Powered By Blogger

Saturday 17 February 2018

زاشیہ رحمان کی داڑھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان




زاشیہ رحمان کی داڑھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان

جج صاحب کا نورانی چہرہ اور گھنی داڑھی دیکھ کر دل ہی خوش ہوگیا ماتھے پر بنا ہوا محراب   گواہی دے رہا تھا کہ جج صاحب  پنج وقتی نماز کے علاوہ تہجد گزار بھی ہیں
فیضان اکیڈیمی کراچی کا ایک مشہور ومعروف تعلیمی ادارہ ہے یہ ادارہ غریب آبادیوں میں   جدید سہولیات سے آراستہ اسکول تعمیر کرکے نہایت ہی کم فیس میں   غریب بچوں  کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے  یہ اسکول ایک ٹرسٹ کے زیراہتمام چلتا ہے   میرٹ  کا یہ عالم  ہے کہ یہاں داخلہ  آسانی  سے نہیں  ملتا اسی سلسلے میں انہوں نے سرجانی کی ایک غریب بستی میں اسکول کی تعمیر کیلئے ایک پلاٹ خریدا اور وہاں اسکول کی تعمیر شروع کردی  پلاٹ لیز تھا اور اس کی قیمت تقریباً سترلاکھ کے لگ بھگ تھی جس کا بیشتر حصہ ادا کردیا گیا اور باقی ماندہ رقم  جائیداد کی منتقلی کی کاروائی کے  بعد ادا کرنی تھی اسی دوران پلاٹ پر دن رات کام جاری تھا اور اسکول کی تعمیر زوروشور سے جاری تھی
اسی دوران انتظامیہ پر  عدالت کا نوٹس بم بن کر گرا
میرے ایک دوست نے کیس کی تفصیلات مانگیں تو میں نے  فائل  چیک کرکے ان کو بتایا کہ  یہ ایک بلیک میلر قبضہ مافیا نے کیس داخل کیا ہے اور ان کے پاس کسی بھی قسم کی کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں ہے  یہی وجہ ہے کہ قبضہ گروپ  نے جب  سینئر سول جج صاحبہ زاشیہ رحمان  کی عدالت سے تعمیرات روکنے  کیلئے " اسٹے آرڈر"لینے کی کوشش کی تو انہوں نے کھڑے کھڑے اس کیس کو خارج کردیا اور قبضہ مافیا سے کہا کہ  سوروپے کے اسٹامپ پیپر پر زمینوں پر قبضے کا دور چلاگیا  اگر کوئی قانونی دستاویز ہے تو لیکر آجاؤ  قبضہ مافیا نے بہت زور دیا کہ ماضی میں اسٹامپ پیپرز پر اسٹے ملتے رہے ہیں   یا بکتے  رہے ہیں  اس لیئے ہمیں بھی اسٹے دیا جائے لیکن سینئر سول جج  زاشیہ رحمان صاحبہ نے  کھڑے کھڑے ہی یہ کیس نمٹا دیا
یہاں میں یہ عرض کردوں کہ زاشیہ رحمان کی داڑھی نہیں ہے  یہ ایک خاتون جج صاحبہ ہیں  نہ ہی ان کے ماتھے پر محراب بناہوا ہے  اس نے اپنے چیمبر میں جاء نماز بھی نہیں رکھی ہوئی(ہوسکتا ہے کہیں چھپا کر رکھی ہوئی) اور ہم نے اس کو کبھی نماز پڑھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا  ویسے بھی عموماً ہم اس عدالت میں صبح دس یا گیارہ بجے کے درمیان پیش ہوتے ہیں   اس دوران نماز کا ٹائم تو ویسے بھی نہیں ہوتا  لیکن  فی زمانہ جو ریاکاری  اور نمائیش  کا  دور چل رہا ہے تو  ان کو ہم نے کبھی اشراق اور چاشت کے نوافل ادا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا  اور نہ ہی جج صاحبہ چیمبر میں بیٹھ کر اللہ ہو اللہ ہو کی آوازیں نکالتی ہے
خیر قبضہ مافیا  کے معززین  زاشیہ رحمان کی عدالت سے جوتے اور چھتر کھاکر   اپنا اسٹامپ  پیپر لیکر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن جج کراچی سینٹرل جناب  ایاز مصطفٰی جوکھیو کی عدالت میں گرتے پڑتے  جادھمکے اور وہاں اپیل داخل کردی
میں جب پہلی بار عدالت میں گیا تو وہاں جاکر جو ایمان افروز نظارے دیکھے  خدا کی قسم ایمان تازہ ہوگیا  جج صاحب چیمبر میں ہی تھے اور چاشت اشراق کی نماز پڑھ کر اللہ ہو اللہ ہو کے ذکر میں مصروف تھے   جس کی ہلکی ہلکی آواز چیمبر سے باہر بھی آرہی تھی اسی دوران  جب جج صاحب چیمبر سے نکل کر عدالت  سے  میں آئے تو ان کے چہرہ مبارک کو دیکھ ایمان تازہ ہوگیا یوں محسوس ہورہا تھا کہ انوارو تجلیات کی کمرہ عدالت میں بارش شروع ہوچکی ہے  نورانی   چہرے  پر بنا ہوا محراب جج صاحب کے تہجد گزار ہونے کی دلیل دے رہا تھا
اسی دوران کمرہ عدالت ہی میں مجھے یہ اطلاع ملی کی        قبضہ مافیا نے  عدالت میں داخل اپیل کی آڑلیکر پلاٹ پر قبضہ بھی  کرلیا ہے
میں نے وکالت نامہ داخل کرتے ہوئے جب فائل دیکھی تو پتہ چلا کہ  ایک شخص منہ اٹھاکر عدالت آیا ہے اور پلاٹ کی ملکیت کا دعوٰی کررہا ہے میں نے یہ دیکھ کر بیٹھے  بیٹھے ہی لیز کے کاغزات منسلک کرکے ایک سادہ پیپر پر ہی جواب تحریر کیا اور مختصر لکھا کہ زاشیہ رحمان سینئر سول( جس خاتون   جج  کا ذکر کیا جارہا ہے اس کی داڑھی بھی نہیں ہے اور وہ صبح عدالت میں آکر چاشت اشراق کے نوافل بھی نہیں پڑھتی اور اس نے اپنے چیمبر میں  سرعام نمائیش  کیلئے جاء نماز بھی نہیں رکھی ہوئی  نہ ہی چیمبر میں اسلامی کتابیں رکھتی ہے )
اس کا فیصلہ درست تھا قبضہ مافیا کے پاس پلاٹ کی ملکیت کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے اور سینئر سول جج نے قبضہ مافیا کا کیس رجسٹر کرنے سے ہی انکار کرکے بالکل درست فیصلہ کیا ہے  رجسٹرڈ لیز کاغذات  اور قانونی قبضے  کے مقابلے میں صرف سوروپے کے اسٹامپ پیپر  کی اوقات ہی کیا ہے گزارش ہے کہ یہ اپیل خارج کی جائے   
میں نے دولائینیں لکھ کر عدالت میں جمع کروادیں  عدالت نے تاریخ دے دی
خیر اگلے دن  تھانے والوں نے قبضہ مافیا سے جگہ خالی کرواکر پلاٹ  پر تالا لگادیا اسی دوران قبضہ مافیا نے پلاٹ پر قبضہ کے دوران جنریٹر وغیرہ اور دیگر قیمتی سامان چوری کیا جس کی ایف آئی آرتھانے نے رجسٹر کرنے سے انکار کردیا تو  عدالت میں 22 اے کی پٹیشن  داخل کی جو اسی نورانی چہرے والے جج کی عدالت میں سیشن جج نے ٹرانسفر کردی
پھر کیا ہوا میرے ساتھ رہیں یہ  بات بعد میں بتاؤں گا
جاری ہے
پہلی قسط  

No comments: