Powered By Blogger

Wednesday 23 December 2015

نادیہ گبول کی فاتحانہ مسکراہٹ تحریر صفی الدین اعوان





دس سال پرانی بات ہے ہمارے ایک جاننے والے  منیب   بھائی جوکہ  میمن ہیں اور اسٹاک مارکیٹ
 سے وابستہ ہیں ان کا اکلوتا بیٹا  احمد جگر کے مرض میں مبتلا ہوگیا  ۔ اللہ نے خوب  دولت سے نوازا تھا اکلوتے بیٹے کی جان بچانے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی آخر کار رہائیشی مکان کے علاوہ سب کچھ خرچ کرڈالا کاروبار  دکانیں  کار اور  بیوی کا زیور سمیت سب کچھ بیچ دیا
پھر کسی نے بتایا کہ جگر کی پیوند کاری انڈیا میں ہوتی ہے  یہ سن کر اپنا مکان بھی بیچ ڈالا اور انڈیا گئے آپریشن کامیاب نہ ہوا اورواپس آگئے  بیٹے کا انتقال ہوگیا
اس دوران وہ مالی پریشانی کا شکار ہوچکے تھے ۔ سب  دولت خرچ ہوچکی تھی۔ اور آخری سہارا مکان تک بک چکا تھا اور مزید ظلم یہ کہ اکلوتے بیٹے کی جان بھی نہیں بچی تھی
ایک سال بعد میں ان کے ساتھ لنچ کررہا تھا میں نے پوچھا کہ جب آپ انڈیا جارہے تھے تو آپ کو اندازہ تھا کہ آپ کے اکلوتے بیٹے احمد کی جان بچ جائے گی انہوں نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ امید بہت کم ہے

میں نے کہا کہ کیا سب کچھ خرچ ہوگیا
احمد کے والد نے کہا کہ ہاں سب کچھ خرچ ہوگیا اب کوئی اثاثہ نہیں ہے

میں نے کہا کہ  اگر وقت واپس آجائے اور آپ کو یہ یقین ہوکہ آپ کے بیٹے کی جان نہیں بچے گی تو  آپ کیا کریں گے مطلب کہ کیا آپ کو اگر یہ موقع دیا جائے تو کیا آپ دوبارہ بھی اسی طرح اپنا سب کچھ خرچ کردیں گے
منیب بھائی مسکرائے  اگر وقت دوبارہ واپس آجائے مجھے یہ یقین ہو کہ میرے اکلوتے بیٹے کی جان نہیں بچائی جاسکتی  اس کے باوجود مجھے دوبارہ بھی موقع مل جائے  تو میں اپنی ساری دولت دوبارہ بھی اپنے بیٹے پر خرچ کردوں گا یہاں تک کہ اپنا رہائیشی مکان بھی دوبارہ بیچ دوں گا  مجھے ایک فیصد بھی یقین نہ ہو کہ میرے بیٹے کی جان نہیں بچ سکتی پھر بھی میں پوری کوشش دوبارہ بھی کروں گا  اور اس کے بعد اگر دوبارہ بھی میں غریب ہوجاؤں گا تو مجھے دوسری  بلکہ تیسری بار بھی افسوس نہیں ہوگا  یہ بات کہتے ہوئے منیب بھائی کی انکھ میں  نہ آنسو تھا نہ سب کچھ کھونے کا پچھتاوا
انسان اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہے

بسمہ کے والد نے جو کچھ کیا اپنی سوچ کے مطابق کیا خدا کسی باپ پر وہ وقت نہ لائے  صوبے کے وزیراعلٰی نے بسمہ کے والد کے ساتھ چند منٹ  وزیراعلٰی سندھ سے تنہائی میں ملاقات کی جس کے بعد جب  بدنصیب بسمہ کا بدنصیب باپ  گھر سے باہر آیا تو اس کا بیان تھا کہ  کوئی ذمہ دار نہیں اس کی بیٹی کا وقت ہی پورا ہوچکا تھا
 بدنصیب  والد کے پیچھے کھڑی انسانی حقوق کی وزیر نادیہ گبول پراسرار انداز میں فاتحانہ طور مسکرا رہی تھی


No comments: