Powered By Blogger

Thursday 26 February 2015

احساس کمتری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



بیٹی انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے خاص طور پر جب اکلوتی ہو۔ لیکن اکثر اوقات اکلوتی بیٹیاں بھی انسان کو دکھ دے جاتی ہیں 
چند ماہ قبل ایک  کراچی کے بہت بڑے تاجر نے جس کے کراچی کے  پوش علاقے میں دو شاپنگ سینٹر ہیں رابطہ کیا ا ور ایک فیملی کے معاملے پر قانونی مدد چاہی  ایک نامور  مرحوم تاجر کی   دواولادیں  تھیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ،بیٹی بہت پیاری تھی اور لاڈلی تھی لیکن کہتے ہیں نہ کہ عشق نہ پچھے  ذات بعض بیٹیاں ایسی غلطیاں کر جاتی ہیں جن کی قیمت ہر لمحہ ادا کرنی پرتی ہے دس سال پہلے شرارتی ماں باپ کی لاڈلی اور ضدی بیٹی نے ایک  سنگین غلطی کی

 ایک غریب لڑکے سے پسند کی شادی  یعنی کورٹ میرج کرلی یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کی ماں کو توقع ہی نہ تھی اور  لڑکا بھی ایسا  کنگلا جس کے پاس نہ روزگار نہ تعلیم مختصر یہ کہ ماں باپ اور بھائی  نےمجبوراً کمپرومائز کیا  کورٹ میرج کے بعدلڑکی کو گھر سے رخصت کیا کچھ عرصے بعد اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر اس کو غریب بستی سے  کلفٹن منتقل کیا ایک قیمتی فلیٹ بھائی نے تحفہ کے طور پر دیا  جس کی موجودہ  مالیت  دوکروڑ سے بھی زیادہ ہے اور بہن کو پچاس ہزار روپیہ نقد بطور خرچ ادا کرنا شروع کیا  اور گھر کے جو بھی اخراجات تھے وہ اداکرنے شروع کیئےلیکن  ان ساری کوششوں کا الٹا نتیجہ یہ نکلا کہ  اس لڑکی کا غریب شوہر احساس کمتری کا شکار ہوا  اور عجیب وغریب رویئے کا اظہار کیاکیونکہ غریب کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اکثر غریب ہوتا ہے جو اس کو احساس کمتری کا مریض بنادیتے ہیں یہ احساس کمتری کا شکار لوگ بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں 
میرا اپنا ایک دوست  تھا  وہ تو احساس کمتری کا باقاعدہ مریض تھااس کے باپ نے دو شادیاں کیں  اور  اس  کو بچپن میں  ہی باپ نے  گلیوں میں رلنے کیلئے لاوارث چھوڑدیا وہ بچپن میں بدترین غربت کا شکار ہوا جیسے تیسے مانگ تلنگ کے تعلیم حاصل کی اور جب وہ تھوڑا صاحب اختیار ہوا تو  میں مشاہدہ کرتا تھا کہ وہ ایک عجیب سا نفسیاتی اور شکی مریض بن گیا ہر وقت احساس کمتری ہر لمحہ وہ احساس کمتری میں مبتلا رہتا تھا اور لوگوں کو بے عزت کرکے اس کو عجیب سا نفسیاتی سکون ملتا تھا اپنے ماتحت عملے کو تو اس نے کبھی جانور کا درجہ بھی نہیں دیا اسی طرح لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہونا بھی اس کا ایک مشغلہ ہی تھا  احساس  کمتری کے مریض کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو بھی ذلیل کیا جائے اس مظلوم لڑکی کے ساتھ بھی یہی حال ہوا وہ بھی کسی کے نفسیاتی تشدد ، احساس کمتری کا شکار اور نشانہ بنی
لڑکی نے عشق میں مبتلا ہوکر جو غلطی کی اس کی قیمت ہر لمحہ ادا کی احساس کمتری کا شکار شوہر نے ہر لمحہ ذہنی اذیت دی  جس کو مظلوم لڑکی نے برداشت کیا کچھ عرصے بعد جسمانی تشدد کا بھی آغازہوا جو کہ بڑھتا گیا دوبچوں کے ماہانہ تعلیمی اخراجات بھی والدین ادا کرتے تھے   اس کے باوجود لڑکی پر پابندی تھی کہ وہ والدین کے گھر نہیں جاسکتی تھی ،دس سال بعد اس لڑکی نے بالآخر اپنی دس سال پہلے کی جانے والی غلطی کو سدھارنے کا فیصلہ کیا ماں کے ساتھ دو بچے بھی باپ کے احساس کمتری کا نشانہ بن رہے تھے
انہوں نے ہم سے قانونی مشورے کے بعدگھر چھوڑا  لیکن وہ پورا خاندان بے حد خوفزدہ تھا اس کے شوہر نے دس سال کے دوران اسقدر ذہنی اذیت اور خوف وہراس پیدا کیا کہ وہ لڑکی خواب میں بھی ڈر جاتی تھی  دس سال کے دوران لڑکی پر ایسا ذہنی اور نفسیاتی تشدد تھا کہ وہ لڑکی محسوس کرتی تھی کہ اس کا شوہر اس کے پورے خاندان ہی کو مٹادے گا۔خیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اس نے گھر چھوڑا
جب وہ چلی گئی تو پھر احساس کمتری کے نفسیاتی مریض کو احساس ہوا کہ اس سے کیا غلطی ہوچکی تھی معافی مانگی لیکن لڑکی نے معاف نہیں کیا پہلے فلیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ملکیت اپنے نام نہ کرواسکا بالآخر اس کو فلیٹ چھوڑنا پڑا  لیکن چند روز بعد ہی نام نہاد عاشق نے دھوم دھام سے شادی کی
لڑکی نے گھر چھوڑنے کے فوراً بعد ہی
خلع  اور بچوں کے ماہانہ اخراجات کا کیس داخل کیا کورٹ نے خلع کا فیصلہ اس کے حق میں دیا  بچوں کے ماہانہ اخراجات کی بات آئی تو سابق شوہر نے بے روزگاری اور غربت کا بہانہ بنایا اور کورٹ کے سامنے ہاتھ جوڑ لیئے کہ اس کے پاس بچوں کے اخراجات ادا کرنے کیلئے  کچھ بھی نہیں ہے
لڑکی نے معاف کیا تو لڑکے کا وکیل جو وکیل کم اور گھاگ شکاری زیادہ تھا اور  لڑکی  کی کردار کشی کیلئے بہت سا مواد اکٹھا کرکے لایا تھا ،  لیکن جج نے  گھاگ وکیل کو کسی بھی قسم کی کردار کشی  کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیالیکن گھاگ وکیل کوشش کرتا رہا کہ  اس کے کلائینٹ کے خلاف  کیس چلتا رہے لیکن اس کے باوجود لڑکی نے کہا کہ کیا میرے لیئے یہ کافی نہیں کہ یہ شخص میری زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلا جائےصرف اس شرط پر اپنا کیس واپس لینے کیلئے تیار ہوں کہ یہ شخص میری زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلاجائے  
اس طرح ایک المناک کہانی اپنے انجام کو پہنچی
لڑکی نے اس شرط پر کہ اس کا سابق شوہر زندگی بھر اس کو تنگ نہیں کرے گا بچوں کے اخراجات کا مقدمہ واپس لے لیا 
بیٹیوں کی بہت سی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی بھاریی قیمت ان کو ادا کرنی پڑتی ہے
لڑکیوں کو ایسی غلطی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا چاہیے بہت سے جذباتی فیصلے عمر بھر پریشان کرتے ہیں آج کل جو معاشرے میں کورٹ میرج کا چلن چل نکلاہے اور چار دن کی محبت کے بعد کورٹ میرج کے اکثر ہی بھیانک نتائج نکل رہے ہیں ان تمام نتائج کا تعلق معاشی  اور نفسیاتی مسائل سے بھی ہے 
میں نے اپنے کلائینٹ سے کہا کہ سزا اس کا حق تھی معاف کرنا اچھی بات ہوتی ہے لیکن اس کو سزا ملنا چاہیئے تھی
اس مظلوم لڑکی کے آنکھوں سے دو معصوم سے آنسو گرے  اور وہ صرف اتنا کہہ پائی کہ جج صاحبہ کی آنکھوں میں میرے لیئے  جو عزت تھی اور  میرے سابق شوہر کیلئے جو نفرت تھی وہی میری جیت تھی آج چند لمحوں کے دوران پری ٹرائل کے دوران جو کچھ بھی ہوا میں نے زندگی بھر کی  زیادتیوں کا بدلہ اس سے لے لیا ہے
اور جہاں تک بات ہے پیسے کی  تو کیا پیسے سے خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں پورے دس سال میرے بھائی اور ماں  نے  میری خوشی کیلئے   میرے ایک غلط  فیصلے کودرست فیصلے میں تبدیل کرنے کیلئے  میرے شوہر  کی ہر ڈیمانڈ پوری کی  لیکن میرے لیئے خوشیاں نہ خرید پائے
وہ دنیا کا کونسا بازار ہے جہاں پیسے سے خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں 
میرے ایک غلط اور جذباتی فیصلے کی وجہ سے نہ صرف پوری زندگی برباد ہوگئی بلکہ میرے بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے

No comments: