مزدور کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا تو مزدور کی نوماہ کی
حاملہ بیوی پولیس کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی اور بے ہوش ہوکر گرگئی جس کے بعد اس کو
ہسپتال لے گئے جہاں اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا البتہ مزدور کی بیوی کی جان کو بچالیا گیا
اسی دوران کراچی کے تھانہ سرجانی کی پولیس نے مزدور کوگرفتار
کرلیا
فیکٹری کا مالک جو اصل ملزم تھا اس نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی
کاپی رائٹ کے تحت ایک فیکٹری مالک نے دوسرے فیکٹری مالک کے
خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی جس کے بعد پولیس نے بلال نامی مزدور کے گھر پر
چھاپہ مارا تھا
سرجانی تھانہ پولیس نے ملزم کا ریمانڈ علاقہ مجسٹریٹ کے
سامنے پیش کیا اب ایک نئے مسئلے نے جنم لیا
مجسٹریٹ ایماندار تھا
اور ہمارے بلاگ کے قارئین کو یقینناً یہ بات اب حفظ ہوچکی
ہوگی کہ ایماندار جج یا مجسٹریٹ کس کو کہا
جاتا ہے ایماندار سے مراد وہ ناسور ہے جس
کو عدالتی کام نہیں آتا یا وہ کسی کا بھی کوئی کام نہ کرتا ہو تو ایسے ناسور اپنی
نااہلی چھپانے کیلئے اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کیلئے ایمانداری کا لبادہ اوڑھ کر
عدالت میں نت نئے تماشے لگاتے ہیں
خیرپولیس نے ریمانڈ پیش کیا مجسٹریٹ نے ملزم کے ریمانڈ پیپر
پڑھے بغیر اور سوچے سمجھے بغیر ملزم کو جیل روانہ کردیا کیونکہ اس کیلئے کامن سینس کی بھی ضرورت ہوتی ہے جوکہ
تھی ہی نہیں ایماندار ناسور کے علم میں وکیل صفائی یہ بات لیکر آئے کہ کاپی رائٹ
آرڈیننس 2001 کے بعد اس قسم کے مقدمات میں اب
ایک شکایت رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ ہوگی اس لیئے مزدور کو رہا کیا جائے ویسے
بھی یہ فیکٹری کا عام مزدور ہے اصل ملزم تو فیکٹری کا مالک ہے نئے قوانین کے مطابق کیس بنتا
ہی نہیں ہے لیکن وہ ناسور ایماندار ہی کیا جو بقراط نہ ہو اور اس ناسور کی ایمانداری سے کسی انسان کو
فائدہ پہنچ جائے اور وہ ناسور ایماندار ہی
کیا جو جو کسی انسان کا کام وقت پر
کردےایماندار ناسور نہیں مانا
دوسرا انسانی مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ اس مزدور کی بیوی نے
ایک مردہ بچے کو جنم دیا اس کا جنازہ اور کفن دفن کیسے ہو کیونکہ نومولود کے والدکو تو ایک ایماندار
جج نے پولیس کے ساتھ ملی بھگت کرکے جیل
بھیج دیا تھا گھر میں بچے کے کفن دفن کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں اس لیئے بچے کی لاش ایدھی سرد خانے میں رکھوادی
ایماندار کے سامنے ضمانت کی درخواست جمع کروائی گئی تو اس نے کہا کہ وکیل صاحب اس کی باقاعدہ سماعت ہوگی دن مقرر
ہوگا عدالتوں میں انسانی مسئلے کوئ اہمیت نہیں رکھتے بچہ ہی مرا ہے نہ کوئی آسمان
تھوڑا ہی ٹوٹا ہے۔۔۔خیر سماعت ہوئی جج نے ضمانت کی درخواست منظور کرلی اب ہفتے کا
دن بینک بند۔۔۔ایماندار کے سامنے پھر ایک مدعا رکھا کہ بینک بند ہیں ڈیفنس
سیونگ سرٹیفیکیٹ پیش نہیں کیئے جاسکتے گاڑی کے اوریجنل کاغزات موجود ہیں وہ بطور
ضمانت جمع کرلیں وکیل صفائی نے کہا کہ میں اسٹیٹمنٹ دے دیتا ہوں کہ یہ کاغذات
اوریجنل ہیں اس لیئے ملزم کو رہا کردیا
جائے تاکہ وہ اپنے بیٹے کا کفن دفن کرسکے
ایماندار نے کہا کیونکہ عدالتوں میں جعلی کاغزات جمع ہوتے ہیں اس لیئے اس کی ویریفیکیشن لازمی ہوگی مجسٹریٹ کو بہت کہا کہ ملزم پر کوئی سنگین کیس نہیں ہے کیس کی نوعیت ایسی ہے نہیں کہ یہ ملزم فرار ہوجائے و یریفیکیشن کی ضرورت سنگین نوعیت کے کیسز میں اس لیئے محسوس ہوتی ہے کہیں ملزم بھاگ ہی نہ جائے
لیکن وہ ایماندار ہی کیا جو کسی کاکام کردے مختصر یہ کہ دودن انتظار کے بعد کاغزات تصدیق ہوکر آگئے تو ایماندار نے چھٹی مارلی اور دودن کے بعد عدالت میں آکر بدھ کے دن ملزم کی رہائی کے احکامات جاری کیئے اس طرح وہ ملزم دس دن جیل میں رہا اور اس کے نومولود بچے کی لاش ایدھی کے سرد خانے میں نودن تک اپنے باپ کی رہائی کا انتظار کرتی رہی شام کو باپ رہا ہوکر آیا تو سب سے پہلے اپنے بچے کی آخری رسوم ادا کیں
ایماندار نے کہا کیونکہ عدالتوں میں جعلی کاغزات جمع ہوتے ہیں اس لیئے اس کی ویریفیکیشن لازمی ہوگی مجسٹریٹ کو بہت کہا کہ ملزم پر کوئی سنگین کیس نہیں ہے کیس کی نوعیت ایسی ہے نہیں کہ یہ ملزم فرار ہوجائے و یریفیکیشن کی ضرورت سنگین نوعیت کے کیسز میں اس لیئے محسوس ہوتی ہے کہیں ملزم بھاگ ہی نہ جائے
لیکن وہ ایماندار ہی کیا جو کسی کاکام کردے مختصر یہ کہ دودن انتظار کے بعد کاغزات تصدیق ہوکر آگئے تو ایماندار نے چھٹی مارلی اور دودن کے بعد عدالت میں آکر بدھ کے دن ملزم کی رہائی کے احکامات جاری کیئے اس طرح وہ ملزم دس دن جیل میں رہا اور اس کے نومولود بچے کی لاش ایدھی کے سرد خانے میں نودن تک اپنے باپ کی رہائی کا انتظار کرتی رہی شام کو باپ رہا ہوکر آیا تو سب سے پہلے اپنے بچے کی آخری رسوم ادا کیں
بدقسمتی دیکھیں کہ اصل ملزم جیل گیا ہی نہیں اور پولیس نے
ایک غریب مزدور کو کاپی رائٹ کے ایسے کیس میں دھر لیا جس میں نئے قوانین کے مطابق
اب ایف آئی آر بنتی ہی نہیں ہے بلکہ متعلقہ رجسٹرار کے پاس کمپنی یا فیکٹری کے خلاف شکایت درج ہوتی ہے اس
کیس میں سزا تین سال ہے اور اس کی نوعیت دیوانی نوعیت کی ہے جس کیلئے ٹریڈمارک اور
کاپی رائٹ کے رجسٹرار موجود ہوتے ہیں
اگر کوئی پڑھا لکھا تربیت یافتہ مجسٹریٹ اس سیٹ پر موجود ہوتا اور اس کو نئے قوانین سے آگاہی ہوتی تو کبھی بھی
اس مزدور کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیلتا اور اگر جیل بھیجنا ضروری بھی ہوتا
تو اس کے نومولود بچے کی موت کے بعداگر وہ مجسٹریٹ کوئی انسان ہوتا تو فوری طورپر
اس کو کسی کی ذاتی ضمانت پر بھی چھوڑ دیتا۔لیکن وہ انسان نہیں تھا ایک انسان کیسے
اتنا ظالم ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی نوعیت کے جرم میں زیرحراست شخص کو صرف اپنی
جہالت کی وجہ سے رہا نہ کرے اس حالت میں کہ اس کے بچے کی لاش ایدھی کے سرد خانے
میں اپنے باپ کی رہائی کی منتظر ہو
ان تمام ایماندار ججز سے معذرت جو اپنی ڈیوٹی ایک مشن سمجھ
کرکرتے ہیں اور ہروقت انسانیت کی فلاح کیلئے کوشاں رہتے ہیں
عید یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا
کہ جوایماندار وقت پر کام نہیں کرتا اس سے وہ
رشوت لینے والا جج ہزار درجے بہتر ہے جو پیسے تو لیتا ہے لیکن کام تو فوری طور پر کردیتا ہے
نااہلی ایک ایسا جرم ہے جس کی سنگینی کا ہم کبھی بھی اندازہ نہیں لگا سکیں گے
رشوت لینے والا جج ہزار درجے بہتر ہے جو پیسے تو لیتا ہے لیکن کام تو فوری طور پر کردیتا ہے
نااہلی ایک ایسا جرم ہے جس کی سنگینی کا ہم کبھی بھی اندازہ نہیں لگا سکیں گے