Powered By Blogger

Sunday 14 August 2016

انصاف کا خون کرنے والوں کا خون تحریر صفی الدین

انصاف کا خون کرنے والوں کا خون تحریر صفی الدین
کل میں اپنی دھن میں مست تنہا جارہا تھا تو اچانک زمین سے آواز آئی غور سے سنا تو میری زمین میری دھرتی زاروقطار رورہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھرتی نے کہا کہ میں پیاسی ہوں میں نے اپنی پیاس بجھانی ہے
میں نے غصے سے کہا کہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جان لیکر بھی تیری پیاس نہیں بجھی کتنے ہی لوگ خود کش بم دھماکوں میں شہید ہوگئے یہ تیری پیاس کی ہوس کیسے کم ہوگی کتنے لوگ روڈ پر دہشت گردی کی نظر ہوگئے لیکن تیری پیاس کم نہ ہوئی بڑھ گئی ہے

دھرتی نے جواب دیا بس آخری بار ہی اب پیاس بجھانی ہے
جن لوگوں نے اس دھرتی پر بیٹھ کر انصاف کا خون کیا اب آخری بار ان کا خون پینا ہے

دھرتی نے کہا انصاف کا خون کرنے والوں سے اب میں خود انصاف کروں گی
یہ کہہ کر میری دھرتی خاموش ہوگئی اور مجھے ایک بار پھر خوفناک قسم کی سرسراہٹ اور آہٹ محسوس ہونے لگی

Thursday 11 August 2016

چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کے نام ایک کھلا خط تحریر صفی الدین اعوان

   محترم  جنا ب چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ


جناب اعلٰی
دوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل سے جنگ کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو وہ قوم سے ایک ہی سوال کرتا تھا کہ کیا برطانیہ کی عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں  قوم کی طرف سے جواب ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں
چرچل جواب دیتا تھا کہ جب تک اس ملک کی عدالتیں شہریوں کو انصاف فراہم کررہی ہیں اس وقت تک  کوئی قوم برطانیہ کو شکست نہیں دے سکتی ۔۔ اور یہ بات سچ ثابت ہوئی  
حبس بے جا ایک مشہور زمانہ   ضابطہ ہے قانون کا ایک عام طالبعلم اور ایک عام وکیل بھی جانتا ہے کہ حبس بے جا کی رٹ کیا ہوتی ہے
لیکن یہ اعزاز صرف سندھ ہایئکورٹ کو حاصل ہے کہ   گزشتہ دنوں  یہ بات سامنے آئی کہ ایک چوبیس سال کی سروس کرنے والی اور ڈبل پروموشن حاصل کرکے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ایک جج صاحبہ کو یہ نہیں پتا تھا کہ حبس بے جا کیا ہوتی ہے
اسی طرح ایک  چودہ سال کی سروس کرنے والے ایڈیشنل  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو  بھی حبس بے جا کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ حقیقت ہرلحاظ سے شرمناک  اور افسوسناک ہے لیکن اس میں ان دونوں ججز کا کیا قصور؟
قصور تو ان نااہلوں کا ہے جنہوں نے اپنے جیسے ان نااہلوں کو  ایک بار نہیں دوبار پروموشن دی
گزشتہ دنوں ہی یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو ججز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سلیکشن کیلئے این ٹی ایس کے امتحانات میں وکلاء کے ساتھ   گزشتہ چھ سال سے شریک ہوکر بار بار فیل ہوتے رہے ہیں ان کو پروموشن کمیٹی نے ڈبل پروموشن دے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا کر  اس ملک میں سول وار اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کردی ہے
سیلیکشن کمیٹی کے وہ ممبران جنہوں نے این ٹی ایس فیل ججز کو پروموٹ کیا بلاشبہ وہ اس   قوم کے مجرم ہیں جن کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اس ملک کو یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو یہ پتا  ہی نہیں کہ حبس بے کی رٹ کیا ہوتی ہے
دوسری طرف سندھ ہایئکورٹ نے ایک بار پھر میرٹ کی دھجیاں اڑا کر اسی  پروموشن بورڈ کے ممبران کے زریعے جو اس صوبے کے عوام کو دھوکہ دے کر نااہل ججز کو عدلیہ پر مسلط کرکے اس ملک میں سول وار اور خانہ جنگی کی بنیاد رکھ چکے ہیں وہ دوبارہ  میرٹ کا جنازہ نکال کر  ڈرامہ رچانے کا پروگرام بنا چکے ہیں
سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے جاری کردہ  اشتہار میں یہ بات کہیں بھی نہیں لکھی ہوئی ہے کہ عدالتی نظام میں این ٹی ایس فیل سفارشی اور نااہل ججز کو نوازنے اور ان کو دوبار پروموشن دینے کے بعد  اس وقت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی کتنی سیٹیں خالی ہیں  سوال یہ ہے کہ جب تمام سیٹوں پر این ٹی ایس میں فیل ہونے والے نااہلوں کی فوج بٹھا دی گئی ہے تو پھر یہ این ٹی ایس کا ڈرامہ کیوں رچایا جارہا ہے کیوں لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کررہے ہو
ملک میں آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے لیکن ایک نہیں ایک ہزار آپریشن ضرب عضب کروالیئے جایئں  جب تک عدالتی نظام میں موجود نااہلوں  کے خلاف  آپریشن ضرب عضب کرکے اہل ججز عدلیہ میں تعینات کرکے ان کے زریعے ملزمان کو سزا دینے کا کوئی نظام نہیں بنایا جاتا اس وقت تک سارے  ضرب عضب اور فوجی آپریشن بے کار ہیں دوسری طرف سندھ ہایئکورٹ نے نااہل ججز کو تعینات کرکے اس ملک میں سول وار کی راہ ہموار کردی ہے دوسری طرف چیف جسٹس پاکستان نے تسلیم کیا کہ  نوے فیصد ملزمان عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اگرچہ چیف صاحب نے ملبہ پراسیکیوشن  پر ڈال دیا ہے لیکن  جن ججز کو  حبس بے جا کے ضابطے کا علم نہیں وہ کسی ملزم کو سزا کیا سنائیں گے اور پراسیکیوشن یا  جھوٹا مقدمہ بنانے والے تفتیشی افسر کے خلاف کیا کاروائی کریں گے وہ صرف تھوک کے حساب سے صرف ملزمان کو رہا ہی کرکے ملبہ پراسیکیوشن پر ہی ڈال سکتے ہیں  
اس پس منظر میں چیف جسٹس ہایئکورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طورپر  اخبارات میں اشتہار دے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیٹوں کی تعداد اناؤنس کی جائے تاکہ شفافیت قائم ہو
ہم چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں  گزشتہ چھ سال کے دوران جو ججز این ٹی ایس  کے امتحانات میں شریک ہوکر فیل ہوتے رہے ہیں ان کا ریکارڈ طلب کرکے اس ریکارڈ کی روشنی میں تمام پروموشن کو  کالعدم قرار دیا جائے اور ان نااہلوں کو برطرف کیا جائے  اور نااہل  پروموشن بورڈ میں شامل ان تمام قابل احترام جسٹس صاحبان کے خلاف پورے احترام کے ساتھ  ان کے ریفرنس بنا کر جوڈیشل کمیشن میں  بھیجا جائے

ججز کو پروموشن  دینے   کیلئے کریمینل  کیسز میں  ڈسپوزل پالیسی کو فوری طور پر ڈسپوز کیا جائے اس پالیسی کو واش روم میں فلیش کردیں اور پروموشن کو   ججز کی کارکردگی سے مشروط کردیں  کہ کتنے کیسز میں ملزمان کو سزا دی اور جھوٹے مقدمات بنانے والے کتنے تفتیشی افسران  کے خلاف مقدمات قائم کیئے  یہ پروموشن کا معیار ہونا چاہیئے  اسی طرح پروموشن کیلئے ڈیپارٹمینٹل ٹیسٹ ہونا چاہیئے
ہم چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں  صوبائی سیلیکشن بورڈ توڑ دیاجائے  اور  صاف ستھرے اجلے کردار  اور باضمیر افراد پر مشتمل جسٹس صاحبان   کو سیلیکشن بورڈ  میں شامل کیا جائے
 چیف جسٹس صاحب اگر این ٹی ایس فیل ججز کو دو بار پروموشن دینے کے عمل میں اگر آپ خود بھی شریک ہیں تو اصولی طور پر پاکستان کی مظلوم عوام سے معافی مانگ کر آپ کو اپنے عہدے سے استعفٰی دے دینا چاہیئے  کیونکہ نااہل ججز کو عدالتوں میں تعینات کرکے  نہ صرف صوبہ سندھ کے عدالتی نظام پر ضرب کاری لگا کر ایک خودکش حملہ کردیا ہے بلکہ  انصاف کے نظام کو تباہ  و برباد کردینے کے بعد   پاکستان میں سول وار اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کردی ہے  اور یہ آپریشن ضرب عضب کو بھی ناکام بنانے کی کامیاب سازش ہے
سابق صوبائی سلیکشن بورڈ کے چیئرمین   جسٹس مشیر عالم نے خود کہا تھا کہ نااہلوں کو جج لگانے سے بہتر ہے کہ کسی کو جج لگایا ہی نہیں جائے 
لیکن کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے کہ  جسٹس مشیر عالم سابق چیئر مین صوبائی سیلیکشن بورڈ نے جن لوگوں کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سیٹ کیلئے نا اہل قرار دیا تھا آج  وہ سب کے سب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج بن چکے ہیں  اور جس جسٹس مشیر عالم کی زیر نگرانی این ٹی ایس کے امتحان میں شریک ججز  نمایاں نمبروں سے فیل ہوگئے  تھے ان میں سے نوے فیصد ججز کو سینیارٹی کا بہانہ  بناکر  پروموشن دے دی گئی ہے   اس سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جسٹس مشیر عالم صاحب نے پورے صوبے سے جو صرف تین ہیرے تلاش کیئے تھے ان کے میرٹ کا یہ عالم تھا کہ  ان  میں سے دوججز  بنیادی قابلیت کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے یعنی بنیادی شرط یہ تھی کہ  امتحان  میں شرکت  کیلئے جج کی چھ سال کی سروس ہونا ضروری تھی لیکن سفارش اتنی  بڑی تھی کہ قواعد وضوابط توڑ کر ان کی دھجیاں اڑانے کے بعد اس جج کو کامیاب قرار دیا گیا  جس ہیرے کو پورے صوبے سے میرٹ  کی بنیاد پر تلاش کیا گیا  اس کی  سروس صرف چار سال تھی  اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  کرپشن کس  بدمعاشی  اور غنڈہ  گردی  سے کی جاتی ہے اور آج وہ ہیرا صوبہ سندھ میں سروس ہی نہیں کررہا وہ اسلام آباد بیٹھا ہے  اور تنخواہ سندھ ہایئکورٹ ادا کرتی ہے  
اس پر میں نے ایک بلاگ بھی لکھا تھا کہ  " پپا اوتھ  نہ لینا" جو   ہمارے اردو بلاگ پر موجود ہے

باقی مختصر یہ ہے کہ   اگر آزاد عدلیہ سے مراد کرپشن کی آزادی ہے اقرباء پروری کی آزادی  میرٹ کی دھجیاں اڑانے کی آزادی  تو آپ سب لوگ سخت  غلطی کررہے ہیں
کیا پاکستان کی عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب ہے بالکل بھی  نہیں
 این ٹی ایس ججز کو پروموشن  دینے والے بدعنوان عناصر پر مبنی صوبائی سیلیکشن بورڈ کو کسی صورت تسلیم  نہیں کیا جاسکتا 
چیف جسٹس  سندھ  ہایئکورٹ  صاحب گزارش ہے کہ تین دن کے اندر صوبائی سیلیکشن بورڈ کو توڑ کر   ان  لوگوں پر مشتمل  بورڈ  تشکیل  جائے جو  این  ٹی ایس  فیل ججز کو پروموشن  دے کر ملک کو سول وار اور خانہ  جنگی  کے راستے پر  لے  جانے کے جرم  میں  شریک  نہیں ہیں 
 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی  سیٹوں کی تعداد کا اعلان کرنے  کے بعد  این ٹی ایس کے  نئے شیڈول کا اعلان کیا جائے اور موجودہ  صوبائی سیلیکشن بورڈ کی جانب سے  تشکیل دیئے گئے شیڈول کو منسوخ کیا جائے
چیف جسٹس صاحب میں آپ  کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سندھ ہایئکورٹ آپ کی یا کسی کی بھی ذاتی جاگیر نہیں ہے   عدلیہ کو جو بجٹ دیا جاتا ہے وہ اس غریب ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس  عدالتی  نظام کو ایک آئین کی روشنی میں چلانے کے آپ بھی پابند ہیں  کسی قسم کی من مانی  کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی
چیف جسٹس پاکستان اور کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی بینچ نے  سندھ پولیس  کو پروموشن اور نئی تعیناتیوں کے حوالے جو گایئڈ لائن   دی تھی اور پاکستا ن بھر کے سرکاری اداروں  کو  نئی تعیناتیوں کیلئے  سارا  دن  جو نصیحتیں   آپ لوگ کرتے ہیں  اس پر سب سے پہلے آپ لوگ خود عمل کرنے کے پابند ہیں اس لیئے گزارش ہے کہ فوری ایکشن لیاجائے  
شکریہ
صفی الدین اعوان

Sunday 7 August 2016

لاء سوسائٹی پاکستان کی ممبر شپ کا اعلان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفی الدین اعوان

لاء سوسائٹی پاکستان اپنی  تنظیمی ممبرشپ کا اعلان کرتی ہے
اپنی جدوجہد کے تین سال مکمل ہونے کے بعد لاء سوسائٹی پاکستان اپنی  ممبر شپ کا اعلان کرتی ہے یہ ممبرشپ پورے پاکستان میں ہوگی لاء سوسائٹی پاکستان کے قیام کا  بنیادی مقصد  عدالتی اصلاحات  تھا  عدلیہ میں سب سے پہلے بے خوف ہوکر کرپشن  اور نااہلی  کے خلاف لاء  سوسائٹی  نے آواز اٹھائی اور بدعنوان عناصر کے خلاف ٹھوس شواہد عدلیہ کو فراہم کیئے جس کے نتیجے میں  صوبہ سندھ سے تیس کے قریب بدعنوان ججز کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا گیا
ججز کی نااہلی کا معاملہ سب سے پہلے لاء سوسائٹی پاکستان نے اٹھایا اور صوبہ سندھ میں  ان ججز کی نشاندہی لاء سوسائٹی پاکستان  نے کی جو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کے امتحانات میں شریک ہوکر فیل ہوگئے تھے اور بعد ازاں  ان نااہلوں کو غیرقانونی طورپر پروموشن دے دی گئی ہے   اور اس وقت سو سے زائد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز ایسے موجود ہیں جو کسی بھی طرح اس سیٹ  پر بیٹھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ اس معاملے کو جلد آئینی عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا
لاہور ہایئکورٹ کے چیف جسٹس اسی راستے پر چل رہے ہیں جس کی نشاندہی لاء سوسائٹی پاکستان ہمیشہ سے کرتی چلی آرہی ہے  اور انشاء اللہ پنجاب سے ایک سوسے زائد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور جوڈیشل  مجسٹریٹ جو کرپشن میں ملوث ہیں بہت جلد وہ اس عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہونگے
لاء سوسائٹی پاکستان نے  عدلیہ  سے منسلک ہمیشہ سلگتے ہوئے مسائل پر کھل کر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے  
موجودہ دور میں تھانہ کلچر ایک سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے  اور تھانہ کلچر کا خاتمہ صرف آزاد اور خودمختار عدلیہ ہی کرسکتی ہے
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ایسی عدلیہ موجود ہے جو  پولیس کی ذہنی غلام اور ذہنی ماتحت ہے اس کی اہم وجوہات میں  نااہلی اور لیڈرشپ کا فقدان ہے  ایک عام پولیس کا سپاہی اور معمولی پولیس  افسر عدالتی احکامات کی حکم عدولی کرتے رہتے ہیں  جس کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے  
ذہنی غلام عدلیہ  اور ذہنی ماتحت عدلیہ خاموش تماشائی بن کر یہ سارا تماشا دیکھتی رہتی ہے اور حکم عدولی میں  ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کبھی ایکشن نہیں لیئے جاتے
ہر سال پولیس لاکھوں افرد  کو پولیس گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرتی ہے  جن کو ایک بے مقصد قسم کے کورٹ ٹرائل سے گزارنے کے بعد  نااہل ججز رہاکردیتے ہیں  لیکن پولیس اور عدلیہ کے درمیان ذہنی غلامی اور ذہنی ماتحتی کے خفیہ معاہدے کے تحت عدلیہ کبھی بھی کسی پولیس افسر کے خلاف ایکشن نہیں لیتی   ہم اسی ذہنی ماتحتی اور ذہنی غلامی کا خاتمہ چاہتے ہیں
لاء سوسائٹی پاکستان  ایک ایسی عدلیہ چاہتی ہے  جو قانون شکن عناصر کو سزا دے اور اگر کسی بے گناہ انسان کے خلاف پولیس مقدمہ قائم کرتی ہے  اور ٹرائل کے دوران یہ بات ثابت ہوجاتی ہے تو عدلیہ ان پولیس افسران کے خلاف ایکشن لے ان کے خلاف مقدمات قائم کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ صورتحال میں ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ پولیس کا  خوف ججز کے دلوں میں موجود ہے  چیف جسٹس پاکستان بھی اپنی نااہل عدلیہ کی نااہلی  تسلیم کرچکے ہیں کہ  نوے فیصد ملزمان  پراسیکیوشن کی غلطی سے رہا ہوجاتے ہیں  جس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری عدلیہ نے ملزمان کو رہا کرتے وقت کسی پولیس افسر کے خلاف ایکشن نہیں لیا جس کی غفلت سے  ملزمان رہا ہوجاتے ہیں
اس کے باوجود قابل قدر ججز لاء سوسائٹی پاکستان سے منسلک ہیں جو نہ صرف پولیس افسران کے خلاف سخت قسم کے ایکشن لیتے ہیں بلکہ ان کو عدالت کی حکم عدولی پر جیل بھیجتے ہیں  اور بے گناہ افراد کے خلاف مقدمات قائم کرنے والے پولیس افسران کے خلاف محکمہ جاتی کاروائیاں کرتے ہیں  لیکن ایسے ججز کی تعداد کم ہے
عدالتی اصلاحات کے حوالے سے لاء سوسائٹی پاکستان نے جسٹس صاحبان  سیشن ججز سینئر سول ججز  اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور مجسٹریٹ صاحبان کے ساتھ    انفرادی سیشن کیئے ہیں   جس کے نتیجے میں بے شمار مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں  
ہم آپ کو لاء سوسائٹی میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں  اگر آپ کسی وکلاء گروپ سے منسلک ہیں تو آپ ہمدرد بن کر ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں  لیکن وہ لاء سوسائٹی کے  مشاورتی  اور تنظیمی سیٹ اپ میں شامل نہیں ہوسکتے  اسی طرح دوسرے گروپس میں شامل تمام ممبران کی ممبر شپ   کا  درجہ تبدیل کرکے ان کو ہمدرد کا درجہ  دے دیا گیا ہے اور اب  ان کو کسی بھی  تنظیمی فیصلے، مشاورت   اور اجلاس میں شامل نہیں کیا جائے گا
نئے تنظیمی سیٹ اپ کا اعلان  15ستمبر 2016کو کیا جائے گا
سول سوسائٹی  اور عام شہری بھی لاء سوسائٹی میں شامل ہوسکتے ہیں   اس کیلئے ممبر شپ فارم  چودہ اگست سے دستیاب ہوگا
اس کے ساتھ ہی ہم عدلیہ سے  پولیس کی ذہنی غلامی اور ذہنی ماتحتی  کے خاتمے کی ملک گیر مہم کا اعلان کرتے ہیں
یہ مہم چودہ اگست   2016سے شروع ہوگی
ہمارے مطالبات بالکل واضح ہیں کہ
  عدلیہ کے احکامات کی حکم عدولی کرنے والے افسران کو جیل بھیج کر ذہنی غلامی اور ذہنی ماتحتی کے خاتمے کا اعلان اور عملی ثبوت  فراہم کیا جائے   
ڈسپوزل پالیسی کا اطلاق کریمینل کیسز سے ختم کیا جائے  کیونکہ ڈسپوزل پالیسی ملکی سالمیت کیلئے خطرہ بن چکی ہے

 ججز کی پروموشن کو قانون شکن عناصر کو  سزا  دینے اور بے گناہ افراد کے خلاف  جھوٹے مقدمات بنانے والے پولیس  افسران   اور ان  مقدمات  کو  قابل  سماعت  قرار دیکر  انتظامی  حکم نامہ  جاری  کرنے والے  جوڈیشل  مجسٹریٹ کے خلاف  مقدمات  اور محکمہ جاتی  کاروائی  کرنے سے مشروط کیا جائے

چیف جسٹس  پاکستان کے اعتراف کے مطابق ہر سال  نوے فیصد مقدمات پراسیکیوشن کی غفلت اور غلطی کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ  ایسی صورتحال میں  عدلیہ  پولیس افسران کے خلاف مقدمات قائم کرکے عملی طور پر پولیس کی  ذہنی غلامی کی زنجیر کوتوڑنے کا اعلان کرے

پاکستان میں جاری عدالتی اصلاحات کے سفر میں آپ کا ہم سفر


صفی الدین اعوان
99 فرید چیمبر 8 فلور  عبداللہ ہارون روڈ صدر کراچی 
03343093302


Friday 5 August 2016

انسان کی پہچان بھیڑ میں ہوتی ہے :: تحریر صفی الدین اعوان

اردو ڈرامہ وارث   کا یہ ڈائیلاگ مجھے اکثر یاد رہتا ہے آج مجھے ایک اہم موقع پر یاد آیا
دلاور چوہدری حشمت سے کہتا ہے کہ 
چوہدری حشمت  بن کر سوچنے سے اس سوال کا جواب آپ کو  کبھی نہیں ملے گا –چوہدری صاحب-اس کیلئے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ نیچے اتر کر انسانوں میں آنا ہوگا

چوہدری حشمت: بھیڑ میں بندہ گواچ جاتا ہے دلاور (گم ہوجاتا ہے)
دلاور: یہیں تو سارا سوچ کا پھیر ہے  چوہدری صاحب  آپ کے نزدیک بندہ بھیڑ میں گم ہوجاتا ہے اور میرے خیال میں  بندے کی پہچان  بھیڑ میں  آکر ہوتی ہے

ایک جج صاحب ہیں صاحب علم ہیں اور علمی شخصیت ہیں  ان کے ساتھ میرا  ذاتی تعلق   نو  سال  سے ہے اور یہ تعلق عدالتی  اصلاحات  کے  ہی حوالے سے تھا   ایک لحاظ سے وہ میری  آئیڈیل  شخصیت   بھی ہیں  کیونکہ  اتنے عرصے  کے تعلق  کے دوران میں نے ان کی زبان سے کبھی بھی کوئی ہلکا کلمہ نہیں سنا  یعنی ہلکی بات نہیں سنی اور جب بھی بات کرتے ہیں تو عدالتی اصلاحات کے حوالے  سے ہی کرتے ہیں
اور دلائل  کے ساتھ کرتے ہیں  میرا ان کے ساتھ براہ راست تعلق پانچ سال رہا  اس دوران میں ان کے آفس سے بھی منسلک رہا   یعنی  دوہزار سات سے لیکر دوہزار بارہ تک بعد ازاں وہ جج بن گئے جس کے بعد   میں نے  خود ہی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے پاس جایا کروں کیونکہ جج زیادہ سوشل نہیں ہوتے اور کسی جاننے والے جج سے کسی کیس کے حوالے سے  ملنا یا سفارش کیلئے کہنا میری طبیعت کے خلاف ہے    آج کل   نہایت ہی اہم ترین پوسٹ پر ہیں   کل  چار سال بعد ایک  ضروری  کام سے جانا ہوا تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ وہ بھیڑ میں گم نہیں ہوئے رش کے باوجود   نہ صرف مجھے پہچانا بلکہ گفتگو کا سلسلہ وہیں سے ہی شروع کیا جہاں    2012 میں ٹوٹا تھا اور  علمی لحاظ سے کافی اچھی گفتگو رہی اور اس دوران وہ کسی سے بھی نہیں ملے  ویسے بھی کورٹ کا ٹائم ختم  ہوچکا تھا
میں نے   جاتے وقت   یہ شکوہ ضرور کیا سر آپ کے جانے سے ہمارے ڈسٹرکٹ کورٹ ویران  ویران سے ہوگئے ہیں  ہمیں تو تلاش کرنے سے بھی صاحب علم نہیں ملتا بات کریں تو کس  سے کریں
واقعی کراچی کے ڈسٹرکٹ کورٹس میں  جہاں جہاں علمی اور ادبی شخصیات  کی مخصوص  نشستیں ہوا کرتی تھیں وہ سب کی سب ویران ہوچکی ہیں  اور ان ویرانیوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے
پاکستان میں آج کل عجیب سا قحط پڑگیا ہے  تلاش کرنے سے ڈھونڈنے سے علمی شخصیت نہیں ملتی  اہل علم کو تلاش کرکے تھک جاتے ہیں بعض اوقات پورا مہینہ گزرجاتا ہے کوئی اہل علم نہیں ملتا  اس ملک میں عجیب قحط پڑگیا ہے  

دلاور: یہیں تو سارا سوچ کا پھیر ہے  چوہدری صاحب  آپ کے نزدیک بندہ بھیڑ میں گم ہوجاتا ہے اور میرے خیال میں  بندے کی پہچان  بھیڑ میں  آکر ہوتی ہے

واقعی انسان کی پہچان بھیڑ میں ہی آکر ہوتی ہے 

Thursday 4 August 2016

پانچ روپے دیکر پھر چھین لوگے :::: تحریر صفی الدین اعوان


آج سے چند سال ہی پرانی بات ہے سٹی کورٹ میں ایک لڑکا آتا تھا اس کی آواز بہت ہی پیاری تھی وہ کراچی بار کی کینٹین میں وکلاء کے ساتھ آجاتا اور وہاں اس سے  وکلاء گانے سنتے تھے اور داد دیتے تھے  اس کے بدلے میں ایک کپ چائے اور کھانا کھلادیتے تھے   نوجوان وکلاء  کا ایک گروپ روزانہ وعدہ کرتا کہ پانچ روپے دیں گے لیکن گانا سننے کے بعد وہ اس سے پانچ روپے بھی واپس لے لیتے تھے  کیونکہ ان کا اپنا ہاتھ بھی تنگ تھا اس طریقے سے بھی اس کی اچھی خاصی آمدن ہوجاتی تھی  کیونکہ اور وکلاء بھی پیسے دیتے تھے
پھر ایک دن وہ لڑکا غائب ہوگیا وہ ایک نہایت ہی باصلاحیت لڑکا تھا اس کی آواز کا معیار انٹرنیشنل معیار کا تھا لوگوں نے قدر تو کی لیکن اپنی حیثیت کے مطابق کی
وہ اس گروپ کا بھی احسان مند تھا جو اس سے پانچ روپے دینے کا وعدہ کرتے تھے لیکن پورا نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے ہی اس کو اس کینٹین میں متعارف کروایا تھا
اس گروپ کا ایک ممبر میرا دوست ہے کل اس نے مجھے یہ سارے واقعات فلم کی طرح سنائے کیونکہ 1998 میں ہم بار کے ممبر نہیں تھے کہ وہ ایک لڑکا تھا بہت اچھا تھا ہمیں گانے سناتا تھا آواز بہت پیاری تھی ہرروز آتا تھا ہم صرف چائے پلاتے تھے اور میرا ایک ساتھی پانچ روپے کاوعدہ کرکے واپس لے لیتا تھا وہ بہت کہتا تھا یار ایسا نہ کرو
بعض اوقات ضرورت انسان کو کتنا مجبور کردیتی ہے اور بڑے بڑے باصلاحیت افراد کو کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ضرورت مند انسان جب انسان کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر انسان تو ظالم ہی ہے ناں 
میرے دوست نے کہا یار کل ایک عجیب معاملہ ہوا کلفٹن سے جارہا تھا کہ ایک نئے ماڈل کی کار میرے پیچھے لگ گئی بہت جان بچائی لیکن اس نے بالآخر مجھے ایک  جگہ گھیر ہی لیا اور میرے آگے کار کھڑی کردی میں اس صورتحال سے پریشان ہوہی رہا تھا کہ اس کار کی فرنٹ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ مجھے جانا پہچانا سا لگا تو اس نے کہا وکیل ساب پہچانا نہیں  میں نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اس کو پہچانا یہ تو وہی لڑکا تھا
اس نے کہا آپ کو میں نے بہت تلاش کیا آپ ملے ہی نہیں 

کیونکہ میرا دوست اسی دوران  1999 میں اعلٰی تعلیم کیلئے بیرون ملک چلا گیا تھا  اس نے کہا آج آپ کو سگنل پر پہچانا بہرحال مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے یہ تو میڈیا کے زریعے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک نامور گلوکار بن چکا ہے لیکن ملاقات پندرہ سال بعد ہورہی تھی لیکن آنکھوں پر پھر بھی یقین نہیں آرہا تھا   وہ مجھ سے مل کر بہت ہی خوش ہورہا تھا روڈ پر ایک مختصر سی ملاقات کرکے جانے لگا تو میں نے کہا کبھی آؤنا دوبارہ ہماری  بار میں اس نے ہنس کہ کہا کہ مجھے پتہ ہے تم لوگ مجھے پانچ روپے دے کر پھر چھین لوگے یہ کہہ کر وہ چلاگیا  
یااللہ کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے مجبور نہ کرنا  یہ انسان دنیا کا سب سے ظالم درندہ ہے
اس نوجوان کو آج پورا پاکستان رحیم شاہ کے نام سے جانتا ہے   میں یہ واقعہ شیئر نہ کرتا اگر رحیم شاہ نے خود شیئر نہ کیا ہوتا 

Wednesday 3 August 2016

ساب راستہ بدل کر نہ جائیں:: تحریر صفی الدین اعوان

ساب راستہ بدل کر نہ جائیں::  تحریر صفی الدین اعوان  
                                                                       
                                                                        2009 ٹنڈو محمد خان سندھ
وہ ایک روشن صبح تھی  حسب معمول عدالت سے   تھوڑے ہی فاصلے پر واقع اپنے گھر سے
ایک مجسٹریٹ صاحب عدالت میں صبح سویرے  پیدل   چلتے ہوئے آرہے تھے سرکاری گن مین ساتھ تھا ۔راستے میں ایک لڑکا کھڑا تھا اس نے مجسٹریٹ کا راستہ روکا اور فریاد پیش کی کہ رات  مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے لوٹ مار کی اس کے والد ،چچا اور دوبھایئوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے مجسٹریٹ صاحب نے درخواست وصول نہیں کی اور سائل کو  قطعی  طور پر نظر انداز کردیا کورٹ پہنچے کورٹ چلائی کچھ دیر بعد کورٹ سے نکلے  ایک کورٹ سٹاف اور گن مین ساتھ تھا، تھانے پہنچ گئے لاک اپ چیک کیا چار افراد لاک میں موجود تھے  ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا روزنامچہ طلب کیا دونوں میں کوئی اندراج نہ تھا ڈیوٹی آفیسر کو طلب کیا وہ لاعلم تھا اس سے تحریری بیان لیا کہ وہ گرفتاری سے لاعلم ہے ہیڈ محرر کو طلب کیا وہ بھی لاعلم اس نے بھی تحریر لکھ کر دے دی
ایس ایچ او کو طلب کیا کچھ دیر میں وہ بھی حاظر ہوگیا وہ بھی گرفتاری سے لاعلم تھا  ایس آئی او انویسٹی گیشن کو طلب کیا وہ بھی لاعلم پورا تھانہ لاعلم مجسٹریٹ کے حکم پر لاک اپ میں بند افراد کو رہا کیا دوسرے دن ایس ایچ او سمیت ذمہ داران کو طلب کیا سب ہی لاعلم تھے ان غریب لوگوں نے بیان دیا کہ ایس ایچ او نے گرفتار کیا ہے بعد ازاں ایس ایچ او نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نے گرفتار کیا تھا ایس ایچ  او  کا  بیان ہوا لیکن مجسٹریٹ نے معافی نہیں دی اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کیا افسران بالا کو خط لکھا جس پر ایس ایچ او سمیت 5 افسران معطل کردیئے گئے سلام ہے پولیس کے افسران کو جنہوں نے عدلیہ کی عزت کی لاج رکھی
یہ تو عدلیہ کا ایک اجلا چہرہ تھا صاف ستھرا ہم ایسا ہی چہرہ چاہتے ہیں
ہمارے بہت سے ججز جو ہمارے دوست بھی ہیں عدلیہ کا اسی حد تک اجلا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں 
  لیکن اگلی بات تلخ ہے اور بدقسمتی سے بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ  ہم اس سسٹم کے خلاف بات نہ کریں جو فرسودہ ہوچکا ہے ہم عدالتی اصلاحات کی بات نہ کریں جو وقت کا تقاضا ہیں
پھر ہوا کچھ یوں کہ اس ایس ایچ او نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جس کو  ڈسٹرکٹ جج نے کنفرم ہی نہیں کیا اسی طرح دوماہ گزرگئے سیشن جج بھی ایسا کہ  "دامن کو نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے بیٹھ جایئں"  نام اسی لیئے نہیں لکھ رہا کہ فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیئے سرگرم افراد کی دل شکنی نہ ہو مختصر یہ کہ سیشن جج نے اس کی ضمانت مسترد بھی نہیں کی اور منظور بھی نہیں کی بلکہ فارمولہ نمبر 420 کے تحت  معاملے کو لٹکا دیا اور لٹکائے ہی رکھا جیسا کہ اس قسم کے معاملات میں ہوتا ہے
چونکہ مجسٹریٹ صاحب نظام کو بدلنے نکلے تھے اس لیئے پہلے ان کی اپنی بدلی کروائی گئی اس کے بعد سیشن جج نے  بڑی خوبصورتی کے ساتھ نئے مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر خارج کروادی (یہ ایک سچا واقعہ ہے اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے)
دوستو ہمارا وقت  اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے ہمیں کہانیاں سنانے کا بھی شوق نہیں لیکن ایسی تحاریر کا مقصد بنیادی اصلاحات ہیں ہم ہمیشہ سے ہی یہ کہتے ہیں کہ مجسٹریٹ، سیشن جج اور ہایئکورٹ مل جل کر ایک ٹیم ورک کے زریعے ہی پاکستان کے معصوم شہریوں کو نہ صرف غیرقانونی حراست بلکہ پولیس کے مظالم سے نجات دلا سکتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں اور سوچیئے کہ کہاں اصلاحات کی ضرورت ہے
یہ باتیں ہم سب کے سوچنے کی ہیں ہمارے ان دوستوں کی  جو کل تک ہمارے ساتھ ہی قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے نظام کو بدلنے کی بات کررہے تھے  دوستو ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ کیا وہ جذبہ آج بھی زندہ ہے  اسی جذبے کو انہی باتوں کو یاددلانے کی کوشش کرتے ہیں

 سندھ ہایئکورٹ کراچی 2011
جس جوڈیشل مجسٹریٹ نے تھانے پر چھاپہ مارا تھا اور افسران بالا کے زریعے افسران کو معطل کروایا تھا اور ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر داخل کروائی تھی وہ سندھ ہایئکورٹ  کراچی  میں   تاریخ  پر آیا ہوا تھا  کسی اہم کیس کی تاریخ تھی  
پولیس افسران کو معطل کرنے والا پولیس افسر اس مجسٹریٹ کو ہایئکورٹ میں ہی  مل گیا مجسٹریٹ صاحب نے راستہ چرا کر  تیزی  اور خاموشی  سے نکلنے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے کہا صاب راستہ چرا کر نہ نکلیں ہم نے تو اپنے پولیس والے آپ کی عدلیہ کے  صرف  ایک اشارے پر  معطل کردیئے تھے  بدنام بھی ہم  پولیس  والے ہی ہیں  سب سے زیادہ  ہم برے ہیں
لیکن صاب دیکھو اگر آپ کی عدالت  آپ کے ٹرانسفر  کے بعد ان  پولیس افسران  کو باعزت  بری نہ کرتی تو ہم اپنے افسران   کو  کبھی بحال نہ کرتے صاب کب تک ہم  پولیس والے  ہی   بدنام رہیں گے کیا آپ کی اجازت اور مفاہمت کے بغیر پولیس کسی کو تنگ لرسکتی ہے یہ طعنہ دے کر پولیس افسر نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور چلا گیا

جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس اس پولیس افسر کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا مکالمے کی صلاحیت سے محروم معاشرے سے تعلق رکھنے والا  ایک ایسا معاشرہ  جہاں مکالمے کو گالی سمجھا جاتا ہے اس  بے حس  معاشرے کا فرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورجوڈیشل مجسٹریٹ خاموشی سے  سرجھکائے اپنے گھر واپس روانہ ہوگیا

Tuesday 2 August 2016

وکالت کی معراج کیا ہے تحریر صفی الدین اعوان

ایک  قابل احترام جسٹس نے بتایا کہ  وکیل اپنی وکالت کی معراج پر کب پہنچتا ہے اس وقت جب وہ جرح کے فن پر مکمل عبور حاصل کرلیتا ہے
جرح ایک فن ہے ایک آرٹ ہے ایک سائنس ہے
فوجداری مقدمات میں جرح کیلئے ضابطہ فوجداری پر مکمل عبور ، پولیس ایکٹ پر عبور، قانون شہادت پر مکمل عبور اور جدید ترین نظائر یعنی   عدالتی فیصلوں کو گہرائی تک جاکر پڑھنا ضروری ہے  اور اسی طرح کی  ترتیب سول مقدمات کیلئے ہے   
اس کے علاوہ فن جرح پر لکھی گئی جدید و قدیم کتابوں کا  تفصیلی مطالعہ نہایت ضروری ہے
وہ لوگ جو انڈیا کی فلمیں دیکھ دیکھ کر عدالت میں کیس کے دوران  جرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں  یہ ایک خالص علم ہے
جب وکیل جرح کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو  اس کا ہر سوال  خاص مقصد کے تحت ہوتا ہے اور وہ اتنے اہم سوالات ہوتے ہیں کہ ہر سوال پر  جج اعتراض اٹھاتا ہے اور وکیل  اس اعتراض کا جواب قانون شہادت یا کسی کیس لاء کے ساتھ دیتا ہے  اور جب کسی پولیس افسر پر جرح کرتا ہے تو وہ اس قدر باریکی سے جرح کرتا ہے کہ  پولیس افسر کے پسینے بہہ رہے ہوتے ہیں  جو وکیل فن جرح پر عبور حاصل  کرلے   پولیس افسر اس کے سامنے  جرح  کیلئے کبھی نہیں آتا




قابل احترام جسٹس  نے بتایا کہ  جب وہ جونیئر تھے یعنی  تین سال کی پریکٹس تھی  تو ایک دن ایک سیشن جج نے عدالت میں ایک قتل کا  مفت کا مقدمہ دیا سیشن جج کا ذہنی موڈ تمام  ملزمان کو سزائے موت دینے کا تھا
جب میں نے ایک ہفتہ تیاری کرنے کے بعد  جرح کی تو پہلے ہی سوال پر سیشن جج کا چہرہ ہی سرخ ہوگیا اور کہا برخوردار آپ یہ سوال نہیں پوچھ سکتے میں  نے ایک کیس لاء کا حوالہ دیا  جس کے  بعد انہوں نے سوال پوچھنے کی اجازت دی دوسرے سوال پر  انہوں نے اعتراض کیا میں نے قانون شہادت کی روشنی میں جواب دیا اسی طرح سیشن جج نے ہر سوال  پر اعتراض کیا اور  کیونکہ میں تیاری کرکے آیا تھا تیاری سے مراد  مکمل تیاری اور ذہنی طور پر تمام اعتراضات کیلئے تیار اور ہر اعتراض کا جواب بھی تیار تھا
اس کے علاوہ  فن جرح پر تمام کتابوں کا مطالعہ بھی مکمل تھا اور ان میں سے ایک نایاب کتاب میں نے ایک سینئر کے آفس میں جاکر مطالعہ کیا تھا   حالانکہ میری زیادہ پریکٹس  سول سائڈ کی تھی اس کے باوجود جرح کے زریعے میں نے  حق اور باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی اور جب  تفتیشی افسر پر جرح کی تو اس کے پسینے پانی کی طرح بہہ رہے تھے اور وہ  بار بار پانی  طلب کررہا تھا اس کی وجہ  تفتیشی افسر کی جانب سے تفتیش میں  فاش غلطیاں   ضابطوں کی خلاف ورزیاں  تھیں  کیونکہ پولیس ایکٹ    مکمل پڑھا تھا اور میں جرح  ان ضابطوں کے مطابق کررہاتھا  جو عام  طور پر وکلاء اور ججز کی نظر سے نہیں گزرے ہوتے    اور بہت سے سولات ایسے تھے جو دوران مطالعہ  قانون کے شماروں میں مختلف فیصلہ جات کا حصہ تھے  اور میری نظر سے گزرے تھے اور مختلف کیس لاء میں یہ بات سامنے آئی تھی  کہ ضابطہ جات کی خلاف ورزیوں  کو کس طرح ریکارڈ پر لاکر ملزم کو فائدہ پہنچایا جائے
وکیل کبھی کسی  گناہگار کو سزا سے نہیں بچاتا  بلکہ جرح کے زریعے یہ واضح کرتا ہے کہ اصل حقیقت کیا تھی اور کس طرح کسی بھی کیس میں  بے گناہوں کو پھنسایا گیا ہے   اسی طرح جرح کے زریعے اصل ملزمان  بھی سامنے آتے ہیں 
اللہ کا شکر ہے کہ میری جرح کے زریعے تین میں سے دو بے گناہ افراد رہا ہوئے جن کو پولیس نے بے  گناہ کیس میں پھنسایا تھا
دیوانی مقدمات تو صورتحال مزید نازک ہوتی ہے کیونکہ وکیل کی غلطی کسی کو اس کی چھت سے محروم کردیتی 
ہے
بدقسمتی سے جب اپیل ہایئکورٹ آتی ہے تو کیسز کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ وکلاء کی 

غلطیاں  لوگوں کو ان کے حق سے محروم کردیتی ہیں 

اہم غلطی مطالعہ کا نہ ہونا اور قانونی شمارہ جات کا مطالعہ نہ کرنا  

وکلاء کو چاہیئے خصوصاً جونیئر وکلاء کو چاہیئے کہ   وہ  جرح کی تیاری   مطالعے کی روشنی میں کریں