Powered By Blogger

Tuesday 7 July 2015

ابدال


ابدال پوشیدہ ولی ہوتے ہیں جو دنیا کے انتظام و انصرام کے لیے مامور کیے جاتے ہیں۔ باران رحمت کا نزول اور آفات سماوی و ارضی کا سدباب انہی کے فرائض میں داخل ہے۔
اصطلاح تصوف میں اولیاء کا پانچواں درجہ ابدال ہے۔
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابدال کی خبر احادیث میں ہے اور ان کا وجود درجہ یقین تک پہنچا ہے۔

اسی طرح علامہ سخاوی رحمہ اللہ نےلکھا ہے کہ سب سے واضح روایت ابدال کے بارے میں ہے جو کہ امام احمد ابن عباد نے شریخ ابن عبید سے  روایت کی ہے :
حضرت علی کرم وجہہ اللہ سے مروی ہے کہ اہل شام پر لعنت نہ کرو کیونکہ ان میں چالیس ابدال رہتے ہیں۔ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان سے دین کو مدد ملتی ہے۔
امام سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم وجہہ اللہ کی روایت جو امام احمد نے نقل کی ہے اس کی سند دس طرقوں سے زیادی ملتی ہے۔
۔
حضرت ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر اللہ کے ایسے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی دعا و برکت سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحم فرماتا ہے، آسمان سے بارش اور زمین سے فصل وغیرہ انکی دعا سے اگتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے باعث امن ہیں۔
امام احمد ابن عباد صامت سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک چالیس آدمی ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے زمین و آسمان کا نظام قائم رہے گا۔
علامہ خطیب نے کتاب التاریخ البغداد سے نقل کی ہے کہ نقباء 100 ہوتے ہی اور نجباء 70، ابدال 40 اور 7 اوتاد ہوتے ہیں، قطب زمین میں تین اور قطب الاقطاب یا غوث ایک ہوتا ہے۔

 غوث ان سب کا سردار ہوتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطنی جانشین یا خلیفہ ہوتا ہے

اعلٰی حضرت  عظیم البرکت  عظیم المرتبت  امام اہلسنت  مجدد دین و ملت  پروانہ شمع رسالت  الشاہ  امام  احمد رضاخان  بریلوی کو سرکارِ بغدادِ حضور ِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ِ بابرکات سے بے پناہ عشق او روالہانہ لگاؤ تھا آ پ کی مجلس میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ حضو رِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جاتا اور اس غلامی کا اظہار اعلیٰ حضرت اپنے اشعار میں کس والہانہ انداز سے کرتے ہیں:
تجھ سے در،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا


No comments: