ایک عام ااور غریب آدمی کی زندگی میں یہ تبدیلی آرہی ہے کہ
وہ جب اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں تو اب حق مہربتیس روپے بارہ آنے حق مہر شرعی
مقرر نہیں کیا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کے قانونی حقوق کو بھی محفوظ کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے اب ایسے نکاح نامے شازونادر ہی نظر آتے ہیں جن میں حق مہر بتیس روپے لکھا ہو لیکن
بدقسمتی یہ ہے کہ شادی جیسے مقدس بندھن کو بھی ہمارے معاشرے میں سنجیدگی سے نہیں
لیا جاتا یہ سوچ موجود ہے کہ ہم جب چاہیں گے جس وقت چاہیں گے کچے دھاگے سے بھی اس
کمزور بندھن کو توڑ کر پھینک دیں گے ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ہر سطح
کے علاوہ دور دراز علاقوں اور کچی آبادیوں میں یہ سوچ اس لیئے موجود ہے کہ
رشتوں کو مذاق بنانے والے بھی جانتے ہیں کہ قانونی کاروائی ایک مہنگا سودا ہے اس لیئے قانونی حقوق محفوظ ہونے کے باوجود عورت
کے پاس جب کھانے کے پیسے بھی نہیں ہونگے اور عدالت آنے جانے کے اخراجات بھی نہیں ہونگے تو وہ قانونی کاروائی خاک کرے گی اور ایک پروفیشنل ایڈوکیٹ ایک خاص حد
تک ہی کسی غریب کی قانونی امداد کرسکتا ہے ایسی صورتحال میں دستگیر لیگل ایڈ سینٹر
ظلم وتشدد کا شکار خواتین کو مفت قانونی امداد فراہم کرکے ان کے قانونی حقوق کو
محفوظ بنانے کی کوشش کرتا ہے خاص طور پر ان خواتین کو جن کے پاس وسائل بالکل بھی
نہیں ہوتے
دستگیر لیگل ایڈ سینٹر میں کراچی کے انتہائی دور دراز علاقے
سے آنے والی خواتین کے ساتھ شادی کے بعد جو واقعات پیش آتے ہیں ان کو سن کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ
ہمارے معاشرے میں شادی جیسے مقدس بندھن کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا
کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی لڑکی سے شادی
کرنے کے بعد جب اس سے دل بھر جائے تو اس کو ماں باپ کے دروازے کے سامنے کھڑا کرکے چلاجاتا ہےیا دھکے دیکر نکال
دیتا ہے
سوال یہ ہے کہ شادی جیسے مقدس بندھن کو سنجیدہ نہ لینے کی
کیا وجوہات ہیں
بے شمار وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون کا خوف نہ ہونا اور لوگوں کا عدالت کے
اخراجات برداشت نہ کرپانا ہے اور ایک زوال پزیر معاشرے کی عدلیہ کا وہ متحرک کردار
ادا نہ کرپانا جس کی سوسائٹی عدلیہ سے توقع رکھتی ہے
گزشتہ دنوں ایک کم
سن لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ دستگیر لیگل ایڈ سینٹر میں آئی اس کی عمر صرف سترہ سال تھی اور وہ ایک بچے کی ماں تھی اس کے
ساتھ اس کی والدہ بھی تھی تو اس نے بتایا کہ ہم نے اپنی بیٹی کی شادی صرف پندرہ
سال کی عمر میں کردی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ لڑکی کا باپ بیمار تھا اور اس کی
خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی میں ہی بیٹی کی شادی کردوں یہی وجہ تھی کہ ایک علاقے میں رشتے کرانے والی عورت کے زریعے
انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کردی تھی بعد
ازاں یہ رشتہ کامیاب نہ ہوا لڑکے نے ایک سال تک بیوی کو ساتھ رکھا اور جب اس کی کم سن اہلیہ امید سے ہوگئی تو ایک دن
بغیر کچھ بتائے وہ غائب ہوگیا بچے کی پیدائش گھر میں ہی ہوئی اور ہم نہ جانے کس
طرح یہ سوچتے ہوئے برداشت کریں گے کہ ایک
سولہ سال کی کمسن بچی نے لیڈی ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں بچے کو جنم دیا ہوگا مجھے تو یہ سوچ کرہی صدمہ
ہوا کہ ایک کمسن بچی پر کیسی قیامت گزرگئی ہوگی اور نہ جانے وہ کیسے موت کے منہ سے
بچ کر نکلی ہوگی
اس کی ماں نے بتایا کہ ہم زچگی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے اور لڑکی کی جان کو شدید خطرہ تھا
اللہ نے نئی زندگی دی
لیکن اس سارے معاملے میں ایک قانونی پہلو بھی ہے جس کی وجہ سے اس لڑکے واپس آنا پڑا اور وہ یہ
تھا کہ شادی کے وقت جہاں والدین نے مجرمانہ طور پر ایک پندرہ سال کی بچی کی شادی
جلد بازی میں کردی وہیں لڑکی کی والدہ نے اپنے علاقے میں موجود ایک سینئر ایڈوکیٹ
سے نکاح نامے سے متعلق مشورہ بھی لیا جن کے مشورے کے مطابق نکاح نامے کا کوئی بھی
خانہ خالی نہیں ہے اور حق مہر میں دوایکڑ زرعی زمین بھی لکھوائی گئی ہے اس کے
باوجود وہ لڑکا جس کی نیت ہی فراڈ اوردھوکہ
دینے کی تھی اس نے نکاح کے وقت اپنا نام ہی غلط لکھوایا اور کہا کہ میرا شناختی کارڈ گم گیا ہے جس پر نکاح خوان نے نکاح نامے پر دستخط کی
بجائے لڑکے سے انگوٹھا لگوالیا جس کی وجہ سے اس کے خلاف اب دھوکہ دہی کا مقدمہ بھی
بن سکتا ہے
بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد اس لڑکی کا شوہر دوبارہ واپس
آگیا اور ایک کمرے کا مکان کرائے پر لیکر رہنے لگا چند روز بعد دوبارہ تنازعات
شروع ہوگئے اسی دوران اس کے شوہر نے چند کاغزات تیار کروالیے اور وہ کاغزات اپنی
بیوی کے پاس لایا کہ یہاں دستخط کردو کہ میں حق مہر کی دوایکڑ زمین اپنی رضامندی
سے معاف کرہی ہوں جس پر لڑکی نے بتایا کہ
وہ اپنی ماں سے پوچھ کر دستخط کرے گی جس
کے بعد تکرار بڑھ گئی اس کے شوہر نے مارنے کیلئے ڈنڈا اٹھا لیا جس کے اس لڑکی نے
اپنے چند ماہ کے بچے کو اٹھایا اور اپنی جان بچا کر پڑوسیوں کے گھر میں گھس
گئی اس کا شوہر اس کو تلاش کرتا رہا لیکن
اس کو یہ نہیں پتہ چل سکا کہ اس کی بیوی کس کے گھر میں گھسی ہے کئی گھنٹے گزرنے کے بعد جب اس کا شوہر چلا گیا تو پڑوسی کی رحم دل بیوی
نے اس کی ماں کو اطلاع دی جس کے بعد اس کی والدہ لڑکی کو اپنے گھر بحفاظت لے گئی
اس پورے واقعے میں ہمیں والدین کی غفلت کے بےشمار پہلو نظر
آتے ہیں جنہوں نے مجرمانہ طور پر
اپنی بیٹی کی شادی کم عمری میں ہی طے
کی جنہوں نے اپنی بیٹی کی خود ہی قدر نہیں کی لیکن
ان کے پاس ایک قانونی دستاویز موجود ہے جس
کے مطابق اس لڑکی کے بہت سے حقوق اس لڑکے
نے ادا کرنے ہیں اس کو حق مہر کے پچاس
ہزار روپے اداکرنے ہیں اس کو دو ایکڑ
زرعی زمین دینی ہے انشاءاللہ ہم عدالت
میں جائیں گے اور ایک ایسے ظالم کا تعاقب ضرور کریں گے جس نے نکاح کو مذاق
سمجھا شادی کے مقدس بندھن کے زریعے ایک کم
عمر لڑکی کی زندگی برباد کردی
ہم سندھ ہایئکورٹ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے
گزشتہ دنوں ہماری چند درخواستوں
پرسخت ترین نوٹس لیئے اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے عدالت کو چاہیئے کہ فیملی مقدمات کی سماعت کو
تیزرفتاری سے نمٹانے کی کوشش کرے کورٹ کی "رٹ" نظر آئے کیونکہ اکثر
فیملی مقدمات صرف اس وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں کہ فریقین تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں
اور ان کو انصاف نہیں ملتا عدلیہ کو اب کم ازکم فیملی مقدمات میں آہنی ہاتھ رکھنا
ہوگا خصوصی طور پر وہ علاقے جہاں کچی آبادیاں موجود ہیں وہاں کیلئے خصوصی اقدامات
کرنے ہونگے اب قوانین کی بجائے عدلیہ کے مائینڈ سیٹ کی تبدیلی ضروری ہوچکی ہے
رشتوں کو مذاق سمجھنے والوں کو قانونی
تقاضے پورے کرنے کے بعدجب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں دھکیلا جائے گا اس وقت تک مسائل موجود رہیں گے
ہم اس ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں جس کے تحت ہم کسی بھی صورت میں تشدد کا شکار افراد کو اپنی یا اپنے ادارے کی تشہر اور مفاد کیلئے استعمال نہیں کریں
گے اس لیئے حالات و واقعات کو تبدیل کردیا جاتا ہے
1 comment:
nice.1
Post a Comment