Powered By Blogger

Friday 9 September 2016

چوہدری سجاد کا المیہ تحریر صفی الدین اعوان





دسمبر 2012 کی سرد اور بھیگی بھیگی شام تھی اسلام آباد  کے ایک فایئو اسٹار ہوٹل میں قانون تک 
رسائی کے ایک پروگرام کی افتتاحی تقریب تھی  جس کے مہمان خصوصی سپریم کے ایک جسٹس تھے پروگرام کی خاص بات  چوہدری سجاد نامی لڑکے کی کہانی تھی جس کو پراپرٹی کے تنازع پر فائرنگ کرکے زخمی کیا گیا تھا
اس  کہانی کو ڈاکومنٹری کی صورت میں پیش کیا گیا   چوہدری سجاد نے بتایا کہ اس کو تفتیش کے دوران کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس  نے کس طرح قدم قدم پر ہراساں اور پریشان کیا  اور کس کس طریقے سے  رشوت طلب کی
 یہ کیس  ڈاکومینٹری  بنانے کیلئے میں نے منتخب کیا تھا ۔ اس لیئے مجھے بھی خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ کے جسٹس سمیت قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس ڈاکومینٹری کو پسند کیا
چار سال بعد اس کیس کا فیصلہ ہوا اور مرکزی ملزم کو تین سال کی سزا ہوئی
میں نے اس کیس میں مشاہدہ کار کا رول ادا کیا  مدعی مقدمہ نے صرف مشور مانگا وہ ہم نے دیا لیکن کیس کی پیروی  مختلف  وجوہات  کی بیاد پر نہیں کی
 اس کیس میں ایک   بنیادی خامی تھی تفتیش کے دوران پولیس نے  ڈاکٹر کو گواہ ہی نہیں بنایا تھا جس پر چوہدری سجاد نے  درخواست داخل کرکے ڈاکٹر کو گواہ بنانے کی استدعا کی جو منظور کرلی گئی   چوہدری سجاد  اور چشم دید گواہان کے بیانات کے بعد چوہدری سجاد ذخمی  حالت میں  ہی  ملتان شفٹ ہوگیا جہاں اس کے سسرال نے اس کا علاج کروایا  اسی دوران کیس اللہ کے آسرے پر چلتا رہا شواہد مضبوط تھے ملزم کو  سزا ہوئی  چوہدری سجاد صاحب عدالتی فیصلہ لیکر میرے پاس آئے تو میں  نے کہا کہ اس پورے کیس کی بنیادی خامی ابھی تک موجود ہے  عدالت نے ڈاکٹر کو گواہی کیلئے طلب کیا لیکن اس کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا  اس لیئے صرف اس بنیاد پر     ملزم رہا ہوجائے گا
ملزم نے اپیل داخل کی اور اسی بنیادی خامی کی بنیاد پر کیس کو دوبارہ ٹرائل کیلئے کورٹ  بھجوادیا گیا ہے  اور  ٹرائل کورٹ کا فیصلہ   کالعدم قرار دے دیا  گیا

 بنیادی سوال اپنی  جگہ موجود ہے کہ ڈاکٹر کو گواہ بنانا مدعی مقدمہ کی ذمہ داری نہ تھی تفتیشی افسر کی ذمہ داری تھی  اس نے یہ ذمہ داری پوری نہ کی
پراسیکیوٹر نے بھی اعتراض نہ کیا اور سب سے بڑھ کر مجسٹریٹ نے  بھی اپنا کام نہیں کیا  اور انتظامی  حکم نامہ  جاری کیا اس کے باوجود کے ڈاکٹر کو گواہ  نہیں  بنایا گیا پولیس اسی قسم کی غلطیاں کرتی ہے  جس کی بنیاد پر ملزم باعزت بری ہوجاتے ہیں  اور مجسٹریٹ وغیرہ اس قسم کی غلطی کی نشاندہی نہیں کرپاتے

اگرچہ سیشن جج نے دوبارہ ٹرائل کا حکم تو دیا ہے اور ڈاکٹر کا بیان ریکارڈ  کرنے کا حکم دیا ہے لیکن انصاف کا تقاضہ تھا کہ  وہ پریزائڈنگ افسر جس نے ڈاکٹر کی گواہی  ریکارڈ کیئے بغیر ہی فیصلہ دیا  اس  کے خلاف ایکشن لیا جاتا اسی طرح بالترتیب  مجسٹریٹ پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کے خلاف ایکشن لیا جاتا  اس کے بعد 
لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے  اگرچہ  سیشن جج نے بہترین فیصلہ دیا لیکن  ان تمام ذمہ داران جن کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے  ڈاکٹر  کو گواہ نہیں بنایا گیا اور بعد ازاں اس کا بیان ریکارڈ  نہیں ہوا  ان تمام لوگوں کے خلاف  ایکشن ہوتا تو محسوس ہوتا کہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک کی عدالت کا فیصلہ ہے
لیکن ہم یتیموں کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتے کیوں عدلیہ نے یتیم پالنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے  تمام زمہ داران وہ یتیم ہیں جن کی کفالت کا ٹھیکہ عدلیہ کے پاس ہے  اور یہی ہمارے نظام کی بنیادی خامی ہے
یہاں تو مدعی مقدمہ کے خلاف ہی ایکشن ہوگیا  

پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ سیشن جج نے مدعی مقدمہ کو  جیل بھیجنے کا حکم نہیں دیا 

No comments: