Powered By Blogger

Monday 13 October 2014

قتل کی ایف آئی آر درخت کے ساتھ باندھ دی جائے تو درخت سوکھ جائے: تحریر صفی الدین


ایف آئی آر کو دنیا کی سب سے خوفناک دستاویز کہا جاتا ہے اور پنجاب میں تو یہاں تک مشہور ہے کہ "قتل کی ایف آئی آر کسی ہرے بھرے درخت کے ساتھ باندھ  دی جائے تو وہ درخت چند دنوں میں سوکھ جائے"
ایف آئی آر  کے زریعے  ہمیشہ سے ہی صرف  مخالفین کو سبق سکھایا جاتا ہے   اور ایف آئی آر اپنے کسی بھی ذاتی یا سیاسی مخالف کو تباہ برباد کردینے کا  ہمیشہ سے ہی کامیاب زریعہ ہے ایف آئی آر کا مقصد ہرگز انصاف نہیں ہے بلکہ  مخالف کو نیچا دکھانا ہے بلکہ اگر اپنے مخالف سے بدلہ لینا ہو تو اس کو قتل کرنے کی بجائے چند جھوٹی ایف آئی آر رجسٹر کروادینا زیادہ سخت انتقام ہے
عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کے بعد عدلیہ کیلئے ایک امتحان  یہ ہے کہ عدلیہ کی بالادستی کو ثابت کرنا ہے
پولیس   ہمیشہ سے ہی ذہنی طور پر عدلیہ کو اپنا ماتحت سمجھتی ہے پولیس  اپنے تھانے میں بیٹھ کر عدلیہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف رہتی ہے
کراچی میں چند ججز ہیں جنہوں نے عدلیہ  میں بیٹھ کر اپنے اختیارات  کے مناسب استعمال  کے زریعے  پولیس کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے ان کو ہر سطح پر خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے
ایک مجسٹریٹ  ہی وہ اتھارٹی ہے جو عدلیہ میں بیٹھ کر پولیس کی بالادستی کو چیلنج کرسکتی ہے ان کو ظلم کرنے سے روک سکتی ہے
کیا یہ حقیقت نہیں کہ پولیس نوے فیصد بے گناہوں کو گرفتار کرتی ہے۔۔۔۔۔کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ پولیس تفتیش کے دوران سارا زور گرفتاری پر دیتی ہے  پولیس شواہد کی بجائے ملزم کو گرفتار کرکے رشوت وصول کرنے کے چکر میں رہتی ہے لیکن بدقسمتی  سے آج بھی مجسٹریٹس کی اکثریت مناسب وجوہات ریکارڈ کیئے بغیر  ان بے  قصور اور بے گناہ شہریوں کو مشینی انداز میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتی ہے
آج عدلیہ اور انتظامیہ دونوں الگ الگ ہیں  لیکن پولیس رشوت لینے کے ایک ہزار ایک  طریقے جانتی ہے پولیس کو وہ سارے ضابطے اور طریقے زبانی یاد ہیں جن کے زریعے وہ رشوت وصول کرتے ہیں
ایک  عام  سا ملزم بھی پولیس کو کم ازکم پچاس ہزار تو دے ہی جاتا ہے
پولیس ایک بھرپور ریسرچ رکھتی ہے  کہ اس نے کس طرح عدلیہ کو شکست دینی ہے  پولیس کا ایک میٹرک پاس تفتیشی افسر اس لیئے مکمل تیاری کے ساتھ آتا ہے کہ  اس نے ملزم سے اچھی خاصی رشوت لینی ہوتی ہے پولیس جانتی ہے کہ عدلیہ کا کندھا کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے اس کی وجہ ان کا وہ زریعہ آمدن ہے جو وہ ایک مجسٹریٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حاصل کرتے ہیں جبکہ پولیس کے مقابلے میں ہمارا مجسٹریٹ غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار ہے
آج عدلیہ میں بھی ایک سوچ پیدا ہورہی ہے کہ کہ کیا صرف ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر مناسب وجوہات ریکارڈ کیئے بغیرکسی کو جیل بھیجا جاسکتا ہے؟
آج عدلیہ کا سب سے اہم ترین پرزہ اور انتظامی اختیارات کا حامل عہدہ مجسٹریٹ یہ سوچ رہا ہے کہ   وہ    اگر وہ صرف پولیس کے کہنے پر اپنا عدالتی ذہن استعمال کیئے بغیر صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر  بے قصور افراد کو جیل بھیجنے کی ڈیوٹی پر مامور ہیں تو یہ کام تو پٹے والا یا کوئی جونیئر سطح کا کلرک بھی کرسکتا ہے؟
آج  ہمارے مجسٹریٹ بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر پولیس ریمانڈ کیلئے ایک مجسٹریٹ ہی کے پاس کیوں آتی ہے اگر صرف مشینی ریمانڈ دینے ہیں  اور اگر پولیس کے  کہنے پر صرف اور صرف ایف آئی آر ہی کی بنیاد پر لوگوں کو جیل ہی بھیجنا ہے تو یہ ٹھیکہ پورے ضلع میں ایک کلرک کو دیا جاسکتا ہے؟
اگرچہ یہ ایک خالص علمی بحث ہے کہ اگر کسی ملزم کے خلاف شہادت موجود نہیں ہے تو اس  کوجیل کیوں بھیجا جائے؟ اور اگر وہ بے قصور ہے تو اس کو رہا کیسے کیا جائے؟
سب سے پہلے تو یہ سوچنا ہوگا کہ مجرم کیا سوچ رکھتا ہے؟ وہ پولیس کا تفتیشی افسر جو ہرروز عدالت سے ریمانڈ لیکر جاتا ہے وہ کیا سوچتا ہے وہ کس طرح سے  بے گناہوں کو پکڑتا ہے وہ کس طرح سے بے قصوروں  سے رشوت وصول کرتا ہے
جب تک عدلیہ اس سوچ کا تعاقب  نہیں کرتی اس وقت تک وہ  اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتی
ان تمام مجسٹریٹ حضرات کو خراج تحسین جو  عدلیہ کے وقار کیلئے کوشاں ہیں   جو اپنی عدالتوں میں بے قصور افراد کی ہتھکڑیاں  کھول کر  بے گناہ افراد کو پولیس کے چنگل سے نجات دلاتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنا موازنہ ان افراد سے کیوں کرتے ہیں جو صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر اچھے خاصے شریف آدمی کو شہادت کی غیر موجودگی میں جیل بھیج کر پولیس کے یس مین کا کرادار ادا کرتے ہیں
کیا عدلیہ کے اچھے لوگوں کا پولیس کے ذہنی ماتحت افراد کی حمایت کرنا  کھلا تضاد نہیں ؟
وہ زمانہ چلا گیا جب درخت پر قتل کی ایف آئی آر باندھنے سے درخت سوکھ جاتا تھا وہ زمانہ چلا گیا جب انتظامیہ کے پاس عدلیہ کے اختیارات بھی ہوتے تھے وہ زمانہ بھی چلا گیا جب پولیس  عدلیہ کا کندھا استعمال کرے گی تو ہم خاموش رہیں گے سوشل میڈیا سمیت ہر فورم پر بات کی جائے گی اور بھرپور بات کی جائے گی  
عدلیہ ہر صورت میں پابند ہے کہ وہ ان وجوہات کو  ریکارڈ پر لائے جن کے زریعے  ایک بے گناہ انسان کی آزادی کو ختم کرکے اس کو جیل  بھیجنا ضروری ہوجاتا ہے اگر  صرف اور صرف ایف آئی آر ہی کی بنیاد پر مناسب وجوہات ریکارڈ کیئے بغیر کسی کو جیل بھیجنا ضروری ہوتا ہے   تو یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔ایسے احکامات کے خلاف  ہم اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے

اگر عدلیہ اپنے مجسٹریٹس کی  اس موضوع پرمسلسل تربیت کا اہتمام کرے تو تھانہ کلچر کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے 

2 comments:

محمد سلیم said...

اللہ کرے وہ وقت جلد آئے جب شرفاء کی پگڑی محض ایک ایف ائی آر درج کرا دینے سے نا اچھالی جا سکے۔ افسوس ہوتا ہے کہ پولیس دیہاڑی کے چکر میں اور کسی کی مجبوری کا لحاظ کیئے بغیر غریبوں تک کو نہیں بخشتی۔ اگہی کیلئے لکھتے رہیئے۔ اللہ پاک آپ کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائیں۔

ایم بلال ایم said...

ہماری انتظامیہ اور عدلیہ میں بڑا فرسودہ نظام رائج ہے۔ یہاں ابھی بھی پٹواری سرکار اور تھانیدار بادشاہ ہے۔ بہرحال آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ آپ جیسے ہی مہربانوں کی وجہ سے اب حالات بدل رہے ہیں۔
بچپن میں ہم جس میدان میں کھیلا کرتے تھے ادھر کافی درخت تھے۔ ایک دن بڑوں کو دفعہ 302 کے متعلق باتیں کرتے سنا، جس میں انہوں نے اس کی سنگینی کا اظہار کچھ یوں کیا کہ اگر 302 لکھ کر کسی درخت پر چپکا دو تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ ہمیں درختوں کا کام تمام کرنے کا طریقہ مل گیا۔ سارے درختوں پر دفعہ 302 لکھ کر چپکا دیا۔ تب درخت تو نہ سوکھے لیکن آج بھی پنجاب میں جس پر دفعہ 302 لگ جائے وہ ضرور سوکھ جاتا ہے۔