Powered By Blogger

Friday 5 December 2014

کرپشن کو کرپشن سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے ٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

افتخار چوہدری چلاگیا
اس نے چائے کی ایک پیالی میں  طوفان برپا کیا اور وہ طوفان چائے کی پیالی کے ساتھ ہی ختم ہوگیا
افتخار چوہدری عدلیہ کی عزت بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کی قسمت ہمیشہ سے اچھی ہے۔ وہ جب وکیل تھا تو اس وقت بھی وہ ایک قابل رشک زندگی گزارتا تھا۔ان کے ایک پرانے دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ ان کے ساتھ کوئٹہ سے سبی جانے کا اتفاق ہوا ۔ایک ہوٹل پر کھانے کیلئے رکے تو بلاتکلف ویٹر کو کہا کہ ہوٹل میں جتنی بھی ڈشیں پکی ہیں ایک ایک پلیٹ لے آؤ کھانا کھایا اور بھاری بل اداکیا راستے میں پوچھا کہ   ایسا کیوں کیا چوہدری نے جواب دیا کہ ہوٹل والے کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ایک وکیل اور عام آدمی کے کھانے میں کیا فرق ہوتا ہے افتخار چوہدری  نے وکالت بھی شان سے کی اور ججی بھی شان سے کی
وہ ہرلحاظ سے ایک قابل رشک وکیل تھا۔  لوگ اس کی وکالت کی آج بھی مثال دیتے ہیں وہ فرشتہ نہ تھا نہ  ہی اس نے کبھی دعوٰی کیا
اس کو چیف جسٹس بنانے سے پہلے جسٹس سعیدالزمان کی زندگی میں نو مارچ خاموشی سے آکر گزر بھی چکاتھا اور ہماری بار ایسوسی ایشنز  نے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا جب جسٹس سعیدالزمان کو عدلیہ سے بے دخل کیا گیا تو اس وقت بھی سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن موجود تھی اس وقت بھی پاکستان بارکونسل کا وجود ہواکرتا تھا وکلاء کی تمام تنظیمیں موجود تھیں  لاہور کی عدالتوں میں بھی وکیل پریکٹس کرتے تھے اور کراچی میں بھی وکالت ہوتی تھی اس وقت بھی  پاکستان کے ہر ضلعے میں منتخب بار ایسوسی ایشنز ہواکرتی تھیں  لیکن اس وقت مشرف نامی ڈکٹیٹر کے ہاتھ سے حلف لینا کوئی اخلاقی جرم نہ تھا شاید یہ سب تاریکی کے دور کی باتیں تھیں   شاید حبیب جالب اسی وجہ  کسی گزرے زمانے  میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں۔۔۔ ہمیں انصاف کیا دیں گے
پھر وقت نے کروٹ لی شاید اس آرمی چیف سے  اس کا اپنا ادارہ ہی بیزار ہوگیا تھا جو کسی طور وردی اتارنے پر تیار ہی نہیں ہورہا تھا  
پھر نو مارچ دوہزار سات آگیا وقت کروٹ لے چکا تھا افتخار چوہدری کے اچھے دن شروع ہوئے ایک "نامعلوم طاقت "اس کے ساتھ تھی  وہ طاقت اس قدر طاقتور تھی کہ ایک حاضر آرمی چیف اس کے سامنے "بے بسی" کی تصویر بن گیا اسی دوران  وکلاء سڑکوں پر تھے اسی دوران ایک  عام پولیس افسر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو  ڈرامائی  انداز میں بالوں سے پکڑ کر اس کا راستہ روک دیا اس واقعے  نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور وکلاء تحریک آگ کی طرح بھڑک اٹھی تحریک کا اصلی ہیرو وہی پولیس افسر تھا جس نے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑا تھا وہ آج بھی سیٹ پر موجود ہے
وہ پاکستان بار کونسل وہ صوبائی بار کونسلز پاکستان بھر کی ڈسٹرکٹ سطح کی بار ایسوسی ایشنز  جنہوں نے جسٹس سعیدالزمان کے معاملے میں چپ کا روزہ رکھ لیا تھا  یہ تمام لوگ کالے کوٹ پہن کر سڑکوں پر نکل آئے اسی دوران بے شمار لوگ نوازے گئے وہ آج بھی ہمارے ہیرو ہیں
آخر کار وکلاء کی قربانیاں اور نامعلوم طاقت کی غیبی مدد کے زریعے عدلیہ  بحال ہوئی کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ عدلیہ آزاد ہوئی ہے حالانکہ عدلیہ بحال ہوئی تھی
بہرحال جو بھی تھا افتخار چوہدری ایک طاقتور ترین چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر سامنے آئے ان کو بہت اچھا موقع ملا  جس سے چوہدری صاحب نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا
 اسی دوران چوہدری صاحب حکومت کے پیچھے ہی پڑگئے  بلکہ ہاتھ پاؤں دھو کر ہی پڑگئے  جبکہ دوسری طرف ماتحت عدلیہ کیلئے ایک جوڈیشل پالیسی متعارف کروادی اسی دوران مجھ سمیت پاکستان کے  ایک لاکھ وکلاء کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ عدلیہ واقعی آزاد ہوگئی ہے لیکن ایک طاقتور ہاتھ اس کے پیچھے ہمیشہ موجود رہا  چوہدری بھی یاروں کا یار تھا  اسی دوران وہ اپنے دوستوں کو نوازنے میں کامیاب رہا دوستی کا حق ادا کردیا۔ عوام کو کسی حد تک ریلیف ملا کافی معاملات میں حکومت پاکستان کا پیسہ واپس حکومتی خزانے میں آیا   اگرچہ اب تو چوہدری صاحب گھر جاچکے ہیں لیکن وکلاء اور پاکستانی عوام میں عدلیہ ایک امید کی کرن ضرور بن گئی ہے  ایک ماڈل پروجیکٹ کے طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک چیف جسٹس کتنا طاقتور ہوتا ہے  اور اس کا رول انتظامیہ کے احتساب کیلئے کتنا ضروری ہوتا ہے بطور چیف جسٹس چوہدری نے اپنا وہ کردار نبھایا جو ہم فلموں اور ڈراموں میں سوچ بھی نہیں سکتے وہ غریبوں کا مسیحا بن کر ابھرا غریب اس سے محبت کرتے تھے وہ غریب کی امید تھا لیکن لیکن اسی دوران وہ عدلیہ کو بطور ادارہ متحرک کرنے میں ناکام رہا اس کی جوڈیشل پالیسی بہترین ہونے کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوئی اس کے اپنے ہی ادارے میں کرپشن انتہائی تیزی سے پھیلی  عدلیہ کا اندرونی  احتساب کا عمل ختم ہوگیا   اس دوران ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ عدلیہ آزاد ہوگئی تو اس آزادی ڈرامے کے دوران وکلاء کے مفادات  بھی متاثر ہوئے  عدلیہ کو دیگ اکیلے ہضم کرنے کی گندی عادت ہوگئی
چیف صاحب نے  پاکستان کے تمام اداروں کا احتساب کیا سوائے عدلیہ کے اسی دوران پاکستانی میڈیا کی خصوصی توجہ عدلیہ کی جانب ہوگئی تو وکلاء گردی بھی سامنے آگئی   پھر پورے پاکستان نے دیکھا کہ لاہور میں وکلاء نے ایک سیشن جج کو رگڑا دیا اور بعد میں اس کی حمایت کرنے پر جسٹس شریف  کو بھی رگڑا دیا   اصل بات یہ تھی کہ جسٹس شریف پوری دیگ اکیلے کھانے کے موڈ میں تھا لیکن وکلاء نے اپنا حصہ چھین لیا وکلاء کہہ رہے تھے کہ یا تو کوئی بھی نہیں کھائے گا یا مل جل کر کھائیں گے جبکہ جسٹس شریف کا مؤقف یہ تھا کہ وہ ساری کی ساری دیگ اکیلے ہضم کرے گا خیر جب وکلاء نے یہ دیکھا کہ چوہدری اور اس کے چند وکیل دوست آزاد عدلیہ کی بریانی اکیلے اکیلے کھانے کے موڈ میں ہیں تو انہوں نے زبردستی اپنا حصہ وصول کیا پھر پورے پاکستان نے یہ دیکھا کہ چیف جسٹس بھی وکلاء گردی کے سامنے بے بس رہا اور وکلاء نے اپنا وہ والا حق زبردستی وصول کیا  جو عدلیہ اکیلے ہضم کرنا چاہتی تھی ہم اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ یا تو کوئی نہیں کھائے گا کرپشن اچھی چیز نہیں ہوتی  لیکن اگر کھائیں گے تو سب مل جل کر کھائیں گے کرپشن کو کرپشن سے  ہی ختم کیا جاسکتا ہے
ایک نوجوان وکیل کو میں اس غلط فہمی سے نکالنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آزاد عدلیہ  کچھ نہیں ہوتی یہ سب طاقت اور مفادات کی جنگ ہے  ایک مضبوط بار انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے    اگر بار مضبوط ہے تو یہ کالی شیروانی پہن کر گھومنے والے شاطر بھیڑیئے  اکیلے نہیں کھا سکیں گے اور نوجوان وکلاء کو یہ چاہیئے کہ ان کی شکل پر نہ جائیں یہ تو شکل مومناں اور کرتوت کافراں والی صورتحال ہے
آزاد عدلیہ چائے کی پیالی میں ایک طوفان  تھا جو چائے کی پیالی کے ساتھ ہی ختم ہوچکا ہے  افتخار چوہدری جاچکا ہے اب وہ واپس نہیں آئے گا مفادات کی اس جنگ میں اخلاقیات کوئی چیز نہیں ہوتی جو جتنا طاقتور ہوگا وہ  اتنا ہی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوگا اور طاقت استعمال کرنے کیلئے ہوتی ہے
عدلیہ کی موجودہ پالیسیاں مکمل طور پر وکلاء دشمن ہیں   لیکن وکلاء کو اپنا حصہ وصول کرنا ہے جوکہ ہمیشہ ہی وکلاء نے طاقت سے وصول کیا ہے عدلیہ کی ایمانداری صرف اور صرف ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں مفادات کی جنگ میں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی
تشدد تو بہت چھوٹی چیز ہے
یہ جو ہماری عدلیہ نے ایم آئی ٹی بنایا ہے اس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ ہرگز نہیں ہے یہ بیوقوف بنارہے ہیں  یہ صرف وکلاء  اور عوام کو ب سے بیوقوف بنارہے ہیں  چور ہمیشہ بزدل ہوتا ہے ان  چوروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھیں ہرروز یاد رکھیں کہ ہم اس قدر طاقتور ہیں کہ ہمارے صدر نے پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت  آرمی چیف کو سرعام للکار کر کہا تھا کہ  "ہمارا ہاتھ ہوگا اور تیرا گریبان ہوگا"
یاد رکھیں

ناتوانوں کے نوالوں پر جھپٹتے ہیں عقاب


Safi  Awan
03343093302


No comments: