Powered By Blogger

Sunday 30 October 2016

جسٹس اور گالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان




جسٹس اور گالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر صفی الدین اعوان
افغانستان کے صوبہ خراسان کی ہایئکورٹ کے کمرہ عدالت کا   صبح  سویرے  کاایک منظر
خون جمادینے والی  سردی کے باوجود  وسیع  و عریض  رقبے پر پھیلا  ہوا کمرہ عدالت  کھچاکھچ بھرا ہوا تھا   صرف خوش قسمت افراد کو ہی بیٹھنے کی جگہ مل سکی تھی جبکہ  بے شمار افراد  کھڑے ہوکر کاروائی دیکھ رہے تھے
جسٹس  فضل اکبر  کمرہ عدالت  میں داخل ہوئے  مقدمے کی سماعت شروع ہوئی   جسٹس  ساب نے   نہایت ہی  حقارت  اور نفرت سے  کمرہ عدالت  میں موجود وکلاء  کو دیکھا  اور کیس چلانے کیلئے اپنے سامنے موجود سینئر وکیل کی طرف انتہائی  گندی  گندی نظروں سے دیکھا اور دل ہی دل میں  چار پانچ سو   ناقابل اشاعت لاہوری قسم کی   ایوارڈ یافتہ  کلاسک  گالیاں  دینے کے بعد چہرے پر مزید  شدید ترین  نفرت کے تاثرات لانے کے بعد  نفرت  بھرے لہجے  اور نپے  تلے انداز میں میں کہا  بڈھے وکیل    دلائل کا سلسلہ شروع کر
سینئر وکیل نے یہ سن کر حیرت سے جسٹس فضل اکبر کی طرف  حیرت  سے دیکھا  تو جسٹس فضل اکبر نے فوری طورپر آپے سے باہر ہوکر  کہا  ابے بھڑوے    دیکھتا  کیا ہے مادر ٭٭٭٭٭   جانتا نہیں میرا نام جسٹس  فضل اکبر ہے پھر انگلیوں سے چٹکیاں بجاکر کہا  ایک منٹ میں  اٹھا کر  باہر پھینکوادوں گا
اس قسم   کی گالیاں اور لب و  لہجہ  وکیل  صاحب  کیلئے  خلاف معمول تھیں  لیکن   افغانستان  کے صوبہ  خراسان  کے جسٹس  فضل اکبر کی کورٹ کا معمول  کا حصہ تھیں کیونکہ  وہ سینئر وکیل  وہاں پہلی بار    قندھار  سے لاعلمی  کی وجہ سے پیش ہوا تھا عدالتوں میں ہمیشہ وکلاء کو عزت دی جاتی  تھی لیکن سینئر وکیل کو محسوس ہوا کہ جسٹس کی مقدس سیٹ پر کوئی جسٹس نہیں بیٹھا ہوا بلکہ  ایک درجہ الف کا  موالی  قسم کا  شیطان غنڈہ  اور  بدمعاش  بیٹھا ہوا ہے شاید ان گالیوں اور رویئے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی بار کمزور اور ہایئکورٹ کی بغل بچہ تھی جس کی وجہ سے بار کے عہدیدار ذاتی مفادات کی وجہ سے  اس  درجہ اول کے بدمعاش کی غنڈہ گردی سے آنکھیں چراکر ہرروز  خوشی خوشی  گالیاں سننے  ،کھانے  اور پینے پر مجبور تھے  بلکہ   جسٹس  فضل اکبر  سے  تاریخی قسم کی  گالیاں کھانا  بہت  سے عہدیدار  اپنے لیئے اعزاز سمجھتے تھے  اور جسٹس ساب بھی بلا تفریق سب کو گالیوں سے بے دریغ نوازتے تھے  
افغانستان کے صوبے خراسان کے جسٹس فضل اکبر  نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ   ہوا میں شہادت  کی انگلی لہرا کر کہا کیا ہوا  منحوس بڈھے  آج تو صبح سویرے ہی   تو میرے متھے لگ  گیا ہے تم مجھے جانتے نہیں ہو جاؤ دفع  جاؤ یہاں سے  اور جاکر کسی اور کے متھے لگ جاکر سویرے سویرے سارے موڈ کی ٭٭٭٭ ناقابل اشاعت گالیاں ٭٭٭٭٭٭  دی   نکالو اس   ٭٭٭٭ کو یہاں سے  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ناقابل اشاعت گالیاں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 ویسے بھی جسٹس فضل اکبر کی عدالت گالیوں کے  حوالے سے ایک عالمی     یونیورسٹی کا درجہ اختیار کرچکی تھی اور افغانستان کے نوآموز   غنڈوں  موالیوں اور بدمعاشوں کیلئے یہ  لازمی قرار پایا تھا کہ  وہ  لازمی طور پر جسٹس فضل اکبر کی عدالت میں   گالیاں سیکھنے  کیلئے   ایک " چلہ" کاٹیں گے  کیونکہ گالی دینا  ہر ایرے غیرے کاکام  نہیں  ہوتا  جسٹس فضل اکبر فرماتے تھے کہ یہ بھی ایک فن ہے ۔گالی دینے کے دوران جسٹس صاحب کے چہرے   پر جو  نپے تلے  تاثرات ہوتے تھے  اور جو ان کی آواز کے زیروبم کا جو اتار چڑھاؤ ہوتا تھا  اور ان کی فی البدیہہ   نئی نئی  گالیوں سے   اپنے وکلاء  دشمنوں   سے جس  شدید نفرت کا اظہار ہوتا تھا ان نفرت  بھرے تاثرات  کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا  اس لیئے  سارا دن  افغانستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے غنڈے اور   موالی  جسٹس فضل اکبر کی عدالت میں  بیٹھ  کر غنڈہ گردی کی تربیت کا تربیتی چلہ  کاٹا کرتے تھے  جسٹس صاحب کا قول زریں تھا کہ  نپے تلے انداز میں  دی گئی   گالی کی  آواز گولی سے زیادہ تیز اور طاقتور ہوتی ہے اور کمزور انداز میں گالی دینے سے بہتر ہے کہ گالی دی ہی نہ جائے   یوں محسوس ہوتا تھا کہ  جسٹس صاحب کو قدرت نے  تخلیق  ہی گالیاں بکنے  کیلئے کیا ہے
اسی دوران جسٹس  فضل اکبر کی  فی البدیہہ گالیوں کی شہرت کا چرچہ دنیا بھر میں بھی ہوچکا تھا جسٹس صاحب کو یہ بھی عالمی اعزاز حاصل ہوچکا تھا کہ  کم ازکم  پچاس ہزار  نئی گالیوں کی ایجاد کا  عالمی اعزاز ان کو حاصل ہوچکا تھا  صرف یہی وجہ تھی کہ  افغان حکومت کو دنیا بھر کے نوآموز  غنڈوں اور موالیوں کی جانب سے   جسٹس فضل  اکبر کی  عدالت  سے گالیوں کی تربیت حاصل کرنے کیلئے دنیا بھر سے  ہزاروں کی تعداد میں   تعلیمی   اور سیاحتی  ویزے کیلئے درخواستیں وصول ہورہی تھیں جس کی وجہ سے  افغان حکومت بھی مشکلات کا شکار ہورہی تھی یہی وجہ تھی کہ  افغان حکومت نے  اس قسم کی درخواستوں پرویزا پراسیس  فیس  پانچ  ہزار  ڈالر مقرر کردی تھی   اس کے باوجود کئی ہزار درخواستیں  وصول ہورہی تھیں   یہی وجہ تھی کہ  حکومت  اس بات پر غور کررہی تھی کہ جسٹس صاحب  کی عدالت میں داخلے کیلئے انٹری فیس مقرر کردی جائے  اور ان کی عدالت  کو  باقاعدہ طور پر  گالیاں سکھانے کیلئے دنیا کی پہلی  یونیورسٹی  کا درجہ دے دیا جائے لیکن وہاں کی مقامی بار اس حوالے سے سخت مزاحمت کررہی تھی   اور بار کا  اصولی  مؤقف یہ تھا کہ خوشیوں کو ترسی ہوئی  افغان  عوام کیلئے جسٹس  فضل اکبر کی عدالت مفت تفریح کا ذریعہ ہے  اور انٹری فیس مقرر کرکے افغان حکومت شہریوں کو مفت تفریح کے بنیادی حق سے محروم  کرنا  اور چھین لینا چاہتی ہے  جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اعلان کردیا تھا کہ اگر افغان حکومت نے جسٹس فضل اکبر   پر ٹکٹ لگایا تو وہ شدید احتجاج کریں گی   دوسری طرف یہ افواہ بھی گرم تھی کہ پاکستان کی ایک اپوزیشن جماعت کا رہنما اپنے مخالفین کو   گالیاں   بکنے کیلئے جسٹس صاحب سے فون  پر  رہنمائی حاصل کرتے ہیں  اور اپوزیشن لیڈر جسٹس صاحب کا  چہیتا  اور شاگرد خاص ہے  لیکن جسٹس صاحب نے  نہ تو اس الزام کی تردید کی تھی  اور  نہ ہی تایئد کی تھی بلکہ  ہمیشہ مسکرا کر ٹال دیتے تھے   جس سے پاکستانی حکومت افغانستان کی حکومت پر بار بار الزام لگا رہی تھی کہ   افغانستان   اس کی حکومت کے خلاف تحریک  چلانے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے  حکومت  نے افغان حکومت  کو ٹیلی فون کالز  کا ریکارڈ بھی فراہم کیا تھا کہ کس طرح سے افغانستان سے  فون  کے زریعے اپوزیشن لیڈر کا جسٹس ساب سے رابطہ  تھا کیونکہ  اپوزیشن لیڈر جیسے ہی حکومت کو ٹھوک  بجا کر  گالی دیتا تھا   حکومتی  ایوانوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا حکومت کو یوں محسوس ہوتا تھا زلزلہ آگیا ہے   اور  اس کی حکومت اب چند لمحوں کی مہمان ہے    یہی وجہ  تھی پاکستانی حکومت  افغانستان  کے  اس  مایہ ناز جسٹس صاحب  جو اب بے پناہ  شہرت کی وجہ سے انٹرنیشنل  اثاثہ  بن چکے تھے کو دہشت قرار دیکر  پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے پر غور کررہی تھی
خیر سینیئر وکیل وہاں سے   بے عزت  ہوکر   چلاگیا جس کے بعد   اگلا کیس پیش ہوا 
جسٹس ساب نے   دوسرے وکیل کو  بھی  اسی نپے تلے لہجے میں کہا  چل  بھڑوے دلائل کا سلسلہ شروع کر
یہ سن کر وکیل نے حیرت سے دیکھا تو جسٹس نے حسب روایت کہا کیا دیکھتا ہے مادر ٭٭٭٭٭ تم جانتے نہیں کہ میں کتنا گھٹیا قسم کا انسان ہوں  وکیل نے کہا  جی جی مجھے  خوب اندازہ ہورہا ہے  کہ آپ کتنے گھٹیا انسان ہیں
جسٹس فضل اکبر مزید بھڑک اٹھا اور کہا  تم  وکیل لوگ جانتے نہیں کہ میں خاندانی قسم کا  حرامی  ہوں وکیل نے کہا مجھے بالکل اندازہ ہے کہ آپ واقعی خاندانی حرامی ہیں  آپ یہ بات بار بار کیوں بتاتے ہیں
یہ سن کر جسٹس فضل اکبر کا پارہ مزید چڑھ گیا   اور وکیل سے غصے سے کہا تم سوچ نہیں سکتے کہ میں کتنا ننگا  اورگندہ  قسم کا آدمی ہوں  تم نے پوری زندگی میں میرے جیسا ننگا   اور گندہ  قسم  کا آدمی نہیں دیکھا ہوگا   میں انتہائی گھٹیا قسم کا انسان ہوں اور میرا سارا خاندان گھٹیا ہے میں سب کی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دوں گا
جسٹس فضل اکبر نے کہا صرف تم  وکیلوں کی سوچ ہے تم  لوگ  بہت  بدمعاش بنے ہوئے ہو  مجھے پہلے یہ بتاؤ کہ یہاں کون  بدمعاش ہے میں ابھی اس کی پشی نکال  کر  ابھی   اس وکیل کی بدمعاشی ختم کرتا ہوں  میرے جیسا بدمعاش اور غنڈہ   جسٹس  تم وکیلوں نے پہلے کبھی دیکھا نہیں ہوگا اگر کسی وکیل میں ہمت ہے تو آج یہاں اس عدالت میں    میرے سامنے بدمعاشی کرکے دکھائے     
وکیل  نے کہا جی  ہمیں آہستہ آہستہ اندازہ ہورہا ہے کہ  آپ کتنے گھٹیا  حرامی  اور ننگے قسم کے جسٹس ہیں  اور واقعی میں نے جسٹس کی سیٹ پر تم جیسا موالی غنڈہ کبھی نہیں دیکھا
جسٹس  فضل اکبر نے کہا  نہیں نہیں نہیں نہیں نہیں نہیں   بالکل بھی نہیں   یہ سب تیری سوچ ہے ابھی تم لوگوں نے تو کچھ دیکھا ہی نہیں ہے  میں وکیلوں کو وہ سب کچھ دکھاؤں گا کہ ان کی آنے کیا جانے والے نسلیں بھی یاد رکھیں گی
تم  وکیل  لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ تم وکیلوں کو  کس گھٹیا  صفت  انسان سے واسطہ پڑچکا ہے  میں سب کی بدمعاشی ختم کرنے کیلئے آیا ہوں  کون کون   وکیل  یہاں بدمعاش ہے   مجھے بتایا جائے
اتنے میں جسٹس صاب نے نے عدالت میں موجود  تمام وکلاء  اور  عدالت  میں موجود شائقین  کو  ایک بار پھر چیلنج دیا کہ کسی میں ہمت ہے تو اس کے ساتھ میدان میں  آکر لڑائی کرے وکلاء  نے کہا جسٹس ساب  ہم میں سے کوئی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا  اور ویسے بھی  ہم آپ کی طرح بدمعاش نہیں ہیں
اسی دوران کورٹ اسٹاف میں سے کسی نے بار کے چیئرمین کو فون پر اطلاع دی کہ ساب آج پھر  دھڑا دھڑ گالیاں بک رہا ہے آپ جلدی آجاؤ
بار کا چیئرمین  فوری طور پر وہاں پہنچا تو  وہاں تو حالات مزید   خراب ہوچکے تھے جسٹس فضل اکبر  ساب اپنی    قابل احترام شیروانی اتار کر جسٹس کی  قابل احترام شیروانی کے احترام اور تقدس کو پامال کرنے کے بعد شیروانی  کو  جسٹس کی قابل احترام کرسی  پر رکھنے  کے بعد   اس کرسی  پر   نہایت ہی بے ادبی  سے جوتے رکھ کر کھڑے ہوچکے تھے  اور جسٹس کی شیروانی  کے تقدس کو پاؤں کے نیچے روند کر رکھ دیا تھا اور تمام وکلاء  اور دنیا بھر سے آئے شائقین کو  جسٹس  کی قابل احترام  کرسی پر کھڑے ہو کر اپنے  کمزور مسلز دکھا کر  بار بار چیلنج کررہے تھے کہ اگر کوئی بدمعاش ہے تو میرے ساتھ میدان میں آکر مقابلہ کرے  عوام اور وکلاء  اس تماشے سے لطف  اندوز ہورہے تھے  لیکن عدالت کے احترام کی وجہ سے تالیاں بھی نہیں بجا سکتے تھے
چیئرمین ساب نے فوری طور پر    قابل احترام بھا بھی صاحبہ کو فون کیا اور کہا  لگتا  ہے آج پھر اس کمینے کو چرس پلائے بغیر  کورٹ  بھیج دیا ہے  بھابھی نے کہا  اوہو سویرے سویرے چرس کا بھرا ہوا سیگریٹ پینے کیلئے  منگوایا تھا  لیکن جلدبازی کے چکر میں چرس کا بھرا ہوا سگریٹ  ناشتے کی ٹیبل پر ہی چھوڑ گئے ہیں  چیئرمین ساب نے غصے سے کہا اب دیکھو یہ کمینہ آج پھر  صبح  سویرے ہی  سے کورٹ میں ڈرامے کررہا ہے  اور مکمل طور پر کنٹرول سے باہر ہوچکا  ہے ہم نے بھی وکلاء کو  منہ  دینا ہوتا ہے   بھابھی آپ کی ذرا سی غلطی  اور کوتاہی  سے کتنا  بڑا  ڈرامہ ہوگیا ہے ایک ہزار بار کہا ہے کہ  اس کمینے  کو  صبح سویرے چرس لازمی پلا کر بھیجا کریں  اور اگر تمہارے شوہر کی یہی حرکتیں جاری رہیں تو کل حکومت مجبور ہو کرسرکس کے اس مداری  کا تماشا دکھانے  کیلئے حکومت مجبور ہو کر ٹکٹ لگانے پر مجبور ہوجائے گی
اس کے بعد  چیئرمین ساب نے  گیٹ پر ڈیوٹی  دینے والے ایک پولیس  کے سپاہی  سے چرس کا بھرا ہوا سیگریٹ منگوایا اور ساب کو  تین چار   کورٹ اسٹاف کی مدد سے  بہلا  پھسلا کر کورٹ  کے چیمبر میں لے گئے   اسی دوران  ساب  کی  قابل احترام شیروانی باہر ہی رہ گئی  جسے بعد میں  کورٹ کا اسٹاف اٹھا کر پوری عقیدت  ادب اور احترام  کے ساتھ  اندر لے گیا  اس دوران  گالیوں کی  اعلٰی  تعلیم  حاصل کرنے کیلئے افغانستان  کے دور دراز  شہروں  اور امریکہ سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے   طالبعلم   اور علم کے پیاسے    اور متلاشی  جسٹس صاحب کے احترام میں کھڑے ہوگئے  اور ساب کو خراج تحسین پیش کیا
چیمبر میں جاکر  چیئرمین ساب نے   جسٹس ساب سے چرس کے چار  زوردار  گرما گرم  کش لگوائے تو ساب کا دماغ فوراً ہی ٹھکانے آگیا  چیئرمین نے کہا   کتنی بار منع کیا ہے چرس پیئے بغیر عدالت میں نہیں آیا کرو ویسے بھی تم چرس پی پی کر بالکل ہی "خشکے" ہوچکے ہو اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جو  عوامی   تفریح  کا    شو عدالت میں  بیٹھ کر بالکل مفت دکھاتے ہو کل حکومت اس پر ٹکٹ لگادے  گی اور پوری دنیا سے  لوگ سرکس کے جانور کی طرح  تمہارا تماشہ دیکھنے کیلئے آیا کریں گے
یہ سن کر افغانستان کی عدالت کے جسٹس فضل اکبر گہری سوچ میں ڈوب گئے
 بعد  میں کیا ہوا یہ بعد میں بتاؤں گا ابھی اس کہانی میں  بہت کچھ  باقی ہے

No comments: