Powered By Blogger

Sunday 29 June 2014

ہر دلعزیز جج کون ہوتاہے؟

ہر دلعزیز کون ہوتاہے؟
ایمانداری کا ہر دلعزیزی سے کیا تعلق ہوتا ہے؟
ججز اور وکلاء کے درمیان ایک روزانہ کا تعلق ہے اور ہم روزانہ ہی کی بنیاد پر کسی بھی جج کو ہردلعزیز دیکھتے ہیں یابرے تعلقات کے ساتھ دیکھتے ہیں۔تنازعات دیکھتے اور سنتے ہیں بعض اوقات تنازعات بہت زیادہ بڑھ  بھی جاتے ہیں
جو جج قابل ہو بااخلاق ہو اور ریلیف مائینڈ ہو وہ اکثر ہردلعزیز ہوتے ہیں۔اگر ایک جج کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا ہے تو وکیل کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی جلد سماعت ہوجائے اور فیصلہ بروقت ہوجائے تاکہ وہ بروقت اپنے کلائینٹ سے فیس وصول کرسکے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب  جج اس کے کیس کی سماعت جلد کرے اور فیصلہ بھی موقع پر سنادے
وکلاء اور ججز کے درمیان اکثر تنازعہ اسی بات پر ہوتا ہے۔اگر ایک جج منیجمنٹ کی صلاحہت رکھتا ہے تو ان تنازعات سے جان چھڑا سکتا ہے۔
ہمارے پاس جب کسی کیس کی ایف آئی آر آتی ہے تو پہلی نظر ڈال کر ہی ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں ملزم کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے ضمانت بنتی بھی ہے یا نہیں وکیل ضمانت کی درخواست بناتا ہے اور کورٹ میں پیش کردیتا ہے ایک اچھے قابل جج کے سامنے یہ بات ہوتی ہے کہ ایک شہری جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے اگر قواعد وضوابط اجازت دیتے ہیں تو اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرکے فوری طور پر رہا کرنا چاہیئے  تاکہ  جب ٹرائل شروع ہوجائے تو وہ پیش ہوجائے اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ ہوجائے
لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے؟ اس کی وجہ جج کی نااہلی ہوتی ہے وہ مقدمات کا فیصلہ بروقت نہیں کرپاتے یا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے تنازعات کا آغاز ہوتا ہے جب کہ بہت سے ججز نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں وہ اپنے لیئے نیا کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں  جب وہ اپنے لیئے نیاکام تلاش کرتے ہیں تو وکلاء ان کو نیا کام تلاش کرکے دیتے ہیں  اور جب نیاکام مل  جاتا ہے تو پھرایک تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے
پھر ایک جج آجاتا ہے جو "ایماندار" ہوتا ہے  بنیادی طور پر نااہل اور نالائق جج "ایمانداری" کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں  وہ ایماندار ہر گز نہیں ہوتے وہ  نالائق ہوتے ہیں ان کو کام نہیں آتا ان کے اندر لیڈر شپ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ معاملات کو کنٹرول نہیں کرپاتے پھر وہ اپنی ایماندار ی کو ڈھنڈورا بھی ہر جگہ پٹوانے کی کوشش کرتے ہیں   عدالت میں  شور شرابہ مچاتے ہیں اکثر ایسے ہی ججز کو نئے کام کی تلاش ہوتی ہے  اور بالآخر نئے کام کی تلاش میں سندھ ہایئکورٹ جون کے مہینے میں ایسے دوستوں کو جیکب آباد بھیج دیتی ہے تاکہ وہ گرمی کے موسم کامزہ لے سکیں
اگر آپ اپنے ضلع میں ایماندار جج کی تلاش کریں تو وہ باآسانی مل جائے گا صبح ٹائم پر آئے گا پھر روٹھی ہوئی بیوہ عورت کی طرح عدالت میں جاکر بیٹھ جائے گا پورا دن  ایک آرڈر نہ کرنا بس منہ بسور کر بیٹھا رہنا  اور بات بات پر بتانا کہ میں ایسا ویسا جج نہیں ہوں  ہم نے زندگی میں کبھی رشوت نہیں لی  لیکن بدقسمتی سے ان کے اندر ایک معمولی نوعیت کا آرڈر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی
جبکہ جس جج کو بے ایمان کہا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر ذہین ہوتا ہے وہ قابل ہوتا ہے   وہ  بروقت آرڈر کرتا ہے  اور ایسے بہترین آرڈر کرتے ہیں کہ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کراچی شہر میں رہ کر روزانہ دوچار لاکھ روپے کمانا ان کیلئے معمولی بات ہے وہ بھی مجسٹریٹ سطح پر  
لوگوں کا شکوہ بھی اس لیئے کم ہوتا ہے کہ کم ازکم کام تو کررہا ہے  میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس ایماندار جج سے  وہ رشوت خور جج ہزار درجے بہتر ہے جو کم از کم کام تو کرتا ہے
ایماندار  کبھی بروقت آرڈر نہیں کرتا بلکہ وہ آرڈر کرتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ کچھ بھی نہیں کرتا  کیونکہ وہ ایماندار جو ہے جس کے پاس ایمانداری کی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری ہو وہ بنیادی طور پر ناسور ہوتا ہے اور ان کی آخری منزل جیکب آباد ہوتی ہے
No work no complain
کے فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ کبھی ہردلعزیز نہیں ہوسکتے


لیکن اللہ تعالٰی چند ایسے لوگ بھی پیدا فرماتا ہے جو ذہین بھی  ہوتے ہیں قابل بھی ہوتے ہیں اور ایماندار بھی وہ بروقت فیصلے کرتے ہیں   وہ فیصلہ حق میں بھی ہوسکتا ہے اور درخواست مسترد بھی ہوسکتی ہے  جس کے بعد اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔تنازعات کی سب سے بڑی وجہ بروقت فیصلہ نہ ہونا کیسز کی بروقت سماعت نہ ہونا ہے
اگر اس کے اندر انتظامی صلاحیت موجود ہے تو وہ اپنی کورٹ کا انتظام بھی اچھا چلاتا ہے
ایسے لوگوں کے پاس ایک ہی ٹارگٹ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے مسائل بروقت حل کرنا جب آپ قابلیت رکھتے ہیں میرٹ پر بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  اور رشوت نہیں لیتے کسی کی سفارش نہیں مانتے تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے شخص کا  کچھ نہیں بگاڑ سکتی
عدلیہ میں ایسے ہی لوگوں کی عزت ہوتی
کیونکہ جب اعلٰی عدالتوں میں ان فیصلہ جا ت کے خلاف اپیل دائر کی جاتی ہے تو  ایسے ججز کی قابلیت کا اندازہ اعلٰی عدلیہ کو بھی ہوجاتا ہے اور یہی لوگ ہمیشہ ہردلعزیز ہوتے ہیں

وکلاء کے درمیان بھی اور اعلٰی عدلیہ میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں

3 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

یہ بتایئے کہ وکیل کا منشی جج کے سامنے فائل آنے سے قبل یا جج کے سامنے پیش ہو کر کہتا ہے کہ وکیل صاحب کسی دوسری عدالت یا ہائیکورٹ میں مصروف ہیں اور اگلی تاریخ لے لیتا ہے اور وکیل صاحب آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اسے آپ کیا نام دیتے ہیں ؟
دوسری بات کہ وکیل صاحب چار پیشیوں پر اس طرح حاضر نہیں ہوتے اور پھر ایک بے مقصد سے کاغذات کے مطالبہ کی درخواست جمع کرا کے مزید نئی تاریخ لے لیتے ہیں کیا یہ بھی جج کی بد دیانتی یا نا اہلی ہوتی ہے ؟
آپ نے جج صاحبان کی بہت غلطیاں بار بار بیان کی ہیں مگر اپنی جماعت (وکلاء) کی نوازشات پر سے پردہ اُٹھانے پرہیز کرتے ہیں ۔ کیا اسی کا نام انصاف ہے ؟

Unknown said...

اہل جج کے سامنے ایسے ڈرامے وکیل زیادہ دیر نہیں چلا سکتے

افتخار اجمل بھوپال said...

ایک کیس ایک محکمہ نے اپنے ایک سابق ملازم پر کیا ۔ پہلے تو وکیل صاحب جو بیرسٹر اور بڑے سینئر ہیں نے کوشش کی کہ عدالت کا کوئی نوٹس مدعا علیہ تک نہ پہنچنے پائے ۔ اتفاق سے مدعاعلیہ کے سابق کولیگ کی اُس کے والد سے ملاقات ہوئی تو والد کو اس مقدمہ کا علم ہوا ۔ ایک وکیل سے بات کی گئی جس سے والد کی جان پہچان تھی کہ وہ دیانتدار اور سچے آدمی ہیں ۔ مدعاعلیہ چونکہ ملک سے باہر تھا اسلئے وکیل کے کہنے پر والد تاریخ والے دن صبح سویرے عدالت پہنچ گئے اور جج صاحب سے بات کی ۔ اس طرح مقدمہ چل پڑا ۔ کمال یہ ہوا کہ مدعی عام طور پر غیر حاضر رہتے جبک مدعاعلیہ اور اس کا وکیل ہر پیشی پر حاضر ہوتے ۔ جج نے تنگ آ کر جرمانہ بھی کیا مگر بے سود ۔ مدعی نے ایک نئی درخواست داخل کر دی اور اس کی نقل مدعا علیہ کو فراہم نہ کی ۔ اگلی تاریخ پر نقل دی اور اس سے اگلی تاریخ پر جواب داخل ہوا اور کاروائی کیلئے اس سے اگلی تاریخ جس دن مدعی پھر غائب ۔ دو بار یہی سلسلہ چلا پھر جج کا تبادلہ ہو گیا ۔ اگلے جج آئے تو پھر وہی چال ۔ جب جج نے تنگ آ کر یک طرفہ فیصلہ کی تاریخ مقرر کر دی تو مدعی اور اس کے وکیل صاحب حاضر ہوئے اور کہا کہ اصل وکیل صاحب ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور مجھے چند دن قبل یہ کیس دیا گیا ہے اور میں مطالعہ نہیں کر سکا ۔ اب ان صاحب نے طریقہ تھوڑا بدلا مگر مقصد تاخیر ہی تھا ۔ ایک تاریخ پر مدعا علیہ کے وکیل کسی طرح مدعی کے وکیل کو پکڑ لائے تو مدعی کے وکیل نے عدالت میں کہا جناب مجھے پتہ چلا تھا کہ کل ان کے قریبی عزیز وفات پاگئے تو اس خیال سے کہ یہ تشریف نہیں لائیں گے میں فائل لے کر نہیں آیا ۔ دو سال گذر گئے اور جج صاحب کی ترقی ہو گئی اور دوسرے شہر تبادلہ ۔ جس دن بیمار ہونے کی وجہ سے مدعاعلیہ حاضر نہ ہو سکا تو مدعی اور اس کے وکیل صاحب حاضر ہو گئے اور کچھ کاروائی ہو گئی ۔ اس کے بعد وکیل صاحب پھر بدل گئے ۔ اس طرح جولائی 2000ء میں دائر کیا مقدمہ جو دسمبر 2000ء میں شروع ہوا اس کا فیصلہ جنوری 2010ء میں ہوا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نہ کوئی ملک سے باہر گیا تھا اور نہ کوئی وکیل تبدیل ہوا تھا بلکہ تینوں وکیل ایک ہی دفتر بلکہ ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے
اسے سُنی سنائی کا لیبل نہ لگایئے گا ۔ مدعا علیہ کا باپ میں ہوں اور یہ مقدمہ صرف جھوٹ پر مبنی تھا اور آڈٹ اعتراض ہونے کی وجہ سے شروع کیا گیا تھا اور اسے صرف لٹکانا تھا ۔ اس سے نہ کچھ حاصل ہونا تھا نہ ہوا ۔ صرف میں نے اسلام آباد میں رہتے ہوئے راولپنڈی کچہری کے 95 چکر لگائے ۔ 6 بار میں بیمار ہونے یا کسی اور مشکل میں گرفتار ہونے کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہو سکا ۔ مدعی کے ریکارڈ میں مدعاعلیہ کی رہائش اسلام آباد درج تھی مگر مقدمہ اسلام آباد میں دائر نہیں کیا گیا تھا ۔
اگر وکیل ہیرا پھیری چھوڑ دیں تو کسی جج کی جراءت نہیں کہ درست کام نہ کرے
اگر کوئی جج رشوت لیتا ہے تو یہ انتظام وکیل ہی کرتا ہے بلکہ کوشش کر کے مقدمہ ایسے جج کی عدالت میں لگواتا ہے
لوگ رشوت لینے والے کو کوستے ہیں لیکن اللہ کا فرمان قرآن شریف میں نہیں دیکھتے کہ رشوت دینے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ رشوت دینے والا بڑا مجرم اور بڑا گناہگار ہے