Powered By Blogger

Saturday 16 August 2014

نااہلی ایک سنگین جرم ہے تحریر صفی الدین اعوان


مزدور کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا تو مزدور کی نوماہ کی حاملہ بیوی پولیس کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی اور بے ہوش ہوکر گرگئی جس کے بعد اس کو ہسپتال لے گئے جہاں اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا  البتہ مزدور کی بیوی کی جان کو بچالیا گیا
اسی دوران کراچی کے تھانہ سرجانی کی پولیس نے مزدور کوگرفتار کرلیا
فیکٹری کا مالک جو اصل ملزم تھا اس  نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی  
کاپی رائٹ کے تحت ایک فیکٹری مالک نے دوسرے فیکٹری مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی جس کے بعد پولیس نے بلال نامی مزدور کے گھر پر چھاپہ مارا تھا
سرجانی تھانہ پولیس نے ملزم کا ریمانڈ علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اب ایک نئے مسئلے نے جنم لیا  مجسٹریٹ ایماندار تھا
اور ہمارے بلاگ کے قارئین کو یقینناً یہ بات اب حفظ ہوچکی ہوگی کہ  ایماندار جج یا مجسٹریٹ کس کو کہا جاتا ہے  ایماندار سے مراد وہ ناسور ہے جس کو عدالتی کام نہیں آتا یا وہ کسی کا بھی کوئی کام نہ کرتا ہو تو ایسے ناسور اپنی نااہلی چھپانے کیلئے اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کیلئے ایمانداری کا لبادہ اوڑھ کر عدالت میں نت نئے تماشے لگاتے ہیں 
خیرپولیس نے ریمانڈ پیش کیا مجسٹریٹ نے ملزم کے ریمانڈ پیپر پڑھے بغیر اور سوچے سمجھے بغیر ملزم کو جیل روانہ کردیا کیونکہ  اس کیلئے کامن سینس کی بھی ضرورت ہوتی ہے جوکہ تھی ہی نہیں ایماندار ناسور کے علم میں وکیل صفائی یہ بات لیکر آئے کہ کاپی رائٹ آرڈیننس 2001 کے بعد اس قسم کے مقدمات میں اب  ایک شکایت رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ ہوگی اس لیئے مزدور کو رہا کیا جائے ویسے بھی یہ فیکٹری کا عام مزدور ہے اصل ملزم تو  فیکٹری کا مالک ہے نئے قوانین کے مطابق کیس بنتا ہی نہیں ہے لیکن وہ ناسور ایماندار ہی کیا جو بقراط نہ ہو  اور اس ناسور کی ایمانداری سے کسی انسان کو فائدہ پہنچ جائے  اور وہ ناسور ایماندار ہی کیا جو جو کسی انسان کا کام  وقت پر کردےایماندار ناسور نہیں مانا
دوسرا انسانی مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ اس مزدور کی بیوی نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا  اس کا جنازہ  اور کفن دفن کیسے ہو  کیونکہ نومولود کے والدکو تو ایک  ایماندار جج نے  پولیس کے ساتھ ملی بھگت کرکے جیل بھیج دیا تھا گھر میں بچے کے کفن دفن کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں اس لیئے  بچے کی لاش ایدھی سرد خانے میں رکھوادی ایماندار کے سامنے ضمانت کی درخواست جمع کروائی گئی تو اس نے کہا کہ  وکیل صاحب اس کی باقاعدہ سماعت ہوگی دن مقرر ہوگا عدالتوں میں انسانی مسئلے کوئ اہمیت نہیں رکھتے بچہ ہی مرا ہے نہ کوئی آسمان تھوڑا ہی ٹوٹا ہے۔۔۔خیر سماعت ہوئی جج نے ضمانت کی درخواست منظور کرلی اب ہفتے کا دن بینک بند۔۔۔ایماندار کے سامنے پھر ایک مدعا رکھا کہ بینک بند ہیں   ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ پیش نہیں کیئے جاسکتے گاڑی کے اوریجنل کاغزات موجود ہیں وہ بطور ضمانت جمع کرلیں وکیل صفائی نے کہا کہ میں اسٹیٹمنٹ دے دیتا ہوں کہ یہ کاغذات اوریجنل ہیں  اس لیئے ملزم کو رہا کردیا جائے تاکہ وہ اپنے بیٹے کا کفن دفن کرسکے


 ایماندار نے کہا کیونکہ عدالتوں میں جعلی کاغزات جمع ہوتے ہیں اس لیئے اس کی ویریفیکیشن لازمی ہوگی  مجسٹریٹ کو بہت کہا کہ ملزم پر کوئی سنگین کیس نہیں ہے کیس کی نوعیت ایسی ہے نہیں کہ یہ ملزم فرار ہوجائے و یریفیکیشن کی ضرورت سنگین نوعیت کے کیسز میں اس لیئے محسوس ہوتی ہے  کہیں ملزم بھاگ ہی نہ جائے

لیکن وہ ایماندار ہی کیا جو کسی کاکام کردے مختصر یہ کہ دودن انتظار کے بعد کاغزات تصدیق ہوکر آگئے تو ایماندار نے چھٹی مارلی اور دودن کے بعد عدالت میں آکر بدھ کے دن ملزم کی رہائی کے احکامات جاری کیئے اس طرح  وہ ملزم دس دن جیل میں رہا اور اس کے نومولود بچے کی لاش ایدھی کے سرد خانے میں نودن تک اپنے  باپ کی رہائی کا انتظار کرتی رہی  شام کو باپ رہا ہوکر آیا تو سب سے پہلے اپنے بچے کی آخری رسوم ادا کیں
بدقسمتی دیکھیں کہ اصل ملزم جیل گیا ہی نہیں اور پولیس نے ایک غریب مزدور کو کاپی رائٹ کے ایسے کیس میں دھر لیا جس میں نئے قوانین کے مطابق اب ایف آئی آر بنتی ہی نہیں ہے بلکہ متعلقہ رجسٹرار کے پاس  کمپنی یا فیکٹری کے خلاف شکایت درج ہوتی ہے اس کیس میں سزا تین سال ہے اور اس کی نوعیت دیوانی نوعیت کی ہے جس کیلئے ٹریڈمارک اور کاپی رائٹ کے رجسٹرار موجود ہوتے ہیں
اگر کوئی پڑھا لکھا تربیت یافتہ  مجسٹریٹ اس سیٹ پر موجود ہوتا  اور اس کو نئے قوانین سے آگاہی ہوتی تو کبھی بھی اس مزدور کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیلتا اور اگر جیل بھیجنا ضروری بھی ہوتا تو اس کے نومولود بچے کی موت کے بعداگر وہ مجسٹریٹ کوئی انسان ہوتا تو فوری طورپر اس کو کسی کی ذاتی ضمانت پر بھی چھوڑ دیتا۔لیکن وہ انسان نہیں تھا ایک انسان کیسے اتنا ظالم ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی نوعیت کے جرم میں زیرحراست شخص کو صرف اپنی جہالت کی وجہ سے رہا نہ کرے اس حالت میں کہ اس کے بچے کی لاش ایدھی کے سرد خانے میں اپنے باپ کی رہائی کی منتظر ہو
ان تمام ایماندار ججز سے معذرت جو اپنی ڈیوٹی ایک مشن سمجھ کرکرتے ہیں اور ہروقت انسانیت کی فلاح کیلئے کوشاں رہتے ہیں
عید یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ جوایماندار وقت پر کام نہیں کرتا اس سے وہ 
رشوت لینے والا جج ہزار درجے بہتر ہے جو پیسے تو لیتا ہے لیکن کام تو فوری طور پر کردیتا ہے

نااہلی ایک ایسا جرم ہے جس کی سنگینی کا ہم کبھی بھی اندازہ نہیں لگا سکیں گے 

No comments: