Powered By Blogger

Friday 27 February 2015

وہ ایک رات صدیوں کے برابر ہوتی ہے ٭٭تحریر صفی الدین اعوان



غریب لوگ رات آٹھ بجے ہی وہاں جمع ہوجاتے ہیں
وہاں ایک لمبی لائن ہرروز لگتی ہے ضرورت مندوں کی غریبوں کی سسکتی ہوئی انسانیت کی لائن
ساحلی بستی کے موٹے مچھر رات بھرساحلی بستی کے  ان غریبوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں ۔سردی ہو یا گرمی روز کا یہی معمول ہے  اس ہسپتا ل کے باہر ہرروز غریبوں کی ایک لمبی لائن لگتی ہے  اس لائن میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی
جو لوگ ضرورت کے تحت لائن میں لگتے ہیں ان کیلئے   ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ  ان غریبوں کیلئے انتظار کے وہ لمحے کتنے طویل ہوتے ہیں رات کے وقت صبح کا انتظار کتنا جان لیوا ہوتا ہےایک ایک منٹ سال کے برابر ہوتا ہے اور  اگر انسان بیمار ہو یا تکلیف میں ہوتو ایک ہی رات صدیوں کے برابر ہوتی ہے
مچھروں سےلڑتے لڑتے صبح ہوجاتی ہے اور صبح مقررہ وقت پر اسپتال کا دروازہ کھل جاتا ہے

لیکن صرف 80 مریضوں کو اندر داخلے کی اجازت دی جاتی ہے چالیس مرد اور چالیس عورتیں  ان کو نمبر کی پرچی الاٹ کی جاتی ہے باقی لوگ مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں  یوں رات بھر کا انتظار بیکار چلاجاتا ہے
ڈاکٹروں کا پینل ان مریضوں کا معائینہ کرتا ہے اور اگر ڈاکٹر یہ محسوس کریں کہ ان کو اس اسپتال میں علاج کیا جاسکتا ہے تو ان کو ایک کارڈ جاری کردیا جاتا ہے تو اس کے بعد ان مریضوں کی دیکھ بھال اس اسپتال کا فرض بن جاتی ہے 
مریض پر آنے والے تمام اخراجات اسپتال برداشت کرتا ہےیہی اس اسپتال کی سب سے بڑی خوبی ہے
غریبوں کیلئے قائم کیئے گئے اس اسپتال کا نام "انڈس اسپتال " ہےہم سوچ نہیں سکتے کہ یہ ادارہ کراچی میں غریب لوگوں کے علاج معالجے کیلئے کس قدر خطیر رقم خرچ کررہا ہے
کراچی کے شہری اور سرمایہ دار غریب پرور ہیں میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے اگر زراسی توجہ دی جائے تو  انڈس اسپتال جیسے کئی ادارے قائم کیئے جاسکتے ہیں 
اگر ہم تمام لوگ مل کرکوشش کریں تو انڈس اسپتال جیسے مزید ادارے کراچی میں قائم ہوسکتے ہیں اگر ایسے ادارے وجود میں آئیں گے تو حکومت پر بھی بوجھ کم ہوجائے گا اور انڈس اسپتال پر بھی  رش کم ہوگا لوگوں کی لمبی لائن آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجائے گی اور ایک دن وہ وقت بھی آجائے گا کہ  ایک غریب شخص یا ایک باعزت پاکستانی شہری عزت سے اسپتال میں   آئے گا اور اپنا طبی معائینہ  کروائے  گا خیر انڈس اسپتال میں عزت تو آج بھی دی جاتی ہے لیکن جب ایک اسپتال کے وسائل ہی محدود ہوں تو اس کے پاس کوئی راستہ بھی موجود نہیں ہوتا اگر وسائل میں اضافہ ہوگا تو ان کی سروسز بھی پہلے سے زیادہ ہوجائیں گی اسٹاف میں اضافہ ہوگا

اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنا ذہن یہ بنائیں کہ ہم اپنا پیسہ نیکی کے دیگر کاموں میں بھی لگائیں گے  نیکی کے ان کاموں میں اسپتال بنانا بھی شامل ہے مسجد بنانا نیکی کا بہت بڑا کام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں لوگوں نے صرف مسجد بنانا ہی نیکی کاکام سمجھا ہے  علماء اکرام کو چاہیئے کہ لوگوں کی رہنمائی کریں  اور  ایسے نیکی کے کام بھی کیئے جائیں جن سے خلق خدا کو براہ راست بھی فائدہ پہنچے

بہرحال انڈس اسپتال کورنگی میں بہت بڑا کام کررہا ہے  اور ایسے ایسے واقعات  لوگ  بیان  کرتے  ہیں جن کو سن کر دل بہت  خوش ہوتا  ہے ہم انڈس اسپتال کے تمام معاونین کیلئے دعاگو ہیں جنہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے میں اللہ تعالٰی سے دعاگو ہوں کہ   ان تمام لوگوں کو کامیابی عطا فرمائے
پاکستان میں لوگوں کو آج بھی ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو ان کا پیسہ ایمانداری سے خرچ کریں 
مذہب کا نیکی کے کاموں سے گہرا رشتہ ہے کسی زمانے میں میرے آبائی شہر میانوالی میں سکھ بھی آباد تھے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میانوالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں  میرا جانا ہواتومیں نے مشاہدہ کیا کہ وہاں 1947 میں بھی ہائی اسکول قائم تھا  ایک تالاب بنوایا گیا تھا اور ایک ڈسپنسری بھی قائم تھی جوکہ  اس علاقے کے مقامی سکھوں نے اپنی مزہبی فریضے کے تحت بنائے تھےاور غربت کے باوجود قطرہ قطرہ کرکے دریا بن گیا تھا

پاکستان کے مذہبی طبقے ،میڈیا،ہمارے ادیبوں ،سیاستدانوں اور سوشل میڈیا پر موجود باشعور افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کی ذہن سازی کریں سماجی بہبود کو مذہب سے منسلک کردیا جائےجب لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر اسکول بنائیں گے اسپتال بنائیں گے تو یہ بہت سے چھوٹے قطرے بارش بن کر برسیں گے اور نیکی  کا دریا رواں دواں ہوجائے گا

 ہمارے ہاں عوام نیکی کے جزبے سے سرشار ہیں وہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن شاید نیکی کے کام کا سب سے آسان کام یہی نظر آیا ہے کہ لوگ جاکر ایک مسجد  بنادیتے ہیں  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ  بھی نیکی ہے   لیکن انسانیت کی خدمت پر بھی  توجہ کی ضرورت ہے

یہ تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہے جب   مذہب کا مطلب ہی انسانیت کی خدمت قرار پائے گا تو ہر گلی ہر محلے میں  ایک  انڈس اسپتال  موجود ہوگا  جہاں انسانیت کی خدمت مذہبی فریضے کے طور پر کی جائے گی     

No comments: