Powered By Blogger

Saturday 5 November 2016

راحیل شریف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



راحیل شریف  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
امریکی اخبارات کے مطابق انڈیا  کا وزیراعظم  اور امریکہ کا صدر ایک خوبصورت دیو ہیکل ہاتھی پر سوار ہیں جس پر قیمتی قالین بچھا ہوا ہے    یہ  بھارت اور امریکہ کی دوستی کی ایک مثال ہے دوسری طرف  اس کے ساتھ ساتھ ایک  کمزور اور مریل سا خچر  چل رہا ہے جس پر صرف پاکستان کا  وزیراعظم اکیلا سوار ہے  اور اس پر پاک چائینہ دوستی لکھا ہوا ہے
لیکن  وقت اور جنرل راحیل شریف نے امریکی  اخبارات کے دعوے کو غلط اور جھوٹا ثابت کیا 
فوج  میں ہمیشہ متباد ل قیادت موجود ہوتی ہے  اور یہی پاک فوج کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ پاک فوج میں  ہر سطح پر انتہائی تربیت یافتہ قیادت  موجود ہے  جبکہ موجودہ دور میں پاکستان میں متبادل سیاسی قیادت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا موروثیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں  چلائی جاتی ہیں  طلبہ تنظیموں پر پابندی کے بعد  مڈل کلاس طبقے سے  سیاسی قیادت کا سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے  تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی کے زریعے مڈل کلاس کو متبادل سیاسی قیادت دینے کا ناکام تجربہ کیا کیونکہ  صرف طلبہ یونین ہی اس ملک کی سیاسی جماعتوں کو متبادل قیادت دے سکتی ہے  
طلبہ تنظیموں  نے اپنے عروج کے دور میں  پاکستان کو ہمیشہ بہترین قیادت فراہم کی تھی  لیکن  اب سیاسی میدان میں قیمتی گاڑیوں  والے سیاسی بھگوڑوں کا قبضہ ہے   جبکہ فوج میں آج بھی  اعلٰی قیادت  مڈل کلاس طبقے سے ہی آگے آرہی ہے
کافی عرصے بعد پاک فوج کو ایک ایسا سپہ سالار ملا جس کی وجہ سے عوام میں پاک فوج کی عزت دوبارہ سے بحال ہوئی  حالیہ دنوں میں پاک انڈیا کشیدگی کے دوران پاکستان کو انڈیا پر نفسیاتی  برتری حاصل رہی  اور وہ نفسیاتی برتری راحیل شریف کی صورت  میں تھی  بلوچستان میں فوج سے نفرت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے کسی زمانے میں گاڑیوں پر لکھا ہوتا تھا پاک فوج کو سلام جبکہ موجودہ دور میں  جنرل راحیل شریف کی تصاویر اکثر گاڑیوں میں لگی نظر آتی ہے  
پاکستانی سیاست میں امریکی اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے  لیکن  امریکی اثرورسوخ کا زوال شروع ہوچکا ہے
پاکستان میں امریکی اثر ورسوخ کے زوال کی ابتدا اس وقت ہوئی جب  اوبامہ انڈیا کے دورے پر آئے  اور اوباما   کا طیارہ انڈیا اور  عین اسی وقت راحیل شریف کا طیارہ چین میں اتر رہا تھا اور یہ امریکہ کو واضح پیغام تھا  جس طرح امریکہ نے  پاکستان کی دوستی کو ٹھکرایا  اسی طرح  پاکستان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا  
بعد ازاں امریکی اخبارات نے  انڈیا اور امریکہ کی دوستی کا موازنہ  پاک  چائینا دوستی کے ساتھ انتہائی مضحکہ خیز انداز میں ایک کارٹون بنا کر کیا  لیکن بعد میں امریکی اخبار کا تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا  جبکہ  موجودہ دور میں امریکی سفیر کا اثررسوخ بھی کافی کم ہوا ہے   لیکن امریکہ  امریکہ ہی ہے  اس کا ایک اثرورسوخ ہے جس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا
جنرل  راحیل شریف کی اس وقت  عوام میں بے تحاشا مقبولیت ہے لیکن یہ مقبولیت بحیثیت ایک فوجی جنرل ہی کی حیثیت سے ہے  پاکستان کے چیف آف آرمی  اسٹاف ہی کی حیثیت سے ہی ہے  عوام نے جنرل راحیل شریف کو کبھی بھی ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر   کے طور پر   نہیں سوچا 
پاکستان میں موجودہ سیاسی  استحکام  صرف اس وجہ سے ہے کہ پاک فوج اور سیاسی قیادت کی سوچ ایک ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے کراچی میں امن قائم ہوچکا ہے  شہر کی رونق پوری طرح  بحال ہوچکی ہے سینکڑوں ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد وں کا قلع قمع کیا جاچکا ہے اور بچے کھچے  ہاتھ میں تسبیح لیکر تبلیغ اللہ اللہ کرتے پھر رہے ہیں
پاک چایئنا کوریڈور   بہت سی طاقتوں کیلئے ایک پیغام ہے امریکہ  واضح طور پر محسوس کررہا ہے  کہ اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان  فاصلے بڑھ رہے ہیں اگرچہ امریکہ نے پاکستان کو کبھی دوست نہیں سمجھا لیکن پاکستانیوں کی غلط فہمی کو دور بھی نہیں کیا   جنرل راحیل شریف کے دور میں  یہ فاصلہ شاید اب پاکستان کی جانب سے بڑھنا شروع ہوا ہے    جبکہ سیاستدانوں کی نظریں اب بھی امریکہ کی طرف ہی دیکھتی ہیں لیکن چین کا  پاکستان  میں  اثر ورسوخ   ایک حقیقت بن چکا ہے  
لیکن امریکی قیادت  نہ کیوں یہ حقیقت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہورہی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام پورے خطے کے مفاد میں ہے   اور امریکی نے کبھی ایسی پالیسی تشکیل نہیں دی جس سے پاکستان   میں استحکام ہو
جہاں ایک طرف مقبولیت ہے عوام میں بے پنا محبت ہے وہیں دوسری طرف مجبوریاں بھی ہیں  اور  ایک فوجی جنرل کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آرہا ہے تو  عوام اور سرمایہ کاروں میں بے چینی کی فضا ء  محسوس ہورہی ہے  کیونکہ موجودہ سیاسی استحکام  کے حوالے سے  جنرل راحیل شریف کا نام لازم  وملزوم سمجھا جارہا ہے
عوامی  خواہش تھی کہ  مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے   تو دوسری طرف   یہ سوچ فوج کیلئے بھی ایک چیلنج ہے جس کے پاس   بہترین  متباد ل قیادت موجود رہتی ہے جو متبادل قیادت کو  تیار کرتی ہے  ایک سوچ یہ بھی ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے متبادل قیادت   یعنی  آنے والے اگلے جنرل  کے سامنے ایک رکاوٹ آئے گی لیکن جنرل راحیل شریف نے جس طرح طالبان کے  ساتھ جنگ کرکے ان کو شدید کمزور کیا اس کے بعد اس سلسلے کو جاری رکھنا مشکل ہورہا ہے   کیا نیا فوجی جنرل اس جنگ کو جاری رکھے گا  کراچی کا سرمایہ کار پریشان  ہورہا  ہے کہ  کیا  کراچی میں جاری امن کی کوششوں کو دوام بخشنے کیلئے کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا  یا مفاہمت  کی  پالیسی اپنا کر  دہشت  گردی  کو پھلنے پھولنے کا دوبارہ موقع دیا جائے گا  اسی قسم کے بہت سے سوال پوری قوم کو پریشان کررہے ہیں  
میرے خیال میں بے شمار خوبیوں کے باوجود  پاک فوج کے پاس اس وقت  بھی نہایت ہی اچھے فوجی افسر موجود ہیں لیکن  جنرل راحیل شریف  جیسی عوامی مقبولیت شاید کسی کو  دوبارہ نصیب نہیں سکے گی  یہ فرق واضح ہے  اگرچہ ایک جمہوری معاشرے میں  فوج کا کوئی  کردار نہیں ہوتا   لیکن جمہوری معاشروں میں وہ رویئے بھی نہیں ہوتے جو پاکستانی سیاستدانوں کے ہیں  ۔  اسی وجہ سے   فوج اور سیاستدانوں کی مشترکہ کوششوں سے پاکستان میں سیاسی استحکام آیا ہے    جس پر سرمایہ کاروں نے  کھل  کر اعتماد  کا اظہار بھی کیا ہے دوسری طرف پاکستان آج بھی حالت جنگ میں ہے کیونکہ اسلام کے نام پر  بنائے جانے  والے  عالمی دہشت گرد گروپ ہر وقت پاکستان کی مظلوم عوام کو  خودکش  دھماکوں  کے زریعے نشانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔  تو دوسری طرف  بین  الاقوامی  خفیہ ایجنسیاں  بھی پاکستان میں عدم استحکام کی پالیسی پر کمر بستہ ہیں
جنرل راحیل شریف  ہی کے دور میں  عدلیہ واپس اپنے اصل مقام پر پہنچ چکی ہے  
آزاد عدلیہ  مکمل آزاد ہوچکی ہے
موجودہ حالات یہ تقاضہ کرتے  ہیں کہ موجودہ سیٹ  اپ ہی کو برقرار رکھا جائے   کچھ عرصے کیلئے جنرل راحیل شریف  صاحب  مزید چیف آف آرمی اسٹاف رہیں  کیونکہ  حالت جنگ میں  جنرل کا ریٹائر ڈ ہونا اچھا شگون  نہیں ہوتا سرمایہ کاروں کا اعتماد تیزی سے بحال ہورہا ہے  بیرونی سرمایہ کار صرف موجودہ سیاسی سیٹ اپ ہی کو پسند کررہے ہیں
چیف صاحب   ریٹائرمنٹ  بہرحال ایک حقیقت ہے آج اور کل میں کوئی فرق نہیں ہے  لیکن اس کے باوجود موجودہ حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ  آپ    موجودہ سیٹ اپ میں برقرار رہیں  کیونکہ سیاسی گدھ  صرف آپ کی ریٹائرمنٹ ہی کے منتظر ہیں    کیونکہ  جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے  اور یہ انتقام عوام سے لیا جاتا ہے

No comments: