Powered By Blogger

Friday 29 April 2016

عدلیہ اور وکیل تحریر صفی الدین اعوان



میری کلائینٹ جانے لگی تو اس کی کمسن  بیٹی نے آفس سے نکلتے وقت اچانک میرے سامنے ہاتھ جوڑ لیئے اور روتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب اگر میری ماں  پراپرٹی  کا یہ کیس ہار گئی تو ہم پانچ بہنیں  اپنی ماں سمیت روڈ پر آجائیں گے
یہ بات سن کر مجھے ذہنی طور پر بہت شاک لگا۔ میرے پاس ایک لمحے کیلئے الفاظ ختم ہوگئے
کیونکہ میں جانتا تھا کہ بظاہر میری کلائینٹ کا کیس بہت کمزور تھا
مخالف پارٹی نے جو وکیل کیا تھا اس  کا تجربہ پچاس سال کا تھا جس کا وہ عدالت میں فخریہ اظہار بھی کرتا تھا
میرے کلائینٹ کے پاس  صرف ایک بجلی کا بل اور بچوں کے پیدائیشی سرٹیفیکیٹ تھے  دوسرے الفاظ میں  اس کے پاس صرف  قبضہ تھا
بچی کے الفاظ  نے مجھے ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب کیا  ان کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک گم سم رہا اس کیس کا  نئے سرے سے مطالعہ کیا لیکن میں مطمئین  نہ ہوا
پھر وہ کیس میرے لیئے ذہنی بوجھ بن گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ  وکالت کتنا حساس ترین شعبہ ہے کسی کی جان کسی کا مال  ہمارے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ زراسی کوتاہی کسی کے پورے خاندان   کو سڑک پر لاسکتی ہے ہماری ذرا سی کوتاہی کسی کو اس کی عمر بھر کی جمع پونجی سے ہی محروم کرسکتی ہے
اسی طرح دن گزرگئے اور کیس  کی  سماعت کا دن آگیا۔ بدقسمتی سے بھرپور کوشش کے باوجود میں  اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اس کیس میں کامیابی حاصل کرسکوں  اس لیئے جج صاحب سے تاریخ لی  اور  بوجھل قدموں سے واپس آگیا مخالف  وکیل صاحب فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے
میں نے کوشش کی لیکن  ناکام رہا کافی مطالعہ کیا لیکن کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی
اسی دوران دوبارہ کیس کی سماعت کی تاریخ  آگئی۔ شام کو میں  کافی پریشان تھا اور بچی کے الفاظ میرے ذہن میں تھے کہ وہ روڈ پر آجائیں گے ۔ اسی پریشانی میں  شام کے وقت  چند منٹ کیلئے میری آنکھ لگ گئی  اسی دوران میرے ذہن میں انیس سو ستاسی کا کچی آبادیز کا ایکٹ آیا جس کے تحت قابضین کو ریگولر کیا گیا تھا
مخالف وکیل نے  سپریم کورٹ کے سترہ فیصلہ  جات پیش کیئے تھے جس کے مطابق بجلی کے بل کی بنیاد پر کوئی بھی شخص ملکیت کا دعوٰی نہیں کرسکتا لیکن وہ تمام فیصلے موروثی اور ریگولر جائیداد کے متعلق تھے  بعد ازاں یہی نکتہ اس کیس    اہمیت اختیار کرگیا میں  اس کیس میں پہلی بار ہرلحاظ سے مطمئین تھا 
خیر کیس کی سماعت ہوئی تو   وہ اتنی دھواں دار تھی کہ کورٹ روم کے اندر ہی صرف اس سینئر ترین وکیل نے  صرف میرے ساتھ ہاتھا پائی نہیں کی وہ شور شرابہ کیا کہ   میں خود حیران  رہ گیا  میں سوچتا ہی رہ گیا  کہ سینئر ایسے بھی ہوتے ہیں
انیس ستاسی کے کچی آبادی کے ایکٹ نے نہ صرف اس کے تمام دلائل ہوا میں اڑادیئے بلکہ   سپریم کورٹ کے فیصلہ جات کا طلاق بھی   اس  پراپرٹی پر نہیں ہوا کیونکہ اعظم بستی کچی آبادی تھی
جج صاحب  اچھے انسان تھے معاملہ فہم تھے فیصلہ سنانے سے پہلے  مدعی سے پوچھا کہ تم یہ دعوٰی کرتے ہو کہ یہ بوڑھی اماں تمہاری کرایہ دار تھی تو سچ بتاؤ کہ یہ تم کو کتنا کرایہ ماہانہ دیتی تھی تو خان صاحب نے سادگی سے جواب  دیا کہ وہ وکیل صاحب نے کیس میں لکھ دیا ہے جو وکیل نے لکھا ہے وہی کرایہ دیتی تھی  وکیل ساب کو سب پتہ ہے ۔  جج صاحب نے جواب دیا کہ  اصل بات یہ ہے  کہ یہ بوڑھی اماں کبھی تمہاری کرایہ دار نہیں  رہی اگر تم نے کرایہ لیا ہوتا تو تم کو ضرور یاد ہوتا  تم لوگوں نے کورٹ کا بہت قیمتی وقت برباد کیا اس طرح  اس کیس کا فیصلہ اس غریب عورت کے حق میں سنادیا گیا  یاد رہے کہ اعظم بستی کا سواتی گروپ اسی طریقے سے بے شمار پلاٹس پر قبضہ کرچکا ہے اور یہ ان کی پہلی شکست تھی
وکالت بہت ہی مشکل حساس اور مقدس ترین پیشہ ہے   نہ جانے کیوں عوام الناس میں وکیل کی وہ بات نہیں رہی جو کسی  زمانے  میں ہوا کرتی تھی شاید وہ وکیل بھی بہت کم باقی ہیں  لیکن آج  بھی چند وکلاء ایسے موجود ہیں جن پر شعبہ وکالت کو فخر ہے
وکیل کے ساتھ ساتھ اچھے ججز کی اہمیت کو کبھی کم نہیں کیا جاسکتا ۔ اچھا وکیل کبھی بھی جج نہیں بنتا
عدلیہ میں نالائق اور نااہل زیادہ عرصے چل نہیں سکتے۔ جج کے ہاتھ میں اگرچہ لوگوں کی تقدیر ہوتی ہے اور قلم کا ایک اشارہ  بہت کچھ بدل سکتا ہے لیکن  وکیل   اس کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ایک اچھے وکیل  کی رہنمائی  کے بغیر  جج کچھ نہیں کرسکتا ۔ وکالت  اورعدلیہ  کبھی مذاق نہیں تھے نہ یہ  شعبے مذاق بن سکتے ہیں
ایک سال پہلے ایک نااہل جج صاحبہ کے سامنے  ایک  کیس کے اندر درخواست دائر  کی تو ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود  جب  جج صاحبہ نے فیصلہ نہیں کیا تو میں نے  تنگ آکر اور بہت زچ  ہو کر کیس سے یہ درخواست دے کر وکالت   نامہ  واپس لیا کہ جج صاحبہ کو عدالتی  کام  بالکل بھی نہیں آتا   وہ آرڈر لکھنا بھی نہیں  جانتی ہیں ۔اس لیئے میں مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے وکالت نامہ ہی واپس لے لیتا ہوں مزے کی بات یہ ہے کہ جج صاحبہ نے  وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست منظور کرلی اور  اس  بات کا زرا بھی برا  نہیں منایا کیونکہ   ان کے پاس مائینڈ  تھا ہی نہیں  یہی  نااہلی  وکالت کو تباہ کررہی ہے
اللہ تعالٰی نے  بہت سے نوجوان وکلاء کو عزت سے نوازا وہ جج کے عہدے پر فائز ہوئے بدقسمتی سے   سندھ ہایئکورٹ کو  یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ جن لوگوں کو وہ جج بناکر  ڈسٹرکٹ کورٹس میں بھیج رہے ہیں ان کے ہاتھ میں لوگوں کی تقدیر ہوگی  کم از کم تجربہ کار وکلاء کو شامل کیا ہوتا لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت ایک دن کی پریکٹس والے نان پریکٹسنگ وکلاء کو عدلیہ میں شامل کیا گیا
وہ لوگ فیلڈ میں آئے تو حالات کا سامنا نہیں کرسکے۔جب پریکٹس ہی نہیں کی جب وکالت میں قدم ہی نہیں رکھا تو  قانون کی تشریح کیسی جس کے بعد تصادم کا آغاز ہوا جو کہ بڑھتا ہی بڑھتا گیا
وکالت سمجھنے کو ایک وقت چاہیئے۔  معمولی نکتے سمجھنے میں  کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے  جوتوں کے جوڑے  باقاعدہ طور پر ٹوٹ گئے  تب کہیں جاکر تھوڑا بہت سمجھ آیا کہ وکالت کیا ہوتی ہے 
اسی طرح  وکلاء کی تحقیق اور محنت کے نتیجے میں اکثر جج کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے ۔ عوام الناس میں  وکلاء  کے متعلق ہزاروں باتیں مشہور ہیں ۔ یہ بھی سچ ہے کہ وکیل  بن جانا بہت ہی آسان ہے ۔ آپ کسی بھی کالج سے باآسانی وکالت کی ڈگری خرید کر بار کونسل کو پیسے دیکر  لائیسنس خرید سکتے ہیں   عمر کی کوئی قید   نہیں ڈاکٹر انجینئر  زندگی کے ہر شعبے کے ناکام لوگ ریٹائرڈ لوگ اس شعبے میں باآسانی کھپ  سکتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ وکالت کا شعبہ تباہ ہوکررہ گیا
اس کے نتیجے میں  مسائل تو جنم لیں گے   اور مسائل جنم لے رہے ہیں تیزی سے لوگ اس شعبے میں داخل ہوتے ہیں اور تیزی سے چلے بھی جاتے ہیں  صرف اچھا وکیل ہی اس شعبے میں رہ سکتا ہے  صرف وہ وکیل ہی شعبے میں رہتا ہے جو  وکالت کے ساتھ  تحقیق پر بھی توجہ دیتا ہے   جبکہ  ناکام قسم کے لوگ جلد یا دیر سے ناکام ہی ہوتے ہیں

کافی عرصے بعد کراچی بارایسوسی ایشن   ، ملیر بار اور سندھ  کی دیگر بارایسوسی  ایشن نے نے ججز کے رویوں کے خلاف وکلاء کو درپیش مسائل کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے یہ ایک اچھی مہم ہے اس کے اثرات دوررس  ہونگے
لیکن میں  توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ  کراچی میں  سندھ  ہایئکورٹ بار کو اس قسم کے معاملات سے دلچسپی نہیں   اس لیئے ان کو زبردستی   تحریک کا حصہ  بنانا درست نہیں ہے  
تمام بار ایسوسی ایشنز  اپنے مطالبات کے پینا فلیکس بنوا کر آویزاں کریں  تاکہ  کوئی مفاد پرست  من مانی تشریح نہ کرسکے  سندھ ہایئکورٹ کی حدود یا احاطے کے اندر کراچی باراور ملیر بار  کو اپنی جنرل باڈی منعقد کرنی چاہیئے  اور اس سلسلے میں ہایئکورٹ بار سے  کسی بھی قسم کی مدد لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے 
یہ ایک ہرلحاظ سے حساس اور اہم ترین تحریک ہے ۔ لیکن تاحال مطالبات واضح نہیں ہیں ۔ مطالبات کی لسٹ پینا فلیکس کے زریعے وکلاء تک پہنچانا کراچی بار کی ذمہ داری ہے  کیونکہ پانچ ہزار وکلاء  اپنے حساب سے  اس کی تشریح کررہے ہیں جو کہ مناسب عمل نہیں
اخلاقیات کی بہت اہمیت ہے  عدلیہ کا احترام ضروری ہے لیکن دل کو کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیئے ۔ اگر جائز اور آئینی مطالبات سندھ ہایئکورٹ  تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تو سجاد  علی شاہ سمیت کسی بھی جسٹس کا عزت اور احترام کے ساتھ  راستہ روکنے اور اس کی عدالت میں جاکر احتجاج کرنے  سمیت ہر  راستہ اختیار کرنا وقت کی  اہم ترین ضرورت ہے  وکلاء قانون کے محافظ ہیں  اور قانون کی  حفاظت کے دوران اگر کسی کو ونجی دینے کی ضرورت ہوتو    دینے میں حرج نہیں  
ہم سے الجھو گے تو زمانے میں جیو گے کیسے
ہم تو ظلم کی ہردیوار گرادیتے ہیں

No comments: