Powered By Blogger

Wednesday 23 September 2015

کیا عروج کیا زوال ٭٭٭ تحریر صفی الدین اعوان

کیا عروج کیا زوال
ہمارے علاقے کے مقامی  گورنمنٹ اسکول میں بیالوجی کا ٹیچر نہیں تھا  چند معزز شہری ضلع کونسل کے ممبر کے پاس گئے اور  اس کے سامنے مطالبہ رکھا کہ  اسکول میں بائیولوجی کے ٹیچر کی سیٹ منظور کروائی جائے  معزز ممبر نے بات تحمل سے سنی اور نہایت سنجیدگی سے کہا کہ یہ  "بائیولوجی " کیا چیز ہوتی ہے پہلے تو مجھے یہ سمجھاؤ  اس کے بعد بات ہوگی  کافی سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا آخر اس نے زچ ہوکر کہا کہ اتنے معززین آئے ہیں تو  یہ  " بائیولوجی "کوئی کام ہی  کی چیز ہوگی معزز ممبر شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید  سڑک  کی کسی نئی  قسم کو بیالوجی کہتے ہیں یا یہ کوئی کنواں یا ٹیوب ویل شکل کی کوئی  چیز ہوگی یا واٹر سپلائی  کی کوئی نئی قسم ہوگی  خیر جس دن ضلع کونسل کا اجلاس تھا معززین  نے ممبر صاحب کو بائیولوجی  بائیولوجی ،بائیولوجی  کا خوب رٹے  لگوا کر ضلع  کونسل  کے دروازے تک لیکر آئے یا اجلاس شروع ہوا تو ہمارے ممبر نے  سب سے پہلے کھڑے ہوکر یہ  رٹا ہوا مطالبہ کیا کہ  میرے گاؤں کے اسکول کیلئے بایئولوجی کے ٹیچر کی سیٹ منظور کی جائے چیئرمین نے منظوری دے دی اسی دوران ہماری ایک حریف یونین کونسل کا ممبر بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ جو چیز ملک صاحب کیلئے منظور کی ہے وہ میرے گاؤں کیلئے بھی منظور کی جائے  خیر چیئرمین نے دوسرے گاؤں کیلئے بھی منظوری دی  چائے کہ وقفے میں ضلع کونسل کے معزز ممبران آپس میں ڈسکس کرتے رہے کہ  یہ بائیولوجی کس بلا کانام ہے  اور بایئولوجی کی سیٹ پر خوب مزاق ہوا اس طرح  بایئولوجی کے ٹیچر کا مسئلہ حل ہوا
جب ہم جوڈیشل ریفارم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے  جو شخص  کم ازکم کروڑ روپیہ خرچ کرکے صدر یا جنرل سیکریٹری کی سیٹ  پر منتخب ہوتا ہے وہ اتنا بے وقوف ہرگز نہیں ہوتا کہ   عدالتی اصلاحات  کے چکر میں  پڑ کر اپنا قیمتی ٹائم ضائع کرے کیونکہ منتخب لوگوں کو عدالتی اصلاحات کے عمل کیلئے آمادہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ   ضلع کونسل  کے کسی  ان پڑھ معزز ممبر کو  یہ سمجھانا کہ بیالوجی کیا چیز ہوتی ہے وہ کیوں  نہ کوئی بڑا کام پکڑ کر الیکشن پر کیا گیا خرچہ برابر کرے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بار کے  بعض ممبران کی  عدلیہ  کے سامنےچلتی بھی ہے اور ہر  منتخب ممبر کی بھی نہیں چلتی صرف پرانے کھگے  اور پرانے کھپڑ ہی اس دہی میں سے مکھن نکال سکتے ہیں نوجوان نسل تو جج کے ساتھ سیلفی بنوا کر ہی خوش ہوجاتی ہے  
چند سال قبل ایک ذاتی قسم کا مسئلہ تھا  اور تھا بھی معمولی نوعیت کا  لیکن  چند  کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سارا کئیرئیر داؤ پر لگ جاتا ہے ۔بدقسمتی سے جج کو قانون کے علاوہ بہت کچھ آتا تھا بلکہ سب کچھ ہی آتا تھا بڑے قانون جھاڑے  بڑی ریسرچ زیر زبر کی  اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات پیش کیئے  لیکن صاٖ ف محسوس ہوتا تھا کہ جب کوئی قانون کا نقطہ بیان کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جج صاحب کو زبردستی بیالوجی کا لیکچر دیا جارہا ہے یا اس کو نیوٹن کے چھلے  اردو میں سمجھانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے بہت  کوشش کی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات
آخرکار  بار کا ایک دوست ملا اس سے پوچھا کہ یار کیا کروں نہ نگلا جارہا ہے نہ اگلا  میرا دوست بھی تھا تو منتخب نمائیندہ لیکن تھا پرانا  کھگا 
دوست نے جج کا نام پوچھا مجھے ساتھ لیا بے تکلفی سے ساب کے چیمبر میں چلے گئے ساب نے سوڈا واٹر پلایا فائل منگوائی تھوڑی دیر بات چیت کی  اور  چند منٹ  میں کافی عرصے سے لٹکا ہوا  میرا مسئلہ حل کیا ۔ مسئلہ تو حل ہوا لیکن اس کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ لائیبریری میں موجود کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ صرف  ایک بوجھ ہی ہیں ساب اس بات پر  بار کے عہدیدار سے نراض شراض بھی ہوئے کہ خود آنے کی کیا ضرورت تھی فون کردیا ہوتا
بار کی  بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ سب سے اہم ترین ذمہ داری  عدالتی اصلاحات بھی ہے  عدالتی اصلاحات کا عمل  واش روم کا نل اور بیسن کی ٹونٹی ٹھیک کروانے سے زیادہ اہم ترین ہے
یہ بات مانتے ہیں کہ  پارکنگ کا مسئلہ حل ہوا۔ یہ نہایت ہی  اہم مسئلہ تھا۔   نیا رنگ وروغن کیا گیا   نئے فرنیچر کا انتظام کیا گیا ۔ پاکستان کی جدید ترین لایئبریریوں میں  سے ایک لایئبریری  کی بنیاد رکھی گئی۔  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وکالت کمزور ہوئی ہے   اخلاقیات  بہت پیچھے چلی گئی وقت کے ساتھ عدالتی اصلاحات کا عمل نہیں ہوا  اور اگر ہوا بھی تو بار کا  اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بار کیلئے تو بیالوجی اور عدالتی اصلاحات میں کوئی فرق نہیں ہے
میرے ایک دوست بار کے اہم عہدے سے فارغ ہوئے تو   ایک ماہ بعد میری ایک تفصیلی ملاقات ہوئی  انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ سال بھر وکلاء گروپس اور وکلاء کے آپس میں کیا انفرادی  مسائل تھے اور ان کے کلایئنٹس کی کیا شکایات تھیں   مجھے افسوس ہوا کہ وہ تمام شکایات انتہائی  گھٹیا نوعیت  کی تھیں جن کو حل بھی کرنا ضروری ہوتا تھا

لیکن میرا یہ مشاہدہ ہے  بار اس قسم کے کاموں سے  ہی بہت خوش ہوتی ہے میرے سامنے چند سال قبل ایک سرکش  سول جج کا تبادلہ  چند منٹ کے نوٹس پر ہوا اسی طرح ایک سرکش سیشن جج کا ٹرانسفر کروانے کے بعد اس کو حیدرآباد پہنچا کر دم لیا اس قسم کے کام ہوں تو عہدیدار کافی خوش رہتے ہیں
بار کا پورے ملک میں ایک سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ بار کی وجہ سے کم ازکم ڈسٹرکٹ کورٹس میں عدلیہ برابری کی بنیاد پر بات تو کرتی ہے  جہاں بار کمزور ہے وہاں ایک مجسٹریٹ بھی   خودساختہ دانشور بنا دکھائی دیتا ہے اور وکیل کو  ذرا بھی اہمیت نہیں دیتا   یہ بار ہی ہے جس کی وجہ سے عدلیہ برابری کی بنیاد پر بات چیت پر مجبور ہوتی ہے  اور ایک عام وکیل  بھی  جج  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے جن عدالتوں میں بار نہیں پھر وہاں آپ ججز کا رویہ بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں
لیکن   ان تمام باتوں کے باوجود  آج وقت بدل چکا ہے۔ بینچ نے تیکنکی بنیاد پر بار کی نسبت اپنی طاقت کو بہت زیادہ مستحکم کیا ہے۔ بینچ نے عدالتی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا ہے جبکہ کروڑ روپے لگاکر منتخب ہونے والے امیدوار ہرصورت میں منافع کے ساتھ رقم کی واپسی چاہتے ہیں  ان کی عدالتی  اصلاحات نامی مذاق  سے کوئی لین دین ہی نہیں
چند سال پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہایئکورٹس  کی   جانب سے عالمی بینک اور ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے  عدالتی اصلاحات کے حوالے سے فوکس گروپ ڈسکشن اور مختلف سیمینار ہوئے تھے اسی دوران ہی عدلیہ کی جانب سے منصوبہ بندی کا عمل جاری رہا ۔  ہماری عدلیہ بحیثیت ادارہ آج سے دس سال پہلے اگلے بیس سال کی پلاننگ کر چکی تھی یہی وجہ ہے کہ آج بحیثیت ادارہ عدالتی اصلاحات کاکام تیزی سے جاری ہے اور  اس پلاننگ میں بار کاکردار مائینس کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ  موجودہ صورتحال میں بات اگر عدالتی اصلاحات کی ہے تو  اس حوالے سے بحیثیت ادارہ بار کی پلاننگ کیا ہے ۔ بار کے پاس ایک بھی ڈھنگ کی رپورٹ نہیں  جس کی بنیاد پر وہ عدالتی اصلاحات کی بات کرسکیں
بار کے پاس عدالتی اصلاحات کا سرے سے کوئی پروگرام ہے نہیں  ہے اور نہ ہی کوئی مؤثر قسم کا ایسا کوئی پروگرام موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ اعلٰی عدلیہ سے بات کرسکیں کہ وکلاء کا یہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہے جس کے زریعے وکلاء ان مطالبات پر عمل درآمد چاہتے ہیں  
 ہماری قیادت کا  ایک ہی چارٹر آف ڈیمانڈ ہے کہ سیشن جج میرا یار ہونا چاہیئے جس کے زریعے ہم قتل کے کسی مقدمے میں بھاری فیس لیکر اس  ملزم کی ضمانت  کرواسکیں  اگر سیشن جج یار  ہے تو سارا عدالتی عمل درست اگر سیشن جج یار نہیں ہے تو سارا عدالتی عمل مشکوک ہے
ہماری ساری عدالتی اصلاحات اس بات  کے اردگرد گھومتی ہیں کہ کم ازکم سیشن جج  اپنا یار ہو اور دیدہ ور ہو
حالیہ دنوں  میں بہت تیزی سے بار کو زوال ہوا بار کی طاقت کمزور ہوئی ہے ۔ بار آج تک ایسا کوئی میکنزم نہیں بنا سکی جس کے تحت اگر کسی جج کے خلاف کوئی شکایت کسی وکیل کو ہو تو اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے اس کا طریقہ کیا ہونا چاہیئے جج کی شکایت کے حوالے سے ایم آئی ٹی کو کس طرح  اپنے ساتھ شامل کرنا ہے  مقامی سطح پر جب معاملہ حل کیا جاتا ہے تو اس سے مزید کرپشن پھیلتی ہے  ۔ کیونکہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایم آئی ٹی کو شامل کیئے بغیر  وکیل اور جج یا کسی کلائینٹ کے معاملے کو حل کیا جائے جس سے مزید معاملہ خراب ہوتا ہے
بار کو چاہیئے کہ ایم آئی ٹی کے ساتھ مل کر ان مسائل کو سائینٹیفک  بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرے اور ایم آئی ٹی  کو بھی پابند کیا جائے کہ کسی شکایت کی صورت میں وہ اپنے یخ بستہ کمروں سے نکل کر ڈسٹرکٹ کورٹس میں پہنچ کر  اگر جج کے خلاف جائز شکایت ہوتو بار کے ساتھ مل کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے ہایئکورٹ اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائے کہ  بار تنازعات کو  ڈائریکٹ حل کرنے کی بجائے ایم آئی ٹی کے ساتھ مل کر حل کرے اگر وکیل کا قصور ثابت ہو تو معاملہ سندھ بار کو بھیجا جائے اور جج کی غلطی ہوتو ایم آئی ٹی کے پاس شکایت بھیج دی جائے دونوں صورتوں میں قصور وار پارٹی کے خلاف ہرصورت میں ایکشن کو یقینی  بنایا جائے
لیکن ہوکیا رہا ہے جج اور وکیل کے درمیان تنازع کے حل کا طریقہ کار ہی غلط ہے  دیسی  طریقہ کار یہ ہے کہ  میرا کوئی  مسئلہ ہوگا کوئی تنازع ہوگا  تو میں بار کے آفس آؤں گا وہاں  بار کا کوئی  کوئی عہدیدار موجود ہوگا  اس کو میں جذباتی انداز میں کہوں گا کہ فلانے جج نے یہ کام کیا ہے کیا تم لوگوں کو ووٹ اسی دن کیلئے دیئے تھے کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو یہ سن کر بار کا عہدیداراٹھ کر  کھڑا ہوگا  اور کورٹ کی طرف اپنے مریدوں سمیت روانہ ہوجائے گا  وہاں جج صاحب سے ہلکی پھلکی بات چیت ہوگی  اور مسئلہ حل  وکیل  کو دم دلاسہ دے کر فارغ کردیا جائے گا کہ آپ کا مسئلہ  حل ہوگیا لیکن پھر شام کو جج کے ساتھ اسی بار کے عہدیدار کی ایک الگ سے میٹنگ بھی ہوتی ہے جس میں اس کو یقین دلایا جاتا ہے کہ معاملہ اوپر نہیں جائے گا اور چراندی وکیلوں  سے محتاط رہا کر
لیکن کیا یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ بار ایک طریقہ کار تشکیل دے  جس کے تحت کسی بھی مسئلے کو ایک خاص طریقہ کار کے تحت حل کیا جائے  ایک طریقہ کار مقرر کیا جائے  جس میں سیشن جج  اور ایم آئی ٹی بھی اہم  فریق ہو ں
لیکن پھر وہی بات کہ کیا ہم کوئی ادارہ ہیں  اداروں کے پاس تو بیس سال کی پلاننگ ہوتی ہے ہمارے پاس تو ایک دن کی پلاننگ نہیں ہے  ہمارے پاس تو کوئی ایسا چارٹر آف ڈیمانڈ ہی نہیں ہے
کیا بار کے عہدیداران کو یاد ہے کہ   عدالتوں سے این جی اوز کے خاتمے کے وقت بینچ کو تحریری طور پر کیا یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں اور کیا ان پر عمل درآمد ہوا؟  کیا بار نے  اپنا قانونی امداد کا  پروگرام شروع کرنے کا وعدہ پورا کیا ؟

بار کی طاقت تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہے۔ ہڑتالوں کی سیاست نے وکالت کے پیشے اور بار کی طاقت کے زوال میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آہستہ آہستہ وکیل کا کردار عدالتوں سے ختم کرنے کی کوششیں   کامیابی سے کی جارہی ہیں ۔  اعلٰی   عدالتوں  کے بار کے  منتخب عہدیداران کو کروڑوں اور اربوں روپے کے  مفادات کے شکنجے میں پھنسا کر بے بس کیا جاچکا ہے ۔ ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران تو کسی گنتی میں ہی شامل نہیں ہیں
نو مارچ 2007  کو وکلاء اسقدر طاقت میں تھے کہ  ملک کا چیف آف آرمی اسٹاف ان کے سامنے بے بس تھا نومارچ 2007 کو شروع ہونے والی احتجاج کی سیاست  بعد ازاں ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی۔ چند سال پہلے ہی کی تو بات ہے کہ  این جی اوز کے خلاف تحریک کے دوران  سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس جناب مشیر عالم صاحب بار کے دورے پر آنا چاہتے تھے اور بار کی قیادت  نے جواب دیا تھا کہ ہمارے لیئے آپ کو ویلکم کرنا ممکن نہیں ہے  یہ اس وقت کا عروج تھا ہایئکورٹ کے چیف جسٹس کو ایسی بات کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے  اور آج کا چیف جسٹس لفٹ ہی نہیں کراتا
آج ہم کہاں کھڑے ہیں   آج ہمیں ویلکم کرنے کیلئے پولیس کی نفری منگوا کر  ہمارا استقبال کیا گیا جس کی ذمہ دار ہم خود ہیں  
اگر بار کمزور ہوئی تو  یہ بہت بڑا المیہ ہوگا
اگر بار بینچ کی طاقت کو چیلنج کرنا چاہتی ہے تو نوجوان عہدیداران بوڑھی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے پورے پاکستان میں   جج کی چیمبر میٹنگ پر پابندی کا مطالبہ کریں   کہتے ہیں کہ بھینس کو تکلیف دینی ہوتو اس کے کٹے کو تکلیف دینا ضروری ہوتا ہے
بینچ کی اصل طاقت چیمبر پریکٹس میں پوشیدہ ہے  ترقی یافتہ دنیا میں ایسا کوئی تصور نہیں کہ وکیل  جج کے ساتھ مل کر چیمبر میں بیٹھتے ہوں کھانا کھاتے ہوں گپ شپ کرتے ہوں کیس چلاتے ہوں   نوجوان  عہدیداران ہر سطح پر اکثریت میں ہیں اگر بینچ کو ہرروز یاددہانی کروائی جائے کہ چیمبر میں کیس چلانا اور  دوستوں کو بٹھاکر  ڈیل والے کیس چلانا مناسب نہیں  
 ڈسٹرکٹ بار کی جانب سے ہایئکورٹ کی سطح پر چیمبر پریکٹس کے خاتمے کا مطالبہ کرنا نہایت ضروری ہوچکا ہے اور یہی وہ مطالبہ ہے جس سے اوپر کی سطح پر کرپشن کم ہوگی  جب کہ بار کو ادارے میں بدلنے کا وقت آچکا ہے

No comments: