Powered By Blogger

Friday 8 April 2016

وگو جیپ والا قاتل والا کبھی بھی گرفتار نہیں ہوگا عدلیہ کی طاقت صرف کمزور کیلئے ہے تحریر صفی

گزشتہ دنوں ایک المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک معروف بلڈر کے کم عمر بچے کے ساتھ اسکول واپسی پر اسکول وین میں ایک اور کم عمر بچے کے ساتھ معمولی جھگڑا ہوا ۔ ڈرائیور نے گاڑی روک کر اس معمولی جھگڑے کو ختم کیا اور دونوں بچوں کو ان کے گھر چھوڑدیا
ان میں سے ایک بچہ بلڈر کا بیٹا تھا۔ اسکول وین کے ڈرائیور کو والدین کی جانب سے فون آیا اس نے واقعہ کے متعلق بتایا تو بلڈر نے کہا کہ آپ مجھے اس بچے کے گھر لے جاؤ میں نے اس کے والدین سے بات کرنی ہے
وین ڈرائیور ڈر کے مارے نہیں لے گیا۔ وین ڈرائیور عیسائی تھا اسی دوران ایسٹر کا تہوار آگیا ڈرائیور گھر پر تھا اسی دوران ستائیس اپریل بروز اتوار کو بلڈر نے ڈرائیور کو فون کیا ڈرائیور نے بتایا کہ وہ گھر پر ہے ان کا تہوار ہے وہ ایسٹر منارہا ہے لیکن بلڈر نے کہا کہ اگر وہ اس کے بنگلے پر نہ آیا تو اس کو گھر سے زبردستی اٹھا لیں گے یہ سن کر وہ بلڈر کے بنگلے پر پہنچا تو وہ لوگ اسلحہ لیکر تیار تھے ڈرایئور کو وگو جیپ میں ڈالا اور اس کو کہا کہ وہ اس بچے کے گھر لیکر جائے جس نے ان کے بچے کے ساتھ جھگڑا کیا ہے
ڈرائیور نے گھر دکھایا وہ پہنچے اور جاتے ساتھ ہی بغیر کسی وارننگ کے اہل خانہ کے ساتھ لڑائی جھگڑا شروع کردیا اسی دوران ان کا والد باہر آیا تو بوڑھے والد کو بھی پستول کے بٹ مارے جس کی وجہ سے اس کا موقع پر ہی انتقال ہوگیا
مدعی مقدمہ نے عمران شیخانی اور آصف شیخانی نامی شخص کو قتل کے مقدمے میں نامزد کیا اور وین ڈرائیور موقع کا ایک اہم ترین چشم دید گواہ تھا
پولیس ملزمان کو گرفتار نہ کرسکی ملزمان بااثر ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر مقدمے کو کمزور کرنے کیلئے پولیس نے مرکزی ملزم وین ڈرائیور کو قرار دیا
مدعی مقدمہ ملزم کو بے قصور سمجھتے ہیں بے گناہ سمجھتے ہیں لیکن پولیس نے چالاکی سے کام لیکر واحد پرائیویٹ چشم دید گواہ کو ملزم قرار دیا اور اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ وہ شخص جس کو مدعی نے نامزد نہیں کیا جس کے خلاف گواہ کوئی نہیں جو خود گواہ ہے۔
سلام ہے ہمارے عدالتی نظام کو جس نے قتل کے ایک خطرناک ملزم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا
کل کہا جائے گا گواہ نہیں ملے ۔ لوگ گواہی نہیں دیتے۔ مقدمہ ثابت نہیں ہوسکا
عدلیہ غریب کیلئے شیر ہے سچ کہیں گے تو توہین عدالت ہوجائیگی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین بار ریمانڈ تو ایک ڈبل گریجویٹ جوڈیشل مجسٹریٹ نے دیئے ہیں۔ وہ کس چیز کی تنخواہ لیتا ہے ۔ اس کا کام کیا ہے۔ وہ شخص جو منصف کی سیٹ پر بیٹھا ہے سندھ ہایئکورٹ کے ماتحت ہے یا سندھ پولیس کے پے رول پر کام کررہا ہے۔ کریمینالوجی کیا ہوتی ہے۔ قتل کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ اور قتل جیسا گھناؤنا جرم کیوں کیا جاتا ہے کیا ساب یہ سب فلسفے نہیں جانتے تو کیا وہ اس سیٹ پر بیٹھنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے کہ نہیں
جبکہ ساب بھی جانتا ہے کہ ایک غریب اسکول وین کا ڈرائیور کیوں قتل کرے گا
یہاں ایک دفعہ پھر جوڈیشل افسران کی قابلیت ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے اگر اس طرح عدالتی سلسلے چلانے ہیں تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ میٹرک پاس شخص کو جوڈیشل مجسٹریٹ بھرتی کرنا زیادہ مناسب ہوگا اور بیس ہزار روپیہ تنخواہ کافی ہے اگر پولیس ہی کی ماتحتی کرنی ہے اگر بدنام زمانہ تفتیشی افسران کی چال بازیاں نہیں سمجھ سکتے تو یار! گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے
کل بڑے ساب کے پاس جائیں گے تو بڑے ساب کہیں گے 302 کا مقدمہ ہے قتل ہوا ہے قتل اور تین سو دو کی ایف آئی آر درخت کے ساتھ بھی باندھ دو تو وہ سوکھ جاتا ہے
وگو والا کبھی گرفتار نہیں ہوگا اس کیلئے عدلیہ کمزور ہونے کے ساتھ اپاہچ بھی ہے
صفی
03343093302


No comments: