تو گاڑی تھانے سے ہی واپس کیوں نہیں کی  کیوں اس شخص کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے  اور اب تم پولیس والے عدالت کا بھی قیمتی وقت ضائع کرنا چاہتے ہو جاؤ اور آدھے گھنٹے کے اندر اس کی گاڑی واپس کرو اور اگر کوئی تنازعہ ہے تو رپورٹ کرو تاکہ میں ایکشن لوں مختصر یہ کہ ایس ایچ او نے گاڑی واپس کی لیکن دوسرے ہی دن میں نے اپنی حدود میں واقع تمام  ایس ایچ اوز کو بلوایا اور ان کو ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا کہ  اگر تھانہ کوئی ایسی گاڑی بندکرتا ہے جس کا کوئی تنازعہ نہیں ہوتا اور اوریجنل مالک کے ساتھ اس کے کاغزات بھی مکمل ہوتے ہیں اور اس کے باجود تھانہ خود گاڑی ریلیز نہیں کرتا  بلکہ معاملہ کورٹ تک آتا ہے تو ایسی صورت میں  کورٹ ڈیپارٹمینٹل ایکشن  کیلئے  آئی جی سندھ کو خط بھیج دے گی اس کا نتیجہ یہ  نکلا کہ تین سال کے دوران صرف اور صرف  بارہ درخواستیں  میری  عدالت میں پیش کی گئیں
بحیثیت جج ہمیں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ پولیس کے پاس عام شہری کو تنگ کرنے کے کیا کیا حربے ہوتے ہیں اور انتظامی طور پر مضبوط جج ہی ان کو روک سکتا ہے
اسی طرح پولیس والے روزانہ ایف آئی آر بھی کورٹ کو فراہم نہیں کرتے  میری عدالت  میں ایف آئی آر کا رجسٹر موجود تھا اور چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر کورٹ کو فراہم کردی جاتی تھی اس سلسلے میں پولیس کے خلاف سخت ڈیپارٹمینٹل ایکشن بھی لیئے  اسی طرح ریمانڈ کے دوران  جج کے ذہن میں قانون شہادت ہونا چاہیئے اور  میں تو ریمانڈ کے دوران اتنے سخت سوال کرتا تھا کہ کسی بے گناہ کو عدالت میں ہتھکڑی لگا کر لانے کا تو سوال  ہی نہیں پیدا ہوتا تھا میں نے  بے شمار مقدمات میں  بے گناہ ملزمان کی ہتھکڑیاں کھلوا کر  ان کو کورٹ سے ہی رہا کیا لیکن اس کیلئے قانون پر عبور کے ساتھ خداداد صلاحیت بھی ضروری ہے اگر ایک مجسٹریٹ قانون پر عبور حاصل کیئے بغیر ہتھکڑی کھلواتا ہے تو وہ حکم نامہ  اس کے  گلے بھی پڑ سکتاہے  یہی وہ نقطہ ہے جو   اہم ہے قانون پر مکمل  عبور اور خداداد صلاحیت جوڈیشل اکیڈیمی کو چاہیئے کہ صرف ریمانڈ کے حوالے سے بار بار ریفریشر کورس منعقد کرواتا رہے جس جوڈیشل مجسٹریٹ کو ریمانڈ کا بنیادی فلسفہ سمجھ آجائے وہ آگے چل کر بہترین جوڈیشل افسر ثابت ہوتا ہے  یہ بہت ضروری فلسفہ ہے کیونکہ عدلیہ کے زریعے ایک شہری پولیس کی حراست  میں قانونی طور پر  دیا جارہا ہوتا ہے  اور اس کی آزادی ختم ہورہی ہوتی ہے ریمانڈ کا فلسفہ کریمینل جسٹس سسٹم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بدقسمتی سے جوڈیشل اکیڈیمیوں میں جو  خودساختہ  دانشور موجود ہیں وہ خود  بھی ریمانڈ کا فلسفہ نہیں سمجھتے
کیا جوڈیشل اکیڈیمی اپنا کردار ادا کررہی ہے؟
سب سے پہلی بات اہم یہ ہے کہ  خداداد صلاحیت کا ہونا ضروری ہے ۔ جس جج کے پاس خداداد صلاحیت ہوتی ہے اس کو کسی جوڈیشل اکیڈیمی سے تربیت کی بھی ضرورت نہیں ہے   ویسے بھی جوڈیشل  اکیڈیمی  صرف  صلاحیت  کو پالش  کرسکتی  ہے رہنمائی کرسکتی  ہے  کسی ہیرے کی تراش خراش کرسکتی  ہے لیکن  سوال ہی نہیں  پیدا ہوتا  کہ کسی کوئلے کو ہیرا  بنادے  نااہل   جج  کو سفارشی  کو جتنی بھی ٹریننگ دے دو اس پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوگا  جوڈیشل اکیڈیمی کسی نااہل کو اہل نہیں بناسکتی  اس لیئے یہ ضروری ہے کہ نااہل بھرتی ہی نہ کیئے جائیں  
لیکن اس حوالے سے لاہور ہایئکورٹ کے چیف جسٹس نے درست سمت میں سفر شروع کیا ہے

اکثر تھانہ کورٹ کے نوٹسز کا جواب وقت پر نہیں دیتا  یہاں تک کے وراثت کی درخواستوں پر بھی دیر سے  جواب آتا ہے جو کہ سیشن کی عدالت میں پیش کی جاتی ہیں ؟
یہی تو  کسی بھی جج کا امتحان ہوتا ہے کہ تھانہ  کورٹ کے نوٹس کو نظر انداز کردے جب کورٹ پولیس فائل منگواتی ہے تو تھانہ ڈھیٹ بن جاتا ہے ایسی صورت میں حکم عدولی کے مرتکب پولیس افسر کو لازمی  جیل بھیجنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے خلاف سخت قسم کے قانونی ایکشن ہی کورٹ کے اندر ڈسپلن قائم کرسکتے ہیں دوسری صورت میں عدالت مذاق بن جاتی ہے اور یہی مذاق ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہم روزانہ دیکھتے ہیں  کیونکہ اکثر سیشن ججز بھی آج کل نااہل آئے ہیں جو پولیس سے ڈرتے ہیں
عدالتیں ملزمان کو سزا کیوں نہیں دیتی ہیں؟
سیدھی سی بات ہے جب عدالت کسی ملزم کو سزا سنائے گی تو وہ اپیل میں جائے گا اور جب اپیل میں جائے گا تو  سفارش  کی بنیاد   پر بھرتی  ہونے والے جج صاحب کی قابلیت  اعلٰی عدلیہ کے سامنے کھل کر آجائے گی اس لیئے ایک حکمت عملی کے تحت عدالتوں میں موجود سفارشی  سزا سنانے کی بجائے ٹائم پاس کرنا زیادہ بہتر  محسو س  کرتےہیں  یہی وجہ ہے کہ سزا نہیں سنائی جاتی  کیونکہ اکثریت  کے پاس جوڈیشل مائینڈ ہے ہی نہیں   آخر کار ملزمان کو باعزت بری کرکے سارا ملبہ پراسیکیوشن  پر ڈال دیا جاتا ہے  اور سرکار کی مدعیت میں ہونے والے لاوارث کیسز میں کوئی اپیل نہیں کرتا  یہی وجہ ہے کہ شارٹ کٹ کے زریعے  نااہل ججز ملزمان کو جان بوجھ کر سزا سے بچاتے ہیں   جب اپیل ہی نہیں داخل ہوگی تو ان کی نااہلی کیسے سامنے آئے گی
پراسیکیوشن کا کیاکردار ہے؟
عدالتی نظام میں پراسیکیوشن ہی کا تو اہم ترین کردار ہے   پولیس والے اور پراسیکیوشن والے دنیا کے چالاک ترین لوگ ہوتے ہیں ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان دونوں مافیاز کا مقابلہ کرنے کیلئے   جج کو بہت زیادہ معاملہ فہم ہونا چاہیئے اور کسی بھی کریمینل کیس کو احتیاط سے چلانے کیلئے اپنا ذہن استعمال کرنا ضروری ہے 
سب سے پہلی غلطی جوڈیشل مجسٹریٹ اس وقت کرتا ہے جب وہ پولیس رپورٹ پر ایک تفصیلی  نوعیت کا انتظامی حکم جاری نہیں کرتا  اور تفتیش کے دوران پولیس کی  چالاکیاں سمجھنے میں ناکام رہتا ہے  اس لیئے ایسے کیس سماعت کیلئے منظور  کرلیئے جاتے ہیں جن کو اصولی طورپر سماعت کیلئے منظور ہی نہیں ہونا چاہیئے ہوتا  یہیں سے پاکستانی عدلیہ اور کسی ترقی یافتہ ملک کی عدلیہ کے درمیان تضاد واضح ہونا شروع ہوجاتا ہے 
ہم بیرونی دنیا سے اپنا تقابل نہیں کرتے یہی ہماری ناکامی ہے  اگر جوڈیشل افسران اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیں تو کیسز کی شرح تیزی سے کم ہوگی جس بے گناہ نے پانچ سال کی مشقت کاٹنے  اور تاریخیں بھگتنے کے بعد  عدالت سے رہا ہونا ہے اس کو ابتدائی مرحلے میں ہی جوڈیشل مجسٹریٹ رہا کردے گا
بدقسمتی یہ ہے کہ  نااہل  عدلیہ پولیس کی ذہنی غلامی اور ذہنی ماتحتی کا شکا ر ہے  اور یہ جوڈیشل سسٹم کا سب سے بڑا المیہ ہے
اگر پراسیکیوشن کا کردار غلط ہے تو ججز کو چاہیئے کہ اپنے عدالتی فیصلہ جات میں واضح طور پر لکھیں کہ اس کی  کورٹ کے پراسیکوٹر جس کا نام فلاں ابن فلاں  ہے کی غفلت اور غلطی کی وجہ سے ملزم کو رہا کیا جارہا ہے   یا اس کیس میں پراسیکیوشن  نے یہ غلطیاں کی ہیں   اور پراسیکیوشن  کا فلاں  شعبہ نااہل  تھا  جس کی وجہ سے  کیس خراب ہوا ہے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو خط  بھی بھیجا جائے وہ پراسیکیوٹر تبدیل کروایا جائے تو پراسیکیوشن اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرے گی  میری رائے یہی ہے کہ جج کا انتظامی کردار زیادہ اہم ہے

ڈسپوزل پالیسی  کےحوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جس نے بھی عدلیہ کیلئے  ڈسپوزل پالیسی تشکیل دی ہے وہ منحوس انسان  اس قوم کا قومی مجرم ہے اور اس کیلئے ایک سوبار موت کی سزا بھی کم ہے   پاکستان کے عدالتی نظام کو حقیقی معنوں میں  ڈسپوزل پالیسی اور یونٹ  سسٹم نے تباہ و برباد کیا ہے
یہ حقیقی معنوں میں انصاف کا قتل ہے ۔  جس طریقے سے کریمینل سائڈ کے  کیسز ڈسپوزل پالیسی کی نظر ہورہے ہیں اس سے تو جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے   جو جتنا زیادہ نااہل ہے وہ اتنا ہی زیادہ کیسز کو ختم کرکے ڈسپوزل کی شرح بڑھاتا ہے اور ہزاروں یونٹ ماہانہ کماتا ہے  اس طرح ججز ڈسپوذل پالیسی کی آڑ میں  جرائم کے سرپرست بن گئے ہیں  
کریمینل کیسز اور دیوانی نوعیت کے کیسز کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں کیسے تولا جاسکتا ہے
کریمینل کیس کا تعلق تو جرم سے ہے  کریمینل کیس کا تو فلسفہ ہی الگ ہے  ڈسپوزل  پالیسی  اس  فلسفے کی نفی  ہے کریمینل کیس نہ تو آسانی سے رجسٹر ہوتا ہے اور نہ ہی آسانی سے ختم ہوتا ہے  بدقسمتی یہ ہے کہ ہم الٹا چل رہے ہیں کریمینل کیس   جتنی آسانی سے رجسٹر ہوتا ہے اتنی ہی آسانی سے ڈسپوزل بھی کردیا جاتا ہے  سوال یہ ہے کہ ایک جرم ہوا ہے اس کی سزا تو ملزم کو ملے گی اور ہرصورت میں ہی ملے گی اور یہ معاشرے کی بقاء کیلئے ضروری ہے  سوال یہ ہے کہ  جب کیس ہی ڈسپوزل ہوگیا ملزم کے خلاف جرم ثابت ہی نہیں ہوا تو سوال یہ ہے کہ  پھر جرم کس نے کیا تھا؟  جرم ہوا لیکن گناہگار کو سزا نہیں ملی اصل ملزم سامنے نہیں آیا  اور کیس بھی ڈسپوزل ہوگیا  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پورے معاشرے کو تباہی کی جانب لے جارہے ہیں   انٹرنیشنل اصول کیا کہتے ہیں

No offence should go unchecked and no offender should go unpunished۔
کریمینل جسٹس سسٹم کے حوالے سے یہ رہنما ترین اصول ہے کیا ہم اس کی ہرروز خلاف ورزی نہیں کرتے 

ڈسپوزل پالیسی نے ہماری عدلیہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے جو جتنے  زیادہ  کیس ڈسپوزل کرے گا  اس کو اتنے ہی زیادہ یونٹ ملیں گے اور اسی کو  پروموشن بھی ملے گی    ڈسپوزل پالیسی نے نااہلوں کو عدلیہ کا ہیرو بنادیا ہے اور اہلیت رکھنے والے ججز کو ہر لحاظ سے زیرو کردیا ہے  

کم ازکم کریمینل کیسز میں تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ  جو جج جتنے زیادہ ملزمان  کو سزا دے گا یا جتنے زیادہ پراسیکیوٹرز  پولیس افسران اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے خلاف غلط انتظامی آرڈرز کرنے کے خلاف احکامات جاری کرے گا اس کو اتنے ہی زیادہ پوائینٹ ملیں گے تو  یہ سسٹم  زیادہ بہتر تھا لیکن  یونٹ سسٹم کی وجہ سے جوڈیشل سسٹم  مکمل طورپر غرق ہوچکا ہے  عدلیہ  تو ہر مہینے مقابلہ کرواتی ہے کہ جو  جج جتنے زیادہ ملزمان  کو باعزت بری کرے گا وہ اس مہینے کا ہیرو ہوگا   عدلیہ میں کیسز کیلئے ڈسپوزل کا لفظ استعمال کرنا ہی سب سے بڑا ظلم ہے  جس نظام کی میں نے بات کی ہے وہ نظام اس ملک میں انصاف فراہم کرسکتا ہے  لیکن موجودہ عدلیہ میں موجود پالیسی ساز عوام کو انصاف فراہم کرنا ہی نہیں چاہتے اس لیئے وہ نت نئے قسم کے ڈرامے تیار کرتے ہیں جن کا مقصد صرف عدلیہ کی تباہی سے زیادہ کچھ نہیں ہے


پولیس ایک عام شہری پر ظلم کرتی ہے عدلیہ کے پاس اس کا کیا علاج ہے؟


اگر پاکستان کی سڑک پر کھڑا ہوا کوئی پولیس والا کسی پاکستانی شہری کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے اس کو گالی دیتا ہے اس کا گریبان پکڑتا ہے  یا اس کو تھپڑمارتا ہے تو دراصل وہ  پولیس والا گالی کسی پاکستانی شہری کو نہیں دیتا وہ گالی چیف جسٹس پاکستان کو دیتا ہے پولیس والا  وہ تھپڑ کسی عام پاکستانی شہری کو نہیں بلکہ وہ زناٹے دار تھپڑ اس ملک کے چیف جسٹس اس صوبے کے چیف جسٹس اس شہر کے سیشن جج اور اس علاقہ مجسٹریٹ کے  چہرے پر پڑتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی پولیس اسی صورت میں بے لگام ہوجاتی ہے  پولیس  ایک عام شہری کے گریبان  پر ہاتھ نہیں  ڈالتی  بلکہ  وہ  عدلیہ  کا گریبان  پکڑتی  ہے جب عدلیہ اپنا کردار ادا نہ کرے   جب عدلیہ نااہل ہوجائے اور پولیس کے دل سے عدلیہ کا خوف ختم ہوجائے  تو یہی ہوگا جو ہورہا ہے
صرف عدلیہ ہی  وہ ادارہ ہے جو پاکستانی شہریوں کو پولیس کے مظالم سے بچا سکتا تھا لیکن  عدلیہ میں موجود نااہلی نے پولیس کو یہ حق دے دیا ہے کہ جو چاہے کرتے پھریں ان سے کسی قسم کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی

عدلیہ کس سمت جارہی ہے ؟
 عدلیہ کی موجودہ سمت مکمل طور پر غلط ہے      ہایئکورٹ نے کافی مدت ہوئی  عوامی بہبود سے متعلق کوئی اہم فیصلہ نہیں دیا

وکلاء گردی  نے عدلیہ کو کس حد تک تباہ کیا ہے اور کیسز کے التواء میں وکلاء کس حد تک شامل ہیں ؟

  وہ وکیل جن کو وکیل کہا جائے ان کی تعداد ہے ہی کتنی ہے  ایک ہزار وکلاء میں صرف ایک قانون دان اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو وکیل  کہا جائے  نااہلی نے بار اور بینچ دونوں اداروں ہی کو یکساں طورپر تباہ کیا ہے  قانون جاننے والے وکلاء  اور جج تو تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے لیکن  فی زمانہ جو لوگ موجود ہیں وہ صرف عدلیہ کی نااہلی ہی کی وجہ سے کیسز کے التواء میں کامیاب ہوجاتے ہیں   اگر وکیل کیس میں التواء کرتا ہے تو ججز کو چاہیئے کہ ان کے خلاف جرمانہ عائد کریں ؟  میں  نے تو بے شمار وکلاء پر جرمانے عائد کیئے ہیں اور اس طریقے سے  بے شمار کیسز کے فیصلے میرٹ پر کیئے  ہیں  چند وکلا مس کنڈکٹ کرتے ہیں  ایسے  وکلاء  کے خلاف ایکشن لیں  تو کیسز میں کبھی بھی وکلاء کی جانب سے التواء نہیں ہوگا لیکن یہ بات یاد رکھی جائے کہ ہم سب انسان ہیں سو مسئلے مسائل ہیں  بیماری  ہے  یا بے شمار وجوہات موجود ہیں جن کی وجہ سے التواء  ہوسکتی  ہے اگر کسی وکیل کی وجہ سے بلاوجہ التواء ہورہا ہو وہ التواء کا عادی  ہو  تو اسی صورت میں ہی ایکشن لیا جائے   لیکن جج اگر چیخ وپکار کی بجائے قلم کا استعمال کرے تو زیادہ  بہتر ہوگا    لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ  وکلاء ایسے بھی ہیں جو مشہور ہیں کہ وہ ہایئکورٹ میں جسٹس لگواتے ہیں ان کی  لاء کمپنیوں کے سامنے تو ہایئکورٹ بھی بے بس ہے ایسی بااثر کمپنیاں جو چاہے کرتی پھریں  جج مجبور ہوجاتا ہے یا ان کے اثرورسوخ کے سامنے بلیک میل ہوجاتا ہے
Top of Form

عدلیہ کی نااہلی سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟
عدلیہ کی نااہلی  نے معاشرے کو کھوکھلا  کرنا شروع کردیا ہے ۔اور نااہل  عدلیہ اگلے بیس سال میں پورے  پاکستانی معاشرے کو سول وار کے خطرے سے دوچار کرسکتی ہے عدلیہ کی  نااہلی سلو پوائزن کی طرح   پاکستانی معاشرت کو عدم توازن کا شکار کررہی ہے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی گزشتہ کئی سال سے سول وار کا شکار   ہے اور پولیس کے کنٹرول سے باہر ہوچکا ہے  اور  اس لیئے اگر پاکستان کو سول وار  کے خطرے سے بچانا ہے تو جرائم کو عدلیہ کے زریعے کنٹرول کرنا ہوگا  یہاں جرم پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ملزم کو سزا نہیں دی جاتی تو اس معاشرے کا مستقبل اچھا نہیں ہے  تحقیق تو یہی کہتی ہے کہ  جب جرم پر کنٹرول نہیں ہوگا اور ملزم کو سزا نہیں ملے گی تو وہ معاشرہ  سول وار کا شکار ہوتا ہے

جعلی پولیس مقابلے ان کاؤنٹر وغیرہ کیا جرائم کا خاتمہ کرسکتے ہیں ؟
 جعلی پولیس مقابلوں کے زریعے ملزمان کا قتل   فاشزم کی علامت اور عدلیہ کی نااہلی کا اعتراف ہے  جعلی پولیس مقابلوں کے زریعے ملزمان کو قتل کرکے  نااہل  عدلیہ کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ   ہم نے فوری انصاف کردیا  ہے  کیونکہ اگر عدالت  میں پیش کرتے تو ملزم  رہا ہوجاتا نااہل  عدلیہ کو واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ تم لوگ نااہل ہو  یہی وجہ ہے کہ جعلی پولیس مقابلے کے زریعے جرم کا خاتمہ کردیا ہے  اس قسم کے اقدامات معاشرے کو تباہ کرتے ہیں  اسی قسم کے اقدامات سول  وار کی طرف  جاتے ہیں  جرائم کا مکمل خاتمہ عدالت کے زریعے ہی ممکن ہے   عدلیہ پر عدم اعتماد کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ عوام جعلی پولیس مقابلے کے بعد  سکھ کا سانس لیتے ہیں  لیکن  یہ سب اقدامات ملک کو سول وار کے خطرے سے دوچار کررہے ہیں  جعلی پولیس مقابلے عدلیہ کیلئے ایک واضح پیغام ہیں 
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آئیندہ آنے والی نسل کا مستقبل ہرلحاظ سے محفوظ ہوتو عدلیہ سے نااہل ترین افراد کو اٹھا کر باہر  پھیکنا ہوگا  اور جرائم کے خاتمے کیلئے  اس اصول  پر عمل کرنا ہوگا
No offence should go unchecked and no offender should go unpunished۔
جب تک عدالت میں موجود نااہل ججز   ہزاروں کی تعداد میں کریمینل کیسز  میں ملزمان کو سزا سنائے بغیر  ختم کرتے رہیں گے اس وقت تک  جرم اور مجرم کنٹرول سے باہر ہوتے جائیں گے اور ایک دن سول وار کی صورت میں اس قوم کو  عدالتوں میں موجود نااہل ججز  کی نااہلی کی قیمت ادا کرنی ہوگی

کیا عدلیہ کے پاس وقت ہے؟
کیا آپ جے آئی ٹی سمجھتے ہیں یہ کیا چیز ہے ؟ لیکن جے آئی ٹی ڈنڈے کے زور پر جوڈیشل سسٹم کا زبردستی حصہ بنادی گئی ہے  کسی میں ہمت نہیں کہ اس پر بات کرے 
عدلیہ کے پاس وقت بالکل بھی نہیں ہے اگر حالات نہ بدلے تو نظر نہ آنے والا ڈنڈا برسنا بھی شروع ہوسکتا ہے   اور ایک شخصیت  پر تو نظر نہ آنے والا  ڈنڈا  برس  بھی چکا ہے اور کھل کر برسا ہے اگر نااہل افراد کی سرپرستی جارہی رہی تو خدشہ ہے کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول عدلیہ کے ہاتھ سے نکل کر   ۔۔۔۔۔۔۔۔کے ہاتھ میں نہ آجائے  اور اس کے آثار بالکل واضح ہوچکے ہیں  عدلیہ اب زیادہ دیر جرائم پیشہ افراد کے کیسز ختم کرکے  جرائم کی سرپرستی  نہیں کرسکے گی  اب زیادہ دیر   نااہل  افراد کی مکمل سرپرستی  کرنا  ممکن نہیں ہوگا اب   مزید نااہلی کو چھپانا ممکن  نہیں ہوگا  اور اپنی  نااہلی کا ملبہ  پراسیکیوشن پر  مزید تھوپنا ممکن نہیں ہوگا   سرسراہٹ اور آہٹ  بالکل واضح ہوچکی ہے   اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کی  عدلیہ    میں موجود سفارشی  اور نااہل  ججز کی نااہلی کے حوالے سے تشویش میں ہرروز اضافہ ہوتا جارہا ہے  اور یہی تشویش کسی دن رنگ لاکر رہے گی    اس لیئے عدلیہ فوری طور پر سفارشیوں اور   نااہلوں کی پوری کی پوری بریگیڈ کو فارغ کرکے ان کی جگہ ججز تعینات کرے


عدلیہ کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟
سب سے بڑا مسئلہ  نااہل اور سفارشی   ججز ہیں جو  ملزمان  کو سزا دینے کی اہلیت اور صلاحیت سے قطعی طورپر محروم ہیں  یہی وجہ ہے کہ جرم اور جرائم پھل پھول رہے ہیں  اور یہی نااہلی   عدلیہ کو اس منطقی انجام کی جانب لیکر جارہی ہے ایک ایسا انجام جو سب جانتے ہیں 


ایک طویل گفتگو کے باوجود ابھی بھی کافی کچھ باقی ہے کوشش ہوگی کہ مزید کچھ بھی سامنے لیکر آؤں 

Friday 29 July 2016

خواب ، جنوں اور تعبیر ::: تحریر صفی الدین اعوان


خواب  ، جنوں اور تعبیر   ::: تحریر صفی الدین  اعوان 
میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن   شعبہ وکالت میں آنے کے بعدکافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے  سسٹم کا حصہ نہ بن سکے اوران کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی  باتیں ہم سنتے رہیں  پاکستان  میں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے  برطانیہ  میں جابسے کچھ عرصہ ہم نے ان کی کمی کو محسوس کیا  بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے  اور ہنستے بھی تھے کہ عجیب  پاغل تھا سسٹم کو بدلنے کی  بات کرتا تھا  بیوقوف  کہیں کا

 پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال ایک  نئے  نمبر  سے  وصول ہوئی اس نے کہا کہ وہ واپس آچکا ہے اور ملنا چاہتا ہے  پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال  میں  اس سے ملنے گیا اس کے ساتھ پورا دن رہا  اس کے حالات اچھے دکھائی دے رہے تھے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم اٹارنی بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور  لاء فرم بن چکی ہے  اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا  ان کو اپنے ججز پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ ان کو اپنے ایسے نظام پر بھروسہ ہے جو کرپشن کو پکڑنے کی صلاحیت  رکھتا ہے   وہاں جج کسی  عام کلرک کو بھی  ایسا کام نہیں  کہہ سکتا جو  قانون کے منافی ہو

 اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار  اور مضبوط ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے یہ ایم آئی ٹی جیسے ماموں بنانے کے نسخے صرف پاکستانیوں کی ایجاد ہیں  کیونکہ کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کے  ایم آئی ٹی سمیت سو بہانے ہوتے ہیں  وہاں ایم آئی ٹی نہیں ہے  لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے

اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا  ایسا جونئیر  جو جج ہو کرکرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں   وہاں عدلیہ  صرف عدلیہ ہے اور سب سے زیادہ ذمہ دار وکیل ہوتا ہے   وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے کیس کے دوران کسی بھی مرحلے  پر  غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ  کردیا جاتا ہے اس لیئے کوئی بھی وکیل اپنے کلائینٹ کے ساتھ برے سلوک کا سوچ بھی نہیں سکتا  اس حوالے سے کوئی رعایت ہی نہیں اگر ایک وکیل نے کیس لے لیا اور اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا  اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ  بلاوجہ تاخیری  حربے  جو پاکستانی وکالت  کی شان ہیں   ایسا  کچھ بھی نہیں  لیکن جو وکیل ایسا کرتا ہے  تو  پھر اس  کو وکالت کا حق بھی نہیں ملتا


میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں ہیں ؟
 میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں وہاں کی ریگولیٹری اتھارٹیز اداروں کی شکل میں کام کرتی ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل ترین  وکیل جو پاکستانی  عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے  لیکن مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں اور ان لوگوں سے ملتے ہیں  جن کو  تمہاری قابلیت پر شک تھا میرے دوست نے کہا کہ  کہا نہیں  ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہم قابل  نہیں تھے البتہ  ہم ٹاؤٹ  نہیں تھے ہم دلال نہیں تھے ہم کو دلالی  نہیں آتی تھی  اور یہی ہماری ناکامی کی وجہ تھی
سوال یہ ہے کہ ایک عام وکیل کی وکالت اتنی کامیاب نہیں جبکہ ایک جسٹس کا بیٹا  ایک سال کے اندر باپ کی عدالت اور باپ کے نام کو اور اس کی انصاف کی دکان  میں کو  بیچ کر کروڑوں روپے کمالیتا ہے  لیکن ہم بضد رہتے ہیں کہ  جسٹس کے بیٹے کو وکیل سمجھیں اور اس کی وکالت کو  اچھی نظر سے دیکھیں  جن ججز کی نوکری پروموشن اور ٹرانسفر تک سب ایک جسٹس کی آنکھ کے اشارے   کے رحم وکرم  پر ہوں  اس معاشرے میں صرف جسٹس کے بیٹے کی وکالت کو ہی اچھی وکالت کہا جاتا ہے

میں نے سوال کیا کہ وہاں وکالت کیوں اتنی زیادہ کامیاب ہے اور ہمارے ہاں زوال پذیر کیوں ہے ؟
میرے دوست نے کہا کہ وکالت دنیا کا سب سے بہترین اور مہنگا ترین پروفیشن ہے  وکالت کرنے کیلئے پہلے وکیل  کا  بھی تو ایک معیار ضروری ہے جب اچھے وکیل ہونگے تو اچھے جج بھی ہونگے   جب کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کسی سفارشی بھانجے بھتیجے اور نااہل  بیٹے کو جج لگادیں اور وہ پورا دن عدالت میں  بیٹھ کر نااہلی کے گھوڑے دوڑاتا رہے جن  عدالتوں میں  جسٹس سارا زور اپنے  بچوں کی پریکٹس کو بہتر بنانے پر  لگادیتے ہوں وہاں کیا وکالت ہوگی اور جس معاشرے میں  چیف جسٹس کا بدتمیز بیٹا ماتحت عدالتوں میں جاکر سیشن جج کو اوپن کورٹ میں  بدتمیزی اور دھمکی آمیز لہجے میں کہتا ہو  کہ آپ  میرے دلائل پڑھ لیں گے یا جج ساب میں آپ کو پڑھانا شروع کردوں   اس معاشرے میں وکالت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی
میں نے دوست سے یہ پوچھا کہ  وہاں سزا کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے؟
میرے دوست نے کہا یار  عدالت ہوگی تو  جزا اور سزا بھی ہوگی  کیا تم لوگ ان عدالتوں کو عدالتیں  سمجھتے ہو؟ عدالتیں ایسی ہوتی ہیں   بھائی جب کسی بھی ملزم کے خلاف پولیس رپورٹ پیش ہوجائے اس کو پولیس ملزم قرار دے دے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ملزم عدالت سے بری ہوجائے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ  اگر ملزم کے خلاف کیس ثابت  نہ ہوا تو پولیس کی ساکھ بھی  زیرو اور پراسیکیوشن کی ساکھ بھی زیرو اور عدلیہ کی ساکھ بھی زیرو یہی وجہ  ہے کہ وہاں  بہت کم کیسز رجسٹر ہوتے ہیں اور جب کیس رجسٹر ہوجائے تو سزا بھی لازمی لگتی ہے اور اگر کسی وجہ سے کیس ثابت نہ ہوتو اس  پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کے خلاف کا روائی ہوتی ہے جس نے کیس رجسٹر کیا تھا  اور یہی کامیابی کا راز ہے  یہی وجہ ہے کہ وہاں وکالت کا بھی اعلٰی معیار ہے
اگر پاکستان میں اہل عدلیہ کام کرنا شروع کردے تو پاکستان کے سارے مسائل حل ہوجائیں  گے

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ پاکستانی عدلیہ سے کوئی امید ہے آپ کو؟
 میرے دوست نے کہا کیا امید ہوسکتی ہے اگر امید ہوتی تو ایک عام پاکستانی وکیل یہاں کیوں  نہ کامیاب ہوتا  میرے جیسا  نااہل بیرون ملک کیوں اتنا کامیاب ہوتا کہ آج یوریپین اٹارنی وہاں  میری لاء فرم میں کام کرتے یہ عدالتیں ہیں ہی نہیں صرف عدالتوں کے نام پر مذاق ہے بس  میں ان کو جب عدالت ہی نہیں سمجھتا تو امید کیسی اگر یہاں کی عدالت واقعی عدالت ہوتی تو یہاں پریکٹس کیوں نہ کرتے 

تو حل کیا ہے ؟
میرے دوست نے کہا حل موجود ہے ایک طویل آئینی جدوجہد  آئین کے دائرے میں رہ کر ان نااہل افراد کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے اور  نااہل افراد پر مشتمل عدلیہ کو عدلیہ مت سمجھو  ایک دن آئے گا کہ اس ملک میں بھی لوگوں کو عدالتوں کی ضرورت محسوس ہوگی اور پھر عدلیہ کا قیام ضرور عمل میں  آئے گا
اصل جنگ ہی آئینی جنگ ہے تمام نااہلیوں کو ان سے بڑھ کر نااہلوں کی آئینی عدالت میں چیلنج کرتے جاؤ  کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ نااہلی ایک گالی بن جائے  بہت جلد وہ وقت ضرور آئے گا جب  عدالتوں میں نااہلی سب سے بڑی گالی بن کر سامنے آئے گی  اور بالآخر  ایک دن یہ سب کے سب نااہل بھاگ کھڑے ہونگے
اس وقت سب سے بڑا ٹاسک یہ ہے کہ  نااہلی کو گالی بنادو
اب دیکھو چند روز قبل ہی چیف جسٹس پاکستان نے  یہ ارشاد فرمایا کہ نوے فیصد مقدمات پراسیکیوشن کی غلطی سے ختم ہوجاتے ہیں کیا   کسی وکیل نے چیف جسٹس پاکستان سے سوال کیا کہ اگر پراسیکیوشن کی غلطی ہے تو کتنے ہزار پراسیکیوٹر کے خلاف کاروائی چیف جسٹس پاکستان کی نااہل ترین عدلیہ نے کی ہے اور  ان  نااہل پراسیکوٹرز کے خؒاف کاروائی سے چیف ساب  اور ان کی نااہل ترین عدلیہ کے ہاتھ کس نے باندھ رکھے ہیں
سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جاؤ اور جاکر سوال کرو کہ چیف جسٹس نے اتنا  بڑا جھوٹ بار بار اورکیوں اور کس بنیاد پر بولا ہے کہ نوے فیصد مقدمات صرف پراسیکیوشن کی غلطی کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں  اگر پراسیکیوشن کی غلطی  ہے تو ان پراسیکیوٹرز کے نام  سامنے لائے  جائیں   ان کے خلاف کہاں کاروائی کی ہے یہ بھی بتادے جب اس قسم کے آئینی سوال کرنا وکلاء شروع  کردیں گے تو آئیندہ چیف جسٹس پاکستان کی ہمت  نہیں ہوگی کہ اپنی  نااہل ترین  عدلیہ کی نااہلی کی ذمہ داری پراسیکیوشن  پرڈال دے لیکن اگر چیف جسٹس کو دوبارہ یہ بات کرنے کی ہمت بھی ہوگی تو فخر سے بولیں گے کے  پراسیکیوشن کی غلطی کی وجہ سے اتنے ہزار مقدمات ختم ہوگئے اور  ذمہ دار  پراسیکیوٹرز کے خلاف  میرے اہل ججز نے کاروائی کی سفارش کردی ہے اتنے ہزار نااہل پراسیکیوٹرز کے خلاف  ڈپارٹمنٹل ایکشن کے لیئے سفارش کی تھی اور ان کے خؒاف ایکشن بھی ہوچکا ہے یہ وہ  طویل آئینی جنگ ہے جو عدلیہ کی نااہلی کو ختم کردے گی  اور اگر مقدمہ کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ کیس بنتا ہی نہ تھا تو  چیف جسٹس پاکستان فخر سے بتائے گا کہ  وہ تمام جوڈیشل مجسٹریٹس  پراسیکیوٹرز اور پولیس افسران  برطرف کردیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے جھوٹے مقدمات رجسٹر ہوئے تھے
وہ دن ضرور آئے گا لیکن آئینی جدوجہد کی صرف سمت درست ہونا ضروری ہے

مطلب یہ کہ آئینی جدوجہد یعنی نااہلوں کے سامنے ہی آئین کی بات کی جائے؟
میرے دوست نے کہا جی ہاں بالکل ان نااہلوں کے سامنے ہی اہلیت کی بات کی جائے  نظریہ کا پرچار جاری رکھو آج تمہاری کمزور آواز ایک دن طاقت بن جائے گی اور جب نااہل لوگ اس عدالتی نظام کا حصہ نہیں رہیں گے تو پھر کسی جسٹس کے بیٹے کو کسی جج سے  بدتمیزی اور غنڈہ   گردی   کی ہمت نہیں ہوگی  اور جب عدالتوں سے لوگوں کو انصاف  ملے گا تو پھر وکالت کو بھی عروج حاصل ہوگا اور جرم کرنے والے جیلوں میں بند ہونگے اور ان کو سزا بھی ملے گی
ایک عام کمزور وکیل کی کمزوری اس کی طاقت بنے گی  یہی کامیابی ہے ہر کمزور طبقہ اپنی کمزوری کو  اپنی طاقت بنا کر ہی اپنی محرومیوں کو دور  کرسکتا ہے



Thursday 28 July 2016

زندہ لاش ::: تحریر صفی الدین اعوان

زندہ لاش   ::: تحریر  صفی الدین اعوان 
آج سے تین سال پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ایسٹ میں موجود ایک زندہ لاش کو تحریری درخواست دے کر   کراچی کے ڈسڑکٹ کورٹس میں لفٹس اور معذور افراد کیلئے ریمپ لگوانے کی کوشش کی تھی اور اس سلسلے میں  چاروں اضلاع میں درخواستیں جمع کروائی تھیں  مایوس کن ملاقات کے بعد میں نے زندہ لاش کے نام سے ایک بلاگ لکھا تھا جس کا اعلٰی  سطح پر نوٹس لیا گیا تھا   اللہ کا شکر ہے ہماری کوششوں کے نتیجے میں  کراچی کے دو اضلاع میں  ریمپ  لگوانے کا منصوبہ مکمل ہوچکا ہے  اسی دوران ہمارے اس وفد میں شامل  چند لوگ آج عدلیہ کا حصہ بن چکے ہیں  ان کو بھی دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور تین سال کے دوران   کراچی کے چاروں اضلاع میں لفٹ کی تنصیب  کا سلسلہ  جاری ہے اور کراچی سینٹرل میں اس کا افتتاح بھی ہوچکا ہے 
تین سال پہلے اس بلاگ کی اشاعت کے بعد  عدلیہ نے  فوری طور پر لفٹ لگانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جو  بہت مکمل ہونے والا ہے  لیکن بدقسمتی سے وہ زندہ لاش آج بھی ہمارے عدالتی نظام کا حصہ ہے  تین سال پہلے کا  
بلاگ  اور اس زمانے   یعنی تین سال  پہلے کے سیشن جج  ایسٹ کی گھٹیا ذہنیت  ملاحظہ فرمائیں 



Monday, 21 October 2013

ارشد نورخان
سیشن جج ایسٹ کراچی خالی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا یوں محسوس ہوتا تھا وہ دور خلاؤں میں کچھ تلاش کررہا ہے  مجھے محسوس ہوا کہ   شاید سیشن جج صاحب زندگی ہی سے بیزار ہیں اور زندگی کی تمام خواہشات مرچکی ہیں زندگی ہی سے بیزار سیشن جج نے ہماری درخواست دیکھی  پڑھنے اور سمجھنے کی ناکام کوشش کی کہا  کیا چاہتے ہیں آپ لوگ اس درخواست کا مقصد کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ لاء سوسائٹی کی بانی ممبر بھی ہیں بریفنگ دی اور سیشن جج کو بتایا کہ عدالتوں میں معزور مریض ضعیف   اور ایسے لوگ ہرروز عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں جن کیلئے ریمپ یعنی سیڑھیوں کے ساتھ ایک ایسی ڈھلوان سطح بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جو لوگ وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں وہ عدالت میں باآسانی پیش ہوسکیں
ہمارے سامنے موجود زندگی سے بیزار سیشن جج نے  نہایت ہی بے زاری سے اس مختصر بریفنگ کو برداشت کیااور بےزاری سے کہا پھر کیا ہوگا
میں نے جواب دیا کہ پھر معزور افراد اور وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد آسانی سے عدالت میں پیش ہوسکیں گے
پھر کیا ہوگا؟ سیشن جج کا اگلا سوال تھا
سر  جی ہونا کیا ہے انسانیت کا تقاضہ ہے کہ معاشرے کہ معزور افراد کو ہم سہولت دیں ان لوگوں کے حقوق ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیئے ریمپ کی سہولت دینے سے کم ازکم گراؤنڈ فلور پر تو لوگ آسانی سے آ جا سکتے ہیں آج کل تو وہیل چیئر کو اٹھا کر لانا پڑتا ہے بہت مسائل ہیں لوگوں کیلئے   خاص طور پر معذور افراد تو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں
اور کچھ؟ اگلا سوال تھا
میں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں لفٹ کی سہولت دیں تاکہ   مزید آسانی پیدا ہو کیونکہ  ایک تو معزور افراد کی ضرورت ہے دوسرا بزرگ شہری اور بزرگ وکلاء بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے  لفٹ تو ویسے بھی ایک سہولت ہے
اچھا آپ کی درخواست ہایئکورٹ بھیج دی جائے گی کہ ایک نئی سوسائٹی بن گئی ہے جو یہ مطالبہ کررہی ہے سیشن جج نے آخر کار ٹالتے ہوئے کہا
میں نے کہا سر بات سوسائٹی کی نہیں بات ضرورت کی ہے کیا یہ چیز ضرورت نہیں  اور آپ کو خود سہولت دینی چاہیئے ہم نے تو صرف ایک مسئلے کی نشاندہی کی ہے
ٹھیک ہے میں آپ کی درخواست ہایئکورٹ بھجوا دوں گا
میں نے کہا لیکن سر ریمپ تو سیشن کی عدالت خود بھی بنوا سکتی ہے خرچہ ہی کتنا ہے ایک سادہ سی ڈھلوان سطح ہی تو بنانی ہے زیادہ سے زیادہ سیمنٹ کی ایک بوری خرچ ہوگی
زندگی ہی سے بیزار سیشن جج نے کہا میرے پاس خرچ کرنے کیلئے 10 روپے بھی نہیں
کسی بات پر ہلکی سی تکرار ہوئی تو ہم نے اجازت لی
یہ تھے سیشن جج ایسٹ کراچی جناب ارشد نورخان  جن کے پاس ہم درخواست لیکر گئے تھے کہ عدالتوں میں لفٹ اور ریمپ کی سہولت دی جائے تاکہ معزور افراد اور وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کو سہولت ہو
لیکن میٹنگ مایوس کن رہی  ایک  نفسیاتی  مسائل کا شکار زندگی سے بیزار زندہ لاش معزور افراد کو کیا سہولت دے سکتی ہے
اس کے بعد ایک نوجوان قایمقام سیشن جج کے پاس گئے  جو ایک اور ڈسٹرکٹ  کے سیشن جج ہیں بہت خوش ہوئے خوب حوصلہ افزائی کی ہماری بریفنگ کو سنا سمجھا ہمارے آنے سے پہلے ان کی گاڑی جانے کیلئے تیار تھی لیکن وہ رک گئے  بہت خوش ہوئے کہا اگر وکلاء  کوشش کرتے رہیں تو ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے واقعی مجھے آج احساس ہورہا ہے کہ ریمپ اور لفٹ نہ ہونے سے معزور افراد کتنے پریشان ہوتے ہیں اس مسئلے کو تو ترجیحی بنیاد پر ہی حل کرنا ہے بلکہ آپ لوگ ایسا کریں کہ جگہ کی نشاندہی کریں  تاکہ اس مسئلے کا حل نکال لیں  ہمارے وفد میں شامل ایک دوست نے کہا کہ فنڈنگ کا کیا ہوگا
وہ نوجوان سیشن جج مسکرایا بھائی لفٹ تو ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو کہ ہایئکورٹ ہی کرے گی لیکن ریمپ تو میں اپنی  ذاتی تنخواہ سے بھی بنوا سکتا ہوں صدقہ جاریہ رہے گا زیادہ سے زیادہ کتنا خرچ ہوگا میرے خیال میں تو اس ریمپ پر دوہزار روپے بھی خرچ نہیں  ہونگے
نوجوان جج کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا محسوس ہوا کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے  وہ ایک زندہ انسان تھا   اس میں زندگی کی حرارت تھی وہ عدلیہ کا روشن مستقبل تھا اس نوجوان قائمقام سیشن جج سے ملنے  کے بعد وہ مایوسی دور ہوگئی جو زندہ لاش کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی عدلیہ کو زندگی  کی حرارت سے بھرپور لوگوں کی ضرورت ہے  ایسے سیشن ججز کی ضرورت ہو جو چیلنج کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں
باقی سیشن ججز نے بھی مثبت جوابات دیئے
ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کسی سیشن جج کو ایڈیشنل جج بنا کر سندھ ہایئکورٹ بھیجا جاتا ہے تو سندھ ہایئکورٹ کا جاہ و جلال ایسا ہے کہ ججز اپنے پاس اس طاقت کو ہمیشہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب ان کو مستقل نہیں کیا جاتا واپس سیشن کورٹس بھیجا جاتا ہے تو یہ صدمہ ہی سیشن جج کو نیم پاگل کردیتا ہے ایک سال پہلے جو اچھا بھلا سیشن جج جاہ وجلال سے ہایئکورٹ جاتا ہے تو ہایئکورٹ  میں مستقل نہ ہونے کی صورت میں سیشن جج کی زندہ لاش ہی واپس آتی ہے کبھی یہ زندہ لاش ویسٹ میں آتی ہے جو ڈسٹرکٹ ویسٹ کراچی کو اس طرح تباہ کرکے جاتی ہے کہ اس کی بحالی آئیندہ پانچ سال ممکن نہ ہو اور ایسی ایک زندہ لاش نارکوٹکس کورٹ میں بھی ہے
سندھ ہایئکورٹ سے گزارش ہے کہ  ایسی زندہ لاشیں اسٹیل مل بھیجیں،پی آئی اے کو تحفہ دیں  ریلوے کا محکمہ ہے سندھ کا تعلیم کا محکمہ تباہ و برباد ہے اس کو مزید تباہ کرنے کیلئے  اپنی زندہ لاشیں بھیجیں کافی ادارے  آج بھی پاکستان میں ایسے ہیں جو سندھ ہایئکورٹ سے آنے والی زندہ لاشیں مزید تباہ کرسکتی ہیں  کیا ضروری ہے کہ تباہ حال ڈسٹرکٹ کورٹ کو مزید تباہ یا مکمل تباہ کرنے کیلئے بھیج رہے ہیں
سیشن جج بہت زمہ داری والا عہدہ ہے کراچی کے لاکھوں شہری پولیس کے رحم و کرم پر ہیں ہر روز غیر قانونی حراست کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے  لیکن جو واقعات رپورٹ ہوجائیں
کم ازکم ارشد نورخان جیسی زندہ لاش اہلیت نہیں رکھتی کہ کراچی کے شہریوں کو پولیس کے مظالم سے نجات دلاسکیں
اور جو شخص زندگی ہی سے بیزار ہوچکا ہو اس کو سیشن جج بنانے کی نہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے یا ریٹائر کرکے گھر بھیج دیں تاکہ ایک سابق جسٹس کی بھی توہین نہ ہو اور  نئے آنے والےزندگی کی حرارت سے بھرپور نوجوان سیشن ججز زیادہ بہتر انداز میں اپنی زمہ داری ادا کرسکیں

سندھ ہایئکورٹ سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل تلاش کرے کیونکہ  مستقل نہ ہونے والے ججز کو واپس سیشن جج بنا کر بھیجنا  درست نہیں ہے  اور سیشن عدالتوں پر خودکش حملہ کرنے کے مترادف ہے ایسے ججز کو انتظامی عہدوں پر رکھیں جوڈیشل اکیڈمی بھیج دیں بحثیت جج بھیجنے سے وہی مسائل پیدا ہونگے جو آج کراچی ایسٹ میں ارشد نورخان کو بھیجنے سے پیدا ہورہے ہیں

Wednesday 27 July 2016

ہر وقت موڈ میں رہو اور ظالم بن کررہو ::: تحریر صفی الدین

رشوت لینا پولیس اکیڈیمی میں مجھے ایک  خرانٹ  استاد نے سکھائی تھی  پولیس افسر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ  
میں نے پولیس اکیڈیمی میں دوران تربیت ایک تربیتی   کلاس کے دوران   پوچھا تھا کہ سر رشوت کیسے لی جاتی ہے  آپ  ہمیں رشوت  لینا سکھائیں یہ سن کر میرا استاد مسکرایا اور کہا بیٹا میں تم سب کو ابھی رشوت لینا سکھا دیتا ہوں سب نکالو پچاس پچاس روپے  
اس کے بعد  اس  استادنے رشوت لینے کا نایاب نسخہ سکھایا
انسپکٹر بشیر نے دوران گفتگو بتایا کہ
میں نے انیس سو اسی میں پولیس جوائن کی  پینتیس سال کا تجربہ ہے لیکن پوری زندگی میں صرف ایک مجسٹریٹ سے واسطہ پڑا جو واقعی جج تھا
میں ایک بے گناہ کو پکڑ کر ایک کیس میں فٹ کرنے کیلئے ریمانڈ کیلئے  مجسٹریٹ کےپاس  لایا تو مجسٹریٹ نے ایک  ایسا سوال  کیا جس کو سن کر میرا دماغ چکرا گیا کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟
میں نے کہا یہ ملزم ہے
اس کا کیا کرنا ہے  مجسٹریٹ کا اگلا سوال تھا
اس کا ریمانڈ دے دیں
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ کیوں دے دیں ریمانڈ وجہ بتاؤ ؟
اس لیئے کہ اس پر یہ ایف آئی آر ہے
مجسٹریٹ نے پوچھا کہ ایف آئی آر سے کیا ہوتا ہے اس ملزم کے خلاف ثبوت کہاں ہیں  گواہ کون ہے ان کی گواہی کیا ہے  کیا تفتیش کی ہے برآمدگی کیا ہے  اور یہ کب سے حراست میں ہے گرفتاری کا فرد دکھاؤ پولیس پیپر دکھاؤ
تفتیشی افسر نے کہا کہ چوبیس گھنٹے سے حراست میں ہے  ابھی تک  گواہ نہیں ملا  اور برآمدگی بھی نہیں ہوسکی ۔ ملزم  پولیس کے  سامنے اقرار جرم کررہا ہے یہی اس کے مجرم ہونے کا ثبوت ہے


میں نے ایف آئی آر پیش کی تو ساب نے کہا  کیا صرف ایف آئی آر جو صرف الزام ہے کی بنیاد پر جیل بھیج دوں ایف آئی آر کیا ہوتی ہے صرف الزام  یہ تم بھی جانتے ہو
میں مجسٹریٹ کو مطمئن نہیں کرسکا تو ساب نے  ریمانڈ نہیں دیا مجبوراً میں نے اس بے گناہ کی ہتھکڑی کھول دی
ساب صرف ایک مجسٹریٹ آج تک دیکھا ہے جو  سارے کام جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساب بہت تنگ کیا تھا اس مجسٹریٹ نے مجھے تنگ آکر ٹرانسفر ہی کروالی  میں نے

گزشتہ دنوں ایک اچھا تفتیشی افسر جس کا نام انسپکٹر  بشیر خان  عرف بشیرا ہے  ایک کیس کے دوران  دوست بن گیا کافی گپ شپ رہتی  ہے اس کے ساتھ اس نے عدالتی نظام سے متعلق کافی انکشافات کیئے   خیر پہلے لائن پر نہیں آرہا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس نے   چور سپاہی اور عدالت کے متعلق کافی لرزہ خیز باتیں  مجھے بتائی ہیں
میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کبھی کسی مجسٹریٹ سے بھی واسطہ پڑا  اس نے کہا ساب میں میٹرک پاس نالائق اور آپ لوگ بڑے بڑے ڈبل گریجویٹ میرا اور ساب لوگوں کا کیا مقابلہ لیکن کافی اصرار پر اس نے بتایا کہ یہ آپ لوگوں کا نظام بس ایسے ہی ہے  لیکن ہمارے استادوں نے  ہمیں بتایا تھا کہ اس دن  کا انتظار کرنا جب ایک مجسٹریٹ کے پاس ریمانڈ کی درخواست لیکر جاؤگے  اور وہ تم سے سوال کرے کہ
  کیا ، کہاں ،کیوں اور کیسے ؟
میں نے پوچھا کہ اس کا مطلب
تفتیشی افسر  بشیرے نے کہا کہ  مجھے استادوں نے پولیس اکیڈیمی میں یہ بات سکھائی تھی کہ جس دن مجسٹریٹس نے یہ سوال جواب شروع کردیئے کہ  یہ سب کیا ہے یہ پاکستانی شہری کون ہے جس کو ہتھکڑی لگا کر لے آئے ہو  اس کے خلاف ثبوت کہاں ہیں  اس شہری کے خلاف گواہ کون ہے کس کی گواہی پر اس کو جیل بھجوادوں تفتیش میں گھسنا شروع کردیا  تو اس دن سے مسئلہ خراب ہوجائے گا
پھر وہ یہ سوال کرے گا کہ اس کو کیسے جیل بھیج دوں وہ وجوہات تو بتاؤ
جب ہم یہ سب تقاضے پورے نہیں کرسکیں گے تو اس کو رہا کرنا ہوگا
استاد وں نے ایک نصیحت  بھی کی تھی میں نے کہا کیا  استادوں نے کہا تھا کہ جس دن  ایسے جج آجائیں تو بیٹا استعفٰی دے دینا اور کہیں  ٹھیلا لگا لینا
میں نے پوچھا کہ  کیا پوری زندگی میں ایسا جج ملا  تو اس نے کہا ہاں زندگی میں صرف ایک جج آیا ہے  آج تک میری زندگی میں  جو  ہمارے پولیس والوں کے   بے غیرتی والے سارے کام جانتا تھا
ویسے ساب پوری زندگی گزر گئی اسی سوال کے چکر میں آج تک  کسی نے پوچھا ہی نہیں ہزاروں لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گناہگار بھی تھے بے گناہ بھی تھے کسی نے بھی آج تک نہیں پوچھا  کہ  کیا کیوں  کہاں اور کیسے؟ اس حد تک نااہلی ہے  اور عدلیہ میں جوڈیشل کام کا معیار اس قدر گرچکا ہے کہ اگر کسی مجسٹریٹ کے باپ کو بھی بے گناہ گرفتار کرکے اس کی عدالت میں  لے آؤں تو یہ اس قدر نااہل لوگ ہیں کہ اپنے  حقیقی  باپ کا بھی ریمانڈ دے دیں گے  یہ جاننے کے باجود کے ان کا باپ ہے اور بے گناہ ہے  کیونکہ جن بے گناہوں کے یہ لوگ سارا دن اپنی نااہلی کی وجہ سے جھوٹے کیسز میں  ریمانڈ دیتے ہیں وہ بھی تو کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے ہی ہوتے ہیں
میں نے انسپکٹر  بشیر سے پوچھا کہ  کیا مسئلہ ہے عدالتوں میں کام کیوں نہیں ہوتا
بشیرنے کہا کہ دیکھ لو ساب عدالت میں رش کی  وجہ سے کیس نہیں چلتے
میں نے کہا کہ جب ایک مجسٹریٹ کی  عدالت میں  سوکیس روزانہ لگے ہوئے ہونگے  تو کام کیا ہوگا
بشیرے نے کہا ساب یہ روزانہ پچاس کیسز کی حقیقت کیا ہے وہ صرف ہم جانتے ہیں
ساب ایک بات بتائیں  یہ پچاس کیسز میں کیا ہوگا میں نے کہا کہ یہ سب لوگ باعزت طور پر بری ہوجائیں گے
میں نے کہا کہ ہاں یہ سب لوگ باعزت بری ہوجائیں گے  جب شواہد ناکافی ہونگے تو یہی ہوگا
 میں نے کہا کہ  بشیرے تم لوگ غلط تفتیش کرتے ہو  تو ملزم باعزت بری ہی ہونگے عدالت تو شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہو
یہ سن کر بشیرا کافی دیر تک قہقہے لگاتا رہا  اتنی دیر کے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے  اور پیٹ میں درد ہوگیا
ساب پچاس کیس روزانہ  ۔۔۔۔۔۔بشیرے نے کہا ۔۔ صرف میں جانتا ہوں کہ ان  کیسزکے اندر شواہد نہیں ہیں   ملزمان کے خلاف قانونی طور پر کیس بنتا ہی نہیں تھا   یہ تو مجسٹریٹس کی نااہلی ہے جنہوں نے اپنی عدالت میں یہ فائلیں جمع کررکھی ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ ہایئکورٹ اپنے ججز کی نااہلی پر یہ کہہ کر فخر کرتی ہے کہ کوئی بات نہیں کام نہیں آتا تو کیا ہوا رشوت تو نہیں لیتے  تو پھر لو مزے نااہلوں کی نااہلی کے
یہی وجہ ہے کہ تم لوگ غلط تفتیش کرکے لاتے ہو اور ملزم باعزت طور پر بری ہوجاتے ہیں

 انسپکٹربشیرنے کہا ساب  اب آپ لوگ  جج کی نااہلی  اور نالائقی کی ذمہ داری  پولیس پر مت ڈالو جب آپ کے عدالتی افسر نااہل  ہیں تو ہم کیا کریں   
ساب ہم نے تفتیش کرلی اور چالان جمع کروادیا تو مجسٹریٹ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ چالان کو پڑھ کر اس پر اپنی رائے قائم کرتا  تو مجسٹریٹ لوگ یہ بات جانتے ہی نہیں  ہم غلط تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ہماری غلط تفتیش   کو کیونکہ وہ اپنی نالائقی  اور نااہلی  کی وجہ سے  سمجھ نہیں پاتے تو ہم کیا کریں اگر اللہ نے ان کو  خداداد صلاحیت سے نوازا ہی نہیں تو ہمارا کیا قصور   ساری ذمہ داری پولیس کی نہیں ہوتی  مجسٹریٹ غلط تفتیش کے جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے وہ ریمانڈ دیتا ہے جیل بھیجتا ہے  ہماری رپورٹ  مقدمے کی سماعت کیلئے  منظور کرتا ہے  اس  پر اپنی  رائے  قائم کرتا ہے کیس سماعت کیلئے منظور کرتا ہے  اگر کسی ملزم کے خلاف شواہد کافی نہیں تھے تو آپ کے مجسٹریٹ نے  اس کیس پر اعتراض کیوں نہیں کیا وجہ جانتے ہیں ساب اصل قصور  وار آپ لوگ ہیں آپ لوگ ان نااہل ججز کی تعیناتی پر کیوں خاموش رہتے ہو
وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کام  بالکل بھی   نہیں آتا   یہی وجہ ہے کہ یہ  مجسٹریٹ لوگ نئی فائلیں جمع کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں  جعلی کیس اور جعلی کام ہے کہ  بڑھتا ہی بڑھتا چلا جارہا ہے  کیس چلتا ہے  کیس بے جان ہوتا ہے ملزم باعزت بری ہوجاتے ہیں  تو صرف ہمارے اوپر ملبہ ڈال دیا جاتا ہے   صرف ہمارا قصور نہیں ہے ساب کسی دن زبان کھول دی تو سب نرغے میں ہونگے   اگر یہ نالائق اور نااہل اپنی ذمہ داری ادا کرنا شروع کردیں تو  پولیس بھی ایسے شواہد تلاش کرکے لائے گی جس کے بعد کسی کا عدالت سے باعزت بری ہونا ناممکن ہوگا
میں نے کہا کہ اگر  اہل لوگ آجائیں   ایسے جج آجائیں جو قانون کو جانتے ہونگے سمجھتے ہونگے تو کیا ہوگا
بشیرے نے کہا اول تو یہ ناممکن ہے  کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں اہل لوگ آجائیں   اور جو نالائق بیٹھے ہیں وہ صرف چیخنے  چلانے اور شور مچانے کو قابلیت سمجھتے ہیں لیکن جس دن اہل لوگ  آگئے  
ساب استادوں نے نصیحت کی تھی کہ اس دن پولیس کی نوکری ہی چھوڑ دینا  یہ جو مجسٹریٹ کی ٹوٹی پھوٹی ٹیبل پر  ہزاروں  فائلیں پڑی ہیں یہ سب ختم ہوجائیں گی    یہ  سب  شواہد  کے بغیر جعلی  مقدمات  ہیں کسی بے قصور کے خلاف چالان جمع کروانا ناممکن ہوجائے گا  جب نوے فیصد جعلی مقدمات  ختم ہوجائیں گے تو  مشکل سے ایک عدالت میں روزانہ دس کیس بھی نہیں ہونگے  لیکن ساب اناں تلاں اچ تیل کونی  یعنی ان تلوں میں تیل نہیں  ہے
اور جو دس مقدمات ہونگے ان سب میں ملزمان کو سزا لگانے سے کسی کا باپ بھی نہیں بچا سکے گا
اچھا تو بشیرے تیرا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک ملزم عدالت سے باعزت بری ہوتا ہے تو اس کے باعزت بری ہونے کی ذمہ داری علاقہ   مجسٹریٹ پر عائد ہوتی ہے جس نے پولیس کی غلط تفتیش اور ناکافی شواہد کے باوجود کیس کو سماعت کیلئے منظور کیا
بشیرے نے کہا جی جی بالکل  پولیس  اور پراسیکیوٹر  کے ساتھ ساتھ یہ نالائقوں اور نااہلوں کی فوج مظفر بھی برابر کی شریک ہے اور افسر زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ کیس چلاتے ہیں اور کیس کے دوران یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے  کہ کیس غلط تھا بنتا ہی نہ تھا تو اس کے باوجود کبھی بھی انہوں نے  کسی پولیس افسر اور پراسیکیوٹر کے خلاف کاروائی کی سفارش نہیں کی کیوں کہ یہ سب کے سب نااہل ہیں  گزشتہ دنوں تو چیف جسٹس پاکستان بھی  کراچی بدامنی کیس میں اپنی عدلیہ کی نالائقی اور نااہلی کا فخر سے اقرار کرکے ساری ذمہ داری پراسیکیوشن پر ڈال کر چلاگیا ہے   لیکن کوئی اس سے پوچھے کہ ہزاروں کیس اگر پراسیکیوشن کی غلطی کی وجہ سے ختم ہوگئے تو آپ لوگوں نے پراسیکیوشن کے خلاف کاروائی کی سفارش کتنے عدالتی احکامات میں کی ہے
میں نے بشیرے سے پوچھا کہ  ایک بات بتانا  کہ یہ رشوت لینا کیسے سیکھی
بشیرے نےکہا کہ یہ بات بتاتو دونگا لیکن کسی کو بتانا نہیں
رشوت لینا پولیس اکیڈیمی میں مجھے ایک استاد نے سکھائی تھی 
میں نے پوچھا تھا کہ سر رشوت کیسے لی جاتی ہے یہ سن کر میرا استاد مسکرایا اور کہا بیٹا میں تم سب کو ابھی رشوت لینا سکھا دیتا ہوں سب نکالو پچاس پچاس روپے
استاد نے  کہا کہ رشوت لینے کیلئے رشوت دینا سیکھو
اس کے بعد  استاد نے پوری کلاس سے پچاس پچاس روپے رشوت لی اور جس پولیس والے سے بھی رشوت لیتا تھا کہتا تھا  رشوت لینے کیلئے  رشوت   دینا سیکھو   ایسا اس نے تین دن مسلسل کیا جس کے بعد سب نے ہاتھ کھڑے کردیئے  اور استاد جی اب تو ہمیں خوب پتہ چل گیا کہ رشوت کیسے لی جاتی ہے استاد نے مزید بتایا کہ ہروقت موڈ میں رہو اور ظالم بن کررہو  یہ رشوت لینے کا سب سے اہم ترین اصول ہے
اس طرح اپنے پولیس اکیڈیمی کے استاد کو رشوت دیکر ہم نے رشوت لینا سیکھی  

صفی الدین اعوان  
03343093302


قابل احترام جج کا انٹرویو ۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان

قابل احترام جج کا انٹرویو ۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان
انٹرویو کسی کے خیالات  جاننے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے ایک ایسے وقت میں جب  عدلیہ انتہائی نازک  دور سے
گزررہی ہے اور عوام الناس میں غلط فہمیاں عام ہیں تو ہم نے کوشش کی ایک مجسٹریٹ سے انٹرویو کے زریعے ان کے خیالات جاننے کی وہ مسائل جاننے کی جن سے وہ دوچار رہتا ہے
مجسٹریٹ  عدالتی نظام کی بنیادی اکائی ہے اور کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ بنیاد کی مضبوطی سے لگایا جاسکتا ہے عدالتی نظام کا صرف یہی عہدہ  درست کام کرے تو پولیس کلچر ختم ہوسکتا ہے کیونکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا عہدہ اختیارات کے لحاظ سے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے سے بھی زیادہ  اہم ہے   عدالتی نظام کی یہ بنیاد کن مسائل کا شکار ہے اور کتنی مضبوط ہے کوشش کی ہے کہ  انتہائی  ایمانداری  سے یہ سب باتیں  بیان کردوں سوالات کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا ہے
انٹرویو کا مقصد اصلاح تھا تو شناخت کو چھپالیا گیا  تاریخ اور واقعات میں معمولی ترمیم کی اس لیئے ایک فرضی نام کے طور پر مجسٹریٹ کا نام ہے" سچل"
سوال: سچل صاحب یہ بتایئں کہ کس طرح اس شعبے میں آئے؟
سچل: میں نے   شوقیہ طور پر اندرون  سندھ وکالت کا پیشہ جوائن کیا تھا اور اللہ کی مہربانی کے اچھے سینئر ملے بعد ازاں وکالت کا تجربہ اچھا رہا اسی طرح 2002 میں مجسٹریٹ کی سیٹیں آئیں تو آخری دن فارم بھرا بعد ازاں سلیکشن ہوئی میرٹ پر اور اندرون سندھ ہی ایک ضلع میں پوسٹنگ ہوئی

سوال: ایک مجسٹریٹ کی زندگی اور کیئرئیر میں بحثیت جج پہلا دن،پہلا مہینہ  کتنی اہمیت رکھتا ہے؟

جواب : پہلا دن ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ پہلے ہی دن ایک وڈیرے کا جس کی ضلع میں 400 ایکڑ زمین تھی  نے ایک غریب کسان  جس کی صرف ڈیڈھ ایکڑ زمین تھی کے بیٹے جس کی عمر 16 سال تھی کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا اور پولیس ریمانڈ کیلئے اس کو اس حالت میں زنجیروں سے  جکڑ  کر لائی کہ اس  کی قمیض پھٹی پرانی اور پاؤں میں جوتے بھی نہ تھے   وہ بچہ تھر تھر کانپ رہا تھااور یہ صورتحال ایسی تھی اس غریب کسان کے بیٹے کی آنکھوں میں جو درد تھا  جوڈر تھا جو خوف تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا اس صورتحال  نے مجھے شاک سے دوچار کیا مختصر یہ کہ اس جھوٹے مقدمے میں اس بچے کو ذاتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا جس کے بعد  پولیس افسران میں ہلچل مچ گئی کیونکہ وڈیرہ بااثر تھا اور سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا چند منٹ کے بعد ایڈیشنل ایس ایس پی کی کال آئی  اتفاقاً وہ افسر میرے ضلع کا تھا نہایت ہی بے تکلفی سے گفتگو شروع کردی اور مختصر تمہید کے بعد کہا کہ ایک عرض ہے کہ اس بدمعاش لڑکے  کا  چند روز کا ریمانڈ دے دیں  معاملہ عزت کا بن گیا ہے یہ سن کر میں نے کہا کہ شاید آپ کے پولیس افسران کو یہ بھی نہیں پتا کہ کم عمر بچوں کو ہتھکڑی  لگا کر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا دوسرا یہ کہ اگر آئیندہ میری عدالت میں  کسی بھی کم عمر بچے کے ساتھ ایسا ہوا تو بلاتکلف آپ کے پولیس افسران کو جیل بھیج دوں گا  جس کے بعد پولیس افسر نے کال کاٹ دی مختصر یہ کہ پہلا ہی دن ہنگا مہ خیز رہا بعد ازاں پورا مہینہ یہی صورتحال رہی  اس وقت اندرون سندھ وڈیرہ شاہی عروج پر تھی   پولیس  ان کے ذاتی ملازم کے طور پر کام کرتی تھی  اور کرتی ہے  اور عدلیہ  کی نااہلی  کی وجہ سے  پولیس لوگوں پر ظلم کرتی ہے پہلے ہی دن سماجی تعلقات داؤ پر لگنا شروع ہوئے سماج سے رشتہ ٹوٹنا اور انسانیت سے رشتہ جڑنا شروع  شروع ہوگیا ۔  

پہلا مہینہ مکمل ہوا تو دوسرا شاک اس وقت لگا جب ماہانہ تنخوا کا چیک وصول ہوا(یاد رہے کہ یہ آج سے چودہ سال پرانی بات ہے ) اس زمانے میں  تنخوا اتنی کم تھی کہ وکالت کے دنوں میں اتنے پیسے دوستوں  اور کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے تھے جس کے بعد والد صاحب کو بتایا کہ عہدہ تو اچھا ہے کیونکہ وہ میری کارکردگی سے خوش تھے   لیکن تنخوا بہت کم ہے  اس لیئے میں شاید عدلیہ میں اپنا کیرئیر جاری نہ رکھ سکوں جس کے بعد والد محترم نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ یہ عہدہ پیسے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کا ہے کچھ عرصہ کرو پھر دیکھیں گے دومہینے کے بعد والد محترم نے مجھے ایک معقول رقم بھجوائی جس  سے میں نے (اے سی ) لگوایا اس زمانے میں اندرون سندھ کسی جج کی جانب سے (اے سی) لگوانا یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کررہا ہے یا لگژری لائف کی علامت سمجھا جاتا تھا میرے ایک قریبی عزیز کی کال آئی کہ سنا ہے (اے سی ) لگوالیا ہے میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے  میں نے کہا والد نے دیئے ہیں  اے سی کے اخراجات کیسے برداشت کروگے میں نے کہا کہ جس طرح باقی لوگ کرتے ہیں بل تو آتا ہی نہیں پوری کالونی کنڈا لگاتی ہے ہمارے تو سیشن جج کا گھر بھی کنڈے پر چل رہا ہے تو میرے قریبی عزیز نے کہا کہ جج ہوکر بجلی چوری کروگے یہ سن کر مجھے افسوس ہوا  غلطی کا احساس ہوا میں نے دوسرے ہی دن الیکٹرک کمپنی کے لیگل ایڈوایئزر کو بلوا کر میٹر لگوایا اگرچہ یہ باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہیں لیکن یہی باتیں  انسان  کا کردار متعین کرتی ہیں

سوال: پہلا سال کیسے گزرا؟
پہلا سال  کسی بھی جج کیلئے بہت اہم ہوتا ہے لوگ سفارش کیلئے دوستوں اور عزیز واقارب سے رابطے کرتے ہیں  رشوت کی آفرز ہوتی ہیں اکثر لوگ گھر تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح وہ دوست جن کے ساتھ وکالت میں وقت گزارا لوگ ان تک پہنچتے ہیں سفارش کرواتے ہیں
ایک بار قریبی عزیز ایک لاکھ روپیہ لیکر آگیا کہ فلاں کا کام کردو میں نے نہایت طریقے سے منع کیا اس کو سمجھا کر واپس کردیا۔ دوستوں کو اہمیت نہیں دی تو سماجی تعلقات خراب ہوئے جو بعد ازاں چند سال بعد اس وجہ سے بحال ہوئے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش نہیں مانی  بنیادی طور پر خاندان اور ذاتی ترجیحات بھی اہمیت رکھتی ہیں  جب خاندان توقع رکھتا ہے کہ ہم  غلط کام کریں تو لوگ مجبور ہوجاتے ہیں جب خاندان ہدایت دیتا ہے کہ حق حلال کما کر لاؤ تو انسان ثابت قدم رہتا ہے جب آپ اپنی اہلیہ کے ہاتھ پر حق حلال کی کمائی رکھتے ہیں اور وہ اسی کم آمدن پر صابر وشاکر رہتی ہے  تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے لیکن لوگوں کو اپنے کام نکلوانے ہیں وہ اپنے مسئلے سے اور عدالت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کسی بھی جج کے کردار کی گواہی اس کا ذاتی اسٹاف ، اس کا پٹے والا،اس کا ریڈر اور ڈرایئور دیتے ہیں  پہلے مرحلے میں لوگ انہی کے زریعے  کوشش کرتے ہیں کہ کام کیسے نکلوایئں  جج سفارش مانتا ہے یا پیسے لیتا ہے اس کا قریبی دوست کون ہے کس کی بات نہیں ٹال سکتا یہ وہ باتیں جن سے ہرجج کو گزرنا پڑتا ہے  میری عدالت میں میرے آبائی ضلع سے لوگ میرے پرانے دوستوں کو تلاش کرکے لائے اور وہ جب میری عدالت میں آئے تو میں نے ان کی سفارش کو نہیں مانا میرٹ پر ان کا جو بھی ریلیف بنتا تھا دیا جس کی وجہ سے دوست ناراض ہوئے لیکن پہلے سال کی مشکلات کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوگیا  اور اس کے بعد  یہ سلسلہ ختم ہوا کافی عرصہ ہوا  نہ تو کوئی سفارش لیکر آیا نہ کسی نے آفر کی ہمیں لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ وہ اسقدر دوڑ دھوپ کیوں کرتے ہیں  بنیادی طور پر بعض اوقات جائز کام کیلئے بھی ناجائز زرائع استعمال کیئے جارہے ہوتے ہیں  اگر جائز کام فوری کردیئے جایئں تو لوگ اس قسم کی دوڑ دھوپ کیوں کریں؟

سوال: بعض اوقات پرانے دوستوں کو اہمیت تو دینا ہی پڑتی ہے؟

جواب : جج بن جانے کے بعد سماجی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں  انسانیت سے رشتہ جوڑنے کیلئے تعلقات اہمیت نہیں رکھتے   جب آپ ایک دوست کی سفارش مانیں گے تو یہ خبر باقی دوستوں تک پہنچے گی  اس طرح قطار بن جائے گی اسی طرح ایک بلاوجہ کی بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہوگا ہاتھ صاف نہیں ہونگے تو  اعتماد ختم ہوجائے گا سماجی تعلقات کے چکر میں انسان انصاف سے دور ہوجاتا ہے

سوال: کیا کبھی کسی سیشن جج نے کسی کام کیلئے دباؤ ڈالا؟

جواب: جی ہاں لیکن صرف ایک بار واقعہ یہ تھا کہ میں نے ایک بااثر پولیس افسر کو جرم ثابت ہو نے پرسزا سنائی  اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دیر بعد میرے سیشن جج کی کال  میرے سیل فون پرآئی اور کہا کہ پولیس افسر کے معاملے میں نظر ثانی کریں میں نے کہا کہ میں تو گھر آگیا ہوں یہ سن کر سیشن جج آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ جانتے ہو کس سے بات کررہے ہو میں فلاں ہوں میں نے کہا کہ بالکل جانتا ہوں لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں  کون  بات کررہا ہوں یہ سن کر انہوں نے کال منقطع کی بعد ازاں اپیل میں سیشن جج نے اس پولیس افسر کو باعزت بری کردیا اسی طرح ایک پولیس افسر نے ایک وڈیرے کے حکم پر ایک بچے کو  جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے گرفتار کرنے کے بعدتھانے میں کرسی پر بٹھا کر بجلی کے تار سے  نہایت ہی ظالمانہ طریقے سےجکڑا   اور گھر چلا گیا اس دوران وہ بجلی کے تار  اس کے جسم میں اتر گئے  وہ شدید زخمی ہوگیا لیکن ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ پولیس افسر  دوسرے دن  ریمانڈ کے دوران خودکشی کے مقدمہ بھی بناکر لے آیا کہ اس ملزم نے بلیڈ مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے  میں نے میڈیکل کروایا  جس سے بلیڈ مارنا ثابت نہیں ہوا یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے تار سے ملزم کو جکڑا گیا تھا کیس رجسٹر کرکے ٹرائل کیا شواہد مضبو ط تھے سزا سنائی یہ  پولیس افسر بھی  سیاسی طور پر طاقتور تھا ججمنٹ جاندار تھی سیشن جج نے رہا تو نہیں کیا دوبارہ ٹرائل کروا کر گواہ منحرف کروائے گئے اس طرح پولیس افسر کی جان بچائی گئی یہ دو انفرادی واقعات تھے  جو کہ پورے 11 سال کے کیئرئر میں پیش آئے  اس کے بعد  کبھی کسی سیشن جج نے میرے اختیارات میں مداخلت نہیں کی رشوت نہ لینے والا اور اصولوں پر چلنے  والے انسان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا

سوال: وکلاء کا رویہ کیسا رہا ؟

جواب: اندرون سندھ بار اور  وکلاء کا رویہ ججز کے ساتھ بہت اچھا ہے وہ کورٹ اور جج کا ادب کرتے ہیں  اور کبھی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتے نہ ہی شور شرابہ کرتے ہیں  مجھے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اندرون سندھ   کسی وکیل سے کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی اور نہ ہی بار سے کوئی شکایت رہی نہ ہی بار کی جانب سے کبھی مجھ پر کبھی کوئی دباؤ رہا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ میرا دامن صاف ہے   اس کی  ایک  اور وجہ سندھ کی وہ ہزاروں سال پرانی روایات ہیں  جس کے تحت وہ جج کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ کبھی پیش آیا بھی ہوگا تو میرے علم میں نہیں یہاں تک کے عوام الناس میں بھی احترام ہے

سوال: لیکن وکلاء اور ججز کے تعلقات خراب رہتے تو ہیں؟

جواب: میرے علم میں نہیں  میں خود غلط نہیں ہوں تو کوئی مجھے غلط کام کرنے کا نہیں بولتا  نہ ہی کوئی پریشر ڈالتا ہےمیں صرف اتنی بات جانتا ہوں۔ جن کے تعلقات خراب ہیں وجہ بھی وہی جانتے ہونگے

سوال:بحیثیت جج کراچی کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: کراچی کا تجربہ بھی ٹھیک ہی ہے  شروع شروع میں کچھ  لوگوں نے شور شرابہ کیا  لیکن جب میرا اپنا دامن صاف ہے تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ایک بار  میں نے بار ایسوسی  ایشن کی ایک اہم شخصیت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ  بڑے ہی غصے میں کمرہ عدالت میں تشریف لائے اور اوپن کورٹ میں کہا کہ ہم آپ کی تنخواہوں میں اضافے کےلیئے سپریم کورٹ تک  گئے اور آپ ہمارے خلاف ہی فیصلے دے رہے ہیں میں نے تحمل سے کہا کہ میں نے کب کہا ہے آپ کو کہ میری تنخواہ میں اضافے کیلئے آپ کوشش کریں یا سپریم کورٹ جایئں    یہ فیصلہ میرٹ پر کیا ہے کسی کے خلاف نہیں یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے اور عدالت سے چلے گئے بہرحال سیشن جج نے ان کا کیس میری عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا مختصر یہ کہ  ایک دومعمولی واقعات کے بعد یہاں بھی صورتحال ٹھیک ہوگئی  نہ ہم غلط کام کرتے ہیں اور نہ ہی غلط بات برداشت کرتے ہیں ہماری ایمانداری  اور علم کے ساتھ لگن  ایک وکیل  کو تمام  اقسام کے قانونی  جرائد کا مطالعہ  ہر صورت  میں کرنا چاہیئے   قانونی  نکات  سے اپ ڈیٹ  رہنا ضروری  ہے  اور  یہی ہمارا اصل اعتماد ہے

سوال: کوئی بھی جج پہلی غلطی کب کرتا ہے؟

جواب: پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ کسی جاننے والے کی یا کسی دوست کی سفارش مان لیتا ہے یہی غلطی کرپشن کے سارے راستے کھول دیتی ہے اور جج خود اعتمادی سے محروم ہوجاتا ہے جج کو انسانیت سے رشتہ جوڑنا چایئے لیکن میں کہتا ہوں "بے درد نامرد" جس جج کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے انسانوں کے دکھ اور درد کو محسوس نہ کرسکتا ہو تو میرا خیال ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ  ایسے ایماندار جج جس کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو اس سے وہ جج بہت بہتر ہے جو پیسے لیکر کم ازکم کام تو کردیتا ہے
انسانیت کا درد محسوس کیئے بغیر جج کا عہدہ بے معنی ہے

سوال:  کیا عدلیہ  فرسودہ نظام کو ختم کرسکتی ہے؟

جواب: بالکل اگر  نچلی سطح پر توجہ دی جائے تو عدلیہ فرسودہ اور ظلم کے نظام پر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر جوڈیشل  سسٹم کی  بنیاد یعنی مجسٹریٹ مضبوط ہوگا تو  تھانہ کلچر کا شرطیہ خاتمہ ہوگا
سوال : وقت کے ساتھ بحیثیت جج کیا تبدیلی آئی؟

جواب: پہلے جب لوگ سفارش کرواتے تھے تو چڑ کر ان کے خلاف فیصلے دے دیتا تھا لیکن اب کوشش ہوتی ہے کہ انصاف کیا جائے لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو لوگ سفارش تلاش نہیں کریں گے

(یہ ایک طویل انٹرویو کی پہلی قسط ہے   یہ ایک ابتدایئہ تھا کیونکہ آگے چل کر ایسے مسائل کی نشاندہی کی جائے گی جن کے زریعے پورے نظام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے)
عدالتی موضوعات پر  میری تین سوسے زائد  تحاریر  ریکارڈ کا حصہ ہیں  کوشش کی ہے کہ ایمانداری کے ساتھ خیالات کا اظہار کروں   جو دوست تنقید کرتے ہیں ان کو میرا مختصر یہی جواب ہے کہ

ہم نے جو حرف لکھا دل کے تعلق سے لکھا
زاویئے غم کے بدلتے گئے انداز کے ساتھ


میں شوق کی بنیاد پر لکھتا ہوں   اپنے  ذاتی  مشاہدے  اور مرضی کی بنیاد پر لکھتا ہوں اور شوق کی کوئی    
قیمت نہیں ہوتی