Powered By Blogger

Thursday 22 February 2018

آرمی کی اچھی اچھی باتیں ۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان



آرمی کی اچھی اچھی باتیں ۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
اتحاد تنظیم یقین محکم ہی کا نتیجہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان ،سرمے والی سرکار جناب ضیاءالحق    سے لیکر جناب مشرف تک ہر بار قوم نے  پاکستان آرمی کے اقتدار سنبھالنے  کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ  مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں  راحیل شریف بھی اقتدار سنبھالتے سنبھالتے رہ گئے  اگرچہ یار لوگوں نے زور بہت لگایا لیکن راحیل شریف ان کے چکر میں نہیں آیا
پاکستان آرمی کی سول اداروں پر  مکمل  بالادستی کی ایک اہم وجہ پاکستان آرمی کا مشہور زمانہ سلوگن اور اس پر عمل بھی ہے  یعنی اتحاد تنظیم اور یقین محکم
جہاں آرمی  اور مسلح افواج کا  ڈسپلن مثالی ہے وہیں  وہیں اسی تربیت کا تیجہ یہ نکلا کہ  جب آرمی  افسران کی کھیپ فارغ ہوکر عملی میدان میں اتری تو انہوں نے کارپوریٹ سیکٹر میں بھی خوب  نام پیدا کیا
ڈیفنس  ہاؤسنگ اتھارٹی کی صورت میں مثالی رہائیشی اسکیم ، فوجی فرٹیلائزر بن قاسم ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی ،عسکری بینک  سمیت بے شمار سیکٹرز میں آرمی کے ریٹائرڈ افسران نے  بے شمار   مضبوط کارپوریٹ  ادارے بنا کر  یہ ثابت کیا  کہ
ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے
دوسری طرف ہمارے سول اداروں نے ہرسطح پر نااہلی کا ثبوت دیا ہے  کیا آپ لوگوں نے  کبھی سنا کہ  فلاں ریٹائرڈ میجر واپس آرمی میں کنٹریکٹ پر  آگیا  فلاں برگیڈیئر کو دوبارہ آرمی میں تین سال کا کنٹریکٹ دے دیا گیا  یا کسی ریٹائرڈ جرنیل کو دوبارہ آرمی میں نوکری دی گئی ہو
پاکستان کے عدالتی نظام میں  "ریٹائرڈ سیشن جج اور جسٹس مافیا " پورے نظام کو ہمیشہ تباہ کرتے رہے ہیں نہ ان ریٹائرڈ   بوڑھوں میں نہ تو  کوئی شرم ہے  اور ان کو حیا پچاس میل دور سے چھو کر   بھی نہیں گزری  ریٹائرڈ ججز بھی عدالتی نظام کیلئے ایک مافیا کا درجہ رکھتے ہیں  اور یہ مافیا ہی ہیں اور یہ سب کے سب اہل "زبان" ہیں
حضور امیرالمجاہدین جناب  حضرت علامہ خادم حسین رضوی دامت برکاتہم العالیہ کے  خیالات سے میں  جزوی  اتفاق کرتا ہوں صرف اور صرف   "ریٹائرڈ  کنٹریکٹ ججز "کے متعلق میرے وہی  خیالات ہیں جو حضورامیرالمجاہدین  نے  عدلیہ کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں  
ریٹائرمنٹ کے بعد جو  جج کنٹریکٹ پر نوکری کررہے ہیں  وہ اپنے ہی ایک  نوجوان سیشن جج کا حق مارکر   کھارہے ہیں    یہی وہ مافیا ہیں جو نوجوان ججز کو ان کے حق سے محروم کررہے ہیں  پاکستان کا آئین اور قانون ان یتیم اور شرم و حیا سے محروم ریٹائرڈ بوڑھوں کو کنٹریکٹ کی اجازت نہیں دیتا لیکن    آج بھی بہت بڑی تعداد میں  ہمیں عدالتوں میں  ریٹائرڈ مافیا کے لوگ نوکری سے جونک کی طرح چمٹے دکھائی دیتے ہیں  ان معذور بوڑھوں میں آگے بڑھنے کی خواہش مرچکی ہے  نہ ان کو شوکاز کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی پروموشن ٹرانسفر  کا خواہش  شام کو جاکر بہوؤں کی جھڑکیاں سننا اور رات  کو تو ویسے بھی  اس عمر میں نیند نہیں آتی یہی   غلطی سول اداروں کی تباہی کا باعث ہے
ہم کیوں نہیں آرمی سے ان کی اچھی باتیں  سیکھتے
عدلیہ نے جس طرح  ریٹائرڈ  جسٹس ناصر اسلم زاہد کو کام تلاش کرکے دیا ہے چند ایک کو (کے سی ڈی آر میں کھپایا ہے ) اسی طرح  عدلیہ بھی ٹرانسپورٹ کمپنی کھولے  اس سے ٹرانسپورٹرز کے مسائل  بھی سمجھنے میں آسانی ہوگی   عدلیہ ریٹائرڈ ججز کو بینک کھولنے کی ترغیب دے ہاؤسنگ اسکیمیں متعارف  کروا کر بحریہ ٹاؤن اور  ڈیفنس کا مقابلہ کرے  کھاد کے کارخانے خالص دودھ   ٹیٹرا پیک کے کارخانے کھول کر  ان یتیم ریٹائرڈ ججز اور   ریٹائرڈ جسٹس صاحبان جو شکل وصورت سے ہی بے روزگار لگتے ہیں ان کو باعزت روزگار دیا جاسکتا ہے  لیکن  ریٹارئرڈ  مافیا کے لوگوں نے پوری زندگی میں  مفت بیٹھ کر اور صرف قلم سے  چند الفاظ لکھ کر  پوری زندگی حرام کمایا ہو کیا ان کو محنت کی کمائی راس آئے گی؟
اس ساری بحث کا مقصد یہ تھا کہ آرمی نے  جس طرح اپنے ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا  اور ریٹائرمنٹ  کے بعد فوجی افسران کو آرمی  میں دوبارہ کنٹریکٹ  کبھی نہیں دیا   جاتا  بلکہ  آرمی  کے کارپوریٹ  اداروں  میں جاکر کام کرتے ہیں   اور تنخواہ  کیلئے حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں بنتے 
اسی طرح  عدلیہ کو  اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے اصولوں  کو مدنظر رکھ کر  کبھی  بھی نوجوان ججز کے حق پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیئے اور رعشے کے مارے ہوئے معذور  ریٹائرڈ ججز کا عدالتی نظام سے مکمل طورپر خاتمہ کرنا چاہیئے    
کم ازکم کراچی بارایسوسی ایشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سٹی کورٹ  کمپاؤنڈ میں چاروں سیشن ججز  ریگولر ہیں اورکراچی بار کے وکلاء نے ریٹائرڈ ججز کا منحوس سایہ کبھی بھی ڈسٹرکٹ کورٹس میں برداشت نہیں کیا  یہ سارے خبیث سائڈ پوسٹیں لیکر کرپشن کرنے میں مصروف ہیں  
پاکستان آرمی زندہ باد ریٹائرڈ کنٹریکٹ  جج مردہ باد


No comments: