Powered By Blogger

Saturday, 19 September 2015

سوڈے کی بوتل ٭٭٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

کراچی کے وکلاء کیلئے 2005 کا سال ایک یادگار سال تھا
کراچی میں آزمائیشی بنیاد پر آن لائن عدلیہ کا تجربہ کیا گیا تھا جو کہ نہایت ہی کامیاب رہا تھا۔کورٹ کیس کی ڈائری آن لائن  موجود ہوتی تھی جس کی وجہ سے کلائینٹ بیرون ملک بیٹھ کر خود بھی اپنے کیس کی اپ ڈیٹ حاصل کرلیا کرتے تھے
بار کے عہدیداران کا خصوصی ریلیف بند ہوگیا تھا چیمبر میں خاص وکلاء کو نہیں سنا جاتا تھا جس سے کراچی کے ایک عام وکیل کو بھی فائدہ پہنچا تھا
عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ای میل کی بنیاد  سیشن جج نے پر بیرون ملک بیٹھ کر  حبس بے جا کی درخواست پر رات کے دوبجے آرڈر جاری کیا اور مجسٹریٹ نے رات دوبجے تھانے پر چھاپہ مارکر مغوی کو بازیاب کیا اور ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج کی
کئی  بااثر ججز  جو کرپشن میں ملوث  تھے کے تبادلے سیشن جج کی درخواست پر ہوئے   اور ان کے خلاف کاروائی بھی ہوئی
کورٹ اسٹاف کے خلاف عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار کاروائی ہوئی کراچی بار کا ایک عام وکیل کرپشن سے پاک ایسی عدلیہ  ہی چاہتا ہے
بدقسمتی کہ پاکستان میں آن لائن عدلیہ کا ماسٹر مائینڈ  بھی تاریخ کے جبر سے محفوظ نہیں رہ سکا اور ایک متنازعہ عدالتی فیصلہ جس نے عدلیہ کی بطور ادارہ چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور وہ شخصیت بھی اس کی زد میں آئی
اس کے علاوہ بھی بہت سے قابل ترین لوگ عدالتی فیصلے کی زد میں آئے جن کا متبادل آج دن تک نہیں مل سکا
آج سے دس سال پہلے جب انٹرنیٹ کی سروس بہت ہی سست تھی اس وقت آن لائن عدلیہ ایک خواب تھی اور لوگ اس کو دیوانے کا خواب سمجھتے تھے  اور پھر یہ خواب سچ ہوا
بدقسمتی سے  ہم ایک ہجوم بن چکے ہیں جو جس طرف چاہے ہمیں ہانک دیتا ہے
جب دنیا بھر میں دیوانی کیسز میں تنازعات کے متبادل حل کی بات ہورہی ہے تربیت یافتہ ثالثوں کے زریعے عدالتوں میں آنے والے کیسز کو حل کرنے کی بات ہورہی ہے تو پھر یہ پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا
سندھ ہایئکورٹ کی یہ سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ تنازعات کے متبادل حل کیلئے عالمی بینک کی فنڈنگ کو  ریٹائرڈ ججز کی فلاح وبہبود کیلئے بنائی گئی ایک این جی او  پر خرچ کروایا گیا کے سی ڈی آر کو ریٹائرڈ ججز کی فلاح و بہود کا ادارہ بنا دیا گیا تھا  اور جب اس ادارے نے ثالثی کے عمل کو  کراچی بارایسوسی ایشن کو مکمل طور پر بائی پاس کرکے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو وکلاء نے پورے ادارے کو اٹھا کر ہی باہر روڈ پر پھینک دیا تھا لیکن اگر یہی کام بار کے مشورے سے کیا جاتا تو کیا کراچی بارایسوسی ایشن اس میں رکاوٹ ڈال دیتی؟  ہر گز نہیں  بلکہ کراچی بار ایسوسی ایشن  اور سندھ ہایئکورٹ مل کر تنازعات کے متباد ل حل کے طریقہ کار کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے
اگر ثالثی اور تناعات کے حل  کیلئے کی جانے والی کوششوں کو این جی او کی بجائے  سندھ ہایئکورٹ نے بحیثیت ادارہ لیا ہوتا تو آج پاکستانی عدلیہ کی تاریخ بدل چکی ہوتی  لیکن    سندھ ہایئکورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بھلائی کیلئے جو این جی او بنوائی تھی سارا فنڈ اس پر خرچ کیا گیا  اور پاکستان میں ثالثی   کو سائنٹفک بنیاد پر لانے کی کوشش ناکام رہی جس کی مکمل ذمہ دار سندھ ہایئکورٹ ہے
بدقسمتی سے پاکستان میں آن لائن عدلیہ کا ماسٹر مائینڈ پی سی او ججز کے کیس کی ذد میں آنے کی وجہ سے  کے سی ڈی آر  کو جوائن کرچکا تھا
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے متعدد بار ڈاکٹر ظفر شیروانی کو آن لائن عدلیہ اور عدالتی اصلاحات کے حوالے سے بلایا  اور  ان کی خدمات سے استفاذہ کیا ان کا آن لائن عدلیہ کا مقالہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود تھا جب  ان کو پی سی او کے تحت ہٹایا گیا اور آج بھی موجود ہے
پاکستان میں ہر سطح پر یہ تسلیم کیا گیا کہ  ڈاکٹر ظفر شیروانی کو ضا ئع کیا گیا  ان کی خدمات سے استفاذہ نہیں کیا گیا اسی دوران سندھ ہایئکورٹ نے ڈاکٹر ظفر شیروانی کی خدمات کو دوبارہ حاصل کیا  اگرچہ   ریٹائرڈ لوگوں کو واپس لانا مناسب نہیں ہوتا لیکن سندھ ہایئکورٹ  کا یہ ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ   پی سی او   ججز فیصلے کے بعد ہر فورم پر یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ  ڈاکٹر ظفر شیروانی  کے ساتھ زیادتی  ہوئی تھی بہت سے لوگ  اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ ان کی خدمات کو حاصل کیا جائے ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب سندھ ہایئکورٹ  کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی خدمات میں مصروف عمل تھے کہ  ایک وکیل اور مجسٹریٹ کے درمیان تنازعہ ہوا جس پر  صرف وکیل کے خلاف کاروائی کے طریقہ کار پر  وکلاء اور ہایئکورٹ میں اختلاف پیدا ہوا کیونکہ جس طریقے سے کاروائی ہوئی  وکلاء کا صرف اس طریقہ کار پر اختلاف تھا  ۔ لیکن اسی دوران جب اختلاف بڑھے تو اچانک ہی سابق رجسٹرار کو ہٹا کر ڈاکٹر ظفر شیروانی کو رجسٹرار بنادیا گیا
اسی دوران کسی نے سوڈے کی بوتل  کا ڈھکن   کھول  کر میں نمک ڈال دیا  جس  سےسوڈے کی بوتل میں بہت زیادہ ابال پیدا ہوا لیکن دودن کے بعد سب کے تعزیئے   جل  کر ہمیشہ  کیلئے ٹھنڈے پڑگئے
پاکستان میں بہت زیادہ عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے آن لائن عدلیہ بہت سے مسائل کا حل ہے
میں پرامید ہوں کہ پاکستان میں آن لائن عدلیہ کے زریعے  بہت سے وکلاء جو اپنے کلائینٹس کے کیسز صحیح طریقے سے نہیں چلاتے ان کے خلاف کاروائی کرنا آسان ہوگا
میں ایک چھوٹا سا المیہ بیان کردوں
ہمارا ادارہ بہت سے کیسز میں وکلاء کی خدمات بطور پینل ایڈوکیٹ   حاصل کرتا ہے  بدقسمتی سے کئی بار ہم مکمل فیس اداکردیتے ہیں لیکن وکلاء کیس نہیں چلاتے  گزشتہ دنوں ہم نے ایک انتہائی اہم کیس میں ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں  اور اس کو مکمل فیس ایڈوانس ادا کردی   جو اس نے طلب  کی   وکیل صاحب نے  بتایا کہ  سندھ ہایئکورٹ میں پٹیشن داخل ہوچکی ہے میں  نے کہا پٹیشن کا نمبر کیا ہے تو اس نے کہا دودن کے بعد ملے گا پھر پتہ چلا کہ کوئی آبجیکشن آگیا ہے  خیر پھر وہ دودن پورے ایک مہینے کے بعد آیا کافی دن کے بعد وکیل صاحب نے پٹیشن کا نمبر دیا میں نے آن لائن چیک کیا تو   بطور وکیل کسی اور کا نام آرہا تھا  میں نے حسن ظن  سے کام لیا کہ شاید کسی ایسوسی ایٹ  کا نام ہوگا خیر  وکیل صاحب نے کہا کہ یہ کیس فلاں تاریخ کو لگا ہے میں نے آن لائن چیک کیا تو نہیں لگا ہوا تھا  اسی دوران وہ  پٹیشن 9 ستمبر کو  آفتاب  احمد گورڑ کی کورٹ میں لگی ہوئی تھی میں نے وکیل صاحب کو شام کو بتایا کہ صبح سیریل نمبر ایک پر پٹیشن لگی ہے آپ پیش ہوجانا  وکیل صاحب نے کہا کہ بے فکر ہوجاؤ میں آجاؤنگا لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی تھی  کہ  وکیل نہیں آئے گا اس لیئے میرے ایسوسی ایٹ  نے خود صبح سویرے پہنچ کر  پٹیشنر کو پیش کیا    بریف ہولڈ کروایا پتہ یہ چلا کہ وکیل صاحب نے صرف پٹیشن پر نوٹس  کا آرڈر کروایا اور پھر  سروس ہی نہیں کروائی  اسی دوران وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ میں  ہایئکورٹ  آرہا ہوں پھر وکیل نے کال وصول کرنا ہی بند کردی اور آج تک وصول نہیں کی    اور ہمیں  بار میں دیکھ کر راستہ  ہی بدل لیتا ہے مزید ظلم یہ کہ وکالت نامہ ہی جعلی تھا وکیل نے  چالاکی سے اپنا وکالت نامہ ہی کورٹ میں پیش نہیں کیا لیکن بہرحال کسی وکیل کا یہ ایک انفرادی فعل ہے اکثریت ایسی نہیں
جب ہم کورٹ میں وکالت نامہ پیش کرتے ہیں تو آج دن تک صرف ذاتی اعتبار اور ہمارے کالے کوٹ کے احترام کی وجہ سے  کسی جج  نے مجھ سے میرا نام کبھی نہیں پوچھا کیونکہ جج کو یقین ہوتا ہے کہ یہ وکیل صاحب جو وکالت نامہ پیش کررہا ہے یہ اسی کا ہی ہوگا لیکن  ایک دیہاڑی دار کو یہ کس نے حق دیا کہ  وہ اس یقین کا خون کرے اور چند ہزار کیلئے  جعلی وکالت نامہ پیش کرے اور جب کوئی موقع آتا ہے تو سوڈے کی بوتل میں کوئی نمک ڈال دیتا ہے اور پھر ہم لوگ ہجوم کی طرح اپنے وکیل بھائی کے پیچھے چل پڑتے ہیں  
اگر سندھ ہایئکورٹ آن لائن نہ ہوتی تو مجھے یہ کیسے پتہ چلتا کہ میرا کیس کورٹ میں داخل نہیں ہوا وکیل صاحب مجھے جعلی تاریخیں دیتے رہتے اور  آخر میں ایک جعلی حکم نامہ ہاتھ میں پکڑا دیتے
لیکن اس واقعہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ اب ہم  نے پینل ایڈوکیٹ تحلیل کرکے وکلاء کی خدمات مستقل  بنیاد پر حاصل کی ہیں
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اگر میرا وکیل بھائی میرے ساتھ ایسا کرسکتا ہے تو وہ کسی عام آدمی کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوگا
ان وجوہات کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آن لائن عدلیہ کرپشن کے سارے راستے بند کررہی ہے   بہت سے راستے بند ہوبھی چکے ہیں  نادرا ویریفیکیشن سینٹر کی وجہ سے مزید بہتری آئی ہے اب قبر کا مردہ قبر سے نکل کر کورٹ میں کیس داخل نہیں کرسکتا نادرا ویریفیکیشن سینٹر نے کراچی سٹی کورٹ سے یہ اہم سہولت ختم کردی ہے ۔ ابھی بہت سی سہولیات مزید ختم ہونا باقی ہیں جس کے بعد امید کرتے ہیں کہ وکالت کا پیشہ ابھر کر اور نکھر کر سامنے آئے گا دیہاڑی دار گیٹ مافیا کے خاتمے کا وقت قریب آرہا ہے

ڈاکٹر ظفر شیروانی ایک حقیقت کے طور پر سامنے آچکے ہیں ۔ اور دوسال تک ان کو ہلا جلا کوئی نہیں سکتا   میں امید رکھتا ہوں کہ آن لائن  ہایئکورٹ کے بعد  آن لائن ڈسٹرکٹ کورٹس کا خواب جلد پورا ہوگا
سندھ ہایئکورٹ کو بھی چاہیئے کہ بار کے ساتھ مشاورت کا عمل مکمل کرے    بار کے ساتھ رویہ  میں تبدیلی  کی ضرورت  ہے ہم مفتوح نہیں ہیں وکیل کو پولیس اور رینجرز کے زریعے کچل ڈالنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا
  بار ایسوسی ایشن کی قیادت نوجوان وکلاء کو منتقل ہورہی ہے   نوجوان  وکلاء عدالتی اصلاحات  کے عمل میں رکاوٹ  نہیں  لیکن  بار کے نوجوان  منتخب  عہدیداران  کو بوڑھی  قیادت  پر  بالکل بھی بھروسہ  نہیں کرنا چاہیئے  کیونکہ سیاست  کے سینے میں دل  اور آنکھ میں حیا نہیں  ہوتی  ایک عام وکیل دیہاڑی دار مافیا کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ دیہاڑی دار شعبہ وکالت کیلئے ناسور کا درجہ رکھتے ہیں
 کراچی کی عدالتوں میں جو کیسز زیرسماعت ہیں  ان میں سے نوے فیصد کیسز ایسے ہیں جو بے جان اور بے بنیاد  ہیں   اگر اچھا تربیت یافتہ جج ہو تو صرف ایک جھٹکے میں اپنی عدالت سے کیسز کا صفایا کرسکتا ہے اسی طرح اکثر کیس ایسے ہیں جو زیادہ سے زیادہ تین تاریخوں پر ختم ہوجائیں   نااہل عدلیہ بھی ایک مسئلہ ہے بلکہ نااہل عدلیہ دیہاڑی دار مافیا سے زیادہ خطرناک ہے اکثر ججز کو ابھی تک آرڈر تک لکھنا نہیں آتے  اور بنیادی قوانین سے آگاہ نہیں
لیکن یہ تربیت یافتہ ججز کہاں سے آئیں گے اس کا جواب خود سندھ ہایئکورٹ کے پاس بھی نہیں  سندھ ہایئکورٹ کا صرف یہ مؤقف درست نہیں کہ صرف  وکلاء نااہل ہیں اصل بات یہ کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے
نااہل ججز اور مس کنڈکٹ کرنے والے وکلاء کے خلاف بلا تفریق  کاروائی ہونی چاہیئے
چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ صاحب بڑے احترام سے یہ عرض ہے کہ   یہ افواہیں گرم ہیں کہ  عدالتی اوقات کے بعد جسٹس صاحبان کے چیمبر میں کیسز چلتے ہیں  اس کا واحد علاج ہے کہ جسٹس صاحبان کے چیمبر میں میٹنگ کیلئے  فالتو کرسی موجود ہی نہ ہو کیونکہ اگر کوئی زبردستی کا مہمان آبھی جائے بیٹھنے کیلئے کرسی  نہ ہونے کی وجہ سے شرمندہ ہوکر دوبارہ نہ آئے گا اسی طرح ہر سطح پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ جج  بار کے عہدیداران  سمیت اپنے مہمان سے عدالت کے کمیٹی روم میں ملاقات کرے گا اور میٹنگ  کے مقاصد  اور منٹس سرکاری ریکارڈ میں رکھے جائیں گے  بطور ایک پریکٹسنگ وکیل کے میں اچھی طرح جانتا ہو ں کہ چیمبر میں  ججز کے مہمان کیوں آتے ہیں  اور چیمبر میٹنگ کا نتیجہ ہمیشہ برا  اور کرپشن  کی صورت  میں ہی نکلتا ہے
سندھ ہایئکورٹ  کے قابل  احترام  چیف  جسٹس کو چاہیئے کہ جسٹس صاحبان کو پابند کریں کہ  عدالتی اوقات کار کے بعد کسی کو بھی چیمبر میں آنے کی اجازت نہ دی جائے اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہے جب اوپر سے معاملہ ٹھیک ہوگا تو کسی مجسٹریٹ کی کیا ہمت کہ اپنے مہمان چیمبر میں بٹھائے لیکن مشہور یہ ہے کہ جو معاملات  جسٹس صاحبان  کے چیمبرز میں ڈیل ہوتے ہیں وہ کروڑوں نہیں اربوں روپے کے معاملات ہیں  تو کیا اتنی ہمت کسی میں ہے کہ اربوں کھربوں روپے کی ڈیل کرنے والے مافیا سے ٹکر لے سکے اسی طرح  کراچی بار ایسوسی ایشن کی نوجوان قیادت کو چاہیئے کہ سندھ ہایئکورٹ پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ    ہایئکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس سمیت ہر سطح سے  چیمبر پریکٹس کے خاتمے کیلئے  پریشر ڈالیں  اگر کراچی بار کسی ایسے ایشو پر آواز اٹھائے گی جس کا تعلق کرپشن کے خاتمے سے ہوگا تو  اس کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا
دعا گو ہیں کہ سندھ ہایئکورٹ  آن لائن عدلیہ کیلئے جو اقدامات کررہی ہے وہ جلد پورے ہوجائیں گے اس سے گھٹیا قسم کی کرپشن کا  خاتمہ ہوگا
ڈاکٹر ظفر شیروانی صاحب اللہ تعالٰی نے آپ کو ایک موقع دیا ہے  آن لائن  عدلیہ کے حوالے سےآپ اپنا نامکمل کام مکمل کریں  اس وقت  حالات  بھی سازگار ہیں اور  دوسال کے بعد  کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہہ دیں  کیوں کہ اگر دوسال بعد بھی آپ  اپنا متبادل  تیار نہیں کرپاتے تو یہ عمل بھی آپ کی نااہلی میں شمار ہوگا  اور کوئی بھی شخص حرف آخر نہیں ہوتا
اپنے ادارے سے عزت اور وقار کے ساتھ رخصت ہوجانا سب سے بڑی کامیابی ہوتا ہے

سندھ ہایئکورٹ کو چاہیئے کہ ایسا کوئی قدم نہ  اٹھائے جس سے کسی کو سوڈے کی بوتل میں نمک ڈالنے کا موقع ملے جبکہ بار کو بھی چاہیئے کہ سوڈے کی بوتل پر ٹائٹ والا ڈھکن لگا کر لاک میں بند کرکے رکھے تاکہ کسی کو ڈھکن کھول کر سوڈے کی بوتل میں نمک ڈال کر  بلاوجہ کی سیاست کا موقع  نہ ملے 

No comments: