فیصل صدیقی صاحب کا شمار پاکستان کے نامور ترین وکلاء میں
ہوتا ہے کل کراچی میں خواتین
معذور افراد اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور قانونی امداد کے حوالے سے ہونے والے ایک
سیمینار کے دوران وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے
سے جاری کیئے جانے والے تاریخی فیصلے پر
تقریر کررہے تھے ۔سیمینار کے شرکاء توجہ سے ان کی گفتگو سن رہے تھے ہال میں مکمل
خاموشی چھائی ہوئی تھی اسی دوران محسوس ہوا کہ کوئی شخص فون پر گفتگو کررہا ہے
۔فیصل صدیقی صاحب نے گفتگو روک کر اس شخص کو مخاطب کیا اور فون بند کرنے کو کہا
وہ شخص بجائے شرمندہ ہونے کے ڈھٹائی اور حیرت سے ان کو گھورنے لگا جس کے بعد فیصل صاحب نے سختی
سے ان کو فون بند کرنے کا کہا
اس کے بعد وہ کچھ ہوا جس کی ہم توقع نہیں کررہے تھے اس شخص
نے ہاتھ میں پکڑا قلم زمین پر دے مارا اور
میزبان کو غصے سے یہ کہہ کر بائیکاٹ کرکے چلاگیا کہ میں ایک ایم این اے ہوں کوئی عام شہری نہیں
میں اس واقعہ پر
کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا لیکن ایک ایم این اے کو اخلاق کے اصولوں کی پابندی کرنی
چاہیئے
سیمینار کے دوران ایک 100 افراد کی موجودگی میں خاموشی کو
توڑتے ہوئے اس طرح ڈھٹائی سے فون پر بات چیت کرکے ماحول خراب کرنا اخلاقی اصولوں
کے بھی منافی ہے
No comments:
Post a Comment