Powered By Blogger

Saturday 8 April 2017

ہم نے اپنا ملال بیچ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان


ہم نے اپنا ملال بیچ دیا (9 اپریل 2008 سانحہ طاہر پلازہ)
تحریر صفی الدین اعوان
  9 اپریل 2008  دوپہر 01:00 بجے کا وقت
بسوں میں بھر کرلائے  گئے  دو درجن سے زائد مسلح افراد کو لائٹ ہاؤس کے قریب بلدیہ عظمٰی کراچی کی  قدیم بلڈنگ کی بغلی سڑک  پر  اتارا گیا  تھا جہاں سے کچھ  دیر کے بعد  وہ  پارکنگ  والے گیٹ سے سٹی کورٹ میں داخل ہوئے اور دندناتے ہوئے  کراچی بارایسوسی ایشن کی عمارت کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے عمارت میں گھس  گئے ان کے پاس  تحریک میں متحرک وکلاء کی تصاویر اور چند نام تھے  مسلح افراد کو سردار طارق خان نیازی ، نصیر عباسی ، شہریار شیری اور چند دیگر وکلاء رہنماؤں کی تلاش  تھی  کمیٹی روم میں حسن بانڈ صاحب  موجود تھے اس سے سردار طارق نیازی کے بارے میں پوچھا  نفی میں جواب ملنے پر کہا اوئے تیرے بارے میں بھی اطلاع ہے تم بھی بہت  چخ  چخ کرتا ہے  یہ کہہ کر مسلح افراد نے گالیاں  بکنے کے بعد  حسن بانڈ  ایڈوکیٹ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا   جس کے بعد درجنوں مسلح افراد  خواتین وکلاء کے بارروم میں داخل ہوئے   خوش  قسمتی سے کمرہ خالی تھا  جس کے بعد  لیڈیز بارروم کو آگ لگادی گئی وکلاء کراچی کے ضلع وسطی کی عمارت میں جمع ہوگئے تھے  میں  ضلع وسطی کی بلڈنگ کی  فرسٹ فلور کی کھڑکی سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا کہ لیڈیز بارروم سے دھواں نکل رہا ہے اسی دوران سیشن جج  نے مجھے ڈانٹ کر بلایا اور ایک جج کے چیمبر میں جانے کا کہا  جہاں بہت سی خواتین وکلاء بھی موجود تھیں سیشن جج  قانون نافذ کرنے والے اداروں سے  مسلسل  رابطہ کررہے تھے وہاں  بہت سے وکلاء  موجود تھے کورٹ کا  بیرونی گیٹ بندکردیا گیا تھا  اسی دوران مسلح افراد جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے   اسی راستے سے  بلدیہ عظمٰی  کراچی  کی بلڈنگ  سے لائٹ ہاؤس کی طرف واپس لوٹ گئے اور ایم اے جناح روڈ  پر آگئے جہاں  سامنے سے شہریار شیری  پیدل  چلتا  ہوا آرہا تھا  مسلح افراد کو اسی کی تلاش تھی  شیری   وکلاء تحریک میں نعرے بہت لگاتا تھا  مسلح افراد کے للکارنے  پر شہریار شیری نے ایک بار پھر  نعرہ لگایا مسلح افراد نے  شہریا ر شیری کو ایم اے جناح روڈ پر ہی گولیاں مارکر شہریار شیری کو شہید کیا اور  غلہ منڈی والے روڈ  پر کھڑی وکلاء کی  کاروں کو نزرآتش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ان کے پاس ایک مخصوص کیمیکل تھا جو فوری آگ پکڑلیتا تھا  تقریباً دوسو گاڑیوں کو آگ لگانے کے بعد مسلح افراد غوثیہ مرغ چھولے پہنچے  ان  کے عملے سے  نصیر عباسی  اور دیگر وکلاء رہنماؤں کے آفس کی نشاندہی کرنے کو کہا نفی میں جواب ملنے پر تمام  دیگیں الٹ دی گئیں اور رزق کی بے حرمتی کی گئی  بعد ازاں مسلح افراد طاہر پلازہ میں داخل ہوئے فرسٹ فلور پر اسٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا  پانچویں اور  چھٹے فلور پر کراچی بارایسوسی ایشن کے عہدیداران کو تلاش کیا  نصیر عباسی کو تلاش کرتے ہوئے وہ الطاف عباسی کے آفس     جا پہنچے  جہاں وہ اپنے آفس میں   باہر کے حالات  سے بے خبر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے   آفس میں  پانچ معصوم شہری بھی  اپنے مقدمات  کے سلسلے میں موجود تھے جو اپنے مقدمات کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے  جب مسلح افراد کو اس  بات کی تصدیق ہوگئی  کہ اندر لوگ موجود ہیں تو  آفس کی کھڑکی سے    گولی سے استعمال  ہونے والا کیمیکل پھینکا  اور گولی چلادی  جس کے بعد آفس میں  شدید آگ بھڑک اٹھی
الطاف عباسی اور ان کے آفس میں موجود افراد نے جان بچانے کیلئے  آفس سے نکلنے  کی کوشش کی  مگر باہر سے تالا ہونے کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل سکے   چیخوں کی  آوازیں   پلازہ  میں گونجتی  رہیں  اور الطاف عباسی سمیت چھ افراد ان کے آفس  کے اندر  ہی  جل کر شہید ہوگئے   جنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی وجہ سے انسان تو انسان آفس کے  لوہے کے دروازے  پلستر کی دیواریں  اور پنکھے تک پگھل گئے اور لاشیں جل کر کوئلہ اور ناقابل شناخت ہوگئیں   مسلح افراد نے طاہر پلازہ کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کیا  اور دوفلور زکو آگ لگا کر اطمینان سے بسوں میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوگئے طاہر پلازہ میں موجود وکلاء نے ساتھ والی بلڈنگ میں کود کر اپنی جان بچائی  لیکن طاہر پلازہ کے بیرونی مناظر اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے  سینکڑوں کی تعداد میں  گاڑیاں جل رہی تھیں اور وکلاء اپنی  گاڑیوں کو حسرت سے  جلتا ہوا دیکھ رہے تھے  
اسی دوران فسادیوں نے ملیر بارایسوسی ایشن کی بلڈنگ اور دیگر املاک کو  بھی جنگی کیمیکل سے جلا کر تباہ وبرباد کردیا  کوئی جانی نقصان  تو نہیں ہوا  لیکن بار کی عمارت اور فرنیچر  مکمل طورپر تباہ برباد ہوگئے
وکلاء کی دوسوسے زائد  کاروں ،طاہر پلازہ  اور ملیر بارایسوسی  ایشن  کی   عمارتوں  میں  لگائی  گئی  آگ کو بجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی فائر  بریگیڈ کی گاڑیاں  پانی کے بغیر ہی پہنچ گئے جب سب کچھ جل کر خاک ہوگیا تو آگ خود ہی بجھ گئی
ہم بڑی حسرت سے  کاروں اور طاہر پلازہ  سے اٹھتا ہوا دھواں  دیکھ رہے تھے
شام کو کئی وکلاء   کوان کی گھریلو خواتین اور بچوں کو مسلح افراد نے  ان کے گھر وں میں جاکر تشدد کا نشانہ بنایا گیا  فلیٹ نذر آتش کیئے گئے اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی  
طاہر پلازہ  چھٹی منزل پر ہرجگہ گوشت اور خون کے لوتھڑے  چپکے ہوئے تھے جلی ہوئی لاشوں کو کس طرح اور کس نے نکالا یہ کوئی نہیں جانتا
  اس ظلم اور جبر کے باوجود اگلے  ہی روز کراچی بارایسوسی ایشن کی جنرل باڈی  شہداء پنجاب  ہال  میں  منعقد ہوئی یہ تاریخ  کی شاید وہ پہلی جنرل باڈی تھی جس میں  وکلاء کے پاس  بیان کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا  صرف آنسو اور دبی دبی سی چیخیں تھیں  لیکن آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں تھا
بہت سے وکلاء تقریر کرنے کیلئے ڈائس پر آتو جاتے تھے   مائک  بھی ہاتھ میں پکڑتے تھے  لیکن  بات کرنے کی ہمت اور حوصلہ کہاں سے لیکر آتے   بڑے بڑے وکلاء اس دن  تقریر کی ہمت پیدا نہیں کرسکے  کہتے بھی تو کیا کہتے  کہنے کیلئے کچھ بچا ہی کہاں تھا
 جنرل باڈی اجلاس  سے خطاب کرنے والے مقررین   کچھ دیر آنسو بہاتے تھے ، رونے کی دبی دبی  آوازیں آتی تھیں بعد ازاں  مقررین  کی ہچکیاں  بندھ  جاتی تھیں    لیکن سامعین کے  رونے  اور ہچکیوں  کی آوازوں میں مقررین کے رونے  اور ہچکیوں  کی آوازیں دب جاتی تھیں اس دن تو حوصلہ دینے والا بھی کوئی نہیں تھا
جب رورو کر آنسو  بھی خشک ہوگئے تو جنرل باڈی کا اختتام ہوا  ،وکلاء طاہر پلازہ کی طرف روانہ ہوئے جلی ہوئی بلڈنگ سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا  جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو ابھی بھی موجود تھی اور انسانی گوشت کے لوتھڑے ابھی بھی موجود تھے  
ہم وکلاء ہی ان گوشت کے لوتھڑوں کے لواحقین تھے ہم ہی ان کے شہدا کے وارث تھے  
اگلے چند مہینوں کے بعد  طاہر پلازہ کے مکینوں نے دوبارہ سے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا  وقت بھی تو ایک مرہم ہے  
ہمیں اپنے شہید دوستوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے  
بدقسمتی سے  9 اپریل کو پورے پاکستان میں کسی وکلاء تنظیم نے  9 اپریل  طاہر پلازہ کے شہداء کو یاد نہیں کیا ان کی یاد میں کسی بھی  جگہ یوم سیاہ نہیں منایا گیا  کوئی جنرل باڈی منعقد نہیں ہوئی   سوائے ناہید افضال  ایڈوکیٹ  صاحب اور شبانہ ایڈوکیٹ صاحبہ  اور ان کے دیگر دوست  احباب   جو ہرسال  اس موقع  پر طاہر پلازہ میں قرآن خوانی  کرواکر شہدا کو یاد کرتے ہیں
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
ہم نے اپنا ۔۔۔۔۔ملال بیچ دیا

تحریر صفی الدین اعوان
سیکرٹری نشرواشاعت  پاکستان مسلم لیگ ن لائرزفورم کراچی ڈویژن

No comments: