Powered By Blogger

Thursday 10 April 2014

سید وقار شاہ ایڈوکیٹ**سب ہے مر ے پاس ایک تم نہیں ہو


2007
کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں فرسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج صاحبہ کی عدالت تھی۔میں اپنے کیس کی سماعت کا منتظر تھا۔ایک قتل کے مقدمے میں گواہ پیش ہوا گواہ بہت ہی ٹیڑھا تھا اور اس نے سخت قسم کا بیان کورٹ کوریکارڈ کروایا میری دلچسپی اس وقت بڑھ گئی جب ایک وکیل صاحب جرح کیلئے کھڑے ہوئے ابتدائی سوالات کے بعد ایک سوال کیا تو عدالت نے ان کے سوال پر اعتراض کیا کہ یہ سوال آپ نہیں کرسکتے
وکیل صاحب نے خاموشی سے ایک کیس لاء پیش کیا اور  کہا کہ اس کیس لاء کے مطابق سپریم کورٹ مجھے یہ سوال پوچھنے کی اجازت دیتی ہے جج صاحبہ نے سوال پوچھنے کی اجازت دے دی۔اگلے سوال پر پھر ایک اعتراض اور اعتراض کا جواب دلائل سے دیا۔کہ فلاں کیس لاء کے مطابق مجھے یہ سوال پوچھنے کی اجازت ہے کیونکہ اعلٰی عدلیہ نے اعتراض نہیں کیا مختصر یہ کہ انہوں نے جرح کے دوران سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔اگرچہ گواہ بہت بڑا فن کار اور جھوٹا تھا لیکن وکیل صاحب نے اپنے علم کے زریعے اور جرح کے ہتھیار کے مؤثر استعمال سے اس کی گواہی کو جھوٹا ثابت کیا
اس وکیل کا نام مجھے وقار شاہ معلوم ہوا
ان دنوں ہم دوستوں نے پلان کیا تھا کہ کراچی بار میں کچھ لیکچرز اور ورکشاپس کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔کچھ پروگرامات ہوچکے تھے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی لیکچر دینا ہر کسی کاکام نہیں ہوتا اور لیکچر بھی وکلاء کو دینا مزید مشکل کام ہے
میرے ذہن میں  یہ بات آگئی تھی کہ وقار شاہ صاحب کے پاس بہت علم ہے اور وہ ایک اچھا لیکچر دے سکتے ہیں  ۔شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی جوکہ نہایت مختصر تھی آپ لایئبریری میں مطالعے میں مصروف تھے بعد ازاں انہوں نے لیکچر دینے کی حامی بھرلی
مختصر یہ کہ  بہت تیاری کے باوجود کراچی بار ایسوسی ایشن کے شہداء پنجاب ہال میں صرف 10 سے پندرہ وکلاء موجود تھے اور پورا ہال خالی تھا شاہ صاحب نے سلیس ترین اردو میں "جرح کے فن کے موضوع" پر لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔تھوڑی ہی دیر میں شہدا پنجاب ہال وکلاء سے مکمل طور پر بھر چکا تھا پہلا لیکچر سوالات کے سیشن کو ملا کر تین گھنٹے تک جاری رہا تھا اور شہدا پنجاب اس دوران مکمل طور پر بھرا رہا۔وکلاء نے شاہ صاحب کے انداز کو بہت زیادہ پسند کیا
بعد ازاں لیکچرز کا سلسلہ جاری رہا اور شاہ صاحب نے کریمینل جسٹس سسٹم کے موضوع پر لیکچرز دینے کا سلسلہ جاری رکھالوگ بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے اسی دوران شاہ صاحب کو پاکستان کے مختلف پولیس ٹریننگ اسکولز میں بلایا گیا جہاں آپ نے لیکچرز دیئے۔
کریمینل جسٹس سسٹم پر شاہ صاحب کی بہترین ریسرچ تھی۔شاہ صاحب کا کہنا یہ تھا کہ کریمینل جسٹس سسٹم پر عبور رکھنے والا وکیل ہی شہری آزادی کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چند سال سے ضابطہ فوجداری کی زیر دفعہ 103 کے خلاف بات کی جاتی تھی شاہ صاحب کہتے تھے کہ اگر جرائم کے خاتمے کیلئے ایک عام شہری کا کردار ختم کیا جائے گا تو ملک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا اسی دوران شاہ صاحب کے ساتھ مل کر ہم نے عدالتی اصلاحات کے موضوع پرجدوجہد کا سلسلہ شروع کیا اس موضوع پر بحث ومباحثے منعقد کیئے اور ویڈیوکانفرنس کے حوالے سے ایک پٹیشن سندھ ہایئکورٹ میں داخل کی۔جس کا مقصد یہ تھا کہ گواہ کے تحفظ کیلئے ضرورت پڑنے پر اس کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے ریکارڈ کیا جائے اور خطرناک ملزمان کو  عدالت میں ویڈیولنک کے زریعے پیش کیاجائے۔اگرچہ اس پٹیشن پر ذاتی مخالفت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن اس پٹیشن کے حوالے سے جوریسرچ تھی اسی کی بنیاد پر ویڈیو کانفرنس کے زریعے میمو اسکینڈل کے ایک اہم گواہ کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے پاکستانی سفارت خانہ برطانیہ سے پیش کیا گیا
2008 میں شاہ صاحب کریمنل مقدمات میں کامیابی کی علامت بن چکے تھے اور پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز ان کے پاس موجود تھے۔اور پاکستان کے مختلف شہروں سے ان کو صرف جرح کیلئے بلایا جاتا تھا
2010 میں شاہ صاحب نفسیاتی طور پر پریشان رہنے لگے تھے جس کا وہ کھل کر اظہار نہیں کرتے تھے ۔اصل بات یہ ہے کہ کراچی میں کریمینل سائڈ کی پریکٹس کرنا ممکن ہی نہیں رہا ذاتی طور پر مجھے خود کئی کیسز کی فائلیں واپس کرنی پڑی ہیں۔اور کئی کیسز لینے سے انکار کرنا پڑا ہے۔جان سے مارنے کی دھمکیاں تو معمول کا حصہ ہیں
2011 میں ہم نے ایک پروگرام کی بنیاد رکھی جس کا موضوع تھا "بہتر طرز حکمرانی کیلئے عدالتی اصلاحات" شاہ صاحب اس پروگرام کے بانی ممبر تھے
شاہ صاحب ایف آئی آر کو دہشت کی علامت قرار دیتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جو دستاویز خوف کی علامت ہو وہ انصاف کیسے فراہم کرسکتی ہے  اور اس حوالے سے اصلاحات کے حامی تھے
وقار شاہ صاحب نے ہمارے ساتھ کراچی سے لیکر سکھر تک کے سفر کیئے اور مختلف بار ایسوسی ایشنز میں ٹریننگ اور لیکچرز دیئے سکھر کے اے بی ڈی لاء کالج  میں ان کے لیکچر کو وکلاء اور طلبہ نے بہت پسند کیا تھا
چند ماہ قبل سندھ پولیس اور رینجرز کی تربیت کی تھی اور پراسیکیوشن کی ان خامیوں کی نشاندہی بھی کی تھی جن کی بنیاد پر ملزم بری ہوجاتے ہیں اور متعلقہ شعبوں کو تربیت فراہم کی تھی کہ کیس کس طرح تیار کرنا چاہیئے میرے خیال میں شاید یہ بھی ان کی ایک سنگین غلطی تھی
شاہ صاحب موجودہ عدالتی نظام کو بوگس سمجھتے تھے اور جدید عدالتی اصلاحات کے قائل تھے عدالتی اصلاحات کا پروگرام کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ
Mr. Waqar Shah said that transfer of judges or court staff was not the durable and long-lasting solution to the problem. He said when judges of trial courts pass judgments, their verdicts must be scrutinized. He added that judges during the conduct of judicial proceedings were only immune from accountability if the mistake made by them was the mistake of fact and not mistake of law. He further said that if judge of a sub-ordinate court happens to be on leave, his cause list/board must not only be transferred to a link judge, moreover,  the transferee judge should also look into the transferred cases if the nature of such cases required him to do so. He said that prior to Law Reforms Act 1972, there used to be a system of ‘ de novo trial’ which was scrapped after promulgation of the aforesaid law. He said that ‘de novo trial’ helped courts get the criminal cases decided by the same judge who presided it over from the day one. He said instead of bringing UTPs from Jails to the Courtrooms, modern technology of video-conferencing should be availed of. 

آج سے 25 سال پہلے اندرون سندھ سے آنے والے ایک انتہائی غریب نوجوان  سید وقار شاہ  نے اپنی محنت اور لگن سے وہ مقام حاصل کیا جو شاید ہی کسی وکیل کو حاصل ہو عمران خان  اور میاں نواز شریف سمیت بڑے سیاستدانوں کے وکیل رہے شاہ صاحب نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا تھا کہ کس طرح  شدید غربت کے باوجود انہوں نے کراچی جیسے شہر میں اپنا نام بنایا اور ایسا نام بنایاکہ ہر طرف آپ ہی کا نام گونجتا تھا
2012 میں اٹلی شفٹ ہونے کا پروگرام بنایا لیکن پھر منسوخ کردیا کیونکہ  ان کو مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں
لیکن اس کے بعد سوشل لائف محدود کردی تھی ان کا ہمارے ساتھ آخری پروگرام سندھ آرمز ایکٹ 2013 کے موضوع پر تھا  جس پر شاہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سیمینار سے خطاب کیا حسب معمول کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکلاء ان کے منتظر تھے اور شہدائے پنجاب ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا شاہ صاحب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ  جرائم کے خاتمے کیلئے ایک عام شہری کے کردار کو ختم کرنے کا مطلب ریاست کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنا ہے
زندگی بھر عدالتی اصلاحات کی بات کرنے والے ہمارے عظیم دوست کی زندگی کا سفر 10 اپریل 2014 کو اس وقت ختم ہوا جب گھر سے نکلتے ہی گھات لگائے ٹارگٹ کلرز نے ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا
بے بسی ہے اداسی ہے اور درد ہے
سب ہے میرے پاس ایک تم ہی نہیں ہو
ہم آج جتنا اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا۔کریمینل جسٹس سسٹم اور انسانی حقوق پر رہنمائی فراہم کرنے والے ایک عظیم انسان کی موت نے ہم سب کو شدید دھچکا دیا ہے
صفی الدین اعوان

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

گو وکالت کے پیشے کی موجودہ حالت سے میں ناخوش ہوں لیکن ناجانے کیوں جب بھی کسی وکیل کو قتل کیا جاتا ہے میرا دل پریشان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک اور اچھا آدمی نہ رہا ۔ میرا یہ احساس لڑکپن سے ہے جب پہلی بار ایک بزرگ وکیل کو ایک مالدار شخص کے مخالف کا کیس لڑنے کی پاداش میں راولپنڈی میں ہلاک کیا گیا تھا ۔ اُن سے میں ایک بار والد صاحب کی معیت میں مل چکا تھا اور مجھے وہ بہت اچھے انسان لگے تھے ۔ اللہ وقار ندیم کی مغفرت کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے

افتخار اجمل بھوپال said...

گو وکالت کے پیشے کی موجودہ حالت سے میں ناخوش ہوں لیکن ناجانے کیوں جب بھی کسی وکیل کو قتل کیا جاتا ہے میرا دل پریشان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک اور اچھا آدمی نہ رہا ۔ میرا یہ احساس لڑکپن سے ہے جب پہلی بار ایک بزرگ وکیل کو ایک مالدار شخص کے مخالف کا کیس لڑنے کی پاداش میں راولپنڈی میں ہلاک کیا گیا تھا ۔ اُن سے میں ایک بار والد صاحب کی معیت میں مل چکا تھا اور مجھے وہ بہت اچھے انسان لگے تھے ۔ اللہ وقار ندیم کی مغفرت کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے