Powered By Blogger

Wednesday 8 October 2014

یہ زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے عہد کم ظرف کی ہر بات کو گوارا کرلیں

کراچی کے مضافاتی علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
یہ وہ کچی بستیاں ہیں جہاں صرف سر چھپانے کیلئے لوگوں کو جگہ مل گئی ہے
یہاں کی سڑکیں اور گلیاں کچی ہیں نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں ہے اور  اکثر کچی آبادیاں پہاڑی علاقوں میں  موجود ہیں جہاں پررہنا بھی کسی المیئے سے کم نہیں
جرائم کیلئے یہ علاقے ہر لحاظ سے مناسب ہیں یہاں  وہ بچے رہتے ہیں جن کو تعلیم کی مناسب سہولت نہیں ملتی یہاں وہ بچے رہتے ہیں  جن کی تربیت وقت خود ہی کردیتا ہے بیروزگاری یا تو جرم کے راستے پر لیجاتی ہے یا کسی تنظیم سے منسلک کروادیتی ہے
لاء سوسائٹی پاکستان نے ایسے ہی علاقوں میں قانونی مراکز قائم کیئے قانونی امداد کے ساتھ ہی ہم ایڈوکیسی کے حوالے سے پروگرامات بھی کرتے ہیں جن میں خواتین کی بھی شرکت ہوتی ہے
گزشتہ چند سالوں سے صورتحال بدل رہی ہے کچی آبادیوں میں بھی  ایسے نئے چہرے نظر آتے ہیں جن کا تعلق اس آبادی سے نہیں ہوتا ہے اسی دوران  ان کچی آبادیوں میں کالعدم تنظیموں نے اپنی تنظیم سازی کا عمل بھی مکمل  کرلیا جس کے بعد کراچی کی بنیادی سہولیات سے محروم کچی  بستیاں  کالعدم تنظیموں کی آماجگاہ بن گئی ہیں
اور ایسی تنظیمات جن کے عالمی سطح پررابطے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس حقیقت سے نظر چرارہے ہیں کہ کراچی میں  فرقہ واریت کی شدید لہر موجود ہے جو کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے
ہمارے مقامی آفسز کو ملنے والی دھمکیاں ایک معمول کا حصہ بن گئی  تھیں اور مقامی کمیونٹی کی مکمل حمایت کی وجہ سے شاید ہم نے ان کو سنجیدگی سے لینا چھوڑدیا تھا لیکن بدقسمتی سے یکم اکتوبر 2014 کا دن ہمارے لیئے ایک سیاہ ترین دن ثابت ہوا جب چار مسلح افراد ہمارے ایک پسماندہ علاقے میں واقعہ   ویمن اینڈ چلڈرن کرائسز سینٹر میں داخل ہوئے یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ  فون پر دھمکی دینے اور اچانک سامنے آکر دھمکی دینے میں فرق ہوتا ہے
مختصر یہ کہ مسلح افراد نے تین دن میں اپنی سرگرمیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلیئے بند کرنے کا حکم دیا اسی دوران انہوں نے میرا بیگ اٹھا لیا جس میں میرا لیپ ٹاپ اور ایک ڈیجیٹل کیمرہ تھا  میرا مکمل ریکارڈ اس لیپ ٹاپ میں موجود تھا اور میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اچانک اس سے محروم ہوجاؤں گا فطری طور پر مزاحمت کی غلطی کی جو کہ سنگین ثابت ہوئی اور ایک مسلح شخص نے ہاتھ میں پکڑے پستول سے میرے سر پر بٹ مارے ایک آنکھ کی چوٹ سنگین ثابت ہوئی نتیجے کے طور پر میں شدید زخمی ہوگیا مسلح افراد فرار ہوگئے اور میرے ساتھیوں نے مجھے اسپتال پہنچایا جہاں آنکھ کا آپریشن ہوا اللہ کا شکر ہے کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوں
اس واقعہ کا کمیونٹی نے سخت نوٹس لیا اور اپنی مکمل حمایت کے ساتھ ہمارے بعض سپورٹرز نے کہا کہ ہم ان  عناصر کے خلاف خود ہی نوٹس لیتے ہیں
ہمیں اپنے دوستوں اور کمیونٹی پر فخر ہے ہم کمیونٹی کو یہ بھی یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک پاکستان کو شدت پسندی سے بچانے کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ  یہ عناصر کوئی مقامی گروپ نہیں ہیں ان کے انٹرنیشنل رابطے اور انٹرنیشنل ایجنڈا ہے اس لیئے ہم فی الحال کراچی کی کچی بستیوں سے اپنا قانونی امداد کا پروگرام پندرہ دن کیلئے معطل کررہے ہیں اور اپنے سیکورٹی انتظامات کو بہتر بنا کر ہم اپنے آفسز دوبارہ کھول دیں گے
لیکن میں پاکستان کے پرامن شہریوں  کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بنیادی سہولیات سے محروم ان بستیوں میں ایک لاوہ پک رہا ہے فرقہ واریت  کی فصل تیار ہورہی ہے  ایک نفرت کی ایسی آگ سلگ رہی ہے جو کسی بھی وقت ایک مستقل سانحے کا سبب بن سکتی ہے
کراچی میں مستقبل میں فرقہ واریت ایک مشکل ترین مسئلہ ہوگا ہماری سول سوسائٹی کو اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور کراچی میں فرقہ وارانہ تصادم بہت بڑے پیمانے پر ہوگا جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے کراچی میں کالعدم تنظیموں نے ایک الگ سے عدالتی نظام بھی تشکیل دے رکھا ہے  جہاں انسانی حقوق  اور خواتین کے حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں  
جن دوستوں نے عیادت کی ان کا شکریہ جن دوستوں نے اپنے تعاون کا یقین دلایا ان کا شکریہ اور میرے بہت سے دوستوں نے حکمت عملی سے کام لینے کا مشورہ دیا میں صرف اتنا کہوں گا مجھے اپنی جان کی کبھی کوئی پرواہ نہیں رہی   لیکن اپنے رضاکاروں اور کمونٹی ممبرز کی جان  ومال کے تحفظ کیلئے ہر ممکن قربانی دیں گے مشکل حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں حکمت عملی سے کام لیں گے لیکن انتہاپسند عناصر کے سامنے سرجھکانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں اس فلسفہ پر یقین رکھتا ہوں کہ
یہ زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے
 عہد کم ظرف کی ہربات گوارا کرلیں


No comments: