بہت سے مسلمان بھی جعلی طورپر اسلام قبول کرتے ہیں جبکہ بہت سے غیر مسلم بھی جعلی طورپر جبری اسلام قبول کرتے ہیں آج
کل منظم جرائم پیشہ گروہ کورٹس کے آس پاس
آفسز بنا کر قبول اسلام کی اسناد فروخت
کرتے ہیں اگر شکار اچھا ہو تو اس قسم کے سرٹیفیکیٹ لاکھوں روپے میں فروخت ہوجاتے ہیں لیکن
نارمل حالات میں یہ سند دس ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے خود ساختہ قبول اسلام کے کچھ عرصے بعد جبری
اسلام قبول کرنے والا جعلی مرتد ہوجاتا
ہے جس کے بعد ایک اور کارندہ کسی مدرسے میں جاتا ہے اور ایک شرعی مسئلہ پوچھتا
ہے جس پر شرعی فتوٰی آجاتا ہے کہ مرتد کی
سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے اب دیکھ لیں
این جی اوز کے پاس کتنا فٹ کیس آگیا ایک
جعلی مسلمان جو مرتد ہوچکا ہے اس کی جان کو شدید خطرہ
ہے شدت پسند اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں ایک نہایت ہی منظم گروہ لاکھوں روپے
لیکر اس طریقے سے اس قسم کے کیسز میں بیرون ملک سیاسی پناہ دلواتے ہیں اور یہ جعلی مرتد والا کیس تو اے کٹیگری میں شمار
ہوتا ہے اس لیئے فوری طور پر اس کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرلی جاتی ہے اس کاروبار میں مذہب سے منسلک ہائی پروفائل اہم شخصیات ملوث ہیں بعض اوقات تو جعلی قسم کے خود ساختہ مفتی تو کسی گمنام مدرسے کی
جانب سے جعلی مرتد کے قتل کا فتوٰی اس کے نام کے ساتھ ہی جاری کردیتے ہیں
No comments:
Post a Comment