Powered By Blogger

Saturday 2 August 2014

جوڈیشل مجسٹریٹ کانفرنس وقت کی اہم ضرورت

ہمارے وہ تمام دوست اور احباب جو جوڈیشل مجسٹریٹس کو "بے اختیار" سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جوڈیشل مجسٹریٹ ہرگز ہرگز  بے اختیار نہیں جیسا کہ تصور کرلیا گیا ہے اتنا ضرور ہے ہے کہ بحیثیت ایک برٹش کالونی   کے چند عدالتی اختیارات انتظامیہ کے پاس بھی موجود تھے جن کو انتظامیہ استعمال کرتی تھی اصولی طور پر انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اکٹھے نہیں ہوسکتے اس لیئے کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی کوئی عدالت نہیں ہوتی لیکن یہ صرف مہزب ممالک کیلئے ہے 


انتظامیہ کی عدلیہ سے علیحدگی ایک زمانے میں بہت بڑا نعرہ تھا  کیونکہ انتظامیہ کی جانب سے تفتیش میں بے جا اور ناجائز مداخلت ہوتی تھی اسی وجہ سے اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ جات  جن کا تعلق تفتیش میں مداخلت سے ہے وہ سول انتظامیہ کے افسران تھے عدالتی افسران کو مخاطب نہیں کیا گیا
جب بھی ہم نے تفتیش کے دوران عدالتی اختیارات کی بات کی تو ہمارے دوست احباب وہی عدالتی فیصلے لیکر آجاتے ہیں جن کے تحت انتظامیہ سے منسلک عدالتی اختیارات کے حامل مجسٹریٹ صاحبان کو اختیارات حاصل تھے  دوستو یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم عدالتی نظام کی برائیاں بیان کرنے کیلئے ہرگز نہیں بیٹھتے نہ ہی ہمارا وقت اتنا فالتو ہے کہ عدالتی نظام کی خامیاں گنواتے رہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ مشکلات جو روزمرہ پیش آتی ہیں ان کا ذکر ضرور کرتے ہیں یہاں ایک اور معاملہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ تو ایک انتظامی اختیارات کے استعمال کا عہدہ ہے کیونکہ مجسٹریٹ جو حکم جاری کرتا ہے ان کی حیثیت انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے  اور یہ بہت بڑی اور اہم بحث ہے جس پر سالہا سال سپریم کورٹ میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے 
میں نے کئی بار ذکر کیا کہ کراچی کے ایک سیشن جج نے جب کراچی میں آن لائن عدلیہ کا تجربہ کیا تو اس نے کسی عدالتی اصلاح کا انتظار نہیں کیا اور وہ کرگزرا اور ایک کامیاب تجربہ کے زریعے یہ ثابت کیا کہ اصلاح کا انتظار کرنے والوں کا مؤقف درست نہیں  ان کا یہ مؤقف غلط ہے کہ پارلیمنٹ نئی قانون سازی کرے بلکہ جو لوگ تبدیلی لانا چاہیں ان کیلئے ہر وقت ماحول سازگار ہوتا ہے
اگر ہم ضابطہ فوجداری کی زیردفعہ 159 کا ذکر کریں تو اس میں مجسٹریٹ کیلئے کیا اختیارات موجود ہیں 

ویسے مجسٹریٹ کو چاہیئے کہ ویسی رپورٹ موصول ہونے پر مجموعہ ہٰزا میں  مقرر کردہ طریقہ کے مطابق تفتیش کرنے کا حکم دے یا مقدمہ کی ابتدائی انکوائری کرنے یا اسے اور طرح طے کرنے کی غرض سے  خود جائے یا اپنے ماتحت کسی مجسٹریٹ کو مقرر کرے
یہ ایک حیرت انگیز سیکشن ہے جس کا ہماری عدلیہ نے آج تک استعمال نہیں کیا سنا ہے کہ جب عدالتی اختیارات انتظامیہ سے واپس لیکر عدلیہ کو منتقل کیئے جارہے تھے تو اس وقت انتظامیہ نے عدالتی افسران کو وہ گاڑیاں دینے کی پیشکش کی تھی جو اس وقت ان کے انتظامی افسر استعمال کررہے تھے جن کے تحت کسی واقعے یا حادثے کے بعد مجسٹریٹ خود بھی جائے حادثہ پر پہنچ جاتا تھا شاید انتظامیہ نے یہ سوچا ہوگا کہ عدالتی افسران کس طرح جائے وقوعہ پر پہنچیں گے لیکن اس وقت سینئر سول جج کے پاس بھی گاڑی کی سہولت نہیں تھی تو ہماری عدلیہ نے اس زمانے میں اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا  اور یہ کہا کہ اگر عدالتی افسر اس قسم کے کام کریں گے تو وہ بھی "خراب" ہوجائیں گے
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کی سطح پر ہایئکورٹ مجسٹریٹ کانفرنس منعقد کی جائے
کیونکہ جب تک مجسٹریٹ صاحبان کے اختیارات کا تعین نہیں ہوجاتا اس وقت تک بہت سے معاملات اٹکے ہی رہیں گے
مجسٹریٹ کانفرنس اس لیئے بھی ضروری ہے کہ یہی وہ  فورم ہے جہاں سے عدلیہ انتظامیہ کے اختیارات کو کنٹرول کرنے کا آغاز کرتی ہے
گزشتہ دنوں ایک اور افسوسناک واقعہ  پیش آیا جس کا ذکر کردوں کہ  کراچی کے ضلع وسطی کے ایک مجسٹریٹ نے ذاتی حیثیت میں تھانے میں پیش ہوکر ایک دو ٹکے کے پولیس افسر کے خلاف خود ایف آئی آر رجسٹر کروائی ہے
ایک پولیس والے کی اتنی اوقات کہ مجسٹریٹ اس کے خلاف ایف آئی آر میں خود مدعی بن رہا ہے شاید سیشن جج نے بھی نہیں سمجھایا ہوگا یہ اس لیئے ہوا کہ اس مجسٹریٹ کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مجسٹریٹ کا عہدہ کتنا بڑا ہے کتنا اہم ہے کتنا باعزت اور باوقار ہے
میرا ایک عزیز کسی زمانے میں مجسٹریٹ تھا اور اس کی شان وشوکت یہ تھی کہ دنیا کے قیمتی سے قیمتی نسل کےگھوڑے اس کے گھر میں موجود ہوتے تھے اور ضلع کے ایس ایس پی اس  سے ملنا  اپنے لیئے اعزاز سمجھتےتھے
اس کی شان و شوکت بادشاہ وقت جیسی تھی وہ تھا بھی اپنے وقت کا بادشاہ اور پاکستان کی بڑی شخصیات اس سے دوستی اپنے لیئے اعزاز سمجھتی  
 تھیں پاکستان کا ایک سابق صدر ان کا ذاتی دوست تھا اگر کوئی پولیس والا اس سے بدتمیزی کرتا تو شاید اس زمین پر اس پولیس والے کی قبر کا نشان بھی کسی کو نہ ملتا   اور زیادہ دور کی بات نہیں صرف چند سال پہلے کی بات ہے کراچی ہی کے ایک مجسٹریٹ کے ساتھ  جنرل پرویز مشرف کی اس وقت ذاتی دوستی تھی جب وہ مطلق العنان صدر تھا 
اگرچہ یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ ایک عدالتی افسر کی کسی حکمران سے دوستی ہو لیکن بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس عہدے کی اتنی تو اہمیت ہے کہ اپنے وقت کا حکمران ایک مجسٹریٹ کا دوست ہو 
کہاں وہ شان و شوکت کہ پورے ضلع کا پولیس افسر باہر بیٹھ کر مجسٹریٹ سے ملاقات کا منتظر اور کہاں یہ ذلت کہ ایک 
 مجسٹریٹ ایک دوٹکے کے پولیس والے کے خلاف اپنی زاتی مدعیت میں ایف آئی آر درج کروا کرہڑتالیں کرواتا پھر رہا ہے
اور کہاں بے خبری کا یہ عالم کہ ہمارے مجسٹریٹ یہ سوال کرتے ہیں کہ تفتیش کے دوران کامن سینس استعمال کرنا ضابطہ فوجداری کی کس سیکشن کے تحت آتا ہے 

ایسے ماحول میں ضروری ہوجاتا ہے کہ سندھ ہایئکورٹ فوری طور پر سالانہ بنیادوں پر مجسٹریٹ کانفرنس کا انعقاد کرے جس میں بطور انتظامی افسر عدالتی افسر کے کردار کو زیر بحث لایا جائے 

No comments: