Powered By Blogger

Saturday 17 February 2018

زاشیہ رحمان کی داڑھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسط نمبر 2 تحریر صفی الدین اعوان



تحریر : صفی الدین اعوان

دوسری قسط
جب  میں نے    غریب بچوں کیلئے  غریبوں کی اس بستی میں اسکول کی تعمیر کو رکوانے  والے "قبضہ مافیا" کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کروانے کیلئے عدالت میں پٹیشن داخل کی تو مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری یہ پٹیشن  ماضی کے اس دم توڑتے" پیشے "کو ایک نئی زندگی  کی  حرارت  عطاکرے  گی  کیونکہ  زمینوں پر قبضے کرنا بھی  ایک   "اہم  ترین  پیشہ"  ہے "قبضہ مافیا "کراچی کا ایک اہم کردار ہیں   کراچی  شہر کی آدھی سے زیادہ "آبادکاری" قبضہ مافیا ہی کی مرہون منت ہے چند ماہ پہلے تک یہ  ایک "دم توڑتا ہوا پیشہ "تھا  کیونکہ زمینوں پر قبضے روکنے کیلئے وفاقی حکومت نے قانون سازی کردی تھی لیکن میری عدالتی پٹیشن نے اس پیشے کو دوبارہ زندہ کردیا  اور کراچی ضلع وسطی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جناب ایاز مصطفٰی صاحب نے اس کیس میں ایسے اصول بیان کردئیے جن کے بارے میں سوچنا بھی جرم تھا
سب سے پہلے تو پٹیشن لگانے کے بعد میرا یہ خیال تھا کہ چند روز میں اس پر فیصلہ ہوجائے گا لیکن جج صاحب نے پٹیشن کو بھی " ست  لکھی وظیفہ" بنادیا  اور پٹیشن میں حصول ثواب کی نیت سے  تاریخ پر تاریخ دینے کا سلسلہ شروع کردیا  میں  صبح  سویرے  عدالت  میں پیش  ہوتا  تو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج  چوہدری  ایاز مصطفٰی  گجر صاحب چیمبر میں بیٹھ کر اللہ ہو اللہ ہو کی آوازیں نکال رہے ہوتے تھے   اس دوران  کراچی  کے ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن  کورٹ  ضلع  وسطی  کی  پوری  عمارت  پر انوار  وتجلیات  کی   برسات  ہورہی ہوتی  تھی   اور جب  ایڈیشنل  ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن  جج  صاحب چاشت اور اشراق کے نوافل سے فارغ ہوکر  حق حق  سچ سچ کا ورد اور  ذکر کرکے جھومتے ہوئے چیمبر سے نکل کر انوار وتجلیات کی بارش میں   عدالت  میں  آتے تو ایک عجیب سماں بندھ جاتا   اورصبح سویرے ہرتاریخ پر میری پٹیشن  بھی اگلی تاریخ کیلئے فارغ کردیا کرتے تھے
میں بھی خوش خوش  عدالت سے واپس آتا  اور اس بات پر خوشی محسوس  کرتا کہ  عدالت میں جاکر ایک ولی کامل کی زیارت کرلی   اور جج صاحب کے چیمبر سے آنے والی اللہ ہو اللہ ہو کی صداؤں سے فیض بھی حاصل کرلیا  
 آخر کئی مہینوں کے بعد "ست لکھی وظیفہ " اپنے اختتام کو پہنچا  اور    جج صاحب نے  انواروتجلیات  کی  بارش میں  ایک ایسا تاریخی فیصلہ لکھا جس نے کراچی میں  "قبضہ گروپوں " کو ایک نئی زندگی کی حرارت  عطا کی   زمینوں پر قبضے کا یہ پیشہ کراچی میں تیزی سے دم توڑ رہا تھا بڑے بڑے قبضہ گروپ بے روزگاری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے تھے
یہ ہرلحاظ سے ایک تاریخی فیصلہ ہے  کیونکہ اس عدالتی فیصلے نے ڈاکوؤں اور ڈکیتوں کو بھی ایک نئی زندگی عطا کی ہے  اور ان کے "پیشے" کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے  جج صاحب نے انواروتجلیات کی بارش میں لیز اور الاٹمنٹ  کے  قانونی کاغزات کو  مروڑ کر"بتی" بنادیا ہے   عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیئے لیکن عدالتی  فیصلے میں جج صاحب نے یہ جھوٹ بولا کہ پٹیشنر نے لیز کے کاغزات فراہم ہی نہیں کیئے وہ تمام کاغزات  نہ صرف پیش کیئے گئے بلکہ  ان کی مکمل تفصیلات  اور پٹیشنر کا پاور آف اٹارنی سول اپیل میں کورٹ کے  ریکارڈ پر موجود ہے  یہاں ہم حسن ظن سے کام لیتے ہیں کیونکہ جب   جج صاحب چاشت اور اشراق کے نوافل پڑھ کر اللہ ہو اللہ  ہو کی آوازیں نکالتے ہیں  تو  انواروتجلیات کی  کمرہ  عدالت اور چیمبر میں  اتنی زیادہ بارش ہوجاتی ہے کہ شاید وہ لیز کے کاغزات  اور پاور آف اٹارنی   اور جائیداد کے قانونی مالک   کے درمیان جو رقم کی ادائیگی کا معاہدہ ہوا تھا جو عدالت میں بھی پیش کیا گیا تھا شاید وہ ان کو نظر ہی نہیں آیا ہوگا اس لیئے میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ ان کو عدالتی ریکارڈ پر موجود  یہ ریکارڈ نظر ہی نہیں آیا  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انوار وتجلیات کی بارش میں سارا ریکارڈ ہی بھیگ کر ضائع ہوگیا ہو
اگرقبضہ مافیا نے کسی کی کروڑوں روپے  کی  لیز جائیداد پر کسی کے بنگلے پر قبضہ کرنا ہو ایک سوروپے کا اسٹامپ پیپر خریدیں  پلاٹ  کا  ایک خودساختہ سیل ایگریمنٹ بنا کر "منہ اٹھا کر " کورٹ میں پہنچ جائیں "یادرہے " دھونے "کی  بھی ضرورت  نہیں ہے اور بغیر منہ" دھوئے" صرف  سوروپے کے اسٹامپ  پیپر کی بنیادپر کسی کے کروڑوں روپے کے بنگلے کے سامنے کھڑے ہوکر یہ  دعوٰی کردیں کہ یہ پلاٹ یا بنگلہ میرا ہے اگر  سینئر سول جج  وہ جعلی اسٹامپ کو قانونی دستاویز تسلیم کرنے سے انکار کردے  اور وہ کیس رجسٹر کرنے سے انکار کردے تو  بالکل بھی گھبرانے کی  ضرورت نہیں آپ کراچی کے ضلع وسطی کی عدالت تین نمبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  کورٹ  سے رابطہ کریں  
جج صاحب نے جب ایف آئی آر رجسٹر کروانے کیلئے داخل کی گئی پٹیشن  پر فیصلہ دیا تو اس میں   چوروں ڈاکوؤں اور ڈکیتوں کو بھی   ایک طریقہ کار کے تحت یہ حق دے دیا کہ وہ کسی بھی بھر میں جاکر ڈاکہ بھی ڈالیں چوری بھی کریں لوٹ مار بھی کریں  سب کچھ کریں یہ کوئی جرم نہیں ہے  اس حوالے سے انہوں نے جس کیس لاء کا حوالہ دیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے
2010 YLR 189
یہ عدالتی فیصلہ اس بات کا حق دیتا ہے  چوروں ڈاکوؤں اور ڈکیتوں کو یہ قانونی حق فراہم کررہا ہے  کہ وہ  کسی بھی جائیداد پر قبضے کیلئے سوروپے کے اسٹامپ پیپر پر سیل ایگریمنٹ بناکر  عدالت میں آجائیں اور اگر  عدالت اس کیس کو رجسٹر کرنے سے انکار کردے  اور وہ جعلی کاغزات اٹھا کر منہ پر ماردے تو  ایازمصطفٰی کی عدالت  میں سول اپیل داخل کردیں اور اس کے بعد قانون آپ کو اجازت دے رہا ہے کہ  وہ پورا بنگلہ جاکر لوٹ لیں  قانون آپ کے ساتھ ہے صرف سول اپیل کی بنیادپر کسی بھی گھر میں داخل  ہوکر ان کی خواتین کی عصمت دری سمیت  ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی یہ تشریح لامحدود اختیار فراہم کررہی ہے  یوں سمجھ لیں کہ ایک نیک دل جج نے چوروں اور ڈاکوؤں کے پیشے کو بھی تحفظ فراہم کرکے ان کو  گویا ایک  قسم کا  پرمٹ فراہم کردیا ہے
قانون کی تشریح تو دیکھئے  سوروپے کے اسٹامپ پیپر کی بنیادپر   ہونے والی سول اپیل  اس کیس کی سول اپیل جسے ایک سینئر سول جج زاشیہ رحمان نے  اس قابل بھی نہ  سمجھا کہ کیس رجسٹر کیا جائے اور  قبضہ  مافیا  سے تعلق  رکھنے والے جعلی مالک کے منہ پر کاغزات ماردیئے وہ جعلی کاغز ات "مذہب کا ڈھونگ  رچائے  بیٹھے  " ایک ڈھونگی   جج  کیلئے اسقدر معتبر کیسے  ہوگئے کہ  اس  سول اپیل کو بنیادبنا کر  جج صاحب نے   اس گھر میں گھس کر لوٹ مار کی بھی اجازت دے دی  
I find support from the judgment reported in 2010 YLR 189.

  “The provisions of S.22-A, Cr.P.C have been misused in a number of cases. The wisdom of legislature was not that any person who in discharging of duties takes an action against the accused would be subjected to harassment by invoking provision, of S.22-A, Cr.P.C. The Courts in mechanical manner should not allow application under S.22-A & B and should apply its mind as to whether the applicant has approached the court with clean hands or it is tainted with malice. Unless such practice is discharged, it would have far-reaching effect on the police officials who in discharge of duties take actions against them. The law has to be interpreted in a manner that its protection extends to every one. I am therefore, of the opinion that order of the Sessions Judge was passed in mechanical manner and the applicant approaching the Sessions Judge. As per the record reflects that it was tainted with malice.” 

          The petitioner has failed to make out a case of issuance of directions as prayed in the instant petition. The dispute if any in between the parties which is of civil nature for which civil Misc. Appeal is pending for adjudication. The intentions of petitioner are clear, that he wants to convert civil litigations into criminal and civil court is competent forum to resolve such types of controversy. There is no substance in this petition, I therefore, dismiss this petition.
سوروپے کے جعلی اسٹامپ پیپر کو  عدالت میں بیٹھے ہوئے ایک  صوفی منش  ایک بزرگ جج ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے جو عزت  بخشی ہے اور اس جعلی کاغذکو جس طرح وقار دیا ہے اور لیز کے کاغذات کو جس طرح "بتی"  بنا کر "واڑ" دیا ہے  اس  کی مثال  عدالتی  تاریخ  میں  نہیں ملتی
 لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر میرا بھی ایک سوال ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ قابل احترام احمد علی شیخ صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدظلہ العالی  آپ کی عدلیہ میں ایک ادارہ تھا جو ایم آئی  ٹی کے نام سے مشہور تھا  آپ سے پہلے جو چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ  ہواکرتے تھے جسٹس سجاد علی شاہ ان کا نام تھا  ان کے دور میں   آپ کے اس ادارے نے چالیس  ججز کو کرپشن اور دیکر الزامات کے تحت برطرف کیا تھا  میرا سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کے جانے کے بعد آپ کی عدالتوں سے کرپشن ختم ہوچکی ہے  یا پھر ایم آئی ٹی اتنا فعال نہیں رہا یا پھر کرپشن کے خلاف کاروائی ختم کردی گئی ہے اور ججز کو رشوت  لوٹ مارکی کھلم کھلا اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے آپ کے بابرکت دور میں کسی بھی جج کے خلاف کاروائی سامنے نہیں آئی نہ ہی ہوگی  
احمد علی شیخ صاحب آپ کے "بابرکت دور "میں ایم  آئی ٹی کا  "اچانک "غیر فعال  ہوجانا  بدعنوان ججز کے خلاف  تادیبی کاروائی  اچانک  ہی روک دینا  چیف صاحب کچھ تو ہے جس کی "پردہ داری" ہے
جس طرح بعض ججز نے مذہب کی آڑ لیکر ایمانداری کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے   سجاد علی شاہ صاحب کے جانے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ایم آئی ٹی بھی  اب ایک ڈھونگ ہی  تو بن کر رہ گئی ہے
چیف صاحب  یا تو سابق چیف جسٹس سجادعلی شاہ غلط تھا یا تم غلط ہو
اگر سجاد علی شاہ صاحب غلط تھے تو جن ججز کو برطرف کیا گیا ان کو دوبارہ بحال کردو  ورنہ میں یہ کہنے کا مکمل حق رکھتا ہوں کہ  عدلیہ میں ساری کرپشن کے اکیلے ذمہ دار  "تم  اور صرف تم ہی ہو "  کیونکہ تم   نے ہی اپنے دور میں   ایم آئی ٹی کو ایک زندہ لاش بنا یا ہوا ہے

جج صاحب کی جانب سے اسکول کی تعمیر روکنے  کیلئے  قبضہ مافیا کے خلاف چوری کی درخواست پر  عدالتی  فیصلہ مندرجہ ذیل ہے     
IN THE COURT OF III ADDITIONAL SESSIONS JUDGE KARACHI, CENTRAL.
CR. PETITION NO.792/2017.

ABC --------------------------------Applicant.

VERSUS

S.H.O PS Kh. Ajmer Nagri, Karachi.-----------------Respondent.

O R D E R.
27-10-2017.

     By this order, I would like to dispose of application under section 22-A Cr.P.C, filed by the applicant through his advocate, praying therein to direct the respondent / SHO PS Kh. Ajmer Nagri, Karachi to record the statement of applicant U/S 154 Cr.P.C and to take legal action against culprits and also register FIR against the proposed accused.

     I have heard learned counsel for the applicant, learned counsel for the proposed accused and have perused the report submitted by the SHO PS Kh. Ajmer Nagri, Karachi.

     As per contention of learned counsel for the applicant, that subject Faizan Academy is running under the management of Memon Madrassa Faizul Uloom since last 27 years, and said Faizan Academy entered into deal in respect of purchase and paid 60% of the deal to the owner and original documents are in possession of the applicant but in this regard, neither the petitioner has annexed any documentary evidence with this petition, which could prove his contention that Faizan Academy is running under the management of Memon Madrassa Faiz-ul-Uloom for the last 27 years, nor any authority letter issued by said Memon Madrassa in his favour to sue the proposed accused on their behalf. Further more, neither any alleged deal annexed by the applicant with this petition, which could prove contention of petitioner that Faizan Academy has entered into a deal of purchase subject plot from its owner and they paid 60% of said deal to its owner. Further more,
وضاحت:؛یہاں میں مختصر یہ بیان کردوں کہ  پٹیشنر سوروپے کے اسٹامپ پیپر  کی  بنیادپر پر ہونے والی  نام نہاد سول اپیل میں  نہ صرف  لیز کے قانونی کاغزات پیش کرچکا تھا بلکہ ایک عدد پاور آف اٹارنی بھی اسی عدالت کے ریکارڈ پر جمع کرواچکا تھا  اسی طرح ساٹھ فیصد ادائیگی کا ثبوت  سول کیس میں پیش کرچکا تھا  سمجھ سے بالاتر ہے کہ جج صاحب نے یہ عدالتی فیصلہ لکھتے ہوئے جھوٹ کا سہارا کیوں لیا 
اور  اتنے دھڑلے سے عدالتی فیصلوں میں جھوٹ بولنا سمجھ سے بالاتر ہے
 as per contention of learned counsel for proposed accused, Haq Nawaz purchased subject plot from its previous owner(وضاحت:  یہاں سابق مالک سے مراد قبضہ مافیا ہے جو مقامی تھانے کے ہیڈ محرر کا بھائی ہے ) and he is in possession of subject plot since date its purchase in the year 2013 and in this regard proposed accused Haq Nawaz had filed suit for declaration and Permanent injunction but unfortunately, learned senior Civil Judge returned plaint to be presented before proper court and said order of learned Senior Civil Judge Karachi Central is impugned in Civil Misc. Appeal No.13/2017 before this court.
عدالتی فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ قبضہ مافیا کے کارندے جب سینئر سول جج کی عدالت میں کیس داخل کرنے گئے تو ان کا حشر کیا ہوا تھا اور سوروپے کے اسٹامپ پیپر پر داخل ہونے والی اپیل کا ذکر بھی کردیا
         
          From the above position, it has come on record that the dispute, if any, in between the parties over landed property and a civil suit in respect of subject property was filed by the proposed accused and a civil Miscl. Appeal is in respect of subject property is also pending before this court. There are instances of misuse of provisions of S.22-A Cr.P.C. and therefore, it is the duty of the court that such misuse should be taken care of and such application should not be lightly entertained in a mechanical manner. I find support from the judgment reported in 2010 YLR 189.

  “The provisions of S.22-A, Cr.P.C have been misused in a number of cases. The wisdom of legislature was not that any person who in discharging of duties takes an action against the accused would be subjected to harassment by invoking provision, of S.22-A, Cr.P.C. The Courts in mechanical manner should not allow application under S.22-A & B and should apply its mind as to whether the applicant has approached the court with clean hands or it is tainted with malice. Unless such practice is discharged, it would have far-reaching effect on the police officials who in discharge of duties take actions against them. The law has to be interpreted in a manner that its protection extends to every one. I am therefore, of the opinion that order of the Sessions Judge was passed in mechanical manner and the applicant approaching the Sessions Judge. As per the record reflects that it was tainted with malice.” 

          The petitioner has failed to make out a case of issuance of directions as prayed in the instant petition. The dispute if any in between the parties which is of civil nature for which civil Misc. Appeal is pending for adjudication. The intentions of petitioner are clear, that he wants to convert civil litigations into criminal and civil court is competent forum to resolve such types of controversy. There is no substance in this petition, I therefore, dismiss this petition.
              
Announced in open Court.
Given under my hand, this 27th day of October, 2017.


          (Ayaz Mustafa Jokhio)
       III Additional Sessions Judge,
                                   Karachi, Central.

ابھی میرے ساتھ ہی رہیئے گا ابھی اس تحریر کی  تیسری  قسط باقی ہے لیز کے قانونی کاغزات کے  مقابلے میں ایک  سوروپے والا اسٹامپ پیپر کتنی اہم قانون دستاویز ہے یہ بتانا ابھی باقی ہے  کراچی کے ایک تھانے کے ہیڈ محرر کا بھائی  اپنی مرضی کا عدالتی فیصلہ کیسے لیکر گیا یہ بتانا ابھی باقی ہے
ابھی یہ بھی بتانا باقی ہے کہ مذہب کا ڈھونگ رچائے بیٹھے ایک ڈھونگی جج نے ایک غریب  بستی کے بچوں  کیلئے اسکول کی تعمیر  روکنے کیلئے کون کون سے گھٹیا ہتھکنڈے  اور طریقے اختیار کیئے  ابھی تو علامہ اقبال کے اس شعر کی بھی تشریح بھی باقی ہے کہ
لباس  خضر میں یاں سینکڑوں رہزن بھی بیٹھے ہیں
جینے کی تمنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر 
کیونکہ یہ تو ابھی بتایا ہی نہیں کہ   نام  نہاد سول اپیل  پر عدالت نے کیا فیصلہ دیا
جبکہ میں ٹھوس ثبوت کے ساتھ اپنے خلاف  ہونے والی  ممکنہ   توہین عدالت کی کاروائی کا بھی بے چینی سے منتظر ہوں

No comments: