ہمارے بہت سے دوست یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جیوری کی بات کرنا حقیقت پسندی نہیں ہے حالانکہ جیوری کا تصور تو زمانہ قبل مسیح میں بھی ملتا ہے
جیوری بنیادی طور پر شہریوں کی ایک جماعت ہوتی ہے جوکمرہ عدالت میں بیٹھ کرحقائق کی روشنی میں شہادت کی بنیاد پر کسی واقعے کی رونما ہونے کے بعدکسی فوجداری کیس کی سماعت کا تعین کرتا ہےشہریوں کی جماعت حقائق کا تعین کرتی ہے جبکہ قانونی پوزیشن کا تعین جج کرتا ہےکیا
یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں ستانوے فیصد ملزمان ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر باعزت بری ہوجاتے ہیں کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ موجودہ نظام میں پولیس تفتیش کے دوران حقائق کا تعین نہیں کرتی بلکہ تفتیش کے زریعے صرف شہریوں کو پریشان کیا جاتا ہے
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایف آئی آر خوف کی علامت ضرور ہے انصاف کی علامت نہیں ہے اور یہی خوف ناانصافی کو جنم دیتا ہےبہت سے دوستوں کا یہ اعتراض درست نہیں کہ جیوری امریکہ کی عدالتوں کیلئے ہی موزوں ہےشہریوں کی جماعت کا تصور ہردور میں رہا ہے پنچایتی نظام بھی اسی سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے اسی طرح جرگہ سسٹم کے زریعے بھی شہریوں کے کردار کا تعین کیا جاتا ہےبلدیاتی نظام میں مصالحتی انجمن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن یہ تمام کڑیاں پاکستان میں عدالت کے کمرے سے باہر ہی موجود ہیں ہم نے پنچایتی نظام کا بھی میڈیا ٹرائل کیا اور صدیوں پرانے جرگہ کا بھی اتنا میڈیا ٹرائل کیا کہ جرگہ کے لفظ سے ہی خوف آتا ہے دنیا بھر میں متحرک شہری اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں
پاکستان میں نہ جانے کیوں وکلاء مسائل کے متبادل حل کی بھی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ فوجداری عدالت جیوری کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح سول نوعیت کی عدالت کیس داخل ہونے سے پہلے مسائل کے متبادل حل کی کوشش کے بغیر سائلین پر ظلم کے مترادف ہے اگر پاکستان میں اے ڈی آر یعنی مسائل کے حل کا متبادل نظام آجائے تو آدھے سے زیادہ سول نوعیت کے کیسز خود ہی خود ختم ہوجائیں جبکہ حیرت انگیز طور پر وکلاء کا روزگار بھی اس سے متاثر نہیں ہوگا بلکہ اضافہ ہوگا کیونکہ اے ڈی آر کی فیسز بھی وکلاء کو ملتی ہے آپ تصور کرکے سوچیں کہ کیا جیوری کی موجودگی میں پولیس بوگس تفتیش کرکے چالان جمع کروا سکتی ہے کیا جیوری کی موجودگی میں ایک جج پولیس کی ذہنی ماتحتی اور غلامی کرسکتا ہے
یقینی طور پر نوے فیصد فوجداری مقدمات ختم ہوجائیں گےکیونکہ جو مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں ان میں سے اکثر ہی بے بنیاد ہیں اور ان کو سماعت کیلئے منظور کیوں کیا جاتا ہے اس کی وجہ پولیس کی ناقص تفتیش اور عدلیہ میں شہریوں کی شمولیت کا نہ ہونا ہےجیوری کی موجودگی میں کیا پولیس کسی بے گناہ کو گرفتار کرکے مجسٹریٹ کے سامنے ڈھٹائی سے پیش کرسکتی ہے اور کیا ریمانڈ لینا ممکن ہوگا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ مجسٹریٹ شہریوں کی موجودگی میں کسی بے گناہ کے خلاف پیش ہونے والے چالان کو منظور کرنے میں کامیاب ہوجائےجیوری کے حوالے سے تمام الزامات اس لیئے کمزور ہیں کیونکہ موجودہ عدالتی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ہماری عدالتوں سے ملزمان کی باعزت طور پر رہائی کا رجحان اس لیئے زیادہ ہے کیونکہ پولیس کی تفتیش ناقص ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ سے ہی اس نقطے کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ پولیس ریمانڈ اور چالان عدالت میں جمع کرواتی ہے
بدقسمتی سے مشرف دور میں عدالتی اصلاحات پر کچھ کام ہوا تھا جس کا تسلسل جاری نہ رہا اور مشرف دور میں ہی عدالتی اصلاحات کا سلسہ ختم ہوگیا تھا لیکن مشرف دور میں بھی مصالحتی انجمن کو یونین کونسل کی سطح پر اختیارات دیئے گئے تھےضرورت اس عمل کی ہے کہ متحرک شہری اپنا کردار ادا کریں ضرورت اس عمل کی ہے کہ ہم سب یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایک عام شہری کو عدلیہ سے "ٹکے" کا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا لوگ عدالتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں عدالت سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتی نظام میں شہریوں کی شمولیت نہیں ہے جوکہ کسی بھی ریاست کے شہریوں کا بنیادی حق ہے اور یہ حق شہریوں کو صدیوں سے حاصل ہے آج بھی دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں جیوری عدالتی نظام کا حصہ ہےیہ کام آسان ہرگز نہیں ہوگا متحرک عدلیہ کسی کرپٹ نظام کیلئے ہر گز مفید نہیں ہوسکتیبدقسمتی سے ہم ایک نامکمل عدالتی نظام کے زریعے انصاف کی فراہمی کی کوشش کررہے ہیں جو کہ ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی خصوصی عدالتیں اور کبھی ملٹری عدالتوں کا تجربہ کیا جاتا ہے