Powered By Blogger

Thursday 5 April 2018

پھتوئی تحریر صفی الدین اعوان


پھتوئی ۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
چند سال پرانی بات میرے ایک دوست کے پاس لڑائی جھگڑے کا کیس آیا وہ عدالت میں پیش ہوا تو جج نہایت ہی اول درجے کا رشوت خور تھا لیکن معتصب نہ تھا بین المسالک ہم آہنگی بین المزاہب ہم آہنگی اور بین الصوبائی یکجہتی پر یقین رکھتا تھا وہ رنگ ونسل زبان صوبایئت اور مذہب کی تفریق کیئے بغیر سب سے رشوت بٹورا کرتے تھے جج صاحب کا نام تھا بالا دوبئی والا میرے دوست نے ضمانت کی درخواست داخل کی تو سادگی میں جج صاحب کو رشوت دینے کی ہمت نہ کرسکے
خیر جج صاحب نے ضمانت کی درخواست پر نوٹس کردیا اور ایک ہفتے بعد کی تاریخ مقرر کردی اب میرا دوست کمرہ عدالت کے باہر کھڑا تھا کہ اس کو ایک خان صاحب نظر آئے جو لین دین کا ماہر تھا پوچھا کیوں کھڑے ہو اس نے کہا یار اس بالے دوبئی والے کے پاس ضمانت کی درخواست ہے اور وہ ٹرخا رہا ہے خان صاحب نے کہا کہ پیسے دوگے اس نے کہا پیسے تو ہیں لیکن دیتے ہوئے شرم آتی ہے کہیں برا نہ مان جائے یہ سن کر اس نے کہا کہ پیسے ادھر لاؤ اس نے دوہزار روپیہ لیا اور چیمبر میں وکیل صاحب کو لیکر چلا گیا اور مصنوئی غصے سے کہا کہ بچے کا کام کیوں نہیں کرتے بالے دوبئی والے نے انگلی سے پیسے گننے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ہمارا کام کرونا تو ابھی ضمانت دے دیتا ہوں خان صاحب نے کہا کرتو رہا ہے یہ کہہ کر خان صاحب جج صاحب کے قریب ہوئے اس کی پھتوئی کی جیب میں پیسے ڈالے لیکن وہاں ایک نیا مسئلہ بن گیا خان صاحب بہت تیز آدمی تھے جب پھتوئی کی جیب میں پیسے ڈالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اندر اور بھی بہت سے نوٹ تھے خان صاحب کی انگلیوں نے پھتوئی کی جیب میں موجود ہزار ہزار روپے کے رم گرم نوٹوں کی حرارت کو فوری طورپر محسوس کرلیا اور بجائے پیسے جیب ڈالنے کے "پھتوئی" کی وسیع جیب میں موجود ساری رقم بھی چپکے سے نکال لی ساب کو محسوس بھی نہیں ہوا جج صاحب نے جلدی جلدی آرڈر کیا ملزم کا ریلیز آرڈر نکلوایا اور خان صاحب وہاں سے وکیل صاحب کو لیکر ت سے تیتر ہوگئے
بارروم میں جاکر مڑے تڑے نوٹ گنے تو ٹوٹل سترہ ہزارروپیہ ہوا وکیل صاحب جو سادہ آدمی تھے پوچھا کہ خان صاحب یہ کیاکیا آپ نے بجائے پیسے ڈالنے کے اس غریب مجسٹریٹ کے پیسے بھی نکال لیئے
خان صاحب نے کہا کہ ابھی دیکھنا کیسے مزہ آئے گا وہ اندر بارروم میں بیٹھ گیا تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ جج صاحب کا چپڑاسی بھاگتا ہوا آگیا اور کہا کہ وہ خان کدھر ہے ساب بلارہے ہیں وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ خان تو گھر چلاگیا
تھوڑی دیر کے بعد بالا دوبئی والا اپنی پھتوئی سنبھالتا ہوا اور گالیاں بکتا جھکتا ہوا خود آگیا اور جب اندر داخل ہوا تو اندر خان بیٹھا ہوا تھا غصے سے کہا یہ کیا گھٹیا حرکت کی ہے بدمعاش میرا مال دن دیہاڑے ہی لوٹ لیا
خان نے کہا تم تو چھپے استاد ہو ہرروز پچیس ہزار ساتھ لیکر جاتے ہو پھر بھی روتے ہی رہتے ہو
بالے نے کہا بے شرم یہ میرے خون پسینے کی کمائی ہے اس طرح تم کو نہیں لوٹنے دونگا
خان نے کہا چل آدھے تیرے تے آدھے میرے یہ سن کر بالا مزید مشتعل ہوگیا
خیر تھوڑی بک بک اور جھک جھک کے بعد خان صاحب نے جج صاحب کو اس کے خون پسینے کی کمائی واپس کی اور وہ واپس چلاگیا
خیر وہ بھی ایک وقت تھا بعد ازاں رشوت کے ریٹ کم ہونا شروع ہوئے یہاں تک کہ بہت سے جوڈیشل مجسٹریٹ سوروپے کے ایزی لوڈ پر بھی کام کردیا کرتے تھے رشوت کو اتنا زوال پوری انسانی تاریخ میں کبھی نہیں آیا
جس کے بعد صوبہ سندھ میں سجاد علی شاہ صاحب نے سوروپے رشوت لینے والے ججز کو برطرف کیا تو دوسری طرف پنجاب کے چیف جسٹس نے بھی گھٹیا قسم کے رشوت خوروں کو کند چھری سے ذبح کرڈالا

رہ گئی رشوت تو وہ کبھی ختم ہوہی نہیں سکتی اور کسی کا باپ بھی ختم نہیں کرسکتا لیکن اب رشوت نئے چہرے بدل کر سامنے آگئی ہے یہ اچھا ہوا کہ ریٹ میں اب دوبارہ اضافہ ہوگیا ماتحت عدلیہ میں بھی ججز نے اپنے رشتے قبیلے کے وکلاء کے ساتھ پارٹنر شپ کرلی ہے تو دوسری طرف ہایئکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی جسٹس صاحبان نے مختلف لاء فرمز کے ساتھ سرعام پارٹنر شپ کررکھی ہے جسٹس بن جانے کے بعد بھی ان کے وکالت کے آفس چل رہے ہیں یعنی پانچوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں
آج کل نیب والے بڑے چھاپے شاپے ماررہے ہیں اگر کسی دن کوئی جسٹس ساب شکنجے میں آگیا تو سارا حلوہ اندر اور سویاں باہر ہوجائیں گی تہہ خانوں سے اتنے نوٹ نکلیں گے کہ پیسے گننا ناممکن ہوجائیں گے
جس طرح اب پھتوئی کو پھتوئی نہیں کہا جاتا درزی کو درزی نہیں کہا جاتا اسی طرح رشوت کو بھی رشوت نہیں کہا جاتا
ویسے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ ہمارے جسٹس صاحبان جن ذاتی بنگلوں میں رہتے ہیں اور جس تیزی سے جسٹس بن جانے کے بعد بنگلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اگر حق حلال کی بات کی جائے تو جو تنخواہ ان کو سرکار سے ملتی ہے اس تنخواہ سے تو وہ کسی اچھے علاقے میں 120 گز کا مکان بھی نہیں خرید سکتے

ہمارے ایک سینئر ہیں وہ روزانہ مجھے کہتے ہیں کہ چاپلوسی اور خوشامد ایک ایسا ہتھیار ہیں جو ہرجگہ کام آتے ہیں اس لیئے بیٹا تھوڑی خوشامد کرنا سیکھو تھوڑی سی چاپلوسی کرنا سیکھو دیکھو لوگ خوشامد اور چاپلوسی سے کروڑوں کمارہے ہیں
گزشتہ دنوں ایک جنازے میں جانا ہوا تو بہت سے جسٹس صاحبان بھی جنازے میں شریک تھے جنازے کے بعد بہت سے وکلاء ایک قابل احترام جسٹس کے پاس موجود تھے اور خوشامد اور چاپلوسیوں میں مصروف تھے جسٹس صاحب نے بہت ہی اعلٰی درجے کی پھتوئی سلوا کر پہن رکھی تھی میں نے سینیئر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خوشامد کا آغاز کرتے ہوئے ساب سے سے کہا کہ ماشاء اللہ سے بہت ہی خوبصورت "پھتوئی" ہے لگتا ہے کسی اچھے درزی سے سلوائی ہے یہ سن کر جسٹس ساب آپے سے ہی باہر ہوگئے انگریزی زبان میں شٹ اپ کی کال دیکر غصے سے دیکھتے ہوئے روانہ ہوگئے اور کار میں بیٹھنے سے پہلے مولا جٹ کی طرح نظر نہ آنے والی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا میری کورٹ کا رخ نہیں کرنا چھوڑوں گا نہیں
کیا زمانہ آگیاہے یارو پھتوئی کو پھتوئی کہنا بھی جرم بن گیا اور ظلم کی حد یہ کہ کوئی درزی کو بھی درزی نہ کہے