Powered By Blogger

Monday 19 February 2018

ایک تھا جسٹس سجاد علی شاہ اور ایک ہے جسٹس احمد علی شیخ۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



ایک تھا جسٹس سجاد علی شاہ اور ایک ہے جسٹس احمد علی شیخ۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
(زیرنظر تحریر میں سابق چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ جناب سجاد علی شاہ  اور موجودہ چیف جسٹس جناب احمد علی شیخ صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کی کرپشن کے خلاف کاکرکردگی کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا خصوصاً کرپشن کے خاتمے کیلئے  دونوں جسٹس صاحبان کی "نیت" کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی)
پہلی قسط
اعمال کا دارومدار  نیتوں پر ہے
عوام کی حفاظت کیلئے پہرہ دینے والا سپاہی بھی رات بھر پہرہ دیتا ہے اور رات بھر جاگ کر اپنے بچوں کےلیئے روزی کماتا ہے  جبکہ ایک چور بھی رات بھر جاگتا ہے لیکن چور کا رات بھر جاگنا بری نیت سے ہوتا ہے وہ لوگوں کو  غافل پاکر گھر میں داخل ہوتا ہے اور لوٹ مارکرکے اپنے بچوں کیلئے رزق حرام کماتا ہے
نیت  کا زندگی کے ہرشعبے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے  جبکہ قانون کے شعبے میں سب سے زیادہ اہم کردار نیت ہی کا ہوتا ہے اگر کوئی جج ،وکیل کورٹ ،اسٹاف یا پراسیکیوٹر گھر سے رزق حلال کمانے کی نیت سے نکلتا ہے تو وہ سارا دن رزق حلال ہی کمائے گا  جب کہ اگر   کوئی گھر سے ہی حرام کمانے کی نیت لیکر نکلتا ہے تو  وہ سارا دن اپنے بچوں کیلئے حرام ہی کمائے گا حرام ہی تلاش کرے گا
چند سال قبل میں عدالتی معاملات کا ذکر اشارتاً  اپنے بلاگ  میں  اکثر کیا کرتا تھا  بعد ازاں سندھ ہایئکورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان اشاروں ہی کی بنیادپر بدعنوان ججز کا سراغ لگایا  اور کراچی کے تقریباً سارے کے سارے اس وقت کے بدنام زمانہ ججز فارغ کیئے گئے  ان میں سے بیشتر وہ گھٹیا لوگ تھے جو سارا دن سو سوروپے کا دھندہ کرتے تھے   میں اس حوالے سے ان کا شکر گزار ہوں کہ جب  اپنے  اردو بلاگ  میں کرپشن کی نشاندہی کی تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ توہین عدالت کا جرم ہوگیا بلکہ انہوں نے میرے بلاگ کو سنجیدہ لیکر کرپشن کے خلاف کاروائی کی
ایک برطرف جوڈیشل مجسٹریٹ تو پورا نیٹ ورک بناکر چلتا تھا    اس کے چار اپنے  تفتیشی افسر ہواکرتے تھے  جہاں اس کا ٹرانسفر ہوتا تھا  اس کے ساتھ ساتھ چلتے تھے   تفتیشی  افسران کا ٹرانسفر بھی  اپنی  حدود میں واقع  تھانوں میں کروالیتا  تھا اس نے اپنے تفتیشی افسران کے ساتھ مل کر "انت" مچائی ہوئی تھی وہ   "اے کلاس " کے پرانے کیسز تلاش کرتے تھے  اور جن پرانے کیسز  کو "اندھا" کیس کہہ کر بند کردیا جاتا تھا یا جن میں نامعلوم افراد  نامزد ہوتے تھے اور سراغ نہیں ملتا تھا اور اے کلاس ہوجاتے تھے ان میں  جج اور پولیس والے ملکر شکار پھنساتے   شکار گرفتار ہوتا  جج صاحب ریمانڈ دیتے اور اس کے بعد لین دین کرکے چھوڑ دیا جاتا تمام وکلاء جانتے ہیں کہ "اے کلاس" کیسز کا اسکوپ کتنا لامحدود ہے  یہ نیٹ ورک جمعے کو میٹنگ کرتا تھا جمعہ کی شام کو   شریف معزز شہریوں کو گرفتار کیا جاتا  اور گرفتاری ہفتے کے دن ڈال دی جاتی تھی  جس کے بعد  مجسٹریٹ صاحب کی ڈیوٹی ہفتے اتوار کے دن بطور ڈیوٹی مجسٹریٹ لگوائی جاتی تھی   یاد رہے کہ اتوار کو صرف ایک ہی  جوڈیشل  مجسٹریٹ  بیٹھتا  ہے جو پورے ضلع کے ریمانڈ لیتا  ہے اور وہ ملزمان اتوار کے دن  دوپہر دوبجے چپکے سے "ریمانڈ" کیلئے  پیش  کیئے جاتے تھے سارے معاملات  جج کے چیمبر میں طے ہوجاتے تھے    اور بھاری رشوت وصول کی جاتی تھی کیونکہ  اکثر اے کلاس کیسز سنگین نوعیت کے ہوتے تھے دہشتگردی اور قتل کے مقدمات ہوتے تھے  اس طرح جج پولیس کورٹ اسٹاف نیٹ ورک میں شامل  دیگر اسٹیک  ہولڈرز نے کروڑوں روپے کمائے
جب میں نے اس نیٹ ورک کا  اپنے اردو بلاگ  میں  انکشاف کیا تھا  تو اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے اس کو توہین عدالت نہیں سمجھا خاموشی سے تحقیقات کروائی  اور اس  ناسور کو فارغ کیا  ملازمت سے برطرف کیا
اسی طرح اس وقت چونکہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس سٹی کورٹ کا پوسٹ آفس جاری کرتا تھا  اور اکثر ججز نے ان کے ساتھ بھی معاملات "سیٹ" کیئے ہوئے تھے جب ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ  عدالت میں بطور ضمانت جمع ہوتے تھے  تو وہ ناظر برانچ میں بھیجے نہیں جاتے تھے  جج اپنے اسٹاف کے ساتھ مل کر  چندروز بعد ہی وہ سرٹیفیکیٹس  ڈاک خانے والوں سے مل کر کیش کروالیتے تھے  جس کے بعد ملزم سے بھی رشوت لیکر چھوڑ دیا جاتا تھا اس طرح ڈبل کمائی ہوتی تھی   اس معاملے کے انکشاف کے بعد ہی ڈاک خانے والوں کو ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ کے اجراء سے روکا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ مقامی بینک کے زریعے  جاری کیئے جاتے ہیں اور اگر کیش کروانا ہوتو  بینک کی سٹی کورٹ برانچ یہ سرٹیفیکیٹس کیش  نہیں کرتی بلکہ بولٹن مارکیٹ سے کیش ہوتے ہیں  یہ بھی میری ہی تجویز تھی
سندھ ہایئکورٹ نے اس واقعہ میں ملوث ایک اہم جج کو نہ صرف فارغ کیا بلکہ  تادیبی کاروائی بھی کی  بعد ازاں اس جج کے چیمبر سے چارسو سے زائد ایسی فائل ملیں تھیں جن میں پولیس نے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تھا   اور ملزمان کو ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس کی بنیاد پر ضمانت پر چھوڑا گیا  اس کے بعد نہ ملزمان کا کوئی اتا پتا نہ ہی  ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس کا کوئی اتا پتا  لیکن جج کے ساتھ ساتھ نیٹ ورک میں شامل کورٹ اسٹاف کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونا افسوسناک ہے
جب جسٹس سجادعلی شاہ صاحب چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ ہواکرتے تھے تو وکلاء ہرروز ہی منتظر ہوتے تھے  کہ آج کس کا نمبر لگنے والا ہے  اور سندھ ہایئکورٹ سے ہرہفتے ہی خبر آتی تھی کہ ایک اور وکٹ اڑادی گئی ہے  اور مجھے فخر ہے اور یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد لوگ میرے اردو بلاگ کی بنیادپر فارغ کیئے گئے وہ سارا ریکارڈ آج بھی میرے اردو بلاگ پر موجود ہے  اور جن لوگوں کی میں نے نشاندہی کی تھی وہ ججز کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث تھے  ایک خاتون جج صاحبہ نے  اسی کروڑ روپے سے زیادہ رقم بیرون ملک منتقل کی تھی  اور فراغت کے بعد انہوں نے بیرون ملک جاکر اپنا کاروبار ہی سنبھالا ہے
ایک اور بہت بڑا نیٹ ورک تھا جعلی ضمانت جمع کروانے کا  اس وقت ڈسٹرکٹ کورٹس میں  ایسے دلال گھومتے تھے جو جعلی کاغزات بطور ضمانت عدالت میں جمع کرواتے تھے  اس نیٹ ورک میں وکیل کورٹ اسٹاف اور چند ججز شامل تھے 
سادہ بات تھی پراپرٹی کے جعلی کاغذات عدالت میں پیش ہوتے تھے  نیٹ ورک میں شامل لوگ متعلقہ اداروں کی  جعلی  مہروں سے تصدیق کرتے تھے  اور ملزم رہا کرکے وہ جعلی کاغزات ناظر برانچ میں جمع ہوجاتے تھے  اس کے بعد نہ ہی ملزم کا کوئی اتا پتا نہ ہی ضامن کا کوئی اتا پتا  کاغذی طورپر ضمانت بحق سرکار ضبط کرلی جاتی تھی  سب سے زیادہ مال اسی طریقے سے بنایا گیا تھا    یہ نیٹ ورک بھی جسٹس سجاد علی شاہ نے مکمل طورپر ختم کیا  اور آج ضمانت جمع کرواتے وقت دوبار کمپیوٹرائزڈ تصدیق ایک سیشن جج کی زیرنگرانی ہوتی ہے لیکن ان دنوں  جعلسازی کا ایک نیا راستہ تلاش کرلیا گیا ہے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا
اسی طرح ایک اور نیٹ ورک تھا جو  سیٹنگ کرکے ملزمان سے جھوٹی درخواستیں لگوا کر  ان کی ضمانت  کی رقم پانچ ہزار روپے کرتے تھے اور لاکھوں روپے نقد بطور رشوت جیب میں چلی جاتی تھی   وہ "ڈاکٹر  "نیٹ ورک تھا  یہ فامولا ایک سابق سیشن جج نے ایجاد کیا تھا   جو جسٹس بھی رہا تھا  لیکن کنفرم  نہیں  ہوا  تھا شکل سے نہایت ایماندار لگتا تھا  بدقسمتی سے یہ صاحب نہ صرف بچ گئے بلکہ ریٹائرڈ ہوکر دوبارہ کنٹریکٹ بھی حاصل کرلیا
چند ججز  جو اس دوران برطرف ہوئے تھے ان کا دعوٰی ہے کہ ان کے خلاف زیادتی ہوئی  تھی  وہ  ایک تحریک بھی چلارہے  ہیں  میں آگے چل کر ان کا  مؤقف بھی بیان کروں گا 
جسٹس سجادعلی شاہ  نے  برصغیر  پاک  وہند کی تاریخ میں سب سے زیادہ ججز برطرف کیئے لاہور ہایئکورٹ کے  جسٹس منصور نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا 
ساتھ رہیئے گا یہ پہلی قسط ہے
چغل خوروں کا شکریہ


3 comments:

Anonymous said...

کمال ھے سر کمال اللہ پاک کا شکر آپ جیسے لوگ اس ملک میں ھیں

Anonymous said...

سر اس سیریز باقی اقساط نہیں مل رھیں رھنمائی فرمائیں پلیز

Anonymous said...

03343093302