Powered By Blogger

Tuesday 12 January 2016

٭٭٭٭نائی ، زمین دار اور گورنر کا بیٹا ٭٭ تحریر ٭٭٭٭ صفی ادین اعوان ٭٭٭٭

 کا بیٹا     نائی ، زمین  دار  اور گورنر
ایک  دفعہ  کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ سلامت  کے سامنے  چوری کے تین  ملزمان  پیش کیئے گئے

بادشاہ نےچوری کے تینوں ملزمان سےپوچھاکہ کہ  تم  تینوں کے والدین   کیارتے ہیں

پہلے چورنےکہاکہ میرا باپ نائی ہے   اورمیں خودبھی نائی ہوں
دوسرے نے کہاکہ میں فلاں زمیندار کا بیٹا ہوں  اورفارغ ہوں کوئی کام  نہیں  کرتا ہوں
تیسرے نے  خاموشی اختیارکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نےکہاکہ جواب دووالدکیاکام  کرتے ہیں
تیسرے  چورنےکہاکہ  میرے والدصاحب صوبے کے گورنر تھے  یہ کہہ کر چور نے خاموشی اختیار کی

بادشاہ  نےحکم  دیا کہ  نائی  کا ناک کاٹ دو
زمیندارکے بیٹے کو دوکوڑے مارو
اورگورنر کے بیٹے کو انتہائی غضب ناک نظروں سے دیکھادومنٹ کے بعدانتہائی غصے سےکہاکہ شرم نہیں آتی بے شرم گورنرکے بیٹے ہوکر چوری چکاری کرتے ہو   دفع ہوجاؤ  میری نظروں کے سامنے سے باپ کی بھی عزت کا خیال نہیں

حکمکی تعمیل ہوئی
درباریوں نے بادشاہ سےکہاکہ  ایک ہی جرم کی تین الگ الگ سزابادشاہ نے کہاکہ  اس کا نتیجہ کل سامنے آجائے گا

دوسرے دن نائی کا بیٹا جس کی ناک کاٹ دی گئی تھی چوک پر  کھڑا ناچ  رہا تھا
زمیندار کا بیٹا   شہر چھوڑ کرچلا گیا تھا  اورگورنر کے بیٹے سے  بے عزتی برداشت  نہ ہوسکی  اس نے  خودکشی کرلی
بہت سےدوستوں کادرست شکوہ ہے کہ عدلیہ  کیلئے  ہمارے بلاگ میں جو زبان استعما ل کی جاتی ہے وہ  اکثر مناسب نہیں ہوتی   الفاظ کاچناؤغلط ہوتا ہے بعض اوقات معاملہ توہین عدالت کی طرف چلاجاتا ہے   دوستو یہ تمام باتیں درست ہیں  عدلیہ کااحترام ہم سب پر واجب ہے یہاں تک کہ صدر اوروزیراعظم  پاکستان بھی عدالتی فیصلوں  پر تنقید  کی اجازت نہیں   ہم سے زیادہ  یہ بات کون جانتا ہے کہ جس معاشرے میں عدلیہ کاوقار ختم ہوجائے وہ معاشرہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے
لیکن
عدالتی معاملات میں تیزی سے بگاڑ پیدا ہورہا  ہے  اقرباء پروری عروج پر ہے ۔   اوراقرباء پروری کے زریعے  نااہلوں کی پوری فوج عدلیہ میں جمع کرلی گئی ہے  اس  بات پر بھی خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن  نااہلوں کی وجہ سے ایک عام شہری متاثر ہورہا ہے ۔ ایک عام شہری  کے حقوق متاثر ہورہے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ وکیل بھی نالائق ہونگے لیکن وہ لوگ حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں  وہ اگر نالائق بھی ہیں  تو اپنے خرچے پر نالائق ہیں  قومی خزانے سے کوئی پائی پیسہ نہیں لیتے    ان کی نااہلی کا نقصان صرف  ان ہی کو ہوتا ہے لیکن  عدلیہ نے جو نالائقوں کی فوج جمع کرلی ہے جو بھانجے بھتیجے بیٹے بہو  داماد اور قریبی عزیزوں کو  عہدے دیکر  جج کے عہدے کی تزلیل کرکے  قومی خزانے  کے زریعے تنخواہ  دے کر اپنے  نااہل بچوں  کو پال  رہے وہ قومی  خزانے پر بوجھ ہے  اس نالائقوں کی فوج  مظفر کو قومی خزانے سے اربوں روپے ماہانہ ادا کیئے جاتے ہیں  اب ایسا بھی نہیں کہ سب نااہل ہیں  میرا کہنا یہ ہے کہ  نالائقوں کی تعداد زیادہ ہے آج بھی  قابل قدر ججز موجود ہیں
عدلیہ میں آج بھی  قابل فخر انسان موجود ہیں ۔ جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں ۔ ایسے جج موجود ہیں جو چوبیس گھنٹے  کام میں مصروف رہتے ہیں  سارا دن فارغ نہیں بیٹھتے  اور جب گھرجاتے ہیں  فائلوں کا بنڈل ساتھ ہوتا ہے ۔ جج کی سیٹ آسان نہیں  یہ بہت سخت  عہدہ ہے ۔ اگر عہدے سے انصاف کیاجائے تو زندگی محدود ہوجاتی ہے 
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارشی بھی ہیں   نالائق بھی ہیں نااہل  بھی ہیں جو  عدلیہ پر ایک سیاہ دھبہ ہیں  انسانیت کیلئے شرم   کا  مقام  رکھتے ہیں
میں نے سوچ لیا تھاکہ عدلیہ کے حوالے سے کوئی بلاگ نہیں لکھا  جائے گا۔ لیکن گزشتہ  ہفتے  کراچی میں جب عدلیہ کی بے حسی کو قریب سے دیکھا  نااہلی کو قریب سے  دیکھا تو روح تک  کانپ گئی
میں نے دیکھا کہ ایک غریب ماں سے اس کا بچہ  چھین لیا گیا  ۔ وہ تڑپ رہی تھی وہ چیخ رہی تھی وہ رو رہی تھی  اللہ  کسی انسان کو وہ وقت نہ دکھائے جو ممتا سے محروم ایک ماں پر گزرتا ہے
آپ خود انصاف کریں اگر آپ کا بچہ ایک گھنٹے کیلئے لاپتہ ہوجائے  گم جائے توزندگی  میں کیاطوفان برپاہوتا ہے  اس تکلیف کو محسوس  نہیں کیا جاسکتا
اس درد کو الفاظ   میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ، میرا سارا دن  بے قرار رہا روح گھائل رہی  کہ آج ایک ماں  اپنے بچے کو آغوش میں لینے سے صرف اس لیئے محروم ہے کہ  جن لوگوں نے  اس ماں کو انصاف دینا تھا وہ غیر سنجیدہ لوگ تھے غیر ذمے دار لوگ تھے  نااہل تھے کام نہیں جانتے تھے  اور سب سے بڑھ کر بے حس تھے اپنے عہدے کومذاق  سمجھتے تھے   میرے ایک دوست اکثر کہتے ہیں کہ بے درد  نامرد  جس انسان میں انسانیت کا درد نہیں وہ انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں ہے  یہ ایک ظلم کی بات نہیں یہ روز کا معمول ہے
ہمیں کسی کی ذات کو ٹارگٹ کرنے کا کوئی شوق نہیں   لیکن جب لوگ انسانیت سے  ہی گرجائیں  جب حساس ترین عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے  ایک ماں اپنی ممتا ہی سے محروم ہوجائے تو  خاموشی جرم بن جاتی ہے
  اب کم ازکم  قلم  سے ان بے حس لوگوں کی ناک کاٹنا تو بنتی ہی ہے 

یہ الگ  بات ہے کہ ان لوگوں کو فرق کوئی نہیں پڑتا  لیکن رائے عامہ تو ہموار ہورہی ہے   لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کے قاریئن کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے     یہ عدالتی توہین ہرگزنہیں ہے بلکہ خاموشی جرم بن چکی ہے   اب ان مسائل پر خاموشی اختیار کرنا جرم   بن چکا ہے 
 اور ان لوگوں پرکوئی  فرق بھی نہیں پڑتا  ان کے پاؤں مضبوط ہیں     لیکن اللہ کا احسان ہے کہ ان مضبوط لوگوں کے پاؤں بھی  صرف لاء سوسائٹی کے بلاگ کی وجہ سے ڈگمگا رہے ہیں  مجھے خوشی ہوگی کہ کوئی عدالت اس توہین عدالت کا نوٹس لے  ہم سامنا کریں گے اورسامنا کرنے کی طاقت اللہ نے دی ہے
چیف جسٹس صاحب  آتے ہیں بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں       رشوت خوروں کیخلاف کاروائی کی بات کرکے جاتے ہیں   کاروائی ہوئی بھی ہے لیکن نااہل  تو رشوت خور سے زیادہ خطرناک ہیں 
 جہاں تک بات ہے سخت الفاظ کی تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے  کہ ان کیلئے کیا کہا جارہا ہے   جو نوکر پیشہ ہیں وہ اپنی  نوکری پوری کررہے ہیں  مہینے کے بعد تنخواہ تو   مل ہی  جاتی ہے  اللہ اللہ خیر صلا
میں بڑے دعوے سے کہتا ہوں کہ صرف مجسٹریٹ کی سیٹ پر اہل افراد کو بٹھا دیا جائے  تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پولیس  کسی بے قصور انسان کیخلاف مقدمہ بناسکے
یہ جو روزانہ   سو کیس ایک  جج کے پاس لگے ہوئے ہوتے ہیں   ان کا اختتام ملزمان کی باعزت بریت پر کیوں ہوتا ہے میں نے اپنی پوری پریکٹس میں ایک آدھ  شخص کو  سزا لگتے ہوئے دیکھا ہے  وجہ   کیا ہے   پولیس تفتیش ہی غلط کرتی ہے شواہد ریکارڈ پر نہیں آتے یا کمزور ہوتے ہیں  گواہ منحرف ہوجاتے ہیں
لیکن  کیا یہ بھی حقیقت نہیں  ہم اس حقیقت سے کیوں نظریں چرا لیتے ہیں کہ  ہمار ا مجسٹریٹ  پولیس کی تفتیش سے مطمئن  ہوکر اس پر اپنی رائے قائم کرتا ہے  پولیس کی جانب سے پیش کیئے  گئے مقدمے  پر یہ رائے دیتا ہے کہ   وہ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ  سے مطمئن ہے   اس کے بعد وہ مقدمہ شروع ہوتا ہے  جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقدمے  کے اختتام پر ملزمان بری ہوتے ہیں  یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ پولیس کی تفتیش غلط تھی اور  نااہل مجسٹریٹ کی یہ رائے بھی غلط تھی کہ شواہد مقدمہ چلانے کیلئے کافی ہیں
کیا ہم یہ بات کہنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ  یہ ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے
جن لوگوں کو جن دوستوں کو  عدلیہ کے خلاف استعمال کی جانے والی سخت زبان پر اعتراض ہے  جن دوستوں کا  درست شکوہ ہے کہ الفاظ کا چناؤ غلط ہے  وہ ایک کام کریں  عدالت  کی کھڑکی کھولیں   تو سامنےچوک کا منظر صاف نظر آئے گا

سامنے چوک پر دیکھیں تو آپ کو نائی کا بیٹا  ناچتا ہوا نظر آئے گا جس کی ناک کل کاٹ دی گئی تھی
مجھے گورنر کے اس بیٹے کی ہمیشہ تلاش رہے گی جس نے شرم سے خودکشی کرلی تھی

عدالتی عہدے مذاق نہیں ہیں سفارشیوں  نالائقوں  نااہلوں  اور  اقرباء پروری  کے زریعے  ان قابل  احترام  عہدوں کو مذاق  بنا دیا گیا ہے

No comments: