Powered By Blogger

Saturday 24 February 2018

رشوت اور بھیک دوناقابل علاج عادات ۔۔۔۔۔۔تحریر : صفی الدین اعوان



رشوت اور بھیک دوناقابل علاج  عادات ۔۔۔۔۔۔تحریر : صفی الدین اعوان

بادشاہ  سلامت کو  ملکہ  عالیہ  کے  متعلق  افواہیں سن کر افسوس ہوا لیکن وہ خاموش رہے !
ابھی چند ماہ پہلے ہی تو بادشاہ سلامت نے  ایران  سے لائی  گئی   خوبصورت  کنیز سے اپنی پسند سے شادی کی تھی   بادشاہ نے ملکہ "عالیہ" کی محبت  میں گرفتار  ہوکر  اس  کیلئے دنیا کی ہرنعمت ڈھیر کردی قیمتی سے قیمتی زیوارت ہیرے اور جواہرات   دنیا کے ہر ملک سے  قیمتی  ریشمی لباس    لاکر ملکہ "عالیہ" کو پیش کردیئے   بادشاہ نے  ملکہ عالیہ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کیلئے وہ کونسا جتن تھا جو نہیں کیا  لیکن ایک دن  ایک سرچڑھے درباری نے جان کی امان پاکر بادشاہ  سلامت کو بتایا کہ ملکہ "عالیہ" اکثر محل کی  کھڑکی سے  مردوں  سے اشارے بازی میں باتیں کرتی ہے جس سے  بادشاہ کے خیرخواہوں کو سخت شرمندگی ہوتی ہے یہاں تک کہ ملکہ نچلے طبقے کے سپاہیوں سے بھی  ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے   اور ان سے تعلقات  بڑھانے  کی کوشش کرتی  ہےبادشاہ کو یہ سن کر افسوس ہوا  لیکن خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ  نہ تھا بادشاہت کا غیض و غضب   محبت پر حاوی ہوگیا    
بادشاہ ملکہ سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا لیکن نہ کرسکا دوسری طرف ملکہ کی شکایات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا  بادشاہ کو یہ جان کر افسوس ہوا کہ ملکہ ازدواجی تعلقات  اور محبت کے معاملے میں "ایمانداری " سے کام نہیں لے رہی آخر کار ایک دن بادشاہ نے بات کی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا  ملکہ بادشاہ کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی دوسری طرف بادشاہ  شرمندگی کی تصویر بن چکا تھا
آخر کار بادشاہ نے فیصلہ کن طورپر  ملکہ سے بات کی کافی دیر تک شکوے شکایات کا سلسلہ چلتا رہا   اور بالآخر معاملات تلخ ہوگئے اور بادشاہ نے کہہ دیا کہ تم محبت اور دیگر معاملات میں ایماندار نہیں ہو
یہ سن کر ملکہ نے ایک سرد آہ بھری اور کہا بادشاہ سلامت آپ کی محبت کا شکریہ   آپ  کی  نوازشوں  اور مہربانیوں کا شکریہ  آپ کے برداشت کے جذبے کا شکریہ لیکن میرا تعلق بازار حسن سے ہے  اور مجھے بازار حسن والوں نے ایک ایرانی  تاجر کو بیچ دیا تھا
آپ نے مجھے خرید کر انمول کیا اپنے حرم میں داخل کیا اور محبت کی انتہاکردی  میں مانتی ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ایماندار نہیں ہوں میں مانتی ہوں کہ غیر مردوں سے مجھے ملنا اچھا لگتا ہے  غیر مردوں سے اشارے بازی کرنا مجھے اچھا لگتا ہے اس کی وجہ میری وہ عادت ہے جو بازار حسن سے مجھے بچپن  سے ہی ملی  ہے اور بری عادت اب  میری فطرت  کا حصہ بن گئی آپ ہزار پہرے لگادیں  مجھے قید کردیں یا سولی چڑھادیں  میں اپنی عادت سے باز نہیں آسکتی یہ میری فطرت کا حصہ بن چکی آپ چاہیں تو  میرا مقام   کم  سے کمتر کردیں  مجھے حقیر سی کنیز بنادیں اپنے حرم سے نکال دیں لیکن میں مجبور ہوں
کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی  بادشاہ نے کہا ملکہ اگر آپ اپنی فطرت تبدیل کرنے پر راضی ہوجاؤ تو میں ہرشرط پوری کرنے کیلئے تیار ہوں
ملکہ مسکرائی اور کہا ایک شرط ہے اگر وہ پوری کردیں تو میں  وعدہ کرتی ہوں کہ  زندگی بھر آپ کو  کبھی بھی دھوکہ نہیں دونگی
بادشاہ نے وعدہ کیا کہ وہ ہرشرط پوری کرے گا
ملکہ نے کہا کیا تم میری محبت  حاصل کرنے  کی  خاطر  چالیس دن تک بھیک مانگنے کیلئے تیارہو
یہ سن کر خاموشی چھاگئی موت جیسا سناٹا کافی دیر چھایا رہا
یہ شرط اپنے وقت کے بہت بڑے بادشاہ کیلئے کسی بھی صورت ناقابل قبول تھی  بادشاہ سلامت خفت سے سرخ ہوگئے اور ملکہ مسکراتی رہی
بالآخر بادشاہ  اپنی  محبت  کے  سامنے  بے بس  ہوکر ہار گیا  اور اس نے ذلت  کی آخری حد  تک گرنے  کی  شرط  بھی مان لی بادشاہ نے چالیس دن کیلئے کاروبار سلطنت وزیراعظم کے حوالے کیا اور چندوفادار سپاہیوں اور ملکہ کو لیکر سرحدی قصبے  میں  واقع  محل  کی طرف شکار کے بہانے نکل گیا  بادشاہ  صبح سویرے ہرروز بھیس بدل کر  محل  کے عقبی  دروازے  سے نکل جاتا  اور سارا سارا دن مختلف قصبوں  اور بستیوں  میں   بھیک مانگتا اور شام کو دوبارہ گھر آجاتا اسی طرح چالیس دن گزرگئے  فیصلے کی گھڑی آگئی
بادشاہ سلامت حسب معمول صبح بیدار ہوا  فقیر والا بھیس بدلا  کاسئہ  گدائی  اور زنبیل اٹھا کر  محل کے عقبی دروازے سے نکلنے ہی والا تھا کہ ملکہ عالیہ پاؤں میں گرگئی   اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روروکر اپنی محبت کا یقین دلانے لگی اور کہا بادشاہ سلامت آپ  شرط جیت گئے آپ ایک عظیم انسان ہیں  اب میں پوری زندگی ملکہ نہیں بلکہ آپ کے پاؤں کی خاک بن کر رہوں گی   آپ بلاشبہ اس دنیا کے عظیم ترین انسان ہیں  بادشاہ نے ملکہ سے اپنا دامن زبردستی چھڑایا اور کہا  اب  میرا راستہ مت روکو اب موت بھی مجھے بھیک مانگنے سے نہیں روک سکتی  یہ سن کر بادشاہ سلامت ملکہ کو ٹھوکر مار کر بھیک مانگنے  محل سے نکل گیا یہ سب دیکھ کر ملکہ حیرت کی تصویر بن  کر رہ گئی
بھیک مانگنا اور رشوت مانگنا یہ دنیا کے وہ دوپیشے ہیں جس کا تعلق عادت  سے ہے  اگر کوئی  بدقسمت  انسان ا ن میں سے کسی مرض کا  شکار ہوجائے تو  وہ کبھی بھی اس بری عادت اور بیماری   کو چھوڑ نہیں سکتا  صرف موت ہی  انسان کو ان دوعادات اور ناقابل علاج  بیماریوں   سے روک سکتی ہے  رشوت   کا تعلق  سرکاری  عہدے   سے ہے  رشوت  لینے والا صرف  ایک  ہی صورت ہے جس کے زریعے وہ رشوت لینے سے باز رہ سکتا  ہے   کہ   انسان اس  سرکاری  عہدے پر ہی نہ رہے جس  کا ناجائز  استعمال  کرکے  وہ  رشوت لیتا تھا  یہ دووہ بیماریاں ہیں جن کو مختلف حربے استعمال کرکے  کنٹرول کیا جاسکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا میں نے بڑے بڑے امیر لوگوں کو عادت سے مجبور ہوکر ہاتھ پھیلاتے دیکھا اور  کئی عزت داروں  اور عزت نفس رکھنے والوں کو بھوک سے فاقہ کرتے دیکھا لیکن ہاتھ پھیلانا گوارہ نہ کیا
میرے جان پہچان والوں میں ایک  غریب سید خاندان تھا  رکھ رکھاؤ کی وجہ سے  مشکل زندگی بسر کرتے  محنت مزدوری کرتے اور  لوگوں کی امداد کو یہ کہہ کر ٹھکراتے دیکھا کہ ہم سید ہیں    آپ اپنی مالی امداد اپنے پاس رکھیں
رشوت اور بھیک انسان کی عزت نفس کو ہمیشہ کیلئے ماردیتی ہیں  ذہنی طورپر انسانی ضمیر  ہمیشہ کیلئے مردہ ہوجاتا ہے  
آپ کسی سرکاری افسر کو کسی پٹواری کو کسی پولیس افسر کو کسی جج کو کسی وزیر کو یا کسی حکومتی عہدیدار کو  رشوت لینے سے روکنے کیلئے ہزار بار  نوکری سے نکال دیں ہزار بار اس کے خلاف مقدمات قائم کریں    ہزاروں ریفرنس تیار کرلیں  رشوت کی سزا سزائے موت تک مقرر کرکے دیکھ لیں جس نے ایک بار  اس لذت کا ذائقہ اس دنیا میں بیٹھ کر چکھ لیا وہ   زندگی بھر رشوت اور بھیک مانگنا نہیں  چھوڑے گا 
رشوت ستانی کے مقدمے کے دوران اپنے بیوی بچوں کے ساتھ  عبرت کی تصویر بن کر گھومتا رہے گا  اور اپنی بے گناہی پر اصرار کرتا رہے گا  
مقدمے بھگتے گا  جیسے ہی مقدمہ ختم ہوگا  جیسے ہی اپنے سرکاری  عہدے پر "دوبارہ" بحال ہوگا پہلے سے زیادہ زور وشور سے رشوت لینا شروع کردے گا
بھیک مانگنے والے کا واحد علاج اس کی آخری سانس  ہے صرف قبر کی مٹی ہی اس کو  روک سکتی ہے اسی طرح سرکاری عہدیدار کو رشوت لینے سے روکنے کا واحد علاج یہ ہے کہ  اس کے بیوی بچوں  کا لحاظ کیئے بغیر بڑی ہی بے رحمی اور بے مروتی کے ساتھ اس کو  نوکری سے ہمیشہ ہمیشہ  کیلئے  الگ کردیا جائے رشوت کا واحد علاج   عہدے سے علیحدگی ہے
ایک اہم ترین عدالتی عہدے پر فائز   شخصیت  کا یہ کہنا کہ وہ  کسی کو روزگار سے محروم  نہیں کرسکتے کسی کی بیوی بچوں کو دربدر نہیں کرسکتے  وہ  اکثر یہ کہتے ہیں کہ کسی کے پیٹ پر وہ کسی بھی صورت لات نہیں مارسکتے وہ کسی کے  بچوں سے چھت کا سایہ نہیں چھین سکتے
بلاشبہ رحم اچھی چیز ہے اللہ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے   لیکن رشوت کے معاملے میں رحم " حقیقی  بے رحمی" ہے ایک شخص  جو عدالت  یا کسی  بھی  سرکاری  ادارے  سے منسلک ہے اور اس کے پاس اختیار  بھی ہے    چاہے وہ کورٹ اسٹاف ہے جج ہے یا کسی بھی سیٹ پر بیٹھ کر لوگوں کو انصاف یا عوام کو تعلیم  صحت   جیسی  خدمات  فراہم  کرنے کیلئے اللہ نے اس کو وسیلہ بنایا ہے  تو اس کو اس وقت اپنے بیوی بچوں پر رحم کیوں نہیں آتا جب  وہ جائز یا ناجائز کام کیلئے رشوت وصول کرتا ہے  جس شخص  کورشوت لیتے وقت اپنے اہل خانہ پر اپنے ماں باپ پر اپنے بیوی بچوں پر رحم نہیں آیا  اس پر آپ کیوں رحم کھارہے ہیں
 ہمارے عدالتی نظام  میں  ہمارے  پراپرٹی  کے سسٹم  میں  ہمارے وہ  ادارے  جو مکان  بنانے  کیلئے نقشوں  کی منظوری   دیتے  ہیں  ہمارے  وہ  ادارے جو پلاٹ  الاٹ  کرتےہیں   ہمارے وہ  تمام  سرکاری  ادارے  جن سے لوگوں کا روزمرہ  واسطہ  پڑتا  ہے   سڑکیں  بناتے ہیں  پل تعمیر کرتے ہیں  صفائی کا نظام کنٹرول کرتے  ہیں    تمام کے  تمام  ہی رشوت  ستانی کے  اہم مراکز  ہیں  ہمارے  اسپتالوں  میں رشوت ہمیشہ ناسور بن کر رہے گی ہمیشہ  رشوت ایک سوالیہ نشان بن کررہے گی
یہ رشوت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں پہلے نااہل ٹیچر بھرتی کیئے جاتے ہیں  بعد ازاں وہ ٹیچرز گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں   جس کا نتیجہ غیر معیاری تعلیم کی صورت میں نکلتا ہے اور ہمیں ہرمہینے بچوں کی تعلیم کی مد میں  پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو رقم ادا کرنی پڑتی ہے  
جو سرکاری ملازمین  کم تنخواہ میں رشوت نہیں لیتے تھے وہ آج بھی رشوت کی کمائی پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتے   نہ ہی ان کو کبھی بھی  شکوہ  شکایات  کرتے دیکھا اور سنا  اور جو مردہ  دل   کل تک کم تنخواہ کا رونا روکر رشوت لیتے تھے  اور اپنے بچوں  کیلئے دن رات  حرام جمع  کرکے  ان کی  پرورش  حرام  مال  سے کرتے تھے  وہ تنخواہوں میں اضافے کے بعد آج بھی  روتے ہی رہتے  ہیں  آج بھی ان کی ضروریات  موجودہ تنخواہ  سے پوری نہیں ہورہی ہیں  اور قیامت تک ان کی ضروریات پوری نہیں ہونگی
جس  سرکاری ملازم نے کبھی رشوت کا ذائقہ نہیں چکھا  وہ زندگی بھر ہی اس ذائقے سے محروم ہی رہنا  پسند کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قیامت کے دن اس قسم کے بے شمار ذائقے اس کے منتظر ہیں
جس نے زندگی میں ایک بار صرف ایک بار رشوت  کا ذائقہ چکھ لیا  جس نے ایک بار  بھیک مانگ کر پیٹ بھرلیا
پھر تنخواہوں میں کئی ہزار گنا اضافہ اور بیش بہا مراعات  بھی   اس کو رشوت سے نہیں روک سکتے اور دنیا بھر کی دولت کسی   بھکاری کو بھیک مانگنے سے نہیں روک سکتی   
پاکستان  میں بھی بہت سے سرکاری ملازمین کے خلاف صرف اس وجہ سے کاروائی روک دی جاتی ہے کیونکہ   برسراقتدار لوگوں کو ان کے  بیوی بچوں کا خیال آجاتا ہے  اور اس خیال کی قیمت میرے اور آپ سب کے بیوی بچوں کو اداکرنی پڑتی ہے
ہمارے ان   اداروں کی ساکھ بھی ہمیشہ  سے  اچھی نہیں ہے جو کرپشن  کے خلاف  برسرپیکار  ہیں   نیب کے قوانین کو  ہمیشہ  سے سیاہ قوانین کہا جاتا ہے جبکہ انڈیا جیسا ملک جو کرپشن کی جنت ہے وہاں بھی سی بی آئی جیسا  معتبرادارہ موجود ہے  یہی وجہ ہے کہ جب لالو پرشادیادیو کو جو عوام میں انتہائی مقبول ہیں  کو گرفتار کیا گیا  اور اس کو  مقدمہ  چلاکر "چارہ اسکینڈل "میں سزا دی گئی تو کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ  ان  کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ سی بی آئی  نے اپنے  عملے کیلئے جو  جزا وسزا کا معیار مقرر کیا ہے اس کی تعریف دنیا بھر میں  کی جاتی ہے
جب تک رشوت لینے والوں کو اس ملک کو لوٹنے والوں کو  نشان عبرت نہیں بنادیا جاتا ہم اس وقت تک ہمیشہ مسائل سے دوچار رہیں  گے    

Thursday 22 February 2018

آرمی کی اچھی اچھی باتیں ۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



آرمی کی اچھی اچھی باتیں ۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
اتحاد تنظیم یقین محکم ہی کا نتیجہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان ،سرمے والی سرکار جناب ضیاءالحق    سے لیکر جناب مشرف تک ہر بار قوم نے  پاکستان آرمی کے اقتدار سنبھالنے  کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ  مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں  راحیل شریف بھی اقتدار سنبھالتے سنبھالتے رہ گئے  اگرچہ یار لوگوں نے زور بہت لگایا لیکن راحیل شریف ان کے چکر میں نہیں آیا
پاکستان آرمی کی سول اداروں پر  مکمل  بالادستی کی ایک اہم وجہ پاکستان آرمی کا مشہور زمانہ سلوگن اور اس پر عمل بھی ہے  یعنی اتحاد تنظیم اور یقین محکم
جہاں آرمی  اور مسلح افواج کا  ڈسپلن مثالی ہے وہیں  وہیں اسی تربیت کا تیجہ یہ نکلا کہ  جب آرمی  افسران کی کھیپ فارغ ہوکر عملی میدان میں اتری تو انہوں نے کارپوریٹ سیکٹر میں بھی خوب  نام پیدا کیا
ڈیفنس  ہاؤسنگ اتھارٹی کی صورت میں مثالی رہائیشی اسکیم ، فوجی فرٹیلائزر بن قاسم ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی ،عسکری بینک  سمیت بے شمار سیکٹرز میں آرمی کے ریٹائرڈ افسران نے  بے شمار   مضبوط کارپوریٹ  ادارے بنا کر  یہ ثابت کیا  کہ
ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے
دوسری طرف ہمارے سول اداروں نے ہرسطح پر نااہلی کا ثبوت دیا ہے  کیا آپ لوگوں نے  کبھی سنا کہ  فلاں ریٹائرڈ میجر واپس آرمی میں کنٹریکٹ پر  آگیا  فلاں برگیڈیئر کو دوبارہ آرمی میں تین سال کا کنٹریکٹ دے دیا گیا  یا کسی ریٹائرڈ جرنیل کو دوبارہ آرمی میں نوکری دی گئی ہو
پاکستان کے عدالتی نظام میں  "ریٹائرڈ سیشن جج اور جسٹس مافیا " پورے نظام کو ہمیشہ تباہ کرتے رہے ہیں نہ ان ریٹائرڈ   بوڑھوں میں نہ تو  کوئی شرم ہے  اور ان کو حیا پچاس میل دور سے چھو کر   بھی نہیں گزری  ریٹائرڈ ججز بھی عدالتی نظام کیلئے ایک مافیا کا درجہ رکھتے ہیں  اور یہ مافیا ہی ہیں اور یہ سب کے سب اہل "زبان" ہیں
حضور امیرالمجاہدین جناب  حضرت علامہ خادم حسین رضوی دامت برکاتہم العالیہ کے  خیالات سے میں  جزوی  اتفاق کرتا ہوں صرف اور صرف   "ریٹائرڈ  کنٹریکٹ ججز "کے متعلق میرے وہی  خیالات ہیں جو حضورامیرالمجاہدین  نے  عدلیہ کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں  
ریٹائرمنٹ کے بعد جو  جج کنٹریکٹ پر نوکری کررہے ہیں  وہ اپنے ہی ایک  نوجوان سیشن جج کا حق مارکر   کھارہے ہیں    یہی وہ مافیا ہیں جو نوجوان ججز کو ان کے حق سے محروم کررہے ہیں  پاکستان کا آئین اور قانون ان یتیم اور شرم و حیا سے محروم ریٹائرڈ بوڑھوں کو کنٹریکٹ کی اجازت نہیں دیتا لیکن    آج بھی بہت بڑی تعداد میں  ہمیں عدالتوں میں  ریٹائرڈ مافیا کے لوگ نوکری سے جونک کی طرح چمٹے دکھائی دیتے ہیں  ان معذور بوڑھوں میں آگے بڑھنے کی خواہش مرچکی ہے  نہ ان کو شوکاز کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی پروموشن ٹرانسفر  کا خواہش  شام کو جاکر بہوؤں کی جھڑکیاں سننا اور رات  کو تو ویسے بھی  اس عمر میں نیند نہیں آتی یہی   غلطی سول اداروں کی تباہی کا باعث ہے
ہم کیوں نہیں آرمی سے ان کی اچھی باتیں  سیکھتے
عدلیہ نے جس طرح  ریٹائرڈ  جسٹس ناصر اسلم زاہد کو کام تلاش کرکے دیا ہے چند ایک کو (کے سی ڈی آر میں کھپایا ہے ) اسی طرح  عدلیہ بھی ٹرانسپورٹ کمپنی کھولے  اس سے ٹرانسپورٹرز کے مسائل  بھی سمجھنے میں آسانی ہوگی   عدلیہ ریٹائرڈ ججز کو بینک کھولنے کی ترغیب دے ہاؤسنگ اسکیمیں متعارف  کروا کر بحریہ ٹاؤن اور  ڈیفنس کا مقابلہ کرے  کھاد کے کارخانے خالص دودھ   ٹیٹرا پیک کے کارخانے کھول کر  ان یتیم ریٹائرڈ ججز اور   ریٹائرڈ جسٹس صاحبان جو شکل وصورت سے ہی بے روزگار لگتے ہیں ان کو باعزت روزگار دیا جاسکتا ہے  لیکن  ریٹارئرڈ  مافیا کے لوگوں نے پوری زندگی میں  مفت بیٹھ کر اور صرف قلم سے  چند الفاظ لکھ کر  پوری زندگی حرام کمایا ہو کیا ان کو محنت کی کمائی راس آئے گی؟
اس ساری بحث کا مقصد یہ تھا کہ آرمی نے  جس طرح اپنے ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا  اور ریٹائرمنٹ  کے بعد فوجی افسران کو آرمی  میں دوبارہ کنٹریکٹ  کبھی نہیں دیا   جاتا  بلکہ  آرمی  کے کارپوریٹ  اداروں  میں جاکر کام کرتے ہیں   اور تنخواہ  کیلئے حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں بنتے 
اسی طرح  عدلیہ کو  اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے اصولوں  کو مدنظر رکھ کر  کبھی  بھی نوجوان ججز کے حق پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیئے اور رعشے کے مارے ہوئے معذور  ریٹائرڈ ججز کا عدالتی نظام سے مکمل طورپر خاتمہ کرنا چاہیئے    
کم ازکم کراچی بارایسوسی ایشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سٹی کورٹ  کمپاؤنڈ میں چاروں سیشن ججز  ریگولر ہیں اورکراچی بار کے وکلاء نے ریٹائرڈ ججز کا منحوس سایہ کبھی بھی ڈسٹرکٹ کورٹس میں برداشت نہیں کیا  یہ سارے خبیث سائڈ پوسٹیں لیکر کرپشن کرنے میں مصروف ہیں  
پاکستان آرمی زندہ باد ریٹائرڈ کنٹریکٹ  جج مردہ باد


Monday 19 February 2018

ایک تھا جسٹس سجاد علی شاہ اور ایک ہے جسٹس احمد علی شیخ۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



ایک تھا جسٹس سجاد علی شاہ اور ایک ہے جسٹس احمد علی شیخ۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
(زیرنظر تحریر میں سابق چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ جناب سجاد علی شاہ  اور موجودہ چیف جسٹس جناب احمد علی شیخ صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کی کرپشن کے خلاف کاکرکردگی کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا خصوصاً کرپشن کے خاتمے کیلئے  دونوں جسٹس صاحبان کی "نیت" کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی)
پہلی قسط
اعمال کا دارومدار  نیتوں پر ہے
عوام کی حفاظت کیلئے پہرہ دینے والا سپاہی بھی رات بھر پہرہ دیتا ہے اور رات بھر جاگ کر اپنے بچوں کےلیئے روزی کماتا ہے  جبکہ ایک چور بھی رات بھر جاگتا ہے لیکن چور کا رات بھر جاگنا بری نیت سے ہوتا ہے وہ لوگوں کو  غافل پاکر گھر میں داخل ہوتا ہے اور لوٹ مارکرکے اپنے بچوں کیلئے رزق حرام کماتا ہے
نیت  کا زندگی کے ہرشعبے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے  جبکہ قانون کے شعبے میں سب سے زیادہ اہم کردار نیت ہی کا ہوتا ہے اگر کوئی جج ،وکیل کورٹ ،اسٹاف یا پراسیکیوٹر گھر سے رزق حلال کمانے کی نیت سے نکلتا ہے تو وہ سارا دن رزق حلال ہی کمائے گا  جب کہ اگر   کوئی گھر سے ہی حرام کمانے کی نیت لیکر نکلتا ہے تو  وہ سارا دن اپنے بچوں کیلئے حرام ہی کمائے گا حرام ہی تلاش کرے گا
چند سال قبل میں عدالتی معاملات کا ذکر اشارتاً  اپنے بلاگ  میں  اکثر کیا کرتا تھا  بعد ازاں سندھ ہایئکورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان اشاروں ہی کی بنیادپر بدعنوان ججز کا سراغ لگایا  اور کراچی کے تقریباً سارے کے سارے اس وقت کے بدنام زمانہ ججز فارغ کیئے گئے  ان میں سے بیشتر وہ گھٹیا لوگ تھے جو سارا دن سو سوروپے کا دھندہ کرتے تھے   میں اس حوالے سے ان کا شکر گزار ہوں کہ جب  اپنے  اردو بلاگ  میں کرپشن کی نشاندہی کی تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ توہین عدالت کا جرم ہوگیا بلکہ انہوں نے میرے بلاگ کو سنجیدہ لیکر کرپشن کے خلاف کاروائی کی
ایک برطرف جوڈیشل مجسٹریٹ تو پورا نیٹ ورک بناکر چلتا تھا    اس کے چار اپنے  تفتیشی افسر ہواکرتے تھے  جہاں اس کا ٹرانسفر ہوتا تھا  اس کے ساتھ ساتھ چلتے تھے   تفتیشی  افسران کا ٹرانسفر بھی  اپنی  حدود میں واقع  تھانوں میں کروالیتا  تھا اس نے اپنے تفتیشی افسران کے ساتھ مل کر "انت" مچائی ہوئی تھی وہ   "اے کلاس " کے پرانے کیسز تلاش کرتے تھے  اور جن پرانے کیسز  کو "اندھا" کیس کہہ کر بند کردیا جاتا تھا یا جن میں نامعلوم افراد  نامزد ہوتے تھے اور سراغ نہیں ملتا تھا اور اے کلاس ہوجاتے تھے ان میں  جج اور پولیس والے ملکر شکار پھنساتے   شکار گرفتار ہوتا  جج صاحب ریمانڈ دیتے اور اس کے بعد لین دین کرکے چھوڑ دیا جاتا تمام وکلاء جانتے ہیں کہ "اے کلاس" کیسز کا اسکوپ کتنا لامحدود ہے  یہ نیٹ ورک جمعے کو میٹنگ کرتا تھا جمعہ کی شام کو   شریف معزز شہریوں کو گرفتار کیا جاتا  اور گرفتاری ہفتے کے دن ڈال دی جاتی تھی  جس کے بعد  مجسٹریٹ صاحب کی ڈیوٹی ہفتے اتوار کے دن بطور ڈیوٹی مجسٹریٹ لگوائی جاتی تھی   یاد رہے کہ اتوار کو صرف ایک ہی  جوڈیشل  مجسٹریٹ  بیٹھتا  ہے جو پورے ضلع کے ریمانڈ لیتا  ہے اور وہ ملزمان اتوار کے دن  دوپہر دوبجے چپکے سے "ریمانڈ" کیلئے  پیش  کیئے جاتے تھے سارے معاملات  جج کے چیمبر میں طے ہوجاتے تھے    اور بھاری رشوت وصول کی جاتی تھی کیونکہ  اکثر اے کلاس کیسز سنگین نوعیت کے ہوتے تھے دہشتگردی اور قتل کے مقدمات ہوتے تھے  اس طرح جج پولیس کورٹ اسٹاف نیٹ ورک میں شامل  دیگر اسٹیک  ہولڈرز نے کروڑوں روپے کمائے
جب میں نے اس نیٹ ورک کا  اپنے اردو بلاگ  میں  انکشاف کیا تھا  تو اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے اس کو توہین عدالت نہیں سمجھا خاموشی سے تحقیقات کروائی  اور اس  ناسور کو فارغ کیا  ملازمت سے برطرف کیا
اسی طرح اس وقت چونکہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس سٹی کورٹ کا پوسٹ آفس جاری کرتا تھا  اور اکثر ججز نے ان کے ساتھ بھی معاملات "سیٹ" کیئے ہوئے تھے جب ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ  عدالت میں بطور ضمانت جمع ہوتے تھے  تو وہ ناظر برانچ میں بھیجے نہیں جاتے تھے  جج اپنے اسٹاف کے ساتھ مل کر  چندروز بعد ہی وہ سرٹیفیکیٹس  ڈاک خانے والوں سے مل کر کیش کروالیتے تھے  جس کے بعد ملزم سے بھی رشوت لیکر چھوڑ دیا جاتا تھا اس طرح ڈبل کمائی ہوتی تھی   اس معاملے کے انکشاف کے بعد ہی ڈاک خانے والوں کو ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ کے اجراء سے روکا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ مقامی بینک کے زریعے  جاری کیئے جاتے ہیں اور اگر کیش کروانا ہوتو  بینک کی سٹی کورٹ برانچ یہ سرٹیفیکیٹس کیش  نہیں کرتی بلکہ بولٹن مارکیٹ سے کیش ہوتے ہیں  یہ بھی میری ہی تجویز تھی
سندھ ہایئکورٹ نے اس واقعہ میں ملوث ایک اہم جج کو نہ صرف فارغ کیا بلکہ  تادیبی کاروائی بھی کی  بعد ازاں اس جج کے چیمبر سے چارسو سے زائد ایسی فائل ملیں تھیں جن میں پولیس نے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تھا   اور ملزمان کو ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس کی بنیاد پر ضمانت پر چھوڑا گیا  اس کے بعد نہ ملزمان کا کوئی اتا پتا نہ ہی  ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس کا کوئی اتا پتا  لیکن جج کے ساتھ ساتھ نیٹ ورک میں شامل کورٹ اسٹاف کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونا افسوسناک ہے
جب جسٹس سجادعلی شاہ صاحب چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ ہواکرتے تھے تو وکلاء ہرروز ہی منتظر ہوتے تھے  کہ آج کس کا نمبر لگنے والا ہے  اور سندھ ہایئکورٹ سے ہرہفتے ہی خبر آتی تھی کہ ایک اور وکٹ اڑادی گئی ہے  اور مجھے فخر ہے اور یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد لوگ میرے اردو بلاگ کی بنیادپر فارغ کیئے گئے وہ سارا ریکارڈ آج بھی میرے اردو بلاگ پر موجود ہے  اور جن لوگوں کی میں نے نشاندہی کی تھی وہ ججز کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث تھے  ایک خاتون جج صاحبہ نے  اسی کروڑ روپے سے زیادہ رقم بیرون ملک منتقل کی تھی  اور فراغت کے بعد انہوں نے بیرون ملک جاکر اپنا کاروبار ہی سنبھالا ہے
ایک اور بہت بڑا نیٹ ورک تھا جعلی ضمانت جمع کروانے کا  اس وقت ڈسٹرکٹ کورٹس میں  ایسے دلال گھومتے تھے جو جعلی کاغزات بطور ضمانت عدالت میں جمع کرواتے تھے  اس نیٹ ورک میں وکیل کورٹ اسٹاف اور چند ججز شامل تھے 
سادہ بات تھی پراپرٹی کے جعلی کاغذات عدالت میں پیش ہوتے تھے  نیٹ ورک میں شامل لوگ متعلقہ اداروں کی  جعلی  مہروں سے تصدیق کرتے تھے  اور ملزم رہا کرکے وہ جعلی کاغزات ناظر برانچ میں جمع ہوجاتے تھے  اس کے بعد نہ ہی ملزم کا کوئی اتا پتا نہ ہی ضامن کا کوئی اتا پتا  کاغذی طورپر ضمانت بحق سرکار ضبط کرلی جاتی تھی  سب سے زیادہ مال اسی طریقے سے بنایا گیا تھا    یہ نیٹ ورک بھی جسٹس سجاد علی شاہ نے مکمل طورپر ختم کیا  اور آج ضمانت جمع کرواتے وقت دوبار کمپیوٹرائزڈ تصدیق ایک سیشن جج کی زیرنگرانی ہوتی ہے لیکن ان دنوں  جعلسازی کا ایک نیا راستہ تلاش کرلیا گیا ہے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا
اسی طرح ایک اور نیٹ ورک تھا جو  سیٹنگ کرکے ملزمان سے جھوٹی درخواستیں لگوا کر  ان کی ضمانت  کی رقم پانچ ہزار روپے کرتے تھے اور لاکھوں روپے نقد بطور رشوت جیب میں چلی جاتی تھی   وہ "ڈاکٹر  "نیٹ ورک تھا  یہ فامولا ایک سابق سیشن جج نے ایجاد کیا تھا   جو جسٹس بھی رہا تھا  لیکن کنفرم  نہیں  ہوا  تھا شکل سے نہایت ایماندار لگتا تھا  بدقسمتی سے یہ صاحب نہ صرف بچ گئے بلکہ ریٹائرڈ ہوکر دوبارہ کنٹریکٹ بھی حاصل کرلیا
چند ججز  جو اس دوران برطرف ہوئے تھے ان کا دعوٰی ہے کہ ان کے خلاف زیادتی ہوئی  تھی  وہ  ایک تحریک بھی چلارہے  ہیں  میں آگے چل کر ان کا  مؤقف بھی بیان کروں گا 
جسٹس سجادعلی شاہ  نے  برصغیر  پاک  وہند کی تاریخ میں سب سے زیادہ ججز برطرف کیئے لاہور ہایئکورٹ کے  جسٹس منصور نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا 
ساتھ رہیئے گا یہ پہلی قسط ہے
چغل خوروں کا شکریہ