Powered By Blogger

Sunday 21 September 2014

کراچی کی مضافاتی بستیوں میں کالعدم تنظیموں کا عدالتی نظام ایک نیا چیلنج



گزشتہ سال ایک فیملی کیس میں  لڑکے کی طرف سے پیش ہوا تھا تو میری خواہش تھی کہ یہ کیس  ثالثی  اور بات چیت کے زریعے حل ہوجائے کیونکہ جہیز کی دو طرفہ لسٹ میں کوئی تنازعہ نہیں تھا لڑکا اپنی تنخواہ کے حساب سے  اپنے بچے کے اخراجات کی مد میں  ماہانہ رقم ادا کرنا چاہتا تھا اور اگر لڑکی کا وکیل کوشش کرتا تو صلح بھی ہوسکتا تھی  بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا سماعت شروع ہونے سے پہلے میں نے لڑکی کے بھائی سے جو کورٹ میں موجود تھا کہا کہ آپ لوگ اس کیس کو  ثالثی کے زریعے عدالت سے باہر بات چیت سے حل کرلیں میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کے قانونی حقوق متاثر نہیں ہونگے جہیز  کا سامان جس کی مالیت 350000 ساڑھے تین لاکھ روپے نقد ہے وہ تو آپ کو کل ہی مل جائے گا اور باقی معاملات بھی حل ہوسکتے ہیں
بدقسمتی سے لڑکی کے وکیل نے ان کو شاید ایسے خواب دکھا رکھے تھے کہ  انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ  ایک پنجابی محاورہ کہا کہ ہم کورٹ کے خرچوں اور پیشیوں سے نہیں ڈرتے جو لوگ اونٹ پالتے ہیں اپنے دروازے اونچے رکھتے ہیں
مختصر یہ کہ خلع کا کیس لڑکی کے حق میں ہوگیا۔لڑکے کی ماہانہ تنخواہ کی روشنی میں  عدالت نے بچے کا ماہانہ خرچ 2000 روپے مقرر کیا  جب بچے کا ماہانہ خرچ دوہزار روپے مقرر ہوا تو لڑکی کو سکتہ ہوگیا کیونکہ اس کے وکیل نے یہ خواب دکھا رکھا تھا کہ ماہانہ خرچ  کم ازکم دس ہزار روپے مقرر ہوگا اگرچہ  دوہزار بہت کم رقم ہے لیکن لڑکے کی ماہانہ تنخواہ ہی دس ہزار روپے ہے تو عدالت نے یہی فیصلہ کرنا تھا
بعد ازاں اسی معاملے پر ان کی وکیل سے بدمزگی بھی ہوگئی بعد ازاں لڑکی کے وکیل نے اپنے کلائینٹ کو یہ کہا کہ تم لوگ کیس جیت گئےہو
اور خلع کی ڈگری بھی کورٹ سے جاری کروا دی بعد ازاں جج کا ٹرانسفر ہوگیا
لڑکی کا بھائی کافی عرصے تک وہ کورٹ کی جاری کردہ ڈگری لیکر گھومتا رہا اس کو انصاف نہ ملا عدالت میں جج بھی نہ تھا اس لیئے کیس تیل لینے چلا گیا
کافی عرصے دھکےکھانے کے بعد  لڑکی کا بھائی ایک کالعدم تنظیم کے آفس جا پہنچا  وہاں بتایا کہ میں کیس جیت گیا ہوں فلاں ابن فلاں میری بہن کے جہیز کا سامان  عدالت  کے حکم کے باوجود واپس نہیں کررہا اور نہ ہی بچے کا ماہانہ خرچ ادا کرتا ہے مختصر یہ کہ امیر صیب نے   میرے  کلائینٹ کو بلوایا اور اس کو حکم دیا کہ وہ کورٹ کے حکم کے مطابق جہیز کا سامان مدعی مقدمہ کو واپس کردے
میرے کلائینٹ  نے امیر صیب کو بتا یا کہ ابھی مقدمہ زیرسماعت ہے اور یہ ڈگری صرف خلع کی ہے اس لیئے جہیز کا سامان واپس نہیں مل سکتا  کیونکہ یہ  خود غیر شرعی کورٹ گیا ہے میں نہیں گیا مزید یہ کہ  اب سامان کورٹ کے حکم کے مطابق ہی واپس ملے گا
کالعدم تنظیم کے امیر نے حکم دیا کہ اب اس مقدمے کا فیصلہ شریعت کے عین مطابق فلاں تاریخ کو ہوگا
خیر مقررہ تاریخ کو یہ فیصلہ ہوا کہ لڑکی کا بھائی ہر ہفتے کالعدم تنظیم کے آفس میں بچے کی ملاقات اس کے باپ سے کروائے گا اگر تم لوگ بچے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو بچہ باپ کے حوالے کردو وہ خود ہی پال لے گا
جہیز کا سامان بچے کے  باپ کے پاس بطور امانت رہے گا کیونکہ تم لوگ (لڑکی والے)کرائے دار ہو اس لیئے کوئی بھروسہ نہیں کہ بچہ ہی لیکر بھاگ جاؤ اس لیئے جب بھروسہ آجائے گا تو جہیز کا سامان واپس کردیا جائے گا مزید یہ کہ آئیندہ فریقین عدالت نہیں جائیں گے عدالت میں جاری مقدمات خود ہی مٹی میں مل جائیں گے جب کہ وہ لڑکا جہیز کا آدھا سامان اب بیچ بھی چکا ہے
مجھے نہیں پتہ یہ جہالت پر مبنی فیصلہ کس اسلامی شریعت کے مطابق ہے لیکن اس قسم کے بے شمار فیصلے کالعدم تنظیموں  اور  مافیاز کے لوگ طاقت کے بل بوتے پر کرہی دیتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ فریقین تو عدالت  میں انصاف کیلئے آئے تھے وہاں ان کو انصاف کیوں نہیں ملا
جب ایک لڑکی انصاف کی تلاش میں دھکے کھاتی ہوئی عدالت میں پہنچ گئی تھی تو اس کو انصاف کیوں نہیں ملا
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جب پاکستان میں تنازعات کے متباد ل حل کی کوششیں ہوئیں تو سندھ ہایئکورٹ نے بحیثیت ادارہ ان کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک  پرایئویٹ ادارے کراچی سینٹر فار ڈسپیوٹ ریزولوشن کی بنیاد رکھی جس میں اپنے بیروزگار اور ریٹائرڈ جسٹس صاحبان کو روزگار دیا اللہ اللہ خیر صلا
جب نیت میں ہی فتور ہو تو منصوبے کامیاب نہیں ہوتے
 Safi

No comments: