Powered By Blogger

Monday 25 April 2016

میرا اردو بلاگ ...امیدیں توقعات اور چیلنجز تحریر صفی الدین اعوان

بار اوربینچ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سوالیہ نشان رہے ہیں ۔ بینچ اور وکلاء کے درمیان تعلقات بھی ہمیشہ ایک کیمسٹری کے مضمون کی طرح رہے ہیں  جو کبھی سمجھ نہیں آتے
بار کے منتخب عہدیدار سے پہلی بار واسطہ اس وقت پڑا جب ہم وکالت کے شعبے میں نہیں آئے تھے  اورایک رشتہ دار کی کسی  معمولی کیس میں ضمانت کروانی تھی  منتخب عہدیدار نے باتوں ہی باتوں میں بتایا کہ سیشن جج تو بار کے عہدے کی وجہ سے اس کا  "یار"ہے
جس دن ضمانت کی درخواست کی سماعت تھی  تو وکیل صاحب نے بتایا کہ رات بار کے ڈنر میں ملاقات ہوئی تھی سیشن جج سے آپ کے کیس کا ذکر کیا تھاامید ہےکام ہوجائے گا۔ خیر دوران سماعت سیشن جج کا موڈ کافی  خراب دکھائی دیا ایک ٹیکنیکل ایشو پروکیل صاحب کی  کلاس لی  لیکن ضمانت کی درخواست منظور کرلی  وہ لمحات قیامت کی طرح تھے کیونکہ اگر ضمانت منظور نہ ہوتی تو مسئلہ ہوجاتا
اس وقت ہی یہ بات ذہن میں ڈال دی گئی تھی کہ اگر ڈسٹرکٹ کورٹس سے کوئی کام کروانا ہے یعنی کوئی چھوٹی موٹی ضمانت کروانی ہے  تو بار کے عہدیدار کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں ایک بات یہ بھی ذہن میں رہی کہ بار کے  مشہور عہدیداران کو مشکل قسم کے قتل وغیرہ کے مقدمات ملتے ہیں جن  میں ضمانت وغیرہ کروانا ایک عام وکیل کیلئے ناممکن ہوتا ہے تو  مشہور عہدیدار  بریف کیس کے زریعے اس ناممکن کو ممکن بناتے ہیں  
یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے ۔  بار کے   چند مخصوص عہدیداران کو خصوصی ریلیف ملتا ہے ۔لیکن ہر عہدیدار کو یہ ریلیف نہیں ملتا اور یہ بات بھی کافی حد تک درست ہے کہ  بڑی رقوم کی ادائیگی بار کے انتہائی قابل اعتماد لیڈرز کے زریعے ہی ہوتی ہے۔  اگرچہ کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے لیکن بار  کے صدر وغیرہ کی اصل  ذمہ داری  قتل سمیت بڑے مقدمات  میں   لین دین  کیلئے "سہولت کار"  کا فریضہ سرانجام دینا ہے ۔   اور ماہانہ اس قسم کے معاملات میں کروڑوں روپے کی ڈیل ہوتی ہے  لیکن صرف بڑے شہروں میں
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کیلئے  بار کے عہدیداروں کی رائے کومدنظر رکھا جاتا تھا  لیکن اچھے وکلاء  نے کبھی جج بننے کیلئے کوشش نہیں کی ۔۔۔۔  اس زمانے میں عدالتوں سے ملزمان  کو سزائیں  دینے کا بھی رواج  تھا  اس زمانے میں  بشیرا سسٹم  رائج  نہیں  ہوا تھا ۔وقت کا المیہ اور بشیروں کے عروج کے بعد    عدلیہ  مذاق  بن گئی    کورٹ  صرف حاضری  لگانے کی جگہ بن گئی ہے جیسا کہ کسی پرائمری اسکول میں بچے حاضری لگانے آتے ہیں ، چند ماہ  کے بعد  بشیرے ملزم  کے ہاتھ میں بریت  کا  لیٹر پکڑا  دیتے ہیں  جس کی وجہ سے جب کسی  کو سزا کا خوف ہی نہیں تو کوئی  فیس  کیوں دے گا   قابل وکلاء مالی مسائل  کا شکار ہوئے آج مالی مسائل کی وجہ سے  انتہائی قابل ترین وکلاء  جج بننے کی لائن میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو  سلیکشن  کیلئے اہمیت نہیں دی جاتی ۔۔۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ   کمزور بار  سے رائے لی ہی نہیں جاتی بلکہ اب تو معاملات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ بار کے ایک  اہم ترین عہدیدار کو جن کی قابلیت  کا ایک زمانہ قائل ہے   ان کو نشانہ بنا کر منتخب نہیں کیا گیا
دومسائل جنم لے چکے ہیں  بار کمزور ہوچکی ہے ۔ وکلاء تقسیم  درتقسیم ہوچکے ہیں   عدلیہ وکلاء اور کمزور بار کی یہ کمزوری جانتی ہے    

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کا بنیادی یونٹ مجسٹریٹ کا ہے جن کو تربیت دینے کیلئے تربیت یافتہ اسٹاف دستیاب نہیں ہے ۔ تجربہ کار وکلاء کو نظرانداز کرکے  ان لوگوں کو شامل کیاجاتا ہے جنہوں نے کبھی عدالت میں پریکٹس نہیں کی یہ سال اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ  اس سال بہت بڑی تعداد میں  تجربہ کار وکلاء کو عدالتی نظام میں شامل کیا گیا ہے   لیکن بشیرے بھی کثیر تعداد میں بھرتی ہوکر آئے ہیں جن لوگوں نے  وکیل کی حیثیت سے  عدالتوں میں خدمات سرانجام نہیں دی ہیں نہ جانے وہ کس طرح  عدالتی نظام میں فٹ ہونگے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے شاید اس سوال کا جواب اس  چیف بشیرے کے پاس ہوگا جس نے ہایئکورٹ میں بیٹھ کر یہ گندی پالیسی تشکیل دی ہے    
حالانکہ ڈسٹرکٹ کورٹس تو تربیت کے اہم ترین ادارے ہیں یہاں سے جن وکلاء  نے پانچ سال پریکٹس کی اور وکالت کے شعبے کو جوائن کیا  وہ بہترین جوڈیشل افسر ثابت ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے بار کی  رائے کو نظرانداز کیا گیا ماضی میں   لیڈر شپ سے محروم لوگوں کو عدلیہ  میں شامل کیا گیا جس کے اثرات ہم ہرجگہ محسوس کرتے ہیں  عدلیہ مجبور ہوجاتی ہے  کیونکہ جب ہایئکورٹ کیلئے  ایلوویشن کی جاتی ہے تو مجبوری میں  بشیرے ہی  منتخب کیئے جاتے ہیں  کیونکہ بشیروں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے
بارہا ایک  بات سامنے آتی ہے کہ اب ڈسٹرکٹ کورٹس میں لوگ مناسب فیس ادا نہیں کرتے ہیں  اس کی ایک  اہم  وجہ کرپشن ہرگز نہیں ہے   نچلی سطح پر  اب تجربہ کار وکلاء کی بھی کمی ہے اور ججزکی  بھی

دوسری طرف اخلاقی طور پر سندھ ہایئکورٹ اس وقت بہت بلندی پر پہنچ گئی ہے   آدم ایچ سنگھار، عالیہ ملک، رومانہ صدیقی اور ارم جہانگیر  جیسے  نااہل  اور بدعنوان  لوگ آج ہمارے عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہیں  سجاد علی شاہ  صاحب کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سجاد علی شاہ صاحب اور محترم  فیصل عرب صاحب نے صوبہ سندھ کے عدالتی نظام سے کرپشن کو کافی حد تک ختم   کیا ۔ لیکن  جن  ججز کیخلاف  کاروائی  کی گئی ہے ان ججز نما چوروں ڈاکوؤ ں  اور ڈکیتوں نے  جس طریقے سے ماضی  قریب میں جج کی مقدس سیٹ پر بیٹھ کر   عدالتی سسٹم کو تباہ و برباد کیا وکلاء کی پریکٹس کو تباہ کیا   اس کا ازالہ قیامت تک ممکن نہیں ہے  
  لاء سوسائٹی پاکستان کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ ہم نے نہ صرف بدعنوان عناصر کی نہ صرف  بروقت  نشاندہی کی  بلکہ   ان کے خلاف متعلقہ فورم پر ریفرنسز بھی داخل کیئے   اس  پر ہمیں روکا بھی گیا  اور شدید نتائج  کی دھمکیاں  بھی دی گئیں ۔جس کے سب سے زیادہ نقصانات ہمیں ہوئے  میری پریکٹس کو نشانہ بنایا گیا   مجھے ذاتی طور پر بہت زیادہ مالی نقصان ہوا لیکن میں نے معافی کی بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے    اپنی جنگ جاری رکھی اور  آخر کار ایک ایک کرکے وہ تمام لوگ ماضی کا حصہ بنتے چلے گئے جنہوں نے مجھے نشانہ بنایا تھا۔ اسی دوران میں نے اپنی وکالت کو دوبارہ مستحکم کیا  میں وکلاء کو مشورہ دوں گا کہ کوئی ارم جہانگیر کوئی رومانہ صدیقی کوئی آدم ایچ سنگھار اور کوئی عالیہ ملک  راستے کی رکاوٹ بنے تو  ان کے سامنے سر نہیں جھکانا ان کے غیرقانونی اقدامات کو تحریر ی شکل دے کر  حلف نامے کے ساتھ  رجسٹرار کے پاس  ایسے عناصر کے خلاف درخواست ضرور دیں لیکن مقامی  بار کے اوپر کسی صورت میں بھروسہ نہ کریں کیونکہ بار کے مرکزی عہدیدار  ہرصورت میں  کرپشن  کیلئے صرف سہولت کار کا فرض سرانجام دیتی ہے  موجودہ دور میں ایک مردہ ادارے کا یہ رول بھی غنیمت  ہے  کمزور ادارے کا یہ رول بھی اب خاتمے کی جانب گامزن ہوچکا ہے کیونکہ  اب  اوپر سے بار کے ساتھ عدم تعاون کی  پالیسی نافذ ہوچکی ہے    

کوئی کتنا بھی بااثر جج کیوں نہ ہو  اگر وہ کرپشن کرے گا تو آپ کی درخواست اس کو  ایک  دن کیفرکردار تک ضرور پہنچائے گی  اس لیئے خاموش مت رہیں خاموشی بھی ایک جرم ہے
جو لوگ صرف باتیں کرتے ہیں عدلیہ کی کرپشن کی جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں وہ صرف بزدل اور نااہل ہیں جو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں  اور ایک قدم آگے بڑھ کر کبھی بھی کرپشن کے خاتمے کیلئے کوشش نہیں کرتے
دوستوں کاایک اعتراض یہ بھی تھاکہ  اردو بلاگ  کا لہجہ درست نہ تھا لب و لہجہ گستاخ تھا   عدلیہ کے شایان شان نہیں تھا  لیکن  وقت  نے یہ ثابت کیا کہ نظام کے اندر شدید گڑبڑ موجود تھی اور موجود ہے  یہی وجہ ہے  کرپشن چوربازاری فراڈ اور دھوکہ دہی میں ملوث  بہت بڑی تعداد میں ججز کے خلاف کاروائی کرکے ان کو فارغ کردیا گیا ہے،  ہمارے مؤقف کی سچائی کو وقت نے ثابت کیا ہے  لیکن جن لوگوں کو فارغ کیا گیا ان لوگوں  نے ہمارے معاشرے میں جس طریقے سے جرائم کو پروان چڑھایا  اس کا ازالہ ناممکن ہے
یہ صورتحال ان لوگوں کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے جو  لاء سوسائٹی کے اردو بلاگ کو  تنقید  کا نشانہ بناتے تھے  
لاء سوسائٹی پاکستان ایک واحد ادارہ ہے جس کا اردو بلاگ  پوری  دنیا  میں وسیع پیمانے پر پڑھا جاتا ہے ہم پالیسی ساز ی کا حصہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالٰی کا احسان عظیم ہے کہ ہماری رائے پالیسی کارخ ضرور متعین کرتی ہے  بہت سے مقامات پر واضح طور پر توہین عدالت محسوس ہوتی تھی لیکن نوٹس اس لیئے نہیں لیا گیا کہ ہم نے جو بات کی اس کے پیچھے سچ موجود تھا   چغل خور عناصر نے عدلیہ میں جاکر ہمارے بلاگ کے حوالے سے چغلیاں کھائیں لیکن ان کا یہ عمل تبدیلی کا باعث بن گیا سچ کوکوئی شکست نہیں دے سکتا ہماری سچائی ہماری طاقت ہے  ایک بلاگر کی حیثیت سے میں نے کبھی بھی کسی قسم کا کوئی ڈر اور خوف کبھی بھی محسوس نہیں کیا  اور سچائی کو بیان کیا  کسی نقصان کیپروا کیئے بغیر
ہمارے خلاف بدعنوان عناصر نے توہین عدالت کے جھوٹے مقدمات دائر کیئے جن کا ہم سامنا کررہے ہیں
سوشل  میڈیا کے زریعے ہماری آواز  پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں تک پہنچی  ۔ عدالتی معاملات سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے  ہمارے اردو بلاگ کے زریعے  عدالتی نظام کے اندر جھانکنے کی کوشش کی  اردو بلاگ میں اٹھائے گئے ہمارے  بیشتر مطالبات وقت کے ساتھ ساتھ تسلیم کیئے جاچکے ہیں  عدلیہ کا نظام آن لائن  ہوچکا ہے  کیس کی ڈائری آن لائن دستیاب ہوتی ہے  بدعنوان  ججز کی بہت بڑی تعداد فارغ ہوکر گھر جاچکی ہے ۔اور جن ججز کے خلاف شواہد موجود ہیں ان کے خلاف انکوائریاں  چل رہی ہیں ۔لیکن اس ساری صورتحال  میں بار کا کوئی کردار ہمارے سامنے موجود نہیں ہے بار کی عدم موجودگی میں صرف اور صرف لاء سوسائٹی ہی ایک ایسا ادارہ تھا جو  مشکلات  کے باوجود آواز بلند کررہا تھا ۔  یہ فتح نہیں تو اور کیا ہے۔  لاء سوسائٹی  کا بلاگ   عدلیہ میں  پالیسی سازی کے عمل    پر سب  سے زیادہ  اثرانداز ہوا  اعلٰی  عدلیہ میں  سب  سے زیادہ  بلاگ  پر بحث  مباحثہ  ہوا کہ اس  کے خلاف  کیسے ایکشن لیاجائے گزشتہ دنوں بھی ایک دوست نےپیغام دیاکہ عدلیہ کے ساتھ مل جل  کر کام کرنا مناسب ہے وقت کی ضرورت  ہے  میں نے جواب دیا کہ ملکر  چلنے سے کیا مراد ہے کیا ہم عدلیہ کے پاؤں پڑجائیں  کیا ہروقت ان کی مدح سرائی کرتے پھریں  اور ہروقت  مخصوص لوگوں کی چاپلوسی کرتے پھریں    تو یہ  ہرصورت میں ناممکن ہے
وقت آگیا ہے کہ اب  ہمیں اپنے مسائل پر کھل کر بات کرنی ہوگی۔ سوشل میڈیا ایک بہترین فورم ہے ۔ بار جیسا عظیم ادارہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ بار کے  عہدیداران  کی ساری توجہ آنے والے الیکشن  پر ہوتی ہے    اور صرف اور صرف  الیکشن کا کھیل ہی کسی نہ کسی صورت سارا  سال جاری وساری رہتا ہے  ۔بار میں  مضبوط لیڈرشپ موجود نہیں  ہے وکلاء کی ایک اکثریت سوشل میڈیا پر موجود ہے اور بہت سے نان ایشوز پر سارا دن بات کی جاتی ہے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک عظیم مقصد یعنی عدالتی اصلاحات  کیلئے استعمال کریں ۔
عدلیہ میں آنے والے  ملزمان کی اکثریت کو باعزت طور پر بری کردیا جاتا ہے یہ شرح  ننانوے فیصد تک جاپہنچی ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ  عدالتی نظام کی یہی کمزور ی وکلاء  کو معاشی طور پر تباہ کررہی ہے جب عدالتی نظام سے سزا کا تصور ہی ختم ہوجائے گا  تو لوگ وکلاء کو فیس کیوں اداکریں گے  اس کی وجہ صاف ظاہر ہے
عدلیہ کا بنیادی یونٹ مجسٹریٹ   ہے جس کے سامنے ریمانڈ پیش کیا جاتا ہے جس کے سامنے ملزمان کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا ہے  ہمارا مجسٹریٹ  تفتیش کی بنیاد کو  ہی نہیں سمجھتا    مزید بدقسمتی یہ ہے کہ  وہ  اہلیت  ہی نہیں رکھتا  بہت  بڑی  تعداد میں بشیرے  عدالتی نظام  میں موجود ہیں جن میں دھڑا دھڑ اضافہ ہی کیا جارہا ہے  ہایئکورٹ میں بیٹھے کسی   بشیراعظم  کو کسی نے غلط پٹی پڑھا دی ہے کہ جو وکیل  ناتجربہ کار ہوگا جس نے عدالت میں پریکٹس  نہیں کی ہوگی وہی اچھا  جج ثابت ہوسکتا ہے  حالانکہ یہ  ناممکن ہے اس قسم کے لوگ صرف مسائل ہی کا سبب بنتے ہیں  غلط تفتیش کی رپورٹ جب غلط شخص کے سامنے پیش کی جاتی ہے  تو وہ غلط آدمی غلطی سے  پولیس  کی تفتیش سے غلط طور اتفاق کرتا ہے وہ سادہ دل انسان آج تک یہ فلسفہ ہی حل نہیں کرسکا کہ قتل ایک سیشن ٹرائل ہے تو پولیس ریمانڈ مجسٹریٹ سے کیوں لیتی ہے اور سیشن ٹرائل کیلئے جب چالان اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس بشیرے   کو  تفتیش  کی باریکیوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا  یہی وجہ ہے کہ کسی بھی گناہگار کو عدالت سے سزا دینا ایک جرم بن چکا ہے شاید اسی وجہ سے کسی کو سزا نہیں ملتی  
صحیح شخص کو صحیح جگہ پر بٹھائے بغیر مسائل کا حل ناممکن ہے  
ان کمزوریوں کے ساتھ مقدمہ مجسٹریٹ کی عدالت سے سیشن کورٹ تک چلاجاتا ہے اور سیشن کی عدالت سے ہایئکورٹ اور سپریم کورٹ تک  یہ مقدمہ چلاجاتا ہے بنیادی کمزوریوں پر کبھی بات نہیں کی جاتی  معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ  ایک دعوٰی کرتا ہوں کہ پاکستان کی عدلیہ میں وہ لوگ جو ہایئکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی بیٹھے ہیں  وہ فوجداری قوانین کی روح کو نہیں سمجھتے  
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران صرف   چھ  وکلاء کوایڈیشنل ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن جج کی پوسٹ  دی گئی جبکہ اسی دوران ننانوے فیصد بریت کے زمہ دار جوڈیشل مجسٹریٹس کو ہی  پروموشن دیکر اس عہدے کے ساتھ مذاق  کیا گیا ہے یہ کیسا نظام  ہے اس سے زیادہ بار  کونسلز،عدلیہ اور وکلاء کی بدقسمتی کیا ہوگی  یہی وجہ ہے کہ  محسوس ہوتا ہے کہ بار کا وجود ختم ہی ہوچکا ہے  لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے  بشیرے پروموٹ کیسے ہوجاتے ہیں اور کس طرح اس قسم کی حساس نشستوں پر پہنچ کر اپنے مائینڈ سیٹ  کاعوام کو نشانہ بناتے ہیں
عدلیہ  تجربہ کار وکلاء کو عدالتی نظام میں شامل نہیں کررہی ہے ۔ اپنے نااہل  بشیروں  کو  ہی پروموٹ کرکے ان عہدوں  پر فائز کررہی ہے  اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج کی سیٹ پر وکلاء کو دھوکہ دے کر  ایک خود ساختہ  اوٹ پٹانگ قسم کے  این ٹی ایس کے نام پر وکلاء کا استحصال کرکے  ان کے ان جائز حق سے محروم کررہی ہے  اور این ٹی ایس کے زریعے بھی  جوڈیشل افسران ہی کو شامل کرلیا جاتا ہے اور جو این ٹی ایس سے شامل ہونے سے بچ جائیں ان کو ایک بار پھر  براہ راست پروموشن دے دی جاتی ہے  استحصال ہمیشہ وکیل کا ہی ہوتا ہے  باعث شرم بات یہ ہے کہ جن عدالتوں سے ننانوے فیصد  ملزمان مجسٹریٹ کی ابتدائی نااہلی کے نتیجے میں  باعزت طور پر بری ہوجاتے ہیں  وہ عدلیہ وکلاء کی قابلیت پر سوالیہ نشان بنانے کا حق کیسے رکھ سکتی ہے ۔ بار کبھی ان مسائل پر کھل کر بات نہیں کرتی جیسا کہ  ہمارے اردو بلاگ میں کھل کر بات کی جاتی ہے  
کاش کہ ہماری بار اتنی کمزور نہ ہوتی ۔
سکندر اعظم نے کسی ملک کو فتح کیا تو اس کو اندیشہ تھا کہ وہ اس ملک پر زیادہ دیر قبضہ قائم نہیں رکھ پائے گا تو اس کے کسی مشیر نے مشورہ دیا تھا کہ   اس ملک پر کمزور اور نااہل حکمران مسلط کردیئے جائیں
ایک اردو بلاگر کی حیثیت سے شاید اب ہمارے لیئے بھی اپنے معیار کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ   عدلیہ کے احترام اور  بالادستی پر یقین رکھنے والے لوگ  اس بلاگ کے قارئین میں شامل ہیں

اعلٰی عدلیہ میں  لاء سوسائٹی پاکستان کے اردو بلاگ  کی گونج ہمیشہ رہی ہے  ۔ وکلاء سول سوسائٹی ججز اور انٹرنیٹ پر اردو زبان  پڑھنے والوں کی اکثریت  ہم سے جو امیدیں رکھتی ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ عدلیہ کے احترام کو مدنظر رکھ کر  ان پر پورا اترنے کی کوشش کرنا  ہمارے لیئے  مستقبل کا  ایک چیلنج رہے گا 

No comments: