Powered By Blogger

Sunday 8 June 2014

نہ جانے کب ہم بھی سسٹم کا حصہ بن گئے

رخصت ہونے لگا تو میں نے اپنے دوست سے کہا جو کہ نیا نیا جج بنا تھا یار کام ایمانداری سے کرنا
دوست نے کہا انشاء اللہ جس طرح پریکٹس ایمانداری سے کی ہے ججی بھی ایمانداری سے کروں گا۔۔ میں جاتے جاتے رک گیا

واپس آیا  اور کہا یاد ہے وہ کالج کا آخری دن اور عدالت کا پہلا دن کیا سوچ کر آئے ہم 30 منٹ مزید بیٹھ گئے

کیا انقلابی تقاریر کرتے تھے کہ سسٹم کو بدلیں گے نئی روایات کو جنم دیں گے اکیسوٰیں صدی کے تقاضے ہونگے کوئی غلط کام نہیں کریں گے رشوت نہیں لیں گے
غلط کیس نہیں لیں گے ظلم کے خلاف لڑیں گے

کسی ظالم کا کیس نہیں لیں گے ڈاکو یہ معاشرے کے ناسور ان کا کیس نہیں لیں گے
فیصلے میرٹ پر کروائیں گے
کیا ہم نے صاف ستھری پریکٹس کی

ہاں کی تو ہے اور کیسے کی جاتی ہے ہر کوئی اسی طرح ہی پریکٹس کرتا ہے
اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ والی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑو یار اب ایسا بھی کیا
ہم اپنی کامیابیوں کو بھی تو دیکھیں
کہ کس طرح زیرو سے سفر کرتے ہوئے کہاں تک پہنچ گئے ہیں پورا گروپ ہی ماشاءاللہ سے کامیاب ہوگیا کتنے جج لگ گئے کتنے دوست اعلٰی عہدوں پر فائز ہوچکے ان کامیابیوں کو تو دیکھو  فلاں کو دیکھو  ایڈوائزر لگ گیا ہمارے شاندار آفسز دیکھو یہ سب کامیابیاں ہیں یہ آفس یہ گاڑی کونسا ساتھ لیکر آئے تھے یہاں سے ہی سب کچھ بنایا ہے

لیکن میرا ضمیر مطمیئن ہے کہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا اس لیئے رات کو سکون کی نیند کرتا ہوں یار تم یہ بھی تو کہتے تھے کو جو انسان ایمانداری کے زیادہ دعوے کرے وہی بے ایمان ہوتا ہے ہاں کہتا تو تھا
اور تم کونسے نیک ہو مجھے بھی سب پتہ ہے
لیکن ضمیر تو میرا بھی مطمیئن ہے
شاید ہم نے ترجیحات بدل دی ہیں اس لیئے ہم بالکل مطمیئن ہیں

شاید
لیکن جج بن کر ایسا نہیں کروں گا میں ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دوں گا
سسٹم کو بدل دونگا
میں نے جاتے جاتے مڑ کر کہا کہ جب ہم پانچ سال کے بعد ملیں گے تو ہمیں مزید کامیابیاں مل چکی ہونگی ہم اپنی ترجیحات کو بدل کر اپنی اپنی کامیابیوں کے نئی داستانیں سنا رہے ہوں گے اور کالج سے نئے نئے فارغ ہونے والے طلبہ سسٹم کی تبدیلی کا عزم لیکر آئیں گے  آج بھی کتنے ہی فائینل ائیر کے اسٹوڈنٹ  تبدیلی  کا خواب دیکھ رہے ہونگے عہد کررہے ہونگے  اور تبدیلی کی جدوجہد کرتے کرتے   نہ جانے کب سسٹم کا حصہ بن جائیں گے
دوست مسکرایا  کہا ہم نے اپنے حصے کاکام  "پوری " ایمانداری سے کرلیا باقی نئے آنے والے وکلاء کیلئے چھوڑدو

اور میں رخصت ہوگیا

1 comment:

افتخار اجمل بھوپال said...

جب وسط 1960 میں میں انجنیئرنگ کالج لاہور کا ہوسٹل چھوڑ رہا تھا تو میں نے اپنے کمرے کے سامنے والی دیوار پر لکھا تھا
یہ ہوسٹل یوں ہی رہے گا اور ہزاروں انجنیئر
اپنی اپنی ڈگریاں سب لے کر چلے جائیں گے
سو یہ وکالت و عدالت بھی کسی باعمل کے انتظار میں خستہ سے خستہ تر ہوتی چلی جائے گی

خوش رہو اے جوانوں ۔ ہم تو کوچ کرنے کو ہیں