Powered By Blogger

Friday 23 December 2016

چورن پور کا مسخرہ ۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان











چورن پور کا مسخرہ ۔۔۔۔۔۔تحریر  صفی الدین اعوان
قسط نمبر 2
جب  میں آسیب زدہ بلڈنگ کی مشکل سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر پہنچا تو ہلکا سا سانس پھول گیا سامنے   ایک  چھوٹا سا آسیب ذدہ شکایت  بکس لگا ہوا تھا جس پر لگا ہوا   زنگ آلود تالا اس کے آسیب ذدہ ہونے کا اعلان  کررہا تھا  بظاہر   اس تالے کو کبھی نہیں کھولا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام کو اندھیرا چھا جانے کے بعد  اس آسیب زدہ بلڈنگ میں روحوں کی ہرروز لگنے والی عدالت میں اس تالے کو روز کھولا جاتا ہے  اور درج ہونے والی شکایات کا فوری ازالہ کیا جاتاہے مشہور ہے کہ چورن پو ر میں  ہرروز روحوں کی اپنی ایک عدالت لگتی ہے اور رات کو بند عدالتوں میں   خوب  چہل پہل ہوتی ہے
حقیقت یہ ہے کہ چورن پور کی  رات کی عدالتوں کے فیصلے نہایت ہی سخت ہوتے ہیں  جن لوگوں کو   چورن  پور کی  حدود میں واقع   عدالتوں  سے دنیا میں انصاف نہیں  ملتا  چورن پور کے مظلوم شام کو   عدالت لگا کر  الگ سے کیس چلاتے ہیں اور سزا سناتے ہیں اس عدالت کی شان ہی کچھ اور ہے یہ دنیا کی واحد عدالت ہے  جو شام کو لگائی جاتی ہے   چورن پور کی شام کی عدالت دنیا کی واحد عدالت ہے جس کے فیصلے میرٹ پر سنائے جاتے ہیں  اور فوری طورپر نافذ العمل ہوتے ہیں   ان فیصلوں کے خلاف  دنیا کی کسی عدالت  میں اپیل  بھی نہیں  ہوسکتی  چورن پور کی شام کی عدالت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شام کو بیٹھنے والے ججز پولیس کے ذہنی ماتحت اور ذ ہنی  غلام بھی نہیں ہیں
چورن پور کی رات کی عدالتوں کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ جب انگریز دور میں مجاہدین آازدی کو نام نہاد مقدمات  چلا کر  عدالت  سے متصل پھانسی گھاٹ قائم کرنے کے بعد پھانسی کی سزایئں سنائی گئیں تو اس کے کچھ عرصے کے بعد ہی یہاں  پراسرار واقعات جنم لینا شروع ہوگئے تھے
آزادی کے بعد جب چورن پور کا قیام عمل میں آیا تو انصاف کا چورن بنادیا گیا  شروع دن سے ہی انصاف کا  مذاق بنایا گیاتھا  یہاں عدالتوں میں سرعام قتل کرنے والوں کو رشوت کا بازار گرم کرکے چھوڑ دیا جاتا تھا اور مظلوم  بے بسی کی تصویر بن کر  چورن پور کی قدیم بلڈنگ کے ساتھ ہی سر پھوڑ کر گھر واپس چلے جایا کرتے تھے اکثر مظلوم  جھولی پھیلا کر بددعائیں دیتے تھے اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا کرتے تھے
جس کے بعد چورن پور میں ایک علیحدہ سے  متوازی  عدالت قائم ہوگئی جو  رات کے وقت قائم ہوتی تھی ان عدالتوں میں صرف قتل کے مقدمات چلتے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں  یہاں نہ وکیلوں کو جرح کی اجازت ہوتی ہے نہ پولیس کی رپورٹ کا انتظار کیا جاتا ہے  چورن پور کی رات کی عدالتوں کا اپنا ایک نظام ہے ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جس کو ہم نہیں سمجھتے نہ ہم سمجھنا چاہتے ہیں
 ویسے تو چورن پور کی شام کی عدالتوں نے  بے شمار مقدمات کے فیصلے سنائے ہیں  بے شمار قتل کے ملزمان  کو موت  کی سزائیں  سنا کر ان پر عمل درآمد  بھی کردیا گیا لیکن چورن پور کی رات کی عدالتوں میں جو سب سے بڑا اور اہم مقدمہ آج تک آیا ہے وہ ایک فیکٹری میں چار سو مزدوروں کو زندہ  جلانے کا تھا  جب چورن پور کی ایک فیکٹری میں سینکڑوں  غریب ملازمین کو زندہ جلا کر کوئلہ بنادیا گیا  تھا  اس مقدمے کو دیکھ کر   رات کی عدالتوں کے جج  بھی ایک بار چکرا گئے  تھے
پہلے یہ مقدمہ  چورن پور کی مقامی عدالت میں چلایا گیا جس میں تفتیشی افسر نے پانچ کروڑ روپے رشوت لیکر ان لوگوں کے خلاف چالان پیش نہیں کیا جنہوں نے فیکٹری کو آگ لگائی تھی بلکہ بے گناہ  فیکٹری مالکان سے ہی پانچ کروڑ روپے لیکر ان ہی کے خلاف چالان بھی پیش کیا لیکن قتل کی سیکشن ختم کرنے مقدمہ کمزور کرنے  اور مقدمے کا چورن چٹنی بنانے کے  لیئے رشوت وصول کرلی
تفتیشی افسر اسی رشوت کی رقم  سے حج کی سعادت حاصل کرنے گیا تو اس دوران اس کی نوجوان  بیٹی کا اچانک ہی انتقال ہوگیا اور اس کو بیٹی کا جنازہ پڑھنا بھی نصیب  نہ ہوا
جب  حج  سے واپس آیا تو ایک نفسیاتی مریض بن کر واپس لوٹا  رشوت کی رقم اب بوجھ بن چکی تھی   شاید چورن پور کی شام کی عدالت نے اس کو کوئی ایسی سزا سنائی کہ  وہ ہمیشہ کیلئے چپ ہی  ہو گیا ہے بس خاموشی سے چپ چاپ آفس میں بیٹھا رہتا ہے  عدالت میں آتا ہے تو چپ ہی رہتا ہے   بس دیوار کو تکتا رہتا ہےاسی رشوت کی رقم سے  اب اس تفتیشی افسر نے  اپنے علاقے میں ایک مسجد بناکر  زیادہ دیر مسجد میں بیٹھا رہتا ہے   اسی طرح  چورن پور کی فیکٹری  میں چار سوافراد کو زندہ جلانے والے کسی بھی کردار کو سکون نصیب نہ ہوا چاہے وہ شخص جس نے پلاننگ کی اور چاہے وہ لوگ  جنہوں نے آگ لگائی 
ان سب کو سزا ضرور ملے گی ۔۔۔۔مل رہی ہے
ذمہ داران  خود ہی سامنے آرہے ہیں اور  مظلوموں کی عدالتیں مجبور کررہی ہیں کہ وہ خود عدالتوں میں آکر اپنے جرائم کو قبول کریں  وہ خود ہی قبول کررہے ہیں
چورن پور میں فیکٹری میں مزدوروں کو زندہ جلانے والے ایک درجن اہم ترین کرداروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی عبرت  ناک ہے لیکن فی الحال اس کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے
فیکٹری کو آگ لگانے والے بہت سے کردار تھے اگر ریسرچ کی جائے تو سب کے سب برے انجام کا شکار ہیں 
بہت سے قاتل خوشی خوشی رشوت دیکر رہا ہوجاتے ہیں لیکن جب مقدمہ شام کی عدالت میں چلتا ہے  اور وہاں سے سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو وہی قاتل صرف روز بعد  ہی یاتو پولیس مقابلے میں مرجاتا ہے یا موت خود ہی اس کو تلاش کرتی ہوئی آتی ہے اور اس کو دبوچ لیتی ہے ۔۔۔۔وہ سزا بڑی ہی سخت ہوتی ہے
چورن پور میں بے شمار بے گناہوں کو قتل کیا گیا بے شمار قاتل رہا ہوئے اور قانون کی گرفت میں وہ کبھی بھی نہیں آئے  اور اگر قانون کی گرفت میں آئے بھی تو وہ گرفت اس قدر ڈھیلی تھی کہ باآسانی رہا ہوگئے لیکن ایک بات میں دعوے سے کہتا ہوں کہ  چور ن پور کی رات کی عدالتوں نے آج تک کسی ملزم کو نہیں چھوڑا

میں نے چورن پور سے رشوت  دے کر باعزت طورپر بری ہونے والے قاتلوں کو ہمیشہ غیر فطری  اور بدترین موت کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا ہے  اگر آپ کے پاس وقت ہو  تو تحقیق کرکے دیکھ لیں کہ چورن پور میں جتنے بھی قتل کے مقدمات چلے اور کسی وجہ سے رشوت دیکر یا کسی اور طریقے سے رہا ہوگئے تھے اور ورثاء  نے ان کو معاف نہیں کیا تھا  اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا ہوا تھا تو ان کا انجام کیا ہوا  ان کا حشر کیا ہوا
ان سب کو سزا ملی ہے ان سب کو عبرت ناک سزا ملی ہے اور ایسی موت ملی جسے دیکھ کر لوگوں نے دعا کی کہ خدا کسی دشمن کو بھی ایسی سزا  نہ دے
یہ  چورن پور کی روحوں کی کہانی بھی عجیب و  غریب ہے مشہور ہے کہ  فرنگیوں کے دور میں جب آسیب زدہ بلڈنگ سے منسلک قدیم پھانسی گھاٹ میں ہزاروں  بے گناہوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا  تو ان کی روحیں آج تک وہاں بھٹکتی پھرتی ہیں بعد ازاں  ان  بے چین  روحوں کی چورن پور کے ان زندہ  مظلوموں سے دوستی ہوگئی جن کے  پیاروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا لیکن  قاتل عدالت سے بچ نکلے  اور ان کو عدالت سزا  سنانے میں کامیاب نہ ہوسکی   کچھ عرصے بعد ہی چورن پور میں شام کی متوازی  عدالتیں  قائم ہوگئیں  اور صرف قتل  کے  مقدمات شام  کی عدالتوں پیش کیئے جانے لگے  اور باعزت بری ہونے والے قاتل اپنی بریت کے کچھ عرصے بعد ہی  پراسرار اموات کا شکار ہونے لگے

  قدیم لاک اپ کے سامنے نیم کے درختوں نے ایک سوکھے ہوئے درخت کو اپنے درمیان چھپا رکھا ہے اس پر کبھی بھی  کوئی پرندہ نہیں بیٹھتا  اس بظاہر سوکھے ہوئے قدیم درخت کو کاٹنے کی جب بھی کوشش کی گئی ناکامی ہوئی مشہور ہے کہ یہاں بھی چند روحوں کا  مستقل قیام ہے

اسی  طرح لفٹ کی تنصیب  کے دوران جب زمین کو وہاں کے  مکینوں کی اجازت کے بغیر ہی  کھودا گیا تو آسیب زدہ بلڈنگ کے  کے مکینوں نے اس بات کا سخت برا منایا   اور اس کھدائی کو   اپنے سسٹم  کی حدود میں مداخلت قرار دیا بعد ازاں    لفٹ کی تنصیب کیلئے جس کمپنی کو ٹھیکہ ملا تھا اس کا چیف ہی اغواء ہوگیا تھا بعد ازاں معافی تلافی کے بعد  چورن پور کے  سینکڑوں برس  قدیم  مکینوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور بچہ   مشکل سے واپس ملا   لیکن مل گیا  اس کے بعد سے ابھی تک  لفٹ کی تنصیب کا کام کھٹائی میں پڑا ہوا ہے
میں نے  سائلین کی شکایات    کیلئے نصب  پرانے بکس کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے کو ترجیح دی اور سیکنڈ فلور پر  پہنچ گیا  سیدھے ہاتھ پر پانچ کمرے چھوڑ کر عدالت میں جاکر بیٹھ گیا ابھی جج کے آنے میں زرا تاخیر تھی
اس دوران اعلان ہوا کہ ساب آرہے ہیں  ہم کھڑے ہوگئے میں نے دیکھا کہ ایک کالا بھجنگ  ہٹا کٹا     ملنگ نما پہلوان جھومتا ہوا عدالت میں داخل ہوا 
آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا  جبکہ  بالوں میں تیل یوں چپڑا ہوا تھا جیسے   ساب نے سرپر تیل نہیں لگایا بلکہ  تیل کی کڑھائی میں سر آدھا گھنٹہ ڈبو کر بالوں میں تیل  کی چمپی  کی تھی
رنگ  زیادہ سیاہ  تو نہیں  تھا   لیکن دل کی سیاہی  نے چہرے کی سیاہی پر بہت زیادہ اثر ڈالا تھا  مجھے ایک بار محسوس ہوا کہ اداکار رنگیلا مرحوم سنجیدہ ہوکر بیٹھ گیا ہو بظاہر وہ شخص مجھے سنجیدہ  سا محسوس ہوا  اسی دوران آفس بوائے نے ساب کے سامنے ٹھنڈے پانی کا لال رنگ کا  "مگا "  رکھا جس پر  بہتے ہوئے آبی بخارات اس پانی کے یخ ٹھنڈا ہونے کی گواہی دے رہے تھے 
باہر پٹے والوں کے آوازیں گونج رہی تھیں
میں نے کاز لسٹ اٹھا کر دیکھی تو میرا کیس بیسویں نمبر پر لگا ہوا تھا میں نے جاکر پیش کار کو بتایا کہ بیس نمبر پر کیس لگا ہوا ہے تو ساب کے چہرے پر شدید ناگواری اور ناپسندیدگی کے تاثرات نظر آئے  پیش کار نے بتایا سرگوشی والے لہجے میں بتایا کہ تشریف رکھیں نمبر آنے پر کیس چلے گا
اسی دوران ساب نے  پانی کے "مگے " سے  پانی کا ایک گھونٹ   پیا
میں اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ ہورہی ہے  میں نے پیش کار سے پوچھا کہ ساب کب آئیں گے تو پیش کار نے  سرگوشی میں کہا یہی تو ساب ہے جو سامنے بیٹھا ہوا ہے
میں نے کہا  ساب ایسے ہوتے ہیں  یہ کس قسم کے ساب آرہے ہیں آج کل
 پیش کار نے کہا جی اسی قسم کے ساب آرہے ہیں آپ کو کوئی اعتراض ؟  
 یہ سن کر مجھے زرا شرمندگی ہوئی کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ صاحب کسی  مزاحیہ ڈرامے کی شوٹنگ میں مسخرے کا کردار ادا کرنے  کیلئے تشریف لائے ہیں
ساب کے  چہرے پر بہت زیادہ  اور گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی  صاف محسوس ہوتا تھا  ساب سنجیدہ نظر آنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں 
میں کازلسٹ دوبارہ دیکھی تو مجھے ایک بار پھر شدید جھٹکا لگا کیونکہ کازلسٹ میں بہت سے قتل کے مقدمات بھی شامل تھی  مجھے ان تمام ملزمان  اور مدعیان سے دل میں بہت زیادہ ہمدردی محسوس ہوئی  کہ جن کے مقدمات وہاں لگے ہوئے تھے
خیر عدالتی کاروائی شروع ہوئی اور ساب نے پہلا کیس ہی قتل کا اٹھایا
پٹے والے نے آواز لگائی تو ایک پولیس افسر عدالت میں پیش ہوا
سنجیدہ ساب جو خاموشی سے مرحوم  اداکار رنگیلا کی سنجیدہ  فوٹو کاپی بنا بیٹھا تھا یوں محسوس ہوا جیسے پولیس والے پر نظر پڑتے ہی  وہ بے چین سا ہو گیا  اس میں  کرنٹ  دوڑ  گیا ہو اس کی حالت یوں ہوگئی جیسے "تسے داند" (پیاسے بیل )  کے سامنے کسی نے لال رنگ کا کپڑا لہرا دیا ہو اور پیاسے  بیل یعنی  تسے داند کی طرح  سامنے والے کو اپنے سینگ سے ٹکر مارنے کیلئے رسا تڑا کر بھاگنے کی تیاری کررہا    ہو اور   گرم گرم  سانسیں لیکر مدمقابل پر حملہ آور ہونے کیلئے تیار ہوگیا ہو  اور زمین پر  اگلے  دونوں پاؤں رگڑ رگڑ کر مدمقابل  کو اپنے سینگوں سے ٹکر مارنے کی تیاری کررہا ہو

چورن پور کے مسخرے کی دوسری قسط  تھی   بدقسمتی سے چند اس قسم کے پراسرار  مسائل نے جنم لیا جن کی وجہ سے پانچ سو صفحات کا یہ ناول  مجبوراً مختصر کرنا پڑ رہا ہے

  پہلی قسط بھی منسلک ہے


چورن پور کا مسخرہ۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان




پہلی قسط ۔۔۔1
ساحلی شہر چورن پور کی مرکزی غلہ منڈی  کھل چکی تھی اور کاروبار کا آغاز ہوچکا تھا ایک طرف اونٹ گاڑیاں غلہ لیکر اندرون شہر جارہی تھیں تو دوسری طرف   لوڈنگ گاڑیاں بیرون شہر سے غلہ لیکر پہنچ چکی تھیں جس کی وجہ سے حسب معمول ٹریفک جام ہوچکا تھا آسمان پر ہزاروں کی تعداد میں چیلیں اڑ رہی تھیں اور آوازیں نکا ل نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلارہی تھیں
چورن پور کی  مرکزی غلہ منڈی کے سامنے برٹش دور کا قدیم پھانسی گھاٹ تھا جہاں ایک  خشک  آسیب زدہ درخت کے عقب میں  ایک آسیب زدہ پرانی مگر باوقار برٹش  دور کی   پتھر سے بنی  ہوئی بلڈنگ تھی  پھانسی  گھاٹ  کے ساتھ  واقع آسیب زدہ درخت کے بارے میں مشہور تھا   کہ اس پر کبھی کوئی پرندہ نہیں بیٹھتا تھا  جبکہ  پھانسی  گھاٹ  کے نیچے واقع ایک کمرہ عدالت  میں تعینات  جج  نے چند سال پہلے ایک جج نے  پراسرار طورپر اپنے گھر کے اندر خودکشی کرلی تھی اس کے علاوہ وہاں ایک مخصوص عدالت میں ججز ہمیشہ نفسیاتی ہوکر ہی نکلے تھے
میں اپنے کلایئنٹ کے ساتھ چورن پور کی  سیشن عدالت میں  داخل ہوا جو اسی آسیب زدہ بلڈنگ میں قائم تھیں  سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے تھوڑا سا خوف محسوس ہوا لیکن میں نے چند وظائف پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیئے جس کے بعد دل میں ذرا سا سکون محسوس ہوا اور میں نے اپنے آپ کو آسمانی اور زمینی بلییات سے  محفوظ محسو س کیا لیکن اس کے باوجود دل میں ایک نامعلوم نوعیت کا خوف محسوس ہوا جس کی وضاحت الفاظ میں نہیں کی جاسکتی
آسیب ذدہ بلڈنگ کی آسیب زدہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میری نظر سامنے لگے  کلوز سرکٹ کیمرے پر پڑی جو ہمیشہ کی طرح خراب تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس خراب کلوز سرکٹ کیمرے  سے  چند نامعلوم  آنکھیں گھورتی ہوئی محسوس ہورہی تھی وکلاء اور سائلین حسب معمول  عدالت میں پیش ہورہے تھے ایک طرف سیڑھیوں سے ملحق  ایک لفٹ زیر تعمیر تھی  جس  پر کافی عرصے سے کام رکا ہوا تھا اس حوالے سے بھی ایک پراسرار داستان مشہور تھی  اگرچہ میں نے ہمیشہ کی طرح وظائف پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیئے تھے  کام  کی زیادتی کی وجہ سے اور چند دیگر مصروفیات کی وجہ سے میں کیسز کی تیاری نہیں کرسکا تھا اور چند نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر دل  میں ایک عجیب سی اداسی تھی  اور کام کی زیادتی کی وجہ سے دل میں پریشانی سی تھی اس کے بعد آگے چل کر صرف چند منٹ کے بعد ہی چورن پور میں میرے ساتھ ایک ایسا عجیب  اور پراسرار واقعہ ہوا جو ہمیشہ کیلئے یادگار بن گیااور اس واقعہ نے زندگی میں ایک عجیب سی تبدیلی پیدا کی

No comments: