Powered By Blogger

Saturday 8 April 2017

ہم نے اپنا ملال بیچ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان


ہم نے اپنا ملال بیچ دیا (9 اپریل 2008 سانحہ طاہر پلازہ)
تحریر صفی الدین اعوان
  9 اپریل 2008  دوپہر 01:00 بجے کا وقت
بسوں میں بھر کرلائے  گئے  دو درجن سے زائد مسلح افراد کو لائٹ ہاؤس کے قریب بلدیہ عظمٰی کراچی کی  قدیم بلڈنگ کی بغلی سڑک  پر  اتارا گیا  تھا جہاں سے کچھ  دیر کے بعد  وہ  پارکنگ  والے گیٹ سے سٹی کورٹ میں داخل ہوئے اور دندناتے ہوئے  کراچی بارایسوسی ایشن کی عمارت کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے عمارت میں گھس  گئے ان کے پاس  تحریک میں متحرک وکلاء کی تصاویر اور چند نام تھے  مسلح افراد کو سردار طارق خان نیازی ، نصیر عباسی ، شہریار شیری اور چند دیگر وکلاء رہنماؤں کی تلاش  تھی  کمیٹی روم میں حسن بانڈ صاحب  موجود تھے اس سے سردار طارق نیازی کے بارے میں پوچھا  نفی میں جواب ملنے پر کہا اوئے تیرے بارے میں بھی اطلاع ہے تم بھی بہت  چخ  چخ کرتا ہے  یہ کہہ کر مسلح افراد نے گالیاں  بکنے کے بعد  حسن بانڈ  ایڈوکیٹ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا   جس کے بعد درجنوں مسلح افراد  خواتین وکلاء کے بارروم میں داخل ہوئے   خوش  قسمتی سے کمرہ خالی تھا  جس کے بعد  لیڈیز بارروم کو آگ لگادی گئی وکلاء کراچی کے ضلع وسطی کی عمارت میں جمع ہوگئے تھے  میں  ضلع وسطی کی بلڈنگ کی  فرسٹ فلور کی کھڑکی سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا کہ لیڈیز بارروم سے دھواں نکل رہا ہے اسی دوران سیشن جج  نے مجھے ڈانٹ کر بلایا اور ایک جج کے چیمبر میں جانے کا کہا  جہاں بہت سی خواتین وکلاء بھی موجود تھیں سیشن جج  قانون نافذ کرنے والے اداروں سے  مسلسل  رابطہ کررہے تھے وہاں  بہت سے وکلاء  موجود تھے کورٹ کا  بیرونی گیٹ بندکردیا گیا تھا  اسی دوران مسلح افراد جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے   اسی راستے سے  بلدیہ عظمٰی  کراچی  کی بلڈنگ  سے لائٹ ہاؤس کی طرف واپس لوٹ گئے اور ایم اے جناح روڈ  پر آگئے جہاں  سامنے سے شہریار شیری  پیدل  چلتا  ہوا آرہا تھا  مسلح افراد کو اسی کی تلاش تھی  شیری   وکلاء تحریک میں نعرے بہت لگاتا تھا  مسلح افراد کے للکارنے  پر شہریار شیری نے ایک بار پھر  نعرہ لگایا مسلح افراد نے  شہریا ر شیری کو ایم اے جناح روڈ پر ہی گولیاں مارکر شہریار شیری کو شہید کیا اور  غلہ منڈی والے روڈ  پر کھڑی وکلاء کی  کاروں کو نزرآتش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ان کے پاس ایک مخصوص کیمیکل تھا جو فوری آگ پکڑلیتا تھا  تقریباً دوسو گاڑیوں کو آگ لگانے کے بعد مسلح افراد غوثیہ مرغ چھولے پہنچے  ان  کے عملے سے  نصیر عباسی  اور دیگر وکلاء رہنماؤں کے آفس کی نشاندہی کرنے کو کہا نفی میں جواب ملنے پر تمام  دیگیں الٹ دی گئیں اور رزق کی بے حرمتی کی گئی  بعد ازاں مسلح افراد طاہر پلازہ میں داخل ہوئے فرسٹ فلور پر اسٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا  پانچویں اور  چھٹے فلور پر کراچی بارایسوسی ایشن کے عہدیداران کو تلاش کیا  نصیر عباسی کو تلاش کرتے ہوئے وہ الطاف عباسی کے آفس     جا پہنچے  جہاں وہ اپنے آفس میں   باہر کے حالات  سے بے خبر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے   آفس میں  پانچ معصوم شہری بھی  اپنے مقدمات  کے سلسلے میں موجود تھے جو اپنے مقدمات کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے  جب مسلح افراد کو اس  بات کی تصدیق ہوگئی  کہ اندر لوگ موجود ہیں تو  آفس کی کھڑکی سے    گولی سے استعمال  ہونے والا کیمیکل پھینکا  اور گولی چلادی  جس کے بعد آفس میں  شدید آگ بھڑک اٹھی
الطاف عباسی اور ان کے آفس میں موجود افراد نے جان بچانے کیلئے  آفس سے نکلنے  کی کوشش کی  مگر باہر سے تالا ہونے کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل سکے   چیخوں کی  آوازیں   پلازہ  میں گونجتی  رہیں  اور الطاف عباسی سمیت چھ افراد ان کے آفس  کے اندر  ہی  جل کر شہید ہوگئے   جنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی وجہ سے انسان تو انسان آفس کے  لوہے کے دروازے  پلستر کی دیواریں  اور پنکھے تک پگھل گئے اور لاشیں جل کر کوئلہ اور ناقابل شناخت ہوگئیں   مسلح افراد نے طاہر پلازہ کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کیا  اور دوفلور زکو آگ لگا کر اطمینان سے بسوں میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوگئے طاہر پلازہ میں موجود وکلاء نے ساتھ والی بلڈنگ میں کود کر اپنی جان بچائی  لیکن طاہر پلازہ کے بیرونی مناظر اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے  سینکڑوں کی تعداد میں  گاڑیاں جل رہی تھیں اور وکلاء اپنی  گاڑیوں کو حسرت سے  جلتا ہوا دیکھ رہے تھے  
اسی دوران فسادیوں نے ملیر بارایسوسی ایشن کی بلڈنگ اور دیگر املاک کو  بھی جنگی کیمیکل سے جلا کر تباہ وبرباد کردیا  کوئی جانی نقصان  تو نہیں ہوا  لیکن بار کی عمارت اور فرنیچر  مکمل طورپر تباہ برباد ہوگئے
وکلاء کی دوسوسے زائد  کاروں ،طاہر پلازہ  اور ملیر بارایسوسی  ایشن  کی   عمارتوں  میں  لگائی  گئی  آگ کو بجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی فائر  بریگیڈ کی گاڑیاں  پانی کے بغیر ہی پہنچ گئے جب سب کچھ جل کر خاک ہوگیا تو آگ خود ہی بجھ گئی
ہم بڑی حسرت سے  کاروں اور طاہر پلازہ  سے اٹھتا ہوا دھواں  دیکھ رہے تھے
شام کو کئی وکلاء   کوان کی گھریلو خواتین اور بچوں کو مسلح افراد نے  ان کے گھر وں میں جاکر تشدد کا نشانہ بنایا گیا  فلیٹ نذر آتش کیئے گئے اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی  
طاہر پلازہ  چھٹی منزل پر ہرجگہ گوشت اور خون کے لوتھڑے  چپکے ہوئے تھے جلی ہوئی لاشوں کو کس طرح اور کس نے نکالا یہ کوئی نہیں جانتا
  اس ظلم اور جبر کے باوجود اگلے  ہی روز کراچی بارایسوسی ایشن کی جنرل باڈی  شہداء پنجاب  ہال  میں  منعقد ہوئی یہ تاریخ  کی شاید وہ پہلی جنرل باڈی تھی جس میں  وکلاء کے پاس  بیان کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا  صرف آنسو اور دبی دبی سی چیخیں تھیں  لیکن آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں تھا
بہت سے وکلاء تقریر کرنے کیلئے ڈائس پر آتو جاتے تھے   مائک  بھی ہاتھ میں پکڑتے تھے  لیکن  بات کرنے کی ہمت اور حوصلہ کہاں سے لیکر آتے   بڑے بڑے وکلاء اس دن  تقریر کی ہمت پیدا نہیں کرسکے  کہتے بھی تو کیا کہتے  کہنے کیلئے کچھ بچا ہی کہاں تھا
 جنرل باڈی اجلاس  سے خطاب کرنے والے مقررین   کچھ دیر آنسو بہاتے تھے ، رونے کی دبی دبی  آوازیں آتی تھیں بعد ازاں  مقررین  کی ہچکیاں  بندھ  جاتی تھیں    لیکن سامعین کے  رونے  اور ہچکیوں  کی آوازوں میں مقررین کے رونے  اور ہچکیوں  کی آوازیں دب جاتی تھیں اس دن تو حوصلہ دینے والا بھی کوئی نہیں تھا
جب رورو کر آنسو  بھی خشک ہوگئے تو جنرل باڈی کا اختتام ہوا  ،وکلاء طاہر پلازہ کی طرف روانہ ہوئے جلی ہوئی بلڈنگ سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا  جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو ابھی بھی موجود تھی اور انسانی گوشت کے لوتھڑے ابھی بھی موجود تھے  
ہم وکلاء ہی ان گوشت کے لوتھڑوں کے لواحقین تھے ہم ہی ان کے شہدا کے وارث تھے  
اگلے چند مہینوں کے بعد  طاہر پلازہ کے مکینوں نے دوبارہ سے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا  وقت بھی تو ایک مرہم ہے  
ہمیں اپنے شہید دوستوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے  
بدقسمتی سے  9 اپریل کو پورے پاکستان میں کسی وکلاء تنظیم نے  9 اپریل  طاہر پلازہ کے شہداء کو یاد نہیں کیا ان کی یاد میں کسی بھی  جگہ یوم سیاہ نہیں منایا گیا  کوئی جنرل باڈی منعقد نہیں ہوئی   سوائے ناہید افضال  ایڈوکیٹ  صاحب اور شبانہ ایڈوکیٹ صاحبہ  اور ان کے دیگر دوست  احباب   جو ہرسال  اس موقع  پر طاہر پلازہ میں قرآن خوانی  کرواکر شہدا کو یاد کرتے ہیں
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
ہم نے اپنا ۔۔۔۔۔ملال بیچ دیا

تحریر صفی الدین اعوان
سیکرٹری نشرواشاعت  پاکستان مسلم لیگ ن لائرزفورم کراچی ڈویژن

Saturday 14 January 2017

ون مین آرمی ناقابل شکست فوج ۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان









ون مین آرمی  ناقابل شکست فوج ۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان

زیادہ پرانی بات نہیں ابھی یہ  چند سال پہلے  انیس سونونے کی دہائی  یعنی  کل ہی کی تو بات ہے کہ   کراچی کے ڈسٹرکٹ کورٹس میں رشوت کا دور دورہ تھا  اور فلورنگ  رشوت کی بدترین شکل تھی  
پیسہ گھن آ تے آرڈر گھن ونج۔۔۔۔لے آ لے آ لے آ لے آ مال لے  آ۔۔۔۔۔کھنی اچ کھنی اچ  پیسہ کھنی اچ  آرڈر کھنی ونج

پاکستان  اور عدالتوں میں رشوت کی تاریخ بہت پرانی ہے  پاکستان کے ہرادارے کی طرح   عدلیہ کا دارہ  اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا  ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک وقت وہ بھی آیا جب  عدالتوں کے پورے فلور کے فلور  پر جرائم پیشہ عناصر وکیل کا یونیفارم پہن کر قبضہ کرلیتے تھے  اس  مقبوضہ  علاقے  میں پریکٹس کو فلورنگ کہا جاتا تھا  "فلورنگ" کرپشن کی بدترین شکل تھی  زیر حراست افراد سے  جعلی وکیل  زبردستی وکالت نامے دستخط کروا کر معاملات طے کرلیئے جاتے تھے وکالت نامے کے ساتھ ہی  دو آرڈر تیار ہوجاتے تھے پہلا آرڈر ملزم کو جیل بھیجنے کا دوسرا  ریلیز آرڈر بننا شروع ہوجاتا تھا   یعنی ملزم  کی رہائی  کا  ضمانت کی درخواست لکھنا اور پراسیکیوشن کو نوٹس پرانی تاریخوں میں بعد میں ہوجاتے تھے   
ضلع کا بڑا ساب بڑا لفافہ لے لیا کرتا تھا  وہ نظام الگ سے قائم تھا
فلورنگ کرنے والے جرائم پیشہ عناصر صرف وکالت نامے اور لفافے کا بندوبست کرتے تھے اگلا کا م ساب لوگ کرتے تھے لیکن  ساب لوگوں  کو   ڈائریکٹ ڈیل کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی ساب کا اسٹاف ریلیز بھی بناتا تھا اور ضمانت کی درخواستیں بھی لکھ لکھ  کر فائل کا خالی پیٹ بھرنے کی ناکام کوشش کرتا تھا
جرائم پیشہ عناصر نے مافیا کی طرح   پورے کے پورے فلور قبضہ کیئے ہوئے ہوتے تھے  اور ایک عام وکیل کو کسی صورت پریکٹس کی اجازت نہیں ہوتی تھی عام وکیل کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا   عام وکیل صرف سول کیسز ڈیل کرتا تھا
اس وقت  ساب لوگوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ رشوت لینا ان کا بنیادی حق ہے یہ سوچ آج بھی قائم ہیں  ۔۔۔۔۔سنا ہے جرائم پیشہ لوگ بہت ظالم تھے   سب کچھ لوٹ لیتے تھے  بہت سے جرائم پیشہ لوگ اور ان کے ساب لوگ ساتھی   برے انجا م سے دوچار ہوئے قدرت کے انتقام سے کوئی نہ بچ سکا  لیکن  گنتی  کے ایک دو دانے  آج بھی حیات ہیں

پھر  ڈسٹرکٹ  کورٹس سے فلورنگ کا خاتمہ ہوگیا کس طرح  ہوا اس حوالے  سے تاریخ خاموش ہے  لیکن اعلٰی عدلیہ میں فلورنگ ایک  نئے انداز سے سامنے آئی جس کا ذکر بعد میں ۔۔۔۔۔بعد ازاں فلورنگ والے جج برطرف ہوئے  بہت سے آج بھی موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔جرائم پیشہ عناصر غائب ہوگئے کچھ مرکھپ گئے کچھ تائب ہوگئے اور  کچھ نے تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر حج و عمرہ کرکے   اللہ اللہ شروع کردیا  لیکن کوئی بھی ظالم اللہ کی پکڑ سے بچ نہ سکا   فلورنگ کرکے ظلم کرنے والے ہرکردار کو دنیا میں ہی سزا ملی  اور ملے گی
جب ہم آئے تو فلورنگ کا سلسلہ  مکمل طورپر ختم ہوچکا تھا    لیکن  فلورنگ  کے خاتمے کے بعد ساب لوگ  اپنے اسٹاف  کے زریعے  یا براہ  راست   ڈیل  کرنے کی کوشش  کرتے تھے  یہ سلسلہ بھی کافی عرصہ کامیابی سے چلا اور آج بھی  کسی  حد تک موجود ہے    عجیب وغریب ٹیڑھی شکلوں والے ساب لوگ ہوا کرتے تھے   ایک تو شکل ٹیڑھی دوسرا منہ سے بات نہ کرنا  تیسرا نیت میں فتور
ہم نے وکالت کی کوشش کی ابتدا میں  ناکا م رہے اس وقت جس پیشے کو وکالت کہا جاتا تھا  وہ وکالت ہرگز ہرگز نہ تھا میں وکالت سے دلبرداشتہ اس وقت ہوا جب میرے پاس ایک بہت ہی  زبردست  نوعیت  کا کیس آیا   اس کیس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی کہ میرے کلائینٹ کو سرعام گولیاں ماردی گئی تھیں   موقع کے چشم دید  گواہان موجود تھے   ایف  آئی آر  بروقت  تھی   مختصر یہ کہ  ضمانت  مسترد  کرنے کے سارے لوازمات  پورے  تھے سپریم کورٹ  کے بہت سے  کیس لاء موجود تھے  جن کی روشنی میں مجھے یہ غلط فہمی ہوچکی تھی  کہ ملزم کی ضمانت مسترد ہوجائیگی بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا ساب منہ سے بات کرتا ہی نہیں تھا اور لوگ کہتے تھے کہ یہ اصول کا بہت پکا ہے  بعد ازاں کافی عرصہ لٹکانے  کے  بعد ساب نے ضمانت کی درخواست منظور کرلی  یہ تو مجھے اندازہ تھا کہ ساب نے مال پکڑا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ساب نے  اس کیس میں  صرف دو بلیک بیری  فون سیٹ لیئے تھے حالانکہ   اس کیس میں کم ازکم دس لاکھ روپیہ آسانی سے مل سکتا تھا  یقین کریں کہ افسوس رشوت لینے پر نہ ہوا بلکہ  گھٹیا  اور کم رشوت لینے پر ہوا  مجھے یہ بھی افسوس ہوا کہ میں نے میرٹ کا راستہ  کیوں چنا کیونکہ ہماری پارٹی اس سے زیادہ اچھے موبائل فون دے سکتی تھی  منہ مانگا پیسہ دے سکتی تھی خیر اس قسم کے بہت سے واقعات روزانہ معمول کا حصہ تھے

ذاتی طورپر میں اس واقعہ کے بعد  بہت دلبرداشتہ ہوا اور سوشل سیکٹر میں چلا گیا  لیکن وکالت سے تعلق  برقرار رکھا
پھر عدالتی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا  لیکن ججز کا رویہ درست نہ ہوا  چند خاندانی لوگ تو منہ سے بات کرلیا کرتے تھے میں نے اپنی آنکھوں سے صرف ڈبل سواری کے ملزمان کو  جیل جاتے ہوئے دیکھا   نااہلوں کو یہ احسا س تک نہ ہوتا تھا کہ انسانی حقوق بھی کوئی چیز ہوتے ہیں یہ ادارہ انصاف کا  ادارہ ہے

پھر وقت نے ایک اور کروٹ لی  پیسہ کھنی اچ کھنی اچ  کھنی اچ کا سلسلہ وقتی طور پر اس وقت دم توڑ گیا  جب بہت بڑی تعداد میں ججز کو قانونی  تقاضے پورے کرنے کے بعد  جھاڑو پھیر کر  پیسے جمع کرنے کی نوکری سے فارغ کردیا گیا  لیکن پھر بھی  متاثرین بجائے رونے دھونے کے اگر جمع شدہ مال   طریقے سے خرچ کریں تو وہ لوگ اتنا مال جمع کرچکے تھے کہ مرتے دم تک گھر بیٹھ کر کھاسکتے ہیں  اس کے باوجود بہت سے لوگ شکوے کرتے پھررہے ہیں  اس کے بعد اب ججز کا رویہ کافی بہتر ہوچکا ہے اور بہت  سے لوگ اب منہ سے بات کرتے ہیں
وقت کی دوسری کروٹ یہ تھی کہ نوجوان وکلاء میں سے میرٹ کی بنیادپر ججز  بھرتی ہوگئے  اور وہ چونکہ رشوت دے کر نہیں آئے تھے اس لیئے وہ رشوت نہیں لیتے ہاں وہ ناتجربہ کار ضرور ہیں لیکن وہ منہ سے بات کرتے ہیں  برابری کی بنیادپر بات کرتے ہیں  یہ لوگ بہت اچھے ہیں
وقت کی ایک اور کروٹ یہ ہے کہ  پیشہ وکالت میں تبدیلی آئی ہے  ترقی کے بے شمار مواقع سامنے آرہے ہیں  اگر کسی بھی وکیل میں قابلیت نام کی ذرا سی بھی کوئی چیز ہے تو وہ اچھا خاصا کما رہا ہے  
اب اس پورے سسٹم میں  صرف تین مسئلے باقی بچ گئے ہیں
پہلا مسئلہ مشکوک نوعیت کی بھرتی والے بڈھے جج ہیں    یہ زیادہ تر  انیس سو نوے  کی دہائی میں  رشوت دے کر بھرتی  ہوئے تھے  یہ مایوس عناصر ہیں  اگر کوئی جج بحیثیت جوڈیشل مجسٹریٹ آج سے دس سال پہلے بھرتی ہوا تھا اور اس کا پروموشن نہیں ہوا  اور وہ آج بھی جوڈیشل مجسٹریٹ  ہے تو اس کو خود ہی  یہ نوکری چھوڑدینی   چاہیئے  صاف  ظاہر ہے کہ  آپ سینیارٹی   اور قابلیت  کے معیار  پورا  نہیں  اترے آپ لوگ اس  نوکری پر لعنت بھیجیں استعفٰی دیں اللہ پر یقین رکھیں    اور پریکٹس شروع کردیں  اب ایک  لاکھ روپے کی معمولی نوکری کیلئے  انسان کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیئے ادارہ سینیارٹی کی بنیاد پروموشن نہیں دے رہا تو  بجائے  ہروقت عدالت میں روٹھی ہوئی بیوہ کی طرح شکل بناکر بیٹھ  کر اور بازو کی آستین  سے  بار بار ناک صاف کرکے  مایوسی  کے اندھیرے پھیلانے سے ہزار درجے  یہ بہتر ہے کہ استعفٰی لکھ کر جمع کروادیں اور وکالت شروع کردیں ہمارے سامنے تین جوڈیشل مجسٹریٹس کی مثال موجود ہے ایک کو پروموشن نہیں ملی دوکو ہایئکورٹ نے غلط شوکاز بھیجے تو بجائے ذلیل ہونے کے ان لوگوں نے  غیرت کا مظاہرہ  کرتے  ہوئے استعفٰی کو ترجیح دی اور نوکری پر لعنت بھیج کر  "ون مین آرمی " یعنی  وکالت کی آزاد زندگی شروع کردی نہ کسی شوکاز کا خوف نہ کسی  کی بلاوجہ کی جواب طلبی اور آج وہ پہلے سے زیادہ خوشحال زندگی  بسر کررہے ہیں  آمدن کے لحاظ سے اور ہر لحاظ سے  وہ لوگ پہلے سے بہتر ہیں دوسری طرف وہ جوڈیشل مجسٹریٹ جن کی نوکری کو دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا  وہ ناسور بننا شروع ہوجاتے ہیں اور پندرہ سال کی نوکری والے نہ صرف ناسور بن چکے ہیں   بلکہ ادارے اور دھرتی دونوں پر ایک مستقل بوجھ چکے ہیں  سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ  وہ نئی قانون سازی کروائے اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی نوکری کو دس سال تک محدود کردے اس دوران جو مجسٹریٹ پروموشن حاصل نہ کرسکے اس کو تھوڑی بہت پنشن دے دلا کر  مکمل عزت اور احترام سے رخصت کردے
کیونکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے یہ مایوس قسم کے بڈھے  مجسٹریٹس پورے سسٹم کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ  ناسور اب نوجوان ججز کو بھی خراب کررہے ہیں  اور یہی نوجوان ججز ہی تو ادارے کا اثاثہ ہیں  اس لیئے فوری طورپر ناسور بڈھے مجسٹریٹس کیلئے گولڈن ہنڈ شیک کا اعلان کرکے ان سے فوری  نجات حاصل کی جائے   
دوسرا  مسئلہ صرف کراچی میں ہے اور وہ یہ ہے کہ پندرہ ملین  روپے تک کے  سول  نوعیت  کے کیسز ڈسٹرکٹ کورٹس میں چلتے ہیں جوکہ ٹرائل کورٹ ہے  سندھ ہایئکورٹ جو کہ اپیل کی عدالت ہے وہاں پندرہ ملین  روپے سے زائد کے مقدمات کی سماعت ہوتی ہے  اس حوالے سے تاویل پیش کی جاتی ہے کہ کیونکہ کراچی ساحلی شہر ہے اس لیئے  ہندوستان کے تمام ساحلی شہروں میں انگریز یہی اصول مقرر کرگیا تھا بھائی اب انگریز جاچکا ہے اس  انگریز کو گولی مارو دوسری بات یہ ہے کہ سندھ ہایئکورٹ  ایک اپیل کا فورم ہے یہ ٹرائل کا فورم نہیں  یہاں کیس صحیح طریقے سے ٹرائل نہیں ہوتے  نہ ہی ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ  وراثت کا جو مقدمہ ایک مہینے میں  ڈسٹرکٹ  کورٹس  میں حل ہوجاتا ہے ہایئکورٹ میں وہ پورا کیس ہی ذلیل ہوجاتا ہے   اور دیوانی مقدمہ تو رل ہی جاتا ہے  اس لیئے اس  حقیقت کو تسلیم کرکے کیسز ٹرائل کا حق صرف ڈسٹرکٹ کورٹس  ہی کو ہونا چاہیئے   ہایئکورٹ  کو کیس  ٹرائل  کے سارے اختیارات  ڈسٹرکٹ  کورٹس  کو دے دینے  چاہیئں  اور یہ ہوگا ضرور ہوگا  انشاء اللہ تعالٰی سندھ ہایئکورٹ صرف اور صرف اپیل کی عدالت بنے گی انصاف کی عدالت بن کر انصاف فراہم کرے گی
تیسرا اہم مسئلہ قابل احترام جسٹس صاحبان کی آل اولاد ہے  جو ہورہا ہے وہ غلط ہورہا ہے یہ آپ لوگ خود بھی جانتے ہیں   باربار وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن یہ انکل ججز کی  فلورنگ عدلیہ زیادہ عرصہ  نہیں چلے گی  اور یہ رجحان اب  ڈسٹرکٹ کورٹس تک آگیا   موجودہ دور میں یہ بھی فلورنگ کی ایک بدترین اور جدید  گندی  شکل ہے   اور انشاءاللہ یہ فلورنگ بھی  جلد ختم ہوگی  جب دونمبر جج نہ رہے تو تمہاری اولاد کس طرح فلورنگ کرے گی
ون مین آرمی  دنیا کی بہترین  تربیت یافتہ آرمی ہوتی ہے یہ خود ہی چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہیں خود ہی کمانڈر اور خود ہی  جنرل  اس ناقابل شکست آرمی کو عرف عام میں لوگ وکیل کے نام سے جانتے ہیں  اور یہ قلم کی مار مارتے ہیں
غیر تربیت یافتہ  وکیل لوگ اس میں شامل نہیں   اور ہر وکیل ون مین آرمی نہیں بنا سکتا